سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 49

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی



اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ ربِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال نمبر1:

کیا وقوفِ قلبی کا بھی ثواب ملتا ہے؟

جواب:

وقوفِ قلبی“ نقشبندی سلسلے کی ایک اصطلاح ہے جس میں انسان اپنے قلب کی طرف متوجہ رہتا ہے اور اس کو اللہ کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یوں سمجھ لیجئے کہ انسان اپنے قلب کو دیکھتا ہے کہ وہ اللہ کی طرف متوجہ ہے یا نہیں۔ اِس کی ظاہری صورت یہ ہے کہ آپ کو دل ہی دل میں ”اَللہ اَللہ، ہوتا ہوا محسوس ہو رہا ہو۔ وقوفِ قلبی کے دو حصے ہیں۔ ایک اختیاری ہے جبکہ دوسرا وہ ہے جو خود بخود ہو رہا ہوتا ہے۔

اگر یہ سوال اس طرح کیا جاتا کہ ”کیا وقوفِ قلبی کا بھی فائدہ ہوتا ہے؟“ تو اس کا جواب یقیناً یہی ہوتا کہ ”ہاں اِس کا فائدہ ہوتا ہے“۔

یہ فائدہ اس طرح ہوتا ہے کہ جب دل اللّٰہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے یا بالفاظِ دیگر دل میں ”اَللہ اَللہ“ ہو رہا ہوتا ہے تو تمام اعضا و جوارح اور ان سے صادر ہونے والے افعال پر اس کا اثر ہوتا ہے۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ جب وقوفِ قلبی دائمی ہو جائے تو پھر یہ نگران بن جاتا ہے۔ اگر انسان گناہ کی طرف مائل ہوتا ہے تو اس سے ایک سگنل ملتا ہے اور انسان محسوس کر لیتا ہے کہ کچھ گڑ بڑ ہو گئی ہے نتیجتاً انسان توبہ کر لیتا ہے۔ لہٰذا وقوفِ قلبی کا فائدہ تو یقیناً ہوتا ہے لیکن ثواب کے بارے میں یہ تفصیل ہے کہ ثواب اختیاری چیزوں پر ملتا ہے اور تب ملتا ہے جب ہمارا ارادہ بھی شامل ہو۔ جیسے آپ ﷺ کا فرمان ہے:

اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ“ (صحیح بخاری: 1)

ترجمہ: ”تمام اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے“۔

اس حدیث مبارکہ کے مطابق وقوفِ قلبی کے اختیاری حصے پر تو یقیناً ثواب مل رہا ہے، اس میں کوئی دوسری رائے نہیں ہے لیکن خود بخود ہونے والے وقوفِ قلبی پر ثواب ملتا ہے یا نہیں، اس سلسلے میں یہ تفصیل ہے کہ اگر انسان ارادہ کر لے کہ میں اپنے دل کو ہمیشہ اللّٰہ کی طرف متوجہ رکھوں گا اور اس کا یہی ارادہ اس کی نیت میں شمار ہو جائے، تو اللّٰہ تعالیٰ سے امید کرتے ہیں کہ یقیناً اس کا ثواب بھی مسلسل مل رہا ہو گا۔

میرا اپنا واقعہ ہے کہ جب کوئی مراقبہ خود بخود ہونا شروع ہو جاتا تو میں اپنے شیخ حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے عرض کرتا کہ حضرت اب ایسا ہو رہا ہے۔ حضرت فرماتے کہ اب اس مراقبہ کو نیت کے ساتھ کرو تاکہ ثواب ملے۔

حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی اس رہنمائی سے پتا چلتا ہے کہ اس میں باقاعدہ نیت کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب یہ خود بخود ہو رہا ہو تو انسان اس کو اپنی نیت کا پابند کر لے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ انسان وقتاً فوقتاً اس کی طرف متوجہ رہے اور اِس کو اللّٰہ کی محبت حاصل کرنے کے لئے ذکر کے طور پر دیکھا کرے کہ ہو رہا ہے یا نہیں ہو رہا۔ اس طرح تجدیدِ نیت ہوتی رہے گی اور امید ہے کہ نیت کرنے کی وجہ سے ثواب حاصل ہوتا رہے گا۔

سوال نمبر2:

جیسے ہندو کلچر میں کچھ اچھی باتیں بھی ہیں مثلاً رشتوں کا ادب، ماں باپ کا ادب، شوہر کو دل سے مجازی خدا ماننا وغیرہ۔ کیا ایسی باتوں کو اختیار کرنا چاہیے، کیا ان کا تذکرہ لوگوں میں کرنا جائز ہے؟

جواب:

میرے خیال میں یہ سوال نا سمجھی پر مبنی ہے۔ در اصل اسلام کے اندر ساری کی ساری خوبیاں جمع ہو گئی ہیں، لہذا ہم کسی خوبی کو کسی اور کی طرف کیوں منسوب کریں۔ جس مذہب میں بھی کوئی اچھی بات ہے وہ اسلام کے اندر بذاتہ موجود ہے۔ ہاں! ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ اسلام کی کچھ باتیں دوسرے مذاہب میں بھی ہیں۔

مثلاً اگر کوئی مذہب سچ بولنے کی، جھوٹ نہ بولنے کی، دھوکہ نہ کرنے کی اور ظلم نہ کرنے کی ترغیب دے رہا ہے، تو ہمارا مذہب پہلے سے ہی یہ کام کر رہا ہے اور ہمارے لئے ہمارے مذہب میں ان چیزوں کے بارے میں براہ راست احکامات موجود ہیں۔ ایسی چیزوں کے بارے میں ہم یہ نہیں کہتے کہ یہ اُن کی اچھی باتیں ہیں بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ ہماری اچھی باتیں ہیں جو ان کے اندر بھی پائی گئی ہیں۔ لہٰذا اس حد تک کہنا تو ٹھیک ہے کہ ہمارے مذہب کی کچھ باتیں اُن کے اندر شامل ہیں، اُن کی یہ باتیں ہمارے مذہب کے مطابق ہیں لیکن دوسرے مذاہب کا اِس حوالے سے ذکر کرنا کہ اُن کی باتوں کو اختیار کرنا چاہیے، یہ درست نہیں ہے، ہم اُن کے حوالے سے کیوں اختیار کریں، ہم اپنے مذہب کے حوالے سے کیوں نہ اختیار کریں؟ ہمیں ان باتوں کو اللّٰہ کا حکم سمجھتے ہوئے، حضور ﷺ کا طریقہ سمجھتے ہوئے اختیار کرنا چاہیے۔ کیا اس کام کے لئے ہمیں کسی اور مذہب کے حوالے کی ضرورت ہے؟ بالکل ضرورت نہیں ہے۔ ساری اچھی اچھی باتیں ہمارے مذہب کے اندر موجود ہیں۔ ہمارا مذہب نا مکمل نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا﴾ (المائدہ: 3)

ترجمہ: ”آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا، تم پر اپنی نعمت پوری کر دی، اور تمہارے لئے اسلام کو دین کے طور پر (ہمیشہ کے لئے) پسند کر لیا“۔

اس آیت کے ترجمے کے الفاظ پہ غور کریں، اس میں ساری باتیں آ گئیں۔ پس اب ہمیں نہ ہندو کلچر کی ضرورت ہے نہ انگلش کلچر کی، نہ یہودی کلچر کی ہمیں ضرورت ہے اور نہ ہی کسی اور کلچر کی ضرورت ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ ان کے کلچر میں بھی کچھ باتیں اچھی ہیں لیکن ہم ان اچھی باتوں کو ان کا کلچر نہیں کہنا چاہیے بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ یہ ہمارے کلچر کی باتیں ہیں اور یہ ہمارے مذہب کی باتیں ہیں جو ان کے کلچر میں بھی پائی جاتی ہیں۔

سوال نمبر3:

رمضان شریف سے پہلے رمضان کی تیاری کیسے ہو سکتی ہے؟

جواب:

جب آپ ﷺ نے رمضان سے دو ماہ قبل رجب کا چاند دیکھا تو یہ دعا فرمائی:

”اَللّٰهُمَّ بَارِکْ لَنَا فِيْ رَجَبَ وَشَعْبَانَ وَبَلِّغْنَا رَمَضَانَ“ (البيهقي في شعب الإيمان: 3534)

ترجمہ: ”اے اللّٰہ رجب اور شعبان میں ہمارے لئے برکت عطا فرما اور ہمیں رمضان تک پہنچا دے“۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دو مہینے پہلے سے ہی آپ ﷺ کے دل میں یہ بات تھی کہ ایک ایسا مہینہ آنے والا ہے جو انتہائی مقدس و محترم اور اللّٰہ پاک کا پسندیدہ مہینہ ہے، جس میں ایسے اعمال ہوتے ہیں جو اللّٰہ کو بہت محبوب ہیں اور اس ماہ میں اللّٰہ جل شانہ اپنے بندوں کو بہت نوازتے ہیں۔

جہاں تک رمضان کی آمد سے پہلے رمضان کی تیاری کا سوال ہے، تو اس بارے میں یہ سمجھیں کہ سب سے پہلے علمی تیاری ہوتی ہے۔ مثلاً ہمیں اس بات کا علم ہو کہ رمضان شریف کے مہینے میں کون سے اعمال افضل ہوتے ہیں۔

ایک ہوتا ہے کسی چیز کا علم ہونا اور ایک ہوتا ہے علم کا مستحضر ہونا۔ یہ دو مختلف چیزیں ہیں۔ علم بہت سارے لوگوں کو ہوتا ہے لیکن علم مستحضر تھوڑے لوگوں کو ہوتا ہے۔ علم کے مستحضر ہونے سے مراد یہ ہے کہ انہیں جس بات کا علم حاصل ہے وہ موقع پر یاد آئے، انسان کا ذہن و قلب اسے مان رہا ہو اور اس کے سامنے اس علم کے مطابق یہ بات ذہن نشین ہو کہ مجھے کیا کرنا ہے۔

اللّٰہ پاک فرماتے ہیں:

﴿وَ ذَكِّرْ فَاِنَّ الذِّكْرٰی تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِیْنَ﴾ (الذاریات: 55)

ترجمہ: ”اور نصیحت کرتے رہو، کیونکہ نصیحت ایمان لانے والوں کو فائدہ دیتی ہے“۔

آپ یہ یاد دہانی اپنے آپ کو خود بھی کر سکتے ہیں اور کوئی دوسرا بھی آپ کو یاد دہانی کرا سکتا ہے۔

رمضان شریف سے پہلے رمضان شریف کا تذکرہ، رمضان شریف کے اعمال کا تذکرہ، رمضان شریف کے ثوابوں کا تذکرہ، رمضان شریف کے ساتھ اللّٰہ کا جو تعلق ہے اس کا تذکرہ، آپ ﷺ کے رمضان کا تذکرہ اور رمضان شریف کے فضائل و مسائل کا تذکرہ کرنا یہ سب چیزیں رمضان کی تیاری کے زمرے میں آتی ہیں، اس لئے رمضان کی تیاری کی نیت سے ان سب اعمال کا اہتمام کرنا چاہیے۔ انسان کو پہلے سے رمضان شریف کے بارے میں معلوم ہونا چاہیے کہ رمضان شریف کا مہینہ کیسا ہے، اس میں کیا کرنا پڑتا ہے؟ مثلاً کم از کم رمضان شریف سے متعلقہ مسائل مستحضر ہونے چاہئیں۔ بعض دفعہ اسی میں بڑا مسئلہ پیش آ جاتا ہے کہ روزہ ٹوٹا ہے یا نہیں۔ بعض دفعہ ایک چھوٹی سی غلطی سے بڑا نقصان ہو جاتا ہے۔ مثلاً اعتکاف جو کہ رمضان شریف کا ایک بڑا عمل ہے، جب انسان اعتکاف کرتا ہے تو بعض اوقات ایسی چیزوں سے بھی اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے جو بذاتہٖ تو صحیح اور اچھی چیزیں ہوتی ہیں لیکن وہ اعتکاف میں جائز نہیں ہوتیں۔ مثلاً کھانا کھانے کے بعد نماز پڑھنے کے لئے کلی کرنا سنتِ مستحبہ ہے، لیکن وضو کے حکم میں نہیں ہے لہٰذا آپ اعتکاف کے دوران وضو کے لئے تو باہر جا سکتے ہیں لیکن صرف کلی کے لئے نہیں جا سکتے، پس جو کلی کے لئے باہر چلا گیا اس کا اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔ اگر کسی کو یہ مسئلہ معلوم نہیں اور وہ افطار کے بعد نماز سے پہلے صرف کلی کرنے کے لئے باہر چلا گیا تو اس کا اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔ وہ اپنی عادت کے مطابق جیسے ہی افطار کرے گا، کلی کے لئے مسجد سے باہر چلا جائے گا اور اس کا اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔ اب دیکھئے کہ ایک چھوٹی سی غفلت سے اس کا کتنا بڑا نقصان ہوا، مسنون اعتکاف ٹوٹ گیا۔ اسی طرح بہت ساری باتیں ایسی ہوتی ہیں جن کا جاننا پہلے سے ضروری ہوتا ہے تاکہ عین وقت پر کوئی اِس قسم کی بات نہ ہو۔ اسی طرح افطار کے وقت جو اذان ہوتی ہے اس میں حساب ہوتا ہے۔ مثلاً پانچ بج کر بارہ منٹ پر غروب ہو رہا ہے۔ آج کل بڑے علاقوں کے لئے اوقاتِ نماز کا جو نقشہ بنا ہوا ہوتا ہے اس میں تین منٹ کی غلطی کا امکان ہوتا ہے۔ پانچ بج کر بارہ منٹ کا مطلب یہ ہے کہ پانچ بج کر نو منٹ بھی ہو سکتے ہیں، پانچ بج کر پندرہ منٹ بھی ہو سکتے ہیں۔ اب عوام کو اس بات کی سمجھ نہیں ہے کہ کن مخصوص جگہوں پر عین پانچ بج کر نو منٹ پر اذان ہے۔ ہر جگہ کے بارے میں تو آپ بتا نہیں سکتے لہٰذا آپ موٹی سی بات بتائیں گے کہ پانچ بج کر بارہ منٹ کا وقت ہے اور اس وقت میں اس پورے علاقے میں تین منٹ کی کمی بیشی ہو سکتی ہے۔

فقہ کا قانون ہے کہ جب تک نماز کا وقت داخل ہونے کا اتنا قطعی یقین نہ ہو جائے کہ آپ اس پہ قسم کھا سکیں، اس وقت تک نہ آپ روزہ کھول سکتے ہیں، نہ نماز پڑھ سکتے ہیں۔ اب یقین آپ کو تب ہی حاصل ہو گا جب آپ اصل وقت کے ساتھ احتیاط کا وقت جمع کر لیں۔ پانچ بج کر بارہ منٹ کو بڑھا کر پانچ بج کر پندرہ منٹ کر لیں۔ پانچ بج کر پندرہ منٹ پر آپ کو یقین ہو جائے گا کہ اب وقت داخل ہو گیا، اس سے پہلے آپ کو یقین نہیں ہو سکتا صرف شک ہو گا اور شک پر آپ افطار نہیں کر سکتے۔

بہت سارے لوگوں نے اس احتیاط کو مستحب سمجھا ہوا ہے کہ کر لی تو اچھی بات ہے، نہیں کی تو بھی کوئی بات نہیں۔ یہ احتیاط مستحب نہیں بلکہ واجب ہے۔ لہذا اگر احتیاطی وقت شامل نہیں کرنا تو پھر مشاہدہ کر لیں، مشاہدے میں یہ بات ہے ہی نہیں۔ مشاہدہ میں تو آپ نے سورج کو دیکھنا ہوتا ہے جب وہ غائب ہو جائے تو آپ افطار کر لیں گے، چاہے نقشے میں کچھ بھی ہو آپ کو مشاہدے پہ عمل کرنا ہے، نقشے پہ تو عمل نہیں کرنا، نقشہ تو صرف اس سہولت کے لئے ہے کہ اگر آپ مشاہدہ نہ کر سکتے ہوں تو نقشہ دیکھ لیں۔ لیکن اگر نقشے پہ عمل کرنا ہے تو پھر نقشے والوں سے پوچھنا پڑے گا کہ میں اس کو کیسے استعمال کریں۔

ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ مولانا محمد رمضان علوی صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ جو بہت بڑے عالم تھے، فاضل دیوبند تھے۔ راجہ بازار کے قریب ہی ان کا مدرسہ اور مسجد تھی۔ میں نے ایک مرتبہ جنگ اخبار میں پڑھ لیا کہ حضرت نماز کے اوقات کا نقشہ بناتے ہیں۔ میں ان دنوں اس چیز کو سیکھ رہا تھا۔ میں نے سوچا کہ حضرت نقشہ بنا رہے ہیں تو میں بھی ان سے سیکھ لیتا ہوں۔ میں پوچھتے پوچھتے حضرت کی مسجد میں پہنچ گیا۔ حضرت بہت خوش ہوئے۔ ما شاء اللّٰہ بہت قدر فرمائی، چائے منگوائی۔ میں ان کے ساتھ چائے پی رہا تھا اسی دوران میں نے کہا کہ حضرت میں تو اس لئے آیا ہوں کہ آپ سے اس مسئلے میں کچھ سیکھوں کہ آپ نقشے کیسے بناتے ہیں۔ حضرت کی مسجد میں راولپنڈی کا پرانا نقشہ لگا ہوا تھا جس پر مسجد بھی بنی ہوئی تھی، حضرت نے اس کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ میں تو اس نقشے سے لیتا ہوں اور اس پہ جو افطار کا وقت لکھا ہے اس کے ساتھ تین منٹ جمع کر لیتا ہوں اور سحری کے وقت سے دو منٹ منفی کر لیتا ہوں۔ اس طرح سحر و افطار کا نقشہ بناتا ہوں۔

خدا کی شان وہ اتنے بڑے عالم تھے ان سے میرا اس طرح بات کرنا بظاہر بڑی بے ادبی تھی لیکن علمی لحاظ سے اس میں بے ادبی نہیں تھی۔ علمی لحاظ سے یہ چیزیں بے ادبی کے زمرے میں نہیں آتیں، کیونکہ علم تو سب کا مشترکہ سرمایہ ہے، اس میں مجبوری ہوتی ہے، صاف بات کرنی ہوتی ہے۔

میں نے کہا کہ حضرت آپ اس فن کے مقلد ہیں یا مجتہد ہیں؟ چونکہ حضرت بہت بڑے عالم تھے اور فاضل دیوبند تھے لہٰذا صاف صاف فرمایا کہ نہیں! میں تو اس فن میں مقلد ہوں۔

میں نے پوچھا کہ حضرت آپ کس کے مقلد ہیں؟

فرمایا: اس نقشے والے کا مقلد ہوں جو یہ کہتا ہے اس پر عمل کرتا ہوں۔

میں نے کہا کہ حضرت آپ تو مقلد نہیں ہیں۔

فرمایا: وہ کیسے؟

میں نے کہا کہ حضرت اس نقشے پہ لکھا ہوا ہے کہ سحری کے لئے پانچ منٹ کم کر لو اور افطاری کے لئے پانچ منٹ جمع کر لو جبکہ آپ افطاری کے لئے تین منٹ جمع کر رہے ہیں اور سحری کے لئے دو منٹ منفی کر رہے ہیں لہٰذا آپ ان کی تقلید نہیں کر رہے بلکہ آپ اپنے اصول خود بنا رہے ہیں اور جو انسان خود اصول بناتا ہے وہ مجتہد ہوتا ہے۔ اور مجتہد کو اپنے اصول کا پتا ہونا چاہیے کہ میں نے یہ کیسے بنایا ہے۔ میں آپ سے یہی جاننے کی کوشش کروں گا کہ آپ نے یہ اصول کیسے بنایا؟ اس نقشے والے نے تو اپنی ذمہ داری پوری کی۔ اس نے اس پر لکھ دیا کہ اتنے منٹ جمع کر لو اور اتنے منفی کر لو۔ اب اگر کوئی اس کا مقلد ہے تو اُسے نقشے والے کی بات پر ہی عمل کرنا پڑے گا اور اگر مجتہد ہے تو اپنے اصول کا جواب دینا پڑے گا۔

یہ ایک منطقی قسم کی گفتگو تھی۔ علماء اس کے عادی ہوتے ہیں، اس قسم کی بحث کو محسوس نہیں کرتے، وہ اس قسم کی باتیں آپس میں کرتے رہتے ہیں۔ بہر حال حضرت بہت خوش ہوئے، بہت شکریہ ادا کیا اور فرمایا کہ اللّٰہ تعالیٰ آپ کو اجر دے، آپ نے بالکل صحیح بات کی۔ آئندہ میں نقشہ نہیں بناؤں گا۔ اس کے بعد حضرت نے پھر کبھی نقشہ نہیں بنایا۔ مجھے فرماتے تھے کہ اب میں تمہارا ہی نقشہ استعمال کروں گا۔

اب آپ بتائیں کہ یہ کتنی بڑی بات تھی لیکن حضرت کے سامنے نہیں تھی، جیسے ہی حضرت کے سامنے آ گئی تو فوراً مان لیا اور نہ صرف مان لیا بلکہ بہت بڑا فیصلہ کر لیا۔ اس کے بعد حضرت میری بہت زیادہ قدر کیا کرتے تھے۔ الحمد للّٰہ۔

اس لئے میں عرض کرتا ہوں کہ اس قسم کی باتیں جاننی چاہئیں۔ لہٰذا رمضان کے متعلق مسائل و فضائل کو جاننا رمضان کی علمی تیاری ہے۔ جبکہ عملی تیاری یہ ہے کہ شعبان کا پندرہواں روزہ تو رکھ ہی لیں تاکہ کم از کم پندرہ دن پہلے روزے کی مشق ہو جائے۔ رمضان شریف کے بارے میں تھوڑا سا اندازہ ہو جائے۔ اس کے علاوہ تھوڑا سا کم پانی پینا شروع کر لیں دن میں کم کھانا شروع کر لیں تاکہ آہستہ آہستہ اس کی عادت ہو جائے۔

سوال نمبر4:

افطار کے وقت کم کھانا بہتر ہے یا پیٹ بھر کے کھانا بہتر ہے؟

جواب:

یہ سوال علمی نہیں ہے بلکہ عملی ہے۔ اس کا زیادہ بہتر جواب ڈاکٹر یا حکیم دے سکتا ہے۔

(حضرت مجلس میں شامل ڈاکٹر صاحب سے پوچھتے ہیں) جی ڈاکٹر صاحب! کیا کرنا چاہیے، پیٹ بھر کر کھانا بہتر ہے یا کم کھانا بہتر ہے؟

ڈاکٹر صاحب: تھوڑا سا کم کر لیں۔

ڈاکٹر صاحب کے بقول تھوڑا سا کم کر کے کھانا بہتر ہے۔

اس کا فائدہ یہ ہے کہ اگر آدمی افطار میں زیادہ پیٹ بھر کے کھا لیتا ہے تو تراویح پڑھنا مشکل ہو جاتا ہے اور نیند آتی ہے۔ لہٰذا تراویح کے بعد تھوڑا سا کھا لے۔ افطار کے بعد کھانا دو تین حصوں میں کھا لے۔ کچھ حصہ افطاری کے وقت کھا لے، کچھ حصہ تراویح کے بعد کھا لے اور کچھ حصہ سحری میں کھا لے۔ لیکن گرمیوں کے روزوں میں تقریباً ویسی ہی حالت ہو جاتی ہے کیونکہ انسان اتنا پانی پی لیتا ہے کہ کھانے کی گنجائش کم ہی رہتی ہے۔ پھر پانی زیادہ پینے کی وجہ سے فوراً زیادہ کھانا نہیں کھایا جا سکتا۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ پانی اپنی جگہوں پہ بہت جلدی پہنچ جاتا ہے۔ جب کہ کھانا جتنا کھایا ہوتا ہے پیٹ میں اتنا ہی رہ جاتا ہے، انسان تھوڑا سا کم ہی کھا لیتا ہے۔ پانی اپنی جگہ چھوڑ جاتا ہے پھر دوبارہ تراویح کے بعد کھانا پڑتا ہے۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ تراویح کے بعد کچھ نہ کچھ کھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گرمیوں کے موسم میں افطار کے وقت آدمی پانی اتنا پی چکا ہوتا ہے کہ کھانے کو دل نہیں چاہتا۔

البتہ ایک بات عرض کرتا ہوں۔ یہ بات ڈاکٹروں سے پوچھ کے ہی کر رہا ہوں۔ ڈاکٹر صاحب بیٹھے ہوئے ہیں اگر میری بات غلط ہو تو اصلاح فرما دیں گے۔ ہم جو زیادہ تر مرغن چیزیں کھاتے ہیں مثلاً پکوڑے وغیرہ، یہ چیزیں زیادہ نہیں کھانی چاہئیں، یہ بوجھ بن جاتی ہیں۔ سحری کے وقت تو بے شک کھا لے۔ کیونکہ مرغن کھانوں میں fats (لحمیات) ہوتے ہیں جو آہستہ آہستہ ہضم ہوتے ہیں۔ لہٰذا اگر سحری کے وقت کھا لے تو یہ آپ کی مدد کریں گے، آپ کو زیادہ دیر تک بھوک نہیں لگے گی۔

جرمنی میں دن بڑے لمبے ہوتے ہیں۔ آپ کو تقریباً رات کے ایک بجے سحری کھانی ہو اور پھر آپ کو اگلی رات پونے دس بجے افطاری کرنی ہو تو دن کافی لمبا ہو جاتا ہے۔ میرے ساتھ ایسا ہوتا ہے کہ پہلے دو تین روزوں میں میرے سر میں درد ہو جاتا ہے بعد میں ٹھیک ہو جاتا ہے۔ جرمنی میں بھی ایسا ہی ہوا۔ چھے بجے کے لگ بھگ میرے سر میں اچھا خاصا درد شروع ہو گیا۔ میں ڈاکٹر صاحب کے پاس چلا گیا اور کہا کہ مجھے سر میں بہت شدید درد ہے۔ اس نے کہا کہ یہ شوگر کی کمی کی وجہ سے ہے۔ میں نے کہا کہ میں روز اس درد میں مبتلا ہو جاتا ہوں۔ اس نے پھر کہا کہ یہ شوگر کی کمی کی وجہ سے ہے، آپ تھوڑا سا گلو کوز لے لیں۔ میں نے کہا کہ وہ تو میں نہیں لے سکتا۔ ڈاکٹر صاحب کہنے لگے کہ بس تھوڑا سا لے لیں۔ ظاہر ہے ان کو اسلامی مسائل کا پتا نہیں تھا۔ میں نے کہا تھوڑا سا بھی نہیں لے سکتا۔ کہنے لگے : Then you should wait۔ پھر آپ کو انتظار کرنا چاہیے۔

میں نے کہا: اچھا مجھے بتائیں کہ ?How can I prepare to it myself ”میں ایسا کیا کروں کہ مجھے اس طرح نہ ہو۔

کہنے لگے:

If your stomach cooperates, you should eat fats in the morning

یہ اس کا ایک نچوڑ تھا کہ اگر آپ کا معدہ تعاون کر رہا ہے، خراب نہیں ہو رہا تو پھر آپ تھوڑی سی چکنائی لے لیا کریں۔ اس وجہ سے یہ جو لوگ سحری کے وقت پراٹھے کھاتے ہیں، یہ بری بات نہیں ہے لیکن جو لوگ چاول کھاتے ہیں وہ ٹھیک نہیں کرتے کیونکہ چاول جلدی ہضم ہو جاتے۔ لہٰذا چاول کھانے والے اپنے ساتھ زیادتی کرتے ہیں لیکن جو لوگ پراٹھے کھاتے ہیں، اگر ان کا معدہ تعاون کر رہا ہے تو ان کے لئے یہ ٹھیک ہے۔ البتہ شام کے وقت بہت زیادہ تلی ہوئی چیزیں نہیں کھانی چاہئیں۔ بہتر یہ ہے کہ فروٹ چارٹ اور اس قسم کی چیزیں جو زود ہضم ہوں انہیں استعمال کیا جائے، کیونکہ روزہ رکھنے سے قبض بھی ہو جاتی ہے اس لئے انسان زود ہضم چیزیں استعمال کر لے جن سے قبض سے بھی بچت ہو جائے اور پانی کی ضرورت بھی پوری ہو جائے۔ افطاری کے وقت خشک روٹی ہی کھا لے تاکہ دل پہ بوجھ نہ آئے اور انسان تراویح بھی صحیح طور پر پڑھ سکے۔ اس طریقے سے ان شاء اللّٰہ کچھ نہ کچھ بہتر معاملہ رہے گا۔

سوال نمبر5:

مشائخ کی قدر کیسے کی جا سکتی ہے؟

جواب:

انسان غرض مند ہوتا ہے اور وہ اپنی غرض کو حاصل کرتا ہے۔ مشائخ سے بھی ایک غرض وابستہ ہے اور وہ غرض یہ ہے کہ اپنی اصلاح ہو جائے۔ لہٰذا جو چیز اپنی اصلاح میں رکاوٹ ہو اسے اختیار نہ کریں۔ اسی سے مشائخ کی قدر بھی ہو جاتی ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ میں اس موضوع پر زیادہ بات اس لئے نہیں کرتا کہ میں خود بھی شیخ ہوں۔ بعض لوگ مجھے اپنا شیخ سمجھتے ہیں۔ اگر میں اس طرح کی باتیں کروں گا تو گویا اس میں اپنی تعریف اور اہمیت جتانے والی بات ہو جائے گی۔ حضرت صوفی اقبال صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اپنی کتاب آداب شیخ میں اس پر لکھا ہے، حضرت مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ نے بھی اس پر لکھا ہے، حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے بھی اس پر بات کی ہے کہ شیخ کی بات ماننی چاہیے، شیخ کی قدر کرنی چاہیے۔ اگر اس بارے میں بلا تکلف عرض کروں تو یہ کہوں گا کہ اس پر سارے مشائخ متفق ہیں کہ اصلاح کے ذرائع میں شیخ اصلاح کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ اگر سب سے بڑا ذریعہ استعمال کرنے میں گڑ بڑ ہو جائے تو یہ بہت بڑی محرومی ہے۔ لہذا آدابِ شیخ جاننے چاہئیں۔ اس سلسلے میں مختصر وقت میں زیادہ تفصیلات تو نہیں بتائی جا سکتیں، چند باتیں عرض کرتا ہوں۔ کیونکہ اس بارے میں پوری کتاب لکھی گئی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں پوری کتاب تو نہیں سنا سکتا، اس لئے صرف چند آداب عرض کر دیتا ہوں۔

مثلاً ایک ادب یہ ہے کہ شیخ کی موجودگی میں ذکر لسانی نہیں کرنا چاہیے بلکہ اپنے دل کو شیخ کے دل کی طرف متوجہ رکھنا چاہیے کہ شیخ کے قلب پر اللّٰہ کی طرف سے جو فیضان آ رہا ہے وہی میرے دل پر بھی آ رہا ہے۔ ذکر تو آپ دوسری جگہ بھی کر سکتے ہیں، اس کا راستہ تو آپ کے پاس ہے لیکن شیخ کی صحبت آپ کے پاس ہر جگہ نہیں ہے۔ جب آپ کو شیخ کے ہاں یہ چیز مل رہی ہے جو آپ کی اصلاح میں بہت بڑی معاون ہے تو اس میں سستی مت کریں۔ اصلاح فرضِ عین ہے اگر آپ اس کو اوّلیت دیں گے تو اس میں آپ کا فائدہ ہے۔ فیض اللّٰہ جل شانہ کی طرف سے ہی آتا ہے شیخ کا قلب اس کا محض ایک ذریعہ ہے۔ لہذا اگر شیخ کے ساتھ کسی کو تکدر ہو یا شیخ کو کسی کے ساتھ تکدر ہو، ان دونوں صورتوں میں فیض رک جاتا ہے۔

مثلاً پرنالے سے پانی آ رہا ہو، اوپر سے کوئی پرنالے کو بند کر دے یا پرنالے کے سامنے کوئی آڑ لے آئے، دونوں صورتوں میں پانی نہیں آئے گا۔ اسی طرح اگر شیخ کو مرید کے ساتھ اس کی کسی غلطی کی وجہ سے تکدر ہو جائے تو اس سے بھی نقصان ہوتا ہے اور مرید کو اگر شیخ کے ساتھ تکدر ہو جائے تو اس سے بھی نقصان ہوتا ہے، لہذا مرید کو شیخ کے ساتھ تکدر سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایسے شیخ سے بیعت کرے جس کے ساتھ مناسبت ہو۔ اور شیخ کے تکدر سے بچنے کے لئے انسان کو یہ دیکھنا ضروری ہے کہ میرے شیخ کا مزاج کیا ہے، وہ کن چیزوں سے خوش ہوتا ہے، کن چیزوں سے ناراض ہوتا ہے، کن چیزوں کی اہمیت اس کے دل میں ہے اور وہ کن چیزوں کو نظر انداز کرتا ہے۔

جو مرید شیخ کا مزاج شناس ہوتا ہے اسے زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔ حاجی امداد اللّٰہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس میں ان کے مرید حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ بھی موجود ہوتے تھے۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ اس وقت بہت کم عمر تھے۔ بڑے بڑے لوگ حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے پاس بیٹھے ہوتے تھے۔ جب کوئی شخص حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے کوئی بات پوچھتا تو حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرما دیتے تھے کہ اِن سے پوچھو، یہ میری بات سمجھ گئے ہیں۔ لوگوں کو حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے حسد ہونے لگا کہ یہ ہر چیز سمجھ جاتے ہیں۔

مزاج شناسی اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نعمت ہے، جس کو حاصل ہو جائے وہ خوش نصیب ہے۔ شیخ کا مزاج جاننا بہت بڑی دولت ہے۔ اسی بات کو بیان کرنے کا ایک انداز یہ ہے کہ شیخ کا رنگ اپنے اوپر چڑھانا چاہیے۔ اپنے آپ کو شیخ کے مزاج کے مطابق ڈھالنا چاہیے، شیخ کو اپنے مزاج کے مطابق ڈھالنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ یہ چیز ضروری ہے۔ اس بات کا ذکر درجہ بدرجہ آ رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

﴿صِبْغَةَ اللّٰهِ وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ صِبْغَةً﴾ (البقرہ: 138)

ترجمہ: ”(اے مسلمانو! کہہ دو کہ) ہم پر تو اللہ نے اپنا رنگ چڑھا دیا ہے اور کون ہے جو اللہ سے بہتر رنگ چڑھائے؟“۔

یہ تو اللہ کے رنگ کا ذکر ہو گیا۔ اس کے علاوہ فرمایا ہے:

﴿قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ﴾ (آل عمران: 31)

ترجمہ: ”(اے پیغمبر! لوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا“۔

یہ آپ ﷺ کا رنگ ہے اور آپ ﷺ کے رنگ تک پہنچنے کے لئے شیخ کا رنگ ہے۔ یہ سیڑھیاں ہیں۔ پہلے اپنے شیخ کے ساتھ اپنے آپ کو ہم آہنگ کر لیں پھر آپ ﷺ کے ساتھ، اور پھر اللّٰہ جل شانہ کی بات آ جائے گی۔ اگر پہلی سیڑھی پر ہی قدم نہیں رکھا تو اگلی سیڑھی پر کیسے جائیں گے۔

یہ ساری چیزیں تجرباتی ہیں اور تجربوں سے ثابت ہیں لہذا اس کے بارے میں ایک تو ’’آدابِ شیخ‘‘ کتاب پڑھ لی جائے اور جو چند باتیں میں عرض کر چکا ہوں ان میں غور کیا جائے۔ ان شاء اللّٰہ بہت ساری باتیں کھل جائیں گی۔

سوال نمبر6:

مشائخ کے ساتھ تصوف کے علاوہ دوسرے معاملات میں اختلاف کیے جاتے ہیں، کیا اس میں کوئی قباحت ہے؟

جواب:

یہ اسی نوعیت کی بات ہے جو میں نے مولانا رمضان علوی صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ سے عرض کی تھی کہ آپ اس فن کے مجتہد ہیں یا مقلد؟

اگر کوئی کسی فن کا مجتہد ہو وہ تو اختلاف کر سکتا ہے۔ مثال کے طور پر نمازوں کے اوقات کی بات لے لیں۔ اگر کسی کا شیخ اس بارے میں نہیں جانتا تو پھر اختلاف تو کیا جائے گا۔ لیکن ایسا کرنا شیخ کے ساتھ اختلاف نہیں ہے کیونکہ یہ چیز تصوف سے متعلق نہیں ہے بلکہ فقہ سے متعلق ہے اور فقہ ظاہری چیز ہے، شیخ اس کی ذمہ داری نہیں لے رہا بلکہ شیخ اس بارے میں خود اپنے آپ کو بھی کسی اور کا مقلد بناتا ہے۔ لہٰذا ایسے معاملات میں اگر شیخ کسی اور کی مان رہا ہے اور آپ کسی اور کی مان رہے ہیں تو اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ یہ فقہی بات ہے، یہ تصوف کی بات نہیں ہے۔

میں نے یہ بات ذرا ڈرتے ڈرتے اس لئے کی کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ انسان خود مقلد ہو مگر اختلاف کے شوق میں مجتہد بننے کی کوشش کرنے لگے جس کی وجہ سے حدود سے تجاوز کر جائے تو پھر نقصان ہو جاتا ہے۔ اختلاف وہاں ہونا چاہیے جہاں اختلاف کی گنجائش بھی ہو۔

اگر کسی خاص مسئلے میں شیخ مجتہد نہیں ہے اور آپ بھی مجتہد نہیں ہیں لیکن شیخ کا علم زیادہ ہے، شیخ اس چیز کو آپ سے زیادہ جانتا ہے تو آپ کو اختلاف کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ خواہ مخواہ اختلاف کا شوق تو نہیں رچانا چاہیے۔ ہاں اگر آپ واقعی کسی چیز کے مجتہد ہیں تو پھر اختلاف ممکن ہے۔ مثلاً آپ معاشیات کے مجتہد ہیں، معاشیات میں آپ نے علمی لحاظ سے بڑی تحقیق کی ہوئی ہے۔ اگر آپ کے شیخ نے اس موضوع پہ اتنی تحقیق نہیں کی ہوئی تو آپ اختلاف کر سکتے ہیں۔ ممکن ہے شیخ کسی اور کی بات مان رہا ہو اور آپ کسی اور کی مان رہے ہوں یا اس مسئلہ میں آپ کی اپنی الگ رائے ہو تو شیخ آپ کو کچھ نہیں کہے گا۔

لہٰذا اختلاف کی اجازت ان تمام چیزوں کے بارے میں ہے جن کا تعلق تصوف سے نہ ہو اور شیخ کی اس میں کوئی تحقیق بھی نہ ہو۔ ہمارے مشائخ اس میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے، اس کی اجازت دیتے ہیں لیکن ہمیں اپنے آپ کو بلاوجہ اختلاف سے بچانا چاہیے، بعض لوگ اس طریقے سے نمایاں بننے کی کوشش کرتے ہیں، جس سے نقصان ہو جاتا ہے۔ کیونکہ نمایاں بننے کی کوشش تصوف کے زمرے میں آ جاتی ہے۔ تصوف اپنے آپ کو مٹانے کا نام ہے۔ جو نمایاں بننے کی کوشش کر رہا ہے اس کو شیخ روک سکتا ہے اور اِس معاملے میں شیخ کے ساتھ اختلاف نہیں کیا جا سکتا۔ لہذا اختلاف کا شوق رچانے میں نمایاں بننے کا جذبہ نہ ہو۔ اگر کسی مرید کو اس کا شیخ کسی چیز سے روکے اور اس چیز کا تعلق تصوف کے ساتھ ہو تو اس میں شیخ کے ساتھ اختلاف کرنا نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔

مجھے اپنے شیخ کی بات یاد ہے۔ ایک دفعہ مجھے بلایا تھا بلکہ انہوں نے کیا بلایا تھا ہم نے ناٹک رچایا تھا۔ Geography Department میں مجھے بطور سپیکر اور حضرت رحمۃ اللہ علیہ کو صدر جلسہ کے طور پہ بلایا گیا تھا۔ جلسہ کا موضوع ”رؤیت ہلال“ تھا۔ رؤیت ہلال کے بارے میں ہم نے اپنی تحقیقات بیان کر دیں۔ لوگوں نے بڑے تفصیلی سوالات بھی کیے۔ حضرت نے میرے ساتھ اس مسئلے میں اختلاف فرمایا لیکن مجھ پر اپنا فیصلہ نافذ نہیں کیا بلکہ مجھے آزاد چھوڑا۔ اگلے دن سہ پہر کو جب میں حضرت کے گھر ان کی خانقاہ میں پہنچا تو حضرت نے مجھے خوب ڈانٹا۔ ڈانٹنے کا مقصد یہ نہیں تھا کہ وہ مجھے اس بات سے ہٹانا چاہتے تھے بلکہ اس لئے ڈانٹا کہ میں جلسہ میں مقرر تھا اور بڑا نمایاں بنایا ہوا تھا۔ جلسہ میں سب سے نمایاں مقرِّر ہی ہوتا ہے۔ حضرت رحمۃ اللہ علیہ خود کو نمایاں کرنے والی بات کو ہٹا رہے تھے۔ حضرت رحمۃ اللہ علیہ بات بات پہ مجھے ڈانٹ رہے تھے تاکہ وہ نمایاں ہونے کا تاثر ختم ہو جائے۔ مجھے چونکہ اندازہ تھا کہ شیخ کا کام ہی یہی ہے لہذا میں اس پر خوش ہو رہا تھا کہ الحمد للّٰہ دھلائی ہو رہی ہے، معاملہ ٹھیک ہو رہا ہے۔ بعد میں، میں نے اپنے شیخ سے بالکل بے تکلفاً عرض کیا کہ حضرت میری رائے آپ کے سامنے آ گئی اور آپ کی اپنی بھی اس مسئلہ میں ایک رائے ہے، کیا میں اپنی رائے چھوڑ دوں اور آپ کی رائے کو اختیار کر لوں؟ یہ سن کر حضرت مراقبے میں چلے گئے، تھوڑی دیر مراقبہ کیا جیسے اللّٰہ پاک سے کوئی صلاح لے رہے ہوں۔ پھر مراقبہ سے سر اٹھا کر فرمایا کہ آپ تو تحقیق کرنا چاہتے ہیں ناں! میں نے کہا جی ہاں! فرمایا: پھر تحقیق کرتے رہیں اس میں کوئی حرج نہیں۔ اس طرح مجھے اجازت دے دی۔ میں نے مزید یہ کیا کہ اپنی رائے پر مشمل ایک مضمون لکھ کے حضرت کی خدمت میں پیش کر کے عرض کی کہ اس کی اصلاح فرمائیں۔ اب میں یہ توقع کر رہا تھا کہ حضرت اس میں خود اصلاح فرمائیں گے تو مجھے پتا چل جائے گا کہ ایسا کرنا ہے لیکن حضرت نے اس میں ”کا، کی، کے“ درست کرنے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں کیا۔ مضمون میں جو اردو کی غلطیاں تھیں وہ نکالیں اور باقی مضمون کو بالکل نہیں چھیڑا۔ یہ وہ چیز ہے جن میں ہمارے مشائخ اپنے شیخ سے اختلاف کی اجازت دیتے ہیں اور اس میں قباحت نہیں سمجھتے۔ لیکن اپنے آپ کو نمایاں کرنے کے خیال سے اختلافی بات کرنا انسان کو خراب کر دیتا ہے کیونکہ وہ تصوف کے زمرے میں آتا ہے۔

الحمد للّٰہ، میں نے حضرت کے ساتھ ایسے کسی معاملہ میں کبھی اختلاف نہیں کیا، بلکہ ایسے معاملات میں ڈانٹ پڑنے پہ خوش ہوتا تھا کہ الحمد للّٰہ دھلائی ہو رہی ہے۔ کیونکہ اس میں تو اختلاف نہیں تھا، اختلاف فقہی بات پہ تھا۔ فقہی بات پہ اختلاف ہو سکتا ہے۔

انگلینڈ کے ایک صاحب مجھ سے بیعت ہوئے ہیں، میرے خیال میں انہیں بیعت کئے ہوئے دو ہفتے ہو چکے ہوں گے۔ وہ مالکی فقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے باقاعدہ مجھ سے پوچھا کہ میں مالکی ہوں اور میں آپ سے بڑا متاثر ہوں، آپ سے اپنا اصلاحی تعلق قائم کرنا چاہتا ہوں، کہیں میرا مالکی ہونا اس میں رکاوٹ تو نہیں بنے گا؟ میں نے اسے جواب دیا کہ ہمارے نزدیک حنفی فقہ، مالکی فقہ، شافعی فقہ اور حنبلی فقہ ساری فقہیں صحیح ہیں، ہم لوگ سب فقہوں کو صحیح مانتے ہیں ان میں صحیح اور غلط کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں کرتے، لہذا آپ جس فقہ پر بھی ہیں اسی پر قائم رہیں، یہی بات آپ کے اور میرے اتفاق کا ذریعہ ہے، کیونکہ میں بھی مقلد ہوں آپ بھی مقلد ہیں، اختلاف کیسے ہو گا، اس میں تو اختلاف ہے ہی نہیں۔ اس پر وہ بہت خوش ہوئے، اس کے بعد بیعت ہو گئے۔

سوال نمبر7:

بہت ساری باتیں کتابوں سے ہی معلوم کی جا سکتی ہیں اور مشائخ کے سننے سے زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟

جواب: یہ سوال معصومیت والا ہے۔

مشائخ جو بات کرتے ہیں اس میں علمی تَعَلِّی نہیں ہوتی۔ الحمد للّٰہ۔ اور مشائخ جو بات کرتے ہیں اللّٰہ جل شانہ کے لئے کرتے ہیں، اس میں اپنے نفس کی کوئی بات نہیں ہوتی۔ بس یہ دو شرائط ہیں کہ اس میں تَعَلِّی نہ ہو اور اپنے نفس کے لئے نہ ہو۔ جب کوئی بات اللّٰہ کے لئے ہے تو پھر اللّٰہ پاک کی بات میں اثر تو ضرور ہو گا۔

؏ دل سے جو نکلتی ہے اثر رکھتی ہے

اگر کوئی بات دل سے نکل رہی تو اس کا اثر تو لازماً ہو گا۔ بس اتنی احتیاط کرنی چاہیے کہ جب انسان کوئی بات کرے، ایک تو اس میں فوقیت جتانے کا عنصر شامل نہ ہو کہ میں جانتا ہوں۔ اگر یہ بات کسی میں ہے تو اس کے علم میں اثر نہیں ہو گا، لوگوں کو اس سے فائدہ نہیں ہو گا۔ دوسرا یہ کہ وہ بات اس کے اپنے نفس کے لئے نہ ہو بلکہ اللّٰہ کے لئے ہو۔ اگر وہ اختلاف بھی کر رہا ہو تو اللّٰہ کے لئے کر رہا ہو، اگر حمایت بھی کر رہا ہو تو اللّٰہ کے لئے کر رہا ہو، ڈانٹ بھی رہا ہو تو اللّٰہ کے لئے، تعریف بھی کر رہا ہو تو اللّٰہ کے لئے، کسی چیز کو روک رہا ہو تو اللّٰہ کے لئے، کسی کو دے دے رہا ہو تو بھی اللّٰہ کے لئے۔ جب یہ بات ہو تو پھر اللّٰہ پاک ایسے آدمی کی بات میں اثر رکھتے ہیں۔ مشائخ کے اندر یہ بات ہوتی ہے چونکہ اللّٰہ تعالیٰ ان کو قبولیت عطا فرما دیتے ہیں لہذا ان کی بات میں اثر ہوتا ہے۔

سوال نمبر8:

اکثر اوقات سفید پوش لوگ حکومت کی بد انتظامی کا شکار ہوتے ہیں جیسے اکثر اوقات غریب اور سفید پوش لوگوں کو واپڈا کے اضافی بل بھرنا پڑتے ہیں، کیا وہ اضافی بل برداشت کریں یا اوروں کی طرح اس نیٹ ورک کا حصہ بنیں؟

جواب:

یہ سوال مجھ سے کرنے کا نہیں ہے یہ افتاء سے تعلق رکھتا ہے لہٰذا مفتی صاحب سے پوچھ لیا جائے۔ میں مفتی ظہیر صاحب کا نمبر دے دیتا ہوں۔ اس نمبر کو نوٹ کر لیں اور ان سے سوال کر لیں۔ ابھی میرے موبائل کی چارجنگ ختم ہے اس کو چارجنگ پہ لگا دیں اور مفتی صاحب کا نمبر مجھے دے دیں۔ اچھا ہوا کہ مفتی صاحب کے نمبر کی برکت سے مجھے یہ پتا چل گیا، مفتی ظہیر صاحب کا نمبر نوٹ کر لیں:

0321-5155708

سوال نمبر9:

کیا روحانی امراض کا جسمانی امراض پر اور جسمانی مراض کا روحانی مراض پر اثر ہوتا ہے؟

جواب:

روحانی امراض کا جسمانی امراض پر اثر ہوتا ہے۔ اگر کسی میں حسد ہے تو اس سے کڑھن پیدا ہوتی ہے، کڑھن سے acidity (تیزابیت) پیدا ہوتی ہے، اور اس سے پھر مزید مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اِسی کڑھن سے اعصابی تناؤ بھی پیدا ہوتا ہے، بلڈ پریشر اور شوگر کی بیماری بھی بن سکتی ہے، اگر پہلے سے ہو تو بڑھ سکتی ہے۔ یہ مثالیں دے رہا ہوں۔ مختلف روحانی امراض کا اثر تو جسمانی امراض پر ضرور ہوتا ہے لیکن جسمانی امراض کا اثر روحانی امراض پر میری تحقیق کے مطابق نہیں ہوتا، کیونکہ جسمانی امراض اگر کسی روحانی بیماری سے نہیں بنے تو وہ ایک مجاہدہ ہیں، ان کا فائدہ ہو گا۔ وہ ایک مجاہدہ ہیں جس کی وجہ سے اس کو صبر کی توفیق ہو رہی ہے، اللّٰہ پاک کا قرب حاصل ہو رہا ہے۔ جسمانی امراض کا شکار لوگوں کی ترقی کے ذرائع دوسرے ہوتے ہیں۔ عام لوگوں کی ترقی کے ذرائع الگ ہوتے ہیں جبکہ جسمانی امراض کے شکار لوگوں کی ترقی کے ذرائع الگ ہوتے ہیں۔ اسی میں شیخ کامل کی ضرورت پڑتی ہے جو ان کو صحیح راستے پر چلاتا ہے۔

ہمارے شیخ حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ بیماریوں کا خزانہ تھے۔ ان کو بہت ساری بیماریاں لاحق تھیں۔ لیکن ان بیماریوں نے ان کو نقصان نہیں پہنچایا بلکہ فائدہ پہنچایا۔

الغرض روحانی امراض سے جسمانی امراض لاحق ہو سکتے ہیں یا بڑھ سکتے ہیں لیکن جسمانی امراض سے روحانی امراض لاحق نہیں ہوتے، اگر وہ کسی روحانی مرض سے نہیں پیدا ہوئے۔ وَ اللّٰہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ۔

سوال نمبر10:

سنا ہے سب سے پہلے آدمی کی عبادت ٹھیک ہوتی ہے پھر معاملات ٹھیک ہوتے ہیں؟

جواب:

صحیح سنا ہے۔ عبادات کے لئے ایمان کے جس درجے کی ضرورت ہے معاملات کے لئے اس سے زیادہ درجے کے ایمان کی ضرورت ہے۔ انسان وہ کام نسبتاً آسانی سے کر سکتا ہے جس میں پیسہ نہ لگتا ہو یا مفادات کا ٹکراؤ نہ آتا ہو جیسے کہ عبادات ہیں، وہ نسبتاً آسانی سے درست ہو سکتی ہیں لیکن معاملات میں چونکہ پیسہ اور مفادات شامل ہوتے ہیں لہٰذا شیطان کو زیادہ موقع مل جاتا ہے اور معاملات کی درستگی سے روک دیتا ہے۔ معاملات تب درست ہوتے ہیں جب انسان کے اندر ایمانی کیفیت اس درجہ پہ آ جائے کہ وہ معاملات پر بھی حاوی ہونے لگے تب معاملات درست ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ معاملات کے بعد معاشرت کا نمبر ہے، معاملات کے بعد معاشرت کی اصلاح ہوتی ہے اور سب سے اخیر میں اخلاق درست ہوتے ہیں کیونکہ ساری چیزیں اخلاق کا جز ہیں۔ کیا خیال ہے اگر کوئی شخص نماز نہیں پڑھتا وہ بد اخلاق ہے یا نیک اخلاق والا ہے؟ جو معاملات میں گڑ بڑ کرتا ہے وہ بد اخلاق ہے یا نیک اخلاق والا ہے؟ جس کی معاشرت صحیح نہ ہو وہ بد اخلاق ہے یا نیک اخلاق والا ہے؟ ظاہر ہے یہ سب کام بد اخلاقی میں آئیں گے۔ لہٰذا باقی ساری چیزیں اخلاق کا جز ہیں اس لئے اخلاق کی اصلاح سب سے اخیر میں ہوتی ہے۔ اس کے لئے ایمان کے بہت اعلیٰ درجے کی ضرورت ہوتی ہے۔ چنانچہ یہی ترتیب ہے۔

سوال نمبر11:

کیا ضرورت کے وقت بائیں ہاتھ پر تسبیح پڑھ سکتے ہیں، یہ بے ادبی تو نہیں؟

جواب:

یقیناً ضرورت کے وقت تو بائیں ہاتھ سے کھانا کھانا بھی کھایا جا سکتا ہے۔ اگر کسی کا ایک ہاتھ معذور ہے یا کسی نے اس کا ایک ہاتھ باندھ دیا، اب کیا کریں گے؟ ایسی صورت حال میں آپ بایاں ہاتھ استعمال کر سکتے ہیں۔ لیکن یہ ضرورت پر منحصر ہے۔ پتا نہیں سوال کرنے والے ضرورت کس کو کہتے ہیں۔ سوال میں ضرورت کی تفصیل موجود نہیں ہے، جتنی بات سوال میں موجود ہے اس کے مطابق تشریح عرض کر دی ہے۔

سوال نمبر12:

کیا اللّٰہ سے محبت بھرا شکوہ کیا جا سکتا ہے؟ جیسے علامہ اقبال کا شکوہ ہے۔

جواب:

علامہ اقبال کا شکوہ اللّٰہ سے تھوڑا ہی تھا وہ تو لوگوں کا شکوہ بیان کر رہے تھے کہ لوگ اللہ سے شکوہ کرتے ہیں۔ علامہ اقبال نے اس شکوے کو اپنے الفاظ میں بیان کر دیا۔ در اصل وہ لوگوں کے شکووں کو بیان کر رہے تھے کہ لوگ یہ کہتے ہیں اور پھر اللّٰہ کی طرف سے جواب دیا کہ غلطی ہم لوگوں میں ہی ہے اللّٰہ تعالیٰ کی چیزوں میں کوئی غلطی نہیں ہے۔

ہم تو مائل بہ کرم ہیں، کوئی سائل ہی نہیں

راہ دِکھلائیں کسے، رہروِ منزل ہی نہیں

(شاعر: علامہ اقبال۔ نظم جوابِ شکوہ)

اس شعر میں علامہ اقبال گویا اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے لوگوں کے شکوے کا جواب بیان کر رہے ہیں۔ یہ اصل میں علامہ اقبال نے لوگوں کے concepts درست کرنے کی کوشش کی ہے اور اس کو ”شکوہ جواب شکوہ“ کا عنوان دے دیا ہے۔ یہ علامہ اقبال کا اپنا شکوہ تھوڑا ہی ہے! اگر اپنا شکوہ ہوتا تو جواب کیسے آئے؟ یہ ان کا اپنا شکوہ نہیں تھا بلکہ لوگوں کے شکوے تھے جو علامہ اقبال نے اپنے الفاظ میں بیان کیے اور پھر اللہ پاک کی طرف سے جواب بھی دیا۔

ایسا نہ ہو کہ آپ بھی اس طرح شکوہ کرنے لگیں، ہر ایک اس طرح نہیں کر سکتا۔ اعتدال قائم رکھنا بڑا مشکل کام ہے۔ جیسے کوئی High jump لگانے والا چھوٹی ندی سے چھلانگ لگا کے پار ہو جائے اور آپ کہیں کہ میں بھی اس طرح کرتا ہوں اور آپ High jump لگانے والے ہوں ہی نہ، تو کیا ہو گا، یہ ہو گا کہ آپ نے چھلانگ لگائی اور سیدھا ندی کے اندر گر پڑے، مزہ آ جائے گا۔

ہر شخص کی تقلید نہیں کی جا سکتی لہذا انسان محفوظ رستے پہ ہی چلے بلاوجہ پنگا لینے کی کوشش نہ کرے۔ ایسا نہ ہو ہڈی پسلی ایک ہو جائے۔

سوال نمبر13:

ایک حدیث سنی ہے کہ دین نصیحت ہے اللّٰہ کے لئے اور اس کے رسول کے لئے اور مومنوں کے لئے۔ دین اللہ کے لیے کیسے نصیحت ہو سکتا ہے؟

جواب:

نصیحت کہتے ہیں خیر خواہی کرنے کو ، یہی مشہور ہے اور غالبا اسی وجہ سے آپ کو یہ اشکال پیش آیا ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کی خیر خواہی کوئی کیسے کر سکتا ہے اللہ تعالیٰ تو دوسروں کی خیرخواہی فرماتے ہیں .

لیکن یہ مرادی ترجمہ ہے اصل میں نصیحت ماخوذ ہے نصیحت العسل سے جبکہ شہد کو صاف کر لیا جائے ،اس سے معلوم ہوا کہ نصیحت کے مفہوم میں اخلاص داخل ہے، اور بعض کہتے ہیں کہ نصیحت الثوب بالمنصحۃ سے ماخوذ ہے یعنی کپڑے کے شگاف کو سوئی سے رفو کر لینا ،اس سے معلوم ہوا کہ نصیحت کے مفہوم میں اصلاح داخل ہے.

اور اما خطابی فرماتے ہیں کہ: "اَلنَّصِی‬۠حَۃُ کَلِمَۃُٗ جَامِعَۃُٗ مَع۠نَاھَا حِیاَزَۃُ ال۠حَظِّ ال۠مَن۠صُو۠حِ لَہٗ" یعنی نصیحت ایک جامع کلمہ ہے اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ جس کی نصیحت کی جائے اس کے سارے حصے اور حق کو پورے طور پر اس کو ادا کیا جائے.

اب حدیث پاک کا مطلب یہ ہوا کہ دین یہ ہے کہ آدمی اللہ تعالیٰ کیلئے اخلاص کرے اور اسکے سارے حقوق کو ادا کرے اخلاص و صدقِ دل سے آپ ﷺ پر ایمان لائے آپ کی اطاعت کرے، آپ کی وفات کے بعد آپ کی سنتوں کو اختیار کرے اور دین میں اگر لوگوں کی جہالت و نفسانیت کی بناء پر کوئی خرابی داخل ہو گئی ہو جیسے بدعات و رسوم تو دین کی اصلاح کرے، اور ائمۃ المسلمین یعنی اسلامی احکام کے ساتھ اخلاص کرے ان کے حقوق کو ادا کرے اور ان کی حمایت کرے اور اگر کوئی اس میں خرابی ہو تو ان کو نرمی سے باخبر کر کے اصلاح کرے اور عام مسلمانوں کے حقوق کو ادا کرے اور ان کی اصلاح کی فکر کرے .

سوال نمبر14:

کیا مجاہدات کے بغیر بھی کوئی واصل باللّٰہ ہو سکتا ہے؟

جواب:

پہلے یہ سمجھ لیں کہ مجاہدات کس کو کہتے ہیں۔ مجاہدات دو قسم کے ہیں۔ شرعی مجاہدات اور علاجی مجاہدات۔ شرعی مجاہدات تو ہر ایک کے لئے لازمی ہیں وہ تو نبی بھی کرتا ہے۔ مثلا نماز روزہ وغیرہ فرائض و واجبات اور سنت عبادات۔ یہ مجاہدہ تو ہر ایک نے کرنا ہوتا ہے لیکن اختیاری یا علاجی مجاہدات حسب ضرورت ہوتے ہیں۔ جس کو ضرورت ہو گی اس کا کام ان مجاہدات کے بغیر نہیں ہو سکے گا اور جس کو ضرورت نہیں ہو گی اس کا کام ان مجاہدات کے بغیر بھی ہو جائے گا۔

سوال نمبر15:

معاملات کی صفائی کتنی ضروری ہے؟

جواب:

اس کے جواب میں میرا سوال ہو گا کہ جنت پہنچ جانا کتنا ضروری ہے اور دوزخ سے بچنا کتنا ضروری ہے؟ معاملات کی صفائی کے بغیر انسان دو رکعتیں بھی نہیں پڑھ سکتا اور جنت پہنچنے کا نام بھی نہیں لے سکتا۔ میرا خیال ہے میرے سوال میں جواب موجود ہے کہ جتنا جنت پہنچنا ضروری ہے اور دوزخ سے بچنا ضروری ہے، معاملات کی صفائی بھی اتنی ہی ضروری ہے۔

سوال نمبر16:

آج کل کے دور میں پڑوسی دوسروں سے ہی اچھائی کی توقع رکھتے ہیں جب کہ خود ہمیشہ دوسروں کو تکلیف دیتے ہیں، کوئی اچھائی نہیں کرتے۔ اگر کوئی پڑوسی تکلیف دے یا آپ کے گھر کو نقصان دے تو خاموشی اختیار کی جائے یا اسے دعا دیں یا کان کے بدلے کان، ناک کے بدلے ناک والا معاملہ کریں، یا بس اللّٰہ سے فریاد کر لیں؟

جواب:

حقوق و فرائض کے معاملات میں بے توجہی آج کل کے دور کا المیہ ہے۔ ہر شخص کو اپنا حق پتا ہوتا ہے مگر اپنا فرض نہیں پتا ہوتا نتیجتاً لڑائی ہوتی ہے۔ اگر ایک انسان کو حق کا بھی پتا ہو اور فرض کا بھی پتا ہو تو پھر لڑائی نہیں ہوتی، اسی طرح ہر پڑوسی کو اپنے حق کا پتا ہے لیکن اپنے فرض کا پتا نہیں، نتیجتاً دونوں لڑ رہے ہیں۔ یہ اعتدال تو ہم نے اپنی زندگیوں میں لانا ہے۔ یہی تو تربیت ہے۔ جب تک تربیت نہیں ہو گی یہ چیزیں ہوتی رہیں گی، یہ معاملہ چونکہ بڑا لمبا ہے اس وجہ سے اس میں فوری فیصلہ تو مشکل ہے۔ کیونکہ مختلف حالات میں مختلف طریقے اختیار کرنے پڑتے ہیں، کبھی خاموش رہنے میں عافیت ہوتی ہے، جہاں فتنے کا اندیشہ ہوتا ہے وہاں خاموش رہنا بہتر ہوتا ہے۔ دعا تو بہر حال کرنی چاہیے، ہر مسلمان کے لئے دعا کرنی چاہیے۔ کبھی کبھی کان کے بدلے کان ناک کے بدلے ناک والے معاملے کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ اگر کسی کی اصلاح اس کے بغیر نہیں ہو سکتی اور وہ اس حد تک آ گیا ہے کہ لوگوں کو تکلیف پہنچاتا ہے، ایسی صورت میں اگر کسی کا بس چلتا ہے تو اس کو برابر کی ٹکر لگا سکتا ہے تاکہ دوسرے لوگ اس کے شر سے محفوظ رہیں۔ جتنا نقصان اس نے پہنچایا اتنا ہی نقصان اس کو پہنچا سکتا ہے۔ لیکن یہ کبھی کبھی ہوتا ہے، ضروری نہیں کہ ہر دفعہ ہو۔ اللّٰہ پاک سے فریاد بھی کرنی چاہیے کہ اللّٰہ جل شانہ مدد فرمائے۔

ایک دفعہ تین اولیاء اللّٰہ بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک آدمی آیا، اس نے ہر ایک کو ایک ایک تھپڑ رسید کیا۔ ایک بزرگ تو بالکل خاموش بیٹھے رہے انہیں پتا ہی نہیں لگا۔ ایک نے اس کا ہاتھ چوم لیا۔ ایک بزرگ اٹھے، اس کو ایک تھپڑ مارا اور پھر بیٹھ گئے۔

حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے فرمایا کہ پہلے بزرگ مستغرق تھے انہیں پتا ہی نہیں چلا کہ میرے ساتھ کچھ ہوا ہے۔ دوسرے بزرگ پہ چشتیت کا غلبہ تھا۔ انہوں نے اس کو اللّٰہ کی طرف سے سمجھ لیا کہ یہ میری اصلاح کے لئے آیا ہے اور اس نے اس کا ہاتھ چوم لیا۔ تیسرے نے شریعت پر عمل کر لیا کہ کان کے بدلے کان، ناک کے بدلے ناک۔

ایسا ہوتا ہے، مختلف مزاج ہوتے ہیں اور مختلف لوگوں پہ بعض غلبے بھی ہوتے ہیں وہ اس کے حساب سے معاملہ کرتے ہیں۔

سوال نمبر17:

ایک سوال میرے پاس یہ آیا ہے کہ تقوی کیا ہے اور اس کو کیسا ہونا چاہیے؟

جواب:

تقوی کیا ہے؟ میں آپ کو اس کا جواب قرآن پاک سے دیتا ہوں۔

﴿اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ كَانُوْا یَتَّقُوْنَؕ﴾ (یونس: 62-63)

ترجمہ: ”یاد رکھو کہ جو اللہ کے دوست ہیں ان کو نہ کوئی خوف ہو گا نہ وہ غم گین ہوں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے، اور تقوی اختیار کیے رہے“۔

جو ولایت مطلوب ہے اس کا مدار دو چیزوں پر بتایا جا رہا ہے۔ ایک ایمان اور دوسرا تقوی۔ ایمان کے بغیر تو کوئی چیز ہے ہی نہیں وہ تو آپ لازمی سمجھ لیں باقی جتنے بھی تقاضے ہیں وہ تقویٰ میں ہیں۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ تقویٰ ہی سارا دین ہے۔ ایمان کے علاوہ جو بھی مطلوب ہے وہ تقویٰ میں ہی ہے۔ یہ سب تقوی میں آتا ہے کہ انسان اللّٰہ کو ناراض نہ کرنا چاہے، اللّٰہ کی ناراضگی سے ڈرتا ہو۔ دین اسلام میں جو چیزیں کرنے کی ہیں وہ سب کرنی ہوں گی تب اللّٰہ ناراض نہیں ہو گا۔ اور یہ صرف ظاہری طور پر نہیں بلکہ کیفیتِ احسان کے ساتھ دل سے کرنی ہوں گی۔ یوں سمجھ لیں کہ کیفیتِ احسان کے ساتھ اسلام کے عام ارکان جمع ہو جائیں تو اس کو تقویٰ کہتے ہیں۔ یہ تقویٰ کی بڑی جامع تعریف ہے۔

تقویٰ کیسے حاصل کیا جائے؟

اس کے دو طریقے ہیں ایک طریقہ سلوک کا ہے اور دوسرا طریقہ جذب کا ہے۔ سلوک میں ہر ایک رذیلہ کو علیحدہ علیحدہ ختم کیا جاتا ہے، یہ طریقہ ذرا لمبا ہے۔ جذب کے طریقہ کی تفصیل یہ ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:

”حُبُّ الدُّنْیَا راْسُ کُلِّ خَطِیْئَۃٍ“۔ (موسوعۃ لابن ابی الدنیا، کتاب ذم الدنیا، الجزء الاوّل، حدیث: 9)

ترجمہ: ”دنیا کی محبت ساری خطاؤں کی جڑ ہے“۔

اگر دنیا کی محبت دل سے نکال دی جائے تو ساری خطائیں ختم ہو جائیں گی۔ اللّٰہ کی محبت دل میں ڈالنے کے ساتھ دنیا کی محبت کو باہر نکالنا، یہ طریقۂ جذب ہے۔

سوال نمبر18:

کیا عورت کو اس کا شوہر یا اس کے والدین عبادت کی بجائے اپنا حکم ماننے کا کہہ سکتے ہیں؟

جواب:

شوہر اپنی بیوی کو روک سکتا ہے یا نہیں، اس بارے میں تو مجھے پتا نہیں، لیکن والدین کا روکنا اگر اس طرح ہو کہ اس کی وجہ سے فرائض و واجبات پہ اثر پڑے تو پھر یہ روکنا جائز نہیں ہو گا۔ ہاں اگر وہ کسی جائز کام کے بارے میں حکم دیں کہ یہ کام کرو اور اس کے مقابلے میں آپ کا نفلی عمل آ جائے تو اس وقت ان کے حکم کو پورا کرنا چاہیے کیونکہ والدین کا حکم آپ کے لئے نفل سے اونچا درجہ رکھتا ہے۔ اگر ان کا حکم ناجائز کام کے کرنے کا ہو تو اس کو ماننا جائز نہیں ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے:

”لَا طَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ الْخَالِقِ“ (صحیح مسلم: 4871)

ترجمہ: ”کسی مخلوق کی ایسی اطاعت جائز نہیں جس میں خالق کی نا فرمانی ہوتی ہو۔“

اگر جائز کام ہو تو والدین کے حق کا احترام یہ ہے کہ نفلی عمل اس میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔ البتہ یہ یاد رہے کہ اس حکم کی وجہ سے کوئی واجب ترک نہ ہو رہا ہو، یا وہ ایسا کام ہو جس سے آپ کو آپ کے معالج نے روکا ہو اور والدین اس کام کو کرنے کا حکم دیں تو اسے نہ ماننے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

جو کہا گیا ہے اللہ اس کو سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن