سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 48

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی


اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال نمبر 1:

انتشارِ قلبی کسے کہتے ہیں؟

جواب:

یکسوئی نہ ہونے کو انتشار قلبی کہتے ہیں مثلاً بہت سارے شوق ہوں، تو ظاہر ہے ہر شوق کے بارے میں انسان کو خیال ہوتا ہے جس کی وجہ سے انسان کو یکسوئی حاصل نہیں ہوتی۔ جب کہ اس کام میں یکسوئی بے حد ضروری ہے۔ فرماتے ہیں ’’یکسوئی ہو چاہے پاس ایک سوئی بھی نہ ہو‘‘۔ یکسوئی سے انسان کے بہت سارے کام بنتے ہیں۔ جو لوگ انتشار قلبی میں مبتلا ہوتے ہیں ان کو یکسوئی حاصل نہیں ہوتی۔ نتیجتاً انہیں ذکر اور مراقبات کامیابی جلدی نہیں ہوتی۔ لہذا پہلے اس انتشارِ قلبی کو دور کر کے یکسوئی کو لانا پڑے گا پھر اس کے بعد باقی چیزیں آتی ہیں۔

سوال نمبر 2:

انتشار قلبی پہ قابو پانے کا آسان طریقہ کیا ہے؟

جواب:

انتشارِ قلبی پہ قابو پانے کا آسان طریقہ تو یہی ہے کہ انسان اپنے آپ کو سمجھا دے کہ میرا زیادہ فائدہ کس چیز میں ہے، جب اس کو پتا چل جائے گا کہ میرا زیادہ فائدہ یکسوئی میں ہے تو پھر اس کے لیے باقی سوچوں کو وہ ختم کر سکے گا۔ مثلاً اللّٰہ پاک فرماتے ہیں:

﴿بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا٘ۖ وَ الْاٰخِرَةُ خَیْرٌ وَّ اَبْقٰیؕ (الاعلی: 16-17)

ترجمہ: ’’لیکن تم لوگ دنیوی زندگی کو مقدم رکھتے ہو۔ حالانکہ آخرت کہیں زیادہ بہتر اور کہیں زیادہ پائیدار ہے‘‘

اب اگر انسان اپنے ذہن کو یہ سمجھا دے کہ میں تو ان چیزوں میں پڑا ہوں حالانکہ مجھے ان چیزوں سے کوئی فائدہ نہیں ہے اور اللّٰہ تعالیٰ کے ساتھ میرا ہر وقت کا معاملہ ہے لہذا مجھے اس کے بارے میں بہت زیادہ خیال رکھنا ہے کہ میں اس کو راضی رکھوں، تو اس طرح یکسوئی حاصل ہو سکتی ہے۔ مثلاً ایک لڑکی کی شادی ہو جائے اور اس کا خاوند اس کو اچھا نہ سمجھتا ہو، تو اگر پوری دنیا کے باقی سارے لوگ اس کو اچھا کہتے ہوں تو اس کو کوئی فائدہ نہیں ہے، اس کو تو نقصان ہے۔ اور اگر اس کو اپنا خاوند اچھا کہتا ہے اور باقی لوگ اس کو اچھا نہیں کہتے تو اس کو اتنا زیادہ نقصان نہیں ہے۔ اسی طرح اگر اللّٰہ کے ساتھ ہمارا معاملہ درست ہو تو باقی چیزوں کی ہم اتنی پروا نہیں کریں گے۔ ؎

وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے

ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات

یعنی انسان پھر ہر ایک کو راضی کرتا ہے، فلاں کو بھی راضی کروں، فلاں کو بھی راضی کروں۔ تو ان مختلف لوگوں کو راضی کرنا آسان نہیں ہے، لہذا اسی ایک کو راضی کر لیا جائے اور وہ زیادہ مہربان بھی ہے۔ لہذا اگر ہم لوگ اسی کو راضی کرنے پہ لگ جائیں اور آخرت کے بارے میں سوچیں تو پھر ہمارے ذہن کو خوشی حاصل ہو سکتی ہے۔

سوال نمبر 3:

بعض اوقات نیٹ استعمال کرتے ہوئے نا مناسب براؤزنگ شروع ہو جاتی ہے۔ اس سے بچنے کا آسان طریقہ بتا دیں۔

جواب:

اصل میں بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ انسان کے جذبات اور انسان کے نفس میں جو خواہشات ہیں وہ تو انسان کے ساتھ موجود ہوتی ہیں، تو جب بھی اس کو اس قسم کی چیز ملتی ہے جو اس کے نفس کی خواہش کو پورا کرتی ہے تو وہ اس کی طرف لپکتا ہے۔ ان چیزوں سے انسان اپنے آپ کو اس طرح بچا سکتا ہے کہ وہ اپنے اوپر کچھ پابندیاں لگائے، اپنے آپ کو آزاد نہ چھوڑے۔ اس کے لئے ایک تو اپنی سکرین کو public کر دے اس کو private نہ کرے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس کے جتنے بھی filters ممکن ہیں ان کو استعمال کر ے۔ اگرچہ سو فیصد تو اس میں کامیابی نہیں ہوتی لیکن جتنے فیصد ہو سکتی ہے کم از کم اتنے اثرات تو کم ہو جائیں گے۔ اور تیسری بات یہ ہے کہ اگر کوئی ایسی صورت پھر بھی پیش آ جائے تو ہمت کر کے اس سے اپنے آپ کو ہٹا دے اور کسی مفید کام کی طرف متوجہ ہو جائے۔

سوال نمبر 4:

حضرت جس طرح غم کی حالت میں انسان کے آنسو اس سے باہر نکلتے ہیں تو نفسیاتی طور پہ وہ غم سے دور ہو جاتا ہے۔ اسی طرح گناہ کرنے کے بعد توبہ و استغفار کرتا ہے اور دل سے ندامت ہو تو کیا وہ بھی نفسیاتی طور پراس گناہ سے دور ہو جاتا ہے؟

جواب:

اس کے لیے نفسیاتی کا تو آپ نے تھوڑا سا کم لفظ اختیار کیا ہے، اصل چیز تو یہ ہے کہ اللّٰہ جل شانہ اس کو معاف کر دیتا ہے لہذا توبہ سے گناہ معاف ہو جاتا ہے اور جو آنسو بہتے ہیں وہ اللّٰہ تعالیٰ کے در میں قبول ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے گناہ کا اثر بھی اللّٰہ پاک ہٹا دیتا ہے۔ آئندہ کے لیے اس میں تھوڑی سی مزاحمت آ جاتی ہے۔ کیونکہ اگر کسی آدمی سے گناہ ہو اور فوراً توبہ کرے اور اللّٰہ کے سامنے گریہ و زاری کرے تو اس سے نہ صرف یہ کہ گناہ معاف ہو جاتا ہے بلکہ اس کو اللّٰہ تعالیٰ قریب بھی کر لیتا ہے۔ یہ چیز شیطان سے برداشت نہیں ہوتی۔ اگر کسی انسان سے جب بھی کبھی گناہ ہو تو وہ بلا دریغ فوراً توبہ کرے اور یہی کام کرے، تو اس سے شیطان کو تکلیف ہوتی ہے۔ لہذا جب کئی بار ایسا ہو جائے تو شیطان اس کو وہ گناہ چھڑا دیتا ہے کہ اس سے یہ گناہ نہیں کرانا یہ تو مفت میں ترقی پا رہا ہے۔

سوال نمبر 5:

حضرت اسی سلسلے میں شاید آپ سے سنا ہے کہ غالباً حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللّٰہ علیہ جب استغفار کرتے تھے تو ساتھ کپڑا رکھتے تھے اور اپنے آنسو پونچھتے جاتے تھے۔ گویا دل کی ندامت کے ساتھ جب آدمی توبہ کرتا ہے تو آنسو بہتے ہیں۔

جواب:

جی ہاں! جس انسان کی طبیعت میں رقت قلبی ہو، جب وہ افسوس کر رہا ہو تو اس کے ساتھ آنسو تو آتے ہیں اور جتنی ندامت زیادہ ہو توبہ کے اثرات اتنے ہی اچھے ہوتے ہیں۔

سوال نمبر 6:

حضرت کیا مصیبت اور ناگواری میں بھی اللّٰہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس سے بڑی مصیبت نہیں آئی؟

جواب:

جی ہاں! یہ بھی ایک طریقہ ہے کہ اگر کوئی تکلیف اور مصیبت آ جائے تو اپنی تکلیف سے زیادہ تکلیف کو دیکھ کر انسان کو شکر کی توفیق ہو جاتی ہے اور صبر کی توفیق ہو جاتی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ مجھے جو تکلیفیں پہنچی ہیں وہ بعد میں میری امت کی عیادت کریں گی، یعنی اس سے ان کو پتا چلے گا کہ دیکھو! آپﷺ کے اوپر اتنی تکلیفیں آئی تھیں تو ہم کیا ہیں۔ اس سے صبر کرنے کی توفیق ہو گی۔

سوال نمبر 7:

حضرت! نماز میں شک ہو جاتا ہے اور یہ عادت بن جاتی ہے کہ کہیں رکوع تو نہیں رہ گیا، سجدہ تو نہیں رہ گیا۔ فرض غسل میں شک ہو جاتا ہے کہ فلاں جگہ خشک تو نہیں رہ گئی لہذا بار بار اس جگہ کو مل رہے ہوتے ہیں۔ اسی طرح وضو میں بھی شک ہو جاتا ہے۔ جب یہ عادت بن جاتی ہے تو اس کو کہاں تک نظر انداز کیا جا سکتا ہے؟

جواب:

در اصل یہ ایک بیماری بن جاتی ہے لہذا اس کا علاج ہوتا ہے۔ بعض دفعہ یہ عارضہ psychiatric range میں چلا جاتا ہے یعنی نیورونز متاثر ہو جاتے ہیں، ایسی صورت میں ماہرِ نفسیات سے اس کا باقاعدہ علاج کرنا پڑتا ہے، اس کے لیے کچھ دوائی لینی پڑتی ہے۔ لیکن اگر یہ psychiatric range میں نہیں گیا، صرف psychological range میں ہے تو پھر ان کو سمجھایا جائے گا کہ شریعت نے اس میں کیا گنجائش رکھی ہے۔ تو شریعت نے اس میں یہ گنجائش رکھی ہے کہ جہاں تک کپڑے نا پاک ہونے کا یا جسم کے نا پاک ہونے کا وسوسہ ہو تو اس میں قانون یہ ہے کہ جب تک اس کو اتنا یقین نہ ہو کہ اس پہ قسم کھا سکے کہ یہ نا پاک ہو گیا ہے، اس وقت تک اس کو پاک سمجھا جائے۔ اور کپڑے کا بھی یہی مسئلہ ہے کہ اس کے بارے میں بھی جب تک نا پاک ہونے کا اتنا یقین نہ ہو تو اسے پاک خیال کریں۔ جہاں تک جسم کے کسی حصے کے خشک رہنے کی بات ہے تو تین دفعہ اس کو دھو لیں، اس کے بعد چھوڑ دیں، اور پروا نہ کریں۔ ورنہ اگر اس پر عمل ہو گا تو وسوسہ مضبوط ہو گا۔ اور اگر آپ نے ابتدا میں عمل ٹھیک کیا تھا لیکن بعد میں یاد آ جائے کہ فلاں جگہ خشک رہ گئی تھی تو جب تک آپ قسم نہ کھا سکیں کہ فلاں چیز رہ گئی ہے تو اس وقت تک اس کی پروا نہ کریں۔ اور اگر رکعات رہ جانے کا یا کوئی اور عمل رہ جانے کا وسوسہ ہو تو اس صورت میں ظنِ غالب پہ عمل کریں، اگر زیادہ خیال اس طرف ہو کہ تین رکعات ہوئی ہیں تو تین سمجھیں۔ اگر زیادہ خیال اس طرف ہو کہ چار ہیں تو چار سمجھیں۔ یہ مسئلہ ان لوگوں کے بارے میں ہے جن کو اکثر وسوسہ ہوتا ہو، اور جن کو کھی کبھار وسوسہ ہوتا ہو تو ان کے لیے الگ حکم ہے۔

سوال نمبر 8:

حضرت! ایک صاحب سے اس طرح سنا کہ جہاں تک اللّٰہ تعالیٰ کی ربوبیت کی حد ہے وہاں پر حضور پاک کی رحمت کی حد ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿وَمَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّـلْعٰلَمِيْنَ (الانبیاء: 107)

ترجمہ: ’’اور (اے پیغمبر) ہم نے تمہیں سارے جہانوں کے لیے رحمت ہی رحمت بنا کر بھیجا ہے۔‘‘

کیا اس طرح کہنا درست ہے؟

جواب:

ہم لوگ اس میں کیوں پڑیں، حد بندی کیوں کرائیں۔ ہم یہ کہیں گے کہ اللّٰہ پاک ہمارے رب ہیں اور آپ کو اللّٰہ پاک نے رحمت بنا کے بھیجا ہے۔ اللّٰہ پاک کی کوئی بھی صفت محدود نہیں ہوا کرتی۔ لہذا اللّٰہ پاک نے جب آپ کو رحمت بنا کے بھیجا ہے تو جتنی وسعت عطا کی ہے وہ یقیناً ہے۔ بس اتنی بات کرنا بہتر ہے۔ اس سے زیادہ بات سے گریز کرنا بہتر ہے۔ خواہ مخواہ اپنے آپ کو پریشان کیوں کیا جائے۔

سوال نمبر 9:

حضرت یہ جس طرح بجلی کا مسئلہ ہے، پانی کا مسئلہ ہے۔ اس سلسلے میں ایک طرز عمل تو یہ ہے کہ آپس میں تبادلۂ خیال کیا جائے اور حکمرانوں کو گالیاں دی جائیں۔ اور ایک یہ ہے کہ دینی طور پہ ہمیں کیا کرنا چاہیے؟

جواب:

گالیاں تو نہیں دینی چاہئیں البتہ محنت کرنی چاہیے۔ ایک تو اس مسئلے کو ملکی سطح پہ حل کرنے کی کوشش کی جائے۔ اور دوسرا عمومی طور پر توبہ کرنے کے رجحان کو پیدا کر دیا جائے کہ اجتماعی توبہ کرنے کی توفیق ہو جائے۔ کیونکہ ہمارے اعمال کی وجہ سے ہمارے اوپر یہ پریشانی آ چکی ہے۔ اس میں زیادہ دخل نا شکری کا ہے کہ ہم لوگ نا شکری کرتے رہے ہیں اور نا شکری سے نعمتیں گھٹ جاتی ہیں۔ اس کی وجہ کوئی بھی ہو سکتی ہے لہذا جو چیز وجہ بن رہی ہو اس کو تو غلط کہا جا سکتا ہے لیکن اصلی سبب کو بھی دور کرنا چاہیے۔ لہذا یہ دونوں کام کرنے چاہئیں۔

سوال نمبر 10:

ملازمت میں امانت داری سے کام کرنے کا کیا مطلب ہے؟ مثلاً ایک پروفیسر کے دن میں تین چار لیکچر یا تین چار گھنٹے کام کے ہوتے ہیں، باقی وقت وہ فارغ ہیں، لیکن بعض کام ایسے ہیں جو کچھ گھنٹے ہو سکتے ہیں اس کے بعد آدمی تھک جاتا ہے تو امانت داری سے کام لینے کا مجموعی طور پر کیا مطلب ہو گا؟

جواب:

جس آدمی کی جتنی صلاحیت ہے اتنی صلاحیت کے ساتھ کام کرنا ہی اس کے لئے امانت داری ہے۔

سوال نمبر 11:

حضرت، آج کا زمانہ ایمان بچانے کا زمانہ ہے۔ اس حوالے سے جو آپ سے سنا، جو میں سمجھا ہوں اس کا مطلب یہ ہے کہ دین کا کوئی مذاق کر رہا ہو اور ہم ہنس پڑیں تو اس سے بھی ایمان جاتا رہتا ہے۔ اس طرح اور کون کون سے ایمان کے لٹنے کے طریقے ہیں؟

جواب:

اس کا احصاء (احاطہ) تو دشوار ہے کیونکہ مختلف چیزیں ہو سکتی ہیں، لیکن اس قسم کی باتوں اور غلط لطیفوں پہ ہنسنا ایک طرح سے ان کی تائید کرنا ہے اور ایسی کسی بات پر ہاں میں ہاں ملانا گویا کسی کافر کی چیز کو اسلام کے مقابلے میں پسند کرنا ہے۔ یعنی عیسائیت کی کسی بات کو یا یہودیت کی کسی بات کو اسلام کے مقابلے میں پسند کرنا ہے، مسلمان کے مقابلے میں نہیں ہے، کیونکہ مسلمان تو کمزور بھی ہو سکتا ہے، لیکن اسلام تو ہمارا بنایا ہوا مذہب نہیں ہے وہ تو اللّٰہ کی طرف سے آیا ہے۔ جیسے آج ایک صاحب نے کہا کہ عیسائیوں کا میراث کا طریقہ ہمارے طریقے سے زیادہ بہتر ہے۔ میں نے اسے کہا کہ جس نے بھی یہ کہا ہے اگر وہ مسلمان تھا تو اسے کہو کہ اپنے نکاح کی تجدید کر لے، کیونکہ ایسی چیزوں سے ایمان جاتا رہتا ہے۔ لہذا اس میں محتاط رہنا چاہیے کہ اپنے مذہب کی کسی چیز کو غلط نہ کہے۔ عمل کرنا نہ کرنا الگ بات ہے لیکن مذہب کے شعائر کو غلط کہنا اور کسی رکن کو غلط کہنا، یہ خطرناک معاملہ ہے۔

سوال نمبر 12:

حضرت، لطیفوں میں بھی یہی مسئلہ ہے؟ مثلاً اسلام کی کسی چیز پر لطیفہ کہنا، کیا اس میں بھی ایمان کے ضیاع کا خدشہ ہے؟

جواب:

جی ہاں! اللّٰہ کی ذات کے بارے میں، فرشتوں کے بارے میں، اور وہ تمام چیزیں جو ایمانیات سے تعلق رکھتی ہیں ان کے بارے میں اگر کوئی لطیفہ کہے تو بہت خطرناک ہے۔

سوال نمبر 13:

حضرت میرا سوال حاضر ناظر کے حوالے سے ہے۔ مثال کے طور پہ آج کے زمانے میں انسان گھر بیٹھے ہوئے دیکھ سکتا ہے کہ دنیا بھر میں کیا ہو رہا ہے۔ بیٹھا وہ ایک جگہ ہے۔ یا چند گھنٹوں میں جہاز پہ کہیں سے کہیں پہنچ سکتا ہے۔ اس کو ذہن میں رکھتے ہوئے حاضر ناظر سے کیا مراد ہے؟

جواب:

طبعی وسائل کے ذریعے سے جو کوئی کام ہوتا ہو، اس میں حاضر ناظر والی بات نہیں آتی۔ مثلاً آپ ٹیلیفون پہ بات کر رہے ہیں یا آپ ٹیلی ویژن میں وہ چیز دیکھ رہے ہیں یا کوئی اور سسٹم ہے جس کے ذریعے سے آپ کوئی کام کر رہے ہیں، تو وہ ایک physical چیز ہے، اسے حاضر ناظر نہیں کہا جا سکتا۔ ہم حاضر ناظر اسے کہتے ہیں کہ جیسے اللّٰہ جل شانہ ہر جگہ موجود ہے، اس طرح کسی اور کے بارے میں ہر جگہ موجود ہونے کا تصور کرنا، یہ حاضر ناظر کا معنیٰ ہے۔ مثلاً آپ یہ کہہ دیں کہ فلاں ہر جگہ موجود ہے، تو یہ غلط بات ہے۔ باقی تو انباء الغیب ہیں، عین ممکن ہے جیسے یوسف علیہ السلام کنعان میں کنویں میں پڑے ہوئے تھے، یعقوب علیہ السلام کو پتا نہیں چلا لیکن جس وقت ان کی قمیص مصر سے لائی جا رہی تھی حالانکہ کنعان کے مقابلے میں مصر بہت دور ہے، تو یعقوب علیہ السلام نے کہا مجھے یوسف علیہ السلام کی قمیص کی خوشبو آ رہی ہے۔ اللّٰہ پاک نے اس وقت خوشبو نہیں پہنچائی جب وہ قریب تھے اور اس وقت پہنچا دی جب وہ دور تھے۔ اللّٰہ تعالیٰ ہر چیز پہ قادر ہے وہ کسی بھی جگہ کسی کو بھی پہنچا سکتے ہیں اور کسی بھی بات کو اُس تک پہنچا سکتے ہیں۔ چنانچہ جو کام کبھی کبھی ہوتا ہو، ذاتی نہ ہو عطائی ہو، کلی نہ ہو جزوی ہو، دائمی نہ ہو وقتی ہو، تو ایسی چیزوں کو ہم انباء الغیب کہتے ہیں۔ اسی طرح حاضر ناظر میں بھی یہ بات ہے کہ اگر کسی وقت اللّٰہ جل شانہ نے کسی کو کسی جگہ پہ پہنچا دیا جیسے حکایات میں آتا ہے، تو وہ حاضر ناظر نہیں ہے کیونکہ وہ ہر جگہ تو نہیں ہے، صرف اسی جگہ پہنچایا گیا ہے۔ حاضر ناظر کا مطلب تو یہ ہے کہ آپ کسی کو ہر وقت ہر جگہ موجود سمجھیں۔ ایسی صرف اللّٰہ تعالیٰ کی ذات ہے کوئی اور نہیں ہے۔

سوال نمبر 14:

حضرت کچھ اس قسم کا سنا تھا کہ جو کاہن کے پاس جاتا ہے اس کی چالیس دن تک نماز قبول نہیں ہوتی۔ یہ کاہن کیا ہوتا ہے؟ کیا اس سے مراد نجومی ہیں جو بندے کی تاریخ پیدائش وغیرہ دیکھ کر زائچہ وغیرہ بناتے ہیں۔ جواب:

کاہن بھی تقریباً غیب کی باتیں بتانے والے کو کہتے ہیں۔ نجومی بھی یہی کام کرتا ہے۔ ان کے پاس اپنے بارے میں معلومات جاننے کے لئے جانے سے چالیس دن کی نمازیں ضائع ہو جاتی ہیں۔ کاہن کہانت سے نکلا ہے۔ کاہن یعنی وہ لوگ جو چھپی ہوئی باتیں بتا دیتے ہیں، کسی چیز کے بارے میں پیشن گوئی کرنا یا اپنے مخصوص علوم کے ذریعے سے اس قسم کی دوسری چیزوں کے بارے میں بتانا کہانت کہلاتا ہے۔ نجومی بھی اس میں آجاتے ہیں، علم جفر والے بھی اس میں آ جاتے ہیں۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ایسی چیزیں جن میں ستاروں کے اثرات وغیرہ بتائے جاتے ہیں کہ فلاں کا ستارہ یہ ہے، فلاں کا ستارہ یہ ہے۔ اگر کوئی ان کو صحیح مانتا ہے اور اس کی کسی بات پہ یقین کر لیتا ہے تو اس سے چالیس دن کی نمازیں ضائع ہو جاتی ہیں۔

سوال نمبر 15:

یہ جو بعض لوگ ہاتھوں کی لکیریں دیکھ کر کچھ بتاتے ہیں، یہ کیسا ہے؟

جواب:

جس طرح ستاروں پہ ہمارا یقین نہیں ہے، اس طرح ہاتھ کی لکیروں پر بھی ہمارا یقین نہیں ہے۔ در اصل دو قسم کے اثرات ہوتے ہیں ایک ہیں جسمانی علامات، وہ تو ہم مانتے ہیں مثلاً قیافہ شناسی کرنا کہ کسی قاتل کی آنکھ سے اندازہ لگانا کہ یہ قاتل ہے، جھوٹے آدمی کے ہونٹوں سے اندازہ لگانا کہ یہ جھوٹا ہے اور کسی چھپے ہوئے گناہ کی وجہ سے چہرے پہ اس کا اثر آنا، یہ ساری باتیں سائنس ہیں، جس کو قیافہ شناسی کہتے ہیں۔ اس کو کہانت نہیں کہتے۔ کہانت اسے کہتے ہیں کہ مثلاً بعض لوگ نام سے، اعداد سے اور مختلف چیزوں سے حساب لگاتے ہیں اور اس کی بنیاد پر کچھ باتیں بتاتے ہیں وہ کہانت ہوتی ہے۔

سوال نمبر 16:

حضرت، جس طرح بعض بزرگان دین کہتے ہیں کہ آپ کی بندش ہے، آپ ذکر اذکار کریں۔ ان شاء اللّٰہ مہینے تک امید ہے بہتری ہو جائے گی۔

جواب:

یہ تو جادو ہے اور جادو تو ثابت ہے، نیز جادو کے حل کے طریقے بھی ثابت ہیں، اگر اس میں کوئی شرکیہ چیز استعمال نہ ہو رہی ہو تو ٹھیک ہے۔ ایک ہوتا ہے روحانی طریقے سے یعنی فرشتوں کی مدد کے ذریعے سے، اللّٰہ تعالیٰ کی مدد کے ذریعے سے جادو کو توڑنا اور ایک ہوتا ہے جادو کو جادو سے توڑنا۔ جادو کو جو جادو کے ساتھ توڑا جاتا ہے وہ تو نا جائز ہے کیونکہ وہ بھی تو جادو کر رہا ہے۔

سوال نمبر 17:

حضرت، اسکول کالج کے امتحان میں نقل مارنا بد دیانتی ہے؟ تو اس کا کفارہ کیا ہے؟

جواب:

یقیناً یہ ایک بد دیانتی تو ہے لہذا کم از کم توبہ تو کرنی چاہیے کہ آئندہ نہیں کریں گے۔ باقی جو اس نے نقل کے ذریعے نمبر حاصل کر لیے ہیں ان کے بارے میں اب اس کے ساتھ کیا کیا جائے؟ وہ کسی مفتی صاحب سے پوچھ لیں۔

سوال نمبر 18:

حضرت، چرب زبانی کے بھی اثرات ہوتے ہیں، مثلاً پولیس والے نے میرا چالان کیا، ہو سکتا ہے میری غلطی ہو۔ اب بھی میں چرب زبانی سے کام لوں، اس سے دوستی کر لوں، اس کی وردی پر لکھا ہوا نام دیکھ کر اس نام سے مخاطب کر کے ایسے انداز میں بات کروں کہ وہ معاف کر دے۔ کیا یہ چرب زبانی ہے کہ میں نا حق ہونے کے باوجود اس سے معاف کروا لوں۔

جواب:

ظاہر ہے اللّٰہ تعالیٰ تو سب چیزیں دیکھ رہا ہے، اگر آپ غلطی پر ہیں اور آپ چرب زبانی کر کے اپنا جرمانہ معاف کروا رہے ہیں تو وہ اس ضمن میں آتا ہے جیسے آپ نے فرمایا کہ اگر کوئی چرب زبانی کی وجہ سے مجھ سے اپنے حق میں کوئی بات ثابت کروا لیتا ہے تو اس کے ہاتھ میں وہ چیز نہیں ہے بلکہ جہنم کا ٹکڑا ہے۔ یہ بھی تقریباً اسی قسم کی چیز ہے کہ اگر آپ کسی کے ساتھ چال بازی کر کے اپنے جرم کو معاف کروا لیتے ہیں تو یہ گناہ ہے اور گناہ کی سزا ہے۔

سوال نمبر 19:

حضرت، کیا اپنا حق لینے کے لیے چال بازی سے کام لیا جا سکتا ہے؟

جواب:

حق لینے والی بات اور ہے، حق لینے کے لیے تو یہ بات ہے کہ اگر آپ کے ساتھ کوئی زیادتی کر رہا ہے تو آپ اپنی چال سے اپنے آپ کو بچا لیں۔ حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کا واقعہ ہے کہ جنگ آزادی میں حضرت لڑے تھے تو ان کے خلاف وارنٹ گرفتاری تھا۔ ایک مرتبہ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے حضرت ظاہری وضع قطع سے مولوی نظر نہیں آتے تھے، عام سادہ دیہاتی نظر آتے تھے، کپڑے بھی سادہ پہنتے تھے۔ انگریزوں کے کارندے مسجد ہی میں آ گئے اور انہی سے پوچھا کہ مولانا قاسم کدھر ہے؟ حضرت دو قدم پیچھے ہو گئے فرمایا ابھی تو ادھر تھے، ادھر اشارہ کیا جہاں پہلے کھڑے تھے، وہ سمجھے کہ نکل گئے ہیں۔ تو ایک دروازے سے وہ نکل گئے دوسرے دروازے سے حضرت نکل گئے۔ یہ جائز ہے۔ جیسے حضرت علی کرم اللّٰہ وجہہ نے کیا تھا کہ کوئی دشمن ان پر حملہ آور ہو رہا تھا، حضرت نے پیچھے کی طرف دیکھا تو وہ سمجھا کہ شاید کوئی آ رہا ہے، اس نے پیچھے دیکھا تو حضرت نے وار کر کے اسے مار دیا۔ لہٰذا یہ ’’اَلْحَرْبُ خَدْعَۃٌ‘‘ (سنن ابی داؤد: حدیث: 2636) (جنگ تو دھوکہ و فریب کا نام ہے) کے زمرے میں آتا ہے، جنگ میں تکنیک استعمال کی جا سکتی ہے، چال کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔

سوال نمبر 20:

رشوت دے کوئی کام کروانا کیسا ہے؟

جواب:

یہ سوال خطرناک حدود کو چھو رہا ہے۔ اس کی تفصیلات کسی مفتی صاحب سے معلوم کریں ایسی خطرناک باتیں ہم نہیں کیا کرتے۔

سوال نمبر 21:

حضرت اگر ڈپریشن کو صوفی اصطلاح میں قبض کا نام دے دیا جائے۔ قبض کے بعد بسط آتا ہے اس سے انسان میں ترقی ہوتی ہے، لیکن اگر ہر وقت قبض میں رہے تو کیا ہو گا یا اس دوران میں قبض سے نکلنے کے طریقے کیا ہیں یا اس دوران جب قبض کی حالت ہو یا ڈپریشن ہو تو کیا کرنا چاہیے؟

جواب:

ڈپریشن الگ چیز ہے قبض الگ چیز ہے۔ ڈپریشن تو ظاہری اسباب سے بھی ہو سکتی ہے اور قبض روحانی وجہ سے ہوتی ہے اور وہ الگ چیز ہے دونوں کی صورتیں تو ایک جیسے ہو سکتی ہیں لیکن ضروری نہیں وہ قبض ہی ہو وہ کوئی فطری چیز بھی ہو سکتی ہے، مثلاً دل کی ایک بیماری ہے اس میں بھی انسان ڈپریشن کی طرح برتاؤ کرتا ہے تو یہ ایک جسمانی مسئلہ ہے۔ لہذا جو چیزیں ڈپریشن والی ہیں ان کا علاج ڈپریشن کے طور پر کرنا چاہیے۔ اور قبضِ روحانی کے بڑے برکات و ثمرات ہیں، لہذا اس کا علاج روحانی طور پر کرنا چاہیے۔ قبض کا علاج تو اس کا شیخ کامل کرے گا اور ڈپریشن کا علاج دونوں طرح ہو سکتا ہے ڈاکٹر بھی کرتا ہے اور یہ حضرات بھی کرتے ہیں، لیکن یہ تب ہے جب وہ psychological range میں ہو اور اگر psychiatry range میں ہو پھر تو صرف ڈاکٹر ہی علاج کریں گے۔

سوال نمبر 22:

حضرت جس طرح یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں سے کہا تھا کہ اللّٰہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ مایوس ہونے سے مراد ہے؟

جواب:

انسان اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس اس طرح ہوتا ہے کہ آدمی اپنے گناہوں کو اتنا بڑا سمجھے کہ اس سے وہ یہ تصور کر لے کہ اللّٰہ اب مجھے معاف ہی نہیں کر سکتے، یہ تو کفریہ عقیدہ ہے۔ اس لیے کہتے ہیں مایوسی کفر تک پہنچا دیتی ہے، کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ کی صفت پر براہ راست حملہ ہے۔ کیونکہ ﴿اِنَّ اللّٰهَ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۠﴾ (البقرہ: 20)

ترجمہ:’’بیشک اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے‘‘

لہذا وہ یہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ مجھے معاف نہیں کر سکتا۔ اپنے گناہ کو شدید سمجھ کر توبہ زیادہ کرنی چاہیے، لیکن نعوذ باللّٰہ من ذالک اللّٰہ تعالیٰ کے بارے میں یہ نہیں سوچا جا سکتا کہ اللّٰہ مجھے معاف نہیں کر سکتے۔


سوال نمبر 23:

حضرت آپ کی ایک ریکارڈنگ سے یہ سمجھا ہوں کہ حوصلہ افزائی اور تعریف کرنے میں فرق ہے۔ حوصلہ افزائی یعنی سراہنا یہ ہے کہ کسی کی ایک ظاہری چیز کو دیکھ کر اس کو اجاگر کرنا۔ اور تعریف یہ ہے کہ انسان assume کر لے۔

جواب:

تعریف یہ ہوتی ہے کہ جو چیز آپ کے اندر ہے اس کا اقرار کرنا۔ جیسے آپ میں بہادری ہے میں کہتا ہوں کہ آپ بہادر ہیں اور یہ مان لیتا ہوں تو یہ تعریف ہے۔ تعریف معرفت سے ہے معرفت کا معنیٰ ہے پہچاننا۔ تو آپ دوسرے کو پہچانتے ہیں کہ اس میں یہ چیز ہے، اس لیے اس کو تعریف کہتے ہیں، اس کو توصیف بھی کہتے ہیں۔ توصیف یعنی آپ کسی کی صفت بیان کریں کہ اس کے اندر یہ چیز ہے تو یہ تعریف کے ضمن میں آتا ہے۔ لیکن سراہنے سے مراد یہ ہے کہ آپ کسی کے کام کو سامنے لانا چاہتے ہیں کہ اس کی حوصلہ افزائی ہو جائے اور اس کام کو زیادہ بہتر کرے۔

سوال نمبر 24:

سراہنے کو انگریزی میں appreciation ہی کہیں گے، کیا flattering بھی یہی ہوتی ہے؟

جواب:

flattering یعنی خوشامد وہ تو الگ چیز ہوتی ہے وہ تو منفی معنوں میں میں ہے۔

سوال نمبر 25:

کیا ہم ہر ایک کی تعریف کھل کے کر سکتے ہیں؟

جواب:

appreciation not in the range of flattery یہ آپ نے خود ہی بتا دیا چنانچہ it should not touch the boundary of flattery۔

سوال نمبر 26:

دوسروں کے سامنے کسی کی تعریف کرنا تاکہ اس کی حوصلہ افزائی ہو اور اچھا کام کرے گا۔ یہ کیسا ہے؟

جواب:

اگر آپ یہ تعریف اس کے فائدے کو مد نظر رکھ کر کریں گے تو یہ سراہنا ہے اور اگر اپنے فائدے کو مد نظر رکھ کر کریں گے تو یہ چاپلوسی ہے۔ الحمد للّٰہ یہ اچھا جواب آ گیا اور حدود واضح ہو گئیں۔

سوال نمبر 27:

حضرت میں ایک ظاہراً دین دار حکیم صاحب کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ مشورے دینے کی فیس مجھ سے لے لیں۔ کہنے لگے بیٹا مشورے کی کوئی فیس نہیں ہم اپنا علم نہیں بیچتے، لیکن جب دوائی کے نسخے کے بارے میں پوچھا تو اتنا تھا کہ کئی چیزیں اس میں پوشیدہ تھیں۔ مقصد کہنے کا یہ ہے اس طرح کی ملتی جلتی باتیں جب ہم کرتے ہیں تو کیا یہ ایک کان کو مختلف طرف سے پکڑنے والی بات نہیں ہے۔

جواب:

آپ ﷺ کا ارشاد ہے: ’’إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ‘‘ (بخاری شریف: 1)

ترجمہ: ’’تمام اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے۔‘‘

لہذ اگر وہ اس کے اندر یہ چیز لیے ہوئے ہے کہ وہ اس میں فیس کو بھی شامل کر رہا ہے تو وہ غلط ہے کیونکہ جب اس نے کہہ دیا کہ میں مشورے کی فیس نہیں لیتا ہوں اس کے باوجود وہ فیس لے رہا ہے تو وہ غلط ہو گا۔ جیسے انسان جھوٹی قسم کھا لیتا ہے تو یہ بھی جھوٹی قسم کی طرح غلط ہے۔ اور اگر وہ ویسے دوائی مہنگی بیچتا ہے تو وہ پھر غلط نہیں ہو گا کیونکہ قیمت تو کوئی بھی لگا سکتا ہے وہ تو گاہگ اور بیچنے والے کی آپس میں ایک رضا مندی ہے، میں آم سو روپے کلو بیچتا ہوں، دوسرا آدمی پچاس روپے کلو بیچتا ہے، تو سو روپے والا یہ رسک لیتا ہے کہ لوگ اس سے نہ لیں، پچاس روپے والے سے لے لیں۔ اس کو ہم نا جائز نہیں کہیں گے، بلکہ ہم کہیں گے کہ اس نے رسک لے لیا۔ مثلاً جرمنی میں جرمنوں کے ڈیپارٹمنٹل اسٹورز کا طریقہ یہ ہوتا تھا کہ جو فروٹ وغیرہ دیر تک رکھنے سے خراب ہو جاتے ہیں اخیر میں وہ ان کی قیمت اتنی گرا دیتے تھے کہ وہ بالکل نہ ہونے کے برابر قیمت ہوتی تھی، تو لوگ جلدی لے لیتے، ان کا سٹور خالی ہو جاتا تھا اور جو ترک حضرات تھے وہ ایک خاص قیمت سے کبھی کم نہیں کرتے تھے، تو ان کے فروٹ پڑے پڑے خراب ہو جاتے تھے۔ ایک دفعہ میں نے ان سے کہا: یہ تم کیا کر رہے ہو؟ خدا کے بندو! اپنی چیز ضائع کر لیتے ہو، پھر دوبارہ آپ کو پھینکنے میں بھی تکلیف ہوتی ہے۔ کم از کم پھینکنے سے تو آپ کے لیے آسان ہے کہ آپ اس کو اتنا سستا کر دیں کہ لوگ لے جائیں، آپ کو پھینکنا تو نہ پڑے۔ لہذا یہ تجارت ایک باہمی رضا مندی کی بات ہے۔

سوال نمبر 28:

حضرت، مشائخ سے قطع نظر صرف عام لوگوں کے متعلق یہ سوال ہے کہ ایک ہے تنقید اور ایک ہے سراہنا۔ کیا تنقید کا کوئی فائدہ ہے؟ جیسے آج کل اخباروں میں بھی تنقید ہے، آپس میں بھی تنقید کر کر کے ذہن بھی تنقیدی بن جاتا ہے۔

جواب:

تخریب برائے تعمیر تو ٹھیک ہے، اسی طرح تنقید برائے اصلاح بھی ٹھیک ہے، لیکن اس میں نیت اصلاح کی ہو، اس شخص کو ذلیل کرنے کی نیت نہ ہو، بلکہ اس کی اصلاح کی نیت ہو تو اس کی گنجائش ہے، کیونکہ جب تک آپ اس کو بتائیں گے نہیں کہ یہ کام غلط ہے تو اس کو کیسے پتا چلے گا۔ لیکن اس طریقے سے بتایا جائے کہ اس کی عزت نفس کو ٹھیس نہ پہنچے، آپ اس کی اصلاح کر دیں یعنی اس کی چیز کو تو غلط کہہ دیں لیکن اس کی ذات پر کوئی کیچڑ نہ اچھالیں تو یہ بہت معتبر چیز ہے، بہت اچھی چیز ہے۔ اگر ایک مفسد آدمی ہے جو دوسروں میں فساد پھیلاتا ہے تو اس مفسد آدمی کے شر سے بچانا بھی ضروری ہے لہذا اس کے متعلق آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ مفسد ہے، کیونکہ دوسرے لوگوں کا فائدہ اس اکیلے کے فائدے کے مقابلے میں اولیٰ ہے۔

سوال نمبر 29:

حضرت، کیا تنقید برائے اصلاح کا یہ طریقہ درست ہے کہ حکمت والا انداز اختیار کیا جائے جس طرح مینجمنٹ سائنسز میں بتاتے ہیں کہ پہلے اس کی اچھائیاں بیان کریں، پھر اس کو بالواسطہ بتائیں کہ یہ ٹھیک کر لو تو فائدہ ہو جائے گا۔

جواب:

طریقہ کار اچھا ہونا چاہیے کیونکہ طریقہ کار آپ جتنا بہتر کر سکتے ہیں وہ زیادہ مفید ہے۔

سوال نمبر 30:

حضرت فضائل اعمال میں حضرت صفیہ رضی اللّٰہ عنھا کا غزوہ خندق کا واقعہ ہے کہ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ محافظ تھے وہ بہت ضعیف تھے، جب یہودی آیا تو چونکہ یہ بالکل کمزور تھے اس لیے حضرت صفیہ رضی اللّٰہ عنها نے اس یہودی کو قتل کر دیا۔ اس ضمن میں ایک طرف عورت کی بہادری ہے اور ایک طرف عورت کا شرم و حیا ہے۔ اب ہماری عورتیں بعض اوقات شرم و حیا میں بہت آگے ہوتی ہیں اتنی کہ بعض اوقات جب باہر کسی سفر میں ہوں تو ان کی نماز بھی قضا ہو جاتی ہے۔ اس میں توازن کیسے ہو گا؟

جواب:

توازن اس ترجیحی ترتیب میں ہے جو ترجیحی ترتیب احکامات میں بتائی گئی ہے، مثلاً فرض، واجب، سنن مؤکدہ، سنن زائدہ، عام مستحبات، پھر مباحات آتے ہیں، یہ سب ایک ترجیحی ترتیب ہے۔ اب دیکھ لیں کہ کون سی چیز کس وجہ سے خراب ہو رہی ہے، مثلاً پردے کا حکم ہے لیکن نماز اپنے وقت پر فرض ہے، لہذا اتنا پردہ کہ نماز ہی چلی جائے تو وہ جائز نہیں ہے۔ بلکہ ایک طرف ہو کے وضو کر لے اور برقعے کے ساتھ ہی نماز پڑھ لے۔ یہ جائز نہیں ہے کہ وہ نماز ہی چھوڑ دے۔ حضرت صفیہ رضی اللّٰہ عنھا کا یہودی کو قتل کرنے کا جو معاملہ ہے وہ اصل میں ایک ہنگامی حالت تھی، کیونکہ اگر وہ ایسا نہ کرتیں تو اس میں تو بہت ساری عورتوں کی حیا چلی جاتی۔ وہ حفظ ما تقدم کے طور پہ تھا، اس کی تو گنجائش اور جواز ہے۔

سوال نمبر 31:

ایک non practicing خاتون نے عورتوں کے حوالے سے ایک دفعہ ایسے ہی کہا کہ جی یہ سر اٹھانے کا زمانہ ہے سر جھکانے کا نہیں۔

جواب:

یہاں بھی وہی نیت والی بات آ جاتی ہے کہ انہوں نے کس لحاظ سے اور کس انداز میں کہا تھا، اگر انہوں نے اس کو محض مردوں کے مقابلے کے انداز میں کہا ہے تو اور بات ہو جائے گی۔ اور اگر اپنی ضرورت کے پیشِ نظر کہا ہے تو اور بات ہے۔

سوال نمبر 32:

حضرت آپ سے جو کچھ سنا ہے اس سے میں یہ سمجھا ہوں کہ آئن سٹائن کے جنتی یا جہنمی ہونے کے بارے میں فیصلہ کرنا ہمارا domain بالکل نہیں ہے۔ ہمارا domain یہ ہے کہ لوگوں کے لئے دین پر عمل کرنے کو آسان کر دیں۔ دین کو ایسی تنگ نظری سے پیش کرنا کہ لوگ متنفر ہو جائیں کیا یہ درست ہے؟ مثلاً ایک لڑکا نکر پہن کے مسجد میں آ جاتا ہے جو کہ غلط چیز ہے کیونکہ اس کا ستر نہیں ڈھکا ہوتا، اب ہر ایک اس کو دیکھتا ہے، کوئی اس کو طنزیہ کہہ بھی دے گا کہ بہتر ہے آپ نہ ہی آئیں۔ اس طریقے سے ہو سکتا ہے وہ ہمیشہ کے لیے بھاگ جائے۔

جواب:

اسی لیے تو کہتے ہیں کہ امر بالمعروف سارے لوگ کر سکتے ہیں لیکن نہیں عن المنکر ہر ایک نہیں کر سکتا۔ اس کو سیکھنا پڑتا ہے۔

سوال نمبر 33:

روایات میں وارد ہے کہ اگر لوگ گناہ کو چھوڑ دیں تو اللّٰہ تعالیٰ اس قوم کو ختم فرما دیں اور اس کی جگہ ایسی قوم لائیں جو گناہ کریں پھر توبہ کریں اور اللّٰہ تعالیٰ ان کے گناہوں کو معاف کر دیں۔ اس کی وضاحت فرما دیں۔

جواب:

اصل میں یہ اللّٰہ جل شانہ کی رحمت کو بیان کرنے کا ایک طریقہ ہے۔

سوال نمبر 34:

عجب اور خود اعتمادی میں کیا فرق ہے؟

جواب:

سونے اور چاندی میں کیا فرق ہے؟ کہاں عجب کہاں خود اعتمادی، بہت زیادہ فرق ہے۔ عجب یہ ہے کہ انسان جو عمل کرتا ہے اس پہ وہ اتراتا ہے اور اپنے آپ کو اچھا سمجھتا ہے، جو کہ غلط بات ہے۔ خود اعتمادی یہ ہے کہ اللّٰہ جل شانہ نے اس کو جو وسائل دیئے ہیں ان وسائل کے ہوتے ہوئے کم ہمت نہ ہو اور ان وسائل کا ادراک کر کے ان کو صحیح طور پر استعمال کر لے۔ مثلاً ایک مرد سانپ سے عورتوں کی طرح ڈرے تو ہم کہیں گے کہ بھئی اپنے آپ میں خود اعتمادی پیدا کرو تم مرد ہو۔

کہتے ہیں کہ ایک شہزادہ کنیزوں میں پلا بڑھا تھا، شہزادے ایسے ہوتے تھے، ایک سانپ نکل آیا تو کنیزیں شور مچانے لگیں کہ سانپ نکل آیا، سانپ نکل آیا کسی مرد کو بلاؤ۔ اس شہزادے نے بھی کہا: سانپ نکل آیا، سانپ نکل آیا کسی مرد کو بلاؤ۔ ایک کنیز نے کہا: حضور آپ بھی تو مرد ہیں۔ اس نے کہا اچھا یاد دلایا، لے آؤ سوٹا، سوٹا لے کے اس کو مار دیا، اس کو اپنی مردانگی یاد آ گئی۔ تو یہ خود اعتمادی یہاں پر ضروری ہوتی ہے۔

سوال نمبر 35:

حضرت یہ دل ہی دل میں دعا کرتے رہنا، شکر کرتے رہنا، استغفار کرتے رہنا۔ اس کو وقوفِ قلبی کہہ سکتے ہیں؟

جواب:

اصل میں وقوف قلبی تو اپنے دل کی طرف متوجہ ہونے کی بات ہے کہ دل کی نگہداشت کرنا کہ وہ اللّٰہ کی طرف متوجہ ہے یا نہیں ہے۔ باقی اگر دل ہی دل میں آپ جو بات رکھیں تو آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ دل کو آپ صحیح چیزوں کی طرف لا رہے ہیں، یعنی اپنے دل سے کام کروا رہے ہیں، مثلاً دل ہی دل میں آپ شکر کریں اور شکر ہوتا بھی دل سے ہے، اس طرح صبر کرنا بھی دل سے ہی ہوتا ہے اور دل ہی دل میں دعائیں کرنا، یہ البتہ ایک نئی چیز ہے جس کو قلبی دعائیں کہتے ہیں تو یہ آپ دل سے کام کروا رہے ہیں۔ اس میں دماغ دل کے تصور کے ذریعے ایک رابطہ کا کام کرتا ہے۔

سوال نمبر 36:

حضرت جب صوفیاء اپنا محاسبہ کرتے ہیں اور اس میں کوئی کمی یا غلطی دیکھتے ہیں تو اس کو کیسے دور کرتے ہیں؟

جواب:

استغفار کے ذریعے سے اور ہمت کے ذریعے سے۔ ہمت سے مراد یہ ہے کہ مثلاً آپ دیکھ لیں کہ میں نے یہ کام کرنا تھا اور نہیں کر سکا تو اب ہمت کر کے کر لے اور گزشتہ پہ استغفار کر لے۔

سوال نمبر 37:

حضرت استغفار اور ہمت کے ذریعے سے اپنا محاسبہ کرنے کا عملی طریقۂ کار کیا ہو گا؟

جواب:

اس کا عملی طریقہ خود اعتمادی ہی ہے جیسے میں نے عرض کیا کہ آپ کو اللّٰہ نے جو وسائل دیے ہوئے ہیں ان کا ادراک کرنا اور ان کو استعمال کرنا چاہیے۔ مثلاً ایک بڑا آدمی چلتے چلتے رک گیا، لوگ کہتے ہیں: بھئی چلو۔ وہ کہتا ہے: میرا قدم ہی نہیں اٹھ رہا، اسے کہیں گے: بھئی قدم اٹھاؤ آپ اٹھا سکتے ہیں۔ اسی کو ہمت کہتے ہیں کہ جتنا اختیار میں ہو اس سے کوتاہی نہ کی جائے۔ اگر انسان بے ہمت ہو جائے تو قدم بھی نہیں اٹھا سکتا۔

سوال نمبر 38:

کسی سے بد نظری ہوئی، محاسبہ کیا، اس پہ استغفار کیا اور ہمت کی کہ کل نہیں کرنی، لیکن کل پھر ہو گئی۔ اب یہ آدمی کیا کرے؟

جواب:

دوبارہ استغفار کر لے اور اپنی خود اعتمادی کو self suggestion کے ذریعے اور زیادہ مضبوط کر لے۔

سوال نمبر 39:

آپ نے ایک دفعہ بیان فرمایا تھا اس سے میں سمجھا ہوں کہ دعا ایک ایسی چیز ہے کہ اس میں اللّٰہ سے دنیا مانگنا بھی دین ہے۔

جواب:

’’اَلدُّعَاءُ مُخُّ الْعِبَادَۃِ‘‘ (سنن ترمذی: 3371)

ترجمہ: ’’دعا عبادت کا مغز ہے۔‘‘

یعنی دعا اصل عبادت ہے۔ اس میں یہ تخصیص تو نہیں کی گئی کہ دنیا کے لیے دعا کرنا عبادت ہے یا آخرت کے لیے۔ دعا واقعی عبادت ہے۔ البتہ یہ الگ بات ہے کہ آپ کے سامنے ہزار روپے کا نوٹ بھی پڑا ہے اور دو پیسے بھی پڑے ہوئے ہیں تو آپ اس شخص سے کہیں کہ مجھے دو پیسے دے دیں، مجھے دو پیسے دے دیں، مجھے دو پیسے دے دیں۔ تو وہ دو پیسے تو دے دے گا لیکن کہے گا کتنا بے وقوف ہے ایک ہزار نہیں مانگ رہا۔ جو آخرت کو نہیں مانگتا اور صرف دنیا ہی کو مانگتا ہے وہ بیوقوفی ہی تو کر رہا ہے۔ اپنے فوری تقاضے کے پیش نظر دنیا بھی مانگ لے لیکن آخرت کو غالب رکھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّ فِی الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ﴾ (البقرہ: 201)

ترجمہ: ’’اور انہی میں سے وہ بھی ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ: ’’اے ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھی بھلائی، اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔‘‘

یہاں آخرت کے لیے دو چیزیں بتائیں گئی ہیں۔ ’’فِی الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ‘‘ یہ دونوں چیزیں آخرت کی ہیں۔ اور ’’رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً‘‘ یہ دنیا کی ہے۔

سوال نمبر 40:

حضرت، آپ کے ریکارڈڈ بیان سے استغفار کے بارے میں یہ سمجھا کہ ہم لوگ استغفار بھی ثواب سمجھ کے کرتے ہیں۔ اس کی تشریح فرما دیں۔

جواب:

حالانکہ ضرورت سمجھ کے کرنا چاہیے۔ جس کی اپنے گناہوں پہ نظر نہ ہو تو وہ ثواب کی نیت سے کرے گا۔

سوال نمبر 41:

ایک آدمی جو مفہوم نہیں جانتا وہ استغفار والا ذکر ثواب کی نیت سے ہی کرے گا؟

جواب:

کوئی بھی ذکر بغیر توجہ کے کیا جائے تو اس کا ثواب تو ہو گا لیکن اس کا مقصود مکمل طور پر حاصل نہیں ہو گا مثلاً ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ‘‘ کو آپ صرف پڑھتے رہیں لیکن اس کے اندر غور نہ کریں کہ میں کیا کہہ رہا ہوں تو ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ‘‘ سے جو حاصل ہوتا ہے وہ تو آپ کو اتنا حاصل نہیں ہو گا، البتہ ثواب ہو گا۔ درود شریف کا بھی یہی معاملہ ہے۔ چنانچہ ہر چیز کے بارے میں یہی حکم ہے صرف استغفار کے بارے میں نہیں ہے۔

سوال نمبر 42:

روحانی اور جسمانی بیماریوں میں کیا فرق ہے؟

جواب:

روحانی بیماریاں وہ ہوتی ہیں جیسے انسان کی روح کے ساتھ مسائل ہیں یعنی قلبی امراض۔ اور نفسیاتی بیماریوں میں دماغ کے اندر فتور ہوتا ہے، میرے خیال میں اس سے زیادہ مختصر الفاظ میں فرق نہیں کیا جاتا۔ کیونکہ neurons جو disturb ہوتے ہیں وہ دل میں تو نہیں ہوتے دماغ میں ہوتے ہیں، اسی سے وہ نفسیاتی بیماریاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ اور قلبی بیماریوں میں انسان کے دل کے اندر دنیا کی محبت آ جاتی ہے، اس کی وجہ سے حرص بھی آ گیا، اس کی وجہ سے عجب بھی آ گیا، اس کی وجہ سے ریا بھی آ گئی، اس کی وجہ سے حسد بھی آ گیا۔ اس کی وجہ سے کینہ بھی آ گیا۔ تو یہ روحانی بیماریاں ہیں۔

سوال نمبر 43:

آدمی کو بچپن سے خاص قسم کے طبقوں سے چڑ ہوتی ہے، اب یہ اس کے دماغ میں ہے، اس کا روحانی علاج ہوا اور اس کے دل میں سے حسد، کینہ، بغض نکل گئے۔ لیکن چڑ تو دماغ میں موجود ہے اس کا علاج کیا ہے؟

جواب:

اصل میں شعور، لا شعور اور تحت الشعور، ان کا علاج تحلیلِ نفسی کے ذریعے سے کیا جاتا ہے Psycho analysis اور پھر self suggestion کے ذریعے سے۔ اور اگر neuron disturb ہو چکے ہوں تو پھر psychiatry treatment بھی دینا پڑتا ہے۔ اگر روحانی علاج ہو چکا ہے اور وہ ٹھیک ہو گیا تو پھر یہی رہتا ہے۔

سوال نمبر 44:

آدمی کے دماغ میں خاص قسم کے طبقے سے چڑ ہے، در اصل بچپن سے وہ اس کے لا شعور میں موجود ہے وہ تو اس کو چبھے گی، اس کا کیا حل کیا جائے؟

جواب:

اگر اس کے تقاضے پہ آپ عمل نہیں کر رہے تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اس کا دل صحیح ہو گیا ہے اب وہ اتنا مضبوط نہیں رہا۔ بس آپ اس کے تقاضے پہ عمل نہ کریں تو ٹھیک ہے۔ جیسے حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے متعلق آتا ہے کہ حضرت لوگوں کی کسی بے اصولی کی وجہ سے کسی بات پہ ناراض ہو جاتے، غصے ہو جاتے تھے تو لوگ معافی مانگتے تو فرماتے بھئی! میں نے معاف تو کر دیا ہے لیکن اس کا اثر تو آہستہ آہستہ جائے گا فوری تو نہیں جائے گا، آپ کچھ اچھا کام کریں تاکہ اس کو دیکھ کے میرا دل خوش ہو جائے تو یہ چیز چلی جائے گی۔

سوال نمبر 45:

اس کا مطلب ہے بعض صورتوں میں دل ٹھیک ہو گیا ہے لیکن وہ جو دماغ میں تھوڑی بہت چڑ تھی اس کا علاج self suggestions یا Psycho analysis سے ہو گا؟

جواب:

جی ہاں!

سوال نمبر 46:

حضرت یہ جو آیت ہے کہ اللّٰہ پاک کی قدر نہ کی گئی جیسا کہ اس کی قدر کرنے کا حق ہے۔ اس کا کیا مطلب ہے نیز یہ بتا دیں کہ اللہ پاک کی قدر انسان کیسے کر سکتاہے؟

جواب:

انسان اللّٰہ پاک کی قدر کیسے کر سکتا ہے وہ تو ممکن نہیں ہے، لیکن اس کے لیے جتنی کوشش کرنی چاہیے اور جو ہمارے بس میں ہے اس کے ہم مکلف ہیں، ہم تو حضور کی قدر نہیں کر سکتے تو اللّٰہ کی کیسے کریں گے۔ حتیٰ کہ ہم تو شیخ کی قدر نہیں کر پا رہے۔

سوال نمبر 47:

جب مرد نہ ہو تو کیا مجبوری کی حالت میں عورت پردے میں رہتے ہوئے گھر کے اندر ہی دودھ لے سکتی ہے، کوڑا دے سکتی ہے اور سبزی لے سکتی ہے؟

جواب:

اگر فتنے کا اندیشہ نہ ہو اور اپنی حفاظت پر قادر ہو تو پردے میں رہ کر لے سکتی ہے اور کوڑا وغیرہ بھی دے سکتی ہے، جیسا کہ دکان دار سے بوقت ضرورت سودا بھی لے سکتی ہے اگر کوئی مرد نہ ہو یا کوئی اور مسئلہ ہو۔

سوال نمبر 48:

حضرت کیا اسی ضمن میں اسی طرح کی بات ہے کہ عورت کو نا محرم کے ساتھ کرختگی سے بات کرنی چاہیے؟

جواب:

جی ہاں! تاکہ اس کی حوصلہ افزائی نہ ہو۔

سوال نمبر 49:

اور مرد کو بھی اسی طرح کرختگی سے بات کرنی چاہیے یا یہ حکم عورت کے لیے ہے؟

جواب:

فتنے کی تعریف میں تو دونوں کا ایک ہی حکم ہے۔ یعنی مخالف صنف کی حوصلہ افزائی نہیں کرنی چاہیے۔

سوال نمبر 50:

حضرت، کیا کرختگی سے تھوڑا سا سنجیدہ لہجہ مراد ہے؟

جواب:

یعنی اتنے نرم لہجے میں بات نہ ہو کہ جس سے کسی کے دل میں شبہ ہو۔

سوال نمبر 51:

مثلاً ایک عورت کو فون کیا تو اس نے کہا: جی، نہیں ہیں، گھر پہ ابھی نہیں ہیں۔ کیا یہ کرختگی ہے؟

جواب:

جی ہاں! ان تینوں جملوں میں تھوڑی سی اعراض کی صورت اور یہ مطلوب ہے۔

سوال نمبر 52:

حضرت، بیت اللّٰہ توحید کا گھر تھا پھر اس میں آہستہ آہستہ بت آتے گئے، پھر ان کی پوجا شروع ہو گئی تھی، ایک سو ساٹھ ہو گئے تھے، اسی طرح آج سے بیس سال پہلے جو چیزیں بے حیائی تھیں آج روشن خیالی سمجھی جاتی ہیں، انسان کے اندر ماحول کے ساتھ موافقت پیدا ہو جاتی ہے۔ کون سا ایسا طریقہ ہے کہ انسان ماحول سے متاثر نہ ہو۔

جواب:

اپنے معیار کو تبدیل نہ کرے، کیونکہ آپ کے پاس جو بنیاد موجود ہے وہ تبدیل نہیں ہو رہی، آپ اس کے ساتھ موازنہ کر لیں اپنی سوچ کے ساتھ موازنہ نہ کریں۔ جو آپ سمجھ رہے ہیں اس کو نہ دیکھیں بلکہ جو اللّٰہ کا حکم ہے اس کو دیکھیں۔ کیونکہ وہ تو تبدیل نہیں ہو رہا۔

﴿لَا تَبْدِیْلَ لِكَلِمٰتِ اللّٰهِ﴾ (یونس: 64)

ترجمہ: ’’اللہ کی باتوں میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔‘‘

لہذا وہ تبدیل نہ ہو رہا بلکہ تم تبدیل ہو رہے ہو لہذا تم اپنے آپ کو نہ دیکھو بلکہ اس کو دیکھو جو تبدیل نہیں ہو رہا۔

سوال نمبر 53:

پڑوسیوں کو ہر کام کا کہنا جیسے دودھ دلوا دیں، سبزی لا دیں، مناسب ہے یا اپنا کام خود کریں وہ زیادہ بہتر ہے؟

جواب:

جو کام مرد کے ذمہ ہے وہ مرد کو کرنا چاہیے۔ ایسی صورت میں اس کی ضرورت پیش نہیں آئے گی ہاں اگر مجبوری ہو اور ایسے وقت میں کوئی ضرورت پڑ گئی کہ مرد اس وقت موجود نہیں ہے جیسے دوائی لانا ہے یا کوئی اور چیز ہے تو ایسی صورت میں خود بھی اپنا کام کر سکتی ہے اور پڑوسی سے بھی کہہ سکتی ہے۔ لیکن بعض دفعہ پڑوسیوں سے کہنے میں نسبتاً زیادہ فتنہ ہوتا ہے کیونکہ ہر وقت پاس ہوتے ہیں، لہذا ایسی صورت میں اپنے طور پہ کام کرنا زیادہ بہتر ہے۔

سوال نمبر 54:

حضرت، فضائل صدقات میں احادیث کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ موت کی سختی برحق ہے۔ اسی میں اولیاء کے قصوں سے یہ پتا چلتا ہے کہ گویا ان کو موت پتا ہی نہیں چلا کہ ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں چلے گئے۔ اس کو کیسے دیکھیں گے؟

جواب:

جیسے بتایا گیا ہے یعنی ایک طرف سختی بھی ہے دوسری طرف نرمی بھی ثابت ہے، دونوں چیزیں ثابت ہیں۔ یعنی ایک چیز موجود ہے لیکن اس کو اگر اللّٰہ پاک لاگو نہ کرے تو اس کی مرضی ہے۔

سوال نمبر 55:

روایات میں تو آتا ہے کہ وصال کے وقت حضور کی طبیعت پر گرانی تھی۔

جواب:

اصل میں آپ کو اللہ تعالیٰ نے نمونہ بنایا ہے۔

وَ آخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ