اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال نمبر1:
حضرت! میرے دو سوال ہیں۔ ایک یہ کہ بعض اوقات شیخ کی مجلس میں جو کیفیت ہوتی ہے بعد میں وہ کیفیت نہیں رہتی۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ بعض اوقات شیخ کی مجلس میں یہ محسوس ہوتا ہے کہ جیسے مجھے کوئی فائدہ محسوس نہیں ہو رہا، جس سے طرح طرح کے خیالات آتے ہیں۔
جواب:
سوال کا پہلا حصہ سمجھنا کافی آسان ہے۔ یہی بات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بھی پیش آتی تھی۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین فرماتے تھے کہ ہمیں نبی کریم ﷺکی مجلس میں ساری چیزیں واضح طور پر محسوس ہوتی ہیں لیکن جب ہم گھروں میں جاتے ہیں تو وہاں صورتحال بدل جاتی ہے۔ اس وجہ سے انہوں نے اپنے اوپر منافق ہونے کا گمان کر لیا تھا۔
در اصل یہ ایک طبعی کیفیت ہے عقلی کیفیت نہیں ہے، اگر عقلی کیفیت ہوتی تو پھر افسوس نہ ہوتا۔ افسوس ہونا اس بات کی علامت ہے کہ یہ عقلی کیفیت نہیں بلکہ صرف ایک طبعی اور فطری کیفیت ہے۔ جب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نبی کریم ﷺ کی مجلس میں موجود ہوتے تھے تب آپ ﷺ کے قلب مبارک کا اثر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے قلوب پر ہوتا تھا جس کی وجہ سے ان کا دل آئینہ کی طرح ہو جاتا تھا اور وہ انعکاسی کیفیت کی وجہ سے اپنے آپ کو کیفیتِ حضوری میں پاتے تھے۔ جب آپ ﷺ کے سامنے اس کیفیت کا ذکر کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ تو گاہے گاہے ہوتا ہے، اگر ایسا ہر وقت ہونے لگے تو فرشتے تمہارے ساتھ بستروں پر مصافحہ کرنے لگیں۔
گویا تجلی کے ساتھ استحضار بھی ضروری ہے۔ سورج نکلتا ہے تو دن آ جاتا ہے، پھر رات کو آرام ہو جاتا ہے، آرام سے مراد یہی ہے کہ اگلے دن کی تیاری ہو جاتی ہے، اس طرح یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے، لہٰذا یہ بات تو واضح ہے۔
جہاں تک دوسری بات کا تعلق ہے تو یہ دو وجوہات کی بنا پر ہو سکتا ہے اور دونوں کا علاج الگ الگ ہے۔
پہلی وجہ یہ ہے کہ انسان کو اپنے شیخ کے ساتھ انتہائی محبت کا تعلق ہو جائے اور وہ اپنے آپ کو کسی بھی حالت میں اپنے شیخ کے قابل نہ سمجھے۔ ایسی صورت میں مرید کو یہ حالت پیش آئے گی کہ شیخ کے پاس حاضری کے وقت اسے اپنی کمیاں زیادہ نظر آئیں گی، وہ سمجھے گا کہ مجھے وہ چیز حاصل نہیں ہو رہی۔ اگر اپنے آپ میں کمیوں کا محسوس ہونا اس وجہ سے ہے تو یہ ایک اچھی بات ہے، یہ کوئی بیماری نہیں ہے اس لئے اس کے علاج کی ضرورت نہیں ہے، بس اتنا سمجھنا کافی ہے کہ یہ اس وجہ سے ہو رہا ہے کہ شیخ کے ساتھ بہت محبت ہے۔ یہ ایک اچھی حالت ہے کہ مرید اپنے آپ کو کمتر سمجھ رہا ہے اور یہ بھی شیخ کے قلب کے نور کی برکت سے ہوتا ہے۔
دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ (نعوذ باللّٰہ من ذالک) مرید کے ذہن میں اپنے شیخ کے بارے میں کوئی الجھن ہو جو اس کے لئے شیخ سے اچھے اثرات لینے میں رکاوٹ بن رہی ہو۔ اگر ایسا ہے تو یہ ایک خطرناک بات ہے، اس کا علاج بھی ضروری ہے اور اس پر فکر مند ہونا بھی ضروری ہے۔ لہٰذا اگر کوئی اس قسم کی بات ہے تو اسے دور کرنا چاہیے۔ شیخ بھی انسان ہوتا ہے اور اس میں بشری کمزوریاں بھی ہوتی ہیں، بعض اوقات شیطان مرید کے دل میں ایسے وساوس ڈالتا ہے کہ اس کا خیال شیخ کی ان چیزوں کی طرف نہیں جاتا جو مرید کے لیے مفید ہیں بلکہ ان چیزوں کی طرف جاتا ہے جن سے وہ شیخ سے بد ظن ہو سکتا ہے۔
ایسی صورت میں مجموعی حالت کو دیکھنا چاہیے اور یہ سوچنا چاہیے کہ میرا شیخ میرے لیے اللّٰہ جل شانہ کی طرف سے لینے کا ذریعہ ہے، اور چونکہ میں اور میرا شیخ آج کل کے دور میں ہیں لہٰذا میرا شیخ آج کل کے دور والا ہی ہے قرونِ اولیٰ والا تو نہیں ہے۔ اگر کوئی مرید اپنے شیخ کو قرونِ اولیٰ کے ساتھ ملا رہا ہے اور دل میں بد گمانی آ رہی ہے جس کی وجہ سے مرید کو نقصان ہو رہا ہے تو یقیناً یہ غلط بات ہے، اس کی اصلاح ہونی چاہیے۔
یہ سوچنا چاہیے کہ دینے والی اللّٰہ کی ذات ہے، شیخ نہیں ہے، شیخ کے ساتھ میری محبت بھی اللّٰہ کے لیے ہے اور میرا یہ سمجھنا بھی اللّٰہ کے لیے ہے کہ آج کل کے دور میں جو شیخ ہو گا وہ دورِ حاضر کے مطابق ہی ہو گا۔
بہرحال اگر ذہن میں کوئی ایسی بات ہو تو اس کی اصلاح ضروری ہے ورنہ شیطان اس چیز کو بڑھا کر بالکل توڑ بھی سکتا ہے اور سلسلے کی جملہ برکات سے کاٹ بھی سکتا ہے۔
سوال نمبر2:
بعض لوگوں کو شیخ سے مناسبت تو ہوتی ہے مگر محبت اُس درجے کی نہیں ہوتی جو عام طور پر کی جاتی ہے، ایسے لوگ کس طرح اپنے دل میں شیخ کی محبت پیدا کریں؟
جواب:
ضروری درجے کی محبت، جسے عقلی محبت کہتے ہیں وہ مناسبت کے ساتھ خود بخود ہو جاتی ہے۔ جہاں تک طبعی محبت کی بات ہے وہ ربط و تعلق بڑھانے اور اپنے آپ کو سمجھانے سے آہستہ آہستہ بڑھتی ہے۔ اس سلسلے میں وہ حضرات بہت زیادہ کام آتے ہیں جن کو پہلے سے شیخ کے ساتھ محبت ہو۔ ان کی صحبت میں بیٹھ کر اور ان کے ساتھ رہ کر آہستہ آہستہ ان میں بھی شیخ کی محبت آ جاتی ہے۔ جیسے اللّٰہ والوں کے ساتھ بیٹھ کر اللّٰہ کی محبت پیدا ہو جاتی ہے اسی طرح شیخ سے محبت کرنے والوں کے ساتھ بیٹھ کر شیخ کی محبت بھی پیدا ہو جاتی ہے۔
سوال نمبر3:
کسی کے ساتھ اپنے افسر کی طرف سے یا کسی اور آدمی کی طرف سے زیادتی ہوتی ہے تو وہ شدید غصے میں آ جاتا ہے، اس وقت شیطان حاوی ہو جاتا ہے اور وہ ایسے کام کرا سکتا ہے جو جائز نہیں ہوتے۔ اس کا علاج کیا ہے؟
جواب:
بعض چیزیں حقیقت میں سے ہوتی ہیں اور بعض زوائد میں سے ہوتی ہیں۔ بعض غیر محقق لوگ حقیقت سے بھی انکار کر دیتے ہیں اور بعض غیر محتاط لوگ حقیقت کو قبول کرنے میں اتنے زیادہ وسیع الظرف ہو جاتے ہیں کہ زوائد کو بھی ساتھ لے لیتے ہیں۔ اس سلسلے میں اعتدال قائم رکھنا پڑتا ہے۔ حضرت امام شافعی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے فرمایا ہے کہ جس بات پر غصہ آنا ضروری ہے اگر اس پر بھی کسی کو غصہ نہ آئے تو وہ احمق ہے، بے وقوف ہے، گدھا ہے اور اگر اس سے کوئی معافی مانگے اور پھر بھی معافی نہ دے تو وہ شیطان ہے۔
غصہ آنا نا جائز نہیں ہے اگر اس کی بنیاد حق پر ہو، لیکن غصہ کا نا جائز استعمال نا جائز ہے۔ مثلاً کوئی آدمی غصہ میں آ کر حد سے تجاوز کر جائے تو یہ نا جائز ہے۔ ایک آدمی آپ کو تھپڑ مارے اور آپ اس پر گولی چلا کے اسے جان سے مار ڈالیں تو یہ حد سے تجاوز ہے اور نا جائز ہے۔ ایسے واقعات ہوئے ہیں کہ لوگ تھپڑ سے طیش میں آ کر گولی مار دیتے ہیں، یہ معتدل رویہ نہیں ہے۔ اگر تھپڑ کھا کر آدمی کو غصہ آتا ہے تو یہ فطری بات ہے، آنا ہی چاہیے لیکن اگر تھپڑ مارنے والا معافی مانگے تو معافی بھی دے دینی چاہیے۔ انسان کو اپنے حالات کے بارے میں بھی جاننا چاہیے کہ مجھے کن معاملات میں کہاں تک جانا چاہیے۔ آیا سامنے والے کو اخلاقی شکست دینی چاہیے یا اس کے لیے کوئی اور بندوبست کرنا چاہیے یا اس کو برابر کا تھپڑ مارنا چاہیے۔ یہ معاملہ ہر ایک کی اپنی اپنی مناسبت پر منحصر ہے۔
قرآن مجید میں آتا ہے:
﴿لَا یُحِبُّ اللّٰهُ الْجَهْرَ بِالسُّوْٓءِ مِنَ الْقَوْلِ اِلَّا مَنْ ظُلِمَ﴾ (النساء: 148)
ترجمہ: ”اللہ اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کسی کی برائی علانیہ زبان پر لائی جائے، اِلّا یہ کہ کسی پر ظلم ہوا ہو“۔
مظلوم آدمی تو ضرور بات کرے گا اور اس کا اثر بھی ہو گا لہٰذا یہ کوئی غلط بات نہیں ہے لیکن ظالم کی غلط بات کے جواب میں خود ایک غلط بات کرنا ٹھیک نہیں ہو گا۔
اس کا علاج یہی ہے کہ انسان روحانی سلوک کو طے کر لے تاکہ نفسانیت ختم ہو جائے، جب نفسانیت ختم ہو جائے گی تو پھر اس چیز کا اتنا ہی جواب دیا جائے گا جتنا مناسب ہو گا اور وہی کام کیا جائے گا جس پر اللّٰہ پاک خوش ہوں گے۔
سوال نمبر4:
میں نے سنا ہے کہ زمانے کو برا نہیں کہنا چاہیے۔ آج کل لوگ بڑی مایوسی کی باتیں کرتے ہیں، حکمرانوں اور حالات کو برا بھلا کہتے ہیں۔ یہ بات کہاں تک درست ہے؟
جواب:
زمانے کو تو برا نہیں کہنا چاہیے لیکن برے کو برا کہا جا سکتا ہے۔ جس وقت برے کو برا کہنا ضروری ہو اس وقت تو ضرور برا کہنا چاہیے لیکن اگر کسی وقت برے کو برا کہنا ضروری نہ ہو صرف برا ماننا ضروری ہو تو اس وقت اسے برا مان لیں لیکن کہنے کے لیے موقع اور ہمت تلاش کریں۔
مثلاً ایک آدمی کنویں میں گر رہا ہے، اس کو بچانا ضروری ہے لیکن اگر کوئی آدمی غلط لوگوں کے ساتھ شامل ہو رہا ہے، اس کو آپ سمجھا تو سکتے ہیں کہ غلط لوگوں کے ساتھ نہ جاؤ، لیکن اگر آپ کے پاس روکنے کی طاقت نہیں ہے تو آپ ہاتھ سے پکڑ کر اسے روک نہیں سکتے۔ ہاں آپ کا بتانا ضروری ہو گا اس میں بھی یہ شرط ہے کہ آپ کے اس عمل میں نفسانیت کا دخل نہ ہو بلکہ اس عمل کا محرک اللّٰہ جل شانہ کی محبت ہو اور آپ یہ عمل اتنا ہی کریں جہاں تک شریعت اجازت دیتی ہے۔
نبی کریم ﷺ کے دور میں بھی غلط چیز کو غلط کہا گیا، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور میں بھی غلط چیز کو غلط کہا گیا۔ نبی کریم ﷺ کی ابتدائی دعوت ہی یہی تھی کہ غلط کو غلط کہا جاتا تھا، شرک کو غلط کہا جاتا اور دوسرے غلط کاموں کو غلط کہا جاتا تھا اور ان کے بجائے اچھے کاموں کی دعوت دی جاتی تھی۔
لہٰذا منفی کو رد کرنا ضروری ہے لیکن منفی کے رد میں ایسا نہ ہو کہ ہم مثبت کو بھی رد کر دیں۔ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ لوگ برے کام کی مخالفت کرتے کرتے اچھے کام کی بھی مخالفت کر دیتے ہیں۔ مثلاً ایک شخص 80 فیصد خراب ہے، دوسرا 70 فیصد خراب ہے، تیسرا 50 فیصد خراب ہے اور چوتھا 30 فیصد خراب ہے۔ آپ سب کو ایک ہی درجہ میں رکھ کر سب کا رد برابر کر رہے ہیں تو یہ بات غلط ہو گی۔ صحیح بات یہ ہو گی کہ جو جتنا خراب ہے اس کا اتنا ہی رد کیا جائے۔ ”اَھْوَنُ الْبَلِیَّتَیْنِ“ کا اصول یہی ہے کہ اگر اور کوئی چارہ نہ ہو تو وقتی طور پر بڑی بلا کے مقابلے میں چھوٹی بلا کو لے لو۔
جو بھی اچھا عمل کیا جائے اس کی یہ لازمی شرط ہے کہ اس میں نفسانیت کا دخل نہ ہو بلکہ وہ نیک عمل للہیت کی وجہ سے ہو۔ اِسی للہیت کے پیدا کرنے کو ہم تصوف کہتے ہیں۔
سوال نمبر5:
اگر کوئی زیادتی کر رہا ہو، اور جس پر زیادتی ہو رہی ہے وہ بدلہ لینے کی استطاعت رکھنے کے با وجود صبر کرتا ہے تو کیا اس کا یہ عمل ٹھیک ہے؟
جواب:
بالکل ٹھیک ہے بلکہ اس سے ایک قدم اونچے درجہ کے لوگ بھی ہیں۔
ایک بزرگ اپنے مریدین اور خلفاء کے ساتھ کہیں جا رہے تھے۔ راستے میں ایک عورت پانی بھر رہی تھی، شاید اس عورت کو ان بزرگ کے ساتھ کوئی پرخاش ہو گی، اس نے بلا وجہ انہیں گالیاں دینا شروع کر دیں۔ بزرگ پہلے سر نیچے کیے سنتے رہے اور چلتے رہے، کچھ دیر بعد اپنے خلیفہ سے کہا کہ جاؤ اس کو ایک مکا مارو۔ یہ سن کر خلیفہ کا دماغ چکرا گیا۔ ایک بزرگ سے ایسی بات کا صادر ہونا اس کے تصور میں بھی نہ تھا۔ وہ حیران ہو گیا کہ اتنا بڑا بزرگ اور عورت کو مکا مارنے کا حکم دے رہا ہے۔
عموماً ہم لوگ بزرگوں کو ایسا ہی سمجھتے ہیں کہ یہ تو بس اللّٰہ میاں کی گائے ہوں، کسی کی کوئی پرواہ نہ کرئں۔
بہرحال خلیفہ پریشان ہو گیا کہ کیا کرے، ابھی اسی کشمکش میں ہی تھا کہ اس عورت کو مکا مارے یا نہ مارے، اچانک وہ عورت گری اور مر گئی۔ اس بزرگ نے اپنے خلیفہ سے کہا کہ اس عورت کو تو نے مارا ہے یہ تیری وجہ سے مری ہے۔ خلیفہ نے کہا: وہ کیسے؟ بزرگ نے کہا کہ جب وہ مجھے نا حق برا بھلا کہہ رہی تھی تو میں نے دیکھ لیا تھا کہ اللّٰہ کا غضب اس کی طرف متوجہ ہو گیا ہے، میں نے سوچا کہ میں اس عورت سے تھوڑا سا بدلہ لے لیتا ہوں تاکہ وہ عذاب اس سے ہٹ جائے اور یہ بچ جائے، تبھی میں نے آپ کو کہا کہ اسے ایک مکا مارو، اگر آپ اس سے بدلہ لے لیتے تو شاید یہ بچ جاتی مگر آپ نے سستی کی اور اس پر عذاب آ گیا۔
بعض لوگ جب ایسا کرتے ہیں کہ خود پر زیادتی کرنے والے سے بدلہ لے لیتے ہیں تو بظاہر یوں لگتا ہے کہ یہ کم درجے کے بزرگ ہیں لیکن وہ پیچھے بہت کچھ باقی رکھتے ہیں، کیونکہ اللہ والوں کا دل دکھانے پر بڑی سخت سزا ہو جاتی ہے، اگر اسی وقت ان سے تھوڑا بہت انتقام لے لیا جائے تو وہ بڑی سزا سے بچ جاتے ہیں۔
سوال نمبر6:
اگر کسی کو نماز میں شیخ کا تصور آتا ہو تو کیا ٹھیک ہے یا نہیں؟
جواب:
نماز میں شیخ کا تصور نہیں لانا چاہیے بلکہ نماز کے دوران تو حضور ﷺ کا تصور بھی نہیں لانا چاہیے لیکن اگر خود بخود خیال آ جائے آدمی کا اپنا کوئی ارادہ نہ ہو اور اس خیال کے آنے کے بعد اسی پہ اپنی سوچ مرکوز نہ کرے اور اس خیال کو باقی رکھنے کی کوشش نہ کرے تو پھر یہ معذور ہے۔ ایسی صورت میں کوئی گناہ نہیں۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے کہ اگر کسی کو سردی لگ رہی ہو تو نماز کی حالت میں بھی اس کو سردی تو لگے گی لیکن وہ اس کے لیے اپنی نماز تو خراب نہیں کرے گا۔ اسی طرح جس کو خود بخود شیخ کا تصور آ رہا ہو تو وہ اس کو روکنے پہ قادر نہیں ہے، بس وہ اتنا کرے کہ اس تصور اور خیال میں اپنے ارادہ کو شامل نہ کرے اور اپنی نماز کی طرف توجہ کرے۔
اگر خود سے خیال آئے تو کوئی حرج نہیں بلکہ بعض اوقات ایسے خیال سے نماز بَڑِھیا بھی ہو سکتی ہے، وہ اس طرح کہ اگر کسی کو معلوم ہو کہ میرا شیخ میرے ساتھ اسی صف میں کھڑا نماز پڑھ رہا ہے تو اس کی نماز زیادہ اچھی ہو جائے گی، اسی طرح اگر کسی کو نماز میں شیخ کا خیال آ جائے تو اس کی نماز بھی اس وجہ سے اچھی ہو سکتی ہے۔
سوال نمبر7:
اگر کوئی شیخ کی محبت میں اس حد تک بڑھ جائے کہ وہ شیخ کی مجلس کے بغیر رہ نہ سکتا ہو تو اسے کیا کرنا چاہیے۔
جواب:
محبت کے اپنے انداز ہیں لیکن عقل کا استعمال بھی کرنا چاہیے۔ مثلاً شیخ اس کو کہے کہ جاؤ فلاں چیز لے آؤ تو وہ کیا کرے گا، شیخ کی مجلس میں بیٹھنا چاہے گا یا اس کا حکم مان کر جانا چاہے گا؟ ظاہر ہے اگر محبت ہے تو جائے گا، تکلیف تو ہو گی لیکن محبت کا تقاضا ہے کہ وہ اس تکلیف کو برداشت کرے اور شیخ کی مجلس سے اٹھ کر بازار جائے، بے شک کام کرتے ہوئے بھی اس کا دل اپنے شیخ کی طرف ہی لگا رہے گا لیکن اس کو زیادہ فائدہ ہو گا کیونکہ وہ عملاً شیخ کی مجلس میں ہی ہو گا البتہ صورتاً شیخ کی مجلس میں نہیں ہو گا۔
حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری رحمۃ اللہ علیہ ایک کتاب لکھ رہے تھے جس کے سلسلے میں کچھ تحقیق کی ضرورت تھی۔ اس تحقیقی کام کے لیے انہوں نے اپنے مرید اور شاگرد حضرت مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو تھانہ بھون بھیجا تاکہ اس کتاب کے بارے میں تحقیق کے لیے جو مواد چاہیے وہ وہاں سے لے لیں اور تحقیق کا کام کریں۔ حضرت مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ وہاں ہر وقت تحقیقی کام اور کتابوں کے مطالعہ میں مشغول رہتے۔ ایک دن حضرت مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ نے حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ سے کہا کہ حضرت میں کتنا کم قسمت ہوں، لوگ اتنی دور دور سے آپ کے ہاں آتے ہیں اور آپ کی مجلس سے مستفید ہوتے ہیں جبکہ میں اتنا قریب رہ کر بھی آپ سے مستفید نہیں ہو پا رہا، مجھے اس کا بڑا قلق ہے۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: لوگ میری مجلس میں ہوتے ہیں اور میں آپ کی مجلس میں ہوتا ہوں، وہ اس طرح کہ جب میں آپ کو دیکھتا ہوں کہ اپنے شیخ کے کام میں اتنے زیادہ منہمک ہیں تو مجھے آپ پر بڑا رشک آتا ہے کہ آپ اپنے شیخ کے کام میں لگے ہوئے ہیں، اس طرح میں تو آپ کی مجلس میں ہوتا ہوں باقی لوگ میری مجلس میں ہوتے ہیں۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض اوقات صورتاً دوری ہوتی ہے لیکن حقیقتاً قرب ہوتا ہے۔
سوال نمبر8:
اللّٰہ کی محبت حاصل کرنے کے لیے شیخ کی کتنی محبت دل میں ہونی چاہیے؟
جواب:
ابھی تک ایسا کوئی آلہ ایجاد نہیں ہوا جو محبت کے پیمانے بتائے۔
؏ محبت خود تجھے آداب محبت سکھا دے گی
ایسا کوئی معیار میرے پاس نہیں ہے جس کے بارے میں کہہ دوں کہ اس معیار کی محبت ہونی چاہیے بلکہ میرے خیال میں محبت کے بارے میں ایسا سوال محبت کی توہین ہے کہ محبت کتنی ہونی چاہیے۔ ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ جتنی بھی محبت ہو اسے کم سمجھنا چاہیے۔
سوال نمبر9:
کیا ایسا ممکن ہے کہ کوئی فنا فی الرسول ہو جائے لیکن فنا فی الشیخ نہ ہو؟
جواب:
یہ وہی بات ہے جسے محاورۃً ”چھوٹا منہ اور بڑی بات“ کہتے ہیں۔ اگر اللّٰہ چاہتا، سب کو براہ راست اپنا دیوانہ بنا دیتا، باقی چیزوں کی کیا ضرورت تھی؟ لیکن اللّٰہ ایسا کرتا نہیں، اللّٰہ کر تو سب کچھ سکتا ہے لیکن ایسا کرنا اس کی عادت نہیں ہے۔
اس کو ایک مثال سے سمجھاتا ہوں۔ حضرت شیخ الحدیث رحمۃ اللّٰہ علیہ اور حضرت شاہ عبد القادر رائے پوری رحمۃ اللّٰہ علیہ ہم عصر تھے۔ ایک دوسرے کے ساتھ بڑی محبت کرتے تھے۔ شاہ عبد القادر رائے پوری رحمۃ اللّٰہ علیہ کی مجلس میں اس شخص کی بہت قدر ہوتی تھی اور اسے اپنے قریب بٹھاتے تھے جو ان کے ہاں آ کر حضرت شیخ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ کا سلام پیش کرتا تھا۔ کوئی شخص دور بیٹھا ہوتا اور کہتا کہ حضرت میں سہارنپور سے آیا ہوں، حضرت مولانا زکریا صاحب آپ کو سلام کہہ رہے ہیں۔ حضرت شاہ عبد القادر رائے پوری رحمۃ اللہ علیہ فوراً فرماتے کہ آگے آ جاؤ، آگے آ جاؤ، اسے اپنے سامنے بٹھا کر پوری تفصیل جاننے کی کوشش کرتے، سوالات پوچھتے کہ حضرت کے مزاج کیسے ہیں، کیا کہہ رہے تھے وغیرہ وغیرہ۔
بعض لوگ جن کو مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ مناسبت نہیں ہوتی تھی اور شاہ عبد القادر صاحب رائے پوری رحمۃ اللّٰہ علیہ کے ساتھ مناسبت ہوتی تھی وہ صرف شاہ عبد القادر رائے پوری رحمۃ اللّٰہ علیہ کے قرب کو حاصل کرنے کے لیے حضرت مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے پاس آتے تھے، ان سے سلام لے کر اُن کو پہنچاتے تھے تاکہ وہاں پر ان کو قرب ملے۔
امید ہے اس واقعہ میں آپ کے سوال کا جواب مل گیا ہو گا۔
سوال نمبر10:
درود شریف کیسا پڑھنا چاہیے، مختصر یا طویل۔
جواب:
بڑا اچھا سوال ہے، اس قسم کا سوال حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ سے بھی کیا گیا تھا، اس کا جو جواب انہوں نے دیا میں وہی آپ کے سامنے عرض کرتا ہوں۔ ان شاء اللّٰہ العزیز اس سے تشفی ہو جائے گی، حضرت سے سوال کیا گیا تھا کہ لمبا درود شریف پڑھیں یا مختصر درود پاک پڑھیں؟ کیونکہ مختصر درود پاک تعداد میں زیادہ پڑھا جائے گا اور لمبے درود پاک میں تعداد کم رہیں گے۔ حضرت نے فرمایا: اس میں ذوق کا اعتبار ہے، بعض لوگوں پر یہ ذوق غالب ہوتا ہے کہ زیادہ تعداد میں کام کیا جائے، اس وقت چھوٹا درود پڑھنا چاہیے، اور بعض لوگوں پر یہ ذوق غالب ہوتا ہے کہ تعداد کو نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ معیار کو دیکھنا چاہیے، ایسے لوگ لمبا درود پڑھتے ہیں وہ اس کی پرواہ نہیں کرتے کہ تعداد میں کتنا ہوا۔
سوال نمبر11:
خواب میں نبی پاک ﷺ کا دیدار کیسے ہو سکتا ہے؟
جواب:
اس بارے میں حضرت حاجی امداد اللّٰہ مہاجر مکی صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کا جواب نقل کرتا ہوں۔
حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ سے کسی نے پوچھا کہ حضرت خواب میں آپ ﷺ کا دیدار کیسے ہو سکتا ہے؟
فرمایا: آپ کی بڑی ہمت ہے، ہم تو اپنے آپ کو گنبد خضرا کے دیدار کے قابل بھی نہیں سمجھتے۔
اس کا کوئی لگا بندھا نسخہ تو نہیں ہے، ہاں ایک بات ہے، اگر دل محبت سے لبریز ہو اور سنت کے مطابق زندگی گزاری جائے، درود شریف کی کثرت کی جائے تو امید ہے کہ اگر اللہ پاک کی حکمت میں ہو گا تو دیدار ہو جائے گا۔
اس سلسلے میرا اپنا شرحِ صدر یہ ہے کہ کوئی عمل اس قابل نہیں ہے کہ وہ آدمی کو اس قابل بنا دے، یہ سعادت اسی کو نصیب ہوتی ہے جس پہ اللہ کا فضل ہو جائے، اور اللہ کے فضل کے لیے کسی حساب کتاب کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس لئے اگر مانگا جائے تو اللّٰہ کا فضل مانگا جائے، کیونکہ یہ سعادت کسی عمل کے نتیجے پر موقوف نہیں ہے۔
سوال نمبر12:
ایک بزرگ کا قول ہے: ”تقویٰ کا مقصود جنت ہے اور ذکر کا مقصود ذات الٰہی ہے“۔ اس کی وضاحت فرما دیں۔
جواب:
انسان کو حسنِ ظن کا معاملہ رکھنا چاہیے۔ سوال میں ذکر کردہ قول کو بھی اچھے معنی پر محمول کرنا چاہیے بے شک بات سمجھ میں نہ بھی آئے لیکن اچھا محمول تو تلاش کیا جا سکتا ہے۔
حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ ارشاد فرماتے تھے کہ لوگوں کو ذکر سے اس لیے فائدہ نہیں ہوتا کہ وہ اس کی نیت نہیں کرتے اور ذکر کی نیت یہ ہے کہ اللّٰہ کی محبت مل جائے۔
تقویٰ کے بارے میں تو قرآن پاک سے ثابت ہے کہ ایمان اور تقویٰ مل جائے تو ولایت حاصل ہو جاتی ہے۔
﴿اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ 0 الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ كَانُوْا یَتَّقُوْنَؕ﴾ (یونس: 62-63)
ترجمہ: ”یاد رکھو کہ جو اللہ کے دوست ہیں ان کو نہ کوئی خوف ہو گا نہ وہ غم گین ہوں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے، اور تقویٰ اختیار کیے رہے“۔
محبت کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ محبت میں باقی چیزیں نظر سے اٹھ جاتی ہیں، جنت پر سے بھی نظر اٹھ جاتی ہے۔ حضرت سعید الدین مرغشی رحمۃ اللّٰہ علیہ ہمارے سلسلے کے ایک بزرگ ہیں۔ وقتِ وفات ان کے سامنے جنت پیش کی گئی۔ فرمایا کہ یا اللّٰہ اگر میں نے پوری زندگی میں عمل اس لیے کیا ہے کہ مجھے جنت مل جائے تو میں نے اپنی زندگی ضائع کر دی۔ اس کے بعد جنت سامنے سے ہٹا دی گئی اور اللّٰہ پاک کی طرف سے براہ راست تجلی ہوئی۔
بعض اوقات لوگ خواہ مخواہ ان معاملات کا تجزیہ کرنے لگ جاتے ہیں۔ میں وحدت الوجود کے بارے میں کہتا ہوں کہ جس نے اس کو کیفیت سمجھا تو اسے بہت بڑا مقام حاصل ہوا اور اگر کسی نے اس کو فلسفہ بنا دیا تو وہ زندیق ہو گیا۔ اسی طرح محبت کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے، جو اس کے بارے میں تجزیہ نگاری کر رہا ہے وہ اسے فلسفہ بنا رہا ہے اور فلسفے میں پیچیدگیاں ہونا تو لازمی ہے ہاں اگر اس کو کیفیت کے طور پر لے لیں تو پھر کوئی پیچیدگی نہیں رہ جاتی۔
جس کے اوپر اللّٰہ پاک کی محبت اتنی غالب ہو جائے کہ وہ اپنا سب کچھ بھول جائے، تو اس پر وہی بات صادق آتی ہے کہ جو اللہ کا ہو گیا اللہ اس کا ہو گیا اور اللہ جس کا ہو گیا اسے کسی اور چیز کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے جس کی نیت ذکر کرتے ہوئے یہ ہو کہ مجھے اللہ پاک کی محبت حاصل ہو جائے تو اس کا ذکر اسے اسی طرف ہی لے جائے گا اور جس کی نیت جنت کی طلب ہو تو اس کا ذکر اسے جنت کی طرف لے جائے گا، اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، ایک ہی بات ہے۔
اس لیے کہتے ہیں کہ بزرگوں کی باتیں نقل کرنے میں احتیاط کرنا چاہیے، یہ دو دھاری تلوار ہوتی ہیں دونوں طرف کاٹ کرتی ہیں، سمجھ میں آ جائیں تو بہت اچھا اور سمجھ میں نہ آئیں تو جو سمجھ ہے وہ بھی چلی جائے گی۔
سوال نمبر13:
حضرت قبض کی کیفیت کے بارے میں رہنمائی فرما دیں۔
جواب:
قبض، استتار کی ایک کیفیت ہے۔ اس میں بڑی حکمتیں ہوتی ہیں۔ استتار مختلف وجوہات سے ہو سکتا ہے، رات کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے، بادل کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے اور کسی گڑھے میں گر جانے کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے۔ اگر گڑھے میں گرنے کی وجہ سے استتار ہے تو اس سے نکلنے کی کوشش کرنی چاہیے، بادل کی وجہ سے ہے تو بادل کے گزرنے کا انتظار کیا جائے اور اگر رات کی وجہ سے ہے تو اس کو اپنے لیے ایک راحت سمجھے۔
بعض اوقات یہ استتار گناہوں کی وجہ سے بھی ہوتا ہے، ایسی صورت میں یہ گڑھا ہے اور اس گڑھے سے نکلنے کا طریقہ یہ ہے کہ گناہوں سے توبہ کی جائے۔
بعض اوقات یہ کیفیت انسان کے منفی جذبات کو دور کرنے کے لیے طاری کر دی جاتی ہے، وہ منفی جذبات جو نیک اعمال کے ساتھ Side effect کے طور پر آ جاتے ہیں، مثلاً عجب، تکبر وغیرہ۔ ان اثرات کو دور کرنے کے لیے بھی قبض کی کیفیت آ جاتی ہے۔
اگر کوئی آدمی واقعتاً مسلسل اطمینان و سکون اور لطف سے نیک اعمال کیے جا رہا ہو تو وہ اپنے آپ کو کچھ سمجھنے لگ جاتا ہے، اس میں بزرگی آ جاتی ہے۔ اس کا علاج قبض کی کیفیت کے علاوہ اور کسی چیز سے بڑا مشکل ہوتا ہے۔ یا تو وحدت الوجود کی کیفیت طاری ہو جائے کہ اللّٰہ کی محبت ہی اتنی زیادہ ہو جائے کہ آدمی اپنے آپ کو بھول جائے پھر تو عجب کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، یا پھر قبض ہی اس کا علاج ہے۔ جب کسی آدمی پر یہ کیفیت طاری ہو جاتی ہے تو وہ اپنے آپ کو انسان ہی نہیں سمجھتا، بزرگ سمجھنا تو دور کی بات ہے۔
کبھی کبھار اس لئے بھی قبض کی کیفیت طاری کر دی جاتی ہے کہ جو کچھ آدمی کو ملنے والا ہے اس کی اہمیت میں اضافہ ہو جائے، اس چیز کی اہمیت بڑھانے کے لئے اور اس پر توجہ مرکوز کرنے کے لئے بھی یہ کیفیت پیدا کر دی جاتی ہے۔
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں کہ قبض کے لئے تینوں قسم کے علاج بیک وقت کر لے، توبہ بھی کر لے، تھوڑی بہت تفریح بھی کر لے اور اپنے دل کو سمجھا بھی لے کہ اللّٰہ پاک بہت مہربان ہے اور اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہے۔
سوال نمبر14:
ذکر کرنے کی وجہ سے کچھ روحانی مخلوقات کی آمد و رفت بھی ہوتی ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟
جواب:
یہ بات بالکل درست ہے کہ جہاں ذکر ہو وہاں فرشتوں کی آمد و رفت رہتی ہے۔ جیسے دسترخوان بچھ جاتا ہے تو مہمانوں کو بلا لیا جاتا ہے اسی طرح فرشتے بھی جہاں ذکر کے حلقے دیکھتے ہیں وہاں جوق در جوق آتے ہیں اور باقی فرشتوں کو دعوت بھی دیتے ہیں کہ ہمارے مطلب کی چیز یہاں موجود ہے۔ ذکر سے فرشتوں کو بڑی خوشی ہوتی ہے، کچھ فرشتے تو وقتاً فوقتاً آتے ہیں اور کچھ مستقل طور پر اس کے ساتھ لگ جاتے ہیں، وہ خاص ذکر جو انسان کرتا ہے اس کے عادی ہو جاتے ہیں۔ یہ اللّٰہ پاک کا نظام ہے۔ فرشتے اسی وقت آتے ہیں جس وقت انسان ذکر کر رہا ہوتا ہے، اگر وہ ذکر کا وقت تبدیل کر لے تو ان کو مایوسی اور تکلیف ہوتی ہے جس کی وجہ سے بے برکتی شروع ہو جاتی ہے، اس لیے ہم کہتے ہیں کوئی ایک وقت مخصوص کر کے ذکر کرتے رہو تاکہ ان کو کوئی مسئلہ نہ ہو۔ فرشتوں کے علاوہ نیک جنات بھی ذکر کی مجالس میں آتے ہیں، وہ ایسی محفلوں کی تلاش میں ہوتے ہیں، ایسے لوگوں کے ساتھ ان کی با قاعدہ خدمت کی ڈیوٹی لگ جاتی ہے، مدرسوں اور خانقاہوں میں ایسے جنات موجود ہوتے ہیں، وہاں وہ اپنے اپنے کام کرتے ہیں۔
سوات میں ایک خاتون پر جنات آ گئے تھے۔ میں سرگودھا جا رہا تھا، راستے میں اس کے شوہر کا فون آیا، میں اس وقت گاڑی میں سو رہا تھا، موبائل کی گھنٹی بجنے کی وجہ سے جاگ گیا۔ اس کے شوہر سے بات ہوئی، میں اس وقت ذرا غنودگی میں تھا، یونہی جان چھڑانے کے لیے کہہ دیا کہ میری طرف سے اس جن کو کہہ دو کہ تنگ مت کریں اور اس کا خیال رکھیں۔ اس آدمی نے ان کو مخاطب کر کے ایسا ہی کہہ دیا۔ جنات نے یہ سن کر کہا کہ ہاں ہم ان کی مجلس میں جاتے رہے ہیں، ہمیں معلوم ہے اور ہم تنگ کرنے کے لیے نہیں آئے، ہم ان کی مدد کرنے کے لیے آئے ہیں لہذا پریشان نہ ہوں۔ بعد میں جنات نے اس آدمی سے درخواست کی تھی کہ ہماری بات چیت کرا دیں۔ جب اگلی دفعہ آئے تو اتفاقاً اس وقت بھی میں سرگودھا سے واپس آ رہا تھا، ان کا فون آیا، میرے ساتھ بات چیت ہوئی، میں نے ان سے پوچھا کہ ذکر کرتے ہو یا نہیں؟ انہوں نے کہا: نہیں کرتے۔ میں نے کہا: اگر ذکر دوں تو کرو گے؟ انہوں نے کہا: ہاں دے دیں۔ میں اکثر لوگوں کو 100 دفعہ درود شریف، 100 دفعہ تیسرا کلمہ اور 100 دفعہ استغفار بتاتا ہوں، لیکن ان کو بتاتے ہوئے میری زبان سے ہی ”300 مرتبہ درود شریف“ نکلا۔ میں نے انہیں کہا کہ 300 مرتبہ درود شریف، 100 دفعہ تیسرا کلمہ اور 100 دفعہ استغفار کیا کریں۔
بہرحال جنات کا ایسی جگہوں پہ آنا جانا کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کے بیٹے حلیم گل بابا رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر اب بھی یہ حالت ہے کہ جنات کے اثر والے آدمی کو وہاں لے کر جائیں تو اس سے جنات اتر جاتے ہیں۔
ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ ایک صاحب جو بڑے موحد تھے، مزاروں پہ آنے جانے کے معاملہ میں بڑے سخت مزاج کے مالک تھے۔ لیکن خدا کی قدرت کہ ان کے گھر والوں کو جنات کا مسئلہ تھا۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ لوگ ایسا کہتے ہیں کیا یہ ٹھیک ہے؟
میں نے سوچا کہ پہلے اس کا عقیدہ درست کیا جائے تاکہ اس کو نقصان نہ ہو۔ میں نے اس سے کہا: پہلے اس کو سمجھو کہ در اصل ہوتا کیا ہے، جس طرح انسانوں میں ہر مذہب اور ہر مسلک کے لوگ ہوتے ہیں اسی طرح جنات میں بھی سارے مذاہب کے لوگ ہوتے ہیں اور سارے مسالک کے لوگ ہوتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ بعض جنات کو حلیم گل بابا کے ساتھ بڑی محبت ہے، وہ وہاں پہنچ چکے ہوں اور بڑی تعداد میں بیٹھے ہوں، ان کے پاس اگر کوئی جنات والا آدمی جائے اور وہاں موجود جنات حضرت کے محبت میں ان جنات کو قابو کر کے اپنے پاس بٹھا لیں تو وہ آدمی آزاد ہو جائے گا، اس کو تو فائدہ ہو گیا۔
میری یہ بات سن کر وہ صاحب کہنے لگے کہ اگر ایسا ہے تو اس میں کوئی غلط بات نہیں ہے۔ میں نے کہا کہ تم یہی سمجھو، خواہ مخواہ یہ کیوں سمجھتے ہو کہ بابا نے جن اتار دیئے اصل میں تو اللّٰہ تعالیٰ نے اتارے ہیں۔ اس کے بعد وہ ان کے مزار پر چلا گیا تھا۔
سوال نمبر15:
کیا جنات کی بھی ضروریات ہیں اور کھانے پینے کے نظام ہیں؟
جواب:
جی بالکل، ان کے بھی مختلف نظام ہیں، لیکن ان کے ہاں طریقۂ کار مختلف ہے، ان کی خوراک ایسی نہیں ہے جیسے انسانوں کی ہے۔ حدیث شریف کے مطابق ان کی خوراک ہڈیاں وغیرہ ہوتی ہیں۔ بہرحال ہمیں اتنی تفصیلات میں جانے کی کیا ضرورت ہے، ہم نے عامل تھوڑا ہی بننا ہے۔
سوال نمبر16:
اگر کسی عمل کو خاص تعداد میں مقرر ایام میں کیا جائے تو سنا ہے کہ اس وظیفے کے مؤکل مل جاتے ہیں، یہ مؤکل جنات ہوتے ہیں یا فرشتے؟
جواب:
فرشتے بھی ہوتے ہیں اور جنات بھی ہوتے ہیں۔ نیک فرشتے تو ہر نیک انسان کے ساتھ ہوتے ہیں یہ قرآن سے ثابت ہے:
﴿اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْهِمُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا وَ اَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِیْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ 0 نَحْنُ اَوْلِیٰٓؤُكُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ فِی الْاٰخِرَةِ﴾ (فصلت: 30-31)
ترجمہ: ”(دوسری طرف) جن لوگوں نے کہا ہے کہ ہمارا رب اللہ ہے، اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے تو ان پر بے شک فرشتے (یہ کہتے ہوئے) اتریں گے کہ: نہ کوئی خوف دل میں لاؤ، نہ کسی بات کا غم کرو، اور اس جنت سے خوش ہوجاؤ جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ہم دنیا والی زندگی میں بھی تمہارے ساتھی تھے، اور آخرت میں بھی رہیں گے“۔
نیک لوگوں کے ساتھ ان کی مدد کے لیے فرشتوں کا ہونا قرآن سے ثابت ہے، چاہے آپ ان کو مؤکل کہہ لیں لیکن بہرحال وہ ہوتے ضرور ہیں۔
سوال نمبر17:
کیا فرشتوں یا جنات سے کام بھی کروائے جاتے ہیں؟
جواب:
اگر کسی نے عامل بننا ہو تو اس کے طریقے الگ ہیں وہ کسی عامل سے پوچھے جائیں، میں تو اتنا ہی بتاؤں گا کہ جو اللّٰہ کا بن جائے اللّٰہ پاک اس کے سارے کام کروائے گا، ہمارا شعبہ یہی ہے۔
سوال نمبر18:
جنات کی کیا حقیقت ہے؟ اکثر جنات برے ہوتے ہیں جو لوگوں کو تنگ کرنے کے لیے چھوڑے جاتے ہیں کیا ان کا درجہ اشرف المخلوقات سے بالا ہے کہ اِن کو انسانوں پر قدرت حاصل ہوتی ہے؟ نیز کیا انہیں اس بات کی کوئی پروا نہیں ہوتی کہ ہم انسانوں کو تنگ کریں گے تو ہمیں گناہ ہو گا۔
جواب:
اگر سانپ کے پاس یہ طاقت ہے کہ وہ کسی انسان کو ڈس سکتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اشرف المخلوقات سے بالا ہے۔ کوئی بھی چیز انسان کو تنگ کر سکتی ہے، تنگ کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اس سے بالا ہو گئی ہے۔ یہ اپنی اپنی domain ہے۔ شیر، بھیڑیا، سانپ اور بچھو وغیرہ یہ سب انسان کو تنگ کرتے ہیں، اگر انسان اپنی حفاظت کا بندوبست نہ کرے تو جنات بھی تنگ کر سکتے ہیں۔ یہ حفاظت فرشتوں کی صورت میں قدرتی طور پر موجود ہوتی ہے اور اللّٰہ کی مدد کسی بھی صورت میں ہو، اس کے ذریعے سے انسان کی حفاظت ہوتی ہے اگر اللّٰہ کے ساتھ کسی کا تعلق ہے تو وہ حفاظت میں ہوتا ہے۔ لہٰذا اللہ کے تعلق کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ بعض لوگ فوری حفاظت کا خیال رکھتے ہیں لیکن مستقل حفاظت کا خیال نہیں رکھتے، اس کی مثال بالکل ایسے ہی ہے جیسے آپ چوروں کے اندر آنے سے بچنے کے لیے چوکیاں اور مضبوط دیواریں بنوا دیں لیکن جو ایک دو چور پہلے سے اندر آ چکے ہیں ان سے بچاؤ کا بندوبست نہ کریں۔ عامل لوگوں کا کام یہی ہوتا ہے کہ وہ ان چوروں سے حفاظت کرتے ہیں جو پہلے سے اندر موجود ہوں۔
اللّٰہ والوں کے ساتھ جو لوگ رہتے ہیں ان کی حفاظت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ ہم تو صرف اتنا جانتے ہیں ہم عامل نہیں ہیں اور نہ عامل بننا چاہتے ہیں لہذا اس سے زیادہ بتانے کی ضرورت بھی نہیں سمجھتے اور جاننے کی ضرورت بھی نہیں سمجھتے۔
سوال نمبر19:
تہجد کے وقت اٹھنے کے لئے کیا طریقہ اختیار کیا جائے؟
جواب:
آپ موبائل پہ الارم سیٹ کر لیا کریں تو کسی کو کہنے کی ضرورت نہیں پڑے گی خود ہی انتظام ہو جائے گا۔ اللّٰہ پاک نے جو وسائل دیئے ہیں وہ استعمال کرنے چاہئیں۔
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ سے ایک صاحب نے کہا کہ افسوس ہے میں ابھی تک ان خارجی چیزوں سے چھوٹ نہیں پایا، ابھی بھی تہجد کے وقت اٹھنے کے لیے گھڑی پہ الارم لگانے کی ضرورت ہوتی ہے۔
حضرت نے فرمایا: کن کن خارجی چیزوں سے بچو گے، تمہیں تو پانی پینے کی ضرورت بھی ہے، کھانا کھانے کی ضرورت بھی ہے اور بھی کئی چیزوں کی ضرورت ہے، کس کس چیز کے لیے کہو گے کہ ابھی بھی ہمیں ان خارجی چیزوں کی ضرورت ہے۔ جو چیز اللّٰہ نے دی ہے اور اسے استعمال کرنے کی سمجھ بھی دی ہے، ان چیزوں کو اللہ کی دی ہوئی سمجھ کے استعمال کرو، یہ نہیں کہ رونا دھونا شروع کر لو کہ ہمیں فلاں فلاں چیز کے لیے ابھی بھی ذرائع کی ضرورت پڑتی ہے۔
در اصل یہ بھی بزرگی کا ایک شعبہ ہے کہ ہمیں سب کچھ بغیر اسباب اختیار کیے حاصل ہو جائے۔ میں تو یہ کہتا ہوں کہ انسان جتنا قدرتی اسباب کو اختیار کرے گا، اللّٰہ پہ بھروسہ کرے گا اور اللّٰہ پاک سے مدد کا خواہاں ہو گا، اتنی اس میں عاجزی زیادہ ہو گی۔ دوسرے طریقوں میں بزرگی کا امکان زیادہ ہے۔ میں تو بزرگی سے بہت ڈرتا ہوں، یہ بہت خطرناک طلب ہے۔ انسان کو چاہیے کہ اللّٰہ تعالیٰ کے ساتھ اپنا تعلق جوڑے، اپنے آپ کو کچھ نہ سمجھے اور اللّٰہ کی دَین کو سب کچھ سمجھے، یہی کامیابی کی بات ہے۔ جو ذرائع تمام سادہ لوگ استعمال کرتے ہیں، جیسے سادہ آدمی کھاتا بھی ہے، پیتا بھی ہے، پہنتا بھی ہے، روتا بھی ہے، جاگتا بھی ہے اور سوتا بھی ہے، ہم سب کچھ اسی طرح کر لیں لیکن اللّٰہ کا بن کے کریں اور اپنی نیت کو درست کر لیں تو ان شاء اللّٰہ ساری چیزیں ٹھیک ہو جائیں گی۔
سوال نمبر20:
کیا جنات میں بھی ولایت کا سلسلہ ہوتا ہے؟
جواب:
جی بالکل۔ جنات میں اولیاء ہوتے ہیں، مشائخ اور خلفاء بھی ہوتے ہیں۔ انسانوں میں جتنے مسلک ہیں اتنے ہی جنات میں بھی ہیں، استادی شاگردی کا سلسلہ بھی ہوتا ہے۔
سوال نمبر21:
کیا تصوف میں چار سلسلوں کے علاوہ اور بھی سلسلے ہیں؟
جواب:
جی ہاں بہت زیادہ سلسلے ہیں۔ کچھ نام بتا دیتا ہوں جس سے آپ کو اندازہ ہو جائے گا۔ شاذلیہ، رفاعیہ، عبودیہ۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سارے ہیں۔
سوال نمبر22:
یہ جو بزرگ ہوتے ہیں، انہیں بھی عام انسانوں کی طرح غصہ آتا ہے، ان میں بچوں سے محبت بھی ہوتی ہے، پریشانی بھی ہو جاتی ہے اور یہ عام آدمیوں کی طرح اسباب اختیار کرتے ہیں تو پھر ان میں اور عام انسانوں میں کیا فرق ہوتا ہوا؟
جواب:
بعض دفعہ تفصیلات میں جائے بغیر الزامی جواب زیادہ اچھا ہوتا ہے۔ دنیا کے تمام اولیاء اللّٰہ کا درجہ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے تو کم ہی ہے، اور صحابہ کرم رضوان اللہ علیہم اجمعین میں ہر طرح کی طبیعت کا آدمی ملتا ہے، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کو دیکھو، عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کو دیکھو، عثمان رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کو دیکھو، علی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کو دیکھو، زبیر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کو دیکھو، ابو ذر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کو دیکھو، ہر ایک میں بشری تقاضے نظر آتے ہیں حالانکہ وہ بھی بزرگ تھے، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں کسی بشری تقاضے کے ہونے سے ہم یہ تو نہیں سمجھیں گے کہ وہ بزرگ نہیں تھے یا ان کا سلوک مکمل نہیں ہوا تھا۔ یہیں سے دھوکا ہوتا ہے۔ در اصل مبتدی اور منتہی ظاہراً ایک جیسے ہوتے ہیں، مبتدی بھی تکلیف سے روتا ہے منتہی بھی تکلیف سے روتا ہے لیکن متوسط تکلیف کی پروا نہیں کرتا بلکہ بعض دفعہ تکلیف کے موقع پر ہنس بھی لیتا ہے۔ عام لوگوں کو متوسط درجہ کے لوگ بڑے بزرگ نظر آتے ہیں، لوگ کہتے ہیں کہ دیکھو اس کو تکلیف کی کچھ پروا نہیں ہے لہٰذا یہ بڑے درجے کا بزرگ ہے۔ مبتدی اور منتہی دونوں تکلیف پر روتے ہیں، لیکن فرق یہ ہوتا ہے کہ مبتدی اپنے نفس کے لیے روتا ہے اور منتہی اللّٰہ کے لیے روتا ہے۔
ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ بیمار ہو گئے تو فریاد کرنے لگے۔ کسی نے کہا: حضرت آپ بھی فریاد کر رہے ہیں؟ حضرت نے فرمایا: اللّٰہ نے مجھے بیمار کیا ہے تاکہ میری عاجزی ظاہر ہو، کیا میں فریاد نہ کر کے اللّٰہ کو اپنی پہلوانی دکھاؤں؟
یہی فرق ہوتا ہے کہ منتہی ہر کام اللّٰہ کے لیے کرتا ہے، مبتدی وہی کام اپنے نفس کے لیے کرتا ہے۔ بیوی کے ساتھ محبت مبتدی کو بھی ہے منتہی کو بھی ہے، مبتدی کو اپنے نفس کے لیے ہے جبکہ منتہی کو اللّٰہ کے لیے ہے۔
سوال نمبر23:
کیا شیخ کی رحلت کے بعد اس کا فیض ملتا ہے؟
جواب:
حضرت حاجی امداد اللّٰہ مہاجر مکی رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب میرے شیخ میاں جی نور محمد جھنجھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کا آخری وقت آیا تو فرمانے لگے کہ میرا دل تو چاہتا تھا کہ آپ نوجوان ہیں آپ سے کچھ کام لے لوں باقی دو تو عیال دار تھے، لیکن اب اللّٰہ پاک کی مشیت سے چارہ نہیں ہے، وقت آ چکا ہے۔ فرماتے ہیں میں حضرت کی چادر پکڑ کے رونے لگ گیا۔ حضرت نے مجھے روتے دیکھ کر فرمایا: مت رو، فقیر مرتا نہیں انتقال کرتا ہے، میری قبر سے آپ کو ایسے ہی فائدہ ہو گا جیسے زندگی میں ہو رہا ہے۔
اب فائدہ کیسے ہو گا؟ اس کے بارے میں تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن اتنا معلوم ہے کہ ہوتا ضرور ہے۔ حضرت نے ایسے ہی فرمایا۔ یہ واقعہ ”تاریخ مشائخ چشت“ میں اس طرح لکھا ہے:
آخری ایام:
حضرت حاجی امداد اللّٰہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بیان فرمایا کہ ایک دن بعد نماز جمعہ میرے حضرت لوگوں کو وصیتیں فرمانے لگے۔ لوگوں نے سمجھا کہ حضرت سفرِ آخرت کرنے والے ہیں، نہایت رنج و غم کا اظہار کیا۔ حضرت سے عرض کیا کہ ہم تو سمجھتے ہیں کہ ہمارے گھر میں دولت ہے جب چاہیں گے مستفید ہو جائیں گے۔ ارشاد فرمایا گھروں میں میرے بہت سے احباب تمہارے پاس موجود ہیں ان کو میرا قائم مقام سمجھو حافظ محمد ضامن صاحب شہید کو تو حضرت نے مجمع عام میں اپنا خلیفہ بنایا اور ضمناً ہم لوگوں کو بھی مجاز کیا اس کے بعد حضرت بیمار ہوئے آپ نے فرمایا کہ مجھے میرے وطن جھنجھانہ لے چلو جب لوہاری سے آپ کا میانہ (پالکی) تھانہ بھون پہنچا تو میانہ مسجد کے پاس ٹھہرا میں بھی حاضر خدمت ہوا حضرت نے فرمایا تم مجرد تھے اور حافظ ضامن صاحب اور شیخ محمد صاحب عیال دار۔ میرا ارادہ تھا کہ میں تم سے مجاہدہ و مشقت لوں گا۔ مشیت باری سے چارہ نہیں، پیام سفر آخرت آ گیا ہے۔ جب حضرت نے یہ کلمات فرمائے تو میں پالکی کی پٹی پکڑ کر رونے لگا حضرت نے تسلی دی اور فرمایا کہ فقیر مرتا نہیں بلکہ ایک مکان سے دوسرے مکان میں انتقال کرتا ہے فقیر کی قبر سے وہی فائدہ ہو گا جو ظاہری زندگی میں ہوتا تھا“۔
یہ کتاب ”تاریخ مشائخِ چشت“ حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے لکھی ہے۔
سوال نمبر24:
اکثر لوگ جب نئے نئے نیک ہوتے ہیں تو خاموش رہتے ہیں، ہنسنا چھوڑ دیتے ہیں، مذاق کا پہلو ان کی زندگی سے ختم ہو جاتا ہے مگر کاملین بزرگ ہنسی مذاق بھی کرتے ہیں، مریدوں کی اصلاح بھی کرتے ہیں، دنیا میں بھی رہتے ہیں جیسے کہ آپ ﷺ ازواج مطہرات اور حسنین کریمین سے خوش طبعی اور محبت کی باتیں کیا کرتے تھے۔ بزرگوں کو کیسا ہونا چاہیے؟ بزرگ سے سلسلے کے بزرگ اور خاندان کے بزرگ دونوں مراد ہیں؟
جواب:
ابتدائے سلوک میں جب انسان مبتدی کے مرحلہ سے متوسط کے مرحلہ میں منتقل ہوتا ہے تو اس کے احوال کچھ ایسے ہو جاتے ہیں کہ وہ واقعی بزرگ نظر آتا ہے کیونکہ وہ ان چیزوں کو دنیا سمجھ رہا ہوتا ہے لہذا وہ ان تمام چیزوں کو نظر انداز کر دیتا ہے اور اس کے اوپر غم و رنج کا اثر بھی نہیں ہوتا، وہ خوشیوں میں بھی شریک نہیں ہوتا، ان سب چیزوں کو دنیاوی چیزیں سمجھ رہا ہوتا ہے اس لئے ان سب چیزوں سے کٹ جاتا ہے، لیکن یہ وقتی صورتحال ہوتی ہے، جب یہی آدمی متوسط سے ترقی کر کے منتہی بن جاتا ہے، تب اس کے اوپر ساری چیزیں کھل جاتی ہیں، اسے سمجھ آ جاتی ہے کہ انہی دنیا کی چیزوں کو آخرت کی چیزیں بنایا جا سکتا ہے، یہی ہنسنا اگر اللّٰہ کے لیے ہو مثلاً کسی کا دل خوش کرنے کے لئے کسی کا حوصلہ بڑھانے کے لئے ہو تو اس سے اللّٰہ کا قرب حاصل کیا جا سکتا ہے۔ جیسے ہمارے بزرگ حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ خود بھی لطیفے سناتے تھے اور دوسروں سے بھی سنتے تھے۔ ایک دفعہ میرے ساتھ اسی قسم کا ایک بزرگ (حمزہ خان) تھا، ہم دونوں حضرت کی مجلس میں حاضر تھے، وہاں وہی لطیفے پہ لطیفے ہو رہے تھے۔ یہ مجھے کہنے لگے کہ یہ کیسے بزرگ ہیں خود بھی لطیفے سنتے ہیں اور دوسروں کو بھی سناتے ہیں۔ میں یہ سن کر غصے ہو گیا اور کہا کہ حمزہ خان یاد رکھو تمہاری ہمارے ساتھ دوستی ہے لیکن دوستی میں ہم یہ چیز برداشت نہیں کریں گے، اگر آپ نے حضرت کے بارے میں اور کوئی بات کی تو اچھا نہیں ہو گا۔ خیر وہ خاموش ہو گئے، پھر میں نے اسے کہا کہ بے وقوف! یہ جو لوگ حضرت کے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں، یہ سب بڑے بڑے افسر ہیں، پروفیسر ہیں، ڈاکٹر ہیں، انجینئر ہیں، یہ دنیا میں ہر بد معاشی کر سکتے ہیں، ان کے پاس بد معاشی کرنے کی صلاحیت ہے، اگر حضرت نے انہیں چند لطیفوں پہ ٹرخا کر اپنے پاس بٹھا لیا اور انہیں بری چیزوں سے ہٹا دیا ہے تو اچھا کیا ہے یا برا کیا؟ تمہیں یہ چیز کیوں نظر نہیں آتی کہ سامنے کون لوگ بیٹھے ہوئے ہیں۔
اس پر وہ سمجھ گیا، لیکن چونکہ اس نے گستاخی کی تھی، اسے اس گستاخی کی اسی دن سزا مل گئی کہ اس دن اس کی عصر کی نماز ایک معمولی سی وجہ سے رہ گئی۔ میں نے سوچا کہ یہ اس گستاخی کی سزا ہے، یہ اپنے آپ کو بزرگ سمجھتا تھا اس کی بزرگی نیچے سے کھینچ دی گئی۔
بہرحال منتہی لوگ یہ تمام کام کرتے ہیں لیکن صرف اللہ کے لیے کرتے ہیں۔
ایک مرتبہ ہمارے گھر والوں سے ہمارے بارے میں پوچھا گیا کہ یہ گھر میں کیسے رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ساتھ تو گپ شپ کرتے ہیں، کبھی ایک پہ چوٹ، کبھی دوسرے پہ چوٹ، کبھی کیا بات تو کبھی کیا بات کرتے ہیں۔ عورتیں یہ سن کر بڑی حیران ہو گئیں کہ شاہ صاحب اس طرح بھی کرتے ہیں۔
ظاہر ہے کوئی آدمی گھر والوں کے ساتھ ہر وقت اس طرح سنجیدہ ہو کر تو نہیں بیٹھ سکتا۔ بلکہ آپ یقین جانیے کہ جو لوگ آپ کے ہر وقت کے ساتھی ہوتے ہیں ان کی اصلاح کا طریقہ الگ ہوتا ہے اور جو آپ کے ساتھ کبھی کبھی ملتے ہیں ان کی اصلاح کا طریقہ الگ ہوتا ہے۔ جو ہمہ وقت آپ کے ساتھ ہوتے ہیں ان کو سمجھانے کے لیے بڑی دور کی کوڑی لانا پڑتی ہے، ان کو تو آپ نے بتانا بھی نہیں ہے کہ میں آپ کی اصلاح کر رہا ہوں۔ ان کے ساتھ آپ کو بہت سوچ سمجھ کر کام کرنا ہو گا، ان کی لائن بالکل مختلف ہو گی۔ اس کے بر عکس جو لوگ کبھی کبھی آپ کے پاس آتے ہیں، ان کے سامنے آپ تھوڑا سا reserve رہ سکتے ہیں لیکن اپنے گھر والوں کے ساتھ اور ہر وقت کے حاضر باش لوگوں کے ساتھ reserve نہیں رہ سکتے۔ کیونکہ ان کے اوپر آپ کی اصلی چیزیں کھل جاتی ہیں، لہٰذا ان کے لیے آپ کا زیادہ سنجیدہ ہو جانا وغیرہ کوئی معنی نہیں رکھتا۔
سوال نمبر25:
شیخ کی نسبت سب مریدین کے اندر منتقل ہوتی ہے یا کسی خاص کے مرید میں منتقل ہوتی ہے؟
جواب:
یہ مشکل سوال ہے، میں جتنا بتا سکتا ہوں اتنا عرض کر دیتا ہوں۔ شیخ کا رنگ چڑھنا مرید کی طلب پہ منحصر ہوتا ہے، جس پہ شیخ کا رنگ چڑھ جائے اسے زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔
ہمیں تو بزرگوں نے یہی بتایا ہے۔ اس وجہ سے کہتے ہیں کہ شیخ کے رنگ میں رنگ جاؤ کیونکہ اگر آپ شیخ کے پاس رہ کر کوئی دوسرا رنگ اختیار کرتے ہیں تو اس میں آپ کو قدم قدم پر مزاحمت ہوتی ہے اور مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ اس طرح بھی کام چل تو سکتا ہے لیکن اس کے لیے بہت ہی زیادہ احتیاط کی ضرورت پڑتی ہے، ہر ایک اس طرح نہیں کر سکتا۔ تاریخ میں ایسے واقعات موجود ہیں لیکن ان کی طرح بننے کی کوشش میں بہت سارے لوگ خراب ہو گئے ہیں۔
جیسے سید احمد شہید رحمۃ اللّٰہ علیہ اور چند دوسرے حضرات کے واقعات ملتے ہیں، لیکن وہ حضرات اس کے اہل تھے، وہ کر سکتے تھے، عام لوگ نہیں کر سکتے لہذا وہ مارے جاتے ہیں۔ عام لوگوں کے لیے یہی قانون ہے کہ شیخ کے رنگ میں رنگ جاؤ۔
ایک دفعہ حضرت صوفی اقبال صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ نے مجھ سے پوچھا: کیا آپ پروفیسر اشرف صاحب کے مرید ہیں؟ مجھے ان کی بات ٹھیک سے سنائی نہ دی میں سمجھا شاید ارشد کہہ رہے ہیں، میں نے کہا: نہیں۔ تھوڑی دیر کے بعد پھر پوچھا کیا آپ پروفیسر اشرف صاحب کے مرید ہیں؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ فرمایا: میں آپ سے پہلے بھی تو یہی بات پوچھ رہا تھا تب آپ نے کہا تھا کہ ان کے مرید نہیں ہیں۔ میں نے کہا کہ حضرت مجھے ارشد سنائی دیا تھا اس لیے میں نے کہا کہ ان کا مرید نہیں ہوں۔
فرمایا: میں کوئی کشف کی بات نہیں کر رہا، در اصل جیسے انسان پر پیشے کا اثر ہوتا ہے اس طرح شیخ کا بھی اثر ہوتا ہے اور الحمد للہ تم پر اپنے شیخ کا اثر ہے، اس چیز کو مزید بڑھا لو۔
جہاں تک شیخ کی بات ہے تو شیخ اس طرح کر سکتا ہے، میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ ہر شیخ کر سکتا ہے لیکن کچھ خاص مشائخ کر سکتے ہیں۔ خواجہ باقی باللّٰہ رحمۃ اللّٰہ علیہ کے واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض مشائخ ایسا کر سکتے ہیں۔
بہرحال ہمارا عمومی طریقہ تو یہی ہے، خصوصی طریقہ اللّٰہ پاک کا ہے اور یہ اس کی منشاء پر منحصر ہے کہ وہ کس کے ساتھ کیا کرتا ہے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ