سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 36

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال نمبر1:

آج کل دین دار لوگ معاشرے کے کاموں میں شامل نہیں ہوتے، انہیں دنیا کے معاملات اور دنیاوی مسائل کا پتا نہیں ہوتا۔ جس کی وجہ سے دین کی دعوت دیتے ہوئے ان کے اور لوگوں میں تھوڑا سا خلا آ جاتا ہے۔ اس کے لیے کیا کرنا چاہیے۔ کیا ان معاملات کو سمجھنے میں بھی ٹائم لگانا ضروری ہے؟

جواب:

معاملات دو قسم کے ہیں: ایک تو عام دنیاوی معاملات ہیں جن سے کسی کو مفر نہیں۔ مثلاً ہمارے بازار کے حالات ہیں، مسجد کے حالات ہیں یا گھروں کے حالات ہیں۔ ان کے بارے میں تو جاننا ہو ہی جاتا ہے کیونکہ اس میں سب شامل ہیں۔

دوسری قسم کے معاملات وہ ہیں جو لوگ بے دینی کی وجہ سے اختیار کرتے ہیں، ان میں شامل ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ البتہ اگر ان کے بارے میں پتا ہو تو اس کا فائدہ ضرور ہوتا ہے۔ لیکن پتا لگنے کے لیے اس میں شامل ہونا ضروری نہیں ہے، اپنے آپ کو بچا کے رکھنا چاہیے۔

یہ بات ٹھیک ہے کہ دین دار لوگوں کا دنیا دار لوگوں کے ساتھ gap تو یقیناً ہوتا ہے لیکن ہر gap نقصان دہ نہیں ہوتا صرف وہ gap نقصان دہ ہوتا ہے جو نفرت اور دوری پر مبنی ہو۔ اگر آپس میں الفت اور محبت ہو، ایک دوسرے کے حقوق کا خیال ہو، اللّٰہ کی رضا کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ تعلق ہو تو اتنی بات کافی ہوتی ہے۔ تمام بڑے بڑے اللّٰہ والے اِن دنیاوی چیزوں سے دور تھے، انہیں ان چیزوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا تھا لیکن لوگ ان کے ساتھ والہانہ محبت کرتے تھے، ان کی باتوں پہ جان چھڑکتے تھے، ان کی باتیں سمجھتے بھی تھے اور اپنے مسائل کو حل کرانے کے لیے انہی کے پاس جاتے تھے۔ اس وجہ سے اس مسئلے میں احساس کمتری میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔

سوال نمبر2:

حضور نبی مکرم ﷺ کے والدین کے لیے بھی ان کا نام لے کر دعا کرنی چاہیے؟

جواب:

بے ادبی کے کلمات نہیں ہونے چاہئیں۔ چونکہ اس کے بارے میں ابھی تک میری نظر سے کوئی ایسی دعا نہیں گزری جس میں یہ بات ہو کہ نبی کریم ﷺ کے والدین کے لئے دعا کی گئی ہو۔ ایسا کوئی مضمون آپ ﷺ سے یا صحابہ کرام سے منقول ہونا میرے علم میں نہیں ہے۔ یہ دعا خاص طور پہ کرنے کی تو نہیں ہے لیکن اتنی بات ہے کہ آپ ﷺ کی تمام نسبتوں کے لیے دعا کرنی چاہیے اس دعا میں سب آ جاتے ہیں۔

سوال نمبر3:

کیا حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ خواتین کے مدرسوں کے خلاف تھے؟ اگر ہاں تو کیوں؟

جواب:

مجھے اس کی تفصیل معلوم نہیں ہے۔ کسی وقت تفصیل معلوم کر کے پھر اس کے بارے میں عرض کروں گا کہ یہ بات کہاں تک تھی اور کیسی تھی۔ اگر اس بات کا حوالہ دیا جائے تو میرے خیال میں اس کا جواب شاید زیادہ بہتر طور پر دیا جا سکے گا۔

سوال نمبر4:

ایک شخص غافل دل سے ذکر یا معمولات کرتے ہوئے شیخ سے کبھی ٹوٹا اور کبھی جڑا رہتا ہے۔ اگر وہ اسی حالت میں فوت ہو جائے تو کیا وہ طالبینِ اصلاح میں شمار ہو گا؟

جواب:

سلسلے کی برکت سے انکار نہیں کیا جا سکتا، وہ تو ہے۔ جتنا آدمی کا تعلق ہوتا ہے سلسلے کا فائدہ ہوتا ہے اور جتنا تعلق نہیں ہوتا اتنی محرومی ہوتی ہے۔ یہ تمام چیزیں چونکہ حق ہیں اس لئے ہم لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ جو لوگ اپنے معمولات با قاعدگی کے ساتھ کرتے ہیں ان کو سب سے زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔ جن کا شیخ کے ساتھ مضبوط تعلق ہوتا ہے ان کو زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔ اگر تعلق میں کچھ فرق ہے تو ہم یہ نہیں کہیں گے کہ وہ ان لوگوں کی طرح ہو گیا جن کا تعلق بالکل ہی نہیں ہے یا جو معمولات بالکل ہی نہیں کرتے ان کی طرح تو نہیں ہو سکتا لیکن وہ ان کی طرح بھی نہیں ہو سکتا جو معمولات با قاعدگی کے ساتھ کرتے ہیں اور شیخ کے ساتھ اپنا رابطہ بھی رکھتے ہیں۔ بالفاظِ دیگر صفر سے انتہا تک درمیان میں کئی سیڑھیاں ہیں، کئی مقام ہیں، ان میں سے کسی نہ کسی مقام پر وہ ہو گا۔ اللّٰہ پاک کو چونکہ اس کے حال کا بہت اچھی طرح پتا ہے لہذا اس کے ساتھ وہی معاملہ کیا جائے گا جو اللّٰہ پاک اس کے لیے مناسب سمجھیں گے۔

سوال نمبر5:

اگر مصلحت یا پیار سے کام نہ بنے تو کیا اولاد اور بیوی کو اصلاح کے لیے مجبور کر سکتے ہیں؟

جواب:

اصل میں یہ بات مجبور کرنے کی ہے ہی نہیں۔ اگر مجبور کر بھی لیں گے تو وہ منہ سے تو مان لیں گے لیکن دل سے نہیں مانیں گے اور یہ معاملہ چونکہ دل سے ہے لہذا یہ کام زبرستی والا نہیں ہے۔ البتہ ترغیب جاری رہنی چاہیے اور اپنی طرف سے کوئی ایسی کوتاہی نہیں کرنی چاہیے جس کی وجہ سے وہ اصلاح سے دور ہوں۔

سوال نمبر6:

کیا اصلاح بھی تب سے فرض عین ہے جب سے شرعی احکامات لاگو ہوتے ہیں؟

جواب:

جی بالکل۔ کیونکہ اصلاح اس چیز کی کی جاتی ہے کہ کوئی فرضِ عین یا واجب فوت نہ ہو جائے، چاہے اس کا تعلق اعضاء و جوارح سے ہو یا دل سے ہو۔ لہٰذا فرضِ عین علم کا حصول تو بچپن سے لازم ہے لیکن فرض اس وقت ہو جاتا ہے جب انسان بالغ ہوتا ہے۔ جیسے نماز کے لیے حکم ہے کہ بچے کو 7 سال سے نماز پڑھائی جائے جب 10 سال کا ہو جائے اور نماز نہ پڑھے تو مار کے پڑھائی جائے۔ سات سال کی عمر میں بچہ بالغ نہیں ہوتا لیکن چونکہ وہ بالغ ہونے والا ہے اس کے اوپر احکامات لازم ہونے والے ہیں، فرض ہونے والے ہیں لہذا اس کی تیاری کروائی جاتی ہے۔ اسی طرح اصلاح کی تیاری ابتدا سے ہی کرنی چاہیے۔ بہت ساری عورتیں اپنی اولادوں کی اصلاح بچپن میں شیر خواری کے زمانہ سے ہی شروع کر لیتی ہیں اور بچوں کو اللّٰہ کا نام سکھاتی ہیں، اپنے ساتھ ذکر میں بٹھاتی ہیں، ان کو پیاری پیاری باتیں سکھاتی ہیں، ان کو شیطان سے ڈراتی ہیں، اللّٰہ جل شانہ کے ساتھ محبت کراتی ہیں۔ اصلاح اسی وقت سے شروع ہونی چاہیے۔

سوال نمبر7:

ایک جگہ یہ بات آئی ہے کہ مسلمان کی مسلمان کے لیے دعا زیادہ پُر اثر ہے، جبکہ دوسری جگہ ہے کہ مسلمان کی اپنی دعا اس کے لیے زیادہ پُر اثر ہے۔ ان میں کون سی بات زیادہ مستند ہے؟

جواب:

حالات کے فرق سے سے حکم بدل جاتا ہے۔ جیسے بعض لوگوں کے لیے آپ ﷺ نے فرمایا کہ جھوٹ نہیں بولنا، کسی کو یہ فرمایا کہ غصہ نہ کرنا، اسی طرح کچھ اور لوگوں کو دوسرے اعمال بتائے۔ جس کو جو عمل بتایا اس کے لیے زیادہ مناسب اس وقت وہی تھا۔ اسی طرح بعض مقامات اور بعض حالات میں دوسروں سے دعا کرانا زیادہ بہتر ہوتا ہے کیونکہ اس میں عاجزی ہے۔ اگر لوگ ان سے دعا کے لیے کہتے ہوں تو اپنے آپ کو دعا میں شامل کرنا تکبر سے بچنا ہے۔ دونوں کی بنیاد ایک ہی ہے۔ اگر اس نیت سے اپنے لیے دعا کی جائے کہ کہیں اللّٰہ تعالیٰ مجھے اس سے نکال نہ دے، اوروں کے لیے تو دعا کر رہا ہوں اور اپنے آپ کو شامل نہیں کر رہا کہیں ایسا کرنا اعراض میں شمار نہ ہو جائے کہ جیسے مجھے ضرورت نہیں ہے، ایسے وقت میں اپنے آپ کو ضرور شامل کرنا چاہیے۔ دوسروں سے بھی دعا کے لئے کہنا چاہیے کیونکہ اس میں عاجزی ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ انسان کی دوسروں کے لیے غائبانہ دعا زیادہ قبول فرماتے ہیں۔

سوال نمبر8:

کیا ایصالِ ثواب میں اللّٰہ تعالیٰ سے کوئی اپنی حاجت بھی بزرگوں کے واسطے سے مانگ سکتے ہیں؟

جواب:

ایصالِ ثواب خالصتاً بزرگوں کا اپنے اوپر حق سمجھ کر کرنا چاہیے اور محبت کی وجہ سے کرنا چاہیے جیسے ہدیہ دیا جاتا ہے۔ ایصال ثواب اور اپنی حاجت کو جمع نہ کیا جائے۔ ہاں دوسرے وقت میں ان حضرات کے طفیل اللّٰہ پاک سے مانگا بھی جائے۔ دونوں چیزیں اپنی اپنی جگہ پر درست ہیں لیکن ان دونوں کو ایک دوسرے کے اوپر لازم نہ کیا جائے۔

سوال نمبر9:

کیا درود تنجینا کے علاوہ دنیاوی مشکلات کے لیے گھروں میں ختم خواجگان کرایا جا سکتا ہے، نیز تعداد کتنی ضروری ہے؟

جواب:

ختم خواجگان ہمارے بزرگوں کا طریقہ ہے اس لیے اس کو ختم خواجگان کہتے ہیں۔ یہ اپنے گھروں میں بھی کرایا جا سکتا ہے، مسجدوں، مدرسوں اور بازاروں میں بھی کرایا جا سکتا ہے۔ اس کی شرائط کچھ نہیں ہیں یہ ایک آدمی بھی کر سکتا ہے، لیکن ایک آدمی کے لیے مشکل ہوتا ہے لہذا چند افراد بیٹھ کے کریں گے تو بشاشت کے ساتھ کر لیں گے، یہ زیادہ مناسب ہے اس طرح اجتماعی دعا بھی ہو جائے گی۔

خواجہ بزرگ کو کہتے ہیں، خواجگان اس کی جمع ہے۔ یعنی بزرگوں کا دعا مانگنے کا طریقہ۔ اپنے اپنے مقام کی اور اپنی اپنی حالت کی حد تک فراست ایمانی ہر بزرگ کو حاصل ہوتی ہے، ان کے اوپر اللّٰہ پاک مختلف حالات کھول دیتے ہیں۔ یہ بعض لوگوں کا خاصہ ہوتا ہے جیسے حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں آتا ہے کہ ان دونوں حضرات کی فراست بہت زیادہ تھی۔ حالانکہ سارے صحابہ کو یہ چیز حاصل تھی لیکن ان دونوں حضرات کے بارے میں خصوصی طور پہ آیا ہے کہ مومن فراست کے نور سے دیکھتا ہے۔

سوال نمبر10:

استدراج کیا ہے، کیا اس کی طلب کر سکتے ہیں؟

جواب:

استدراج ڈھیل دینے کو کہتے ہیں۔ اللّٰہ پاک کسی میں بزرگی کے حالات پیدا کر دیں لیکن وہ بزرگ نہ ہو تو اس کو استدراج کہتے ہیں یعنی ایک آدمی بزرگ نہ ہو مگر لوگ اسے بزرگ سمجھنے لگیں۔ مثلاً کسی سے عجیب عجیب کام صادر ہونے لگیں لیکن وہ بزرگ نہیں بلکہ گمراہ ہو تو یہ خطر ناک چیز ہے، اللّٰہ تعالیٰ اس سے بچائے، یہ امتحان اور آزمائش ہے۔ اس کو استدراج کہتے ہیں۔ کچھ لوگ جیسے جوگی سادھو وغیرہ اس کو با قاعدہ مشق سے حاصل کر لیتے ہیں۔ کچھ لوگ ویسے ہی بطور امتحان مبتلا ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا اس کو مانگنا تو کیا بلکہ اس سے دور بھاگنا چاہیے۔ اللّٰہ تعالیٰ اس سے بچائے۔

سوال نمبر11:

ٹیلی پیتھی اور ہپناٹزم سیکھنا کیسا ہے؟

جواب:

فضول چیز ہے۔ کیونکہ اس میں وہ مفاسد ہیں جن کی وجہ سے انسان دوسروں پہ حکومت کرتا ہے، دوسروں کے ذہنوں کو قابو کرتا ہے اور ان سے غلط کام کرواتا ہے۔ یہ مناسب نہیں ہے۔ بس اللّٰہ کے ساتھ لو لگاؤ۔ یہی ہمارا کام ہے باقی دنیا کے کام جو جائز ہیں وہ کرتے رہو۔

سوال نمبر12:

کیا عشق کے درجات ہوتے ہیں؟

جواب:

جی بالکل ہوتے ہیں۔ درجات تو ہر چیز کے ہوتے ہیں۔ عشق ایک کیفیت ہے۔ ہر کیفیت کے درجات ہوتے ہیں۔ مثلاً صبر بھی ایک کیفیت ہے، اس کے بھی درجات ہیں۔ کوئی بہت بڑا صابر ہو گا، کوئی کم صابر ہو گا کوئی درمیانے درجے کا صابر ہو گا۔ اسی طرح کوئی بہت شاکر ہو گا، کوئی بہت سخی ہو گا۔ اسی طرح کوئی بہت بڑا عاشق ہو گا، کوئی کم عاشق ہو گا اور کوئی درمیانے درجے کا ہو گا۔ یہ درجات ہیں۔

سوال نمبر13:

محبت، اُنس، عشق اور جاذبیت میں کیا فرق ہے؟

جواب:

کسی کے ساتھ دلی تعلق ہو جانا، اس کی ہر چیز کو اچھا سمجھنا، اس کے بغیر رہنا مشکل ہونا یہ محبت ہے۔ اُنس بھی محبت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ عشق محبت کی زیادتی کو کہتے ہیں اور جاذبیت اسے کہتے ہیں کہ انسان لوگوں میں ہر دل عزیز ہو، لوگ اس کی طرف کھنچے چلے آتے ہوں، لوگوں کو اس کے ساتھ ملنے کی خواہش ہو، اس سے بات کرنے کی خواہش ہو۔ یہ جاذبیت کہلاتی ہے۔ یہ چاروں ایک ایک دوسرے کے ساتھ متعلق ہیں، لیکن اپنے اپنے معنی میں ہیں۔

سوال نمبر14:

کیا بدعتی پیر سے پیر کا نہ ہونا بہتر ہے؟

جواب:

جی بالکل۔ کیونکہ بدعتی کا اکرام دین کو گرا دینے کے مترادف ہے۔ پیر کا اکرام ضروری ہوتا ہے۔ بدعتی پیر کا اکرام کیا جائے گا تو یہ دین کو گرانے کے مترادف ہو گا۔ لہذا بدعتی پیر سے تو کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہیے۔ اللّٰہ تعالیٰ بچائے۔

سوال نمبر15:

کیا شیخ کی غیر حاضری میں بھی اس کے متعلقین سے روابط رکھنے، محبت کرنے اور ان کی خدمت کرنے سے شیخ کا فیض ملتا ہے جبکہ یہ شیخ کے علم میں بھی نہ ہو؟

جواب:

جی ہاں ایسا ہوتا ہے لیکن اس کو شیخ کا قائم مقام نہیں سمجھنا چاہیے۔ کیونکہ بعض چیزیں اپنے پیر بھائیوں کے ساتھ محبت اور تعلق والی رکھی جاتی ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اپنے احوال بھی ان کو بیان کیے جائیں اور ان کے ساتھ شیخ جیسا معاملہ کیا جائے۔ ایسی بات نہیں ہے۔ البتہ اس نسبت سے محبت کرنے میں کوئی حرج نہیں جیسے ہم صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ آپ ﷺ کی وجہ سے محبت کرتے ہیں، اسی طرح اپنے شیخ کی وجہ سے اس کے مریدوں کے ساتھ اس لئے محبت کریں کہ یہ ہمارے شیخ کے مرید ہیں۔ لیکن پیر بھائی سے شیخ والا تعلق نہیں ہونا چاہیے۔

سوال نمبر16:

اکثر لوگوں کو سلام کیا جاتا ہے وہ جواب ”وعلیکم“ کہہ کے چھوڑ دیتے ہیں۔ عجیب سا لگتا ہے کہ انہوں نے جواب دینا مناسب نہیں سمجھا۔

جواب:

سلام کا جواب تو سلام سے بھی بہتر دینے کا حکم ہے۔ مثلاً کوئی کہتا ہے السلام علیکم۔ اسے جواب دو۔ وعلیکم السلام و رحمۃ اللّٰہ۔ اور اگر کوئی کہہ دے السلام علیکم و رحمۃ اللّٰہ۔ تو آپ جواب دیں وعلیکم السلام و رحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ۔ البتہ اگر کوئی یہاں تک بڑھا دے السلام علیکم و رحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ۔ تو آپ جواب دیں وعلیک۔ اس لیے کہ پھر اس کی کوئی حد نہیں ہو گی وہ بڑھتا جائے گا۔ اعتدال پر رہنا چاہیے۔ بہتر سلام کا جواب سلام سے بہتر دینے کا حکم ہے۔ سلام کا جواب نہ دینا گناہ ہے۔ سلام نہ کرنے میں اتنا مسئلہ نہیں ہے جتنا سلام کا جواب نہ دینے میں ہے۔ جو سلام میں پہل کرتا ہے اللہ جل شانہ اس کو زیادہ پسند کرتے ہیں کیونکہ اس میں تکبر کی نفی ہے۔

سوال نمبر17:

حضرت فضائل اعمال میں ذکر کو بہت زیادہ ترجیح دی گئی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ باقی اعمال کو کم اہمیت دی گئی ہے اور سب سے زیادہ اہمیت ذکر کو دی گئی ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ بعض لوگ اس چیز کا بہانہ بنا کر اعتراض کرتے ہیں کہ فضائل اعمال میں باقی اعمال کو کم اہمیت دی گئی ہے اور ذکر کو سب سے زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔

جواب:

ایک محنت اللّٰہ کے لیے ہوتی ہے اس پر بڑا اجر ملتا ہے۔ اور ایک محنت شیطان کی ہوتی ہے جو ہمارا دشمن ہے۔ وہ ہمیں ایسی چیزوں سے روکے گا، ان کے بارے میں غلط فہمیاں اور اشکالات پیدا کرے گا تاکہ اس چیز سے فائدہ نہ ہو۔

الحمد للّٰہ! ہمارے اکابر رحمۃ اللّٰہ علیہم نے اپنا حق ادا کیا۔ انہوں نے ہم تک وہ باتیں پہنچا دیں جو پہنچانی چاہیے تھیں۔ اس کے بعد یہ ہماری خوش قسمتی ہو گی کہ ہم ان باتوں پر چلیں اور ان سے استفادہ کریں۔ یوں سمجھ لیجیے کہ فضائل اعمال، اعمال کا انجن ہے۔ جب انسان فضائل اعمال دیکھتا ہے تو اس میں مختلف اعمال کے فضائل پڑھ اور سمجھ کر اسے ان اعمال کی توفیق ہو جاتی ہے۔ حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ماشاء اللّٰہ اس میں قرآن پاک اور احادیث شریف کے ذریعے یہ ساری چیزیں ثابت کی ہیں۔ دوسری طرف حضرت کا علمی اور روحانی اعتبار سے عالی مقام، ان کا محبوبِ اولیاء ہونا اور حضرت مولانا الیاس رحمۃ اللّٰہ علیہ کا منظور نظر ہونا، یہ ساری چیزیں ہم کو معلوم ہیں۔ لہذا اس میں ہمارا اپنا ہی فائدہ ہے کہ ہم ان کی تحریرات کو سمجھیں، ان کے اوپر عمل کر لیں اور ان سے مستفید ہوں۔

اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو حضرت پھر بھی اپنا کام کر گئے ہیں، ان کو تو اس کا فائدہ ہو گیا۔ جو لوگ اس پہ چلیں گے ان کو بھی اس کا فائدہ ہو گا۔ جو لوگ نہیں چلیں گے وہ اس سے محروم ہو جائیں گے۔ یہ اپنے فائدے اور نقصان کی بات ہے۔ اگر کوئی نا سمجھی میں اس کو نہیں سمجھتا، اس کے لیے دعا بھی کرنی چاہیے اور اسے صحیح طریقے سے سمجھانا بھی چاہیے۔ وہ ہمارے بھائی ہیں اور ہم لوگ نہیں چاہتے کہ ہمارا کوئی بھائی اللّٰہ تعالیٰ کے تعلق سے محروم ہو۔ ذکر سے محرومی اللّٰہ تعالیٰ کے تعلق سے محرومی ہے۔ جس چیز میں اللہ پاک کا تعلق نہیں ہو گا وہ کیسی ہوگی۔ نماز بہت بڑی چیز ہے اللہ پاک اس کے بارے میں فرماتے ہیں کہ نماز ذکر کے لیے ہے۔

﴿وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِیْ﴾ (طٰہٰ: 14)

ترجمہ: ”اور مجھے یاد رکھنے کے لیے نماز قائم کرو“۔

پھر فرماتے ہیں:

﴿اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ وَ لَذِكْرُ اللّٰهِ اَكْبَرُ وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ مَا تَصْنَعُوْنَ﴾ (العنکبوت: 45)

ترجمہ: ”بے شک نماز بےحیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے۔ اور اللہ کا ذکر سب سے بڑی چیز ہے۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اس سب کو جانتا ہے“۔

اسی طرح یہ بھی فرمایا گیا ہے:

﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوا اللّٰهَ ذِكْرًا كَثِیْرًا﴾ (الاحزاب: 41)

ترجمہ: ”اے ایمان والو! اللہ کو خوب کثرت سے یاد کیا کرو“۔

ذکر کی یہ تمام ترغیبیں قرآن میں آئی ہیں، یہ حضرت شیخ الحدیث صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ نہیں فرما رہے ہیں یہ تو ہمیں قرآن بتا رہا ہے۔

اس طرح اللہ پاک فرماتے ہیں:

﴿فَاذْكُرُوْنِیْۤ اَذْكُرْكُمْ﴾ (البقرہ: 152)

ترجمہ: ”پس مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد رکھوں گا“۔

یہ بھی قرآن ہے۔ اگر کوئی ان باتوں کو نہیں مانتا تو ہم یہ نہیں کہیں کہ وہ حضرت شیخ الحدیث رحمۃ اللّٰہ علیہ کو نہیں مانتا ہم یہ کہیں گے کہ وہ اللّٰہ تعالیٰ کی بات نہیں مانتا۔ ایسے لوگ اپنا نقصان کر رہے ہیں۔ ان سے الجھنا بھی نہیں چاہیے۔ یہ نا سمجھی کی وجہ سے ایسا کر رہے ہیں۔ یہ شیطان کی محنت ہے جس کی وجہ سے یہ اتنی بڑی چیز سے محروم ہو رہے ہیں۔ اللّٰہ تعالیٰ حفاظت فرمائے۔

سوال نمبر18:

حضرت صوفی صاحب خطاب فرما رہے تھے ان کا فرمان تھا کہ پہلے فضائل اعمال میں سے پڑھا جائے۔ پہلے وہ پڑھتے تھے اس کے بعد درود شریف کی مجلس ہوتی تھی۔ کچھ لوگ اس کی وجہ سے فضائل اعمال میں بیٹھنا شروع ہو گئے۔

جواب:

فضائل اعمال بہت با برکت کتاب ہے۔ ہمارے گھروں اور مسجدوں میں اس کی تعلیم ہونی چاہیے۔ یہ ہمارے لیے بہت بڑی نعمت ہے۔ اس کے ذریعے ہمیں فائدہ ہوتا ہے۔

سوال نمبر19:

عقیدۂ وحدت الوجود اور وحدت الشہود کی وضاحت فرما دیجئے۔

جواب:

وحدت الوجود اور وحدت الشہود کوئی عقیدہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک کیفیت ہے۔ اس کو عقیدہ نہیں کہنا چاہیے۔ عقیدہ وہی ہے جو ہم ایمانِ مفصل اور ایمانِ مجمل میں بیان کرتے ہیں۔

وحدت الوجود اور وحدت الشہود کی وضاحت یہ ہے کہ عام مشاہدے کی بات ہے کہ جب سورج ظاہر ہو جاتا ہے تو ستارے نظر نہیں آتے حالانکہ ستارے موجود ہوتے ہیں۔ اگر دن کے وقت کوئی کہتا ہے کہ ستارے نہیں ہیں تو یہ جھوٹ نہیں ہو گا اور دوسرا آدمی کہے کہ ستارے ہیں تو وہ بھی جھوٹا نہیں ہو گا۔ پہلے نے مشاہدہ کے طور پہ کہا ہے اور دوسرے نے علمی طور پہ کہا ہے۔ وہ اس کو علمی طور پر ذہن میں رکھتا ہے کہ ستارے موجود تو ہیں لیکن نظر نہیں آ رہے۔

وحدت الوجود در اصل یہی چیز ہے کہ کسی پہ اللّٰہ تعالیٰ کا تعلق اتنا غالب اور اتنا حاوی و طاری ہو جائے کہ اسے کسی اور چیز کی طرف دھیان ہی نہ رہے۔ اس کیفیت کو وحدت الوجود کہتے ہیں۔ یعنی اس کو صرف اللّٰہ ہی کی طرف دھیان ہے کسی اور کی طرف اس کا دھیان ہے ہی نہیں۔

مشہور واقعہ ہے کہ کوئی عورت جو کسی کی محبت میں گرفتار تھی، وہ کہیں جا رہی تھی۔ کوئی نماز کے لیے کھڑا تھا، یہ اس کے سامنے سے گزری تو وہ آدمی بڑا غصے ہو گیا اور اسے ڈانٹا کہ تجھے پتا نہیں کہ میں نماز پڑھ رہا تھا، میرے سامنے سے کیوں گئی۔ اس نے کہا کہ میں تو اپنے محبوب کے خیال میں جا رہی تھی، مجھے تو تم نظر ہی نہیں آئے، مگر یہ بتاؤ کہ میں تمہیں کیسے نظر آئی جبکہ تو تو اللّٰہ کے سامنے کھڑا تھا۔

یہ کیفیت وحدت الوجود کہلاتی ہے۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے بارے میں لوگوں کی سوچ کی اصلاح فرمائی ہے کہ لوگوں نے اس کو عقیدہ بنا لیا ہے۔ جیسا کہ آپ فرما رہے ہیں کہ اس عقیدہ کی وضاحت کر دیں۔ لوگوں نے اس کو عقیدہ بنا لیا اور اس پہ علمی گفتگو کرنے لگے، فلسفیانہ گفتگو ہونے لگی۔ حضرت نے فرمایا: نہیں، اصل میں تو دوسری چیزیں بھی ہیں۔ ورنہ قرآن کس پر اترا، اعمال کون کرے گا؟ دوسری چیزیں بھی ہیں لیکن جب انسان کو یہ کیفیت حاصل ہوتی ہے تب دوسری چیزیں مشاہدے میں نہیں آتیں۔ اس وجہ سے حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے وحدت الوجود کی بجائے وحدت الشہود کا لفظ استعمال کیا۔ لیکن چیز بالکل وہی ہے، اس میں فرق نہیں ہے۔ حضرت نے اس کو سمجھانے کا طریقہ بدل دیا۔ وحدت الوجود اور وحدت الشہود دونوں حقیقت میں ایک ہی ہیں، صرف الفاظ میں فرق ہے۔

سوال نمبر20:

حضرت اللّٰہ کی محبت اور بندوں کی محبت میں کیا فرق ہے؟ حقوق العباد اور حقوق اللہ میں کیا فرق ہے؟

جواب:

آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ کے ساتھ محبت کرو کیونکہ وہ تمہیں نعمتیں دیتا ہے، میرے ساتھ محبت کر لو کیونکہ اللّٰہ مجھے چاہتے ہیں اور میری وجہ سے میرے اہل بیت کے ساتھ محبت کر لو۔ اللّٰہ کی محبت ذاتی ہے اور باقی سب کی محبت بالغرض ہے اور وہ غرض یہ ہے کہ اللّٰہ راضی ہو جائیں۔

اس لیے اصل اور صحیح محبتیں ساری اللّٰہ کی محبت میں ہیں، وہ اللّٰہ کی محبت کے خلاف نہیں ہیں بلکہ اللّٰہ کی محبت کو زیادہ کرنے کے لیے ہیں، ان میں والدین کی محبت بھی آ جاتی ہے، اولاد کی محبت بھی آ جاتی ہے، مشائخ کی محبت بھی آ جاتی ہے، اچھی کتابوں کی محبت بھی آ جاتی ہے، قرآن کی محبت، خانہ کعبہ کی محبت یہ سب محبتیں اسی میں سموئی جاتی ہیں۔ اس لئے کہ ان سب محبتوں کی غرض ایک اللہ کی محبت ہے۔

سوال نمبر21:

ایک چیز یہ ہوتی ہے کہ یہ بات ذہن اور سوچ میں مستحضر رکھی جائے کہ دنیا عارضی ہے اور آخرت باقی ہے اور ایک یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کی محبت سب سے زیادہ ہو اور اللّٰہ تعالٰی کے ساتھ ہر وقت تعلق ہو۔ جب ہم صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگیوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس میں آخرت کا یقین اور دھیان زیادہ ہونا اور دنیا کی طرف دھیان کم ہونا، اس طرح کی چیزیں زیادہ ہیں۔

جواب:

ایک شخص باہر جا رہا ہے اور باہر سے واپس آ رہا ہے، بڑی محنتیں کر رہا ہے، ڈبل ڈیوٹی اور اوور ٹائم لگا رہا ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ میں اپنی اولاد کے لیے، اپنے گھر والوں کے لیے کچھ کما لوں، کچھ کر لوں۔ اب وہ جو کچھ بھی کر رہا ہے، وہ کام ہو تو رہے ہیں لیکن اس کی نیت میں یہ ہے کہ اپنی اولاد اور گھر والوں کو نفع پہنچا دوں۔

اس طریقے سے صحابہ رضی اللہ عنہم جو کچھ بھی کر رہے تھے اللّٰہ کی خوشنودی کے لیے کر رہے تھے، اللّٰہ پاک کو راضی کرنا چاہتے تھے۔ اور چونکہ اللّٰہ نے بتایا ہے کہ سب سے اچھی چیز آخرت ہی ہے، اس وجہ سے اگر وہ آخرت کے لئے کرتے تھے تو وہ بھی اللّٰہ ہی کے لیے ہوتا تھا۔ اس کے پیچھے اللّٰہ کی محبت کے علاوہ کوئی چیز نہیں تھی۔ جیسے روح آنکھ میں چلی جائے تو آنکھ کام کرنے لگتی ہے، کان میں چلی جائے تو کان کام کرنے لگتا ہے۔ اب روح تو ایک ہی ہے لیکن ساری چیزیں اس سے زندہ ہیں اور ہر چیز کا کام مختلف ہے۔ اسی طریقے سے اللّٰہ کی محبت ایک ہی چیز ہے لیکن وہ الگ الگ چیزوں کے اندر جائے گی تو اپنے اپنے رنگ میں نظر آئے گی۔ اصل چیز اللّٰہ تعالیٰ کی محبت ہے۔ پھر اللّٰہ تعالیٰ کی محبت کے مختلف الوان ہیں۔ جیسے کہ روشنی سبز شیشے سے گزرے گی تو سبز نظر آئے گی، سرخ شیشے سے گزرے گی تو سرخ نظر آئے گی اور زرد شیشے سے گزرے گی تو زرد نظر آئے گی لیکن روشنی تو وہی ہے اس میں کوئی فرق نہیں ہے۔

سوال نمبر22:

فضائل اعمال میں حضرت حنظلہ رضی اللّٰہ عنہ کا ایک واقعہ لکھا ہے کہ حضور ﷺ نے وعظ فرمایا، وعظ کے ختم ہونے کے بعد وہ حضور ﷺ کی مجلس سے نکلے اور جب گھر آئے تو محسوس کیا کہ نبی کریم ﷺ کی مجلس میں اور کیفیت تھی اور یہاں گھر میں وہ کیفیت نہیں رہی، اب اور کیفیت ہے۔ یہ محسوس کر کے فرمایا کہ حنظلہ تو منافق ہو گیا۔

حضرت شیخ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ نے اس واقعہ کے تحت فائدہ میں لکھا ہے کہ یہ کیفیت اگر ہر وقت رہے تو انسان سے فرشتے گھروں اور راستوں میں مصافحہ کرنے لگیں۔

جواب:

حضرت نے اس میں سب کچھ صاف طور پر بیان کر دیا ہے۔ میرے خیال میں مزید میرے بولنے کی ضرورت نہیں ہے۔ البتہ چونکہ ابھی سوال کیا گیا ہے، اس لحاظ سے میں عرض کر دیتا ہوں کہ انسان جب شیخ کی مجلس میں ہوتا ہے تو اللّٰہ جل شانہ کی طرف سے جو فیوضات شیخ کے قلب پہ آتے ہیں وہ اس کے ان مریدوں کی طرف منتقل ہوتے رہتے ہیں جو مجلس میں موجود ہوتے ہیں جس کی وجہ سے مریدوں کو وہ چیزیں محسوس ہونے لگتی ہیں جو عام طور پہ ان کو محسوس نہیں ہو سکتیں۔ نبی کریم ﷺ تو خاتم النبیین تھے، ان کے دل کی کیا حالت ہو گی کہ اس میں تو وحی نازل ہوتی تھی۔ لہذا جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ ﷺ کی مجلس میں موجود ہوتے تھے تو آپ ﷺ کی قلبی کیفیت صحابہ کے قلوب میں بھی منتقل ہو جاتی تھی۔ نتیجتاً صحابہ کا ایمان بہت بڑھ جاتا تھا، دنیا کی رغبت ختم ہو جاتی اور آخرت بالکل سامنے ہو جاتی، ایسا لگتا کہ جنت اور دوزخ سامنے ہوں۔ لیکن جب گھروں میں آ جاتے تو یہ ساری کیفیت بدل جاتی تھی۔ کیونکہ گھروں میں تو آپ ﷺ نہیں تھے۔ گھروں میں گھروں کی کشش کام کرتی ہے اس کی طرف دل کھنچ جاتا ہے۔ اگرچہ دل میں موجود نور کی وجہ سے دنیاوی چیزوں کی کشش زیادہ مؤثر نہیں ہوتی، لیکن پہلے سے کم ضرور ہو جاتی تھی۔ جو انسان صفائی پسند ہو جاتا ہے جس کو صفائی حاصل ہو جاتی ہے وہ تھوڑی سی گرد بھی برداشت نہیں کر سکتا، اس کی طبیعت میں نزاکت آ جاتی ہے۔ صحابہ کرام کے دل نبی کریم ﷺ کی مجلس میں مکمل طور پر صاف شفاف ہو جاتے تھے۔ جب وہ اپنے گھروں کو جاتے تو وہاں ویسے انوارات نہیں ہوتے تھے، یہ بات انہیں شدت سے محسوس ہوتی تھی جس کی وجہ سے وہ بڑے پریشان ہو جاتے۔ یہی چیز حضرت حنظلہ رضی اللّٰہ عنہ کو محسوس ہوئی، انہوں نے اپنی اُس حالت کو اصل سمجھا اور گھر والی حالت کو اس کے منافی سمجھا۔ چونکہ نفاق میں ایسا ہی ہوتا ہے، اس لیے وہ اپنے آپ کو منافق خیال کرنے لگے۔ حالانکہ در حقیقت ایسا نہیں تھا، وہ صرف ایک کیفیت تھی جو ان کو آپ ﷺ کے سامنے حاصل تھی اور گھروں میں حاصل نہیں تھی۔ گھر والی کیفیت ایمان کے منافی نہیں تھی وہ صرف مجلسِ نبوی ﷺ والی کیفیت کے منافی تھی، لہٰذا وہ کافر بھی نہیں تھے اور منافق بھی نہیں تھے۔

حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ نے یہ کیفیت محسوس کی تو گھر سے نکل پڑے، راستے میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے ملاقات ہوئی تو انہیں یہ ساری بات بتائی۔ انہوں نے فرمایا کہ میرے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ ہے، چلو حضور ﷺ کے پاس چلتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ کے پاس تشریف لے گئے اور ساری بات عرض کی۔ آپ ﷺ نے جب یہ سنا تو فرمایا کہ یہ تو گاہے گاہے ہوتا ہے۔ نیز یہ بھی فرمایا کہ اگر ہر وقت تمہاری ایسی ہی کیفیت ہونے لگے تو پھر فرشتے تمہارے ساتھ بستروں پہ مصافحے کرنے لگیں۔ حضرت مولانا روم رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اپنی مثنوی میں اس کا تھوڑا سا نقشہ کھینچتے ہوئے فرمایا ہے:

بر دلِ سالک ہزاراں غم بود

گر ز باغِ دل خلالے کم بود

سالک جو ترقی کر رہا ہے اس کے دل پر ہزاروں غم کے طوفان ٹوٹ پڑتے ہیں، جب اس کے دل کے باغ سے ذرا بھر ایک تنکا بھی کم ہو جاتا ہے۔

لہٰذا کیفیت جب کم ہو جاتی ہے تو سالک پر پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں، اسی کو قبض کی کیفیت کہتے ہیں۔ جب کسی سالک پہ یہ کیفیت آ جائے تو وہ بے پناہ تکلیف میں چلا جاتا ہے۔ پھر شیخ کامل اسے اس حالت سے نکال لیتا ہے۔ جیسے آپ ﷺ نے ان کو اس کیفیت سے نکال دیا اور ان کو اصل بات سمجھا دی کہ بھئی یہ تو ایک کیفیت کی بات ہے یہ دوری کی بات نہیں ہے۔

سوال نمبر23:

حضرت جی، ایمان کا گھٹنا اور بڑھنا، اس کے بارے میں کچھ بتا دیجئے۔

جواب:

ہمارے امام، امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللّٰہ علیہ کی تحقیق کے مطابق ایمان گھٹتا بڑھتا نہیں ہے لیکن ایمان کی قوت جس کو ہم تقوی کہتے ہیں وہ گھٹتی اور بڑھتی ہے۔ اللّٰہ پاک نے ولایت کی نشانی کے طور پہ دو چیزیں بتائی ہیں۔ ایک ایمان اور دوسری تقوی۔ فرمایا:

﴿اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَۚۖ O الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ كَانُوْا یَتَّقُوْنَؕ﴾ (یونس: 62، 63)

ترجمہ: ”یاد رکھو کہ جو اللہ کے دوست ہیں ان کو نہ کوئی خوف ہو گا نہ وہ غم گین ہوں“۔

لہذا ہم جب کہتے ہیں کہ ایمان گھٹ رہا ہے یا بڑھ رہا ہے یا قرآن میں بھی جن کے بارے میں آتا ہے:

﴿زَادَتْهُمْ اِیْمَانًا﴾ (الانفال: 2)

ترجمہ: ”وہ آیتیں ان کے ایمان کو اور ترقی دیتی ہیں“۔

اس سے مراد تقویٰ کا بڑھنا اور گھٹنا ہوتا ہے۔ یعنی ایمان کے اثرات کم اور زیادہ ہوتے ہیں۔ اثرات تو کم اور زیادہ ہوں گے ہی۔ مثلاً روشنی مکمل ہو اس کے سامنے ایک شیشہ آ جائے، اس شیشے میں تبدیلی آنے کے بعد جو روشنی شیشہ سے ہو کر نکلے گی اس میں کمی بیشی ممکن ہے۔ لیکن اصل روشنی میں تو کوئی کمی بیشی نہیں ہوئی۔ ایمان وہ روشنی ہے جو مکمل اور اصل ہے اس میں کمی بیشی نہیں ہوتی لیکن ہمارے دل میں تقوی کی کمی بیشی ہوتی رہتی ہے، ہم اسی کمی بیشی کو ایمان کا گھٹنا بڑھنا کہہ دیتے ہیں حالانکہ اصل ایمان میں کمی بیشی نہیں ہوتی۔ اب سمجھیں کہ ایمان کیا چیز ہے۔ ایمان یہ ہے کہ ہم اللّٰہ پر ایمان رکھیں اور ان چیزوں پر ایمان رکھیں جن کا ذکر ایمانِ مفصل اور ایمان مجمل میں آیا ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ گناہ گار سے گناہ گار آدمی بھی یہی کہتا ہے کہ میں اللہ پر ایمان رکھتا ہوں اللّٰہ ایک ہے اور بڑے سے بڑا ولی بھی یہی کہتا ہے بلکہ سب اولیاء اللّٰہ کے سردار حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ بھی یہی کہتے تھے کہ اللّٰہ ایک ہے۔ اس طرح اللّٰہ کی جو صفات وہ مانتے تھے، ہم بھی وہی مانتے ہیں۔ اسی طرح رسولوں کی جو صفات وہ مانتے تھے، ہم بھی وہی مانتے ہیں۔ جو قیامت اور جنت و دوزخ کی باتیں، تقدیر کی باتیں، فرشتوں اور آسمانی کتابوں کی باتیں وہ مانتے تھے ہم بھی مانتے ہیں۔ لہذا ان کے اور ہمارے ایمان میں تو فرق نہیں ہے لیکن تقویٰ میں فرق ہے۔ وہ تقویٰ کے اعلیٰ ترین مقام پر تھے اور ہم جو اعمال کرتے ہیں اسی حساب سے ہمارا تقویٰ ہے۔

سوال نمبر24:

حضرت! وساوس کا کیا علاج کیا جائے؟

جواب:

وساوس کی پروا ہی نہیں کرنی چاہیے۔ کیونکہ وسوسہ انسان کا اپنا عمل ہے ہی نہیں بلکہ وہ شیطان کا عمل ہے۔ I-10-4 میں جب ہم ہوتے تھے تو وہاں صبح چہل قدمی کیا کرتے تھے۔ وہاں پر بعض لوگوں نے گھروں میں بڑے بڑے کتے پالے ہوتے ہیں اور انہیں زنجیروں سے باندھا ہوتا ہے۔ کتے کی عادت ہے بھونکنا۔ اب اس کے ساتھ کیا حساب کریں گے۔ جب واک کرتے ہوئے کوئی ان گھروں کے قریب سے گزرتا تو کتے اپنی پوری طاقت لگا کر بھونکتے تھے، لیکن وہ کچھ کر نہیں سکتے تھے کیونکہ بندھے ہوئے ہوتے تھے۔ جب یہ کتے بھونکتے تو میں اپنے ساتھیوں کو کہتا تھا یہ ایسے ہی ہے جیسے وسوسہ ہوتا ہے۔ یہ کتا بندھا ہوا ہے سوائے بھونکنے کے کچھ نہیں کر سکتا۔ اسی طرح وسوسہ بھی صرف آتا ہے اس کے علاوہ وہ کچھ نہیں کر سکتا۔ لیکن آدمی کو اس کا اتنا ڈر رہتا ہے کہ آدمی کہتا ہے پتا نہیں کیا ہو جائے گا۔ وسوسے کی پروا نہیں کرنی چاہیے۔

سوال نمبر25:

ہمارے دینی مدارس میں سلوک و تصوف کی لائن میں کافی کمی ہوتی جا رہی ہے۔ سو میں سے کوئی دو لڑکے ہی ہوتے ہیں جن کا شیخ کے ساتھ تعلق ہوتا ہے۔ مدارس میں اس کو بڑھانے کے لیے کیا کیا جائے؟

جواب:

اچھا سوال ہے۔ حضرت مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ جن کا ہم ذکر کر رہے تھے، ان کی زندگی کے آخری دنوں کی فکر یہی تھی۔ کیا آپ سب حضرات جانتے ہیں کہ حضرت نے اپنا آخری پیغام کیا دیا تھا؟ مجھے یاد ہے۔ حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا رحمۃ اللہ علیہ سن 1979ء میں فیصل آباد تشریف لائے تھے۔ میں حضرت کی خدمت میں گیا تھا، اس وقت حضرت اتنے کمزور ہو چکے تھے کہ چار آدمی حضرت کو اٹھاتے تھے، اس کے با وجود اس خانقاہیت کے لیے حضرت نے ہر چیز کو منظور فرمایا تھا۔ جہاں کہیں پتا چلتا کہ خانقاہ قائم ہو گئی ہے، اس کے لیے خود اپنے خرچے سے جاتے، وہاں دعا فرماتے۔ انہوں نے مفتی شفیع صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ اور کئی علما کو خطوط لکھے کہ اپنے مدارس میں اب یہ سلسلہ شروع کر لو۔ پہلے ہم جو کہتے تھے کہ طالب علموں کو بیعت نہیں کرنا چاہیے کیونکہ سبق بہت ضروری ہے، وہ وقت ایسا تھا کہ جس میں حصول علم کی تکمیل کے بعد فارغ التحصیل علما بزرگوں کی خدمت میں وقت لگایا کرتے تھے۔ اکثر ہم بزرگوں کی سوانح میں پڑھتے ہیں کہ فلاں وقت تک انہوں نے مروجہ علوم سے فراغت حاصل کر لی پھر شیخ کامل کی تلاش میں چل پڑے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس طرح ہوتا تھا لیکن اب ایسا نہیں ہوتا۔ اب تو یہ صورتِ حال ہے کہ اگر کسی پہ علم کا تمغہ لگ جائے تو اس کے لیے اپنی تربیت کروانا بڑا مشکل ہو جاتا ہے۔ کسی کے سامنے اصلاح کے لیے جھک جانا اس کے لیے بڑا مشکل کام ہوتا ہے۔ فرمایا کہ طالب علمی کے دور میں ہی ان کو اس لائن پہ لگا لو تاکہ حجاب نہ رہے۔ حضرت کو چونکہ ان چیزوں کی فکر بہت زیادہ تھی۔ آپ جو فرما رہے ہیں یہ بھی حضرت ہی کی فکر ہے۔ اللّٰہ کرے کہ آپ کو اس کی جملہ برکات مل جائیں۔

مدرسین حضرات کو اس سلسلے میں یہ کرنا چاہیے کہ وہ اپنے طلبا کو اس کی طرف راغب کریں۔ دار العلوم کراچی والے حضرات ایسا کرتے ہیں۔ انہوں نے اس کے لیے با قاعدہ بیان مقرر کیے ہوئے ہیں۔ ہفتے میں ایک بیان حضرت مولانا تقی عثمانی صاحب کا ہوتا ہے، جب وہ مدرسے میں تشریف فرما ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ مفتی عبد الرؤوف سکھروی صاحب دامت برکاتہم کے بیانات بھی ہوتے رہے ہیں۔ مفتی عبد اللہ برمی صاحب کے بیانات ہوتے ہیں، مولانا محمد اشرف صاحب کے بیانات ہوتے ہیں۔ دار العلوم کراچی کے حضرات اس چیز کو سمجھتے ہیں لیکن دوسرے مدارس میں شاید اس چیز کا اتنا رجحان نہیں ہے۔ اس کی وجہ کچھ غلط فہمیاں ہیں۔ میں ایک غلط فہمی کا ذکر کروں گا جو میرے ساتھ پیش آئی میں دوسروں کا ذکر تو نہیں کروں گا اپنا ہی کروں گا تاکہ بات صحیح سند کے ساتھ بیان کر سکوں۔ باقیوں کی بات ذرا اور ہو جائے گی۔

ایک دفعہ میں مہتمم صاحب کے ساتھ ملاقات کرنے کے لیے بارہ کہو گیا تھا۔ جب میں پہنچا تو مہتمم صاحب ابھی تشریف نہیں رکھتے تھے۔ میں ان کے دفتر میں بیٹھا تاکہ جب وہ تشریف لائیں تو ان سے مل لوں۔ وہاں ایک اور صاحب بھی موجود تھے جو کشمیر سے آئے ہوئے تھے۔ ان سے میری بات شروع ہو گئی اور بڑھتے بڑھتے تصوف تک چلی گئی۔ وہ بڑے شوق کے ساتھ میری بات سننے لگے۔ وہاں ایک اور مدرس بیٹھے ہوئے تھے، غالباً وہ کتاب پڑھ رہے تھے۔ ان کو ہماری باتیں اچھی نہیں لگ رہی تھیں۔ انہوں نے اپنی کتاب سے چہرہ اٹھایا اور مخصوص انداز میں کہا:

﴿اِنَّمَا یَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓؤُاؕ﴾ (الفاطر: 28)

ترجمہ: ”اللہ سے اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو علم رکھنے والے ہیں“۔

مجھے فوراً سمجھ آ گئی کہ یہ ایسا کیوں کہہ رہے ہیں۔ وہ در اصل مجھے پیغام دے رہے تھے کہ بس عالم ہونا کافی ہے، تم درمیان میں کہاں سے دوسری باتیں نکال رہے ہو۔ جب مجھے یہ پیغام مل گیا تو میں نے ان حضرت سے عرض کی کہ حضرت آپ کی بات سر آنکھوں پہ کہ وہ قرآن پاک کی آیت ہے اور ظاہر ہے قرآن ہدایت ہے لیکن جس موقع پہ آپ نے آیت پڑھی ہے، اس کی وجہ سے میرے ذہن میں دو اشکال پیدا ہو گئے ہیں میں وہ اشکال آپ سے حل کروانا چاہتا ہوں۔ پہلا اشکال یہ ہے کہ آپ علم کس کو کہتے ہیں۔ اگر علم محض جاننے کو کہتے ہیں تو دنیا میں کون سا مسلمان ایسا ہے جو شراب کو حرام نہ کہتا ہو، جو سود کو حرام نہ کہتا ہو، جو زنا کو حرام نہ کہتا ہو، جو دھوکے کو حرام نہ کہتا ہو۔ سارے مسلمان اس کو غلط سمجھتے ہیں لیکن مسلمانوں میں شرابی بھی ہیں، فراڈیے بھی ہیں، دھوکہ باز بھی ہیں۔ کیا ان کا علم ان کو روک سکا؟

میں نے کہا کہ یہ علمی سوال نہیں ہے، یہ عوامی سوال ہے، اب میں علمی سوال کروں گا۔ علمی سوال یہ ہے کہ آپ ﷺ سے پوچھا گیا کہ برے لوگ کون سے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: علما سو سب سے برے لوگ ہیں جو دین کو بیچیں گے اور دنیا کو حاصل کریں گے۔

میں نے کہا کہ ایک طرف آپ ﷺ کی اس حدیث شریف کو دیکھو کہ عالم کو عابد پر ایسی فضیلت حاصل ہے جیسے مجھے تم میں سے ادنی پر یہ دونوں احادیث شریفہ ہیں اور مستند ہیں۔ دونوں حدیثوں سے معلوم ہوا کہ عالم کا مقام بہت اونچا ہے اگر وہ عالمِ حق ہو اور اگر وہ عالمِ سو ہو تو اس کا مقام عام لوگوں سے بھی بہت نیچے ہے۔ اور اس کی وجہ صرف ایک ہی بتائی گئی ہے کہ ان کے دل میں دنیا کی محبت ہو گی۔ اب آپ بتائیں کہ ایک طرف عالمِ سو ہے جو اتنے نیچے مقام پہ چلا گیا ہے۔ اگر کوئی شخص محنت کر کے اس دنیا کی محبت کو اس کے دل سے نکال دے اور اللّٰہ تعالیٰ کی محبت کو اس کے دل میں ڈال دے تاکہ وہ عالمِ حق بن جائے اور اگر وہ عالمِ حق بن جائے تو اس شخص کو کتنا فائدہ ہوا۔

کہنے لگے کہ ہاں بہت فائدہ ہوا۔

میں نے کہا: مجھے بتاؤ کہ دنیا کی محبت کیسے نکالی جائے گی، کیا علم نکالے گا؟ علم تو دنیا کی محبت نکالنے میں نا کام ہو گیا کیونکہ تبھی تو یہ عالمِ سو بنا۔ اس کو حدیث شریف میں عالم کہا جا رہا ہے۔ علم کی وجہ سے تو دنیا کی محبت نہیں نکلی۔ کوئی اور چیز ہو گی جو اس کو نکالے گی۔ اسی چیز کو تصوف کہتے ہیں اور ہم اسی کی بات کر رہے تھے جو آپ کو ہضم نہیں ہو رہی تھی۔

اس کے بعد انہوں نے کچھ نہیں کہا۔ اس قسم کی غلط فہمیوں کی وجہ سے بعض مدارس میں تصوف کا رجحان نہیں ہے۔

اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ علم کافی ہے، حالانکہ علم کافی نہیں ہے۔ علم اور چیز ہے، تزکیہ اور چیز ہے۔ دونوں ضروری ہیں۔ پہلے دونوں چیزیں ہوتی تھیں: تعلیم اور تربیت۔ آج کل تعلیم پر تو زور ہے، تربیت کی طرف کوئی توجہ نہیں ہے۔ جس کا نتیجہ ہم سب دیکھ رہے ہیں۔

اگر یہ غلط فہمیاں دور ہو جائیں تو سب کو سمجھ آ جائے کہ یہ چیز کتنی ضروری ہے اور اس کے بغیر کام نہیں ہو سکتا۔

حضرت حاتم اصم رحمۃ اللّٰہ علیہ ایک بہت بڑے صوفی بزرگ گزرے ہیں۔ وہ اپنے وقت کے ایک بہت بڑے فقیہ و عالم کے گھر چلے گئے۔ ان کا گھر بڑے شاہانہ طرز کا بنا ہوا تھا۔ حاتم اصم رحمۃ اللّٰہ علیہ نے ان سے کہا کہ حضرت مجھ سے وضو میں غلطی ہو جاتی ہے۔ آپ بہت بڑے عالم ہیں، ذرا میرے وضو کو غور سے دیکھیں، اگر آپ کو اس میں کوئی غلطی نظر آ جائے تو مجھے بتا دیجیے گا۔ انہوں نے باقی سارا وضو ٹھیک کیا لیکن اپنے چہرے پہ تین دفعہ پانی ڈالنے کی بجائے چار دفعہ ڈال دیا۔ اس عالم نے انہیں کہا کہ آپ نے چار دفعہ پانی کیوں ڈالا ہے، تین دفعہ ڈالنا چاہیے۔ حضرت حاتم اصم نے کہا کہ چار دفعہ ڈالا تو کیا ہوا، چہرہ زیادہ صاف ہو گیا ہے۔ اس نے کہا کہ چار دفعہ پانی ڈالنے سے اسراف ہو گیا، یہ ممنوع ہے اور خلافِ سنت ہے۔ حضرت نے فرمایا: اچھا! چار دفعہ پانی ڈالنا اسراف ہے اور یہ سب جو تمہارے گھر میں ہے یہ کیا ہے؟ اس عالم کو پتا چل گیا کہ در اصل حضرت حاتم اصم انہیں کیا پیغام دینا چاہ رہے تھے۔ اس نے کہا: اللّٰہ پاک آپ کو اجر دے آپ نے مجھے سمجھا دیا۔

دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے۔ اب وہ دل سے نکلی تو کام کر گئی۔

آپ امام غزالی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی سوانح پڑھ لیں ان کے پہلے دور کی زندگی کو دیکھ لیں کہ وہ کیسی شاہانہ زندگی تھی۔ اس وقت عام علما کا رہن سہن شاہانہ ہوتا تھا کیونکہ لوگوں میں علم کی بہت زیادہ قدر اور طلب تھی۔ لوگ علما پہ ٹوٹ پڑتے تھے اور بہت قدر کرتے تھے، ان کی زندگی واقعی شاہانہ ہوتی تھی۔ امام غزالی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی زندگی بھی بڑی شاہانہ تھی۔ وقت کا امیر ان کو اپنی سواری پہ بٹھا کر گھر چھوڑ کے آتا تھا۔ پوری علاقے میں ان کی بڑی عزت تھی۔ ایک دن انہیں خیال ہوا کہ میں اللّٰہ کے وعدوں سے اتنا زیادہ متاثر نہیں ہوتا کہ اس پر یہ ملے گا اور اس پر یہ ملے گا لیکن دنیا کی خواہشات سے زیادہ متاثر ہوتا ہوں۔ یہ تو کچھ گڑبڑ ہے، ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ اس پر وہ متفکر ہو گئے۔ چونکہ بہت بڑے عالم تھے، سمجھ رہے تھے کہ یہ میری کمی ہے۔ ارادہ کر لیا کہ اب شیخ کامل کے پاس جا کر اپنی اصلاح کروانی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ حضرت اپنی اس علوِ شان کے ساتھ کیسے باہر نکلیں، اس عہدہ و منصب کو کون چھوڑے۔ اتنے سارے لوگ نصیحتوں کے لیے تیار تھے کہ حضرت آپ کی برکت سے اتنے مدرسے چل رہے ہیں اور اتنے بڑے بڑے کام ہو رہے ہیں۔ انہوں نے ان کو جانے نہیں دینا تھا۔ حضرت نے توریہ سے کام لیا۔ جیسے آپ ﷺ کی عادت تھی کہ جب جہاد کے لیے تشریف لے جاتے تو جس طرف جانا ہوتا تھا، پوچھنے پر اس کے مخالف سمت کے بارے میں پوچھنا شروع کر لیتے کہ اس کے بعد کیا ہے، اگر کوئی ادھر جائے تو کیا کرنا پڑے گا۔ لوگ سمجھتے کہ شاید اس طرف جا رہے ہیں۔ اسی طرح امام غزالی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے بھی مخالف سمت کی باتیں پوچھنا شروع کیں، کئی دن تک ایسا کرتے رہے۔ لوگ سمجھے کہ اس طرف سفر کا ارادہ ہے۔ کچھ دن بعد امام غزالی ایک رات کو تاریکی میں شہر سے نکل گئے۔ لوگوں کو معلوم ہوا تو انہیں ڈھونڈنے کے لیے اس سمت چلے جس سمت کے بارے میں وہ پوچھا کرتے تھے۔ لیکن امام غزالی کو نہ ملنا تھا نہ ملے۔ کہیں بہت دور چلے گئے اور بالکل غائب ہی ہو گئے، غائب بھی ایک دو دن کے لیے نہیں بلکہ پورے چودہ سال کے لیے غائب ہو گئے۔ چودہ سال اپنی تربیت کروائی۔ اس کے بعد جب بن گئے، پھر واپس آئے۔

احیاء العلوم میں یہ سب تفصیل لکھی ہے۔ جب واپس آئے تو یہ حالت تھی کہ علما کی بات تو الگ ہے جو بادشاہ بھی ان کے ساتھ متعلق تھے وہ فقیر ہو گئے۔ سلطان سبکتگین رحمۃ اللّٰہ علیہ، نور الدین زنگی رحمۃ اللّٰہ علیہ وغیرہ ان بادشاہوں اور شہزادوں کے ایسے عجیب عجیب حالات ہیں کہ آدمی حیران ہو جاتا ہے۔ میرے پاس حضرت مولانا مناظر احسن گیلانی صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کی ایک کتاب ہے جس میں ان کے مقالات ہیں۔ ان میں سے ایک مقالے میں یہ سب باتیں میں نے پڑھی ہیں۔

بہرحال اگر یہ چیز سمجھ میں آ جائے تو پھر آدمی واقعی انسان بن جاتا ہے۔ ہماری مرحبا مسجد میں بھی مدرسہ ہے لیکن وہ اس چیز کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ جیسے نصاب کی چیزوں کا خیال رکھتے ہیں اسی طرح طلبہ کی تربیت کا بھی خیال رکھتے ہیں۔ اور اس کے ساتھ ساتھ تعلیم کا بھی بہت خیال رکھا جاتا ہے، یہ نہیں کہ اپنے اسباق کو کمزور کیا جائے بلکہ ایسا طریقہ اختیار کیا جانا چاہیے کہ اسباق اور نصابی چیزوں کے ساتھ ساتھ جتنا کام ہو سکتا ہے وہ کرتے رہنا چاہیے۔

ہم پشاور یونیورسٹی انجنیرنگ پڑھنے گئے تھے، اس میں تو کوئی فرق نہیں پڑا لیکن الحمد للّٰہ حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کے ساتھ تعلق قائم ہو گیا تعلیم بھی ہوتی رہی اور ساتھ ساتھ اللّٰہ پاک یہ چیز بھی دیتے رہے۔ اس طرح مدارس میں بھی ہو سکتا ہے۔

ایک مرتبہ مفتی نعیم بخاری صاحب دار العلوم میں تشریف لائے تھے، وہاں بات چیت کے دوران اپنے ساتھیوں کو فرمایا کہ جتنا تصوف شاہ صاحب کو معلوم ہے میں نے اس سے زیادہ پڑھا ہے لیکن سمجھ ادھر ہی آیا۔ وہ با قاعدہ تصوف پڑھاتے ہیں لیکن تصوف علمی اتنا زیادہ نہیں ہے جتنا عملی ہے۔ یہ کتابوں کے پڑھانے سے اتنا نہیں آتا جتنا عملی طور پر مشائخ کے پاس بیٹھنے سے، ان کے ساتھ تعلق رکھنے اور ان کے ساتھ خط و کتابت سے آتا ہے۔

جب ہم حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کے پاس گئے تھے تب ہم نے تصوف پر کوئی کتاب وغیرہ نہیں پڑھی تھی۔ لیکن حضرت کے ساتھ بیٹھ بیٹھ کر ہمیں بہت ساری باتیں ایسی معلوم ہو جاتی تھیں جو شاید بڑی بڑی کتابوں میں نہ ملیں۔

حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللّٰہ علیہ سے کسی نے پوچھا کہ جب حضرت سید احمد شہید رحمۃ اللّٰہ علیہ اور شاہ عبد الرحیم ولایتی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی آپس میں ملاقات ہوئی تو شاہ عبد الرحیم رحمۃ اللّٰہ علیہ کے قلب کا نور سفید تھا اور حضرت سید احمد شہید رحمۃ اللّٰہ علیہ کا سیاہ لکھا گیا ہے، ایسا کیوں تھا؟

یہ بڑا عجیب سوال ہے۔ حضرت گنگوہی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے کسی کتاب کا حوالہ دیے بغیر فرمایا: بھائی ہمیں معلوم نہیں ہے۔ ہم نے سنا تھا کہ ذات بحت کا رنگ سیاہ ہے۔ چونکہ حضرت سید احمد شہید صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ پہ توحید کا غلبہ زیادہ تھا لہذا ذات بحت کا رنگ ان کے دل پہ چھایا ہوا تھا اس لیے ان کے قلب کا نور سیاہ تھا۔

مشائخ کی خدمت میں بیٹھ کے جو چیز حاصل ہو سکتی ہے وہ کتابوں سے کہاں حاصل ہو سکتی ہے۔ اگر اتنا کیا جائے کہ ہفتے میں ایک بیان ہو اور کچھ مشائخ کے ساتھ رابطہ کر کے اپنے طلباء کو ان کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی جائے، یہی طریقہ علاج ہے۔ صرف کتابوں سے کام نہیں ہوتا۔

ایک دفعہ ایسا ہوا کہ بو علی سینا کے وقت میں ایک صوفی بزرگ نے کہا کہ بو علی سینا کے اخلاق اچھے نہیں ہیں۔ بو علی سینا نے اخلاق کے اوپر پوری ایک کتاب تصنیف کر دی اور یہ سمجھانے کے لیے کہ میں کتنا جانتا ہوں، وہ کتاب ان کی خدمت میں بھیجی کہ حضرت اس کا تھوڑا سا مطالعہ فرما کے کچھ لکھ دیں۔ حضرت نے وہ کتاب دیکھی تو یہ تبصرہ کیا کہ میں تو سمجھتا تھا کہ بو علی سینا میں اخلاق نہیں ہے لیکن اب مجھے کہنا پڑ رہا ہے کہ اس میں شاید عقل بھی نہیں ہے، وہ میری اس بات کو بھی نہیں سمجھا۔ میں تو کہتا تھا کہ اس میں اخلاق نہیں ہے۔ میں نے یہ تو نہیں کہا تھا کہ وہ اخلاق جانتا نہیں۔ کتاب لکھ کر اس نے جاننے کا ثبوت دیا ہے، با اخلاق ہونے کا ثبوت تو نہیں دیا۔

سوال نمبر26:

جب کسی کو مقام تمکین حاصل ہو جائے تو کیا اسے اطمینان حاصل ہو جاتا ہے؟

جواب:

یہ سمجھنے کے لحاظ سے مشکل سوال ہے۔ البتہ جتنا جواب میں دے سکتا ہوں اتنا عرض کر دوں گا باقی جو لوگ سمجھ سکتے ہیں وہ سمجھ جائیں گے۔

تمکین سے اتنی چیز حاصل ہوتی ہے کہ سالک کے احوال کو قرار مل جاتا ہے۔ ابتدائی سلوک کے دوران الوان میں جو تبدیلی جلدی جلدی آتی ہے تمکین کے بعد ان احوال و الوان میں ایک خاص حالت پر ٹھہراؤ آ جاتا ہے۔ یہ صورتاً ایک اطمینان کی کیفیت ہے۔ کیونکہ جو چیز تبدیل ہو رہی ہوتی ہے اس میں اطمینان نہیں ہوتا، اس لیے یہ صورتاً اطمینان ہے۔ جہاں تک اپنے اوپر اطمینان کا تعلق ہے یہ کبھی نہیں آ سکتا بلکہ صاحب تمکین کو زیادہ بے اعتمادی ہوتی ہے کیونکہ اس کو اللّٰہ پر بہت اونچے درجے کا یقین آ جاتا ہے جس کی وجہ سے اپنے اوپر اتنی بد گمانی ہو جاتی ہے کہ وہ اپنی کسی چیز کے بارے میں بھی مطمئن نہیں ہوتا۔

حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ سے کسی نے کہا کہ حضرت آپ کچھ بتا دیں جس سے اطمینان حاصل ہو جائے، اپنے بارے میں کچھ اطمینان نہیں ہے۔ فرمایا: کیا مجھ سے کفر کی بات پوچھتے ہو؟ وہ دن تو ماتم کا دن ہو گا جب آپ کو اطمینان حاصل ہو جائے گا کہ میں اچھا ہوں۔

عجب اسی کو تو کہتے ہیں کہ انسان اپنے آپ کو اچھا سمجھنے لگتا ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جو کسی چیز کی وجہ سے اپنے آپ کو اچھا سمجھتا ہے اللّٰہ کی نظر میں اس وجہ سے گر رہا ہے۔ یہ اطمینان تو عجب بنا دے گا۔ لہٰذا اطمینان کی یہ صورت تو کبھی حاصل نہیں ہو سکتی، اپنے اوپر بد گمانی ہمیشہ رہے گی۔ آپ ﷺ نے دعا کی ہے:

”اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ فِیْ عَیْنِیْ صَغِیْرًا وَّفِیْ اَعْیُنِ النَّاسِ کَبِیْرًا“۔ (مسند البزار: رقم الحدیث: 4439)

ترجمہ: ”اے اللّٰہ مجھے میری اپنی آنکھوں میں چھوٹا کر دے اور دوسروں کی نگاہوں میں بڑا کر دے“۔

اس لئے یہ بات سمجھ لیں کہ اپنے اوپر اطمینان کبھی نہیں آ سکتا لیکن وہ اطمینان حاصل ہو جاتا ہے جو تمکین کا خاصہ ہے کہ احوال میں بار بار تبدیلی نہ ہو۔ دوسرا اطمینان یہ حاصل ہوتا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کے احکامات اور شریعت پر اطمینان ہو جاتا ہے۔ اب اس بارے میں کوئی بات نہیں کرتا۔ جب کوئی صاحبِ تمکین ہو جاتا ہے تو اسے نفس مطمئنہ حاصل ہو جاتا ہے، وہ اب دین کے بارے میں کوئی شک و شبہ کی بات نہیں کرتا۔ لیکن اس معنیٰ میں مطمئن کبھی نہیں ہوتا کہ میں نے ٹھیک کیا ہے۔ ورنہ حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کبھی یہ نہ کہتے کہ مجھے اپنے اوپر منافق ہونے کا خوف ہے۔

سوال نمبر27:

محبت اور عقیدت میں کیا فرق ہے؟

جواب:

عقیدت ایسی چیز ہے جس کی پیمائش کی جا سکتی ہے۔ اس میں انسان کی اپنی انفرادیت کسی حد تک باقی رہتی ہے، اپنی غرض باقی رہتی ہے جب کہ محبت میں اپنی غرض بالکل ختم ہو جاتی ہے۔ اگر کسی میں غرض ختم ہو گئی تو محبت ہے اور اگر غرض باقی ہے تو عقیدت ہے۔ بالفاظِ دیگر جس کے ساتھ عقیدت ہوتی ہے، بعض دفعہ ان کی سخت بات ناگوار ہوتی ہے لیکن جس کے ساتھ محبت ہوتی ہے اس کی سخت بات ناگوار نہیں ہوتی بلکہ اس کے اوپر فخر ہوتا ہے کہ مجھے اپنا سمجھا تب ہی تو ڈانٹ رہے ہیں۔

الحمد للّٰہ ہمارا یہ پروگرام ہر پیر اور منگل کو ہوتا ہے۔ براہ راست انٹرنیٹ پر بھی جاتا ہے اور ہم اس کے لیے اہتمام کرتے ہیں۔ اللّٰہ کے اوپر توکل کرتے ہوئے بیٹھ جاتے ہیں۔ جو سوالات آتے ہیں اللّٰہ پہ بھروسہ کرتے ہوئے ان کا جواب دیتے ہیں۔ یہ ہمارے شیخ حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کا فیض ہے۔ حضرت کا انداز سوال و جواب کا تھا۔ حضرت کے ہاں تو سارا دن یہی ہوتا تھا، ہمارے صرف دو دن ہیں۔ حضرت خود فرماتے کہ کوئی بات چلائیے۔ کوئی سوال کرتا پھر اس سوال پہ پورا بیان ہوتا تھا۔ حضرت خود اپنی تحریک پر کم ہی وعظ کیا کرتے تھے۔ اکثر بیان اس طرح ہوا کرتے تھے کہ کسی نے سوال کیا حضرت نے اس کے جواب میں پورا بیان کر دیا۔ کبھی عصر کی نماز کے بعد یہ سلسلہ شروع ہوتا اور مغرب کے وقت تک چلا جاتا تھا۔ چونکہ حضرت کا یہ طریقہ رہا ہے اس لئے ہم بھی حضرت کی اتباع کرتے ہیں۔

کہتے ہیں ایک ہوتی ہے اتباع اور ایک ہوتی ہے رِیس۔ رِیس تو نہیں کرنی چاہیے البتہ بزرگوں کی اتباع کرنی چاہیے۔ ہم نے اتباع کی نیت سے ہی یہ سلسلہ شروع کیا ہے کہ یہ ہمارے شیخ کا طریقہ ہے۔ ہم نے بھی جھولی اللّٰہ کے سامنے اپنے شیخ کے وسیلے سے پھیلا دی ہے تو اللّٰہ پاک جو اس میں ڈال دیتے ہیں وہ ہم لے لیتے ہیں۔ اللّٰہ تعالٰی نصیب فرمائے۔ آمین۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ