سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 35

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی



اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال نمبر1:

زبان کے شر سے حفاظت کے لیے نبی کریم ﷺ کا کیا فرمان ہے؟

جواب:

زبان کی حفاظت کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

”مَنْ يَّضْمَنْ لِيْ مَا بَيْنَ لِحْيَيْهِ وَمَا بَيْنَ رِجْلَيْهِ أَضْمَنْ لَهُ الْجَنَّةَ“ (صحیح بخاری: 6474)

ترجمہ: ”جو شخص مجھے دونوں جبڑوں کے درمیان کی چیز (زبان) اور دونوں ٹانگوں کے درمیان کی چیز (شرم گاہ) کی ضمانت دے دے میں اس کے لیے جنت کی ضمانت دیتا ہوں“۔

اگر یہ دونوں چیزیں صحیح استعمال نہ کی جائیں تو یہ بہت زیادہ شر کا باعث بنتی ہیں۔ انسان بولنے سے پہلے سوچے کہ آیا یہ بات کرنے کی ضرورت ہے یا نہیں ہے، اگر ضرورت ہو تو بات کرے، اگر ضرورت نہ ہو تو رک جائے۔

نیز نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

”مَنْ صَمَتَ نَجَا“ (سنن ترمذی: 2501)

”جس نے خاموش رہنا سیکھ لیا اس نے نجات پا لی“۔

سوال نمبر2:

صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین سے جب کوئی چیز پوچھی جاتی تھی تو وہ کہتے تھے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ بہتر جانتے ہیں۔ موجودہ دور میں ہم اس بات کو کس طریقے سے لیں؟

جواب:

اس سلسلے میں پہلی بات یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو بلاوجہ ذمہ دار نہ بنائے۔ جب انسان کوئی بات کرتا ہے تو اس کا ذمہ دار بن جاتا ہے، اگر وہ بات صحیح ہے تو اس کے لیے فائدہ ہے اور اگر غلط ہے تو اس کا نقصان ہے، اس لئے انسان اپنے آپ کو بلاوجہ ذمہ دار نہ بنائے۔ مثلاً میں مفتی نہیں ہوں اور مجھ سے کوئی فقہی مسئلہ پوچھے جس کا مفتی سے پوچھنا ضروری ہو، تو میں خواہ مخواہ کیوں پریشانی اٹھاؤں، مجھے بس یہ بتا دینا چاہیے کہ یہ مفتیوں کی بات ہے، آپ مفتیانِ کرام سے پوچھ لیں۔ اگر اس کے بجائے میں یہ کہہ دوں کہ اللّٰہ اور اللّٰہ کا رسول بہتر جانتا ہے تو یقیناً وہ زیادہ بہتر جانتے ہیں، لیکن سائل کو تو جواب چاہیے، اور فقہی سوال کا جواب دینے والے مفتیان کرام ہیں، لہٰذا مجھے اس سائل کو مفتیان کرام کی طرف بھیجنا ہو گا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے وقت میں تو یہ بات بالکل درست تھی کیونکہ اس وقت وحی نازل ہو رہی تھی اور نبی کریم ﷺ بھی موجود تھے، اس زمانے میں وہی بات مناسب تھی جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کہا کرتے تھے یعنی ”اَللہُ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَمُ“۔ لیکن اب چونکہ دین مدون ہو چکا ہے اور ساری چیزیں مکمل ہو چکی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا﴾ (المائدہ: 3)

ترجمہ: ”آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا، تم پر اپنی نعمت پوری کر دی، اور تمہارے لیے اسلام کو دین کے طور پر (ہمیشہ کے لیے) پسند کر لیا“۔

لہٰذا اگر مسئلے کا جواب معلوم ہو تو سائل کو جواب دینا چاہیے، یا کسی ایسے آدمی کا پتا بتا دینا چاہیے جو اس کو جواب دے سکے۔ ہاں اگر آپ کو جواب معلوم نہ ہو یا کسی ایسے شخص کے بارے میں بھی معلوم نہ ہو جو جواب بتا سکے تو پھر یوں کہا جا سکتا ہے کہ اللّٰہ تعالٰی بہتر جانتے ہیں۔

ایک شخص آپ سے راستہ پوچھتا ہے کہ فلاں راستہ کدھر جاتا ہے اور آپ کہتے ہیں کہ اللّٰہ کو بہتر معلوم ہے۔ آپ کا ایسا کہنا عمومی طور پر درست تو ہے لیکن یہ اس کے سوال کا جواب نہیں ہے۔ اسی طرح اگر کوئی آپ سے پوچھے کہ بہتر کمپیوٹر کہاں سے مل سکتا ہے؟ آپ کو اس کا جواب معلوم ہو پھر بھی آپ کہیں کہ اللہ بہتر جانتا ہے، تو یہ جواب عمومی طور پہ تو درست ہے مگر یہ اس کے سوال کا جواب نہیں ہے، اس کے سوال کا جواب تو یہی ہو گا کہ آپ اسے درست جگہ بتا دیں اور اسے صحیح مشورہ دے دیں۔ حدیث میں آتا ہے:

”اَلْمُسْتَشَارُ مُؤتَمَنٌ“ (سنن ترمذی: 2823)

ترجمہ: ”جس سے مشورہ مانگا جائے وہ امانت دار ہے“۔

اور اس امانت کا تقاضا ہے کہ صحیح مشورہ دیا جائے۔

سوال نمبر3:

اخبارات کے ذریعے معلومات میں اضافہ ہوتا ہے، اس ایک خوبی کے علاوہ اخبارات میں کئی قسم کی قباحتیں بھی ہیں۔ اس بارے میں رہنمائی فرما دیں۔

جواب:

اخبارات میں کئی قسم کی قباحتیں ہیں۔ پہلی قباحت یہ ہے کہ سوائے چند اخبارات کے سب میں جان داروں کی تصویریں ہوتی ہیں اور ہمارے علماء کرام کے نزدیک جان دار کی تصویر حرام ہے، یہ تصویریں جہاں ہوتی ہیں وہاں فرشتوں کی آمد و رفت بند ہو جاتی ہے، اور شیاطین کی آمد و رفت شروع ہو جاتی ہے۔ فرشتوں کی آمد کو روکنا اور شیاطین کی آمد کو ہونے دینا نقصان کی بات ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ اخباری اطلاعات مستند نہیں ہوتیں، جیسے تاریخ ایک مستند چیز ہے، اس طرح اخبار کی باتیں مستند نہیں ہوتیں، ان میں زیادہ تر جانب داری سے کام لیا جاتا ہے۔ ایک اخبار کسی پارٹی کے ساتھ منسلک ہے تو وہ اس کے فائدے کی باتیں کرے گا اور اس کے خلاف باتیں نہیں چھاپے گا، اسی طرح گورنمنٹ کے اخبارات گورنمنٹ کی خوبیوں کے گن گاتے ہیں اور گورنمنٹ کے خلاف بات نہیں کرتے۔ کچھ اور قسم کے لوگ بھی اخبارات پر اثر انداز ہوتے ہیں، مثلاً سرمایہ دار اور کار خانہ دار قسم کے لوگ بعض اخبارات میں اپنے مطلب کی باتیں چھپواتے ہیں، اپنے مخالفین کے خلاف باتیں چھپواتے ہیں، بعض اوقات بیرون ممالک میں ہمارے ملک کے مخالف اور سازشی لوگ بھی اخباروں کو خرید لیتے ہیں اور اپنے مطلب کی باتیں چھپواتے ہیں۔ بالخصوص قلم کار لوگوں میں بہت سارے بکے ہوئے بھی ہوتے ہیں، اس قسم کی صحافت کو ہم زرد صحافت کہتے ہیں۔ لہٰذا اخبارات کی باتوں پر اعتماد کرنے میں خطرہ ہے۔

مجھے ایک صاحب نے کہا کہ انجیل برنباس بہت اچھی کتاب ہے، ایسے لگتا ہے جیسے کسی مسلمان صوفی نے لکھی ہے۔

میں نے کہا: آپ کی بات صحیح ہے لیکن ہمارے پاس قرآن موجود ہے اور قرآن کے آنے کی وجہ سے تمام سابقہ کتابیں منسوخ ہو گئی ہیں۔ جب ہمارے پاس قرآن شریف موجود ہے تو ہم کوئی اور کتاب کیوں پڑھیں، اگر ہم اس کو پڑھیں گے بھی تو ہمارے ذہن پہ بوجھ ہی پڑے گا کہ اس میں کون سی بات صحیح ہے اور کون سی بات غلط ہے، اس میں ہمارے لیے رکاوٹیں ہوں گی اور ہم بڑی مشکل سے اس پہ عمل کر سکیں گے۔ لہٰذا جب ہمارے پاس ایک ایسی چیز موجود ہے جس پر عمل کرنا سو فیصد فائدہ دیتا ہے اور اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے تو ہم کسی اور چیز کو کیوں دیکھیں۔

بہرحال اخبارات کے اندر اس قسم کے مسائل ہوتے ہیں کہ جن کی وجہ سے انسان کو مکمل اطمینان نہیں ہو سکتا بلکہ ان اخبارات کی وجہ سے بعض دفعہ ہم لوگ لا شعوری طور پر سازشوں کے شکار ہو جاتے ہیں۔

سوال نمبر4:

ابھی چند دن پہلے ایک بیان میں سنا کہ ایک زمانہ آئے گا کہ آدمی صبح مسلمان ہو گا شام کو کافر ہو گا، شام کو مسلمان ہو گا تو صبح کافر ہو گا۔

کیا اتنے زیادہ فتنے ہوں گے کہ وہ ان سے بچ نہیں پائے گا؟

جواب:

جی ہاں، بالکل یہی بات ہے۔ آخری زمانہ میں فتنوں کی آمد کی پیشن گوئی کی گئی ہے کہ فتنے اتنی تیزی سے آئیں گے جیسے تسبیح کا دھاگہ ٹوٹ جائے تو اس کے دانے ایک قطار میں یکے بعد دیگرے تیزی سے گرتے ہیں۔ اسی طرح آخری زمانہ میں ایک کے بعد دوسرا فتنہ بہت تیزی کے ساتھ آئے گا۔

ذرا غور کریں کہ ہمارے سامنے کتنے سارے فتنے آ گئے اور کتنی تیزی کے ساتھ آ گئے ہیں۔ پہلے ٹیلی ویژن کا فتنہ تھا، اس کے بعد وی سی آر کا فتنہ آ گیا، وی سی آر کے بعد کیبل کا فتنہ آ گیا، کیبل کے بعد انٹرنیٹ کا فتنہ آ گیا، انٹرنیٹ کے بعد موبائل کا فتنہ آ گیا اور یہ مسلسل بڑھ رہے ہیں، عجیب و غریب طریقے سے یہ چیزیں پھیل رہی ہیں، ایک سے بڑھ کر ایک مشکل آ رہی ہے جس کی وجہ سے شر پھیل رہا ہے اور خیر کم ہو رہی ہے۔ ان فتنوں سے وہی لوگ بچیں گے جو ان وسائل کے کم سے کم محتاج ہوں گے اور اپنے آپ کو ان چیزوں کا کم سے کم عادی کریں گے، ورنہ ان فتنوں کا اثر ایسا ہے کہ بعض اوقات جو لوگ ان کے زیادہ عادی ہوتے ہیں وہ ان وسائل کے ذریعے پھیلائی گئی سازشوں میں بھی آ جاتے ہیں اور وہی باتیں کرنے لگتے ہیں جو وہ ان سے کہلوانا چاہتے ہیں۔

سوال نمبر5:

لوگ اکثر ایک اصطلاح استعمال کرتے ہیں کہ فلاں بزرگ ”جلالی“ ہیں اور فلاں بزرگ ”جمالی“ ہیں۔ دوسری طرف قرآن پاک میں ایک آیت کا مفہوم ہے کہ اگر آپ ﷺ سخت دل ہوتے تو صحابہ کرام آپ سے دور ہو جاتے۔ اسی طرح ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ جو چیز اللّٰہ تعالٰی نرمی میں عطا فرماتے ہیں وہ سختی کرنے پر نہیں دیتے۔ اس کو کس طرح سمجھیں گے؟

جواب:

پورے دین کو سمجھنا اور چند باتوں کو لینا، ان دونوں رویوں میں فرق ہے۔ پورا دین یہ ہے کہ آپ ﷺ بشیر بھی ہیں، نذیر بھی ہیں، آپ ﷺ بشارتیں بھی دیتے تھے اور ڈراتے بھی تھے۔ اس کی تشریح یہ ہے کہ آپ ﷺ اپنے لیے تو نرم تھے لیکن دین کے معاملے میں کسی کو معاف نہیں کرتے تھے۔ وہ واقعہ مشہور ہے کہ قریش کی ایک عورت پر چوری کی حد معاف کرنے کے بارے میں سفارش کی گئی تو نبی ﷺ غصہ میں آ گئے اور حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے فرمایا:

”اَتَشْفَعُ فِیْ حَدِّ مِّنْ حُدُوْدِ اللہِ؟“ (صحیح بخاری: 1688)

ترجمہ: ”کیا تم اللہ کی حدود میں سے ایک حد کے بارے میں سفارش کرتے ہو؟“۔

اسی طرح احادیث میں ایک اور واقعہ آتا ہے کہ ایک صحابی نے دوران جنگ ایک کافر کو گرا لیا، جب اسے قتل کرنے لگے تو اس نے کلمہ پڑھ لیا، لیکن صحابی رضی اللہ عنہ نے اسے قتل کر دیا۔ آپ ﷺ کو معلوم ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر قیامت کے دن وہ تمہارے خلاف کلمہ کے ساتھ کھڑا ہو گیا تو میں کچھ نہیں کر سکوں گا۔

ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ دین کے معاملے میں کسی رو رعایت سے کام نہیں لیتے تھے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا بھی یہی رویہ تھا، قرآن مجید میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں فرمایا گیا ہے:

﴿اَشِدَّآءُ عَلَی الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَهُمْ﴾ (الفتح: 29)

ترجمہ: ”وہ کافروں کے مقابلے میں سخت ہیں (اور) آپس میں ایک دوسرے کے لیے رحم دل ہیں“۔

قرآن پاک اور احادیث شریفہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جلالی تھے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام جمالی تھے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مشہور قول ہے کہ اگر تمہیں کوئی ایک گال پر تھپڑ مارے تو تم دوسرا گال بھی اس کے سامنے کر دو۔

ہر ایک کا اپنا اپنا مزاج ہوتا ہے، اپنی اپنی نسبتیں ہوتی ہیں۔ انبیاء میں کچھ جلالی اور کچھ جمالی ہیں، اسی طرح صحابہ میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ جمالی ہیں جبکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جلالی ہیں۔ اسی طرح اولیاء کرام میں بھی جمالی حضرات بھی ہوتے ہیں اور جلالی بھی ہوتے ہیں۔ اللہ پاک نے مخلتف طبیعتیں بنائی ہیں۔ اللہ پاک نے جس کی طبیعت جیسے بنائی ہوتی ہے اسے ویسے ہی اپنے فطری انداز میں رہنا چاہیے، تصنع نہیں کرنا چاہیے، ہاں اس بات کا خیال رہے کہ فطری انداز میں بھی شریعت کی حدود سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے۔ باقی ہر ایک کی اپنی طبیعت ہوتی ہے، اپنا مزاج ہوتا ہے اللہ نے جس کو جیسا بنایا ہے اپنی حکمت سے بنایا ہے۔

سوال نمبر6:

حضرت! آپ نے ایک دفعہ فرمایا تھا کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک میں جو تقابل فی الادیان کا پہلو ہے یہ ٹھیک ہے۔ اسی طرح ایک صاحب نے اپنی کتاب میں ڈاکٹر عبد السلام قادیانی کا ذکر کیا اور اس کی محنت کے حوالے سے یہ بتایا کہ اس نے ایک کتاب 63 دفعہ پڑھی۔ آخر میں انہوں نے یہ وضاحت کر دی تھی کہ وہ غیر مسلم تھا۔ سوال یہ ہے کہ اگر کسی آدمی کے اندر ایک خوبی کا پہلو ہو تو کیا اس کی وجہ سے اس کی مکمل طور پر نفی کرنی چاہیے یا نہیں؟

جواب:

ہم کسی انسان کی خوبی کی نفی تو یقیناً نہیں کرتے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ ضرور کہتے ہیں کہ انسان جتنا زیادہ ذہین اور فَطِین ہو گا، اگر وہ غلط طرف چلا گیا تو اتنا ہی زیادہ فِتِّیْن ہو گا، اور لوگوں کو فتنے میں ڈالے گا۔ لہٰذا خوبی کے ساتھ ساتھ اِس رخ کو بھی سامنے رکھنا چاہیے، لوگوں کو کسی آدمی کی خوبی بتانے کے ساتھ ساتھ اس سے متعلق فتنے کے بارے میں بھی بتانا چاہیے تاکہ لوگ ان کے فتنے میں نہ آ جائیں۔ فتنے اکثر ذہین لوگ ہی اٹھاتے ہیں، عام لوگ فتنے نہیں اٹھا سکتے، ایسے لوگوں کے بارے میں ہمیں معلوم ہونا چاہیے۔

اگر ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب صرف تقابل ادیان کو لیتے اور کسی مسئلے میں بات نہ کرتے تو اپنے استاذ احمد دیدات کے طریقے پہ چلتے۔ احمد دیدات صاحب باقی چیزوں میں بات نہیں کرتے تھے صرف تقابل ادیان کے موضوع پہ بات کرتے تھے لہذا کوئی مسئلہ نہیں ہوتا تھا۔ پتا نہیں ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب کی کیوں شامت آ گئی کہ خواہ مخواہ دوسری چیزوں میں بولنے لگے، حالانکہ دوسرے موضوعات ان کا شعبہ نہیں ہیں، ان کا شعبہ صرف تقابل ادیان ہے۔ ایک آدمی کتنا ہی بڑا Physicist (طعبیات دان) کیوں نہ ہو اگر وہ کیمسٹری یا طِب میں باتیں کرنے لگے اور غلط بولنے لگے تو لوگ کہیں گے کہ تمھارا مسئلہ کیا ہے خواہ مخواہ اس شعبہ میں کیوں بات کرتے ہو جس میں تمہیں مہارت نہیں ہے؟ ہر ایک کا اپنا اپنا شعبہ ہے، یہ دور specialization (تخصص) کا ہے لہذا جس کی جو specialization ہو وہ اسی پہ بات کرے اور دوسرے شعبوں کی باتیں اُن شعبوں کی ماہرین کی طرف منتقل کر دے۔

سوال نمبر7:

علماء سے ایک اصطلاح ”غُلُوّ فی التقوی“ کے بارے میں سنا ہے۔ کیسے پتا چلے گا کہ تقویٰ میں غلو ہو رہا ہے یا نہیں؟

جواب:

ایک محاورہ ہے: ”ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں“۔ یہاں بھی یہی محاورہ صادق آتا ہے، کسی آدمی کے روحانی احوال کیسے ہیں، اس کا پتا چلانا شیخ پر منحصر ہوتا ہے۔ اگر آپ کا اصلاحی تعلق کسی شیخ سے ہے تو اس کو اپنے احوال بتاتے جائیں، اگر شیخ کو محسوس ہوا کہ آپ غلو فی التقویٰ کر رہے ہیں تو وہ بتا دے گا کہ تم اس مسئلے میں غلو فی التقوی کر رہے ہو۔

اور اگر کسی کا شیخ نہیں ہے تو وہ اپنے چھوٹوں کے ساتھ مشورہ کرے، آپ ﷺ نے فرمایا کہ مشورہ کر لیا کرو۔ لہٰذا ایسے حضرات اپنے چھوٹوں کے ساتھ مشورہ کر لیا کریں اور مشورہ میں جو آراء سامنے آئیں ان کی روشنی میں فیصلہ کر لیا کریں۔ جو چیز مشورہ سے سامنے آئے گی اس میں خیر ہو گی۔

غلو فی التقوی سے مراد یہ ہوتا ہے کہ انسان ان گنجائشوں کو بھول جائے جو اللّٰہ تعالیٰ نے دی ہیں۔

غلو فی التقوی کی دو قسمیں ہیں۔ ایک قسم یہ ہے کہ آدمی اپنے لیے تو متشدد ہو مگر دوسروں کے لیے نرم ہو، دوسروں کے بارے میں آسان حل بتاتا ہو مگر اپنے لیے مشکل بات پسند کرتا ہو۔ بعض اولیاء اللّٰہ ایسا کیا کرتے تھے کہ اپنے لیے تو سخت بات لیتے تھے اور دوسروں کے لیے آسان بات لیتے تھے۔

دوسری قسم وہ ہے جو غلط لوگ لیتے ہیں، اپنے لیے نرم پہلو اختیار کرتے ہیں دوسروں کے لیے سخت پہلو تجویز کرتے ہیں۔

محققین حضرات نہ اپنے لیے سخت پہلو لیتے ہیں نہ دوسروں کے لیے سخت پہلو لیتے ہیں وہ ہر صورت میں ہر ایک کے لیے معتدل پہلو لیتے ہیں، اعتدال کے راستہ سے آگے پیچھے نہیں ہوتے۔

سوال نمبر8:

استخارہ اور مشورہ کرنے میں کیا فرق ہے، کن حالات میں استخارہ کرنا چاہیے اور کن حالات میں مشورہ کرنا چاہیے؟

جواب:

بہت اچھا سوال ہے، آج کل کے لحاظ سے عملی سوال ہے۔

ذاتی کاموں میں استخارہ افضل ہے اجتماعی نوعیت کے کاموں میں مشورہ افضل ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ استخارہ کسی کا خواب ہے یا کسی کا شرح صدر ہے یا کسی کا خیال ہے، اب یہ جس کا خواب، شرح صدر یا خیال ہے اسی پر حجت ہو گا کسی اور پر حجت نہیں بن سکتا۔ اگر کوئی اجتماعی عمل میں استخارہ کر لے اور کہے کہ سکول نہیں بننا چاہیے تو دوسرے لوگ جو سکول بنانا چاہتے ہیں وہ کہیں گے کہ یہ تمھارا استخارہ ہے ہمارا تو نہیں ہے، ہم اسے کیوں مانیں۔ اس طرح بات نہیں بنے گی، خواہ مخواہ تضاد پیدا ہو گا اور استخارے کی تضحیک ہو گی، ایک مسنون طریقے کی تضحیک ہو گی، لہٰذا اجتماعی چیزوں میں استخارہ نہ کیا جائے بلکہ مشورہ کیا جائے اور انفرادی معاملات میں استخارہ افضل ہے۔ مشورہ اس وقت بہتر ہوتا ہے جب ساری چیزیں آپ کے اوپر کھلی ہوں اور کسی کی ذاتی زندگی کی ساری چیزیں کسی دوسرے پر پوری طرح کھلی ہوئی نہیں ہوتیں، اللّٰہ تعالیٰ کو ہی ہر ایک کی سب چیزوں کا پتا ہوتا ہے اس لئے ذاتی اور انفرادی معاملات میں استخارہ ہی بہتر ہوتا ہے۔

سوال نمبر9:

روایات میں آتا ہے کہ ایک غزوہ میں صحابہ رضی اللہ عنھم نے ایک زرہ پہنی ہوئی تھی اور آپ ﷺ نے دو زرہیں پہنی ہوئی تھیں۔ اس ضمن میں آج کل کے لحاظ سے کیا احکام ہیں؟ آدمی کا گاڑی میں بیٹھ کے سیٹ بیلٹ باندھنا، علاج کے لیے اچھے سے اچھا ڈاکٹر تلاش کرنا وغیرہ، کیا یہ معاملات اسی ضمن میں آتے ہیں؟

جواب:

جی ہاں آپ نے صحیح مطلب سمجھا ہے کہ شریعت کی حدود میں رہ کر بہترین اسباب اختیار کرنے چاہئیں۔ در اصل یہ اسباب اللّٰہ جل شانہ کے احکامات ہیں۔ اللہ پاک نے پانی کو حکم دیا آگ بجھانے کا، آگ کو حکم دیا جلانے کا، کھانوں کو حکم دیا کہ ان سے انسان سیر ہو جائے، اس طرح اور بہت ساری چیزیں کو مختلف کاموں پہ لگایا، یہ سب اسباب اللّٰہ کے احکامات ہیں۔ ہر چیز اور ہر سبب کے ساتھ اللّٰہ تعالیٰ کا کوئی نہ کوئی حکم وابستہ ہوتا ہے۔ لہٰذا جو اسباب کی قدر کرتا ہے وہ در اصل اللّٰہ تعالیٰ کے احکامات کی قدر کر رہا ہے، اس لئے اس کے توکل پہ فرق نہیں پڑ رہا لیکن اسباب اختیار کرنے کے بعد یہ ضروری ہے کہ نتیجہ خدا پر چھوڑ دے۔ اسباب ضرور اختیار کرے، لیکن نتیجہ مسبب الاسباب پہ چھوڑ دے اور مانگے بھی اسی سے۔

جو محقق ہوتا ہے وہ اسباب ضرور اختیار کرتا ہے لیکن اسباب پہ انحصار نہیں کرتا، انحصار اور توکل اللّٰہ تعالیٰ پہ کرتا ہے۔ اسی لیے اللہ پاک نے فرمایا ہے:

﴿اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِیْنَ﴾ (آل عمران: 159)

ترجمہ: ”اللہ یقیناً توکل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے“۔

جو اسباب اختیار کر کے اللہ پہ بھروسہ کرے گا اللہ اس سے پیار کرے گا۔ نبی کریم ﷺ نے اپنے عمل سے ظاہر فرما دیا کہ اسباب کو اختیار کرنا غلط نہیں ہے بلکہ جتنے وسائل میسر ہوں انہیں اختیار کرنا چاہیے۔ اللّٰہ جل شانہ نے جب تک نبی کریم ﷺ کو اپنی حفاظت میں لینے کا براہِ راست اعلان نہیں فرمایا تھا اس وقت تک صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آپ ﷺ کی قیام گاہ کے باہر با قاعدہ پہرا دیا کرتے تھے۔ استوانہ حرس اسی لیے تھا، ریاض الجنۃ میں جہاں استوانہ حرس کا نشان ہے، یہ وہی جگہ ہے جہاں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی ﷺ کی پہرے داری کے لئے کھڑے ہوا کرتے تھے۔ بعد میں اللّٰہ پاک کے قرآن پاک میں اعلان فرما دیا کہ:

﴿وَاللّٰهُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ﴾ (المائدہ: 67)

ترجمہ: ”اور اللہ تمہیں لوگوں ( کی سازشوں) سے بچائے گا“۔

اس اعلان کے بعد آپ ﷺ نے پہرے سے منع فرما دیا تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے پہرہ موقوف کر دیا۔ نبی کریم ﷺ پر تو وحی آ گئی تھی لیکن ہم وحی والے نہیں ہیں، لہٰذا ہم ہر حالت میں اسباب کو اختیار کریں گے اور نتیجہ اللّٰہ پاک پہ چھوڑیں گے۔

سوال نمبر10:

فضائل اعمال میں ہے کہ جو کثرت سے اللّٰہ کا ذکر کرے وہ نفاق سے بری ہے کیونکہ منافقوں کی صفت میں اللّٰہ تعالیٰ کے فرمان کا مفہوم ہے کہ وہ ذکر نہیں کرتے اللّٰہ کا مگر تھوڑا۔ کثرتِ ذکر سے مراد کیا ہے؟

جواب:

جسے نیک لوگ کثرت کہیں وہ کثرت مراد ہے۔ دنیا دار لوگوں کا معیار اور ہے، اگر آپ ہاتھ میں تسبیح رکھیں اور ایک دفعہ بھی ”اَللّٰہ“ نہ کہیں تو دنیا دار لوگ کہیں گے بھئی یہ تو ہر وقت ہی ذکر کرتا ہے حالانکہ آپ شاید بہت تھوڑا ذکر کرتے ہوں لیکن ان کی نظروں میں بہت زیادہ ہو گا۔ لہٰذا عام لوگوں کا اعتبار نہیں ہے، نیک لوگوں کا اعتبار ہے کہ وہ کتنی مقدار کو کثرت کہتے ہیں۔

اس میں بنیادی بات یہ ہے کہ اللّٰہ پاک کو ہر وقت یاد رکھا جائے۔ قرآن پاک میں فرمایا گیا ہے:

﴿اُذْكُرُوا اللّٰهَ ذِكْرًا كَثِیْرًا وَّ سَبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَّ اَصِیْلًا﴾ (الاحزاب: 41)

ترجمہ: ”اللہ کو خوب کثرت سے یاد کیا کرو۔ اور صبح و شام اس کی تسبیح کرو“۔

لہٰذا بہتر یہی ہے کہ انسان اپنی زبان کو ذکر کے ساتھ تر رکھے اور ہر وقت ذکر کرتا رہے۔ یہ آسان نہیں ہے، واقعتاً اللّٰہ تعالیٰ قسمت والوں کو یہ سعادت نصیب فرماتے ہیں۔

سوال نمبر11:

حضرت! آپ نے فرمایا کہ انسان کو ذکر میں رطب اللسان ہونا چاہیے۔ اسی سلسلے میں فضائل اعمال میں حدیث ہےجس کا مفہوم ہے کہ ایک صحابی نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ﷺ! شریعت کے احکام تو بہت سے ہیں، مجھے کوئی ایسا عمل بتا دیجئے جس کو میں اپنا دستور و مشغلہ بنا لوں۔ نبی کریم ﷺ نے جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ اپنی زبان کو اللّٰہ کے ذکر سے تر رکھا کرو۔ کیا ذکر سے رطب اللسان ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہر وقت ذکر کرتے رہیں؟

جواب:

جی ہاں یہ بات روایات میں آتی ہے کہ ہر وقت اپنی زبان کو ذکر سے تر رکھو۔ رطب تری کو کہتے ہیں۔ زبان کو ذکر کے ساتھ تر رکھنے سے مراد یہ ہے کہ ذکر کی تراوٹ ہر وقت آپ کے منہ میں رہے۔ الحمد للّٰہ ہم نے ایسے لوگ دیکھے ہیں جن کی زبان واقعتاً ذکر سے تر رہتی ہے۔ ایک عمر رسیدہ صاحب نے مجھے بتایا کہ ان کی زبان پہ درود شریف اتنا رواں ہو گیا کہ جب وہ بیت الخلاء جاتے ہیں تو انہیں اپنی زبان کو دانتوں تلے دبا کے رکھنا پڑتا ہے کہ کہیں اس جگہ بھی زبان سے درود شریف نہ نکل جائے۔ ما شاء اللہ خوش قسمت آدمی ہیں جو ہر وقت درود شریف پڑھتے رہتے ہیں۔ الحمد للّٰہ ہمارے ایسے ساتھی بھی ہیں جو ہر وقت ذکر کرتے ہیں۔

سوال نمبر12:

حضرت! ہر قوم کے کچھ courtesy کے الفاظ (تہنیتی الفاظ، شکریہ کے الفاظ) ہوتے ہیں مثلاً کسی سے ملاقات کے بعد کہتے ہیں کہ آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی، اپنا خیال رکھیے گا۔ اسی طرح انگریزی میں Nice to meet you اور Take care وغیرہ کے الفاظ کہے جاتے ہیں۔ ہمارے لیے ان الفاظ کے استعمال میں کوئی قباحت ہے یا کوئی حرج نہیں۔

جواب:

اگر ایسا کرنا نام و نمود کے لیے نہیں ہے بلکہ اخلاص کے ساتھ ہے تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے، اگر صرف نام و نمود کے لیے ہے تو پھر اس میں قباحت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر زبان جانتا ہے لہذا زبان اور الفاظ کے اندر کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

ہمارے بزرگ فرماتے ہیں کہ ہمیں انگریزیت سے اختلاف ہے انگریزی سے اختلاف نہیں ہے، انگریزوں میں بہت اچھے مسلمان ہوئے ہیں جو ما شاء اللّٰہ ہم سے زیادہ بہتر مسلمان ہیں، لہٰذا انگریزی میں کوئی مسئلہ نہیں ہے بلکہ انگریزیت میں مسئلہ ہے۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے موسیقی حرام ہے مگر موسیقیت حرام نہیں ہے۔ مثلاً آپ قرآن پاک کو بہت لطف سے پڑھ رہے ہیں تو اس میں موسیقیت پیدا ہو جاتی ہے لیکن یہ موسیقیت، موسیقی نہیں ہے۔ موسیقیت Organised sound (منظم آواز) کو کہتے ہیں۔ جیسے اشعار کو خاص لے میں گنگنا کر سننا پڑھنا پسند کیا جاتا ہے، اس میں بھی موسیقیت ہوتی ہے، اس موسیقیت میں کوئی حرج نہیں ہے۔

سوال نمبر13:

نماز کے بعد کے اذکار میں آیۃ الکرسی بھی پڑھی جاتی ہے، کیا مکمل فرض نماز، نفل و سنت سمیت پڑھنے کے بعد آیۃ الکرسی پڑھنی چاہیے یا فرض کے بعد فورًا پڑھنی چاہیے؟

جواب:

دونوں طرح پڑھ سکتے ہیں۔ بعض علماء کرام فرض نماز کے بعد پڑھنا بہتر بتاتے ہیں، لہذا احتیاطاً اسی پہ عمل کریں۔

کسی نے مولانا زرولی خان صاحب سے یہ مسئلہ پوچھا تھا تو انہوں نے یہ بتایا تھا کہ جب انسان نماز کے لیے جگہ تبدیل کرنا چاہے تو اٹھنے سے پہلے آیۃ الکرسی پڑھ لے۔ اس کی شرائط میں یہی ہے اور اس کی فضیلت اسی طرح مشروع ہے۔

سوال نمبر14:

حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین حضور پاک ﷺ کے ساتھ نہایت مؤدب تھے اس کے با وجود بے تکلف بھی تھے۔ بعض مسائل، جن میں اللہ تعالیٰ یا نبی کریم ﷺ کا حکم نہیں ہوتا تھا (صرف نبی کریم ﷺ کی رائے ہوتی تھی) تو بعض اوقات بعض صحابہ اس رائے کے علاوہ دوسری رائے کو ترجیح دیا کرتے تھے۔ مثلاً حضرت ابو ذر غفاری رضی اللّٰہ عنہ ایمان لے آئے تو آپ ﷺ نے فرمایا ابھی اپنے اسلام کا اعلان مت کرو، واپس چلے جاؤ، لیکن انہوں نے عرض کی کہ میں تو یہ کلمہ کفار کے سامنے چیخ چیخ کر پڑھوں گا اور اپنے اسلام کا اعلان کروں گا۔

اس بارے میں رہنمائی فرما دیجئے کہ جہاں اللہ و رسول کی طرف سے کوئی چیز بطورِ حکم نہ ہو، کیا وہاں ایسا کیا جا سکتا ہے؟ نیز ادب اور بے تکلفی دونوں کیسے بر قرار رہ سکتے ہیں؟

جواب:

اصل بات مزاج شناسی کی ہے۔ مزاج شناسی اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے ایک بڑی نعمت ہے۔ جس شخص کو یہ نعمت نصیب ہو جائے وہ معلوم کر لیتا ہے کہ میں جس سے مخاطب ہوں یہ کیا چاہتا ہے، اگر وہ یہ چاہتا ہے کہ بے تکلفی سے بات کی جائے تو اس وقت بے تکلفی سے بات کرنا مفید ہو گا اور اگر وہ یہ چاہتا ہے کہ اس وقت بے تکلفی سے بات نہ کی جائے بلکہ سنجیدگی کا خیال رکھا جائے، اس وقت سنجیدگی اختیار کرنا مفید ہو گا۔

ہمارے شیخ حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ بڑے ہی کھلے ڈلے انداز میں رہتے تھے، ان کے ہاں زیادہ سنجیدگی کا معاملہ نہیں ہوتا تھا، بعض اوقات سنجیدگی بھی اختیار کرتے تھے اور جس وقت ان کی طبیعت میں سنجیدگی کا غلبہ ہوتا تھا تب ان کے آس پاس کے لوگ سمجھ جاتے اور وہ بھی سنجیدہ ہو جاتے تھے، لیکن زیادہ تر کھلے ڈلے انداز میں بات چیت ہوا کرتی تھی، بلکہ حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ اپنی اس کھلی ڈلی طبیعت کی وجہ سے بعض سنجیدہ لوگوں کو بھی تھوڑا سا چھیڑ لیتے تھے، اور انہیں اپنے ہاں بلوا لیتے تھے، جس کا فائدہ یہ ہوتا تھا کہ وہ لوگ بھی حضرت کی بات سن لیتے تھے۔

حضرت کے اس انداز کی وجہ ایک خاص حکمت تھی۔ در اصل ان کا کام یونیورسٹی میں نوجوانوں کے درمیان تبلیغ و اصلاح کا تھا۔ اس لئے حضرت نے یہ انداز اپنایا کہ کوئی دور نہ ہو، سب لوگ خوش طبعی کی وجہ سے قریب آئیں اور دین کی بات ان کے کانوں میں پڑ جائے۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ آج کل کے بچوں کو اپنا دوست بنا لو ورنہ انہیں کوئی اور دوست بنا لے گا، کسی اور کی دوستی سے بچانے کے لیے خود دوست بنانا پڑتا ہے۔ اس وجہ سے مولانا صاحب بھی یہی کرتے تھے کہ ان کو خود دوست بنا لیتے تھے، پھر خوش طبعی اور طنز و مزاح کے انداز میں بات چیت کرتے تھے تاکہ وہ ذرا کھل کے بات کریں اور ان کے ساتھ کھل کے گفتگو ہو سکے۔

حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے اتنے خوش طبع ہونے کے با وجود اللّٰہ تعالیٰ نے مولانا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو کافی رعب عطا کیا ہوا تھا، مجلس میں بیٹھنے والوں پہ ان کا بڑا رعب ہوتا تھا، حضرت اس رعب کو کم کرنے کے لیے کبھی کبھی اپنے بیان میں ایسے لوگوں کا نام بھی لیتے تھے کہ فلاں کیا کر رہا ہے، فلاں کے ساتھ کیا ہو گیا ہے، اس طرح نام لے کر بات کرتے تھے تاکہ ان کی بے تکلفی بڑھے۔ یہ مختلف مزاجوں کی بات ہوتی ہے۔ مثلاً ڈاکٹر فراز صاحب کے مزاج میں سنجیدگی ہے لہٰذا ان کے ساتھ بے تکلفی مناسب نہیں ہے جبکہ مولانا صاحب کے بعض ساتھی ایسے ہیں جو بڑی بشاشت کے ساتھ کھل کے بات کرتے ہیں اس لیے ان کے ساتھ ان کے انداز میں بات چیت کی جا سکتی ہے۔

صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین بھی نبی کریم ﷺ کے مزاج کو بھانپ لیتے تھے اور سمجھ جاتے تھے کہ اس وقت کس قسم کی گفتگو کی ضرورت ہے۔ نبی کریم ﷺ کے سب سے زیادہ مزاج شناس حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ تھے، دوسرے نمبر پر حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ تھے، اسی طرح ہر صحابی اپنے درجہ اور مزاج کے مطابق نبی ﷺ کا مزاج شناس تھا۔ ان کے ہاں بھی مذاق چلتا تھا، شعر و شاعری ہوا کرتی تھی۔ ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، تینوں حضرات راستے میں اکٹھے جا رہے تھے، حضرت علی رضی اللہ عنہ درمیان میں اور حضرات شیخین رضی اللہ عنہما میں سے ایک دائیں اور دوسرے بائیں طرف تھے۔ حضرات شیخین رضی اللہ عنہما کا قد بڑا اور حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کا قد نسبتاً چھوٹا تھا۔ غالباً حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے بطور مزاح کے فرمایا: علی ہمارے درمیان ایسا ہے جیسے ”لَنَا“ میں ”نون“ ہوتا ہے۔ حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ نے فوراً جواب دیا:

”لَوْ لَمْ اَکُنْ بَیْنَکُمَا لَکُنْتُمَا ’لَا‘ “۔

ترجمہ: ”اگر آپ دونوں کے درمیان میں نہ ہوتا تو آپ دونوں ”لَا“ ہوتے“۔

اس قسم کے مذاق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہاں چلتے رہتے تھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دین کے اندر تنگی نہیں ہے اور نہ ہی ہر معاملہ میں ”شتر بے مہار“ والا معاملہ ہے بلکہ مزاح اور سنجیدگی، دونوں چیزیں اعتدال کے ساتھ ہیں۔

سوال نمبر15:

حضرت! سنا ہے کہ بیت المقدس کی فتح کے موقع پر خلیفۂ دوم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں گھوڑا اور عمدہ کپڑے پیش کیے گئے، دوسروں کے اصرار پر آپ نے وہ جوڑا پہنا اور گھوڑے پر بیٹھ کر تھوڑا سا ہی چلے تھے کہ گھوڑے سے اتر گئے اور وہ جوڑا بھی اتار دیا اور غالباً یہ فرمایا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے ہمیں اسلام کی وجہ سے عزت دی ہے۔ (ہم عزت کے لیے ان ظاہری چیزوں کے محتاج نہیں ہیں)۔

جواب:

یہ زہد ہے۔ دنیا کی چیزوں میں جی کا نہ لگنا اور اپنی قلبی کیفیات کو اتنا اہم سمجھنا کہ اس کے لیے دنیا کی چیزوں کو داؤ پہ لگا دینا، اسی کو زہد کہتے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ زاہد تھے، اس وجہ سے با وجود اس کے کہ ایسے گھوڑے پر سوار ہونا اور ایسے کپڑے پہننا جائز تھا، انہوں نے اپنی قلبی کیفیت کو ترجیح دی۔ یہ چیزیں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے پیش کی تھیں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا کہ اے معاویہ تو نے تو مجھے ہلاک کر دیا تھا یہ واپس لے لو، ان سے میرے دل پہ اثر ہو گیا ہے۔ یہی کام حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی کیا تھا۔ ایک مرتبہ انہوں نے قمیص پہنی تو اس کی آستینیں ان کو بڑی اچھی لگیں، انہوں نے چھری منگوا کر آستینیں کاٹ دیں، اس کے بعد وہ قمیص پہن لی۔ لیکن ہم لوگ ان کی رِیس (نقل) نہیں کر سکتے۔ ایک ہوتی ہے رِیس اور ایک ہوتی ہے اتباع۔ اتباع کرنی چاہیے، ریس نہیں کرنی چاہیے۔ یہ مخصوص چیزیں ہیں، اگر ہم لوگ کریں گے تو نمایاں ہو جائیں گے نتیجتاً ہمارے اندر خرابیاں پیدا ہونا شروع ہو جائیں گی۔ ہم کہیں گے کہ ہم تو بزرگ بن گئے۔ یہ بزرگی زیادہ خطر ناک ہے۔ ہمیں ایسا سیدھا سادہ طریقہ اپنانا چاہیے جو ہمیں ممتاز نہ بنائے، کہیں ایسا نہ ہو کہ ممتاز بن کے ہم اپنے آپ کو کیا سے کیا سمجھنا شروع کر دیں اور غرور و تکبر میں مبتلا ہو جائیں۔

سوال نمبر16:

حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کی زرہ یہودی نے چوری کر لی۔ بات عدالت تک جا پہنچی اور یہودی کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھی عدالت میں پیش ہونے کے لئے کہا گیا اور ان سے اس بات کا مطالبہ کیا گیا کہ اگر وہ زرہ آپ کی تھی تو اس پر گواہ پیش کریں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ عشرہ مبشرہ میں شامل ہیں، اور ان کے سارے فضائل سب کو پتا ہیں، اس کے با وجود قاضی صاحب نے ان سے گواہ کا مطالبہ کیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ گواہ پیش نہیں کر سکے تو یہودی کے حق میں فیصلہ ہوا اور زرہ اس کے حوالے کر دی گئی۔ اس میں کیا سبق ہے؟

جواب:

“This is transparency in justice.”

عدل کے اندر شفافیت اسی کو کہتے ہیں۔ در اصل ہر آدمی کے قلبی معاملات اللّٰہ پاک ہی بہتر جانتے ہیں۔ اگر ہم لوگ قلبی معاملات پر فیصلہ کرنے لگیں گے تو لوگوں کو یہ بات کرنے کا موقع مل جائے گا کہ آپ یہ بات کیسے کہہ سکتے ہیں آپ کو کیا پتا کہ یہ معاملہ ایسا ہی ہے۔ قلبی معاملات پر فیصلہ کرنے کی صورت میں اس سوال کا جواب کوئی نہیں دے سکتا۔

اسی وجہ سے اجتماعی امور میں استخارہ افضل نہیں ہے، کیونکہ یہ ایک قلبی اور ذاتی امر ہے، عدل ایک اجتماعی چیز ہے اس وجہ سے اس میں قلبی امور کی بنا پہ فیصلہ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ قلبی امور انفرادی چیزیں ہیں، جبکہ عدل میں اجتماعی چیزیں دیکھی جاتی ہیں، شفافیت دیکھی جاتی ہے تاکہ کسی کو اعتراض کا موقع نہ ملے۔

دیکھیں۔ نبی کریم ﷺ کا کسی کے خواب میں آنا بہت بڑی بات ہے، وہ شخص بڑا خوش قمست ہے جس کو اللّٰہ تعالیٰ یہ سعادت نصیب فرمائے، لیکن اس کی بنا پر عدالت میں فیصلہ نہیں ہو سکتا، نہ خواب میں نبی کریم ﷺ کی فرمائی ہوئی بات حدیث ہوتی ہے اور نہ ہی خواب میں نبی کریم ﷺ کی زیارت کرنے والا شخص صحابی بنتا ہے۔ حالانکہ آپ ﷺ کو خواب میں دیکھنا ایسے ہی ہے جیسے آپ ﷺ کو دیکھنا، لیکن دیکھنے والا نہ صحابی بنتا ہے اور نہ ہی خواب میں نبی کریم ﷺ سے سنی ہوئی بات حدیث بنتی ہے۔ یہ سب معاملات میں شفافیت کی غرض سے ہے۔

سوال نمبر17:

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ہی واقعہ ہے کہ ایک آدمی ان سے کہتا ہے کہ ہم آپ کی بات نہیں مانتے کیونکہ آپ نے جو کپڑے پہنے ہوئے ہیں یہ فالتو کپڑے سے بنے ہیں۔ اس کا بھی حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ جواب دیتے ہیں۔ وہ شخص یہ بھی نہیں سوچتا کہ یہ وہ صحابی ہیں جن کے اتنے سارے فضائل موجود ہیں۔

جواب:

در اصل ان اعتراض کرنے والے صاحب نے یہ بات کر کے ہمارے اوپر بڑا احسان فرمایا ہے، وہ اس طرح کہ انہوں نے حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے ایک فعل پر سوال اٹھایا، ایک ایسا فعل جس پر بعد میں لوگ گرفت کر سکتے تھے اور اسلام کو بد نام کر سکتے تھے، انہوں نے اسی وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے ہی سوال اٹھایا اور وضاحت مانگ لی جس کے نتیجے میں ہمیشہ کے لیے معاملہ واضح ہو گیا۔ جب ان صاحب نے سوال کیا تو اگرچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ خود جواب دے سکتے تھے لیکن احتیاط کی وجہ سے خود جواب نہیں دیا بلکہ اپنے بیٹے سے کہا کہ تم جواب دو۔ آپ رضی اللہ عنہ کا بیٹا کھڑا ہوا اور اس نے کہا کہ حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ کا قد لمبا ہے واقعی اتنے کپڑے میں ان کا جوڑا نہیں بن سکتا تھا، لیکن میں نے ایثار کرتے ہوئے اپنا حصہ بھی اپنے والد کو دے دیا اس طرح ان کا جوڑا بن گیا۔ اس وضاحت کے بعد اعتراض کرنے والے صاحب نے کہا کہ اب ہم آپ کی بات سنیں گے بھی اور مانیں گے بھی۔ یہ transparency (شفافیت) ہے۔

میں آپ کو شفافیت کی ایک اور مثال دیتا ہوں۔ آپ ﷺ ایک جگہ تشریف فرما تھے، امہات المومنین میں سے ہماری دو مائیں وہاں بیٹھی ہوئی تھیں، جن کے ساتھ آپ ﷺ گفتگو فرما رہے تھے۔ اسی دوران وہاں سے ایک صحابی کا گزر ہوا، وہ نیچا سر کئے وہاں سے گزر گئے۔ آپ ﷺ نے ان کو آواز دے کر فرمایا: او فلاں! یہ فلاں فلاں ہیں۔ یہ میری ازواج ہیں، تمہاری مائیں ہیں۔ صحابی شرم سے ادھ موا ہو گئے اور عرض کی: یا رسول اللّٰہ ﷺ! کیا میں آپ کے اوپر بد گمانی کروں گا؟

آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں آپ مجھ پر بد گمانی نہیں کر سکتے لیکن شیطان انسان کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتا ہے، وہ آپ کو کسی فتنے میں بھی مبتلا کر سکتا ہے اس لئے میں نے آپ کو بتا دیا کہ میرے ساتھ میری ازواج بیٹھی ہیں۔

حدیث شریف میں آتا ہے:

”اِتَّقُوْا مَوَاضِعَ التَّهُمِ“ (تخریج احادیث احیاء علوم الدین: جلد:4، ص: 1559، رقم الحدیث: 3399)

ترجمہ: ”تہمت والی جگہوں سے بچو“۔

یعنی اگر کوئی کام فی نفسہ جائز ہو لیکن اس پہ کسی کی انگلی اٹھ سکتی ہو اور لوگ اس سے کوئی غلط بات اخذ کر سکتے ہوں تو ایسا کام نہیں کرنا چاہیے۔

اس لیے مقتدا حضرات کو بہت محتاط ہونا چاہیے۔ مثلاً میں بارات میں نہیں جاتا، اس لیے نہیں جاتا کہ میرے ساتھی مجھے دیکھتے ہیں، جب وہ مجھے ایسا کرتے ہوئے دیکھیں گے تو سوچیں گے کہ یہ باتیں تو اِس طرح کی کرتے ہیں مگر عمل اس کے خلاف کرتے ہیں۔ شیطان ان کے دل میں یہ بات ڈالے گا۔ نتیجتاً سارے کا سارا Failed structure ہو جائے گا۔ انسان کو نبھانے کے لیے کچھ کرنا پڑتا ہے کیونکہ یہ بھی transparency (شفافیت) ہے۔

سوال نمبر18:

حضرت! ذکر و فکر میں کیا فرق ہے؟

جواب:

ذکر اِس کو کہتے ہیں کہ آپ کو کوئی یاد رہے، جبکہ فکر اِس کو کہتے ہیں کہ آپ کو دو چیزیں معلوم ہوں اور آپ غور کر کے ان سے تیسری چیز اخذ کر لیں۔ مثلاً مجھے علم ہے کہ سردی سے نقصان ہوتا ہے، انسان سردی سے بیمار ہو جاتا ہے، اور یہ بھی علم ہے کہ گرم کپڑے پہننے سے اس نقصان اور بیماری سے بچا جا سکتا ہے۔ ان دو باتوں پر غور کرنے سے تیسری بات یہ نکلتی ہے کہ جب سردی آ جائے تو مجھے گرم کپڑے پہننے چاہئیں۔ یہ فکر ہے۔

اسی طرح ہمیں ایک یہ بات معلوم ہے کہ گناہ کرنے سے اللّٰہ پاک نا راض ہوتے ہیں، دوسری یہ بات معلوم ہے کہ جب اللّٰہ پاک نا راض ہوتے ہیں تو انسان دونوں جہانوں میں ناکام ہوتا ہے، تیسری بات یہ ہے کہ ہم اپنی ناکامی نہیں چاہتے، لہٰذا چوتھی بات automatically (از خود) یہ ہونی چاہیے کہ مجھے گناہ نہیں کرنا چاہیے۔ سوچ بچار کا یہ سارا طریقۂ کار فکر کہلاتا ہے۔

عارف باللّٰہ حضرات انہی دو چیزوں (ذکر و فکر) کی وجہ سے عارف باللّٰہ ہوتے ہیں۔ ان کے ہاں ذکر و فکر دونوں چیزیں ہوتی ہیں۔ اللہ پاک فرماتے ہیں:

﴿اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّهَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِ الَّذِیْنَ یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ قِیٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰی جُنُوْبِهِمْ وَ یَتَفَكَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ﴾ (سورہ آل عمران 190-191)

ترجمہ: ”بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات دن کے بارے بارے آنے جانے میں ان عقل والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں۔ جو اٹھتے بیٹھتے اور لیٹے ہوئے (ہر حال میں) اللہ کو یاد کرتے ہیں، اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق پر غور کرتے ہیں“۔

لہٰذا دونوں چیزیں ہیں، ذکر بھی ہے اور فکر بھی۔ ذکر پہلے ہے، فکر بعد میں ہے۔ اس سلسلے میں یہ بات یاد رہے کہ وہ فکر reliable (قابل اعتماد) ہے جو ذکر کے ساتھ ہو، جو ذکر کے ساتھ نہ ہو وہ فکر نہیں بلکہ ذہنی عیاشی ہو جاتی ہے کیونکہ ایسا فکر اللّٰہ کے لیے نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنے نفس کے لیے ہوتا ہے۔ اللہ کے لئے وہی فکر کرے گا جس کو اللّٰہ یاد ہو گا، نیز ذکر و فکر دونوں سے معرفت بڑھتی ہے۔

سوال نمبر19:

فضائلِ اعمال میں یہ واقعہ لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ کے پاس ایک شخص نے آ کر کہا کہ مجھے بدلہ دلوا دیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اس کو درہ مارا، وہ چلا گیا، پھر خیال آیا، اس کو واپس بلایا اور اسے درہ دے کے کہا کہ بدلہ لے لو۔ اس نے کہا: میں نے معاف کیا۔ اس کے با وجود حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دو رکعت نماز پڑھی اور اپنے آپ کو مخاطب کر کے کہا: اے عمر! تو گمراہ تھا اللّٰہ نے تجھے ہدایت دی۔ اور اپنے آپ سے اس قسم کی باتیں کیں۔ کیا اِس عمل کو محاسبہ کہیں گے؟

جواب:

جی ہاں، اس عمل کو محاسبہ کہتے ہیں۔ محاسبہ میں یہ ضروری نہیں کہ الفاظ کے ساتھ ہی ہو اور یہ بھی ضروری نہیں کہ اس میں انسان اپنے آپ کو اونچی آواز اور الفاظ کے ساتھ مخاطب ہی کرے بلکہ یہ کام صرف سوچ کے ساتھ دل ہی دل میں بھی ہو سکتا ہے، انسان دل میں اپنے اعمال کا محاسبہ کرے تاکہ اس کو احساس ہو جائے کہ میں نے کیا کیا ہے اور اس کے کیا (نتائج) ہیں۔

ایک مرتبہ میں سید تسنیم الحق صاحب کے یہاں گیا ہوا تھا، حضرت معذوری کی وجہ سے زیادہ تر گھر پر ہی نماز پڑھا کرتے تھے۔ عصر کی نماز کا وقت تھا، گھر کے افراد میں کوئی بات چل رہی تھی جس کی وجہ سے عصر کی نماز پڑھنے میں دیر ہو رہی تھی۔ اب میں تو ایسا ہی ہوں، ہر جگہ کوئی نہ کوئی گڑبڑ کرتا ہوں۔ میں نے حضرت سے کہا کہ حضرت، نماز کو دیر ہو رہی ہے، مکروہ وقت آ رہا ہے۔ حضرت نے فرمایا: ہمارا تو ہر کام مکروہ ہے۔ خیر میں چپ ہو گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد حضرت نے تیاری کی اور نماز پڑھ لی۔ جب مغرب کا وقت ہوا تو فرمایا کہ مسجد چلتے ہیں۔ میں نے کہا: حضرت آپ تو نہیں جا سکتے، آپ کو مشکل ہو گی۔

حضرت نے فرمایا: آخر میں نے بات بھی تو ایسی کی ہے، اس کا اپنے آپ سے بدلہ بھی تو لینا ہے، تاکہ آئندہ ایسی بات نہ کروں، جَبِلَّہ ہو جائے اور اس کی مرہم پٹی ہو جائے۔

یہ حضرت اپنا محاسبہ ہی فرما رہے تھے، اسی کو محاسبہ کہتے ہیں، لہٰذا عملی طور پر اپنا محاسبہ کر لینا چاہیے، جیسے حضرت نے کیا کہ عزیمت پہ عمل کیا اور رخصت کو چھوڑ دیا تاکہ نفس کو راستہ نہ ملے۔ ماشاء اللّٰہ، اللّٰہ تعالیٰ نے ہمیں کیسے عجیب بزرگ عطا فرمائے ہیں۔

سوال نمبر20:

خطباتِ حکیم الامت میں ہے کہ حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللّٰہ علیہ اور (غالباً) حضرت امام زفر رحمۃ اللّٰہ علیہ سفر میں تھے، ایک جگہ آنکھ لگ گئی، سو گئے، جب آنکھ کھلی تو فجر کی نماز کا وقت بہت تھوڑا باقی تھا، وہ جلدی جلدی سواری سے اترے اور نماز ادا کی۔ یہ تو ہم نے کتابوں میں پڑھا ہے، عملی طور پہ یہ دیکھا ہے کہ لوگ ٹرین سے اترے اور اتنی تیزی سے نماز پڑھی کہ وہ نماز لگتی ہی نہیں۔ سوال یہ ہے کہ اتنی تیزی سے نماز پڑھی جائے تو کیا نماز کے ارکان پورے ہو جاتے ہیں، نماز ادا ہو جاتی ہے؟

جواب:

دو چیزیں ہیں: ایک، ارکان کے اندر اختصار، دوم، ارکان کو چھوڑ دینا۔ یہ دو مختلف چیزیں ہیں۔ پہلی کے ساتھ نماز مکمل ہو جاتی ہے جبکہ دوسری کے ساتھ نماز ناقص رہتی ہے۔ اختصار سے مراد یہ ہے کہ اگر وقت کم ہے تو آدمی نماز کی نیت کر کے ہاتھ باندھ لے اور ثنا نہ پڑھے، صرف سورۂ فاتحہ اور اس کے ساتھ مختصر ترین سورت پڑھ لے، تسبیحات صرف ایک ایک دفعہ پڑھ لے، تشہد کے بعد سلام پھیر دے۔ یہ ارکان کے اندر اختصار ہے، اس طرح کرنے سے نماز مکمل ہو جاتی ہے کیونکہ فرائض اور واجبات ادا ہو جاتے ہیں۔ بوقت ضرورت ایسا کیا جا سکتا ہے۔

لیکن اگر کوئی آدمی یوں کرے کہ مثلاً پوری طرح سجدے میں ہی نہ جائے، رکوع کے لئے ٹھیک سے جھکے بغیر ہی واپس اٹھ جائے، نماز کے ارکان اس طرح ادھورے ادا کرے کہ فرائض اور واجبات میں نقص آ جائے تو یہ ارکان کو چھوڑنا ہے، اس کی اجازت نہیں ہے، اس طرح نماز نہیں ہوتی۔ اور میں کہتا ہوں کہ اگر رکوع سجود اور دوسرے فرائض و واجبات اطمینان سے ادا کئے جائیں تو بس چند سیکنڈ ہی زیادہ لگتے ہیں، اس سے زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ بوقت ضرورت نماز تیزی سے پڑھنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے اتنا خیال رکھنا چاہیے کہ نماز کا کوئی رکن رہ نہ جائے، مثلاً ابھی آپ جلسے کے لیے بیٹھے ہی نہیں کہ دوسرے سجدے میں چلے گئے تو یہ آپ کا ایک ہی سجدہ ہوا ہے، ایک سجدہ بھی رہ گیا، اور جلسہ بھی رہ گیا۔ دونوں سجدے فرض ہیں اور جلسہ واجب ہے، ایسا کرنے سے ایک فرض اور ایک واجب رہ گیا، لہٰذا نماز نہیں ہوئی۔ اسی طرح اگر آپ رکوع کر کے سیدھے کھڑے ہوئے بغیر سجدے میں چلے گئے تو قومہ صحیح نہیں ہوا، قومہ رہ جائے تو بھی نماز نہیں ہوتی۔ بس اسی چیز کا خیال رکھنا چاہیے کہ نماز کے ارکان اور فرائض و واجبات پورے ادا ہوں، ایسی تیزی کی اجازت نہیں ہے کہ ارکان رہ جائیں، اگر وہ تیزی اتنی ہو کہ کوئی رکن اور فرض و واجب متاثر نہ ہو تو پھر کوئی حرج نہیں ہے۔

بعض اوقات جماعت کی نماز کھڑی ہونے والی ہوتی ہے، اس وقت مسجد میں آنے والے نمازی سنتیں وغیرہ پڑھتے ہیں، عموماً تنگ وقت میں ایسا نہیں کرنا چاہیے، مسجد کے حالات کو دیکھنا چاہیے، اگر وہ بالکل صحیح ہوں تب تو سنتوں کی نیت کر لے، ورنہ رسک نہیں لینا چاہیے، اتنی ہی نماز شروع کرنی چاہیے جسے جماعت کھڑی ہونے تک پورا کر سکے لیکن کبھی اچانک ایسی حالت ہو جائے کہ نمازی نے سنتیں وغیرہ پوری نہ کی ہوں اور جماعت کھڑی ہو جائے تو اس وقت تشہد مکمل کر کے صرف ”اللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدِِ“ پڑھ کے سلام پھیر لے، یہ بھی ہم اس لیے کہتے ہیں کہ شوافع کے نزدیک تشہد میں درود شریف پڑھنا فرض ہے، لہذا آدمی اتنا پڑھ لے تاکہ ان کے نزدیک فرض ادا ہو جائے۔

سوال نمبر21:

خطبۂ جمعہ میں امام صاحب ایک حدیث پڑھتے ہیں جس کا مفہوم یہ ہے کہ میرے صحابہ کے بارے میں اللّٰہ سے ڈرو، جس نے ان سے محبت کی، در اصل میری محبت کی وجہ سے کی، اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے در اصل مجھ سے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا۔ یہ جو صحابہ کی محبت کی وجہ نبی ﷺ کی محبت اور صحابہ سے بغض کی وجہ نبی کریم ﷺ سے بغض قرار دیا گیا ہے، اس کا کیا مقصد ہے؟

جواب:

اس کا مقصد یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اپنے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اپنے ساتھ بالکل ایسے ملا دیا ہے جیسے اللّٰہ نے نبی کریم ﷺ کو اپنے ساتھ اس طرح رکھا ہے کہ جو آپ ﷺ کا نہیں وہ اللّٰہ کا نہیں، اللّٰہ اس کو قبول ہی نہیں فرماتے، اللّٰہ نے سوائے آپ ﷺ کے خود تک رسائی کا کوئی اور راستہ چھوڑا ہی نہیں اور آپ ﷺ صحابہ کے بغیر مانتے ہی نہیں۔ لہٰذا جس کو آپ ﷺ کے ساتھ محبت ہو گی اسے یقیناً صحابہ کے ساتھ محبت ہو گی اور جن کو کسی وجہ سے آپ ﷺ کے ساتھ بغض ہو گا انہیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ بھی بغض ہو گا۔

جو لوگ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے خلاف ہیں ان کا عقیدہ یہ ہے کہ ائمہ، انبیاء کرام علیہم السلام سے افضل ہیں۔ ان کا عقیدۂ امامت یہی ہے کہ امام، انبیاء سے افضل ہیں بلکہ وہ یہاں تک کہتے ہیں کہ انبیاء کرام کو اس لیے بھیجا ہے تاکہ وہ اماموں کی پرورش کریں، اصل مطلوب تو امام ہے۔

اس لئے آپ ﷺ نے اس بات کو مکمل وضاحت کے ساتھ فرما دیا کہ جو ان سے محبت کرے گا اس کی وجہ در اصل میری محبت ہے اور جو ان سے بغض رکھے گا اس کی وجہ در اصل یہ ہے کہ اسے مجھ سے بغض ہے۔ اور اللّٰہ پاک نے بھی اس بات کو واضح کر دیا، فرمایا:

﴿لِیَغِیْظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ﴾ (الفتح: 29)

ترجمہ: ”تاکہ اللہ ان (کی اس ترقی) سے کافروں کا دل جلائے“۔

امام مالک رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے اپنا مسلک یہ قرار دیا ہے کہ جو آدمی صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے خلاف ہے وہ کافر ہے، کیونکہ اللّٰہ نے فرما دیا کہ میں صحابہ کی تعریف اس لیے کر رہا ہوں تاکہ کفار کے دل کو جلاؤں، لہٰذا جو لوگ صحابہ کی تعریف سے جلیں گے وہ کافر ہوں گے۔ اس لیے صحابہ کے معاملے میں بہت محتاط رہنا چاہیے، یہ کوئی گپ شپ کی بات نہیں ہے۔

سوال نمبر22:

ایک بزرگ کو دیکھا کہ جب وہ پانی پینے لگے تو ٹوپی کا پوچھا، پھر اہتمام سے ٹوپی پہن کر پانی پیا۔ ایک اور بزرگ کو دیکھا کہ وہ سر سے ٹوپی اتار کے چائے پی رہے تھے۔ اس سلسلے میں صحیح رویہ کیا ہے اور اعتدال کیسے قائم رکھنا چاہیے؟

جواب:

ایک دفعہ حضرت جابر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے سامنے دو شخص اس بات پر بحث کر رہے تھے کہ کتنے کپڑے پہن کر نماز پڑھنی چاہیے، عمامہ ہونا چاہیے، چادر ہونی چاہیے وغیرہ وغیرہ۔ دوسرے دن دیکھا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے اپنے کپڑے پاس ہی ایک چوکی پہ رکھے ہوئے ہیں، صرف ستر ڈھانپا ہوا ہے اور نماز پڑھ رہے ہیں۔ حضرت مسروق تابعی رحمۃ اللّٰہ علیہ آئے تو انہوں نے پوچھا کہ حضرت کیا یہ کپڑے پاک نہیں ہیں کہ آپ انہیں زیب تن کیے بغیر ہی نماز پڑھ رہے ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ پاک ہیں۔ حضرت مسروق رحمۃ اللہ علیہ کہنے لگے کہ پھر آپ نے انہیں اس طرح کیوں رکھا ہوا ہے اور انہیں پہنے بغیر ہی نماز کیوں پڑھ رہے ہیں؟

فرمایا: میں ایسا تم جیسے بے وقوفوں کو یہ سمجھانے کے لیے کر رہا ہوں کہ نماز اس طرح بھی ہو جاتی ہے، نبی کریم ﷺ کے زمانہ مبارک میں ہمارے پاس اتنے کپڑے ہوتے ہی نہیں تھے کہ ہم پورا جسم بھی ڈھانپ سکیں لہٰذا ہم صرف اتنا کپڑا پہن کر (یا باندھ کر) نماز پڑھ لیتے تھے جتنے کپڑے سے ستر چھپ جاتا تھا۔

حضرت جابر رضی اللہ عنہ در اصل اس غلو کو ختم کر رہے تھے جو لوگوں میں پھیل رہا تھا اور وہ اضافی کپڑوں میں نماز کے بارے میں بحث کر رہے تھے۔ بعض علماء کرام پر غلو کو ختم کرنے کا غلبہ ہوتا ہے لہذا وہ اس چیز کے سمجھانے کے لیے بعض دفعہ اس قسم کا طریقۂ کار اختیار کرتے ہیں جیسے حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے کیا۔ جن بزرگوں کا واقعہ آپ نے بتایا، ہو سکتا ہے انہوں نے ٹوپی اس لیے اتاری ہو تاکہ لوگوں کو یہ الجھن نہ رہے کہ اس طرح پانی نہیں پیا جا سکتا، ٹوپی پہن کر پانی پینے کو واجب نہ سمجھا جائے، بلکہ سر ڈھانپ کر بھی پیا جا سکتا ہے اور برہنہ سر بھی پیا جا سکتا ہے۔ اس لیے کہ فقہ کا قاعدہ ہے کہ جس مستحب کے اوپر واجب کا گمان ہونے لگے کم از کم ایک دفعہ کے لیے اس کا ترک واجب ہو جاتا ہے تاکہ لوگوں کو پتا چل جائے۔

ایک دفعہ مجھ پر بھی یہ غلبہ ہوا تھا، انہی دنوں کچھ لوگوں نے مجھ سے جنازے کے بعد دعا کے بارے میں پوچھا۔ جنازے کے بعد دعا کرنا منقول نہیں ہے، دعا کرنا تو فرض نماز کے بعد بھی منقول نہیں ہے لیکن لوگ فرض نمازوں کے بعد دعا کرتے ہیں۔ خیر میں نے کہا کہ یہ سوال مجھ سے جمعہ کے دن کرنا۔ جمعہ کے دن میں نے قصداً ایسا کیا کہ فرض نماز کے بعد دعا کیے بغیر کھڑا ہو گیا۔ ایسا کرنے پر مجھ سے سوال کیا گیا کہ آپ نے ایسے کیوں کیا؟ میں نے کہا کہ فرضوں کے بعد دعا منقول نہیں ہے لیکن اگر کر لی جائے تو کوئی حرج بھی نہیں، ہاں اگر لوگ اسے لازم سمجھنے لگیں تو کم از کم ایک دفعہ چھوڑنا چاہیے تاکہ لوگوں کو پتا چل جائے کہ یہ واجب نہیں ہے۔ پھر میں نے حضرت مولانا قاسم دلاوری رحمۃ اللّٰہ علیہ کا قول سنایا جو شیخ الہند رحمۃ اللّٰہ علیہ کے شاگرد تھے۔ انہوں نے نماز کے بارے میں ایک کتاب لکھی ہے ”عماد الدین“۔ اس میں یہ مسئلہ لکھا ہے کہ فرض نماز کے بعد دعا منقول نہیں ہے، لہذا اگر کوئی لازم سمجھے تو اس کو نہیں کرنا چاہیے اور اگر لازم نہ سمجھے تو گنجائش ہے، کر سکتا ہے۔

مولانا یوسف لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ نے ”آپ کے مسائل اور ان کا حل“ میں لکھا ہے کہ حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اپنی کتاب بذل المجہود فی شرح ابی داؤد میں یہ مسئلہ بیان کیا ہے کہ بعض شوافع اور احناف امام فرض نمازوں کے بعد دعائیں کرتے ہیں اور لوگ آمین آمین کہتے ہیں، یہ عمل احادیث میں منقول نہیں ہے۔

میں نے ان سوال کرنے والوں کو یہ مسئلہ بتا دیا اور کہا کہ اسی طرح جنازے کے بعد دعا کرنا بھی منقول نہیں ہے، لیکن ہم منع اس لیے کرتے ہیں کہ جنازہ کے بعد اہم کام تدفین ہے، تدفین میں تاخیر نہیں ہونی چاہیے، کسی ایسے عمل میں مشغول نہیں ہونا چاہیے جس سے تدفین میں تاخیر ہو جائے۔ ہاں تدفین کے بعد جتنی چاہے دعا کریں اس پہ کوئی پابندی نہیں۔

میرا یہ جواب سن کر لوگ تو مطمئن ہو گئے لیکن ایک مولوی صاحب جو مسجد میں ہمارے ساتھی تھے وہ میرے ساتھ لڑنے لگے کہ آپ نے ہمارے بزرگوں کو بد نام کیا ہے، ہمارے بزرگ جو ایسا کرتے رہے ہیں، کیا وہ غلط کرتے رہے ہیں؟

میں نے کہا: خدا کے بندے! میں نے کسی کو بد نام نہیں کیا، میں نے تو مولانا یوسف لدھیانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ اور مولانا قاسم دلاوری رحمۃ اللّٰہ علیہ کی روایات بیان کی ہیں، اور ایک خاص مسئلے کی وجہ سے بیان کی ہیں تاکہ لوگوں کا یہ تشدد ختم ہو جائے۔ ورنہ میں تو خود جمعہ کی نماز کے بعد دعا کرتا ہوں اور آئندہ بھی کرتا رہوں گا، یہ تو ایک خاص حکمت کی وجہ سے ایک مرتبہ ایسا کیا تاکہ لوگوں کو مسئلہ سمجھ آ جائے، اور واقعی مسئلہ حل ہو گیا ہے تو اب آپ کو کیا پریشانی ہے؟ آپ مجھ سے اس بات پر بحث کر رہے ہیں، گویا کہ آپ اس کو واجب سمجھ رہے ہیں، اگر آپ واجب سمجھ رہے ہیں تو پھر اس کا چھوڑنا ضروری تھا۔

بہرحال یہ باتیں بتانے کا مقصد یہ ہے کہ بعض مرتبہ علماء کرام اس تشدد کو مٹانے کے لیے اور مسئلہ بتانے کے لیے ایسا کیا کرتے ہیں۔

سوال نمبر23:

کیا مسلمان کی آبرو ریزی اور غیبت کرنا بھی سود میں آتا ہے، کیونکہ فرمایا گیا ہے کہ بدترین سود مسلمان کی آبرو ریزی ہے؟

جواب:

بلا شبہ مسلمان کی آبرو ریزی بد ترین سود ہے اور سود اپنی ماں کے ساتھ 36 مرتبہ خانہ کعبہ میں زنا کے برابر ہے۔ یہ معاملہ بہت دور چلا جاتا ہے۔

ہمیں یہ بات مفتی زین العابدین صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ نے ایک بیان میں سنائی تھی۔ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کے ساتھ کوئی معاملہ ہوا تھا تب مفتی زین العابدین رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہوا تھا، اس بیان میں انہوں نے یہ بات بتائی تھی۔

سوال نمبر24:

ہم جو 13 تسبیحات والا اجتماعی ذکر کرتے ہیں، کیا اس کے دل پر مختلف اثرات مرتب ہوتے ہیں؟

جواب:

در اصل اجتماعی ذکر اثرات کے لیے نہیں کیا جاتا، اثرات کے لیے تو انفرادی ذکر ہے۔ اجتماعی ذکر تعلیم کے لیے کیا جاتا ہے، تاکہ سب لوگ ذکر کرنا سیکھ لیں کہ ذکر کیسے کیا جاتا ہے۔ اثر لینے والا اصل ذکر انفرادی ذکر ہے۔ اسی وجہ سے ہم اجتماعی ذکر ایک ایک تسبیح سے زیادہ نہیں کرتے کیونکہ ایک ایک تسبیح سے تعلیم ہو جاتی ہے۔

سوال نمبر 25:

علامہ اقبال کا ایک شعر ہے:

قہّاری و غفّاری و قدّوسی و جَبَرُوت

یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان

اس کا کیا مطلب ہے؟

جواب:

قہّاری“ سے مراد جلالیت ہے اور ”غفّاری“ جمالیت ہے۔ ”قُدُّوسی“ سے مراد گناہوں سے پاک ہونا اور فطرت کا صالح ہونا، اور ”جبروت“ سے مراد ہے ایسا دبدبہ اور رعب والا ہونا کہ لوگ اس کو تر نوالہ نہ سمجھیں۔

اس لیے کہتے ہیں کہ اختلافات میں نہ پڑو ورنہ تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔ ہوا اکھڑنا ایک مصیبت ہے، جب ہوا اکھڑ جاتی ہے تو ہر ایک کو شہ مل جاتی ہے کہ اس کو مارو۔ کہتے ہیں کہ غریب کی بیوی ہر ایک کی باندی ہوتی ہے۔ یعنی ہر ایک اس کو بے آبرو کرنا چاہتا ہے۔

سوال نمبر26:

دبدبہ کے حوالے سے ایک شعر ہے:

تیری نگاہ سے دل سینوں میں کانپتے تھے

کھویا گیا ہے تیرا جذبِ قلندرانہ

اس کا کیا مطلب ہے؟

جواب:

اس کا مطلب یہ ہے کہ اللّٰہ کے ساتھ ہمارا تعلق بہت مضبوط تھا، لوگوں سے بے پروائی تھی۔ اسی کو قلندری کہتے ہیں۔ کیونکہ تب ہم میں طمع نہیں تھا، لوگوں کی محتاجی نہیں تھی۔ آج ہم اسی لیے مار کھا رہے ہیں کہ ہر چیز میں کسی نہ کسی کے محتاج ہیں۔ جن لوگوں میں یہ قلندرانہ جذبہ ہوتا ہے کہ ہمیں اللہ کے سوا کسی کی پروا نہیں ہے، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ۔ ایسے لوگوں کے ساتھ کوئی الجھ نہیں سکتا، اگر الجھے گا تو اپنا آپ خراب کرے گا۔

میں آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں، یہ ایک دنیاوی بات ہے لیکن سمجھنے کے لیے عرض کرتا ہوں۔ کہ ایک غریب پٹھان تھا اس کا لکڑیوں کا ایک ٹال تھا، یہ اللہ آباد کا واقعہ ہے۔ دوسرا ایک چودھری صاحب تھا، ان کی آپس میں لڑائی ہو گئی۔ اس پٹھان نے یہ کیا کہ ایک ٹرک منگوا لیا اور اپنے گھر کا سامان اس میں رکھنا شروع کر دیا، اس نے گھر والوں کو وطن واپس بھیجنے کا ارادہ کر لیا تھا۔ چودھری کو پتا چلا تو اس نے فورا جرگے کا بندوبست کیا اور معافی تلافی کروائی۔ اس کو پتا چل گیا تھا کہ یہ مرنے مارنے پہ تل گیا ہے اس لئے اپنے گھر والوں کو واپس بھیج رہا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ آزاد ہونا چاہتا ہے، اگر یہ آزاد ہو گیا تو اس کے بعد کچھ بھی کر سکتا ہے۔

ہمارے علاقے کی ہی بات ہے ایک غریب آدمی کو ایک مال دار آدمی نے بہت تنگ کیا، اس نے کچھ عرصہ تو برداشت کیا، آخر کار جب بات برداشت سے باہر ہو گئی تو اس نے مال دار کو ایک پیغام بھیجا اور پیغام میں یہ کہا: ”خان! اگر آپ کو اپنے سونے کی گھڑی کی پروا نہیں ہے تو مجھے بھی اپنے مٹی کے گھڑے کی کوئی پروا نہیں ہے“۔

یہ پیغام ملنا تھا کہ خان نے اس سے فوراً صلح کر لی۔ اسے پتا چل گیا کہ اب اس آدمی کی برداشت ختم ہو گئی ہے اب یہ عملی طور پر جواب دے گا۔

اس وجہ سے میں کہتا ہوں کہ جن میں قلندرانہ قسم کا جذبہ ہوتا ہے ان سے سارے لوگ کانپتے ہیں، پریشان ہو جاتے ہیں کہ یہ کیا ہے۔ آپ تاریخ پہ نظر ڈال لیں میرے خیال میں آپ کو بہت سارے جواب مل جائیں گے۔

سوال نمبر27:

علامہ اقبال کا ہی ایک شعر ہے کہ:

اپنی ملت کو قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر

خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی (ﷺ)

اس کا کیا مطلب ہے؟

جواب:

اس کا مطلب یہ ہے کہ تم ان چاہتوں کو لیتے ہو جو اہلِ مغرب کی چاہت ہیں، نتیجتاً تم رسوا ہو جاؤ گے، تم ان چاہتوں کو لو جو آپ ﷺ کی چاہت ہیں تو تم معزز ہو جاؤ گے۔

سوال نمبر28:

علامہ اقبال ہی کا ایک شعر ہے:

جو میں سر بسجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا

تیرا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں

جواب:

اسی طرح کی شاعری سے لوگ الجھن میں پڑتے ہیں۔ شاعر بے چارہ اپنے دل کی کیفیات بتا رہا ہوتا ہے اور لوگ پتا نہیں کہاں سے کہاں پہنچ جاتے ہیں۔ یہ تصوف کا وہ شعبہ ہے جو بہت خطر ناک ہے۔ بات یہ ہے کہ شعر کہنے والے نے بیان کچھ اور کرنا چاہا جبکہ لوگوں نے مطلب کچھ اور لے لیا۔ شاعر کا مطلب یہ ہے کہ تم نماز یا عبادت کے صرف ظاہر پہ نہ رہو، بلکہ اس کے اندر جو روحانیت ہے اس کا بھی خیال رکھو۔ نماز ضروری ہے لیکن نماز کے اندر جو چیز ہے وہ اس سے بھی زیادہ ضروری ہے کیونکہ اگر وہ چیز نہ رہی تو نماز نہیں رہے گی۔ شاعر صرف یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ تم محض نماز نہ پڑھو بلکہ نماز کے اندر جو روح ہے اسے بھی اپنی نماز میں ڈالو تاکہ تمہاری نماز طاقت ور بن جائے اور صحیح نماز بن جائے۔ اب چونکہ شاعر نے انداز اِس طرح کا اپنایا ہے، اس لئے آزاد خیال لوگوں نے اس سے یہ مراد لے لیا کہ اگر نماز میں روحانیت نہیں ہے تو نماز ہی نہ پڑھو۔ ایسا معنی لینا جہالت اور سِفلہ پن ہے۔

سوال نمبر29:

لَدُنِّی علم کسے کہتے ہیں، کتابی علم اور لَدُنِّی علم میں کیا فرق ہے؟

جواب:

کتابی علم تو وہی ہے جو ہم مدرسوں میں استاذوں سے عام طریقے سے حاصل کرتے ہیں، یہ کسبی علم ہے جو کسب سے حاصل ہوتا ہے جبکہ علمِ لَدُنِّی وہ ہوتا ہے جو اللّٰہ جل شانہ بغیر کسی نبی کے، بغیر کسی کتاب کے اور بغیر کسی استاذ کے براہ راست اِلقا فرما دے۔ قرآن پاک میں حضرت خضر و موسیٰ علیہما السلام کے واقعہ میں اس کا اشارہ موجود ہے۔

علمِ لَدُنِّی میں واسطے نہیں ہوتے لہذا عام لوگ اس کی پروا نہیں کرتے لیکن خود اس شخص کو فائدہ ہوتا ہے اور اس کے جاننے والوں کو بھی فائدہ ہوتا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ یہ بات یاد رہے کہ ہم لوگ مسئلے کے لحاظ سے اور شفافیت کے نقطۂ نظر سے کسبی علم کو ترجیح دیں گے۔

جس شخص کو کسبی علم کے ساتھ لَدُنِّی علم مل جائے تو وہ نُوْرٌ عَلٰی نُوْرٌ ہو جاتا ہے۔ مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے بارے میں مولانا یعقوب نانوتوی رحمۃ اللّٰہ علیہ سے پوچھا گیا کہ حضرت نے کہاں سے پڑھا تھا۔ فرمایا: پڑھا تو وہیں سے تھا جہاں سے ہم نے پڑھا، لیکن کسی کو اللّٰہ تعالیٰ سمندر کے برابر دے دیتے ہیں اور کسی کو سوئی کے ناکے کے برابر دے دیتے ہیں۔ اب جو سمندر کے برابر دیتے ہیں وہ لَدُنِّی علم ہے۔ اللہ تعالیٰ کی سنت عادیہ ہے کہ وہ برکت کو اسباب میں چھپا دیتے ہیں، اپنی قدرت کو اسباب میں چھپا دیتے ہیں، کچھ حصہ اسباب کا ہوتا ہے جس سے لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ چیز اس وجہ سے حاصل ہوئی ہے لیکن بہت سارا حصہ اللّٰہ تعالٰی اپنی طرف سے دے دیتے ہیں اور یہی محفوظ طریقہ ہے۔

ایک دفعہ میں حضرت سید تسنیم الحق صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ حضرت نے ایک چھوٹا سا علمی رسالہ مجھے پڑھایا اور فرمایا کہ میں یہ تمہیں اس لیے پڑھا رہا ہوں کہ بعض چیزوں کے لیے کسبی علم کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ آپ ان کی تواضع دیکھیں کہ وہ فاضلِ دیوبند تھے، بہت بڑے عالم تھے لیکن مجھے یہ نہیں کہا کہ تمہیں اس کی ضرورت ہے بلکہ یہ فرمایا بعض چیزوں کے لیے کسبی علم کی بھی ضرورت ہوتی ہے، آپ کے پاس لَدُنِّی علم تو ہے لیکن کسبی بھی لے لو۔ بظاہر انہوں نے ایسا انداز اختیار کیا لیکن بعد میں مجھے پتا چل گیا کہ حضرت کیا کر رہے تھے، وہ مجھے بہت بڑی نعمت دے رہے تھے کہ اپنی شاگردی میں لے کر مجھے دیوبند کے ساتھ منسلک کر رہے تھے، کیونکہ وہ فاضلِ دیوبند تھے، اپنی اس نسبت کو مجھے عطا فرمانا چاہ رہے تھے لیکن اس کے لیے عنوان ایسا اختیار کیا کہ مجھے پتا ہی نہیں چلنے دیا کہ وہ مجھے کیا دے رہا ہوں۔ بڑے لوگوں کی ایسی ہی باتیں ہوتی ہیں۔ بہرحال علمِ لَدُنِّی اللّٰہ جل شانہ کسی کو بھی دے سکتا ہے، اور اکثر قدر دانوں اور با ادب لوگوں کو دیتا ہے۔ با ادب با نصیب، بے ادب بے نصیب۔

خصوصاً وہ لوگ جو با ادب ہوں اور ان میں طلب بھی ہو انہیں علمِ لَدُنِّی ملتا ہے۔ مثنوئ مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ میں ایک واقعہ لکھا ہے کہ ایک صاحب نے دیکھا کہ دو عالم آپس میں علمی بحث و مباحثہ کر رہے ہیں۔ وہ آدمی طالبِ صادق تھا اس کے دل میں شوق بھی تھا، اس نے ان سے کہا کہ آپ کو یہ علوم کیسے حاصل ہوئے؟ ان دونوں میں سے ایک ذرا موڈی قسم کے عالم تھے، انہوں نے ویسے ہی ٹرخانے کے لیے ایک جملہ بتا کر کہا کہ پوری رات ایک پاؤں پہ کھڑے ہو کے اس کا وظیفہ کرو گے تو تمہیں یہ علوم حاصل ہو جائیں گے۔ وہ سادہ آدمی تھا، واقعتاً پوری رات ایک پاؤں پہ کھڑے ہو کر اس جملہ کا ورد کرتا رہا۔ خدا کی قدرت کہ جب صبح ہوئی تو وہ پورا عالم بن گیا تھا، اللّٰہ پاک نے اس کی طلب کے مطابق اسے علم عطا کر دیا تھا، اللّٰہ پاک کے لیے تو کوئی مشکل نہیں ہے۔ اللہ پاک علم لدُنِّی کسی کو بھی عطا کر سکتے ہیں اور اس علم کا کتابی علم کے ساتھ کوئی ٹکراؤ نہیں ہوتا کیونکہ بعض دفعہ وہی چیز آپ کتابوں سے بھی پڑھ لیتے ہیں جو علم لدنی سے حاصل ہو جاتی ہے۔ مثلاً کسی نے قرآن پاک کو نہیں پڑھا لیکن سارا قرآن پاک اسے لَدُنِّی طور پر یاد ہو گیا، اب قرآن پاک تو ایک ہی ہے، لیکن وہ اللہ کی طرف سے براہ راست اسے یاد ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھ عطا فرمائے۔ آمین۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ