سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 42

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

Islamic Theory and practice of emotional management

یہ موضوع ہے: Emotional Management۔

آج کل یہ ہر دل عزیز موضوعات میں سے ہے۔ ہم لوگ کیسے خرچوں کی مینجمنٹ کر سکتے ہیں۔ فیکٹریوں کی مینجمنٹ، انڈسٹریز کی مینجمنٹ اور اداروں کی مینجمنٹ۔ مینجمنٹ ایک سائنس ہے، اس کے اپنے طریقۂ ہائے کار ہوتے ہیں۔ لیکن چونکہ انسان انسان کو handle کر رہا ہوتا ہے، اس وجہ سے اس انسان کے جذبات جو manage کر رہا ہے اور اس انسان کے جذبات، جس کو manage کیا جا رہا ہے، دونوں اہم ہیں۔ اس کو سمجھنا اور اس کو فطرت کے مطابق handle کرنا اور اس سے صحیح نتائج کا برآمد ہونا، یقیناً ایک بڑی اہم سائنس ہے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ اسلام دینِ فطرت ہے تو یقیناً اسلام کے پاس اس کا بھی تصور ہو گا، اسلام اس کے بارے میں خاموش نہیں ہو گا کہ کیسے ہم جذبات کو manage کریں، چاہے وہ اپنے جذبات ہوں یا دوسروں کے ہوں۔ تاکہ ہم مطلوبہ نتائج برآمد کر سکیں۔ اب یہاں دو مکتبہ ہائے فکر ہیں۔ ایک مکتبۂ فکر آفاقی نظام کو سامنے نہیں رکھتا یعنی دین و مذہب کا قائل نہیں ہے۔ وہ صرف دنیاوی نتائج اخذ کرنے کی حد تک اس میں شامل ہے۔ اس کی سوچ الگ ہو گی، ممکن ہے کہ بعض چیزوں میں اس کی سوچ ہماری طرح ہو، لیکن بعض چیزوں میں اس کی سوچ ہم سے مختلف ہو گی۔ کیونکہ وہ ایسی چیزیں سامنے نہیں رکھ رہا جو کہ ہمیں رکھنی چاہئیں، یا رکھنی پڑیں گی۔ لیکن بعض چیزیں ایسی ہوں گی، جو ان کی ہمارے ساتھ مشترک بھی ہوں گی۔ اس لئے پہلے میں دیانت دار طریقے سے ان کا نقطۂ نظر پیش کروں گا کہ اس میں ان کا کیا کردار ہے؟ اس سلسلے میں وہ کیا کہتے ہیں؟ اور پھر ان شاء اللّٰہ اپنی بات کروں گا۔ اللّٰہ تعالیٰ مجھے توفیق دے کہ میں اپنے مذہب کی صحیح نمائندگی کر سکوں۔ یہ انتہائی مفید موضوع ہے۔ لہٰذا اس کی طرف بڑے غور سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔

جیسے میں نے عرض کیا کہ پہلے میں ان کا نقطۂ نظر کو پیش کروں گا، چنانچہ میرے پاس جو اس کا لبِ لباب اور نچوڑ موجود ہے، جو انٹرنیٹ سے میں نے اخذ کیا ہے۔ سب سے پہلے میں وہ عرض کروں گا، وہ چار quadrants میں اس کو تقسیم کرتے ہیں، اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ دو colums ہیں اور دو rows ہیں۔ colums یہ ہیں: Self and others یعنی اپنے اور دوسروں کے۔ اورrows ہیں: awareness اور management۔ لہٰذا

Self awareness

Others awareness

Self management

Others management

یہ چار quadrants ہیں۔ وہ ان کے ساتھ بحث کرتے ہیں۔ اور Self awareness میں ایک

Emotional self awareness

Accurate self awareness

Personal powers

اور Others awareness میں

Empathy

Service Ethic

Organizational awareness

Self management میں

Emotional self control

Integrity

Innovation and creativity

Initiative and Bias for action

Resilience

Achievement drive

Stress management

Realistic optimism

Intentionality

یه self management میں ہے۔

Relationship management یا Others management اس میں

Developing others

Powerful influence

Communication

CConflict managementV

Visionary leadership,

Orchestrating change

Building bonds

TTeamwork and collaboration

Building trust

یقینا بہت وسیع مضمون ہے، ہر ہر عنوان کے پیچھے ایک concept ہے، ایک description ہے اور ایک علم ہے۔ چونکہ یہ میرا موضوع نہیں ہے کہ میں ان کی ساری باتیں بتاؤں، اور میرے پاس اتنا ٹائم بھی نہیں ہے کہ میں ان کی ساری باتیں بتا سکوں۔ لیکن جو لوگ اس پہ کام کر رہے ہیں، میں نے چونکہ ان سے بات کرنی ہے، لہذا وہ اس کو جانتے ہوں گے کہ میں نے کیا کہا ہے اور کیا کہنا چاہتا تھا، لہذا وہ اس بات کو سمجھ گئے ہوں گے، باقی لوگوں کے لئے محض ایک reference ہے اور Useful reference ہے۔ میرے خیال میں جب میں اپنا موضوع پیش کروں گا، تو وہ اس سے کچھ تقابلی جائزہ لینے کے قابل ہوں گے۔

اب میں اپنی بات کی طرف آتا ہوں۔ ان کے چار quadrants کے مقابلے میں ہمارے پاس صرف دو quadrants ہیں۔ پہلا quadrant خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق۔ اور دوسرا quadrant خدا کے لئے مخلوق کے ساتھ تعلق۔ یعنی پہلے ہم نے اگر اپنے آپ کو جاننا اور پہچاننا ہے تو وہ بھی اپنے آپ کو اللّٰہ کے تعلق کے ساتھ پہچاننا ہے۔ اور اپنے آپ کو جو کنٹرول کرنا ہے، وہ بھی اللّٰہ کے تعلق کے ساتھ کنٹرول کرنا ہے، لہذا وہ دونوں quadrants اس کے اندر شامل ہیں۔ یہ ہے خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق۔

دوسرا ہے خدا کے لئے مخلوق کے ساتھ تعلق۔ جب بھی ہمارا واسطہ کسی کے ساتھ پڑتا ہے، چاہے وہ معاملات ہوں، چاہے معاشرت ہو۔ اس میں ہمارا رویہ کیا ہونا چاہئے، ہمیں کن کن چیزوں کو پیشِ نظر رکھنا چاہئے، کن کن باتوں کی طرف ہمیں خیال رکھنا چاہئے؟ یہ ایک بڑا وسیع موضوع ہے، اس کی بہت تفصیلات ہیں۔ لیکن جتنی گہرائی میں ایک لیکچر میں بات کی جا سکتی ہے، میں اتنی بات کہنے پر اکتفاء کروں گا۔ باقی تفصیلات کے لئے کسی اور موقع کا انتظار ہو گا ان شاء اللّٰہ!

اس میں شریعت، عقل اور جذبات کی بات آتی ہے۔ یعنی جب ہم emotions کی بات کرتے ہیں تو emotions جذبات ہیں، محرکات ہیں، انسان کے اندر Driving forces ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے، اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم جذبات یقیناً Driving force ہیں، لیکن ہر Driving force کے لئے ایک ڈرائیور ہوتا ہے۔ لہذا اس ڈرائیور کا خیال رکھنا پڑتا ہے، اس کو بھی اس field میں educated ہونا چاہئے، اس کو بھی خود پہ کنٹرول ہونا چاہئے اور اس کو بھی چلانا آتا ہو۔ اور Driving force کا ڈرائیور عقل ہے، یعنی عقل کے ذریعے سے اپنے جذبات کو کنٹرول کریں گے، جذبات کو بے مُہار نہیں چھوڑیں گے، ہم جذبات سے کام لیں گے، لیکن کام تب لیا جا سکتا ہے، جب ان کو ایک خاص طریقے سے چلایا جائے، جہاں روکنا ہو، وہاں روک دیا جائے۔ جہاں چلانا ہو، وہاں چلا دیا جائے، جیسے گاڑی میں accelator بھی ہوتا ہے اور بریک بھی ہوتی ہے۔ لہٰذ accelator بھی ہونا چاہئے اور بریک بھی ہونی چاہئے۔ ڈرائیور کو بریک پہ بھی کافی کنٹرول ہونا چاہئے اور accelator کو بھی استعمال کرنے کا اس کو طریقہ معلوم ہونا چاہئے۔ اسی طرح عقل Driving forces کا ڈرائیور ہے، لیکن یہ بھی بے مُہار نہیں ہے، اس کے لئے بھی کوئی قانون اور قاعدہ ہونا چاہئے۔ جیسے ڈرائیوروں کے لئے ٹریفک کے قوانین ہوتے ہیں اور اگر وہ کبھی ٹریفک کے قانون کی خلاف ورزی کریں تو ان کا چالان کیا جاتا ہے، ان کو جواب دینا پڑتا ہے۔ یہ احساس کہ مجھے جواب دہ ہونا پڑے گا، وہ اس کو ایک Realistic driver بنانے میں مدد کرتا ہے، تاکہ کہیں وہ اپنے کسی فوری تقاضے کے پیشِ نظر دوسرے لوگوں کے تقاضوں کو کچل نہ دے۔ ایکسیڈنٹ بھی تب ہوتا ہے کہ جب accidentally (اتفاقی طور) پر کسی وجہ سے دونوں ڈرائیوروں کا ایک جگہ ارادۃً یا غیر ارادۃً پہنچنے کا اتفاق ہو جائے، جب دونوں ایک جگہ پہ پہنچ جائیں تو ایکسیڈنٹ ہو جاتا ہے۔ اور اگر ایک دوسرے کا خیال کریں گے، ایک دوسرے سے بچیں گے تو ایکسیڈنٹ نہیں ہو گا۔ لہٰذا جس طرح ڈرائیورز کو قوانین کا پابند کر دیا جاتا ہے اور ان کو بے مہار گاڑیاں چلانے نہیں دی جاتیں، اس طرح کا انتظام ہمارے لئے بھی ہے کہ عقل کو شریعت کنٹرول کرتی ہے، شریعت کے قوانین آفاقی ہیں۔ یہی کام غیر مسلم حکومتیں کرتی ہیں، وہ بھی قوانین بناتی ہیں، ان کے بھی By laws ہوتے ہیں۔ لیکن ان کے قوانین ان کی اپنی سوچ اور فکر کے مطابق research کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان میں ان کی بڑی اچھی چیزیں بھی ہوں گی، ایسا نہیں ہے کہ ساری چیزیں غلط ہوں گی۔ لیکن ہم ان کو صرف ان کی چیزیں سمجھیں گے، جبکہ جو آفاقی چیز ہوتی ہے، اس میں قیامت تک کا بندوبست ہوتا ہے کہ کون سا کام کرنا چاہئے، کونسا کام نہیں کرنا چاہئے۔ اس وجہ سے شریعت عام قوانین پہ فوقیت رکھتی ہے۔ اور قوانین کو شریعت کے مطابق بنانا مسلمان حکومتوں کا کام ہے۔ شریعت اللّٰہ کا قانون ہے۔ چنانچہ اپنے قوانین کو اللّٰہ کے قوانین کا پابند کرنا اسلامی حکومتوں کا کام ہے۔ لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ عقل جذبات کو چلائے گی اور عقل کو شریعت چلائے گی، تبھی Priority order کو ہم صحیح طور پر چلا سکیں گے۔ جیسے کوئی بھی فیکٹری ہو یا کوئی ادارہ ہو، اس کو چلانے کے لئے Emotional management جُز ہے پورے کل کا، کیونکہ ہماری پوری زندگی کی جو معاشرت ہے، اس کی Emotional management شریعت نے ہمیں سکھائی ہے، ہم فیکٹری میں اس کو کیسے استعمال کریں؟ ادارے میں کیسے استعمال کریں؟ یہ اس کا ایک جُز ہو گا۔ لہذا آج ہم اسی ایک جز کو discuss کر رہے ہیں۔ یعنی کُل کو سمجھ اور جان کر ہم اس کے ایک جُز کو سامنے رکھ رہے ہیں۔ لہٰذا آج ہم صرف اس کا اتنا حصہ ہی discuss کر سکتے ہیں۔

اگر میں target تک صحیح انداز میں جانا چاہوں تو مجھے اپنے آپ سے چند سوالات کرنے ہوں گے: وہ کیا ہے؟ میں کون ہوں؟۔ میں کون ہوں؟ یہ اپنی معرفت ہے۔ میں کیسے ہوں؟ یہ اپنے بارے میں awareness ہے۔ مجھے کیسے ہونا چاہئے؟ یہ قانون کی طلب ہے۔ مجھے کرنا کیا چاہئے؟ میں کیسے ہوں؟ یہ الگ بات ہے۔ لیکن کرنا کیا چاہئے؟ یہ دوسری بات ہے۔ کبھی یہ دونوں ایک جیسے ہوتے ہیں، کبھی ایک جیسے نہیں ہوتے ہیں۔ جب ایک جیسے ہوتے ہیں تو یہ ideal صورت ہے۔ جب ایک جیسے نہیں ہوتے تو یہ problem ہے۔ اگر میں ایسے نہیں ہوں تو میں کیسے اس طرح بن سکتا ہوں، جیسے مجھے ہونا چاہئے؟ یہ چار سوال ہماری رہنمائی کریں گے۔ میں اگر اپنے آپ سے پوچھوں کہ میں کون ہوں؟ تو Being a Muslim I shall say categorically کہ میں اللّٰہ کا بندہ ہوں، میں بے شک افسر ہوں لیکن اللّٰہ کا بندہ ہوں۔ میں بے شک attendant ہوں لیکن اللّٰہ کا بندہ ہوں۔ میں بے شک مال دار ہوں تب بھی اللّٰہ کا بندہ ہوں۔ میں بے شک غریب ہوں پھر بھی اللّٰہ کا بندہ ہوں۔ میں بے شک خوبصورت ہوں تب بھی اللّٰہ کا بندہ ہوں۔ میں بے شک بد صورت ہوں، اللّٰہ کا بندہ ہوں۔ یعنی میرا جو بھی تعارف ہے، وہ اس بڑے تعارف کا حصہ ہے۔ میرا سب سے بڑا تعارف یہ ہے کہ میں اللّٰہ کا بندہ ہوں۔ لہذا مجھے اللّٰہ کا بندہ بننا پڑے گا، پہلی بات میری یہ ہے۔ لہٰذا I have to understand myself کہ میں اللّٰہ کا بندہ ہوں۔ ’’مَنْ عَرَفَ نَفْسَهٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّهٗ‘‘ (المقاصد الحسنۃ للسخاوی، ج 2، ص 78)

ترجمہ: ’’جس نے اپنے آپ کو پہچانا، اس نے اپنے رب کو پہچانا‘‘۔

تو پہلی بات میرے اپنے تعارف سے شروع ہوتی ہے، جو یہ ہے کہ میں اللّٰہ کا بندہ ہوں۔ میں کیسے ہوں؟ یہ میری موجودہ حالت ہے۔ اچھی ہے یا بری ہے، اس سے قطع نظر، جو بھی میری حالت ہے، اگر میں اپنے آپ کو ٹھیک کرنا چاہوں تو یہ مجھے جاننا چاہئے۔ یہ کیسے میں جان پاؤں گا؟ یہ ایک الگ داستان ہے۔ اس پہ الگ بات ہو گی، ان شاء اللّٰہ۔ لیکن میں کیسے ہوں؟ یہ ایک سوال ہے، اور میری موجودہ حالت اس کا جواب ہے۔ مجھے کیسا ہونا چاہئے؟ یہ میں نہیں بتاؤں گا، یہ اللّٰہ بتائے گا، کیونکہ میں اللّٰہ کا بندہ ہوں۔ لہٰذا اس بات کو جاننے کے لئے مجھے شریعت کا علم حاصل کرنا ہو گا، شریعت کی بات سمجھنی ہو گی اور علماء کا یہ کام ہے کہ وہ ہمیں بتائیں کہ ہمیں کیسا ہونا چاہئے۔ کیونکہ شریعت کے جاننے والے علماء ہی ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اِنَّ الْعُلَمَآءَ وَرَثَةُ الْاَنْبِیَآءِ‘‘ (ابو داؤد، حدیث نمبر: 3641)

ترجمہ: ’’علماء انبیاء کے وارث ہیں‘‘۔

انبیاء کرام اللّٰہ سے لیتے ہیں اور امت کو دیتے ہیں۔ علماء نے انبیاء سے لیا صحابہ کے ذریعے سے، فقہاء کے ذریعے سے، اب وہ علماء ہمیں دیں گے۔ ہم اس سلسلے میں علماء کے محتاج ہیں۔ قرآن پاک نے اس کے بارے میں صراحتاً فرمایا ہے:

﴿فَسْـَٔلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ﴾ (الانبیاء: 7)

ترجمہ: ’’اگر تمہیں خود علم نہیں تو نصیحت کرنے والوں سے پوچھ لو‘‘۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ اب مجھے کیسے ہونا چاہئے، یہ علماء بتائیں گے۔ لہٰذا ان چیزوں کی معرفت بہت ضروری ہے: سب سے پہلے یہ کہ روحانی دل کیا چیز ہے؟ دوسرا نفس کیا چیز ہے؟ اور تیسرا عقل کیا چیز ہے؟ ہم ان چیزوں کے سمجھے بغیر وہ کام نہیں کر سکیں گے جو ان سے متعلق ہیں۔ جیسے ایک مکینک جو انجن کے بارے میں نہیں جانتا، وہ انجن کیسے ٹھیک کرے گا؟ گاڑی خراب ہے، problem انجن میں ہے، وہ گاڑی کھولے گا تو کیا کرے گا؟ اس کو انجن کی معرفت ضروری ہے۔ دوسرا اگر بجلی کا کوئی مسئلہ ہے تو اس کو electronics کی معرفت ضروری ہے۔ تیسرا گاڑی کے کنٹرول system کی معرفت ضروری ہے۔ لہٰذا Hydraulic system اور Hematic system وغیرہ، ان چیزوں کے بارے میں جاننا ضروری ہے۔ electronic جو سگنل لیتا اور order دیتا ہے وہ order کیسے communicate ہوتا ہے؟ اس سے کیا نتائج برآمد ہوتے ہیں؟ اس کی خرابی کا مطلب کیا ہے؟ اس کو کیسے ٹھیک کیا جائے گا؟ یہ ساری چیزیں اس کو معلوم ہونی چاہئیں۔ اسی طرح ہم لوگ روحانی دل، نفس اور عقل کی معرفت حاصل کریں گے تو پھر ہی ان کو صحیح استعمال کر سکیں گے، ورنہ یہ صحیح استعمال نہیں ہوں گے اور وہ کام نہیں ہو سکیں گے جو ہم سے مطلوب ہیں۔ اس وجہ سے ان تینوں کا آپس میں تعامل، ان تینوں کا آپس میں interaction، ان تینوں کا ایک دوسرے کو آپس میں influence کرنا، اس چیز کو جاننا چاہئے، یہ تینوں ایک دوسرے پر اثر کرتے ہیں، اس اثر سے کچھ چیزیں وجود میں آتی ہیں۔ جیسے Medical side پر ایک Normal pathology ہوتی ہے اور Abnormal pathology ہوتی ہے۔ Normal pathology یہ ہے کہ normally کیا ہونا چاہئے؟ یہ ڈاکٹر سمجھتا ہے کہ Normal pathology کیا ہے۔ لیکن جہاں کہیں اس میں abnormality آ جائے، اس abnormal چیز کو بھی جاننا پڑے گا کہ یہ abnormality کیا ہے اور کہاں ہے، کس چیز کو ٹھیک کیا جائے؟ دل کی خرابی کے جسم پہ کیا کیا اثرات ہوتے ہیں؟ دماغ کی خرابی کے جسم پہ کیا کیا اثرات ہوتے ہیں؟ Nervous system کی خرابی کے جسم پہ کیا کیا اثرات ہیں؟ ان تمام چیزوں کو جاننا چاہئے، پھر کہیں بیماری سمجھ میں آئے گی، پھر کہیں اس کا علاج سمجھ میں آئے گا۔ بہر حال یہ چیزیں ہمیں جاننی چاہئیں، اس لئے ہم ان تینوں کی تعریفیں بھی کریں گے کہ یہ کیا چیزیں ہیں۔ اور پھر ان کا آپس میں جو roles ہے، اس کو بھی understand کرنے کی کوشش کریں گے۔

میرے پاس ایک نقشہ ہے جو میں اس وقت آپ لوگوں کو نہیں دکھا سکتا، کیونکہ یہاں اس کے لئے تیاری نہیں ہوئی۔ لیکن بہر حال آپ تصور کر لیں کہ یہاں پر دل لکھا ہوا ہے، یہاں پر نفس لکھا ہوا ہے اور یہاں پر عقل لکھا ہوا ہے، یہ triangle ہے۔ دل، نفس اور عقل کا triangle، پھر دل اور عقل کا آپس میں connection، پھر عقل اور نفس کا آپس میں connection، پھر نفس اور دل کا آپس میں connection کہ یہ ایک دوسرے کو کیسے متاثر (influence) کرتے ہیں۔ پھر ان سب کا اس connection سے ہٹ کر اپنا اپنا بھی کردار ہے۔ مثلا: دل کے اپنے انفرادی تین قسم کے کردار ہیں۔ ایک یہ کہ اس کو شیطانی الہام ہوتا ہے، دوسرا یہ کہ اس کو رحمانی الہام ہوتا ہے اور تیسری چیز حواسِ خمسہ کے ساتھ اس کا interaction ہے۔ یعنی آنکھوں کے ساتھ، کان کے ساتھ، زبان کے ساتھ، ذہن کے ساتھ interaction ہے۔ چنانچہ دل کا سگنل ان کو جاتا ہے اور ان کا سگنل دل کو جاتا ہے۔ لہٰذا آنکھ خراب ہو گی تو دل خراب ہو گا، دل خراب ہو گا تو آنکھ غلط استعمال ہو گی۔ کان خراب سنیں گے تو دل خراب ہو گا، دل خراب ہو گا تو کان غلط سنیں گے۔ مرغی پہلے پیدا ہوئی یا انڈا؟ اس بحث میں تو میں نہیں جاؤں گا، لیکن یہ چیزیں ایسی ہی ہیں کہ یہ ایک دوسرے کو متاثر کرتی ہیں۔ لہذا ہم اس کا خیال رکھیں گے کہ آنکھ کا استعمال کیسے ہو، کان کا استعمال کیسے ہو، ذہن کا استعمال کیسے ہو، زبان کا استعمال کیسے ہو، پاؤں کا استعمال کیسے ہو۔ تاکہ ہم اپنے دل کی حفاظت کر سکیں۔ پھر ہم یہ بھی جان سکیں گے کہ دل کی بہتری کا سامان کیسے ہو گا۔ پھر کہیں ہم لوگ شیطانی الہام کو بھی سمجھ سکیں گے، رحمانی الہام کو بھی سمجھ سکیں گے، رحمانی الہام کا ان چیزوں پر کیا اثر ہو گا؟ شیطانی الہام کا ان چیزوں پر کیا اثر ہو گا؟ نفس کا اس کے ساتھ کیا interaction ہے؟ عقل کا اس کے ساتھ کیا interaction ہے؟ یہ بات دل کے بارے میں ہے۔ اب triangle کے اس point کو چھوڑ کر دوسرے points یعنی نفس پہ جاتے ہیں۔ نفس کے اوپر تین Influencing forces ہیں۔ بنیادی طور پر تو حبِ دنیا ہے، پھر اس کی تین قسمیں ہیں: جاہ کی محبت یعنی بڑا بننے کا شوق۔ باہ کی محبت یعنی لذتیں حاصل کرنے کا شوق۔ مال کی محبت یعنی مال کو جمع کرنے کا شوق۔ یہ ہمارے نفس کے تین Influencing circles ہیں، جو کام کرتے ہیں۔ ان کے اپنے اپنے اثرات ہیں۔ اور کمال کی بات ہے کہ یہ آپس میں independent بھی ہیں اور influencing بھی ہیں۔ independent اس طرح ہیں کہ جیسے ایک شخص جو جاہ کے مرض میں مبتلا ہے، عین ممکن ہے کہ وہ باہ اور مال کی پروا نہ کرے۔ مثلا: ایک سیاستدان ہے، ممکن ہے کہ وہ بھوکا رہنا برداشت کر لے، عین ممکن ہے کہ کرسی تک پہنچنے کی کوشش میں وہ اپنی لذتوں کو چھوڑ دے، لیکن اس کرسی تک پہنچنا اس کا مقصد ہو، جس کے لئے وہ اپنا مال بھی بے دریغ لگا رہا ہے۔ تو مال کی لذت کی پروا نہ کرتے ہوئے اس جاہ کو حاصل کرنے کے لئے زندگی کو داؤ پہ لگانا، یہ اہلِ جاہ کا کام ہے۔ اس طرح جس کو باہ کا شوق ہے، لذتوں کا شوق ہے، عین ممکن ہے کہ وہ لذتوں کے لئے اپنی جاہ کی پروا نہ کرے اور اس کی بےعزتی بھی ہونے لگے۔ جیسے پروگراموں اور فنکشنز میں جو کھانا ہوتا ہے، کیسے لوگ ٹوٹ پڑتے ہیں، اس وقت وہ اپنی عزت کی پروا نہیں کرتے ہیں، بلکہ بھوکے بھیڑیوں کی طرح وہ ان پلیٹوں کے اوپر ٹوٹ پڑتے ہیں اور ایک آدمی کے کھانے کی بجائے چار چار پانچ آدمیوں کا کھانا اپنی پلیٹ میں ڈال لیتے ہیں۔ پھر اس کو پورا کھا بھی نہیں سکتے، اسی طرح ایک طرف رکھ دیتے ہیں، کھانا ضائع ہو جاتا ہے۔ وہاں اس کو اپنی عزت کی پروا نہیں ہوتی۔ بڑے بڑے شرفاء کو بے عزت ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ کیونکہ لذتوں کا شوق ہے۔ یہ تو میں نے ایک شریفانہ مثال دی ہے۔ غیر شریفانہ مثال اور ہے، جن کے لئے انسان اپنی عزت کو داؤ پہ لگاتا ہے، اپنے مال کو داؤ پہ لگاتا ہے۔ یہاں یہ باتیں کرنے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن بہر حال یہ چیزیں موجود ہیں، ان سے انکار نہیں ہے، اس طرح جو مال کا شوقین ہے، ممکن ہے کہ وہ اپنی جاہ کو بھی خطرے میں ڈال دے، اپنی باہ کو بھی خطرے میں ڈال دے، جیسے بنیے کے بارے میں مشہور ہے کہ ’’چمڑی جائے، پر دمڑی نہ جائے‘‘۔ وہ اپنی لذتوں کو قربان کرے گا، کھا نہیں سکے گا۔ جیسے بخیلوں کے واقعات میں ہے کہ وہ صرف کھانے کو چھوتے ہیں کہ کہیں سے اس کے ساتھ کوئی چیز لگ کر آ نہ جائے، کیونکہ چیزیں ختم ہو جائیں گی۔ اس طرح کے لوگ مال کو جمع کرنے کے شوق میں اپنی لذتوں کو قربان کر دیتے ہیں، ساتھ ساتھ اپنی جاہ کو بھی قربان کر دیتے ہیں۔ جیسے یہ جو ڈوم ہیں، کیا ان کی جاہ ہوتی ہے؟ کیا ان کی کوئی عزت کرتا ہے؟ ان کی عزت نہیں ہوتی۔ چنانچہ یہ تینوں independent بھی ہیں اور تینوں ایک دوسرے کو influence بھی کرتے ہیں۔ لہٰذا نفس کی خواہشات دل کو متاثر کرتی ہیں، جیسے حواسِ خمسہ ہیں۔ اور دل ان کو متاثر کرتا ہے۔ اگر دل اچھا ہو تو یہ حواسِ خمسہ کنٹرول ہو جائیں گے، لہٰذا ان کو کنڑول کرنے کے لئے جو مجاہدہ ہے، وہ کرنا آسان ہو جائے گا۔ لیکن اگر دل خراب ہو گا تو یہ اور خراب ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ اگر دل میں ہدایت کو حاصل کرنے کی صلاحیت نہیں ہے تو اس کو کیسے پتا چلے گا کہ کیا کرنا ہے؟ لہذا پہلے اس کو ہدایت ہو تو پھر ہی وہ نفس کے رذائل کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرے گا۔ لہٰذا نفس و قلب آپس میں interactive ہیں، اور پھر ان دونوں کے ساتھ عقل کی اپنی interaction ہے۔ عقل کے ساتھ ذہانت اور تجربہ ہوتا ہے۔ یوں کہہ سکتے ہیں کہ ذہانت سے اور تجربے سے کام لینے والی چیز عقل ہے۔ آپ کہیں گے کہ عجیب آدمی ہو! ہم تو ذہین کو عقل مند کہتے ہیں۔ تم ان کو علیحدہ کرتے ہو۔ آپ نے شاید ایسے لوگوں کو دیکھا ہو گا جو ذہین تو ہوتے ہیں، لیکن عقل مند نہیں ہوتے۔ نمبر بڑے اچھے لیتے ہیں، لیکن ان کو کوئی بھی دھوکہ دے سکتا ہے۔ بعض لوگوں کے نمبر کم ہوتے ہیں، لیکن ان کو کوئی دھوکہ نہیں دے سکتا، اور عقل مند وہی ہوتا ہے جس کو کوئی دھوکہ نہ دے سکے۔

جیسے حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ: ’’نہ عمر دھوکہ دیتے ہیں اور نہ دھوکہ کھاتے ہیں‘‘۔

جب ہرقل کے سامنے ایک صحابی نے تعریف کی کہ: ’’لَا یَخْدَعُ وَلَا یُخْدَعُ‘‘ ’’نہ دھوکہ دیتا ہے، نہ دھوکہ کھاتا ہے۔ تو اس نے کہا کہ دھوکا نہ دینا اس کی دین داری کی علامت ہے اور دھوکا نہ کھانا اس کے عقل مند ہونے کی علامت ہے۔

ذہین آدمی معلومات کو زیادہ بہتر طریقے سے مرتب کرتا ہے، اس کی آئی ٹی اچھی ہوتی ہے، لیکن اس سے کام لینا، یہ عقل مندی کا کام ہے۔ ایک آدمی کے پاس بہت علم ہو گا، لیکن وہ اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکے گا اور دوسرے کے پاس کم علم ہو گا، لیکن وہ اس سے بہت زیادہ فائدہ اٹھا لے گا۔ یہی عقل مندی و غیر عقل مندی میں فرق ہے۔ بہر حال! عقل ذہانت اور تجربے سے فائدہ اٹھاتی ہے۔ پھر اس کو دل کے لئے بھی استعمال کرتی ہے، نفس کے لئے بھی استعمال کرتی ہے۔ لیکن اس میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ اگر عقل نفس سے اثر لے تو وہ دل کو خراب کرے گی۔ گویا نفس is Indirectly influencing the heart through othert means یعنی نفس جب اپنی خواہشات کی وجہ سے عقل کو اندھا کرے گا، جیسے یہ جو بڑے بڑے عقلاء ہیں جو اپنی سوچیں اس پہ مرکوز رکھتے ہیں کہ اپنے Perverted ideas کو کیسے implement کرنا ہے، یہ کس وجہ سے کرتے ہیں؟ اسی طرح وہ جو مختلف گندی چیزیں عام کرتے ہیں، یہ سب کیوں ہے؟ کیونکہ ان کے Perverted ideas نفس کی وجہ سے ہیں۔ نفس ان کے دل کو بھی خراب کرتا ہے اور یہ چیز ان کے لئے Driving force بن جاتی ہے۔ بہر حال! عقل نفس سے اثر لیتی ہے، جس سے وہ دل کو خراب کرتی ہے، اس کے ذریعے سے پھر حواسِ خمسہ خراب ہو جاتے ہیں، اس کے ذریعے سے شیطانی الہام کو راستہ ملتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عقل کو ہم رحمانی الہام کے ذریعے دل کے راستے سے influence کر سکتے ہیں تاکہ ہماری عقل صحیح کام کرے۔ یہی وہ motive ہے جس کے متعلق میں نے کہا کہ جذبات کو عقل کنٹرول کرے گی، عقل کو شریعت کنٹرول کرے گی۔ شریعت کیسے کنٹرول کرے گی؟ دل کے ذریعے سے کنٹرول کرے گی۔ ورنہ عقل ہی main چیز بن جائے گی۔ جیسے غیر مسلم علاقوں میں ان لوگوں کی عقل ان چیزوں کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ جیسے: فقہاء بڑے عقل مند ہیں، لیکن وہ عقل دین کے لئے استعمال ہو رہی ہے۔ اور سیکولر لوگوں کی عقل ان چیزوں کے لئے استعمال ہو رہی ہے۔ بڑے اچھے سائنسدان ہوں گے، لیکن دین کے معاملے میں بالکل بےپروا ہوں گے۔ وہ عقل مند تو ہیں، لیکن ان کی عقل اُس direction میں ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اگر اب ہم domain کو analyse کر لیں کہ کون سا domain زیادہ اہم ہے، پھر اُس domain میں جو عقل استعمال ہو رہی ہے، وہ کیا ہے؟ اور اِس domain میں جو عقل استعمال ہو رہی ہے، وہ کیا ہے؟ چنانچہ جس کا جب مطمحِ نظر وہاں (آخرت) کی کامیابی ہے، وہ عقل اصل ہے اور وہ عقلِ رسا ہے۔ اور جو عقل یہاں اس چیز کے لئے استعمال ہو، وہ عقلِ خام ہے۔ لہٰذا اس خام سے رسا کی طرف جانے کے متعلق اللّٰہ پاک نے فرمایا:

﴿اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّهَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِۚۙ 0 الَّذِیْنَ یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ قِیٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِهِمْ وَیَتَفَكَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۚ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًا ۚ سُبْحٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ﴾ (اٰلِ عمران 190-191)

ترجمہ: ’’بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات دن کے باری باری آنے جانے میں ان عقل والوں کے لئے بڑی نشانیاں ہیں، جو اٹھتے بیٹھتے اور لیٹے ہوئے (ہر حال میں) اللّٰہ کو یاد کرتے ہیں، اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق پر غور کرتے ہیں، (اور انہیں دیکھ کر بول اٹھتے ہیں کہ) اے ہمارے پروردگار! آپ نے یہ سب کچھ بے مقصد پیدا نہیں کیا۔ آپ (ایسے فضول کام سے) پاک ہیں، پس ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لیجئے‘‘۔

اس میں اللّٰہ پاک نے ہمیں بتایا کہ آفاقی domain کے اندر عقل کا جو کردار ہے، وہ کیسے ٹھیک ہو گا۔ چنانچہ اس کے لئے دو چیزیں ہیں: ذکر اور فکر۔ ذکر سے اللّٰہ یاد ہو گا اور فکر سے اللّٰہ کے لئے ان چیزوں کا استعمال سامنے آئے گا، ان چیزوں کی آپس میں interaction سامنے آئے گی۔ لہٰذا جب ہم ان دونوں چیزوں کو جمع کریں گے تو ہماری عقل آفاقی قوانین کے مطابق استعمال ہو گی۔ میرا خیال ہے کہ اس سے آپ کو triangle کی سمجھ آ گئی ہو گی۔ آگے جا کر ایک Guidance sequence (نظامِ ہدایت) ہے۔ وہ نظامِ ہدایت کیا ہے؟ اس وقت میں تفصیل میں تو نہیں جاؤں گا کیونکہ اس بارے میں احادیث شریفہ ہیں اور اس وقت ہم احادیث شریفہ کی تفصیلات میں نہیں جا سکتے۔ البتہ اس کا نچوڑ میں آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔ آپ ﷺ نے تین قسم کی احادیث میں ہمیں بتایا ہے کہ ہم ہدایت کیسے حاصل کریں؟ چنانچہ نظامِ ہدایت میں ایک ہے؛ قرآن اور سنت کی اتباع کرنا۔ دوسرا ہے؛ سنت اور طریقِ صحابہ کی اتباع کرنا۔ جیسے آپ ﷺ نے فرمایا: ’’مَا اَنَا عَلَیْهِ وَاَصْحَابِیْ‘‘ (ترمذی، حدیث نمبر: 2641) میں جب بھی صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمیعن کی بات کرتا ہوں تو ساتھ یہ بھی بتاتا ہوں کہ صحابہ تین قسم پہ ہیں۔ اہل بیت، امھات المومنین اور عام صحابہ کرام۔ ان تینوں کا مجموعہ صحابہ ہیں۔ لہذا جب صرف صحابہ کی بات کی جائے تو وہ بات تینوں پر مشتمل ہو گی۔ اور جب ان میں سے کسی ایک کے بارے میں بات کی جائے، مثلاً: اہلِ بیت کے بارے میں یا امہاتُ المومنین کے بارے میں بات کی جائے تو وہ صرف ان کے لئے خاص ہو گی۔ یہ دو خاص (specific) ہیں۔ اور تیسری قسم عام ہے۔ یوں کہہ سکتے ہیں کہ پہلی دو قسمیں خاص (specific) اِس طور پر ہیں کہ ان دو کو نکال لیں گے، تو وہ خاص (specific) ہو جائیں گی۔ اور اگر ویسے مطلقاً صحابہ کہا جائے تو پھر یہ عام ہو گا۔ اسی طرح ایک حدیث میں قرآن اور اہل بیت کے بارے میں بھی فرمایا گیا ہے۔ یعنی ایک حدیث میں ہے؛ قرآن و سنت۔ دوسری حدیث میں ہے؛ سنت اور طریقِ صحابہ۔ اور تیسری حدیث میں ہے؛ قرآن اور اہلِ بیت۔ چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا: تم میں دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں: ’’کِتَابُ اللّٰہِ وَعِتْرَتِیْ أَهْلُ بَيْتِيْ‘‘۔ (المستدرک علی الصحیحین، حدیث نمبر: 4576)

ترجمہ: ’’کتاب اللّٰہ اور میری اولاد یعنی میرے اہلِ بیت‘‘۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمیں ان تینوں کو جمع کرنا ہے، کیونکہ تینوں ایک ہی منبع سے آئے ہیں، لہذا اگر ہم ان تینوں کو جمع کریں گے تو ہدایت پہ آئیں گے۔ لہٰذا یہ تینوں ضروری ہیں: قرآن، سنت اور طریقِ صحابہ۔ اور پھر صحابہ میں تینوں شامل ہیں۔ یہ ہمارا نظامِ ہدایت ہے۔ اگر ہم اس کے ساتھ اپنے آپ کو جوڑیں گے تو ہم کامیاب ہوں گے، ہمیں ہدایت حاصل ہو گی۔ اور اگر اس کے ساتھ اپنے آپ کو نہیں جوڑیں گے تو پھر کٹی ہوئی پتنگ کی طرح ہوں گے، جہاں جی چاہے گا وہاں چلے جائیں گے۔ لہٰذا ان چیزوں کو ہم نے سامنے رکھنا ہے تاکہ ہمیں معلوم ہو کہ ہمیں کرنا کیا ہے۔ اور جو کرنا ہے، اس میں رکاوٹ کیا ہے؟ اور جو رکاوٹ ہے، اس کو دور کیسے کیا جائے؟ اس کو سمجھنے کے لئے ہمیں تین اور سوالوں کے جواب سمجھنے پڑیں گے۔ وہ سوال آپ ﷺ سے جبرئیل علیہ السلام نے کئے تھے۔ حدیثِ جبرئیل میں ہے: ایمان کیا ہے؟ اسلام کیا ہے؟ احسان کیا ہے؟ آپ ﷺ نے ایمان کی تعریف میں ایمان کے شعبے بتائے، جو ایمانِ مفصل اور ایمانِ مجمل میں آتے ہیں۔ اور اسلام کی تعریف میں آپ ﷺ نے ہمیں اسلام کے ارکان بتائے، جیسے: کلمۂ شہادت، نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج۔ اور احسان سے مراد یہ ہے کہ وہ اعمال جو گذشتہ دو سوالوں سے ماخوذ ہیں، ان کو اچھی طرح کرنا۔ احسان ’’حسن‘‘ سے بابِ افعال کا مصدر ہے، یعنی ان کو زیادہ اچھا کرنا، زیادہ بہتر کرنا۔ تو یہ کیسے ہو گا؟ اس کے لئے آپ ﷺ کا جواب ہمارے سامنے ہے: ’’اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ فَاِنْ لَمْ تَــکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہٗ یَرَاکَ‘‘ (بخاری، حدیث نمبر: 50) تو اللہ کی ایسی عبادت کر جیسے تو اس کو دیکھ رہا ہے اور اگر یہ چیز تجھے حاصل نہیں ہے تو بے شک یہ تو تمہارے ایمان کا حصہ ہونا چاہئے کہ اللّٰہ تجھے دیکھ رہا ہے۔

’’اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ فَاِنْ لَمْ تَــکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہٗ یَرَاکَ‘‘ پہلے جملے میں کوشش ہے اور دوسرے جملے میں حقیقت کا ادراک ہے۔ پہلے جملے میں ایسی چیز کی کوشش ہے، جو ہر ایک کو حاصل نہیں ہو گی اور دوسری چیز ہر ایک کو حاصل ہونا چاہئے، یہ حقیقت کا ادراک ہے، جو کہ حقیقت ہے۔ کیونکہ اللّٰہ تو آپ کو دیکھ رہا ہے، اس سے تو آپ انکار نہیں کر سکتے، وہ چاہے آپ کو معلوم ہو یا معلوم نہ ہو۔ لیکن پہلے والی چیز آپ کی کوشش پر منحصر ہے کہ آیا آپ اس تک پہنچ سکتے ہیں یا نہیں؟ بہرحال! یہ context ان شاء اللّٰہ ہمیں اس طرف لائے گا کہ اگر عمل میں کوئی رکاوٹ ہو تو اس رکاوٹ کو ہم کیسے دور کریں۔ جب کیفیتِ احسان حاصل ہو جاتی ہے تو ہمارے دل کی وہ حالت ہو جاتی ہے اور اس میں اتنی طاقت آ جاتی ہے کہ اس کیفیتِ احسان کی وجہ سے دل نفس کو بھی کنٹرول کرے اور ہماری عقل کو بھی کنٹرول کرے۔ تو کیفیتِ احسان حاصل کرنے کے لیے کچھ طریقوں کی ضرورت پڑتی ہے اور طریقے مختلف ہو سکتے ہیں۔ لیکن جب مقصد یہ ہو تو ان طریقوں کے نظام کو طریقت کہتے ہیں۔ طریقت نام سے ہی واضح ہے کہ یہ طریقوں کی سمجھ اور ان کی معرفت ہے۔

بہر حال! اسلام شریعت ہے، اور احسان طریقت ہے اور ایمان ہمارا عقیدہ ہے۔ اگر عقیدہ ٹھیک نہ ہو تو نہ شریعت پہ ہمارا کچھ کام ہو سکتا ہے، نہ طریقت پہ۔ دونوں invalid ہو جائیں گے، کوئی فائدہ نہیں دیں گے۔ عقیدہ صحیح ہو گا تو ہم سے پوچھا جائے گا کہ شریعت پہ چلتے ہو کہ نہیں چلتے؟ اور اگر شریعت پہ چلتے ہو تو پھر پوچھا جائے گا کہ اچھی طرح چلتے ہو یا اچھی طرح نہیں چلتے؟ اچھی طرح چلنے کے لئے ہمیں اس کے طریقوں کو اپنانا ہو گا۔

چونکہ یہ موضوع اسلام کے نقطۂ نظر سے ہے، لہذا definitions کے لئے میں اس میں اپنی رائے کو فوقیت نہیں دوں گا بلکہ میں آپ کے سامنے چند آیاتِ کریمہ لانا چاہتا ہوں، ان سے آپ ذرا خود نتیجے پہ پہنچنے کی کوشش کریں کہ یہ کیا چیزیں ہیں؟ چنانچہ نفس کے بارے میں ہے:

﴿وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰىهَا۪ۙ 0 فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَتَقْوٰىهَا۪ۙ 0 قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا۪ۙ 0 وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَاؕ﴾ (الشمس: 07-10)

ترجمہ: ’’اور (قسم ہے) انسانی جان کی، اور اس کی جس نے اسے سنوارا۔ پھر اس کے دل میں وہ بات بھی ڈال دی جو اس کے لئے بد کاری کی ہے، اور وہ بھی جو اس کے لئے پرہیز گاری کی ہے۔ فلاح اسے ملے گی جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے۔ اور نامراد وہ ہو گا جو اس کو (گناہ میں) دھنسا دے‘‘۔

اللّٰہ جل شانہ قسم کھا کے فرماتے ہیں کہ میں نے نفس کے اندر دو چیزیں رکھی ہیں: ایک اس کا فجور اور دوسرے اس کا تقویٰ۔ لہٰذا اس میں فجور بھی ہے یعنی بری خواہشات ہیں اور اس میں تقویٰ کی صلاحیت بھی ہے۔ گویا تقویٰ آئے گا، جیسے پہلے میں نے احسان کے متعلق کہا کہ پہلے والا حال کوشش سے ہے، دوسرا خود بخود ہونا چاہئے۔ اسی طرح یہاں بھی فجور خود بخود ہوتا ہے اور تقویٰ کو حاصل کرنا ہوتا ہے، لیکن اس کو حاصل کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ مثلاً: ایک لوہا ایسا ہوتا ہے، جو مقناطیس بن سکتا ہے اور ایک لوہا ایسا ہوتا ہے، جو مقناطیس نہیں بن سکتا۔ لہٰذا جو لوہا مقناطیس بن سکتا ہے، اس پہ آپ کوشش کریں گے تو مقناطیس بنا دیں گے۔ اسی طرح نفس کے اندر یہ صلاحت ہے کہ یہ تقویٰ اختیار کر سکتا ہے۔ لہٰذا اس کے اوپر محنت کریں گے تو تقویٰ اختیار کر لے گا۔ اب محنت کونسی ہے؟ یہ ہمیں جاننے کی ضرورت ہے۔ جیسے اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَتَطْمَىِٕنُّ قُلُوْبُهُمْ بِذِكْرِ اللّٰهِ ؕ اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُ﴾ (الرعد: 28)

ترجمہ: ’’یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے ہیں اور جن کے دل اللّٰہ کے ذکر سے اطمینان حاصل کرتے ہیں۔ یاد رکھو کہ صرف اللّٰہ کا ذکر ہی وہ چیز ہے، جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے‘‘۔

اس میں اللّٰہ پاک دل کی ایک حالت بتاتے ہیں کہ آگاہ ہو جاؤ! دل ذِکرُ اللّٰہ سے مطمئن ہو جاتے ہیں۔

اور ﴿اِذْ جَآءَ رَبَّهٗ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ﴾ (الصافات: 84)

ترجمہ: ’’جب وہ اپنے پروردگار کے پاس صاف ستھرا دل لے کر آئے‘‘۔

﴿مَنْ خَشِیَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَیْبِ وَجَآءَ بِقَلْبٍ مُّنِیْبِ (ق: 33)

ترجمہ: ’’جو خدائے رحمن سے اسے دیکھے بغیر ڈرتا ہو، اور اللّٰہ کی طرف رجوع ہونے والا دل لے کر آئے‘‘۔

یہاں پر بھی قلب کا ذکر ہے۔

﴿اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَجِلَتْ قُلُوْبُهُمْ (الانفال: 2)

ترجمہ: ’’مومن تو وہ لوگ ہیں کہ جب ان کے سامنے اللّٰہ کا ذکر ہوتا ہے، تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں‘‘۔

یہاں پر بھی قلوب کا ذکر ہے کہ قلوب متاثر ہوتے ہیں۔

﴿تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُوْدُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ۚ ثُمَّ تَلِیْنُ جُلُوْدُهُمْ وَقُلُوْبُهُمْ اِلٰی ذِكْرِ اللّٰهِ (الزمر: 23)

ترجمہ: ’’وہ لوگ جن کے دلوں میں اپنے پروردگار کا رعب ہے، ان کی کھالیں اس سے کانپ اٹھتی ہیں، پھر ان کے جسم اور ان کے دل نرم ہو کر اللّٰہ کی یاد کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں‘‘۔

اس میں بھی قلوب کا ذکر ہے۔

﴿ذٰلِكَ ۗ وَمَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآىِٕرَ اللّٰهِ فَاِنَّهَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ﴾ (الحج: 32)

ترجمہ: ’’یہ ساری باتیں یاد رکھو، اور جو شخص اللّٰہ کے شعائر کی تعظیم کرے، تو یہ بات دلوں کے تقوی سے حاصل ہوتی ہے‘‘۔

﴿اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ لِلتَّقْوٰی ؕ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّاَجْرٌ عَظِیْمٌ﴾ (الحجرات: 3)

ترجمہ: ’’یہ وہی لوگ ہیں، جن کے دلوں کو اللّٰہ نے خوب جانچ کر تقوی کے لئے منتخب کر لیا ہے، ان کو مغفرت بھی حاصل ہے اور زبردست اجر بھی‘‘۔

یہاں پر بھی قلوب کا ذکر ہے۔

﴿وَاَلَّفَ بَیۡنَ قُلُوۡبِہِمۡ ؕ لَوۡ اَنۡفَقۡتَ مَا فِی الۡاَرۡضِ جَمِیۡعًا مَّاۤ اَلَّفۡتَ بَیۡنَ قُلُوۡبِہِمۡ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ اَلَّفَ بَیۡنَہُمۡ ؕ اِنَّہٗ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ﴾ (الانفال: 63)

ترجمہ: ’’اور ان کے دلوں میں ایک دوسرے کی الفت پیدا کر دی۔ اگر تم زمین بھر کی ساری دولت بھی خرچ کر لیتے تو ان کے دلوں میں یہ الفت پیدا نہ کر سکتے، لیکن اللّٰہ نے ان کے دلوں کو جوڑ دیا، وہ یقینا اقتدار کا بھی مالک ہے، حکمت کا بھی مالک‘‘۔

یہاں پر بھی قلب کا ذکر ہے۔

لیکن یہاں ایک بحث ہے، کچھ لوگوں نے قلب کو دماغ کہا اور دماغ سر میں ہوتا ہے۔ اور اس آیت مبارک سے یہ بھی پتہ چلا کہ وسوسہ دل میں آتا ہے۔ اور یہ بھی فرمایا ہے: ﴿اَلَّذِیْ یُوَسْوِسُ فِیْ صُدُوْرِ النَّاسِ﴾ (الناس: 5)

ترجمہ: ’’جو لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالتا ہے‘‘۔

لہٰذا شیطان انسان کے سینے کے اندر وسوسہ ڈالتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ دل سینے کے اندر ہے، اس سے مراد دماغ نہیں ہے، یہاں ان کو غلطی لگی ہے۔ کیونکہ دماغ تو سر میں ہے، وہاں تو خیالات آ سکتے ہیں، جو اس کا اثر ہوتا ہے۔ اور شیطان وسوسے دل میں ڈالتا ہے۔ کیونکہ ﴿اَلَّذِیْ یُوَسْوِسُ فِیْ صُدُوْرِ النَّاسِ﴾ (الناس: 5) فرمایا گیا ہے۔ اس لئے میں نے سوچا کہ ذرا آپ کے سامنے scenario آ جائے کہ میں نے اس کو کیسے define کیا ہے۔ بہرحال! ہمارے سامنے آیاتِ کریمہ موجود ہیں، ان پہ غور کرنے سے آپ کو پتہ چل جائے گا۔ اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّهَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِۚۙ 0 الَّذِیْنَ یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ قِیٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِهِمْ وَیَتَفَكَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۚ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًا ۚ سُبْحٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ﴾ (اٰلِ عمران 190-191)

ترجمہ: ’’بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات دن کے باری باری آنے جانے میں ان عقل والوں کے لئے بڑی نشانیاں ہیں۔ جو اٹھتے بیٹھتے اور لیٹے ہوئے (ہر حال میں) اللّٰہ کو یاد کرتے ہیں، اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق پر غور کرتے ہیں، (اور انہیں دیکھ کر بول اٹھتے ہیں کہ) اے ہمارے پروردگار! آپ نے یہ سب کچھ بے مقصد پیدا نہیں کیا۔ آپ (ایسے فضول کام سے) پاک ہیں، پس ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لیجئے‘‘۔

یہاں عقل کی بات آ گئی۔ اب ہمارے سامنے کچھ contexts آ گئے کہ وہ آیات مبارکہ جو دل کے بارے میں اشارہ کر رہی ہیں، وہ آیات مبارکہ جو نفس کے بارے میں اشارہ کر رہی ہیں اور وہ آیات مبارکہ جو عقل کے بارے میں اشارہ کر رہی ہیں۔ ان سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ دل کا role کیا ہے؟ عقل کا role کیا ہے؟ اور نفس کا role کیا ہے؟ ان کی آپس میں interaction کیا ہے؟ یہ چیز ہم تجربات سے understand کر سکتے ہیں، بشرطیکہ آیات کا مفہوم ہمارے سامنے ہو۔

اب ذرا میں اس topic کے بارے میں بات کرنا چاہوں گا۔ ایک بات یہ ہے کہ اللّٰہ کے ساتھ ہمارا تعلق کیسا ہونا چاہئے؟ ہمارے اخلاق کیسے ہوں؟ اور اخلاق ہیں کیا؟ اور اخلاق کو ٹھیک کیسے کیا جا سکتا ہے؟ یہ کچھ سوالات اور کچھ models ہیں۔ اخلاق خلق کی جمع ہے اور خلق کہتے ہیں سیرت کو۔ جیسے جسم کے اعضاء میں توازن ہوتا ہے تو خوبصورت ہوتے ہیں، آنکھیں بہت بڑی ہوں پھر بھی بدصورت، بہت چھوٹی ہوں پھر بھی بدصورت، کان چھوٹے چھوٹے سے ہوں پھر بھی بد صورت، بہت بڑے ہوں پھر بھی بد صورت، ناک بہت لمبی ہو پھر بھی بد صورت، بہت چھوٹی ہو پھر بھی بد صورت، رنگ بہت گورا ہو پھر بھی بد صورت، بہت کالا ہو پھر بھی بد صورت، آدمی بہت لمبا ہو پھر بھی بد صورت، بہت چھوٹا ہو پھر بھی بد صورت۔ ایک اعتدال اور توازن میں ہی خوبصورتی ہے۔ اسی طرح خُلقی اجزاء ہیں ان میں تناسب ہونا خوب سیرتی ہے۔ خلقی اجزاء میں سے ایک شہوت ہے، شہوت اس چیز کو نہیں کہتے جسے عام طور پر شہوت کہتے ہیں۔ شہوت عربی کا لفظ ہے جو اشتہا سے ہے جس کا معنیٰ بھوک لگنا، خواہش ہونا۔ خواہش اچھی چیز کی بھی ہو سکتی ہے، بری چیز کی بھی ہو سکتی ہے جو کہ اس کے استعمال پر منحصر ہے کہ اس کو کہاں استعمال کیا جاتا ہے۔ بہرحال شہوت کی افراط خود غرضی ہے اور نہ ہونا یا کم ہونا ڈپریشن ہے اور بیلنس ہونا پارسائی ہے۔ غضب repulsion ہے، کوئی بھی چیز جس کو ہم نہ چاہتے ہوں اس کو خود سے repulse کرنا اور ہٹانا۔ جیسے مچھروں کو ہم اپنے آپ سے ہٹاتے ہیں، مکھیوں کو ہٹاتے ہیں، عین ممکن ہے کہ کبھی انسان مکھیوں کو ہٹاتے ہوئے اتنا غصہ ہو جائے کہ اپنے ہاتھ کو زخمی کر لے، جیسے مکھی کو مارنے کے لئے دیوار پہ ہاتھ مارے، مکھی تو اڑ گئی مگر ہاتھ زخمی ہو جاتا ہے۔ گویا قوتِ دفع غضب ہے، اس کا افراط ظلم اور تحوّر ہے، اس کی تفریط بزدلی ہے کہ جہاں ہونا چاہئے وہاں نہیں ہے، اور اس کا توازن شجاعت ہے کہ وہاں ہونا جہاں ہونا چاہئے اور وہاں سے رک جانا جہاں نہیں ہونا چاہئے، یہ شجاعت ہے۔ جیسے کہتے ہیں: اپنے نفس کا پہلوان۔ آخر طاقت ور وہی ہو گا جو اپنے نفس کو پچھاڑے گا۔ جیسے حضرت علی (رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ) اٹھ گئے، اٹھنے پہ قادر تھے، اپنے آپ کو بھی فتح کر لیا۔ اس پہلوان کو بھی فتح کر لیا کہ اسے نیچے گرا دیا، پھر اپنے آپ کو بھی فتح کر لیا کہ اٹھ گئے۔ یہ شجاعت ہے۔ حضرت علی (رضی اللّٰہ عنہ) شجاع تھے۔ اس طرح عقل کا معاملہ ہے کہ اس کو وہاں استعمال کرنا جہاں اس کی مدد در کار ہے، یہ افراط ہے یعنی یہ عقل کا باغی ہونا ہے۔ ایسی جگہ میں گھس گیا جہاں پر نہیں گھسنا چاہئے۔ ایک آدمی چوکیدار ہے اور گھر سے باہر پہرہ دیتا ہے لیکن اگر وہ چوکیدار گھر کے اندر آ جائے تو اس کو دھکے دے کے نکال دیں گے کہ ادھر تو تمہیں نہیں آنا تھا، تمہیں تو باہر کھڑا کیا تھا۔ عقل کا وہاں استعمال جہاں مطلوب ہے، ضروری ہے۔ لیکن جہاں مطلوب نہیں ہے وہاں استعمال فضول ہے، اس کو ختم کرنا پڑے گا۔ اور عقل کا وہاں بھی استعمال نہ کرنا جہاں شریعت نے حکم دیا ہے، حماقت ہے۔ اور عقل کا وہاں استعمال، جہاں پر استعمال کرنا چاہئے اور وہاں استعمال نہ کرنا جہاں پر استعمال نہیں کرنا چاہئے، حکمت ہے۔ آپ ﷺ یہ حکمت بھی سکھاتے تھے۔ جیسے اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ (البقرہ: 129)

ترجمہ: ’’انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے، اور ان کو پاکیزہ بنائے‘‘۔

آج الحمد للہ! یہ بات سمجھ میں آ گئی۔ یہ اس کی برکت سے ہے۔ علم چیزوں کے جاننے کا نام ہے۔ انسان کے اندر چیزوں کو جاننے کی صلاحیت موجود ہے۔ اس میں تفریط یہ ہے کہ جہاں جاننا چاہئے، وہاں بالکل نہ جاننا، یہ جہل ہے۔ اور وہاں بھی جاننے کی کوشش کرنا، جہاں جاننے کی ضرورت نہیں ہے، یہ افراط ہے۔ یہ بھی صحیح نہیں ہے۔ مثلاً: آپ ﷺ نے فرمایا: اللّٰہ کی ذات پہ غور نہ کرو، وہ وراء الوراء ذات ہے۔ اس کی مخلوقات میں غور کرو۔ اس میں بھی توازن ہے کہ جہاں استعمال ہونا چاہئے، وہاں پر کریں اور جہاں پر استعمال نہیں ہونا چاہئے، وہاں پر نہ کریں۔ لہٰذا Character building یعنی اخلاق کو پیدا کرنا، اس میں خدا کے ساتھ تعلق اور بندوں کے ساتھ تعلق، یہ دونوں چیزیں آتی ہیں، یعنی اس میں حقوق اللّٰہ بھی آتے ہیں اور حقوق العباد بھی آتے ہیں۔ حقوق العباد بھی اصل میں حقوق اللّٰہ ہیں، کیونکہ حقوق العباد بھی اللّٰہ نے مقرر کئے ہیں۔ لیکن وہ چونکہ بندوں کے لئے مقرر کئے گئے ہیں تو چونکہ اللّٰہ غنی ہے، اس لئے وہ اپنے بارے میں اتنی پکڑ نہیں کرے گا، لیکن دوسروں کے حقوق میں صاحبِ حق سے بھی معافی دلوانا ضروری ہوتا ہے۔ لہذا حقوق العباد سے زیادہ ڈرایا گیا ہے، لیکن انہی کے حقوق العباد میں ہم اتنے مشغول ہو جائیں کہ حقوق اللّٰہ ہی بھول جائیں، یہ ٹھیک نہیں ہے۔ کیونکہ حقوق العباد کا تعلق بھی حقوق اللّٰہ کے ساتھ ہے۔ ان دونوں میں نفس رکاوٹ ہے اور شیطان خدا سے باغی بناتا ہے، پھر حقوق و فرائض کا جھگڑا بنتا ہے، اس جھگڑے کے اندر انصاف کرنا ہوتا ہے، اور پھر بندے کی طرف سے نا شکری بھی ہوتی ہے، اس کا بھی علاج کرنا ہوتا ہے، شیطان کی تربیت تو ممکن نہیں ہے، لیکن نفس کا تزکیہ کرنا ضروری ہے، فرض ہے۔ جیسے فرمایا گیا: قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا۪ۙ وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا۔ (الشمس: 9-10)

ترجمہ: ’’فلاح اسے ملے گی جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے۔ اور نامراد وہ ہو گا جو اس کو (گناہ میں) دھنسا دے۔‘‘

اس چیز کو حاصل کرنے کے لئے احسان ہے۔

اللّٰہ تعالی ہمیں یہ کیفیت نصیب فرمائے۔ اللّٰہ جل شانہ ہم سب کو اسے سمجھنے کی توفیق عطا فرما دے۔

وَمَا عَلَیْنَآ اِلَّا الْبَلَاغُ