اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال نمبر1:
لطیفۂ قلب کو جاری کرنے کے لئے کیا کرنا چاہیے؟ اگر کسی کا لطیفۂ قلب جاری ہے مگر کبھی محسوس ہوتا ہے اور کبھی محسوس نہیں ہوتا تو اسے مکمل طور پر جاری اور محسوس کروانے کے لئے کیا کیا جائے؟
جواب:
اس سوال کا جواب سمجھنے سے پہلے مناسب ہے کہ تصوف میں جن ”لطائف“ کی بات کی جاتی ہے ان کی کچھ وضاحت کر دی جائے۔
”لطائف“ ”لطیفة“ کی جمع ہے۔ لغوی طور پر ”لطیفه“ اور ”لطیف“ باریک اور ہلکی چیز کو کہتے ہیں، اس کے مقابلے میں ”کثیف“ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ ”کثیف“ کا معنی ”بھاری، ثقیل، بوجھ سے بھر پور چیز“ ہے۔ ”کثیف“ ایسی چیز کو کہتے ہیں جس میں کثافت ہو اور لطیف یا لطیفہ ایسی چیز کو کہتے ہیں جس میں کسی قسم کی کثافت اور ثقل نہ ہو۔
یوں تو انسان کا پورا جسم ذکر کرتا ہے، انسان کا بال بال اللہ کے ذکر میں محو رہتا ہے لیکن جسم میں چند مقامات ایسے ہیں جو باقی جسم کی نسبت بہت زیادہ حساس ہوتے ہیں، ان جگہوں پر ذکر کے اثرات زیادہ محسوس ہوتے ہیں۔ تصوف کی اصطلاح میں انسانی جسم میں موجود انہی حساس مقامات کو ”لطائف“ کہا جاتا ہے۔
اب یہ لطائف کتنے ہیں، ان کے نام کیا ہیں، انسانی جسم میں کون سا لطیفہ کس جگہ پر ہوتا ہے؟ ان تفاصیل میں اولیاء اللہ کے مختلف اقوال ہیں، ہر سلسلہ اس بارے میں ایک الگ مشرب رکھتا ہے۔
چشتی حضرات صرف ایک لطیفہ کے قائل ہیں اور وہ ”لطیفۂ قلب“ ہے جبکہ نقشبندی اور قادری حضرات کے نزدیک لطائف کی تعداد 6 ہے اور ان کے نام یہ ہیں:
(1): لطیفۂ قلب۔ (2): لطیفۂ روح۔ ( 3): لطیفۂ سر۔ (4): لطیفۂ خفی۔ (5): لطیفۂ اخفیٰ۔ (6): لطیفۂ نفس۔
تمام سلاسل کے نزدیک لطیفۂ قلب کا مقام اسی جگہ پر ہے جہاں انسان کا دل ہوتا ہے۔
لطیفۂ قلب کے علاوہ باقی پانچ لطائف کے مقام کے بارے میں نقشبندی حضرات میں دو بزرگوں کے اقوال نقل کیے جاتے ہیں۔ ایک حضرت خواجہ معصوم رحمۃ اللہ علیہ (جو حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے صاحبزادے تھے) اور دوسرے بزرگ حضرت آدم بنوری رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ ان دونوں بزرگوں سے حضرت مجدد الف ثانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا سلسلہ بہت پھیلا ہے۔
حضرت آدم بنوری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک لطائف کے مقامات کی تفصیل یہ ہے کہ لطیفۂ روح کا مقام سینہ کے دائیں طرف ہے۔ یعنی سینے میں دل کے دوسری جانب دائیں طرف لطیفہ روح ہے۔ سینہ کے بالکل وسط میں لطیفۂ سر کا مقام ہے۔ لطیفۂ خفی کا مقام پیشانی پر ہے، لطیفۂ اخفی کا مقام تالو کی جگہ پر ہے اور لطیفۂ نفس کا مقام ناف ہے۔
حضرت خواجہ معصوم رحمۃ اللہ علیہ کے مطابق لطیفۂ قلب اور روح کا تو وہی مقام ہے جو بنوری حضرات کے ہاں ہے۔ لیکن باقی لطائف کے مقامات اِن کے نزدیک ذرا الگ ہیں۔ خواجہ معصوم رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک لطیفۂ سر سینہ کے بالکل وسط میں نہیں ہوتا بلکہ قلب کے مقام سے چار انگل اوپر جا کر دو انگل سینہ کے مرکز کی جانب جو مقام آتا ہے یہ لطیفۂ سر کا مقام ہے۔ اسی طرح لطیفۂ روح سے چار انگل اوپر ہو کر دو انگل سینے کی جانب جو مقام ہے وہ لطیفۂ خفی کا مقام ہے۔ پھر ان دونوں کے وسط میں دو انگل اوپر کی طرف لطیفۂ اخفیٰ کا مقام ہے۔ اور پیشانی پر لطیفۂ نفس ہے۔ اگر ان کا نقشہ بنایا جائے تو ایک محراب کی سی صورت بن جاتی ہے۔
بہر حال لطائف کے مقامات جہاں بھی ہیں، لیکن جب انسان ان مقامات پر توجہ کرتا ہے تو لطائف جاری ہو جاتے ہیں۔ سب سے پہلے لطیفۂ قلب جاری کیا جاتا ہے۔
لطیفۂ قلب جاری کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ سالک یکسوئی کے ساتھ قبلہ رخ ہو کر آرام اور اطمینان سے سیدھا بیٹھ جائے جسم کا جھکاؤ ذرا سا قلب کی طرف ہو، زبان تالو کے ساتھ لگی ہوئی ہو، آنکھیں بند ہوں، اس حالت میں یہ تصور کرے کہ میرا دل ”اَللہ، اَللہ“ کر رہا ہے۔ خود اپنی زبان سے ذکر مت کرے، یہ تصور کر لے کہ دل میں بھی ایک زبان ہے اور وہ اس زبان سے ”اَللہ، اَللہ“ کر رہا ہے، مجھے صرف اس کو سننا ہے۔ اس میں انسان مُبَصِّر (دیکھنے والا) کرنے والا نہیں ہوتا۔
یہ معمول تب تک کرتے رہنا ہے جب تک لطیفۂ قلب جاری نہیں ہو جاتا۔ روزانہ اس طرح تصور کرتے رہنے سے لطیفۂ قلب جاری ہو جاتا ہے، بعض لوگوں کا جلدی جاری ہو جاتا ہے، بعض لوگوں کو کافی وقت لگتا ہے، بالخصوص خواتین کا لطیفۂ قلب جلدی جاری ہو جاتا ہے کیونکہ ان میں مردوں کی نسبت یکسوئی زیادہ ہوتی ہے۔ مردوں میں چونکہ یکسوئی کم ہوتی ہے اس لئے انہیں بعض مرتبہ کافی زیادہ وقت لگتا ہے۔ اگر مندرجہ بالا طریقے سے کسی کا لطیفۂ قلب عرصہ دراز تک جاری نہ ہو تو پھر کچھ اور طریقے اختیار کیے جاتے ہیں جن میں سے ایک طریقہ ”حبسِ دم“ ہے۔ اس طریقہ میں اس بات کی مشق کرائی جاتی ہے کہ آدمی ایک سانس میں کتنی مرتبہ ”اَللہ“ کہہ سکتا ہے۔ عموماً مشائخ اس کا آغاز 21 مرتبہ سے کرواتے ہیں اور بڑھاتے بڑھاتے 50 تک لے جاتے ہیں۔ یہ معمول روزانہ فجر اور مغرب کی نماز کے بعد کیا جاتا ہے۔ کچھ حضرات کا لطیفۂ قلب اس طریقہ سے جاری ہو جاتا ہے۔ مجھے میرے شیخ حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے یہ طریقہ بتایا تھا۔
اس کے علاوہ لطیفۂ قلب کو جاری کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی مشائخ میں مستعمل ہے کہ اگر جلدی جلدی لسانی ذکر کروایا جائے تو اس سے خود بخود لطیفۂ قلب جاری ہو جاتا ہے۔ اکثر مشائخ اس کا آغاز پانچ سو کی تعداد سے کراتے ہیں کہ روزانہ پانچ سو مرتبہ جلدی جلدی ”اَللہ اَللہ“ کہا جائے اور جب اس طرح کرتے ہوئے ایک ماہ ہو جائے تو پھر سالک کو کہا جاتا ہے کہ اب دل سے ذکر کرو۔ اگر وہ کر پائے تو بہت اچھی بات ہے، ورنہ پانچ سو کی تعداد کو بڑھا کر ایک ہزار کر دیا جاتا ہے، ایک ماہ بعد پھر قلب سے ذکر کرنے کی کوشش کروائی جاتی ہے، یوں کرتے کرتے آخر لطیفۂ قلب جاری ہو ہی جاتا ہے۔
لطیفۂ قلب کے اجرا کے بعد بالترتیب یکے بعد دیگرے لطیفۂ روح، سرّ، خفی اور اخفیٰ کو بھی جاری کرایا جاتا ہے یہاں تک کہ سارے لطائف چل پڑتے ہیں۔ اس کے بعد ایک اہم مرحلہ آتا ہے جسے سلطان الاذکار کہتے ہیں، سلطان الاذکار کے مرحلہ میں پورا جسم ”اَللہ اَللہ“ کرتا ہے۔ چونکہ اس مرحلہ میں اپنے اوپر قابو رکھنا بہت مشکل ہوتا ہے اس لیے یہ سب سے اخیر میں کرایا جاتا ہے۔
باقی اس موضوع پر بہت تفصیلات ہیں لیکن اس مختصر وقت میں اتنا ہی بتایا جا سکتا ہے، لہٰذا ہم اسی پر اکتفا کرتے ہیں۔
سوال نمبر2:
جب کسی کا لطیفۂ قلب جاری ہو جائے تو کیا پھر وہ ہر وقت خود جاری رہتا ہے یا جس وقت وہ ذکر کرتا ہے اس وقت جاری ہوتا ہے؟
جواب:
جن لوگوں کا لطیفۂ قلب واقعی جاری ہو جاتا ہے تو پھر وہ ہر وقت جاری رہتا ہے لیکن ہر وقت جاری رہنے کا مطلب یہ نہیں کہ ہر وقت محسوس بھی ہوتا ہے، بلکہ بعض اوقات محسوس ہوتا ہے بعض اوقات نہیں ہوتا لیکن ایک بار جاری ہو جائے تو پھر ہر وقت جاری ہی رہتا ہے۔ محسوس اس لئے نہیں ہوتا کیونکہ یہ بہت لطیف چیز ہے۔
در اصل اس کو لطیفہ کہتے ہی اسی لیے ہیں کہ یہ اتنا ہلکا ہوتا ہے کہ اس کا ادراک بہت کم ہوتا ہے۔ جب غور کریں گے اور توجہ مرکوز کریں تب تو محسوس ہو گا ورنہ ضروری نہیں ہے کہ محسوس بھی ہو، لیکن اتنی بات ضرور ہے کہ وہ جاری ہوتا ہے اور چل رہا ہوتا ہے، ہاں! اپنی لطافت کی وجہ سے ہر وقت محسوس نہیں ہوتا۔
ہمارے بزرگ حضرت مسرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے مجھے ایک عجیب بات بتائی تھی کہ جن لوگوں کا لطیفہ جاری ہو جاتا ہے، اکثر اوقات ان کے ساتھ ایسا ہوتا ہے کہ اجرا کے بعد آغاز میں زیادہ محسوس ہوتا ہے پھر آہستہ آہستہ محسوس ہونا کم ہو جاتا ہے، پھر جس وقت انسان سے کوئی گناہ ہوتا ہے، اس کی ترقی کم ہو جاتی ہے اس وقت زیادہ محسوس ہونے لگتا ہے۔ پھر جب انسان توبہ تائب ہو کر اپنے آپ کو گناہوں سے پاک صاف کر لیتا ہے تو پھر لطیفہ واپس اپنی جگہ پہ چلا جاتا ہے اور اس کا محسوس ہونا کم ہو جاتا ہے۔
ان سب لطائف کے اپنے مخصوص اثرات ہوتے ہیں۔ لطیفۂ قلب کا اثر یہ ہوتا ہے کہ اس میں انسان کا دل جنگلوں میں بھاگ جانے کو چاہتا ہے، اسے لوگوں سے وحشت سی ہونے لگتی ہے۔ پھر جب لطیفہ روح چل پڑتا ہے تو اس کی یہ کیفیت ختم ہو جاتی ہے اور وہ واپس دنیا میں آ جاتا ہے۔
ایک خاتون مجھ سے بیعت تھی۔ اس پہ یہ حال آ گیا تھا کہ اسے ہر چیز سے وحشت ہو گئی تھی، دنیا کی کسی چیز میں کوئی دلچسپی نہیں رہی تھی۔ اس کے گھر والے اِس حالت کی وجہ سے بہت پریشان تھے۔ مجھے معلوم ہوا تو میں نے خاتون سے پوچھا کہ آپ کا لطیفۂ روح کیسا ہے؟ اس نے کہا کہ وہ ٹھیک نہیں چل رہا۔ میں نے کہا کہ آپ کی اِس حالت کی یہی وجہ ہے، اب آپ لطیفۂ روح پہ محنت کریں ان شاء الله یہ حالت ٹھیک ہو جائے گی۔ اس نے لطیفۂ روح پہ محنت شروع کی، جب وہ چل پڑا تو اس کی ساری وحشت ختم ہو گئی اور معاملات درست ہو گئے۔
ان لطائف کے اپنے اپنے اثرات ہوتے ہیں۔ شیخِ کامل کی ضرورت اسی لئے ہوتی ہے کہ وہ وقتاً فوقتاً سالک کی رہنمائی کرتا رہتا ہے اور اسے بچا بچا کر منزل تک لے جاتا ہے۔ بہرحال یہ سارے ذرائع ہیں، مقاصد نہیں ہیں۔ ان کو مقاصد نہیں سمجھنا چاہیے صرف ذرائع سمجھنا چاہیے۔ ان کے علاوہ اگر کسی اور طریقے سے بھی مقاصد حاصل ہو جائیں تو کوئی حرج نہیں، ہمیں کسی خاص ذریعہ سے کوئی مطلب نہیں ہے، ہمیں تو مقصد کو حاصل کرنا ہے اور مقصد ہے کیفیت احسان حاصل کرنا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو نصیب فرما دے۔
سوال نمبر3:
جب لطیفۂ قلب جاری ہوتا ہے تو اس میں انسان کا ارادہ شامل نہیں ہوتا، کیا وہ از خود ارادہ کر سکتا ہے؟
جواب:
جی ہاں۔ اس میں ارادہ شامل نہیں ہوتا لیکن اگر انسان ارادہ کر لے تو اسے نیت کا ثواب ملتا ہے۔
سوال نمبر4:
ہم اکثر سنتے ہیں کہ فلاں شخص نے آب حیات پیا ہے۔ کیا اس دنیا میں آب حیات جیسا کوئی پانی موجود ہے؟
جواب:
اس کا تصوف کے ساتھ کوئی تعلق نہیں لہٰذا اس کا جواب دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
سوال نمبر5:
کیا شیخ کے ساتھ معاملات کیے جا سکتے ہیں؟ اگر ہاں، تو کس حد تک رکھے جا سکتے ہیں؟ اگر خود شیخ مرید کے ساتھ معاملات کرے تو مرید کو کیا کرنا چاہیے؟
جواب:
مرید کو چاہیے کہ شیخ کے ساتھ از خود کوئی معاملہ نہ کرے، اگر شیخ خود اس کے ساتھ کوئی معاملہ کر لے تو اس کو اللہ کی طرف سے ایک موقع سمجھے کہ شاید یہ میرے معاملات کی صفائی کے لئے کوئی ذریعہ بنایا جا رہا ہے، کیونکہ میں شیخ کے ساتھ تو محتاط ہی رہوں گا اور کوشش کروں گا کہ مجھ سے کوئی ایسی غلطی نہ ہو، اس طرح میرے معاملات درست کرنے کی مشق ہو جائے گی اور یہ میرے معاملات کی صفائی کا ایک ذریعہ ہو گا۔ باقی یہ بات یاد رہے کہ معاملات شیخ کے ساتھ ہوں یا کسی اور شخص کے ساتھ ہوں معاملات کی صفائی ہر جگہ ضروری ہے۔ مقصود معاملات کی صفائی ہے، اس کا لحاظ ہر جگہ رکھنا چاہیے۔
سوال نمبر 6:
شیخ کو ہدیہ دینے میں کن باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے؟
جواب:
شیخ کو ہدیہ دینے میں صرف ایک ہی بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ محبت کے ساتھ ہدیہ دینا چاہیے۔ بلکہ ہدیہ چاہے شیخ کو دیا جائے یا کسی اور کو، اس میں محبت کا پہلو ہونا ضروری ہے۔ محبت کے ساتھ ہدیہ دینا بھی چاہیے اور اگر کوئی محبت کے ساتھ ہدیہ دے تو قبول بھی کرنا چاہیے۔
ہدیہ دینے کے کچھ آداب ہیں، ان کا خیال رکھنا چاہیے۔ مثلاً:
1۔ ہدیہ کی قیمت نہ پوچھی جائے۔ ایسا کرنا ہدیہ کی تحقیر ہے۔ کیونکہ ہدیہ کی قیمت اہم نہیں ہے، محبت اہم ہے۔
حضرت مولانا فضل الرحمٰن گنج مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک مرید ان سے ملنے آ رہا تھا۔ وہ غریب آدمی تھا، اس کے پاس حضرت کی خدمت میں ہدیہ دینے کے لئے کچھ بھی نہیں تھا۔ اس نے راستے سے یہ سوچ کر کچھ لکڑیاں اٹھائیں کہ حضرت کو یہی لکڑیاں ہدیہ کے طور پہ پیش کروں گا اور حضرت کے پاس جا کر ہدیہ کے طور پہ دے دیں۔ حضرت نے ان لکڑیوں کی اتنی قدر فرمائی کہ خادموں سے فرمایا ان لکڑیوں کو سنبھال کے رکھ دو، جب میں فوت ہو جاؤں گا تو مجھے غسل دینے کے لئے جو پانی گرم کیا جائے اس میں ان لکڑیوں کو استعمال کیا جائے۔
2۔ ہدیہ دینے والا تو ہدیہ کو چھپا کر دے، لیکن ہدیہ لینے والے کو چاہیے کہ اس کو ظاہر کرے اور لوگوں کو بتائے کہ میرے اس دوست نے مجھے ہدیہ دیا ہے۔ ہدیہ دینے والے کی طرف سے محبت کا تقاضا یہی ہے کہ وہ چھپا کے دے جبکہ ہدیہ لینے والے کی طرف سے ہدیہ کی قدر یہ ہو گی کہ اس کو ظاہر کر دے۔
3۔ ہدیہ میں ثواب کی نیت نہیں کرنی چاہیے بلکہ اس کی وجہ صرف اور صرف محبت ہونی چاہیے۔ بلکہ شیخ کو ہدیہ دیتے وقت یہ خیال بھی دل میں نہ ہو کہ اس کی وجہ سے میری کوئی روحانی ترقی ہو جائے۔ خالص محبت کی بنا پر ہدیہ دیں، آگے اللہ کی مرضی ہے، وہ اس کے بدلے جو بھی دے، یہ اس کی منشا پہ منحصر ہے۔
سوال نمبر7:
کیا شیخ کی مجلس میں کسی اور بزرگ کے آنے پر تعظیماً ان کے لئے کھڑے ہو سکتے ہیں، اگر شیخ ان کے لئے کھڑا نہ ہو؟
جواب:
ایک مرتبہ آپ ﷺ تشریف فرما تھے۔ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لائے جو انصار کے ایک قبیلہ کے سردار تھے۔ آپ ﷺ نے ان کے قبیلہ کے لوگوں سے فرمایا:
”قُوْمُوْا اِلٰی سَیِّدِکُمْ“ (صحیح بخاری: 5907)
ترجمہ: ”اپنے سردار کے لئے اٹھ کھڑے ہو“۔
اس سے پتا چلا کہ آپ ﷺ کھڑے ہوئے یا نہیں ہوئے لیکن وہ حضرات کھڑے ہو گئے۔ لہٰذا اپنے شیخ کی مجلس میں کوئی اور بزرگ آئے تو اس کی تعظیم کے لئے کھڑا ہونے کی گنجائش ہے۔
سوال نمبر8:
شیخ کی موجودگی میں شیخ کے بزرگوں کی تعظیم کس حد تک کی جائے؟
جواب:
دل کی کیفیات کو ناپنے کا کوئی آلہ نہیں ہے۔ میں اس سوال کا جواب واقعاتی انداز میں عرض کرتا ہوں تاکہ بات سمجھ آ جائے۔
ایک مرتبہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ اپنے مرید حضرت خواجہ بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کے مہمان ہوئے۔ خواجہ بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کے مرید بابا فرید گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ بھی وہیں موجود تھے۔ ہر ایک کو اپنے شیخ کے ساتھ محبت ہوتی ہے۔ خواجہ بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کو اپنے شیخ کے ساتھ محبت تھی اور بابا فرید رحمۃ اللہ علیہ کو اپنے شیخ کے ساتھ محبت تھی۔ خواجہ بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ نے بابا فرید رحمۃ اللہ علیہ سے فرمایا کہ ذرا جاؤ اور شیخ کے پیر دبا دو۔ وہ گئے، تھوڑی دیر خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کے پیر دبا کر واپس آ گئے اور اپنے شیخ خواجہ بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کے پیر دبانے لگے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے تو آپ کو ان کے پیر دبانے کے لئے کہا تھا، آپ یہاں کیوں بیٹھے ہیں۔ وہ یہ سن کر دوبارہ ادھر چلے گئے لیکن تھوڑی دیر بعد پھر واپس آ کر اپنے شیخ کے پیر دبانے لگے۔ خواجہ بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ نے ذرا غصہ سے کہا کہ میری بات کیوں نہیں سمجھتے۔ انہوں نے کہا: حضرت بات تو سمجھ رہا ہوں لیکن کیا کروں بس دل کی بات ہے۔ یہ دیکھ کر خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: واہ! تم نے تو ایک شہباز کو شکار کیا ہے۔ یعنی ان کی اپنے شیخ سے محبت دیکھ کر حضرت بھی خوش ہو گئے۔
بات یہ ہے کہ اس راہ میں اپنے شیخ کے ساتھ محبت اصل الاصول ہے۔ اس وجہ سے سب سے زیادہ محبت تو اپنے شیخ کے ساتھ ہی ہونی چاہیے۔
حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اگر ایک مجلس میں حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ بھی ہوں اور حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ بھی ہوں تو ہم حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف ایک نظر بھی نہیں دیکھیں گے خواہ حاجی صاحب ان کی طرف ہی دیکھتے ہوں لیکن ہم حاجی صاحب کی طرف ہی دیکھیں گے۔
ان واقعات سے آپ کو بخوبی اندازہ ہو گیا ہو گا کہ شیخ کے ساتھ محبت کس حد تک ضروری ہے۔
سوال نمبر8:
کیا فقہی امور میں بھی شیخ کی اطاعت ضروری ہے؟
جواب:
فقہی امور میں شیخ کا اتباع ضروری نہیں ہے اس میں مفتی کا اتباع ضروری ہے۔ مرید اتنی بات کا خیال ضرور رکھے کہ جن مسائل میں رخصت ہو ان میں شیخ کے ذوق کا احترام کرے اور اس کے سامنے وہ کام نہ کرے جو شیخ کے ذوق کے خلاف ہوں، ہاں شیخ کے سامنے نہ ہو تو پھر اپنے مسلک پر عمل کر سکتا ہے۔ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا مشہور واقعہ ہے کہ وہ حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پہ گئے تھے، وہاں انہوں نے جب نماز پڑھی تو رفع یدین نہیں کیا اور آمین بالجہر بھی نہیں کیا۔ کسی شاگرد نے ان سے پوچھا کہ آپ نے ایسا کیوں نہیں کیا؟ فرمایا: مجھے اس قبر والے سے حیا آتی ہے، ان کے اکرام میں میں نے یہاں رفع یدین اور آمین بالجہر نہیں کیا۔
مرید بھی ایسا ہی کرے کہ ایسے مسائل میں اپنے شیخ کے ذوق کا احترام کرے اور ان کے سامنے وہی عمل کرے جو ان کے ذوق کے مطابق ہو۔
سوال نمبر9:
تبرک کی شرعی حیثیت کیا ہے اور بزرگوں کے تبرکات کیا ہوتے ہیں؟
جواب:
”تبرک“ قرآن پاک سے ثابت ہے۔ دوسرے پارے کے اخیر میں طالوت علیہ السلام کا واقعہ بیان ہوا ہے کہ بنی اسرائیل کو حکم ملا کہ طالوت کو اپنا بادشاہ بنا لو۔ بنی اسرائیل کے مالدار لوگ اس پہ خوش نہیں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کو بادشاہت کیوں دی گئی ہے حالانکہ ہم لوگ اس سے زیادہ مستحق ہیں، اس کے پاس مال و دولت کا نام و نشان نہیں ہے، پھر یہ بادشاہی کا مستحق کیسے ہو سکتا ہے۔ اللہ کی طرف سے جواب آیا کہ ان کے پاس مال نہیں ہے لیکن ہم نے ان کو دو چیزیں دی ہیں۔ (1) علم (2) مضبوط جسم۔ اس کے علاوہ اس کی بادشاہی کی ایک نشانی یہ ہو گی کہ اس کی بادشاہت کے دوران بنی اسرائیل کو وہ تابوت مل جائے گا جس میں موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام کی آل کا ترکہ اور سکینہ ہے۔
در اصل اس تابوت میں حضرت موسی و ہارون علیہما السلام کے تبرکات موجود تھے۔ گذشتہ امتوں اور گذشتہ انبیاء میں بھی تبرکات رکھنے کا رواج تھا۔ جس انداز میں اللہ پاک نے قرآن مجید میں ان تبرکات کا ذکر کیا ہے اس سے تبرکات کا مستحسن ہونا ثابت ہوتا ہے۔
تبرک کا لغوی معنی ”برکت حاصل ہونا“ ہے اور اصطلاحاً تبرک اس چیز کو کہتے ہیں جو برکت کا ذریعہ ہو۔ ان تبرکات کی نسبت اولیاء اللہ کی طرف ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ تبرکات بھی اللہ کے ساتھ تعلق کا ایک وسیلہ اور ذریعہ بن جاتے ہیں۔ تبرکات کی زیارت میں اسی تعلق کو بڑھانے کی نیت ہوتی ہے۔ اگر کوئی اس نیت سے تبرکات کی زیارت کر لے تو اسے تعلق میں ترقی بھی حاصل ہوتی ہے اور سکون بھی حاصل ہوتا ہے۔ بزرگوں کے تبرکات میں بزرگوں کی خصوصی نسبتیں ہوتی ہیں۔ ان نسبتوں کے اجرا میں تبرکات کا بڑا دخل ہوتا ہے۔ مفتی نعیم صاحب جب ہمارے ساتھ کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پہ حاضر ہوئے تھے تو ان کو کچھ کیفیات حاصل ہوئیں، انہوں نے مجھ سے ان کیفیات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ چیزیں ویسے آسانی سے حاصل نہیں ہوتیں لیکن ایسے مقامات پر آسانی سے حاصل ہو جاتی ہیں۔
سوال نمبر10:
اس بارے میں رہنمائی فرما دیجئے کہ شیخ کی صحبت اور معمولات میں سے کس چیز کو فوقیت حاصل ہے؟
جواب:
معمولات بھی اہم ہیں اور صحبت بھی اہم ہے۔ دونوں کی اپنی اپنی مستقل حیثیت ہے۔ اگر صحبت کی مثال بیج ڈالنے کی سی ہے تو معمولات کی مثال زمین ہموار کرنے کی سی ہے۔ اگر صحبت کی مثال ایسے ہے جیسے پانی پینا، تو معمولات کی مثال ایسے ہے جیسے کھانا کھانا۔ دونوں چیزیں ہی اہم ہیں۔ دونوں کو اپنے اپنے وقت پہ کیا جائے گا تب ہی اصلاح کا کام آگے چلے گا، اگر ان میں سے ایک میں بھی کوتاہی برتی گئی تو اصلاح کا کام نا مکمل اور ادھورا رہ جائے گا۔ لہٰذا معمولات بھی ہونے چاہئیں اور شیخ کی صحبت بھی ہونی چاہیے۔ ان دونوں کا آپس میں تقابل نہیں کرنا چاہیے۔ البتہ معمولات میں سے لسانی ذکر کے بارے میں ایک خاص بات یہ ہے کہ جب انسان شیخ کی مجلس میں ہو تب لسانی ذکر نہیں کرنا چاہیے اور قلب کو شیخ کی طرف متوجہ رکھنا چاہیے۔ شیخ کی مجلس میں یہ نیت ہو کہ میرے شیخ کے قلب پر جو فیضان الٰہی آ رہا ہے اس میں سے مجھے بھی اپنا حصہ مل رہا ہے، اور کوئی مرید اس فیض سے اپنا حصہ تب ہی حاصل کر سکتا ہے جب شیخ کی مجلس میں زبان کو روک کر دل کی پوری توجہ کو شیخ کی طرف مرکوز رکھے۔
سوال نمبر11
اگر لسانی ذکر کے دوران کوئی آ جائے تو کیا ذکر روک کر اسے سلام کیا جا سکتا ہے، یا سلام کا جواب دیا جا سکتا ہے؟
جواب:
جس وقت لوگ آ جائیں، اس وقت لسانی ذکر کو روک کر سلام کرنا چاہیے یا جواب دینا چاہیے۔ سلام کرنے یا جواب دینے کے بعد اپنا ذکر دوبارہ شروع کر لیا جائے۔ البتہ قرآن پاک کی تلاوت میں ایسا کرنا ذرا مشکل ہوتا ہے اس لئے جب انسان ایسی جگہ پہ بیٹھا ہو جہاں لوگوں کی آمد و رفت زیادہ ہو تو لسانی ذکر ہی کرے، ہاں اگر تنہائی کا موقع ہو تو تلاوت کر لیا کرے۔
سوال نمبر12:
امتحانات کے دنوں میں معمولات میں کچھ کمی بیشی ہو گئی تھی۔ اب امتحانات ختم ہو چکے ہیں، جو کمی بیشی رہ گئی تھی اب سے پورا کر رہی ہوں اور ساتھ ساتھ روزانہ کے معمولات بھی جاری ہیں۔
میری شدید خواہش ہے کہ ان چھٹیوں کو ضائع نہ ہونے دوں اور اللہ پاک کا قرب حاصل کر لوں۔ اللہ پاک مجھے خصوصی کامیابی نصیب فرمائے۔
حضرت جی ان چھٹیوں میں کن کتابوں کا مطالعہ کروں۔ ابھی تک حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے مواعظ نہیں پڑھے ہیں۔ اس کے علاوہ گھر میں بہت سی کتابیں ایسی ہیں جو نہیں پڑھیں۔ مثلاً فضائلِ اعمال، تحفۂ خواتین، حیاتُ الصحابہ اور بہشتی زیور۔ یہ کتابیں تھوڑی بہت پڑھی ہیں لیکن مکمل نہیں پڑھیں۔ مطالعہ کی کیا ترتیب رکھوں۔ روزانہ ہر کتاب تھوڑی تھوڑی پڑھوں یا پہلے ایک کتاب ختم کروں، اس کے بعد کوئی اور کتاب پڑھوں۔ ”معارف القرآن“ اور ”اسوۂ رسول اکرم ﷺ“ بھی موجود ہیں ان کے بارے میں بھی رہنمائی فرما دیں۔
جواب:
ماشاء اللہ یہ بڑا اچھا ذوق ہے۔ دو قسم کے اذکار ہیں: غذائی ذکر اور علاجی ذکر۔ علاجی ذکر میں ناغہ بالکل نہیں کرنا چاہیے۔ اس سے بہت نقصان ہوتا ہے، جس کی تلافی اگلے دن دگنا ذکر کرنے سے بھی نہیں ہو سکتی۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے آپ بیمار ہوں، ڈاکٹر نے آپ کو روزانہ پیرا سیٹا مول کی تین گولیاں کھانے کی ہدایت کی ہو اور آپ اس میں ایک دن کا ناغہ کر دیں تو اگلے دن چھ گولیاں کھانے سے اس کی تلافی نہیں ہو سکتی، اسی طرح علاجی ذکر میں بھی ناغہ کی تلافی نہیں ہوتی، صرف نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔ جبکہ غذائی ذکر یا ثوابی ذکر میں ایسا ہو سکتا ہے کہ اگر ایک وقت نہیں ہو سکا تو دوسرے وقت میں زیادہ کر کے اس کی تلافی کر لی جائے۔ لہٰذا علاجی ذکر میں سستی اور ناغہ سے مکمل طور پر بچیں۔
ما شاء اللہ۔ یہ بہترین خواہش ہے کہ یہ چھٹیاں ضائع نہ ہوں۔ خواتین میں اللہ پاک نے یکسوئی اور انابت کی صفات رکھی ہوئی ہیں۔ کیسا اچھا ذوق ہے کہ لوگ چھٹیوں میں سیر سپاٹے کا شوق رکھتے ہیں مگر اِن کو شوق ہے کہ اللہ کا قرب حاصل کر لیں۔ اللہ پاک نصیب فرمائے۔ آمین۔
کتب کے مطالعے کی ترتیب یہ رکھ لیں کہ سب سے پہلے تو بہشتی زیور مکمل کی جائے، کیونکہ یہ عورتوں کے لئے خاص کتاب ہے، اس کو شروع سے آخر تک پورا پڑھ لیا جائے۔ اس کے بعد ”فضائل اعمال“ کا مطالعہ شروع کریں اور روز تھوڑا تھوڑا پڑھ لیا کریں کیونکہ یہ ایک دن میں ختم کرنے والی کتاب نہیں ہے، یہ تعلیم کے لئے ہے اس لئے اس میں سے تھوڑا تھوڑا حصہ روزانہ پڑھ لیا جائے۔ ”تحفۂ خواتین“ بھی مناسب ہے اور مواعظ پڑھنا بھی بہتر ہے لیکن مواعظ کا اثر زیادہ ہے، مواعظ کا مطالعہ ضرور کریں۔
معارف القرآن کے بارے میں ہمارا طریقہ یہ ہے کہ روزانہ معارف القرآن کے تین چار صفحات پڑھ لئے جائیں، ترتیب کے ساتھ آگے بڑھتی رہیں۔ اور اسوہ رسول اکرم ﷺ کا مطالعہ بہت مفید ہے لیکن اس کی ترتیب ایسی رکھی جائے کہ آہستہ آہستہ، سمجھ سمجھ کر پڑھی جائے۔ اس کے لئے روزانہ کے کوئی دس پندرہ منٹ مقرر کر لیے جائیں اور اس وقت تھوڑا سا حصہ پڑھ لیا جائے۔ یہ طریقہ بہتر رہے گا۔
سوال نمبر13:
پانچوں لطائف پہ مراقبہ جاری ہے۔ پہلے 25 منٹ ”اَللہ اَللہ“ پھر 25 منٹ ”لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ“ اور اس کے بعد سات اسماء مبارکہ ہیں۔ ”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ الرَّحْمٰنُ، اَلرَّحِیْمُ، اَلْعَلِیْمُ اَلْفَتَّاْحُ، اَلنُّوْرُ، اَلسَّلَاْمُ“ مراقبہ اور نماز کے دوران خیالات بہت زیادہ منتشر ہوتے ہیں۔ ابھی تک اللہ پاک کا دھیان نہیں جما سکی اور نہ ہی کیفیت احسان پہ عمل درآمد کر پائی ہوں۔
جواب:
آپ یہ معمول مستقل مزاجی سے جاری رکھیں۔ ان شاء اللہ خیالات بھی مجتمع ہو جائیں گے اور کیفیتِ احسان بھی حاصل ہو جائے گی۔
سوال نمبر14:
حضرت جی مجھے یہ بات اپنے آپ سے بدظن کرتی ہے کہ میں بظاہر تو بہت نیک لگتی ہوں گی لیکن مجھے خود پتا ہے کہ میں کیسی ہوں۔ ظاہر ہے جب کیفیت احسان ہی حاصل نہیں ہے جس پر دین کی عمارت کھڑی ہوتی ہے تو پھر کیسی نیکی اور کیسی پرہیزگاری۔ پھر بھی اللہ پاک کا بے انتہا کرم ہے کہ اس نے کچھ نہ کچھ عنایت فرمایا ہے۔
جواب:
آپ پریشان نہ ہوں۔ آپ کو اپنے اوپر جو بد گمانی ہے یہی علامت ہے اس بات کی کہ آپ اس راستے پہ ترقی کی طرف گامزن ہیں۔ اس معاملے میں اپنی ذات پر بد گمانی اچھی بات ہے۔ حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ مجھے اپنے شیخ سے دو چیزیں حاصل ہوئی ہیں: ایک تو یہ کہ اپنے اوپر کبھی نیک گمان نہ کرو اور دوسری یہ کہ کسی اور کے اوپر بد گمانی نہ کرو۔ لہٰذا اپنے اوپر اس بات کی بد گمانی اچھی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ مزید توفیقات سے نوازے۔
سوال نمبر15:
حضرت جی میری قضائے عمری رہتی ہے۔ ہر مرتبہ چھٹیوں میں کوئی نہ کوئی مسئلہ ایسا پیش آ جاتا ہے جس کی وجہ سے میرے سارے منصوبے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ قضائے عمری ادا کرنے میں بہت سستی ہے۔ موت کی یاد نہیں آتی اس لئے دل زنگ آلود ہے اور اس کی بنا پر بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔
جواب:
قضائے عمری کے لئے یہ طریقہ اختیار کریں کہ ہر نماز کے ساتھ ایک قضا نماز پڑھ لیا کریں۔ ایسے حالات کا پیش آنا جس سے انسان کے اپنے ارادے اور منصوبے دھرے کے دھرے رہ جائیں، یہ اللہ تعالیٰ کی معرفت کی ایک بہت بڑی دلیل اور ذریعہ ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا تھا کہ میں نے اللہ کی معرفت اس طرح حاصل کی کہ میں جو کرنا چاہتا ہوں وہ مجھ سے ہو نہیں پاتا۔ میرے ارادے ناکام ہو جاتے ہیں، میں نے اپنے رب کو اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے پہچانا ہے۔
سوال نمبر16:
حضرت جی میرے لئے بہت سی دعائیں کریں کہ اللہ پاک میری مدد فرمائے۔ میں خود بھی دعا کرتی ہوں اور کوشش بھی کرتی ہوں لیکن میری کوشش نا پائیدار ہے، کچھ عرصہ معمول پہ عمل کرتی ہوں بعد میں پھر چھوٹ جاتا ہے۔
جواب:
اللہ تعالیٰ مزید توفیقات سے نوازے اور صحیح ذوق عطا فرما دے۔ اللہ جل شانہ اس راستہ کی تمام کامیابیاں نصیب فرمائے۔
سوال نمبر17:
الحمد للہ روزانہ پانچ ہزار مرتبہ درود پاک پڑھنے کی توفیق مل گئی ہے۔
جواب:
اللہ کا شکر ہے۔ فَلِلّٰہِ الْحَمْدُ۔
سوال نمبر18:
حضرت جی دعا، نصیحت اور رہنمائی کی اشد ضرورت ہے۔
جواب:
میں سب کے لئے دعائیں کرتا ہوں اور بوقت ضرورت نصیحتیں اور رہنمائی کا فریضہ بھی سر انجام دیتا ہوں۔ آپ کو جس وقت پر جس رہنمائی کی ضرورت ہو اللہ جل شانہ وہ آپ کو نصیب فرما دے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ