اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال نمبر1:
اسلام دین فطرت ہے، اس سے کیا مراد ہے؟
جواب:
بڑا اچھا سوال ہے۔ ”اسلام دین فطرت ہے“۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اسلام فطری تقاضوں کا مخالف نہیں ہے۔ یعنی جو بھی انسان کے فطری تقاضے ہیں، مثلاً کھانا، پینا، سونا، شادی کرنا، کپڑے پہننا اور ستر کو چھپانا وغیرہ۔ اسلام میں ایسی کوئی بات نہیں ہے جو ان فطری تقاضوں اور فطرت کے خلاف ہو۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ کسی بھی چیز میں ایک خاص حد سے تجاوز کرنے سے منع کیا گیا ہے مثلاً بال ایک خاص حد سے نہ بڑھنے دینا، ناخنوں کو حد سے نہ بڑھنے دینا۔ مردوں کے لیے داڑھی مقرر کرنا، عورت کے لیے سر کے بال رکھنے کا حکم دینا۔ یہ سب چیزیں فطرت ہیں۔ اسلام نہ صرف فطری تقاضوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے بلکہ اس پر اجر بھی دیتا ہے اور اسے دین کے تقاضوں میں شمار کرتا ہے۔ جبکہ دوسرے مذاہب بعض فطری تقاضوں کی مخالفت کرتے ہیں۔ مثلاً عیسائیوں کے ہاں شادی کی اجازت تو ہے لیکن اسے بہتر نہیں سمجھا جاتا۔ راہب لوگ شادی نہیں کرتے اور سمجھتے ہیں کہ ہم زیادہ ثواب کما رہے ہیں۔ حالانکہ ہمارے ہاں (دین اسلام میں) شادی کرنے والا زیادہ ثواب کما رہا ہے، کیونکہ وہ سنت پر عمل کر رہا ہے۔ بلکہ ہمارے لیے یہ فرما دیا گیا ہے کہ ”لَا رَھْبَانِیَّۃَ فِی الْاِسْلَامِ“۔ اسلام میں رہبانیت نہیں ہے۔ اسلام ایک فطری زندگی گزارنے کے طریقے بتا رہا ہے۔ ہاں اگر اپنے نفس کی خواہشات کی وجہ سے فطری زندگی گزارنے میں مشکل پیش آ رہی ہو تو نفس کی خواہشات کو روک دیا جائے۔ نفس کا تقاضا وقتی طور پر ہوتا ہے، وہ عارضی بات ہوتی ہے۔ جب وہ مسئلہ حل ہو جائے اور زور ٹوٹ جائے تو پھر اسے نارمل سطح پر لایا جاتا ہے۔ اس وجہ سے کہتے ہیں کہ اسلام دین فطرت ہے۔
سوال نمبر2:
اصحاب کہف کی قرآن میں جو فضیلت ہے۔ کیا وہ اپنے ایمان کو بچانے کے لیے ہے؟
جواب:
ما شاء اللّٰہ اچھا سوال ہے، کیونکہ اس میں ایک ضروری بات کی طرف اشارہ ہے۔ وہ یہ ہے کہ ”اللّٰہ جل شانہ پر ایمان“ یہ بھی ایک فطرت ہے۔ اور اللہ جل شانہٗ کا انکار بڑی خلاف فطرت بات ہے۔ اس وجہ سے انسان کو اپنے ایمان کی حفاظت مرتے دم تک کرنا چاہیے۔
اللہ پاک کی طرف سے حکم ہے:
﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِهٖ وَ لَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ﴾ (آل عمران: 102)
ترجمہ: ”اے ایمان والو! دل میں اللہ کا ویسا ہی خوف رکھو جیسا خوف رکھنا اس کا حق ہے، اور خبر دار! تمہیں کسی اور حالت میں موت نہ آئے، بلکہ اسی حالت میں آئے کہ تم مسلمان ہو“۔
یعنی تمہیں ایسی حالت میں نہیں آنی چاہیے کہ تم مسلمان نہ ہو۔ بہرحال ایمان موت تک رہنا چاہیے۔ جب یہ بات سمجھ میں آ گئی، سامنے آ گئی تو پتا چلا کہ ہر وقت اپنے ایمان کی حفاظت رکھنا لازم ہے۔ اگر ایسے حالات ہوں کہ انسان کا ایمان خطرے میں پڑ جائے اور اس میں اتنی قوت نہ ہو کہ ان حالات کا مقابلہ کر سکے تو اپنے ایمان کو بچانے کے لیے روپوش ہو جانا بڑی اہم اور ضروری بات ہو گی تاکہ ایمان بچ جائے۔ ایسے لوگ جو ان حالات میں ایمان کی خاطر روپوش ہو جاتے ہیں وہ بہت زیادہ درجات کے لائق و حامل ہوتے ہیں۔ اصحاب کہف نے اپنے ایمان کو بچایا اور کفر کا جو پورا ایک نظام تھا، اس کا ساتھ نہیں دیا، اس کی ہاں میں ہاں نہیں ملائی اور اپنے آپ کو محفوظ رکھا، غار میں چلے گئے۔ اس وجہ سے اللّٰہ پاک ان کو اتنا مقام دے دیا۔
حدیث شریف میں ہے کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ انسان کی سب سے قیمتی چیز بکری ہو گی اور وہ اس کو لے کر اپنا ایمان بچانے کے لئے ایک غار سے دوسرے غار میں جائے گا۔
سوال نمبر3:
کیا سورۂ نمل میں چیونٹی کا واقعہ دوسروں کی خیر خواہی کی وجہ سے ہے؟
جواب:
چیونٹی کا جو واقعہ ہے، اس وقت پوری تفصیل تو یاد نہیں ہے۔ اور معاملہ قرآن کا ہے لہذا اس کے بارے میں گفتگو کرنا مناسب نہیں ہے۔ البتہ اتنی بات یاد ہے کہ یہ واقعہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے ساتھ پیش آیا تھا۔ چونکہ اس وقت میرے ذہن میں اس کا پورا استحضار نہیں ہے اور میں راستے میں ہوں میرے سامنے قرآن پاک بھی نہیں ہے تاکہ میں اس کو ذرا دیکھ کے بتا سکوں۔ لہذا اس کو مؤخر کر لیا جائے۔
سوال نمبر4:
Rationalists claim that one cannot prove the existence of God. The classical argument of everything is that a creator fails because it is self contradictory, that is, who created God? Islam forbids us to ask this question and there is also stress to think rationally in the universe, in ourselves and the world etc. Even Allama Iqbal in his lecture says that the argument that everything has a creator is logically invalid. The only study left is faith, blind and irrelevant to logic. To just have a belief is a faith in God. After seeing proof of existence is the inferior faith on غیب unseen. Please clarify the confusion
جواب:
اگر میں اس کا جواب اردو میں دوں تو بہتر ہے۔ ویسے انگریزی میں بھی دیا جا سکتا ہے لیکن اکثر سامعین اردو والے ہیں اس لئے پہلے اردو میں جواب دیتا ہوں۔ انہوں نے یہ پوچھا ہے کہ اللّٰہ جل شانہ کی موجودگی کے بارے میں جو دلیل دی جاتی ہے وہ rational (عقل پر مبنی) نہیں ہے کیونکہ اگر کوئی سوال کر لے کہ خدا کا پیدا کرنے والا کون ہے تو اسلام اس سوال سے روکتا ہے۔ اس وجہ سے اگر کوئی عقلیت کی بنیاد پر بات کرتا ہے تو اس کے نزدیک یہ دلیل کافی نہیں ہو گی، اور اس بارے میں سوال نہ کرنا بھی غلط ہوگا، کیونکہ اسلام میں اس چیز سے روکا گیا ہے۔
میں اس بارے میں ایک بات عرض کرنا چاہتا ہوں۔ ہمارے ایک دوست ہیں فواد صاحب۔ پائلٹ ہیں۔ اللّٰہ جل شانہ ان کو سلامت رکھے، نوجوان آدمی ہیں۔ وہ اکثر ایسے لوگوں کا پیچھا کرتے ہیں جو اِس قسم کی باتیں کرتے ہیں، پھر ان کو چپ بھی کراتے ہیں۔ ان کی theory یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں:
"From nothingness to nothingness and from God to God"
اگر دونوں پہ اعتراضات کیے جائیں تو "From nothingness to nothingness" کے جوابات میں ایک عام آدمی بھی کہتا ہے کہ یہ غلط ہے۔ جبکہ دوسرا پہلو ہے "From God to God"۔ اس میں بھی بعض چیزیں ہماری سمجھ میں نہیں آئیں گی لیکن اس سے فوری تقاضے پورے ہو جاتے ہیں۔
مثلاً میں یہ کہتا ہوں کہ کوئی بھی چیز خود سے بن نہیں سکتی۔ میری اس بات کو کوئی بھی رد نہیں کر سکتا۔ کیونکہ کسی چیز کا خود سے بننا تو بنیاد کے ہی خلاف ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی بھی کام خود سے نہیں ہوتا۔ مثلاً Entropy ایک اصول ہے۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ چیزوں میں بگاڑ آتا ہے، یہ بگاڑ وقت کے ساتھ بڑھتا ہے۔ اگر کوئی ایسی طاقت نہ ہو جو بگاڑ سے محفوظ کر سکے تو یہ بگاڑ بڑھتا جائے گا۔ یہ Entropy ہے۔ جو چیزیں ترتیب میں ہیں، اس ترتیب میں برقرار رکھنے کے لیے کسی طاقت کی ضرورت ہے۔ لہٰذا جو چیز ترتیب میں نہیں ہے اسے ایک ترتیب میں لانے کے لیے کسی طاقت کا ہونا ضروری ہو گا یا نہیں؟ یہ ایک سادہ سا سوال ہے جو ہمارے سائنسی اعداد و شمار کے تقاضے کے عین مطابق ہے۔
اس پہلے سوال میں ہی مخالفین چپ ہو جاتے ہیں۔ وہ لوگ اس بارے میں کچھ بات نہیں کر سکتے۔ ظاہر سی بات ہے کہ جب ہر چیز نے بگاڑ کی طرف ہی جانا ہے، اور اگر بگاڑ سے روکنے والی کوئی چیز نہیں ہے تو وہ بگاڑ رک نہیں سکتا تو جو چیز پہلے سے موجود ہی نہیں ہے اسے کو وجود میں لانا اور ایک ترتیب میں لانا کسی طاقت کے بغیر کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟ اگر بگاڑ سے روکنا کسی طاقت کے بغیر ممکن نہیں تو یہ وجود میں آنا بھی کسی طاقت کے بغیر نا ممکن ہے۔
اس سوال کے سامنے یہ لوگ خاموش ہو سکتے ہیں۔ اس کے بعد اگلا سوال کہ اگر کوئی ایسی طاقت ہے جس نے سب کچھ پیدا کیا تو پھر اُس کو کس نے پیدا کیا۔ یہ مزید تفصیل والی بات ہے۔ اگر کسی کی سمجھ میں بنیاد آ جائے اور تفصیل سمجھ میں نہ آئے تو کہا جا سکتا ہے کہ اس کی عقل اور علم اتنا نہیں ہے کہ یہ ان تفاصیل کو سمجھ سکے۔ یعنی ایک چیز ہے تو سہی لیکن آدمی کی عقل اتنی نہیں ہے کہ اس کو سمجھ سکے۔ ہم اس کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ اس کا علم ہمیں نہیں دیا گیا، ہم لوگ اس کا علم نہیں جانتے۔ کیونکہ تفصیلی علم کا حساب الگ ہوتا ہے۔ جیسے ایک کمپیوٹر یا کیلکولیٹر اگر بنیادی حساب 2 ضرب 2 بھی نہ کر سکے تو لوگ کہیں گے کہ یہ کیسا کمپیوٹر ہے، یہ کیسا کیلکولیٹر ہے۔ ایسی چیز کو کوئی کمپیوٹر یا کیلکولیٹر کہے گا ہی نہیں۔ البتہ اگر وہ کمپیوٹر کوئی بہت مشکل سوال حل نہ کر سکے تو پھر کہیں گے کہ اس کمپیوٹر کی reach (پہنچ) یہاں تک ہے۔ اسی طرح اس معاملے میں ہم یہ کہتے ہیں کہ ہماری سمجھنے کی طاقت اور سوچ اس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہے۔ ہمیں اسی وجہ سے اس بارے میں سوال کرنے سے روکا گیا۔ ممانعت کی وجہ یہ نہیں کہ اس سوال کا جواب ہے ہی نہیں۔ جواب ہو گا تو ضرور لیکن ہماری range (بس) سے باہر ہے، ہم لوگ اسے سمجھ نہیں سکتے، ہماری عقل اتنی نہیں ہے۔ البتہ بنیادی چیزوں میں rationalism (عقلیت) کو نہیں روکا گیا۔
لہٰذا اس دلیل کا جواب کوئی نہیں دے سکتا کہ کوئی چیز بغیر خالق کے کیسے وجود میں آ سکتی ہے۔
سوال نمبر5:
اسلامی بینکنگ کے بارے میں کچھ وضاحت فرما دیں، اور کیا سلامی بینکنگ کے ذریعے گاڑی وغیرہ لی جا سکتی ہے؟
جواب:
میں اکثر ایک بات عرض کرتا رہتا ہوں کہ اگر پروٹوکول کو سامنے نہ رکھا جائے تو پھر مشکلات پیش آئیں گی۔ مثلاً فقہی سوالات ہیں یا تصوف کے علاوہ دوسرے شعبوں کے سوالات ہیں۔ اگر ہم ان پر گفتگو کریں گے تو بات بڑی لمبی ہو جائے گی۔ مثلاً میں ایسے سوالوں کا جواب تھوڑا بہت دے دیتا ہوں، لیکن نہ اتنی Criticle knowledge کسی کے پاس ہو گی کہ وہ اس کو سمجھ سکے اور نہ ہی ساری تفصیلات اس مختصر وقت میں بتائی جا سکتی ہیں۔ ہمارے مولانا تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم نے اس پر بہت تفصیلی کام کیا ہے۔ غالباً اسلامی معیشت پر کئی جلدوں میں ان کی کتاب آ چکی ہے۔ یہ ساری تفصیلات اس کے اندر موجود ہیں۔ جو بھی اس موضوع کو جاننا چاہے گا وہ سب سے پہلے ان resources تک جائے گا جو اس کے بارے میں بتاتے ہیں۔
میں صرف اتنا کہوں گا کہ جو اسلامی بینکنگ ہے، اس میں ہم لوگ یہ کرتے ہیں کہ جو ہمارے مضاربت و مشارکت اور مرابحہ کے قوانین ہیں، اس کے مطابق جو لین دین ہو رہے ہیں، اس کی وجہ سے جو نفع نقصان ہو رہا ہے، اس کی بنیاد پر جو بینکنگ ہو گی وہ ٹھیک ہو گی۔ اس کے علاوہ اگر درمیان میں کوئی سود کا معاملہ آئے گا تو وہ سودی بینکنگ ہو گی، وہ اسلامی بینکنگ نہیں ہو گی۔
اس کی تفصیلات کے لیے میں ایک مختصر سی بات کہوں گا کہ مثلاً آپ گاڑی لینا چاہتے ہیں۔ گاڑی لینے کے لیے ایک تو یہ بات ہے کہ بینک صرف وکیل بن جائے، آپ کو فیکٹری سے مال دلوا دے، خود درمیان سے نکل جائے، خود اس مال پہ قبضہ نہ کرے اور اس کام کے پیسے لے لے تو اس میں سود آ جاتا ہے۔ جب کہ شریعت میں معاملات کا قاعدہ یہ ہے کہ جب تک مال پہ قبضہ نہ کیا جائے تب تک اسے بیچا نہیں جا سکتا۔ اب بیچنے والے تو بینک ہیں اور وہ مال پہ قبضہ بھی نہیں کر رہے۔ جب کہ مسئلہ یہ ہے کہ جب تک مال پہ قبضہ نہ ہو اسے آگے بیچا نہیں سکتا۔ اس صورت میں یہ ایک نا جائز کام ہو جاتا ہے۔ شریعت اس کی اجازت نہیں دیتی۔
اسلامی بینکنگ میں یہ لازم ہو گا کہ وہ پہلے خود اس چیز پر قبضہ کرے گا اور بعد میں اسے آگے کسی کو دے گا۔ اسی طرح اور بہت ساری باتیں ہیں، جن کا خیال نہ رکھا جائے تو معاملہ سودی اور غیر شرعی ہو جائے گا، اس کی اجازت نہیں ہو گی۔ تفصیلات کا موقع نہیں ہے۔ میرے خیال میں اس موضوع پر صحیح کتابیں، جن کا میں نے ذکر کیا ان تک رسائی کی جائے تو اس سوال کا جواب مل جائے گا۔ میں آپ کو ایک نظم سناتا ہوں، جو میں نے راستے میں لکھی ہے۔ چونکہ وہ ضروری ہے، اس وجہ سے میں نے سوچا کہ میں آپ کو سنا دوں۔
کلام
جو دین کے کام میں حرام سے احتیاط نہیں
یہی وجہ ہے کہ خدا بھی ان کے ساتھ نہیں
یہ شہرتوں کے سمندر میں ڈوب جانا ہے
جو یاد غیر میں اس کا شوق ملاقات نہیں
با شرع جائز طریقوں کے ہم مکلف ہیں
جو ہے ممنوع تو وہ حامل نجات نہیں
صورت دین میں دنیا کی طلب اف کیسا
ہے کیا وہ دیں جو مطلوب اس کی ذات نہیں
میں بینروں پہ جو تصویر مولوی دیکھوں
تو سمجھوں ان میں بزرگوں کی وہی بات نہیں
میرے اشعار تو ناراض کریں شبیرؔ
کیا دن کو دن نہ کہوں رات کو میں رات نہیں
٭٭٭٭
کلام
غلطیاں ہر آن پے در پے کریں
پھر دعویٰ اچھائی کا ہم کیسے کریں
نفس اور شیطان جب موجود رہیں
ہم بھروسہ کس طرح خود پہ کریں
ہو گیا مردود شیطان کس وقت
کیا خبر ہم لاکھ بھی سجدے کریں
غلطیاں ہر آن پے در پے کریں
پھر دعویٰ اچھائی کا ہم کیسے کریں
جب ہم معبود کی باتیں کریں
گر عمر سمجھیں منافق خود کو تو
کیسے ہم محفوظ کے دعوے کریں
ہم ہیں غافل اور قوانیں ہیں اٹل
دل کو ہم بیدار تو پہلے کریں
ہم صحابہ کے غلاموں میں رہیں
پیروی میں کام ان جیسے کریں
بخش دے ہم کو خدا ان کے طفیل
اور شبیرؔ کے معاف گناہ سارے کریں
٭٭٭٭
سوال نمبر6:
ناسوت، جبروت، ملکوت اور لاہوت کسے کہتے ہیں؟
جواب:
ناسوت اس کو کہتے ہیں جس میں انسانی نفس شامل ہو۔ جس میں انسانی نفس کے مقابلے کی صورتیں موجود ہوں اس کو ناسوت کہتے ہیں۔ جیسے انسان کے ساتھ روزمرہ کی چیزیں ہوتی ہیں۔
ملکوت اس کو کہتے ہیں جس میں نفس شامل نہ ہو، انسان براہ راست اللّٰہ جل شانہ کا تابع اور فرماں بردار ہو، جیسے ملائکہ ہیں۔
جبروت: اللّٰہ جل شانہ کی صفات ہر چیز پہ حاوی ہیں۔ اس کیفیت کو جبروت کہتے ہیں۔
لاہوت میں یہ ہوتا ہے کہ اللّٰہ کے علاوہ کسی اور پر نظر ہی نہ ہو اللّٰہ کے علاوہ کوئی نظر ہی نہ آئے۔
ناسوت، ملکوت، جبروت اور لاہوت، یہ مختلف کیفیات ہیں۔ ہم لوگ اس کی مختلف تعبیریں کر سکتے ہیں۔ مثلاً جب ہم ذکر کرتے ہیں: ”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ“۔ اس کو ناسوتی ذکر کہتے ہیں۔ اس کے بعد جب یہ ذکر کرتے ہیں: ”اِلَّا اللّٰہ“ اس کو ملکوتی ذکر کہتے ہیں۔ کیونکہ ”لَاۤ اِلٰہَ“ تو نفس کا مقابلہ ہے۔ جبکہ ”اِلَّا اللّٰہ“ میں نفس کا کوئی دخل ہے نہیں، لہٰذا وہ ملکوتی ذکر ہے۔ پھر ”اللّٰہُ اَللّٰہ“۔ اس میں اللہ پاک کی جبروتی صفات حاوی ہو جاتی ہیں۔ اس کیفیت کو ہم جبروت کہتے ہیں۔ اس کے بعد جب ہم صرف ”اَللّٰہ“ اسم ذات کا ذکر کرتے ہیں تو اس کو لاہوتی ذکر کہتے ہیں۔
سوال نمبر7:
تہجد میں دیر سے اٹھا جاتا ہے، اس کا علاج کیسے کیا جائے؟
جواب:
تہجد میں دیر سے اٹھنے سے مراد کیا ہے؟ کیا تہجد پڑھتے نہیں ہیں، یا تہجد پڑھتے ہیں لیکن اٹھنے میں سستی ہوتی ہے۔ آپ کا سوال مبہم ہے۔ اگر مراد یہ ہے کہ تہجد کے وقت اٹھتے دیر سے ہیں، لیکن تہجد کا وقت ہوتا ہے اور تہجد کی نماز پڑھ لیتے ہیں۔ تو اس میں کوئی حرج نہیں، تہجد کی نماز تو ادا ہو جاتی ہے۔ یہ واضح کریں کہ سستی سے مراد کیا ہے؟ اگر سستی مراد یہ ہے کہ نیند سے اٹھنے کی وجہ سے نماز میں سستی ہوتی ہے، آدمی ڈھیلا ڈھالا ہوتا ہے تو ایسا وقتی طور پہ ہوتا ہے۔ کہ اگر انسان وضو صحیح طریقے سے کر لے تو ایسی کوئی بات نہیں ہوتی۔ اگر پھر بھی کوئی مشکل ہو تو پھر یوں کرے کہ صبح اٹھ جائے، وضو کر لے اور اس کے بعد، اگر وقت ہو تو ایک کپ چائے پی لے، چائے پینے کا وقت نہ ہو تو کالی مرچ کے ایک دو دانے چبا لے۔ اس طرح طبیعت ذرا بحال ہو جائے گی اور سستی دور ہو جائے گی۔ پھر کلی کر کے تہجد پڑھ لے۔
کلام
ان دنوں حج کے سلسلے میں کوششیں شروع ہیں۔ ایک صاحب نے حج کے لیے فون کر دیا تو اس پر کچھ اشعار ہو چکے ہیں۔ چونکہ حج ایک محبت کا سفر ہے اس وجہ سے اس کا اشعار کے ساتھ بہت تعلق ہے۔
تشنہ اب تک بھی ہیں کئی باتیں
اب نئے حج کی ہیں نئی باتیں
دل میں پھر شوق ملاقات جاگا
چلنے دو اب جو ہیں چلی باتیں
گرد کعبے کے چلنا پھر ہو نصیب
دل میں کھلمل ہوں پھراس کی باتیں
پھر ادب سے کھڑے سلام کہہ دوں
عرض کردوں وہاں دل کی باتیں
عشق کا یہ سفر نصیب ہو پھر
پھر سے جاندار ہوں مری باتیں
میں فدا اس کی ہر اک بات پہ ہوں
دل پہ ہیں اس کی ہی چھائی باتیں
عشق تکمیل سے عاری ہے شبیؔر
ہاں مگر اس کی ہوں جاری باتیں
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ