اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال نمبر1:
روح کا مرکز روحانی قلب ہے۔ نفس کا مرکز کیا ہے؟
جواب:
بتایا یہ جاتا ہے کہ نفس کا مرکز زیرِ ناف ہے۔ لیکن نفس کے ساتھ معاملہ صرف اس کے مرکز کے ساتھ نہیں ہے۔ روح اور چیز ہے، روح تو کنٹرول کرنے والی ہے۔ یعنی جہاں جہاں سے نفس کی شرارت ہوتی ہے اسے قابو کرنا ہوتا ہے۔ نفس کی ہر ہر چیز پہ قابو پانا ہے۔ اور روح چونکہ خود کنٹرول کرنے والی ہے اس لئے اس کا مرکز اہمیت رکھتا ہے۔ جبکہ نفس کا صرف مرکز نہیں بلکہ ہر ہر چیز اہم ہے۔ آنکھیں بھی اہم ہیں، کان بھی اہم ہیں، زبان بھی اہم ہے، ہاتھ پاؤں بھی اہم ہیں الغرض ہر وہ جگہ جہاں سے شرارت ہو سکتی ہے اس کا خیال رکھنا ہوتا ہے اور اس کی اصلاح کرنی ہوتی ہے۔ جیسے ڈرائیور خود ایک جگہ بیٹھا ہوتا ہے لیکن گاڑی کے پرزے الگ الگ ہوتے ہیں ہر جگہ ہر پرزہ اپنی الگ اہمیت رکھتا ہے۔ لہٰذا نفس کی ہر ہر چیز کی اصلاح کرنا اور اس پہ قابو پانا ضروری ہے۔
سوال نمبر2:
پریشانی اور مشکلات کے لئے آپ نے کچھ وظائف ایک مخصوص تعداد میں بتائے ہوئے ہیں۔ مثلاً ”لَآ اِلٰهَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحَانَكَ اِنِّيْ كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِيْنَ“ (الانیباء: 87) کے ورد سے مصیبت ٹلتی ہے پریشانی دور ہوتی ہے۔ اسی مقصد کے لئے کچھ اور وظائف بھی ہیں۔ کیا ہم وہی وظیفہ پڑھیں جو آپ نے ہدایت فرمایا یا کوئی اور وظائف بھی پڑھ سکتے ہیں۔
جواب:
زیادہ تر پریشانی تین وجوہات سے آتی ہے۔ انسان کے برے اعمال کی وجہ سے آتی ہے۔ اس سے چھٹکارے کے لئے ان گناہوں کو دور کرنا پڑتا ہے، توبہ کرنی پڑتی ہے۔ یا پھر اس وجہ سے مصیبت آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کوئی اجر عطا فرمانا چاہتے ہیں۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ اللہ پاک کے ہاں بعض لوگوں کا کوئی مقام لکھا ہوتا ہے لیکن وہ اپنے اعمال کی وجہ سے وہ مقام حاصل نہیں کر پاتے تو ان کے اوپر کوئی مصیبت یا تکلیف بھیجی جاتی ہے۔ اگر وہ اس تکلیف پر صبر کر لیں تو اللہ تعالیٰ ان کو وہ مقام عطا فرما دیتے ہیں۔ تیسری وجہ یہ ہوتی ہے کہ گناہوں کی سزا کے طور پر مصیبت آتی ہے۔ گناہوں کی سزا، گناہوں کو معاف کروانا اور درجات بڑھانا۔ تین باتیں ہو گئیں۔ چونکہ ان تینوں کا امکان ہر جگہ ہوتا ہے لہذا جب بھی مصیبت آئے تو زیادہ بہتر یہ ہے کہ تینوں کا حق ادا کیا جائے۔ اس لئے جب بھی مصیبت آ جائے تو فوراً توبہ کی جائے، اجر کی امید رکھ کر صبر کیا جائے اور اس کے لئے مناسب علاج معالجہ کے اسباب اختیار کیے جائیں۔ انہی اسباب میں اذکار ہیں، دعا ہے، صلوٰۃِ حاجت ہے۔ ان تمام اسباب کو اختیار کیا جائے۔ مختلف مواقع پہ مختلف بزرگوں نے مختلف باتیں بتائی ہوئی ہیں اور وہ کتابوں میں لکھی ہوئی ہیں۔ ان میں سے ہر ایک ٹھیک ہے، غلط کوئی نہیں۔ لیکن ایک وقت میں سارے کام کرنا ٹھیک نہیں ہے۔ جیسے مختلف کمپنیوں کے تیار کردہ مختلف قسم کے وٹامنز ہوتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک ٹھیک ہوتا ہے لیکن ایک وقت میں سب وٹامنز کو نہیں لے سکتے۔ نقصان ہو جاتا ہے۔ آپ ایسی صورت میں یہ کریں کہ جس کے اوپر زیادہ اعتماد ہو اس کو لے لیں۔ باقیوں کو ٹھیک سمجھیں لیکن خود وہی لیں جس پہ زیادہ اعتماد ہے۔ سب وظائف و اوراد کرنے کی صورت میں انسان مجموعۃ الوظائف بن جاتا ہے، یکسوئی ختم ہو جاتی ہے۔ یکسوئی بہت ضروری ہے۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: یکسوئی ہو چاہے پاس ایک سوئی بھی نہ ہو۔ یکسوئی حاصل کرنے کے لئے انسان کو بعض دفعہ اس قسم کا انتظام کرنا پڑتا ہے کہ صرف ایک کا وظیفہ لینا پڑتا ہے تاکہ یکسوئی میں خلل نہ آئے۔ کیونکہ بہت زیادہ اوراد کرنے کی وجہ سے دو مسائل پیش آتے ہیں: اول: طبیعت میں اذکار سے انقباض پیدا ہو جاتا ہے جو بہت خطرناک ہے۔ دوم: بے اعتمادی پیدا ہو سکتی ہے جو اس سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ لہٰذا جو بتایا گیا ہے اس کو کر کے نتیجہ خدا پہ چھوڑ دے۔ یہ سوچے کہ عین ممکن ہے کہ اس کا اجر مجھے مل جائے، یہ بھی ممکن ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ پاک نے یہ فیصلہ کیا ہو کہ دنیا میں بدلہ نہ ملے بلکہ اللہ پاک آخرت میں اجر دے دیں۔ لہٰذا کوئی وظیفہ کر کے اس کے نتیجہ کے لئے جلد بازی نہیں کرنی چاہیے۔ یکسوئی کے ساتھ عمل کرنا چاہیے اور نتیجہ اللہ پہ چھوڑنا چاہیے۔ یہی مناسب بات ہے ورنہ آدمی پریشانی و پراگندگی میں مبتلا رہے گا اور سمجھے گا کہ میں نے تو یہ بھی کیا، یہ بھی کیا اور یہ بھی کیا مگر پھر بھی میرا کام نہیں ہوا، اب میں کیا کروں۔ اور یہ خطرناک سوچ ہے۔ اس سے انسان نقصان میں پڑ جاتا ہے۔ اس سے تو وہ وظیفہ نہ کرنا ہی بہتر تھا۔ اس معاملے میں مناسب یہی ہے کہ جتنا بتایا جائے اتنا کر لے اور نتیجہ اللہ پر چھوڑ دے۔
سوال نمبر3:
نفس اور شیطان کے شر میں کیا فرق ہے؟
جواب:
یہ بہت اچھا سوال ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ نفس ایک نادان بچے کی طرح ہے۔ اس کو سمجھ ہی نہیں ہے۔ اس کی خواہشیں ہے۔ جب یہ خواہش کرتا ہے تو اس کے نتائج نہیں جانتا یا نہیں سمجھتا۔ اگر اس کو روکا جائے تو خفا ہوتا ہے، چیختا ہے، پریشان ہوتا ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے بچہ کرتا ہے۔ بے شک اس چیز کے حصول اور خواہش کے پورا ہونے پر نقصان ہی کیوں نہ ہوتا ہو۔ مثلاً اگر بچہ پاور پلگ میں انگلی دینے پہ بضد ہو تو بڑے اس کو روکیں گے، وہ نہیں مانے گا لیکن جب پاور پلگ میں انگلی دے گا اور بجلی کا جھٹکا لگے گا تو سب سے زیادہ وہی روئے گا۔ اسی طرح نفس نادانی کی وجہ سے اپنے آپ کو نقصان میں ڈالتا ہے۔ اس کو اپنی خواہش عزیز ہے۔ اس کو گناہ سے سروکار نہیں ہے۔ اس خواہش کے پورا کرنے میں گناہ ہو یا نہ ہو اسے اِس سے کوئی مطلب نہیں ہے۔ لیکن نفس کی اکثر خواہشات بے مہار ہوتی ہیں، لہٰذا نفس ان خواہشوں کو پورا کرنے کے چکر میں گناہ میں پڑ جاتا ہے اور نقصان ہو جاتا ہے۔ نفس کو گناہ میں دلچسپی نہیں ہے، اسے اپنی خواہش پوری کرنے سے دلچسپی ہے۔ اگر وہ خواہش جائز طریقے کے ساتھ پوری کی جائے تو نفس چپ ہو جائے گا کیونکہ اسے گناہ سے غرض نہیں ہے۔ اس لئے کہتے ہیں کہ عفت پیدا کرنے کے لئے شادی کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ وہ ایک خواہش ہے اور اگر وہ جائز طریقے سے پوری ہو جائے تو بس ٹھیک ہے، معاملہ ختم ہو گیا۔ لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو پھر نفس نا جائز طریقہ اختیار کرے گا یا کم از کم اس کے لئے کوشش کرے گا۔ معلوم ہوا کہ نفس نادانی کی وجہ سے سب کچھ کرتا ہے لیکن ہے بہت پُر زور۔ بچہ کی طرح نا سمجھ ہے لیکن بچہ کی طرح کمزور نہیں ہے۔ جیسے ہمارے ارد گرد بعض retarded (پسماندہ) لوگ ہوتے ہیں، ان کا ذہن تو بچے کی طرح ہوتا ہے لیکن وہ جسمانی طور پر پورے قوِی مرد ہوتے ہیں۔ ایسا شخص بچہ تو نہیں ہوتا لیکن اس کی سمجھ بچہ کی طرح ہوتی ہے۔ اُسی طرح ضد کرنا، اُسی طرح چیز کو لینا اس میں پایا جاتا ہے، لیکن اگر وہ کسی چیز کو پکڑ لے تو اس سے چھڑایا نہیں جا سکتا۔ ایسے لوگ بڑے خطرناک ہوتے ہیں کیونکہ طاقت ان میں مرد کی ہوتی ہے اور سوچ بچہ کی ہوتی ہے۔ اسی طرح نفس پر زور ہے لیکن نا سمجھ ہے۔ جبکہ شیطان کا کید (مکر) ضعیف بتایا گیا ہے:
﴿اِنَّ كَیْدَ الشَّیْطٰنِ كَانَ ضَعِیْفًا۠﴾ (النساء: 76)
ترجمہ: ”(یاد رکھو کہ) شیطان کی چالیں در حقیقت کمزور ہیں“۔
شیطان کی چالیں کمزور اس لئے ہیں کہ ان کی حد وسوسہ تک ہے۔ اگر وسوسہ پر عمل نہ کیا جائے تو شیطان کچھ نہیں کر سکتا اور آدمی کے ساتھ زبردستی نہیں کر سکتا، جبکہ نفس زبردستی کر سکتا ہے۔ شیطان کو خواہش پوری کرنے میں دلچسپی نہیں ہے اسے گناہ میں دلچسپی ہے، اللہ سے دوری میں دلچسپی ہے۔ لہذا شیطان کبھی بے لذت گناہ بھی کروائے گا، ایسے گناہ کروائے گا جن کے اندر کوئی لذت نہیں ہو گی، جن سے کوئی خواہش پوری نہیں ہو گی لیکن آدمی گناہ کر رہا ہو گا۔
جب آپ ایک گناہ کا ارادہ کریں اور اس سے بچ جائیں، اس کے ساتھ ہی آپ کا خیال دوسرے گناہ کی طرف منتقل ہو جائے تو سمجھو یہ شیطان کی طرف سے ہے۔ کیونکہ شیطان کو گناہ میں دلچسپی ہے، اسے خواہش پوری کرنے میں دلچسپی نہیں ہے۔ اور جس میں ایک ہی چیز پر اصرار ہو کہ یہی ہونا چاہیے، تو سمجھو یہ نفس کی طرف سے ہے کیونکہ نفس خواہش پوری کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے، گناہ میں دلچسپی نہیں رکھتا۔
اس کا دوسرا ٹیسٹ یہ ہے کہ جو گناہ کفار اور مسلمانوں میں مشترک ہیں وہ نفس کی طرف سے ہیں اور جو گناہ کفار میں نہیں ہیں صرف مسلمانوں میں ہیں وہ شیطان کی طرف سے ہوتے ہیں۔ کیونکہ شیطان کفار کو گناہوں میں نہیں ڈالتا، اسے پتا ہے کہ کفر سے بڑا گناہ کوئی اور نہیں ہے۔ یہ لوگ کفر کر چکے ہیں، لہٰذا یہ مردود تو ہو ہی چکے ہیں۔ اب انہیں گناہوں میں نہ ڈالا جائے اور لوگوں کے لئے نمونہ بنا دیا جائے تاکہ اور لوگ بھی اس کی وجہ سے پھنس جائیں۔ اس وجہ سے مسلمان کے اندر جو گناہ ہوں وہ شیطان کی طرف سے اس وقت ہوں گے جب وہ مؤثر بھی ہوں گے۔
اس لئے میں کہتا ہوں کہ بمقابلہ کافروں کے اچھے کاموں کے مسلمانوں کے نیک اعمال زیادہ قابلِ تعریف ہیں۔ کیونکہ کافروں کے اوپر گناہوں میں ڈالنے والا داعیہ ہی نہیں ہے لہذا وہ اگر کوئی اچھا عمل کرتے ہیں تو اس میں کوئی کمال نہیں ہے لیکن اگر مسلمان اچھا عمل کرے تو واقعی کمال کی بات ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے آندھی کی رفتار ساٹھ میل ہو اور کوئی آدمی اسی کی سمت میں پانچ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے جا رہا ہو تو اس کی رفتار پینسٹھ میل ہو جائے گی لیکن اس کی اپنی رفتار پانچ میل فی گھنٹہ ہو گی باقی رفتار تو آندھی کے دھکیلنے سے مل رہی ہو گی۔ دوسری طرف ایک آدمی اس آندھی کی مخالف سمت میں پانچ میل کی رفتار سے جا رہا ہو تو اس کی رفتار در حقیقت پینسٹھ میل ہے کیونکہ وہ ساٹھ کو بھی عبور کر رہا ہے۔ بظاہر تو اس کی رفتار پانچ میل فی گھنٹہ نظر آ رہی ہے لیکن در حقیقت اس کی رفتار پینسٹھ میل فی گھنٹہ ہے۔ اس وجہ سے مسلمان کے اچھے اعمال زیادہ قابل تعریف ہیں۔ اکثر لوگ اس چیز کو محسوس نہیں کرتے انہیں اس کی وجہ معلوم نہیں ہوتی لہذا مسلمانوں کے اوپر تنقیدیں کرتے رہتے ہیں کہ یہ تو ایسے ہیں، یہ تو ویسے ہیں۔ خدا کے بندو! اللہ کا شکر کرو کہ یہ ایمان کے ساتھ اعمال کر رہے ہیں اور ایمان کے ساتھ اعمال کے اوپر ہی تو زور ہے۔
سوال نمبر4:
توبہ کرنے کے بعد ممکن ہے کہ کوئی ایسی مصیبت آئے جو گناہ معاف کرنے کے لئے ہو۔ اس کے بعد دوبارہ مصیبت آ جائے تو کیا اس کا یہ مطلب ہو گا کہ توبہ قبول نہیں ہوئی تھی؟
جواب:
توبہ کرنے سے گزشتہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں آئندہ گناہوں کے لئے دوبارہ توبہ کرنی پڑتی ہے۔ دوبارہ گناہ کرنے کے بعد اگر کوئی مصیبت آئے تو وہ ان گناہوں کی وجہ سے ہو سکتی ہے۔ مستقبل کے لئے ارادہ تو کیا جا سکتا ہے مگر توبہ نہیں کی جا سکتی۔ توبہ گزشتہ گناہوں پر ہوتی ہے۔ جو گناہ ہو چکے ہیں ان کی توبہ ہوتی ہے اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا ارادہ و عزم ہوتا ہے۔
سوال نمبر5:
ایک آدمی دین اسلام کے مطابق زندگی گزار رہا ہے، اعمال کر رہا ہے اور ایک آدمی نفس کے نہ چاہتے ہوئے بھی اٹھ کے نماز کے لئے کھڑا ہو جاتا ہے اور مجاہدہ کرتا ہے۔ اِس میں اور اُس میں فرق کیا ہے؟
جواب:
اِس میں بات یہ ہے کہ ایک شخص کو کیفیتِ بَسْط حاصل ہے۔ کیفیت بسط اُس کو کہتے ہیں کہ انسان کا جی اچھے اعمال کرنے کو چاہے۔ آدمی کہے کہ بس میں نماز پڑھوں، ذکر کروں، تلاوت کروں، روزے رکھوں، اچھے اچھے کام کروں، اچھے لوگوں کے ساتھ اٹھوں بیٹھوں۔ یہ کیفیت بسط ہے اور یہ اللہ کی نعمت ہے۔ لیکن یاد رہے کہ ابھی آزمائش نہیں آئی، لہذا ابھی امتحان باقی ہے۔
جس کے اوپر کیفیتِ قبض آ جائے تو کیفیت قبض میں یہ ہوتا ہے کہ نہ نماز پڑھنے کو جی چاہتا ہے، نہ ذکر کرنے کو جی چاہتا ہے، نہ تلاوت کرنے کو جی چاہتا ہے، نہ اچھے لوگوں کے ساتھ ملنے کو جی چاہتا ہے، مستقل طور پہ ایک بوجھ محسوس ہوتا ہے۔ ہر اچھے کام کے لئے اٹھنا بہت بھاری نظر آتا ہے۔ ایسی صورت میں یہ آدمی جو عمل کرے گا خالصتاً اللہ کے لئے کرے گا، اس کا کوئی اور مقصد ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ اس کا جی تو چاہ نہیں رہا، اس لئے اسے کسی عمل کا مزہ نہیں آ رہا۔ لہذا وہ مزے کی وجہ سے اعمال نہیں کر سکے گا بلکہ خالصتاً اللہ تعالیٰ ہی کے لئے کرے گا لہذا وہ اس کا عمل زیادہ قابلِ قدر ہو گا۔
دوسری بات یہ ہے کہ آزمائش آ گئی۔ اس آزمائش میں اگر کوئی کامیاب ہو گیا اور اس نے اس کے با وجود عمل نہیں چھوڑا تو سمجھ لو کہ یہ پاس بھی ہو گیا اور اس کا مستقبل بھی محفوظ ہو گیا۔ کیونکہ شیطان اخیر وقت میں یہی کرے گا۔ اگر یہ آدمی ابھی سے پاس ہو گیا تو ان شاء اللہ اُدھر بھی پاس ہو جائے گا۔ یہ محفوظ ہو جائے گا۔ لہذا اگر قبض کی کیفیت آ جائے، دل بالکل نہ چاہے تو سمجھو کہ ماشاء اللہ اچھے دن آ گئے ہیں۔ جیسے آرمی میں مختلف قسم کے امتحانات ہوتے ہیں، پروموشن ٹیسٹ ہوتے ہیں۔ اب جس کا پروموشن ٹیسٹ ابھی تک نہیں آیا تو اس کا مطلب ہے کہ ابھی اس کی ترقی کا وقت نہیں ہوا۔ جس کا امتحان آ جائے تو اس کے لئے خوشی کی بات ہوتی ہے کہ ترقی کا راستہ مل گیا۔ اپنے اپنے لحاظ سے سب کو گزرنا ہوتا ہے۔ جس کی باری ابھی تک نہیں آئی اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ جب قبض کی کیفیت آ جائے، اس میں پاس ہو جائے تو سمجھو کہ اب یہ محفوظ ہے۔ اس لئے کہتے ہیں کہ جس کو جتنا بڑا مقام عطا فرمانا ہوتا ہے اسے اتنی شدید قبض کی کیفیت میں ڈالا جاتا ہے۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے حالتِ قبض میں ایسے ہی حالات تھے۔ فرماتے ہیں کہ اب بھی میں اس کیفیت کو یاد کرتا ہوں تو رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
حالتِ قبض کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ انسان کی بزرگی کی جڑ کٹ جاتی ہے۔ وہ کبھی بھی اپنے آپ کو بزرگ نہیں سمجھ سکتا۔ کبھی بھی اپنے اوپر نیک گمان کرتا ہی نہیں۔ وہ کہتا ہے کہ میں کیا ہوں؟ میں تو گندا ہوں، مجھے تو بس اللہ پاک نے بچایا ہوا ہے ورنہ میں تو کسی قابل نہیں ہوں۔ اس وجہ سے وہ کبھی بھی اپنے اوپر نیک گمان نہیں رکھتا۔ یہ قبض کی برکت ہے۔ حالتِ قبض کی بڑی برکات ہیں۔ جس کے اوپر قبض کی حالت آ جاتی، حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اس کو بڑی بشارتیں دیتے تھے، خوش خبریاں دیتے تھے۔ تاکہ ایک تو اس کے سامنے حقیقت آ جائے اور دوسرا یہ کہ اسے قبض کے برداشت کرنے کا حوصلہ مل جائے۔ کیونکہ اس وقت اس کی ضرورت ہوتی ہے جیسے بیمار کو تسلی دی جاتی ہے کہ آپ کا چہرہ تو ٹھیک ہو رہا ہے، ماشاء اللہ خون آ رہا ہے۔ ایسے وقت میں یہی اس کا علاج ہوتا ہے۔ اسے مایوسی کی باتیں نہیں بتانی ہوتیں بلکہ حوصلے کی باتیں بتانی ہوتی ہیں۔ جو مشائخ کاملین ہوتے ہیں وہ حالتِ قبض میں مبتلا لوگوں کو بشارتیں دیتے ہیں، خوش خبریاں سناتے ہیں تاکہ وہ اس چیز کو برداشت کر سکیں اور اس کے ثمرات حاصل کر سکیں۔
سوال نمبر6:
قبض کا تعلق مجموعی اعمال سے ہے یا انفرادی اعمال سے۔ بعض اوقات آدمی کچھ اعمال تو بشاشت سے کرتا ہے مگر کچھ اعمال کرنے کو اس کا جی نہیں چاہتا، مثلاً ایک آدمی فرض نمازیں پڑھ رہا ہے، مگر نوافل اس کی طبیعت پہ بھاری معلوم ہوتے ہیں، کیا یہ بھی کیفیتِ قبض ہے؟
جواب:
وہ قبض نہیں ہے۔ وہ ایک اور چیز ہے۔ وہ یہ ہے کہ بعض چیزوں میں نفس کو اطمینان حاصل ہو جاتا ہے اور بعض چیزوں میں نفس تنگ کر رہا ہوتا ہے۔ مثلاً کوئی چالیس دن مستقل نماز پڑھے تو اس کو نماز کے بارے میں نفس مطمئنہ حاصل ہو جائے گا۔ اس کے بعد اس کے نفس کے اوپر نماز کا بوجھ نہیں ہو گا بلکہ وہ خوش ہو گا اور خوشی کے ساتھ نماز پڑھے گا۔ یہ آسانی نفس مطمئنہ کی وجہ سے ہے جو اس کو نماز میں حاصل ہو چکا ہے۔ اگر کسی کو تلاوت میں نفسِ مطمئنہ حاصل ہو گیا تو اس کے لئے تلاوت بہت آسان ہو جائے گی۔ کسی کو ذکر پہ نفس مطمئنہ حاصل ہو گیا گا تو اس کے لئے ذکر بہت آسان ہو جائے گا۔ یہ چیز مختلف لوگوں میں مختلف امور کے حساب سے الگ الگ ہوتی ہے۔ لیکن قبض کی کیفیت ساری چیزوں پہ چھا جاتی ہے۔ انسان کا دل بیٹھ سا جاتا ہے۔ آدمی کے لئے دنیا اندھیری ہو جاتی ہے۔ آدمی کہتا ہے کہ میرے پاس تو کچھ بھی نہیں رہا۔ وہ ہر چیز کو ختم سمجھتا ہے۔ وہ کہتا ہے میری آنکھیں بھی کنٹرول سے باہر ہیں، کان بھی کنٹرول سے باہر ہیں، زبان بھی کنٹرول سے باہر ہے۔ میں کر کیا رہا ہوں۔ یہ کیفیت ایسی ہی ہوتی ہے جیسے انسان کو محسوس ہو جائے کہ میری گاڑی کے سارے پرزے Out of order ہو گئے ہیں تو اس وقت وہ کیا سوچے گا؟ بس اللہ پر ہی بھروسہ کرے گا۔ وہ اسی طریقے سے گاڑی چلائے گا کہ ہر قدم پر ”یا اللہ خیر، یا اللہ خیر، یا اللہ خیر،“ کی صدا اس کی زبان پر ہو گی۔ اس وقت وہ اس کے علاوہ اور کچھ کر بھی نہیں سکتا۔ وہ کہے گا کہ میری کوئی چیز درست نہیں ہے۔ کہتے ہیں: ”اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کَل سیدھی“۔ وہ بھی اس طرح محسوس کرے گا کہ میری کوئی بھی چیز ٹھیک نہیں ہے۔ قبض اصل میں یہ حالت ہوتی ہے۔
سوال نمبر7:
اگر کسی کو قبض کی حالت پیش آ جائے تو یہ کتنے عرصہ تک رہتی ہے؟
جواب:
قبض کی کیفیت کتنے عرصہ تک رہتی ہے؟ یہ اصل میں اللہ پاک کا فیصلہ ہوتا ہے۔ اس میں انسان کا کوئی بس نہیں ہے۔ اللہ جل شانہ جس کے لئے جتنا مناسب سمجھتا ہے اتنا عرصہ ہوتا ہے۔ البتہ اس کو دور کرنے کے ذرائع ہیں یا یوں کہہ سکتے ہیں کہ اس کو آسان کرنے کے کچھ ذرائع ہیں، وہ اختیار کر سکتے ہیں۔ قبض کبھی کبھار گناہوں کی وجہ سے بھی آ سکتی ہے۔ یعنی توفیق سلب ہو جانا بھی تو ممکن ہے۔ امکان تو یہی ہے کہ کہیں توفیق ہی سلب نہ ہو چکی ہو۔
دوسری بات یہ ہے کہ کیفیتِ قبض بعض اعمال دینے کے لئے ہوتی ہے۔ یا پھر یہ بات ہوتی ہے کہ یہ کیفیت اپنی کمزوری سامنے لانے کے لئے ہوتی ہے۔ لہٰذا اس میں بہتر یہ ہے کہ آسانی کے لئے ہر ہر چیز کا حق ادا کیا جائے۔ آج کل ڈاکٹر حضرات اس اصول پہ سو فیصد عمل کر رہے ہیں کہ کئی قسم کی دوائیاں اکٹھی دے دیتے ہیں کہ ممکن ہے یہ ہو، ممکن ہے وہ ہو، کسی نہ کسی دوائی سے تو مسئلہ ٹھیک ہو ہی جائے گا۔ وہ اس میں زیادہ سوچتے نہیں ہیں۔ میرے خیال میں یہاں بھی یہی بات ہے کہ اس میں ہر ہر چیز کا حق ادا کیا جاتا ہے کہ توبہ کر لیں، اچھے کی امید رکھیں، یہ سوچیں کہ شاید ترقی کے لئے ہو رہا ہے اور نیک لوگوں کی صحبت میں اٹھیں بیٹھیں تاکہ انسان زیادہ خرابی تک نہ جائے۔
سوال نمبر8:
عاجزی اور انکساری میں کیا فرق ہے؟
جواب:
انکسار ”کسر“ سے ہے۔ کسر کہتے ہیں کمی کو۔ جیسے کہتے ہیں کہ فلاں چیز میں یہ کسر رہ گئی۔ انکسار کا مطلب ہے: ”اپنے آپ کو کمزور سمجھنا۔ عاجزی اور منکسر المزاجی مترادف ہیں، حقیقت میں دونوں ایک ہی چیز ہیں۔
سوال نمبر9:
احساس کمتری اور انکساری میں کیا فرق ہے؟
جواب:
بڑا اچھا سوال ہے کہ احساس کمتری میں اور انکساری میں، یا احساس کمتری اور تواضع میں کیا فرق ہے۔
اگر دو لفظوں میں بتاؤں تو یہ ہے کہ عاجزی، تواضع اور انکساری اللہ جل شانہ کی عظمت کو سامنے رکھ کر ہوتی ہے جبکہ احساس کمتری اپنے نفس کی خواہش کو سامنے رکھ کر ہوتا ہے۔ مثلاً ایک شخص ڈپٹی کمشنر بننا چاہتا ہے۔ اس کے ساتھیوں میں سے کئی ڈپٹی کمشنر ہو گئے لیکن وہ نہ ہو سکا۔ اس کو احساس کمتری ہو گیا۔ دیکھئے اس میں اللہ جل شانہ کا تو کہیں ذکر نہیں ہے۔ یہ تو اپنی ایک خواہش ہے جو پوری نہیں ہوئی، اس کی وجہ سے احساس کمتری ہو گیا۔ دوسری طرف ایک آدمی اللہ کو بڑا سمجھتا ہے، عظیم سمجھتا ہے، ہر وقت اس کے سامنے اپنے آپ کو حاضر سمجھتا ہے۔ اس کو اپنا علم بھی نظر آتا ہے جو اللہ نے دیا ہے لیکن اس کو یہ بھی پتا ہے کہ اللہ پاک اس علم کو کسی بھی وقت سلب کر سکتا ہے اور کسی جاہل کو آن کی آن میں سارا علم دے سکتا ہے۔ اگر میں اس کو کم سمجھوں اور سزا کے طور پر مجھ سے علم چھین لیا گیا اور اس کو دے دیا گیا تو میں کیا کروں گا۔ اس سوچ کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجھ رہا، عالم نہیں سمجھ رہا تو یہ عاجزی ہے، تواضع ہے۔ کیونکہ اللہ پاک کی عظمت کو دیکھتے ہوئے اس میں یہ چیز پیدا ہوئی ہے۔ اس لئے تواضع اخلاقِ حمیدہ میں سے ہے اور یہ بہت اعلیٰ درجہ کے اخلاق حمیدہ میں سے ہے جبکہ احساس کمتری بہت خطرناک قسم کا سفلی پن اور نفسانی بیماری ہے۔
ایک مرتبہ میں نے حضرت کے سامنے کچھ اس قسم کے الفاظ لکھے تھے کہ میں تو یہ نہیں ہوں، میں تو کچھ بھی نہیں ہوں۔ جیسے انسان اپنے آپ کو دیکھتا ہے اور سمجھتا ہے، اس طرح کی کچھ باتیں لکھی تھیں تو حضرت نے فرمایا: بیٹے ساری باتیں ٹھیک ہیں لیکن کہیں احساس کمتری کی طرف نہ چلے جانا کیونکہ احساسِ کمتری انسان کی شخصیت کو مسخ کر کے رکھ دیتا ہے۔ مثلاً ایک شخص ہے، نیک اعمال کر رہا ہے، اس کا اپنے شیخ کے ساتھ رابطہ بھی ہے، معمولات بھی پورے کر رہا ہے اور راہ سلوک پہ چل رہا ہے۔ اس کا ایک دوسرا ساتھی بھی اس کے ساتھ راہ سلوک طے کر رہا ہے۔ ایک کو خلافت ملتی ہے دوسرے کو نہیں ملتی۔ اب اس کے اوپر شیطان کا وار ہو گا۔ شیطان اس سے کہے گا: تجھ میں کیا کمی تھی جو تجھے خلافت نہ ملی اور اس کو مل گئی۔ دیکھیں یہاں پر شیطان کا چکر شروع ہو گیا۔ اب اگر اس نے شیطانی وسوسے کو قبول کرنا شروع کر لیا تو سمجھیں وہ شیطان کے نرغے میں آ گیا اور یہ احساس کمتری کی وجہ سے ہوا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اس کو دنیا عزیز تھی، کیونکہ خلافت کا شوق دنیا ہے۔ اس سے پتا چل گیا کہ اس کو اللہ کی چاہت نہیں تھی بلکہ دنیا کی چاہت تھی۔ ایسے وقت میں اس کے اندر جو خطرناک قسم کے روحانی امراض پیدا ہوں گے ان کا ہم شاید تصور بھی نہیں کر سکتے۔ حتیٰ کہ وہ پورے سسٹم کا مخالف ہو سکتا ہے۔ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ پورے سسٹم کے اوپر سے اس کا اعتماد اٹھ سکتا ہے۔ یہ ساری چیزیں ہوتی ہیں۔ اس گھاٹی سے نکلنا آسان بات نہیں ہوتی۔ اس گھاٹی سے نکلنے کے لئے ضروری یہ ہے کہ اس قسم کی سوچیں آنے سے پہلے پہلے آدمی کی ہستی اس کی اپنی نظر میں فنا ہو چکی ہو اور وہ اپنے آپ کو کچھ بھی نہ سمجھتا ہو۔ جب اس کی سوچ ایسی ہو جائے گی تو خلافت کا خواہش مند ہونا تو دور کی بات ہے وہ یہ کہے گا کہ مجھے شیخ ابھی تک اپنے پاس بیٹھنے کیوں دے رہا ہے؟ اس کو یہ خطرہ ہو گا کہ کہیں شیخ مجھے اپنے حلقۂ ارادت سے نکال ہی نہ دیں۔ وہ اسی کو غنیمت سمجھے گا کہ مجھے اپنے پاس تو بیٹھنے دے رہے ہیں۔ اسے یہ سوچ بھی نہیں آئے گی کہ مجھے کبھی خلافت بھی مل سکتی ہے۔
جامعہ اشرفیہ لاہور کے مہتمم اول اور بانی حضرت مفتی محمد حسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ اپنے احوال میں لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے مجھے ایک بات پہ خوب ڈانٹا۔ یہاں تک کہ میری حالت یہ ہو گئی تھی کہ میں اپنے آپ کو گندگی کا ایک ڈھیر سمجھتا تھا اور مجھے یہ خیال تھا کہ شیخ نے مجھے اپنی خانقاہ میں رہنے کی اجازت دے کر بہت بڑا خطرہ مول لیا ہے، میری روحانی بد بو سے نہ جانے کتنے لوگوں کا نقصان ہو گا، کیا میں اپنے حضرت سے کہہ دوں کہ مجھے نکال دیں کیونکہ خانقاہ میں میری وجہ سے اور لوگ بھی خراب ہو رہے ہیں، مجھے اپنے آپ سے گھن آنے لگی تھی۔ کہتے ہیں کہ میں ان سوچوں میں غرق تھا کہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے خادم نیاز صاحب (مرحوم) تشریف لائے اور مجھ سے کہا کہ آپ کو حضرت بلا رہے ہیں۔ یہ سن کر میرے پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئی۔ میں ڈر گیا کہ یا اللہ خیر، شاید اب حکم آ جائے گا کہ میں یہاں سے چلا جاؤں۔ میں تھرتھر کانپتے ہوئے حضرت کی خدمت میں حاضر ہو گیا، اور نظریں جھکا کر ان کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ حضرت نے مجھ سے فرمایا کہ جو امانت مجھے اپنے بزرگوں سے ملی ہے وہ میں تمھیں بھی دیتا ہوں۔ مفتی حسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں حیران ہو گیا کہ یہ کیا ہو رہا ہے، یہ خلافت دینے کا کون سا موقع ہے۔
یہ خوش قسمت لوگ تھے۔ ورنہ اگر دوسری سوچیں پیدا ہو جائیں تو بہت ہی زیادہ خطرناک حالات بن جاتے ہیں۔ اللہ بچائے۔
خلافت بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ میں اس کا دنیاوی ذمہ داریوں کے ساتھ موازنہ کر سکتا ہوں یا نہیں، لیکن ہم لوگ کبھی کبھی تقریبات میں دیکھتے ہیں کہ جن کی ذمہ داری زیادہ ہوتی ہے وہ زیادہ پریشان ہوتے ہیں۔ ان کی ساری چیزیں سامنے آ رہی ہوتی ہیں۔ معمولی غلطی بھی ان کو بڑے افسروں کے سامنے رسوا کر سکتی ہے۔ اس لئے وہ زیادہ پریشان ہوتے ہیں۔ اور جو ان چیزوں سے فارغ ہوتے ہیں وہ آرام سے پھر رہے ہوتے ہیں۔ انہیں کوئی پرواہ نہیں ہوتی، وہ اس تقریب کا لطف اٹھا رہے ہوتے ہیں۔ جن کی ذمہ داریاں ہوتی ہیں وہ تناؤ میں ہوتے ہیں اور پریشان ہوتے ہیں۔ اسی طرح آپ تصور کر لیں کہ ساری مخلوق خدا ہدایت کی محتاج ہو اور ذمہ داری لگائی جائے کہ اب تمھیں سب تک بات پہنچانی ہے اور درمیان میں نہ کوئی کمی کی جائے اور نہ کوئی ایسا کام کیا جائے جس کی وجہ سے لوگ متنفر اور تنگ ہو جائیں۔ یعنی انہیں حکم ہوتا ہے کہ اعتدال پر آ جائیں۔ اب اس اعتدال پہ چلنا کافی مشکل کام ہوتا ہے۔ اللہ پاک یقیناً رہنمائی فرماتے ہیں لیکن چونکہ سامنے بہت ساری چیزیں نظر آ رہی ہوتی ہیں اس لئے پریشانی تو ہوتی ہے، خطرہ تو ہوتا ہے۔ اگرچہ ایسے لوگ بظاہر مسکرا رہے ہوں مگر ان کے دل کی حالت بڑی عجیب ہوتی ہے۔ وہ باتیں جو ان کے اندر ہوتی ہیں، اگر دوسرے لوگ جانیں تو وہ کہیں کہ یہ زندہ کیسے ہیں۔ لہٰذا یہ خلافت ایک بڑی ذمہ داری ہے۔ آپ پیغمبروں کا تصور کر لیں۔ یہ مشائخ پیغمبر تو نہیں ہوتے لیکن پیغمبروں کے مشن پہ ہوتے ہیں۔ پیغمبروں کا کام بھی یہی ہوتا ہے، اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچانا اور لوگوں کو اللہ کے ساتھ ملانا، اُن مشائخ کا بھی یہ کام ہوتا ہے۔ پیغمبروں کا تو وحی کا سلسلہ ہوتا ہے، لیکن ان حضرات پہ وحی نہیں ہوتی، انہیں کتاب و سنت کے ساتھ اپنے آپ کو متصل رکھنا ہوتا ہے۔ یعنی جو وحی پیغمبر ﷺ پر آئی ہوئی ہے اس پر اپنے آپ کو قائم رکھنا ہوتا ہے اور ساتھ ساتھ لوگوں کی اصلاح کا کام بھی کرنا ہوتا ہے۔ اِن کا کام بنیادی طور پر لوگوں کو اللہ کی طرف بلانا، اللہ کے ساتھ مانوس کرانا اور خیر کے راستہ پہ گامزن کرنا ہے۔ یہ ان کی ذمہ داری ہوتی ہے باقی سب اس کے ذرائع ہیں۔ پھر ذرائع ماحول کے مطابق ہوتے ہیں، حالات کے مطابق ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ مال دار لوگوں میں کام کر رہے ہوں گے ان کے ذرائع اور ہوں گے۔ کچھ لوگ غریب لوگوں میں کام کر رہے ہوں گے ان کے ذرائع اور ہوں گے۔ کچھ لوگ شہری لوگوں کے اندر کام کر رہے ہوں گے ان کے ذرائع اور ہوں گے۔ کچھ لوگ دیہات کے اندر کام کر رہے ہوں گے ان کے ذرائع اور ہوں گے۔ مثلاً ہمارے ساتھی ظفر صاحب سرگودھا میں ایک گاؤں کے اندر کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے ایک ویران مسجد میں کام شروع کیا ہے۔ ارد گرد ساری مخالفتیں ہی مخالفتیں ہیں۔ اس گاؤں کے اندر بالکل scratch (ابتدائی نقطے) سے کام شروع کیا ہے۔ میں انہیں اکثر بشارتیں دیتا رہتا ہوں کہ اللہ پاک آپ سے بالکل ویسے ہی کام لے رہے ہیں، جیسے پرانے دور میں مشائخ سے کام لیا جاتا تھا، آپ سے بالکل اسی طرز پہ کام لیا جا رہا ہے۔ ابتدائی نقطہ سے کام شروع کرنا اور آہستہ آہستہ حالات کا بننا، اس دوران ان کے اوپر جو گزرتی ہے وہ گزرتی ہے، وہ باقی لوگوں کو تو نہیں بتا سکتے لیکن ہمیں بتاتے ہیں۔ یہ چیزیں حالات کے مطابق ہوتی ہیں۔
حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ یونیورسٹی میں کام کر رہے تھے۔ ابتدائی دور میں ان کے ساتھ جو واقعات پیش آئے تھے شاید آپ کو یاد ہوں گے۔ ہمارے ڈاکٹر فدا صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ جنہوں نے مشائخ کی ابتدا کو دیکھا ہے وہ ٹھیک ہو جاتے ہیں اور جو مشائخ کی انتہا کو دیکھ رہے ہوتے ہیں وہ خراب ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ ابتدا میں ان کا مجاہدہ ہوتا ہے، ریاضت ہوتی ہے، لگن اور مسلسل محنت ہوتی ہے، لوگ ان کو دیکھ دیکھ کر ٹھیک ہو رہے ہوتے ہیں اور انہیں مجاہدہ کی استعداد ملتی ہے، کام کرنے کا حوصلہ ملتا ہے، وہ اپنے آپ کو کم سمجھتے ہیں۔ لیکن بعد میں جب فتوحات ہو جاتی ہیں، لوگ ان کے ہاتھ چومنے لگتے ہیں، ہَدَایا دیتے ہیں اور مختلف قسم کی خدمتیں کرتے ہیں تو ظاہر دار لوگ کہتے ہیں کہ بس یہی مشیخت ہے۔ اگر ان لوگوں کی نیت یہی بن گئی تو بتائیے ان کا کباڑا ہوا یا نہیں۔ مشائخ کی اولاد کے ساتھ بھی یہی ہوتا ہے. بہت کم اولادیں ایسی ہوتی ہیں جو اپنے بڑوں سے ان کا فیض صحیح معنوں میں لیتی ہیں۔ ورنہ زیادہ تر اولاد کا بھی یہی نظریہ بن جاتا ہے کہ شاید یہی چیز مقصود تھی۔ خوش قسمت وہی لوگ ہوتے ہیں جو اس چیز کو سمجھ جائیں کہ اصل مقصود یہ فتوحات نہیں ہیں بلکہ یہ جو مجاہدہ لیا گیا ہے، اصل تو یہی ہے۔ میں اکثر ساتھیوں کو بتایا کرتا ہوں کہ مجھے یاد ہے جب ہم ابتدا میں چلتے تھے، کام کرتے تھے تو کبھی گاڑیوں کے ساتھ لٹک کے جا رہے ہوتے، کبھی گاڑیوں کے اندر کھڑے ہو کر جا رہے ہوتے، کبھی پیدل چل رہے ہوتے تھے۔ اللہ کا شکر ہے، ہمیں یاد ہے۔ ہمارے اس دور کے ساتھی بھی موجود ہیں، انہیں پتا ہے کہ ہم کیا کیا مجاہدے کیا کرتے تھے۔ اب وہ چیزیں نہیں ہیں اب تو ایسا ہے کہ ہمارے ایک ساتھی نے اپنے بیٹے کو بھیجا کہ یہاں ہمارے ساتھ بیٹھ جائیں گے تو کچھ فائدہ ہو گا۔ اس نے واپس جا کر اپنے والد کو جو رپورٹ دی وہ یہ تھی کہ والد صاحب سے کہنے لگا کہ آپ نے تو اپنا وقت ضائع کر دیا۔ اصل کام تو وہ ہے جو شاہ صاحب کر رہے ہیں، انہیں موبائل کی ضرورت ہوتی ہے تو سارے لوگ موبائل ان کے سامنے کر دیتے ہیں، انہیں کہیں جانا ہوتا ہے تو سارے لوگ اپنی گاڑیاں لائن میں کھڑی کر دیتے ہیں، پانی کی ضرورت ہوتی ہے تو دوڑ کے پانی لاتے ہیں، جب وہ اٹھ جاتے ہیں تو سارے اٹھ جاتے ہیں۔ اس طرح اس نے انہیں پوری کہانی سنائی۔ مجھے معلوم ہوا تو میں نے کہا کہ بالکل ٹھیک کہا ہے۔ وہ بچہ تھا، صاف گو تھا اس نے اپنی سمجھ کے مطابق بالکل صحیح کہا۔ بڑوں کے بھی یہی خیالات ہوتے ہیں لیکن وہ بتاتے نہیں، وہ بچہ تھا اس لئے بتا دیا۔ یہی بات ہوتی ہے کہ جو لوگ مشائخ کے اخیر کو دیکھتے ہیں وہ خراب ہو جاتے ہیں اور جو ابتدا کو دیکھتے ہیں وہ ٹھیک ہو جاتے ہیں کیونکہ ان کو پتا ہوتا ہے کہ اس میں تو بڑی محنت کرنی پڑتی ہے۔
سوال نمبر10:
توفیق کا سلب ہونا آزمائش ہوتا ہے یا گناہ کی وجہ سے ہوتا ہے؟
جواب:
توفیق کا سلب ہونا گناہ کی وجہ سے ہوتا ہے۔ رکاوٹ ہو جانا آزمائش کی وجہ سے ہوتا ہے۔ توفیق سلب ہو جانا اور بات ہے جبکہ رکاوٹ ہونا اور بات ہے۔ توفیق کا سلب ہونا گناہ کی وجہ سے ہوتا ہے اور رکاوٹ آزمائش ہوتی ہے۔ جب کسی کام میں رکاوٹ ہوتی ہے تو وہ کام آسانی سے نہیں ہوتا، مشکلات پیش آتی ہیں، زیادہ محنت کے ساتھ کام کرنا پڑتا ہے۔ اس معاملے میں توفیق سلب نہیں ہو چکی ہوتی بلکہ توفیق تو ہو رہی ہوتی ہے، بس کچھ مشکلات اور رکاوٹیں پیش آ رہی ہوتی ہیں، جو لوگ ان رکاوٹوں کے با وجود وہ کام کر لیتے ہیں وہ آزمائش میں کامیاب ہوتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ ان سے توفیق سلب نہیں ہوئی، توفیق سلب ہونا تو اس کیفیت کو کہتے ہیں جس میں آدمی کام کر ہی نہیں سکتا۔ یہ گناہ کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ معاف فرمائے۔ اللہ بچائے۔ ایسی حالت سے ڈر لگتا ہے اللہ پاک معاف فرمائے۔
سوال نمبر11:
جس طرح شیخ کو چاروں سلسلہ میں بیعت کی اجازت ہوتی ہے کیا اس طرح مرید ایک سے زیادہ مزاج کا حامل ہو سکتا ہے جیسے کہ کسی کی چشتی اور نقشبندی دونوں نسبتیں ہوں؟
جواب:
سوال مشکل ہے، میں کوشش کرتا ہوں کہ جواب آسان ہو جائے۔ یہی مشکل ہوتا ہے کہ مشکل سوال کا جواب آسان ہو۔ خیر! جواب یہ ہے کہ چاروں سلسلے در اصل طریقے ہیں۔ مثلاً نقشبندی حضرات کا ایک طریقہ ہے کہ وہ اندر ہی اندر سارا کچھ کراتے ہیں، ظاہر پہ کچھ نہیں ہوتا۔ جبکہ چشتی حضرات اظہار کے فوائد کو بھی ضائع نہیں کرتے۔ اظہار کے فوائد کو بھی لے لیتے ہیں اور اِخفا کے فوائد کو بھی لے لیتے ہیں۔ قادری حضرات کو زیادہ محنت کرنی ہوتی ہے۔ ہمارے ایک قادری بزرگ نے اس کی تشریح فرمائی کہ چشتی اور نقشبندی سلسلے باریک سلسلے ہیں، پل میں کچھ اور پل میں کچھ۔ لیکن قادری سلسلہ میں اول تو پانی گرم نہیں ہوتا۔ دیگ کی مثال ہے۔ لیکن جب گرم ہو جائے تو پھر اس میں جتنا پانی ڈالتے جائیں وہ مزید گرم ہی ہو گا ٹھنڈا نہیں ہو گا۔ ان کا اپنا انداز ہے۔ اسی طرح سہروردیوں کی اپنے حضرات کی نسبت ہے۔ یہ جو نسبتیں ہیں، طریقے ہیں، سلسلے ہیں، یہ صرف چار نہیں ہیں۔ ان چاروں کی combination (امتزاج) سے کئی سلسلے وجود میں آتے ہیں۔ مثلاً جو نقشبندی قادری ہو گا وہ ایک الگ چیز بن جائے گی، وہ نقشبندی ہو کر قادری نہیں ہو گا بلکہ نقشبندی اور قادری کے کسی تناسب سے ملتی ہوئی ایک نئی چیز بن جائے گی۔ جیسے سات رنگ ہیں، ان سات رنگوں کو مختلف تناسب کے ساتھ ملانے سے ہزاروں لاکھوں رنگ بن سکتے ہیں۔ اگر سرخ اور سبز کو برابر برابر ملا دیا جائے تو کالا رنگ بن جائے گا، اسے سبز یا سرخ نہیں کہیں گے بلکہ کالا کہیں گے۔ اسی طرح جو قادری نقشبندی ہو گا وہ ایک الگ چیز بن جائے گی اور چشتی قادری الگ چیز بن جائے گی، چشتی سہروردی الگ چیز بن جائے گی۔ پھر ان میں جس پہ قادریت کا زیادہ غلبہ ہے، نقشبندیت کا کم ہے تو وہ ایک الگ چیز بن جائے گی۔ مشائخ کو جو چاروں سلسلوں کی اجازت ہوتی ہے اس کا مطلب نہیں کہ ہر ایک کو آپ اسی طریقے سے چشتی سمجھیں گے جیسے چشتی ہوتے ہیں یا ایسے قادری سمجھیں گے جیسے قادری ہوتے ہیں۔
ایک صاحب نے میرے اوپر اعتراض کیا تھا۔ اچھا ہوا (کہ یہ بات یاد آ گئی) اس سوال کے جواب میں وہ چیز واضح ہو جائے گی۔ انہوں نے حضرت مولانا مشرف علی تھانوی صاحب دامت برکاتھم کے پاس میرے بارے میں ایک خط بھیجا کہ شبیر صاحب اس طرح ذکر کراتے ہیں، کیا حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا یہی طریقہ تھا؟ اب ظاہر ہے کہ ان کا طریقہ یہ تو نہیں تھا، یہ طریقہ تو حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ کا تھا جو ہم کراتے ہیں۔ حضرت مولانا مشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ نہیں، ان کا طریقہ یہ نہیں تھا۔ ان کی بات صحیح تھی، غلط نہیں تھی۔ پھر ان صاحب نے حکیم اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو مولانا مشرف علی تھانوی صاحب کا جواب بھیجا۔ انہوں نے جواب لکھا کہ اس نے ٹھیک جواب دیا ہے۔ ان کی بات بھی صحیح تھی۔ جب مجھے اس کا پتا چلا تو میں نے اس کو بلایا اور کہا: خدا کے بندے تو نے اپنا وقت خواہ مخواہ ضائع کیا، یہ بات مجھ سے پوچھ لیتے تو میں بھی یہی جواب دیتا جو انہوں نے دیا ہے۔ لیکن میں آپ کو سمجھا دوں کہ اس کا مطلب یہ نہیں جو آپ نے لیا ہے۔ میں آپ کو اس کا مطلب سمجھاتا ہوں۔ میں نے کہا: دیکھیں حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ چشتی بھی ہیں، نقشبندی بھی ہیں، قادری بھی ہیں اور سہروردی بھی ہیں، کیا آپ یہ بات مانتے ہیں؟ کہتے ہیں: ہاں میں مانتا ہوں۔
میں نے کہا: کیا وہ بعینہ اسی طرح چشتی ہیں جس طرح خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ چشتی تھے؟
کہتے ہیں: نہیں۔
میں نے کہا: پھر وہ کیسے چشتی ہوئے۔ آپ کی تعریف کے مطابق تو وہ چشتی نہیں ہوئے۔ یہ بتائیں کہ کیا حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اسی طرح قادری تھے جیسے شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ قادری تھے؟
کہتے ہیں: نہیں۔
میں نے کہا: پھر تو وہ قادری بھی نہیں ہوئے۔
میں نے کہا: کیا وہ اس طرح نقشبندی تھے جیسے خواجہ بہاؤ الدین نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ نقشبندی تھے؟
کہتے ہیں: نہیں۔
میں نے کہا پھر تو وہ نقشبندی بھی نہیں ہوئے۔
اس طرح میں نے ان سے سہروردی کا بھی پوچھا۔ پھر کہا کہ خدا کے بندے! اپنے آپ کو کیوں الجھاتے ہو۔ میں آپ کو اس معاملہ کی وضاحت حضرت (مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ) ہی کے الفاظ سے بتا دیتا ہوں۔ حضرت نے فرمایا ہے کہ کچھ مقاصد ہوتے ہیں اور کچھ ذرائع ہوتے ہیں۔ مقاصد متعین ہوتے ہیں، ان میں تبدیلی نہیں ہوتی اور ذرائع میں تبدیلی لازم ہے۔
میں نے ان سے کہا کہ جو نسخہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے وقت میں تھا اب وہ نسخہ نہیں چل سکتا، اس کے لئے آج کل کا شیخ مُکَلَّف ہے، اس کا علاج آج کل کا شیخ کرے گا۔ جیسے پرانا نسخہ نہیں چلتا۔ وہی کام جو کسی وقت میں augmentin 375 mg کام کرتا تھا، اب نہیں کرتا، اب کوئی ڈاکٹر 1000 گرام سے کم سوچتا ہی نہیں، اور کوئی بالکل ہی obsolete (ترک) کر دیتا ہے، اور فوراً ciprofloxacin پہ منتقل کر دیتا ہے، وہ augmentin کو پوچھتا بھی نہیں۔ اسی طرح وقت کے ساتھ ساتھ چیزیں بدلتی ہیں، لوگوں کے حالات بدلتے ہیں، یہ ساری چیزیں بدلتی ہیں۔ ایک وقت میں ڈاکٹروں نے vibramycin کو بالکل ختم کر دیا تھا کہ اب لوگ اس کے عادی ہو گئے ہیں، لیکن اب ڈاکٹرز آہستہ آہستہ اس پہ واپس آ رہے ہیں۔ تو یہ وقت اور حالات کے حساب سے ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہر وقت حالات ایک جیسے ہوتے ہیں۔
خیر میں نے کہا کہ اگر میں حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا طریقہ بعینہ وہی چلا دوں تو یہ حضرت کے اصول کے خلاف ہے۔ اس وجہ سے میں اصل اشرفی ہوں تم نہیں ہو۔ کیونکہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے اصول کی پیروی میں کر رہا ہوں تم نہیں کر رہے ہو۔
میں نے کہا کہ ان حضرات نے صحیح جواب دیا کہ میرا ذکر کرانے کا طریقہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ والا نہیں ہے۔ لیکن میں توکلاً علی اللہ کہتا ہوں کہ جو طریقہ ہم نے شروع کرایا ہے، آہستہ آہستہ یہی طریقہ سب کو شروع کرنا پڑے گا۔ آج کل کے دور کا یہی طریقہ ہے۔ یہ چلنا شروع ہو گیا ہے۔ جہاں پہلے نہیں بھی ہو رہا تھا وہاں اب ہو رہا ہے۔
ایک صاحب جو جدہ سے آئے تھے اور حضرت مولانا ابرار الحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے مجازِ صحبت تھے، وہ چند مجالس میں ہمارے ساتھ بیٹھے اور بڑے خوش ہوئے۔ مجھ سے فرمایا کہ آپ جو ذکر کراتے ہیں، اس سلسلہ میں آپ نے کسی سے مشورہ کیا ہے؟ میں نے کہا کہ مشورہ کی بات تو نہیں ہوئی، البتہ آپ کو ایک واقعہ بتاتا ہوں۔ میرے حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ دنیا سے پردہ فرما چکے ہیں۔ صوفی اقبال صاحب رحمۃ اللہ علیہ بھی دنیا سے پردہ فرما چکے ہیں۔ میں ان دو بزرگوں کی صحبت سے تو محروم ہو گیا ہوں، لیکن میرے دو بزرگ موجود ہیں جن سے میں مشورہ کرتا رہتا ہوں۔ ایک حضرت حلیمی صاحب رحمۃ اللہ علیہ، جو اس وقت موجود تھے اور ایک ڈاکٹر فدا صاحب۔ یہ دونوں حضرات پہلے ذکر بالجہر نہیں کراتے تھے اب کراتے ہیں اور حضرت حلیمی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے تو اپنی مجلس میں یہ ذکر با قاعدہ ان الفاظ کے ساتھ شروع کرایا تھا کہ شبیر کراتے ہیں اس سے فائدہ ہو رہا ہے لہذا ہم بھی شروع کرتے ہیں۔ لہذا یہ میرے لئے تائید ہے۔ میں نے ان صاحب سے عرض کی کہ اس ذکر کے سلسلہ میں مجھے میرے موجودہ مشائخ کی تائید حاصل ہے، اس کے بعد کسی سے مشورہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ الحمد للہ ثم الحمد للہ مجھے چھ بزرگوں کی اجازت حاصل ہے اور ان چھ بزرگوں سے سلسلے مجھ تک پہنچے ہیں۔ میں ان میں سے کسی بھی بزرگ کا سلسلہ شروع کر سکتا ہوں، مجھ پہ کوئی پابندی نہیں ہے۔ انہی میں سے ہمارے پاس ایک طریقہ راشدیہ بھی آیا ہوا ہے جو حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ کا ہے۔ اگر میں اس پہ چل رہا ہوں تو ان کے طریقہ کی پیروی کر رہا ہوں۔ میں ان کے سلسلہ کی خدمت بھی تو کر سکتا ہوں۔ جب ہمارے پاس وہ ہے تو ہم اس کو کیوں استعمال نہ کریں۔
میں نے کہا: الحمد للہ، اللہ کا شکر ہے کہ ایک دفعہ میں نے لاہور میں ذکر کرایا۔ ہمارے ایک سفید ریش ساتھی تھے شیخ آصف صاحب، انہوں نے مجھ سے فرمایا کہ شاہ صاحب الحمد للہ آج ہم نے آپ کے ساتھ وہی ذکر کیا جو حضرت لاہوری رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ کرتے تھے۔ میں نے کہا: الحمد للہ تائید ہو گئی۔
میں ایک مرتبہ یہیں پر بینک روڈ راولپنڈی میں ذکر کرا رہا تھا۔ ایک بڑے میاں ہمارے ساتھ ذکر میں موجود تھے۔ انہوں نے فرمایا: الحمد للہ آج ہم نے آپ کے ساتھ وہ ذکر کیا جو حضرت رائے پوری رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ کرتے تھے۔ یہ بھی تائید ہو گئی۔ الحمد للہ ہمیں اپنے بزرگوں کی تائید حاصل ہے۔ اس بارے میں ہر ایک سے dictation نہیں لینی ہوتی۔ زیادہ سے زیادہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ کچھ لوگوں کو ہمارے ساتھ مناسبت نہیں ہے۔ ایسے لوگوں کے لئے ہم نے دروازے بند نہیں کئے۔ وہ کسی اور شیخ کے پاس جا سکتے ہیں جن سے ان کو مناسبت ہو۔ ضروری تو نہیں کہ سارے لوگ ہمارے پاس آ جائیں۔ جن لوگوں کو جہاں سے مناسبت ہو، وہاں چلے جائیں ان شاء اللہ ان کو فائدہ ہو جائے گا۔
سوال نمبر12:
آپ نے کل کے بیان میں فرمایا کہ ذکر بالجہر چشتی اور مراقبۂ نقشبندی آخر میں جا کر ایک ہو جاتے ہیں۔ یہ کس طرح ہوتا ہے، کیا دونوں مراقب ہو جاتے ہیں یا دونوں ذکر بالجہر پہ آ جاتے ہیں۔ اس کی وضاحت فرما دیں۔
جواب:
اس سے مراد یہ ہے کہ کیفیات کے لحاظ سے دونوں ایک ہو جاتے ہیں۔ کیفیت احسان سب میں ہے، کیفیت حضوری سب میں ہے، اس کے لحاظ سے ایک ہو جاتے ہیں۔
سوال نمبر13:
کیا خواتین بھی کسی عمل مثلاً نماز، تہجد وغیرہ کا چالیس روزہ چلہ کر سکتی ہیں؟ ان کو اس کی استقامت کس طرح ملتی ہے؟
جواب:
خواتین اس قسم کا چلہ وغیرہ نہیں کر سکتیں کیونکہ ان کو مہینہ میں چند روز کے لئے مجبوری ہوتی ہے جس کی وجہ سے ان کا یہ چلہ پورا نہیں ہو سکتا۔
﴿لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا﴾ (البقرہ: 286)
ترجمہ: ”اللہ کسی بھی شخص کو اس کی وسعت سے زیادہ ذمہ داری نہیں سونپتا“۔
اس قانون کے مطابق خواتین سے اس کا مطالبہ بھی نہیں ہو گا۔
سوال نمبر14:
کیا قبض اور بسط کی حالت اس کو بھی ملتی ہے جو مرید نہ ہو، یا یہ صرف مرید کے ساتھ ہی ہوتی ہیں؟
جواب:
زیادہ تر مرید کے ساتھ ہی ہوتی ہیں۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک آدمی مرید تو نہیں ہوتا لیکن کسی بزرگ کے ساتھ اس کا تعلق ہوتا ہے، وہ ان سے فیض حاصل کر رہا ہوتا ہے ان کے فیض کے انوارات سے منور ہو رہا ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کے ساتھ بھی اس قسم کے واقعات پیش آ سکتے ہیں۔
سوال نمبر15:
شیخ کی مجلس کے آداب دورِ حاضر میں کیا ہوں گے؟ ہم بزرگوں کے واقعات میں جو پڑھتے ہیں، کیا ہم نے وہی کرنا ہے یا آج کل کے حالات میں relaxation (سہولت) مل سکتی ہے۔ دورِ حاضر سے مراد یعنی موبائل بند رکھنا، یا سائلنٹ رکھنا اور جدید باتیں جو پہلے دور کے بزرگوں کے واقعات میں نہیں ملتیں، ان باتوں میں کیا احکام ہوں گے؟
جواب:
سب سے بڑی بات یہ ہے کہ شیخ کے سامنے کوئی ایسی بات نہ کرنا جس سے شیخ کو انقباض ہو۔ یہ تو مشترک ہے۔ اور ایسا کوئی کام بھی نہ کرنا کہ شیخ کا فیض انسان کے اوپر بند ہو جائے۔ اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے غور کرنے سے پتا چلے گا کہ آج کل کے دور میں کون سی چیزیں ایسی ہو سکتی ہیں۔ مثلاً موبائل کے بارے میں آپ نے خود ہی بتایا کہ اس کا بند نہ رکھنا یا سائلنٹ نہ رکھنا بے ادبی کے زمرے میں آئے گا۔ شیخ کی مجلس میں بیٹھ کے ادھر ادھر کی چیزوں کو دیکھنا بے راہ روی میں شمار ہوتا ہے کیونکہ اس سے پتا چلتا ہے کہ وہ آدمی اپنے آپ کو اپنے شیخ سے مستغنی سمجھتا ہے۔ اس بات کی ضرورت محسوس نہیں کرتا کہ شیخ سے استفادہ کرے۔ ایک تو یہ صورت ہے کہ شیخ نے اسے خود کسی کام میں لگایا ہو، مثلاً اسے کوئی ذمہ داری دی ہو کہ تم یہ کام کرو، وہ تو خیر ایک علیحدہ بات ہے لیکن وہ خود شیخ کی مجلس میں آیا ہے اور پھر شیخ کی مجلس میں متوجہ نہیں ہے یا ایسی باتوں کو چھیڑ رہا ہے جن سے وقت ضائع ہوتا ہے۔ جو باتیں عام لوگوں کے ساتھ کرنے کی ہوتی ہیں وہ شیخ کے ساتھ کیے جا رہا ہے۔ تو یہ بھی بے ادبی میں شمار ہو گا۔ کیونکہ وہ چیزیں تو انسان دوسروں سے بھی سیکھ سکتا ہے۔ بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں مثلاً فقہی باتیں، وہ عام علماء سے بھی سیکھی جا سکتی ہیں، انہیں شیخ سے سیکھنا ضروری نہیں ہوتا۔ شیخ سے بس یہی تعلق ہو کہ ان کی قلبی کیفیات حاصل کی جائیں، ان سے تربیت کے بارے میں بات چیت کی جائے اور جن حالات میں شیخ جو چاہتا ہو اس کا اندازہ کر کے اس پہ عمل کیا جائے۔
اس وجہ سے کہتے ہیں کہ شیخ کے مزاج کو جاننا طریقت کا بہت بڑا دروازہ ہے۔ شیخ کے مزاج کو جان لیا جائے کہ وہ کیا چاہتا ہے۔ ایک تو یہ ہوتا ہے کہ میں کیا چاہتا ہوں۔ یہ تو انسان کو معلوم ہوتا ہے لیکن شیخ کیا چاہتا ہے اس کے لئے معلوم کرنا ہوتا ہے۔ مثلاً ہمارے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں یہ چیز نہیں تھی جیسے پنجاب میں لوگ بزرگوں کے سامنے با ادب بیٹھتے ہیں۔ کیونکہ حضرت کا رجحان جس کام کا تھا وہ ذرا اور قسم کا تھا۔ اس وجہ سے حضرت اس مسئلہ میں سہولت رکھتے تھے کہ ٹیک لگا لی جائے یا ان کے سامنے ایسے بیٹھا جائے جیسے عام لوگ بیٹھے ہوتے ہیں۔ ہاں قلباً متوجہ ہونا ضروری ہوتا تھا۔ آدمی بیٹھا کیسے بھی ہو، قلباً متوجہ ہونا چاہیے۔ لیکن یہاں کے ماحول میں ایسی چیزیں ذرا مشکل ہیں۔ یہاں اگر کوئی relax (بظاہر لاپروائی سے) بیٹھا ہوتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ قلباً بھی relax ہوتا ہے۔ یہ انسانوں کی مختلف طبیعتیں ہوتی ہیں، مختلف مزاج ہوتے ہیں۔ پٹھانوں میں یہ صلاحیت ہے کہ عین ممکن ہے کہ وہ بالکل relax بیٹھے ہوں لیکن قلباً پورے طور پہ متوجہ ہوں۔ وہاں پر یہ چیز ممکن ہے، یہ ان کے مزاج کی بات ہے لیکن یہاں پر ایسا نہیں ہوتا۔ یہاں اگر بظاہر غیر متوجہ ہے تو وہ واقعتاً غیر متوجہ ہوتا ہے۔ تو اس وجہ سے یہاں پر یہ آداب زیادہ لاگو کیے گئے ہیں۔ یہ اصل میں ہندوستان کا مسئلہ ہے۔ بنیادی طور پر پنجاب ہندوستان سے قریب ہے اور پٹھانوں کے علاقے افغانستان سے قریب ہیں اس لئے وہاں افغانستان کا کلچر زیادہ لاگو ہے اور یہاں ہندوستان کا کلچر زیادہ لاگو ہے۔ ہندوستان میں چونکہ یہ ظاہری طور پر ادب آداب والی چیزیں ہیں، اس وجہ سے اسی نسبت سے یہاں پر ان چیزوں کا خیال رکھا جاتا ہے۔ ہمارے حضرات ایسا کیا کرتے تھے۔ لیکن وہاں پر اس قسم کی بات نہیں، وہاں پر معاملہ اس طرح ہے کہ بظاہر آزاد رہتے ہیں لیکن دل سے بہت زیادہ خیال رکھتے ہیں، جان دے دیں گے لیکن سامنے دو زانو نہیں بیٹھیں گے۔ یہی فرق ہے کہ یہاں دو زانو بیٹھ جائیں گے لیکن جان نہیں دیں گے۔ اس میں ذرائع کو نہیں دیکھنا پڑتا، اصل کو دیکھنا پڑتا ہے۔ اس لحاظ سے میرے خیال میں اس کو ہم اتنا Generalize statement (عمومی بیان) نہیں دے سکتے یہ ذرا specific (مخصوص) معاملہ ہے، ہر آدمی کے لحاظ سے مختلف ہو سکتا ہے۔
سوال نمبر16:
شیخ کو مرید کی نسبت کا کیسے پتا چلتا ہے، باتوں سے معلوم ہوتا ہے یا کشفاً؟
جواب:
یہ سوال کسی شیخ کو کرنا چاہیے، جب کوئی شیخ پوچھے گا تو اسے جواب دے دیں گے۔ یا پھر یہ بتا دیں کہ یہ سوال شیخ کا ہے، پھر مجھے ای میل کر دیں۔
سوال نمبر17:
اگر مسلسل ایک ہی چیز کی خواہش ہو تو یہ نفسانی خواہش ہو گی یا شیطانی خواہش ہو گی؟
جواب:
اگر مسلسل ایک ہی چیز کی طرف خیال جائے، مثلاً دل و دماغ میں اس بات پر اصرار چل رہا ہو کہ مجھے عہدہ ملنا ہی چاہیے تو یہ نفس کی طرف سے ہے۔ مجھے گاؤں کا چوہدری بننا ہی ہے، تو یہ نفس کی طرف سے ہے۔ کیونکہ نفس مسلسل ایک ہی چیز پہ زور رکھتا ہے اس لئے انسان سارا ذہن اسی پہ رکھتا ہے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ