اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال نمبر1:
بعض اوقات کوئی ایسا مسئلہ پیش آ جاتا ہے کہ عصر کی نماز میں کوشش کے با وجود نہیں پہنچ پاتا۔ کئی مرتبہ جماعت رہ جاتی ہے۔ ایسی صورت میں کیا کیا جائے۔
جواب:
عذر کی حالت میں بعض چیزیں ساقط ہو جاتی ہیں۔ ان میں سے ایک نماز کی جماعت بھی ہے۔ جماعت کی نماز بھی چند عذروں میں ساقط ہو جاتی ہے جیسے بارش کی صورت میں جماعت چھوڑ کر گھر میں ہی نماز پڑھی جا سکتی ہے۔ اسی طرح بیمار آدمی گھر میں نماز پڑھ سکتا ہے۔ اس کے تیمار دار کو بھی رخصت ہے کہ وہ مسجد کی جماعت چھوڑ سکتا ہے۔
سوال نمبر2:
یہ ہم جو درود شریف پڑھتے ہیں۔ اس سے پہلے یا اس کے بعد ایصال ثواب کر سکتے ہیں؟
جواب:
در اصل درود شریف نبی کریم ﷺ کے لیے رحمت کی درخواست ہے۔ وہ خود بخود آپ ﷺ تک پہنچتا ہے اور اللّٰہ پاک اس کے جواب میں دس رحمتیں نازل فرماتے ہیں۔ لہٰذا آپ ﷺ کے لیے اس کا ایصال ثواب کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ آپ ﷺ تک خود پہنچتا ہے۔ البتہ اس عمل پر آپ کو جو ثواب مل رہا ہے وہ آپ کسی اور کو بخش سکتے ہیں۔
سوال نمبر3:
آخرت کا استحضار زیادہ کرنے کے لیے ذکر کے علاوہ کوئی ایسی چیز بتا دیں جس سے دن بھر کام کرتے ہوئے آخرت کے بارے میں زیادہ یاد رہے۔
جواب:
حدیث شریف میں آتا ہے کہ جو شخص 25 مرتبہ موت کو یاد کرے گا، اگر وہ اس دن فوت ہو گیا تو شہید ہو گا۔ اس وجہ سے ہمارے اکابر فرماتے ہیں کہ ہر نماز کے بعد پانچ مرتبہ ”اَللّٰھُمَّ باَرِکْ لِیْ فِی الْمَوْتِ وَ فِیْمَا بَعْدَ الْمَوْتِ“ پڑھ لیا کریں۔
اس کے علاوہ آخرت کا استحضار پیدا کرنے کے لیے مراقبہ موت ہوتا ہے۔ لیکن آج کل چونکہ قُوٰی کمزور ہیں، اس کو برداشت نہیں کر سکتے اس لیے کسی کو یہ مراقبہ بتایا نہیں جاتا۔ اگر کسی کے قُوٰی مضبوط ہوں تو وہ شیخ سے پوچھ کے کر سکتا ہے۔
ایک بچی کا واقعہ ہے جو ہمارے سلسلے میں داخل ہو گئی تھی۔ اللّٰہ پاک نے اس کے ساتھ کچھ جذبی معاملات کروا دیے۔ بہت جلدی جلدی اللّٰہ تعالیٰ نے اس کا رخ بدلا دیا۔ وہ پہلے ایک ماڈرن لڑکی تھی پھر اللّٰہ پاک نے اس کو تبدیل کیا تو بہت ساری چیزوں میں تکوینی طور پر غیبی نظام سے اس کی تربیت کا سلسلہ شروع کروا دیا۔ ایک مرتبہ اس نے مجھے کہا کہ میں ذکر کر رہی تھی۔ ذکر کے دوران میں نے دعا کی کہ یا اللّٰہ میرے لیے تربیت کا جو سب سے زیادہ مؤثر طریقہ ہے وہ مجھے دے دیجیے۔ اسی وقت میں نے محسوس کیا کہ میں مر رہی ہوں۔ میں نے موت کے وقت والے سارے مراحل دیکھ لیے، قبر میں اتارنا دیکھ لیا، وہ سارا منظر میرے سامنے آ گیا۔ اس کے بعد میرا دل دنیا سے ایسے اچاٹ ہو گیا کہ اب دنیا کی طرف آ ہی نہیں رہا۔ یہ معاملہ اتنا بڑھا کہ اس بچی کے گھر والے پریشان ہو گئے۔ پھر انہوں نے مجھ سے رابطہ قائم کیا۔ میں نے اس بچی سے پوچھا کہ آپ کا ذکر کون کون سے لطائف پر ہے اور آپ کا لطیفۂ روح کا ذکر کیسا ہے؟ اس نے بتایا کہ لطیفۂ روح کا ذکر کمزور ہے۔ میں نے کہا کہ آپ کی یہ حالت اسی وجہ سے ہے۔ لطیفۂ روح پہ زیادہ زور دیں تو حالت بہتر ہو جائے گی۔ کیونکہ لطیفۂ روح انسان کو عمل کے لیے واپس لاتا ہے۔ اگر کسی کا لطیفۂ قلب جاری ہو جائے تو اس پہ یہ کیفیت طاری ہوتی ہے۔ اِس کے بعد اس کی حالت ٹھیک ہو گئی۔
سوال نمبر4:
ایک لفظ بہت استعمال ہوتا ہے: ”ضمیر“۔ یہ ضمیر کسے کہتے ہیں؟
جواب:
ضمیر الہامِ رحمانی ہے۔ دل کے اندر دو چینل ہیں۔ ایک چینل اللہ کی طرف سے اور ایک شیطان کی طرف سے کھلا ہوتا ہے۔ شیطان کی طرف سے وساوس آتے ہیں جبکہ اللّٰہ کی طرف سے صحیح بات آتی ہے۔ اللہ کی طرف سے فرشتے اچھی باتوں کی تلقین کرتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں۔ عرف میں اسی کو ضمیر کہتے ہیں۔ شیطانی الہام پہ عمل کرنے سے رحمانی چینل کمزور ہوتا جاتا ہے، اور کمزور ہوتے ہوتے بالکل ختم بھی ہو سکتا ہے۔ ایسی صورت میں کہتے ہیں کہ فلاں کا ضمیر مر گیا حالانکہ ضمیر الگ سے کوئی چیز نہیں ہوتی۔ ضمیر مرنے کا مطلب یہی ہے کہ الہامِ رحمانی کا سلسلہ بند ہو جاتا ہے
سوال نمبر5:
حضرت جی آپ نے فرمایا تھا کہ ذکر کا مقصد شیطانی چینل کو بند کرنا ہے۔ اس کی وضاحت فرما دیں۔
جواب:
ذکر کا مقصد، ذکر کے ذریعے سے اللّٰہ تعالیٰ کا استحضار پیدا کرنا ہے۔ اللّٰہ تعالٰی کی طرف توجہ ہو گی تو شیطان سے توجہ ہٹے گی۔ نتیجتاً آہستہ آہستہ الہامِ شیطانی کمزور ہوتا جائے گا۔ ذکر کرنے والے کے دل میں وسوسہ نہیں ڈالا جا سکتا۔ ذکر کرنے سے شیطان پیچھے ہٹتا ہے۔ جب انسان بار بار ذکر کرے گا تو شیطان بار بار پیچھے ہو گا، جب بار بار پیچھے ہو گا تو اس کا چینل کمزور ہونا شروع ہو جائے گا اور ہوتے ہوتے یہ کسی وقت بند بھی ہو جائے گا، چاہے وقتی طور پر ہی بند کیوں نہ ہو۔
سوال نمبر6:
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں کہ اہلِ محبت کا تقویٰ بہت مستحکم ہوتا ہے کیونکہ محبت کے اثر سے اعمال ان کی عادت بن جاتے ہیں پھر عادت سے طبیعتِ ثانیہ اور روح بن جاتے ہیں۔ اس کا کیا مطلب ہے؟
جواب:
محبت تو خیر چیز ہی ایسی ہے کہ جس کے ساتھ بھی ہو جائے انسان اسی کا ہو جاتا ہے۔ اگر اللّٰہ کے ساتھ محبت ہو جائے تو انسان اللّٰہ کا ہو جائے گا۔ جب اللّٰہ کا ہو جائے گا تو اللّٰہ کی بات ماننا آسان ہو جائے گا۔ جب اللّٰہ کی بات ماننا آسان ہو جائے گا تو یہ چیز اس کی عادت بنتی جائے گی۔ جب عادت بنتی جائے گی تو آہستہ آہستہ طبیعت بنتی جائے گی۔
جب طبیعت کسی چیز پر پختہ ہو جائے تو اس کو طبیعتِ ثانیہ کہتے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ جیسے انسان پہلے اپنے نفس کی خواہشات سے کسی چیز کو پسند کرتا ہے، اصلاحِ نفس کے بعد وہ اپنے دل کی خواہش سے کسی چیز کو پسند کرے گا۔
سوال نمبر7:
قرآن پاک میں آیا ہے:
﴿وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِ﴾ (البقرہ: 165)
ترجمہ: ”اور جو لوگ ایمان لا چکے ہیں وہ اللہ ہی سے سب سے زیادہ محبت رکھتے ہیں“۔
کیا شدید محبت اور عشق ایک ہی چیز ہیں؟
جواب:
شدید محبت ہی کو عشق کہتے ہیں۔ اصل میں چونکہ عربی میں لفظ عشق زیادہ مستعمل نہیں ہے اس وجہ سے اس کو ﴿اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِ﴾ کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ لفظ ”عشق“ تو قرآن میں نہیں آیا۔ یہ terminology (اصطلاح) کی بات ہے۔ اگرچہ لفظ عشق نہیں مگر اس معنی کے دوسرے الفاظ آئے ہیں۔ شدید محبت عشق ہی کو کہتے ہیں۔
سوال نمبر7:
قرآن پاک میں ہے:
﴿یٰۤاَیُّهَا الْاِنْسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِیْمِ) (الانفطار: 6)
ترجمہ: ”اے انسان! تجھے کس چیز نے اپنے اس پروردگار کے معاملے میں دھوکا لگا دیا ہے جو بڑا کرم والا ہے“۔
اس میں کیا پیغام ہے؟
جواب:
یہ بڑا اچھا سوال ہے۔
﴿یٰۤاَیُّهَا الْاِنْسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِیْمِ) (الانفطار: 6)۔ کا مطلب یہ ہے کہ تم اللّٰہ تعالیٰ کی عظمت کے ادراک سے کیسے غافل ہو گئے۔ اللّٰہ تعالیٰ بہت عظیم ہیں۔ جیسے انسان کسی کو عظیم سمجھتا ہے تو اس کے سامنے اس کی زبان بھی لڑکھڑا جاتی ہے۔ وہ اس پہ جرأت نہیں کر سکتا، اپنی چیز بھی بھول جاتا ہے۔ جبکہ اللّٰہ پاک کے ساتھ یہ حالت ہے کہ نعوذ باللّٰہ من ذلک اس کی عظمت کی پروا ہی نہیں کی جاتی اور اس طرح دھڑلے سے گناہ کرتے ہیں جیسے (نعوذ باللّٰہ من ذلک) ہمیں معاف کرنا اللّٰہ کی مجبوری ہے۔
سوال نمبر8:
مشائخ کی باتیں سننے سے اصل مقصود عمل کرنا ہوتا ہے۔ عمل کے حوالے سے ذاکرین اور غیر ذاکرین کو مختلف فائدہ ہوتا ہے یا ایک جیسا فائدہ ہوتا ہے؟
جواب:
بڑا اچھا سوال ہے۔ ذکر دل کی زمین بناتا ہے اور مشائخ کی صحبت بیج ڈالنے کا کام کرتی ہے۔ اگر زمین بنی ہو گی تو بیج زیادہ پھلے پھولے گا، اگر زمین نہیں بنی ہو گی تو بیج ضائع بھی ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض لوگ جو ذاکر نہیں ہوتے اور ان کے دل نرم نہیں ہوتے تو مشائخ کی صحبت میں جانے سے ان کو بجائے فائدے کے نقصان ہونے لگتا ہے۔ یہ لوگ بے ادبی کر کے اپنا کباڑا کر لیتے ہیں، اپنا نقصان کر لیتے ہیں۔ دوسری طرف جو لوگ ذکر کرتے ہیں۔ ذکر کرنے سے ان کا دل نرم ہوتا ہے اور دل کی زمین بنتی ہے۔ دل اثر لینے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ ایسی صورت میں مشائخ کی صحبت میں جانے سے زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔ اسی لیے شیخ کی صحبت بھی زیادہ موثر تب ہوتی ہے جب انسان معمولات کو پورا کرتا ہے۔ بعض لوگ معمولات سے بالکل عاری ہو جاتے ہیں۔ کہتے ہیں بس شیخ کی صحبت کافی ہے۔ بلا شبہ شیخ کی صحبت بہت بڑی چیز ہے لیکن یہ ایک multiplier کی طرح کام کرتی ہے۔ لہٰذا کوئی چیز ایسی بھی ہو گی جس سے اس کو multiply کیا جا سکے تب ہی اس کا فائدہ ہو گا اور وہ چیز معمولات ہیں۔ اس لئے شیخ کی صحبت کے ساتھ ساتھ معمولات کی پابندی بھی ضروری ہے اور معمولات کی پابندی کے ساتھ شیخ کی صحبت بھی ضروری ہے۔ دونوں چیزیں ایک دوسرے کو ترقی دیتی ہیں۔
سوال نمبر9:
مختلف لوگوں کی استعدادیں مختلف ہوتی ہیں۔ بعض لوگوں کا ایک دن میں بھی تزکیہ ہو جاتا ہے اور بعض لوگوں کو سالہا سال لگ جاتے ہیں۔ یہاں استعداد کا کیا مطلب ہے، کیا اپنے طور پر اس استعداد کو بڑھایا جا سکتا ہے؟
جواب:
مجھے اس وقت حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی بات یاد آ گئی۔ حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی رحمۃ اللّٰہ علیہ دو سال ایک ایسے صاحب کے ساتھ رہے تھے جو بولتے بالکل نہیں تھے۔ صبح سے شام تک بس نماز پڑھتے تھے، کھانا کھاتے تھے اور بالکل خاموش رہتے تھے۔ حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی رحمۃ اللہ علیہ اس امید پر بیٹھے رہتے تھے کہ کبھی ان سے بات کرنے کا موقع ملے گا اور مجھے کچھ فائدہ ہو جائے گا۔ دو سال اسی طرح گزر گئے۔ دو سال کے بعد انہوں نے آنکھیں کھولیں اور کہا کہ مجھے حکم ہے کہ آپ سے بات کروں، بتاؤ کیا چاہتے ہو؟ انہوں نے کہا: حضرت مجھے اپنے فرزندوں میں شامل فرما لیں۔ ان کا مطلب تھا کہ اپنے حلقۂ ارادت میں شامل کر لیں۔ ان صاحب نے فرمایا کہ تمہارا حصہ میرے ساتھ نہیں ہے، تمہیں آگے جانا ہو گا، تمہاری منزل آگے ہے۔ اور مصلے کے نیچے سے کچھ پیسے نکال کر ان کو دے دیئے کہ یہ زاد سفر رکھو، اس کو اپنی ضروریات میں خرچ کرنا اور یہاں سے آگے چلے جاؤ۔ انہوں نے پیسے لے لیے، اور سنبھال کے رکھ لیے، پیسے رکھنے کے بعد نظر اوپر اٹھائی تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہ صاحب وہاں موجود نہیں تھے، غائب ہو گئے تھے۔ حضرت یہ دیکھ کر بہت پریشان ہو گئے کہ اتنے عرصے کے بعد بات ہوئی اور ساتھ ہی یہ غائب ہو گئے۔ اس سے تو بہتر تھا کہ بات ہی نہ کرتے۔ خیر! اس کے بعد یہ آگے چلے جیسا کہ حکم تھا۔ سفر کرتے کرتے بغداد شریف تشریف لائے۔ وہاں شیخ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی خدمت میں گئے۔ انہیں دیکھ کر پہلی نظر میں ہی پہچان گئے کہ یہی میرا مقصود ہے اور حضرت شیخ شہاب الدین سہروردری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ان کو جان لیا اور اپنے ساتھ رکھ لیا۔ سترہ دن کے بعد خلافت دے دی۔ حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی رحمۃ اللہ علیہ کو یہ بات بڑی عجیب محسوس ہوئی کہ کہاں تو یہ حالت کہ دو سال تک خاموشی سے بیٹھ کر انتظار کرنے کے بعد آگے بھیج دیا گیا اور کہاں یہ حالت کہ صرف سترہ دن بعد خلافت بھی عطا کر دی گئی۔ یہ دیکھ کر حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: دیکھو گیلی گھاس کو آگ نہیں لگتی۔ پہلے وہ خشک ہو گی پھر آگ لگے گی، جب وہ خشک ہو جائے تو پھر صرف دیا سلائی لگانے کی دیر ہو گی کہ آگ بھڑک اٹھے گی۔ گیلی اور خشک دونوں برابر نہیں ہو سکتیں۔ یوں کہہ سکتے ہیں کہ ایک شخص کا خالصتاً مطلوب ہی اللّٰہ ہے اور کوئی ہے ہی نہیں تو اس کے منزل تک جلدی پہنچنے کا امکان ہے جبکہ دوسرا شخص چاہتا تو ہے لیکن کچھ گڑبڑ اور بھی ہے، وہ سوچتا ہے کہ یہ بھی ہونا چاہیے، یہ بھی ہونا چاہیے اور یہ بھی ہونا چاہیے تو اس کے منزل تک جلدی پہنچنے کا امکان نہیں ہے۔
قدرت اللّٰہ شہاب کا واقعہ ان کی آپ بیتی شہاب نامہ میں لکھا ہے کہ حضرت خواجہ بختیار کاکی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے خواب میں ان کے سامنے دودھ کا پیالہ رکھا اور فرمایا کہ آخرت چاہتے ہو یا دنیا۔ قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں: میں نے سوچا کہ اگر میں کہتا ہوں کہ آخرت چاہتا ہوں تو شاید میں فوراً فوت ہو جاؤں گا۔
بعض لوگ ضعیف الاعتقاد ہوتے ہیں، ان کا خیال یہ ہوتا ہے کہ آخرت کا مطلب مرنا ہی ہے۔ خیر وہ لکھتے ہیں کہ میں نے کہا کہ کچھ آخرت چاہتا ہوں اور کچھ دنیا۔ میرا یہ کہنا تھا کہ ایک کتا آیا اور اس نے پیالے میں منہ ڈال دیا۔ حضرت خواجہ بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: افسوس یہ مفت کی چیز آپ کی قسمت میں نہیں ہے، اب آپ کو مجاہدہ کرنا پڑے گا۔ پھر انہوں نے اپنے مجاہدات کی داستان شہاب نامہ میں تفصیل کے ساتھ لکھی ہے۔
کچھ لوگوں کا خالصتاً مطلوب ہی اللّٰہ ہوتا ہے اور کچھ نہیں ہوتا جبکہ کچھ لوگوں کے دل و دماغ اللہ کے ساتھ ”وایا دنیا“ ہوتے ہیں یعنی دنیا کی طلب بھی ہوتی ہے۔ یہ کھوٹ ہے۔ پہلے کھوٹ دور ہو گا، وہ جلے گا اس کے بعد اصل چیز کی باری آئے گی۔ استعداد کا یہی مطلب ہے کہ جس کے اندر کھوٹ نہیں ہے اس کی استعداد زیادہ ہے اور جس کے اندر کھوٹ ہے اس کی استعداد کم ہے۔ استعداد اصل میں اس بات پر منحصر ہے کہ انسان کی کوششوں کا رخ کس طرف ہے۔ اگر اس کا رخ صحیح ہے تو تھوڑی کوشش بھی کام دے گی اور اگر رخ صحیح نہیں ہے تو پھر زیادہ کوشش چاہیے ہو گی۔ استعداد یہی ہے کہ انسان کے اندر طلب کتنی ہے۔ ”وایا دنیا“ سے مراد یہ ہے کہ ایسا انسان اپنی دنیا کو قربان نہیں کر سکتا۔ اس کو یہ بھی خیال ہوتا ہے کہ میرا عہدہ خطرے میں نہ پڑ جائے، معاشرے میں میری عزت کم نہ ہو جائے، میری فلاں چیز کم نہ ہو جائے۔ یہ سب چیزیں رکاوٹ ہوتی ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ بس ہمیں اللّٰہ ہی چاہیے۔ ایسا تو نہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو مار دیتے ہیں۔ حضرت سلیمان علیہ السلام بادشاہ تھے اور نبی بھی تھے۔ حضرت عثمان رضی اللّٰہ تعالیٰ غنی بھی تھے اور خلیفہ راشد بھی تھے۔ لہٰذا آخرت کو چاہنے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ بندہ کو موت ہی آ جائے۔ آخرت کو چاہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا اپنا رخ کس طرف ہے، ہم کیا چاہتے ہیں۔ استعداد سے مراد یہی ہے کہ انسان کے خمیر میں کتنی طلب ہے۔
سوال نمبر10:
ایک طرف تو یہ بات ہے کہ دنیا کی چیزوں کی طرف توجہ کرنا اور انہیں چاہنا انسان کی کوششوں کا ایک غلط رخ ہے۔ دوسری طرف یہ بات بھی ہے کہ دنیاوی اسباب کو اختیار کرنا عاجزی ہے، اس لیے دنیا کو اختیار بھی کرنا چاہیے؟ ان دونوں باتوں میں تطبیق کیسے ہو گی؟ اس کی وضاحت فرما دیں۔
جواب:
گویا کہ آپ کا سوال یہ ہے کہ تمام چیزوں کو پس پشت ڈالا جا سکتا ہے لیکن کہیں ایسا نہ ہو کہ بزرگی کی صورت بن جائے۔ بزرگی بذاتِ خود طلب کا نہ ہونا ہوتا ہے۔ میں اس کی بھی نفی کرتا ہوں۔ بزرگی بذات خود طلب کی کمی ہے۔ یہ بزرگی نہیں ہو گی تب اصل چیز حاصل ہو گی۔
باقی اس کا تعلق شیخ پر اعتماد کے ساتھ ہے۔ شیخ پر اعتماد ہونا چاہیے۔ شیخ کے سامنے انسان سب کچھ چھوڑ دیتا ہے کہ میں اب اپنی رائے پہ نہیں چلوں گا بلکہ اپنے شیخ کی رائے پہ چلوں گا۔ جس درجے کا اعتماد ہوتا ہے اسی کے مطابق اللہ کی طرف سے مدد ہوتی ہے۔ بے شک ایک آدمی سب کچھ چھوڑنے کو تیار ہو جائے، لیکن شیخ اس کو یوں ہی نہیں چھوڑے گا بلکہ اس کو ایک متحرک اور عملی آدمی بنائے گا، معاشرے کا ایک اچھا، کاملِ عمل فرد بنائے گا۔ اب جو شخص سب کچھ چھوڑ کے اس بات پر آ گیا کہ میں شیخ کی بات پر عمل کروں گا چاہے وہ مجھے تخت پر بٹھائے چاہے تختے پہ چڑھائے تو یہ آدمی سچا طالب ہے۔ مثلاً اکثر میں ایک بات کیا کرتا ہوں کہ بعض لوگ ہم سے conditional (مشروط) بیعت کرتے ہیں کہ آپ ہمیں یہ چیز نہیں کہیں گے۔ ہم ایسے لوگوں کو بھی بیعت کر لیتے ہیں لیکن ان کو پھر اتنا ہی ملتا ہے جس درجہ کی انہوں نے اجازت دی ہے۔ انہیں اسی حساب سے ملتا ہے۔
یوں سمجھ لیے کہ اس میں شیخ کے اوپر تھوڑی سی بد اعتمادی ہے، گویا آدمی کے دل میں یہ بات ہے کہ شیخ میرے بارے میں صحیح نہیں سوچے گا۔ اتنی بات تو اس نے سوچ لی ہے کہ میں اتنی گنجائش رکھوں گا، اس کے علاوہ باقی سب شیخ پر چھوڑتا ہوں۔ اب اس نے اِس کے لئے جتنی گنجائش چھوڑی ہے اُس کے لئے اسی حساب سے اللّٰہ کی مدد آئے گی۔
میرے سامنے ایسے لوگوں کے بہت سارے واقعات ہیں، ان میں مرد بھی ہیں خواتین بھی ہیں، جنہوں نے اپنی اصلاح کی خاطر سب کچھ چھوڑ دیا اور اللّٰہ نے ان کو نواز دیا۔ اب ہم (یعنی مشائخ) یہ تو نہیں کرتے کہ جب وہ سب کچھ چھوڑتے ہیں تو ہم ان کو اس سب سے نکال لیتے ہیں۔ میں اس کی ایک مثال دیتا ہوں۔ مثال بزرگوں کی ہے۔ حاجی امداد اللّٰہ مہاجر مکی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے شیخ کے پاس کچھ لوگ آئے، کہنے لگے کہ حضرت! ہماری زمین پر سرکار نے دعویٰ کر دیا ہے، وہ ہم سے زمین چھیننا چاہتے ہیں، آپ ہمارے لیے دعا فرمائیں۔ بعض بزرگ بڑے مستجاب الدعوات ہوتے ہیں، بعض دفعہ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ مامور من اللّٰہ ہوں۔ ایسے حضرات کے بارے میں کئی مرتبہ لوگ غلط گمان بھی کرنے لگتے ہیں حالانکہ یہ ان کا اللّٰہ تعالیٰ کے ہاں ایک مقام ہوتا ہے، اس کی وجہ سے سب کچھ ہوتا ہے، کرتا تو پھر بھی اللّٰہ تعالیٰ ہی ہے مگر لوگ سمجھتے ہیں شاید فلاں صاحب ہی کر رہے ہیں۔ حضرت نے فرمایا کہ بھئی بات یہ ہے کہ میں دعا کر دیتا ہوں لیکن تمہیں یہ کرنا ہو گا کہ تم ہمارے حاجی صاحب کے لیے بارہ دری بنواؤ گے۔ یعنی حاجی امداد اللّٰہ مہاجر مکی رحمۃ اللّٰہ علیہ جو ان کے مرید اور خلیفہ تھے ان کے لیے بارہ دری بنوانے کی شرط رکھی۔ فرمایا اگر ایسا کرو گے تو میں دعا کر دیتا ہوں۔ ان لوگوں نے وعدہ کر لیا کہ بارہ دری بنائیں گے اور تعمیر شروع کر دی۔ اسی دوران سرکار (حکومت) کی طرف سے حکم آ گیا کہ ہم زمین نہیں لیں گے۔ یہ لوگ بڑے خوش ہو گئے۔ پھر انہیں یہ خیال آیا کہ بارہ دری کی تعمیر پہ کچھ زیادہ پیسے لگ رہے ہیں تو انہوں نے آدھی بنا دی، آدھی چھوڑ دی کہ جب پیسے آئیں گے تو باقی بنا دیں گے۔ خدا کی قدرت کہ کچھ دنوں کے بعد پھر حکومت کی طرف سے خط آیا جس میں لکھا تھا کہ یہ زمین ان لوگوں کے پاس تب تک ہے جب تک یہ زندہ ہیں، جب یہ فوت ہو جائیں گے پھر یہ زمین حکومت کی ہو گی۔ یہ لوگ دوبارہ رو پڑے اور حضرت کے پاس آ گئے کہ حضرت یہ مسئلہ ہو گیا ہے۔ فرمایا تم نے جتنا کیا اللّٰہ نے بھی اتنا کیا، تم لوگوں نے آدھی بنا کر چھوڑ دی لہذا اللّٰہ پاک نے بھی تم لوگوں سے آدھی لے لی۔
یہ اللّٰہ تعالیٰ کے نظام ہوتے ہیں۔ لوگ اس قسم کی مثالیں دنیا کے لیے دیتے ہیں حالانکہ یہ ساری دین کی باتیں ہیں۔ جس نے اپنے آپ کو جتنا زیادہ اللہ کے لئے تبدیل کیا اللّٰہ کی طرف سے اسی حساب سے مہربانی ہوتی ہے اور مدد آتی ہے کیونکہ اللّٰہ کے ہاں ظلم نہیں ہے، جو جتنا کرتا ہے اسی حساب سے بدلہ دیا جاتا ہے۔
سوال نمبر10:
حضرت بعض لوگ لسانی ذکر پر ذوق اختیار کرتے ہیں بعض قلبی ذکر کو کو ترجیح دیتے ہیں۔ ذکر لسانی والا درود شریف اور استغفار کا ورد کر سکتا ہے جبکہ قلبی ذکر کرنے والا صرف دل میں ”اَللہُ اَللہُ“ کر سکتا ہے۔ دونوں میں کیا فرق ہے؟
جواب:
اصل میں ذکر کی دو قسمیں ہیں۔ ایک قسم کا ذکر اجر کے لیے ہوتا ہے اور دوسری قسم کا ذکر اصلاح کے لیے ہوتا ہے۔ اجر کے لیے بہتر یہی ہے کہ ذکر زبان کے ساتھ کریں اور توجہ دل سے رکھیں۔ اس کا اجر زیادہ ہے کیونکہ اس میں دو عضو استعمال ہو رہے ہیں۔ جہاں تک اصلاح کی بات ہے تو یہ ہر ایک کے اپنے خمیر کی بات ہے۔ کسی کے لیے لسانی و جہری ذکر زیادہ مؤثر ہوتا ہے اور کسی کے لیے قلبی ذکر زیادہ مؤثر ہوتا ہے۔ اس کا فیصلہ شیخ پر چھوڑنا چاہیے۔ اس میں اجر کی بات نہیں ہے بلکہ اصلاح کی بات ہے۔
جب میں نے اپنے شیخ حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے عرض کیا کہ حضرت میں جب ذکر شروع کرتا ہوں تو میری زبان رک جاتی ہے، مجھے پتا بھی نہیں چلتا کہ زبان رک گئی ہے، دل سے ذکر ہو رہا ہوتا ہے، میرا ارادہ تو دل سے کرنے کا نہیں ہوتا بلکہ زبان سے کرنے کا ہوتا ہے لیکن زبان خود بخود رک جاتی ہے دل خود بخود جاری رہتا ہے تو حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ کوشش کرو کہ دونوں سے ذکر ہو کیونکہ اس طریقے میں دو عضو استعمال ہوتے ہیں اس لئے یہ زیادہ بہتر ہے۔ چونکہ مجھے حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے یہی طریقہ ارشاد فرمایا تھا اس لئے میں کوشش کرتا ہوں کہ اسی پر عمل کر لوں، اگرچہ کامیاب کم ہی ہوتا ہوں لیکن کوشش یہی کرتا ہوں کہ قلبی کو لسانی کے ساتھ جمع کر دوں۔
سوال نمبر11:
حضرت جی حدیث میں آتا ہے:
”اَلْمُؤْمِنُ مِرْاٰۃُ الْمُؤْمِنِ“ (سنن ابی داؤد: 4914)
ترجمہ: ”مومن مومن کا آئینہ ہے“۔
اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا کیا اثر ہونا چاہیے؟
جواب:
مومن مومن کا آئینہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح مومن انسان دوسرے مومن کو دیکھتا ہے وہ خود اسی طرح ہوتا ہے۔ اگر وہ مومنوں کو اچھا خیال کرتا ہے تو اصل میں وہ خود اچھا ہے اور اگر مومنوں کو خراب تصور کرتا ہے تو اس میں خود گڑبڑ ہے۔ وہ دوسروں کو اپنے اوپر قیاس کرتا ہے۔ اسی لئے کہا گیا ہے کہ ”کارِ پاکاں را قیاس از خود مگیر“۔ پاک لوگوں کے کاموں کو اپنے اوپر قیاس نہ کرو۔
اور اس کا اعلیٰ مطلب بھی یہ ہو سکتا ہے کہ آپ ﷺ ہم سب کے لیے آئینہ ہیں۔ اور خواب میں آئینہ سے مراد شیخ ہوتا ہے۔ اگر کسی نے خواب میں آئینہ دیکھا تو اس نے شیخ کو دیکھ لیا۔ اس لئے کہ شیخ کے ذریعے انسان کو اپنے عیوب کا پتا چلتا ہے۔ اور آپ ﷺ کی سنتوں کی وجہ سے بھی انسان کو اپنے عیوب کا پتا چلتا ہے کہ مجھ میں کیا کمی ہے۔
سوال نمبر12:
جب کسی عمل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ مسنون عمل ہے۔ کیا اس سے مراد یہ ہوتا ہے کہ یہ سنت عمل ہے؟
جواب:
جی ہاں مسنون عمل سنت کو کہتے ہیں۔
سوال نمبر13:
اندر کا سکون یعنی دلی سکون کیا ہوتا ہے، اس کی ہمارے مذہب میں کیا اہمیت ہے، یہ کیسے حاصل ہوتا ہے؟
جواب:
ایک ہی حالت میں ہونے کو سکون کہتے ہیں ۔ اور اضطراب اس کی ضد ہے، اس میں انسان ایک حالت میں نہیں رہتا بلکہ حالات کی تبدیلی کے ساتھ بدلتا رہتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چاہے خوشی ہو چاہے غمی ہو، انسان حق پر مطمئن رہے، وہ خوشی اور غمی سے پریشان نہ ہوتا ہو۔ یہ دلی سکون ہے۔ بعض لوگ خوشی میں بھول جاتے ہیں کہ ہم مومن ہیں، ہم مسلمان ہیں، ہمیں ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ بعض لوگ غم میں بھول جاتے ہیں کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ لیکن جن کو دلی سکون ہوتا ہے وہ ان چیزوں کا اثر نہیں لیتے بلکہ جیسے کرنا ہوتا ہے اسی طرح کرتے ہیں، یا جس طرح اظہار کرنا ہوتا ہے اس طرح اظہار کرتے ہیں اور جس طرح چھپانا ہوتا ہے اس طرح چھپا لیتے ہیں۔ حالات کی تبدیلی انہیں متاثر نہیں کر سکتی۔ یہ اندرونی سکون ہے۔
اگر دیکھا جائے تو ہمارے مذہب میں اس کی بڑی اہمیت ہے کیونکہ یکسوئی اسی سے بنتی ہے۔ اور ہمارے حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”یکسوئی ہو چاہے پاس ایک سوئی بھی نہ ہو“۔ یعنی انسان کا رخ صرف اللّٰہ کی طرف ہو چاہے انسان کے پاس کچھ بھی نہ ہو۔ اگر ایسا ہے تو پھر دلی سکون کا ہونا ہمارے مذہب میں بہت بڑی بات ہے۔ کیونکہ تمام اچھی باتوں کا حصول اسی ذریعے سے ممکن ہے۔ دلی سکون کے حصول کا طریقہ وہی ہے جس کو ہم طریقت کہتے ہیں۔ یہ کوئی علیحدہ چیز نہیں ہے۔ بلکہ دلی سکون، طریقت کا ایک "By product" ہے، طریقت کے راستے میں یہ خود بخود حاصل ہوتا ہے۔
سوال نمبر14:
It has been expressly stated in the holy Quran that very limited knowledge about this spirit true has been given to human beings and امرِ ربی. Does it imply that one should refrain from the subject totally or is it all right to know the basics (that is the difference between نفس and روح)? What will happen after death and what are برزخ، علیین and سجین etc? How much of this knowledge is sufficient for rectification of the سر? Please explain.
جواب:
میں پہلے اس سوال کا ترجمہ کر دیتا ہوں تاکہ اردو والے بھی اس کو سمجھ جائیں۔
سوال: سوال یہ ہے کہ قرآن میں بالکل واضح طور پہ کہا گیا ہے:
﴿قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ وَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا﴾ (بنی اسرائیل: 85)
ترجمہ: ” کہہ دو کہ: روح میرے پروردگار کے حکم سے (بنی) ہے۔ اور تمہیں جو علم دیا گیا ہے وہ بس تھوڑا ہی سا علم ہے“۔
جب یہ فرمایا گیا ہے کہ تمہیں اس کے بارے میں تھوڑا ہی علم ہے تو کیا ہم لوگ اس پر بالکل ہی بات کرنا چھوڑ دیں یا اس کے بارے میں کچھ علم حاصل کرنا مفید ہے؟ مثلاً نفس اور روح کے درمیان کیا فرق ہے اور موت کے بعد کیا ہو گا، برزخ کیا چیز ہے، علیّین اور سجّین کیا چیزیں ہیں؟ نیز یہ بھی فرما دیں کہ اپنے اعمال کو درست کرنے کے لئے اس کا کتنا علم بہتر ہے؟
جواب: میرے خیال میں بات صحیح طور پہ سمجھی نہیں گئی۔ اس آیت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کے بارے میں بالکل بات نہیں کی جا سکتی۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس بارے میں تم جتنی بھی بات کر لو وہ تھوڑی ہو گی۔ تم اس کی تہہ تک نہیں پہنچ سکتے، اس کی ماہیت کو نہیں جان سکتے۔ روح کیسی ہے اور کس طریقے سے کام کرتی ہے، یہ تو تم نہیں جان سکتے لیکن اس کے اثرات تمہیں نظر بھی آئیں گے، تم اس پر گفت و شنید بھی کر سکتے ہو، تم اس کو بہتر بھی کر سکتے ہو۔ یہی روحانیت ہے۔ ورنہ اگر اس پر بالکل گفتگو نہ کی جائے تو روحانیت تو ختم ہو جائے گی۔ روحانیت یہی ہے کہ ہم لوگ روح کے اثرات کے بارے میں سمجھیں کہ یہ کس چیز سے اچھی ہوتی ہے، کس چیز سے کمزور ہوتی ہے، کس چیز سے بری ہوتی ہے، اس میں کس چیز سے مسائل ہوتے ہیں، خبیث روح کیا ہے اور اچھی روح کیا ہے؟
قرآن مجید اور احادیث شریفہ میں اس کے بارے میں اشارے موجود ہیں۔ علمائے حق اس کو جانتے ہیں اور لوگوں کو بتاتے ہیں۔ جتنا بتایا جا سکتا ہے وہ بتا دیتے ہیں۔ اس سے زیادہ کریدنے کی گنجائش نہیں ہے۔ کیونکہ وہ بھی اتنا ہی جانتے ہیں جتنا بتا رہے ہیں۔ اگر وہ اس سے زیادہ جانتے تو بتا دیتے۔
لہٰذا روح کی ماہیت کے بارے میں سوالات نہ کیے جائیں۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے اللّٰہ کی ذات کے بارے میں کوئی سوال کرے گا تو غلط ہو گا لیکن اللّٰہ جل شانہ کی صفات کے بارے میں، اللّٰہ جل شانہ کی مخلوقات کے بارے میں سوال اور بات چیت کی جا سکتی ہے۔
لہٰذا روح کی ماہیت کیا ہے، اس بارے میں بالکل بحث نہیں کرنی چاہیے کیونکہ یہ جاننا نا ممکن ہے۔ البتہ اس کے اثرات اور کچھ چیزوں کے بارے میں ہم لوگ بات چیت کر سکتے ہیں۔ جیسے ہمارا دل یعنی قلبِ روحانی، روح کا مرکز ہے۔ اسی میں دونوں چینل ہیں: شیطانی چینل اور رحمانی چینل۔ یہ چینل اس گوشت کے ٹکڑے میں اور نفس والی چیز میں نہیں ہیں۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ چونکہ ہماری روح ہمارے نفس کے اندر پوری طرح سرایت کر چکی ہے اس لئے جہاں نفس ہے وہاں روح ہے اور جہاں روح ہے وہاں نفس ہے۔ اسی وجہ سے روح نفس سے متاثر ہوتی ہے اور نفس روح سے متاثر ہوتا ہے۔ پانچ راستے (حواسِ خمسہ) جو دل تک جاتے ہیں، دل ان سے متاثر ہوتا ہے اور یہ چیزیں دل سے متاثر ہوتی ہیں۔ یہ چیزیں نفس کی ہیں۔ معلوم ہوا کہ نفس دل سے اثر لیتا ہے اور دل نفس سے اثر لیتا ہے۔ یعنی روح نفس سے اثر لیتی ہے اور نفس روح سے اثر لیتا ہے۔ جب بات ایسی ہے تو ہم اپنے نفس پر محنت کر کے اس کی تربیت کر سکتے ہیں، پالتو بنا سکتے ہیں، اپنے لئے مفید بنا سکتے ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ ہم روحانیت کو ذکر اللّٰہ کے ذریعے سے بہتر کر سکتے ہیں، مراقبات کے ذریعے سے بہتر کر سکتے ہیں اور شغل کے ذریعے سے بہتر کر سکتے ہیں۔ یہ روحانیت ہمارے نفس کو قابو کرنے میں مدد دے گی، یہ ہمارے نفس کے اوپر حاوی ہو جائے گی۔ اس روحانیت کو بہتر کرنے کے لیے مختلف ذرائع ہیں، جیسے ذکر ہے، مراقبہ ہے اور شغل ہے جس کو ہم فاعلہ کہتے ہیں۔ ہم روحانیت کو بہتر کرنے اور نفس کو قابو کرنے کے لئے ان ذرائع کو استعمال کر سکتے ہیں۔ مشائخ کا کام یہی ہوتا ہے کہ وہ سالک سے ان ذرائع کو استعمال کروا کر اس کی روحانیت مضبوط کرتے ہیں۔ آج کل زیادہ تر ذکر اذکار کے بارے میں بتاتے ہیں۔
ان سب تفصیلات سے معلوم ہوا کہ ہمیں روح کے بارے میں یہ جاننے کی ضرورت تو ہے کہ آخر اس کی کیا significance (اہمیت) ہے۔ یہ علم روحانی ماہرین سے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ یہ ایک specialization (تخصص) ہے اور اس کے specialist (متخصصین) روحانی ماہرین ہی ہوتے ہیں جو مشائخ کہلاتے ہیں، جنہیں اہلِ قُلوب کہتے ہیں۔ اہلِ قلوب کے پاس جانے سے ہی یہ چیزیں حاصل ہو سکتی ہیں۔ ہر ایک کے لئے اس کے حصول کا طریقہ مختلف ہو سکتا ہے، جو راستہ اور طریقہ جس کے لئے بہتر ہو گا مشائخ اس کی طرف رہنمائی کر دیں گے۔
سوال نمبر15:
شُغَل کیا چیز ہے؟
جواب:
ایک چیز تو ذکر ہے، چاہے قلبی ہو، چاہے سری ہو، چاہے سانس کے ذریعے سے ہو چاہے جس طریقے سے بھی ہو۔ اور ایک مراقبہ ہوتا ہے۔ مراقبہ دل کی ایک سوچ ہے۔ انسان کسی چیز کو اخذ کرنے کے لیے اپنے دل کو اس پہ مرکوز کرتا ہے۔ مثلاً میں سوچ رہا ہوں کہ اللّٰہ مجھے محبت کے ساتھ دیکھ رہا ہے۔ یہ دل کی سوچ ہے۔ میں جتنا سوچوں گا اس چیز میں اتنی بڑھوتری آئے گی اور آہستہ آہستہ مجھے احساس و ادراک ہونے لگے گا کہ اللّٰہ پاک مجھے محبت کے ساتھ دیکھ رہے ہیں۔ یہ ایک مراقبہ ہے۔ اسی طرح بہت سارے دوسرے مراقبات ہیں۔ ذکر اور مراقبہ کے علاوہ ایک تیسری چیز ”شُغَل“ ہوتی ہے۔ جو آدمی سخت ہوتا ہے ذکر اور مراقبہ سے اس پر کوئی خاص اثر نہیں ہوتا، وہ اپنی جگہ سے نہیں ہلتا، اسے شغل دیا جاتا ہے۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے ڈاکٹر حضرات کے ہاں steroids ہوتے ہیں۔ جن پر عام دوائی اثر نہ کرے انہیں steroid دئیے جاتے ہیں۔ شغل بھی اسی قسم کی چیز ہے۔ یہ مختلف طریقوں سے کرایا جاتا ہے، اس کے اپنے اثرات ہوتے ہیں۔ شغل کے ذریعے آدمی جب ایک دفعہ چل پڑتا ہے پھر اس پر ذکر اور مراقبہ اثر کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ شغل کی کئی مثالیں ہیں۔ مثلاً کچھ لوگ دل کی تصویر کے اوپر ”اَللّٰہ“ خوبصورت الفاظ میں سنہری رنگ میں لکھوا کر اسے دیکھتے رہتے ہیں اپنی آنکھوں کو اس پہ مرکوز کر دیتے ہیں اور مسلسل کیے رکھتے ہیں حتیٰ کہ وہ ان کے اوپر طاری ہو جاتا ہے اور انہیں محسوس ہونے لگتا ہے کہ واقعی ہمارے دل کے اوپر ہی ”اَللہ“ لکھا ہوا ہے۔ انہیں اندرونی طور پر یہ با قاعدہ نظر آتا ہے۔ اس کے اپنے اثرات ہوتے ہیں۔ جیسے یہ سامنے ”اَللّٰہ“ لکھا ہوا ہے۔ میں اس کو اتنا دیکھوں، اتنا دیکھوں کہ یہ میرے دل کے اوپر چھا جائے۔ اور ایسا ممکن ہے۔ میں آپ کو اپنی مثال دیتا ہوں۔ میرے ساتھ ایسا ہوا ہے۔ میں نے آج تک کوئی شغل وغیرہ نہیں کیا، میں بڑا کمزور آدمی ہوں لیکن میرے ساتھ ایسا ہوا ضرور ہے اور خواب میں ہوا ہے۔ میں نے ایک بزرگ کو خواب میں دیکھا اور اتنے غور سے دیکھا، اتنے غور سے دیکھا کہ ان کا چہرہ میرے دل پہ نقش ہو گیا۔ اس لئے میں کہہ سکتا ہوں کہ ایسا سو فیصد ممکن ہے کہ ایک چیز کو مسلسل دیکھا جائے تو وہ دل پہ نقش ہو جاتی ہے، جیسے مجھے اللّٰہ پاک نے دکھا دیا۔ شاعر لوگ بھی اس طرح کی باتیں اپنے اشعار میں کہتے ہیں۔ شاعروں نے تو ویسے ہی اپنی طرف سے باتیں کی ہوتی ہیں لیکن یہ چیز ممکن ہے، ہو جاتی ہے۔ مختلف قسم کے اشغال ہوتے ہیں جن میں ایک یہ بھی ہوتا ہے جس کے بارے میں عرض کیا۔ دل کا نقش ہوتا ہے، ایک خوبصورت دل بنا ہوتا ہے اس کے اوپر بہت خوبصورت خوشخط جلی حروف میں ”اَللّٰہ“ لکھا ہوتا ہے، اسے مسلسل دیکھتے رہتے ہیں۔ لیکن آپ لوگ یہ اشغال شروع نہ کریں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کل سے یہ سلسلہ شروع کر لیں۔ یہ صرف اُسی کے لئے کرنا درست ہوتا ہے جسے مشائخ کی طرف سے بتایا جاتا ہے۔ ہر آدمی کے لئے یہ فائدہ مند نہیں ہے۔
سوال نمبر15:
We are always fearful of the devil misleading us through deceit. Is it possible to out smart him?
جواب:
ہم نے انگریزی میں Phd تو نہیں کی ہے لیکن بہرحال میں مفہوم سمجھ گیا ہوں اور وہ یہ ہے: ہم لوگ ہر وقت ڈرتے ہیں کہ شیطان ہمیں گمراہ کر دے گا۔ کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ ہم اپنے آپ کو اس سے مکمل طور پر بچا لیں؟
ہاں یہ بات ممکن ہے۔ شیطان سے اتنا ڈرنا بھی نہیں چاہیے کہ انسان اس کے خلاف منہ نہ کر سکے اور اتنا غافل بھی نہیں ہونا چاہیے کہ وہ اِسے تر نوالہ بنا لے۔ لہذا جو ذرائع اللّٰہ پاک نے بتائے ہیں، نبی کریم ﷺ نے بتائے ہیں، انہیں استعمال کیا جائے۔ ان میں سب سے بڑا ذریعہ ذکر ہے۔ جب انسان ذکر کرتا ہے تو شیطان وسوسہ نہیں ڈال سکتا۔
باقی یہ ہے کہ تم شیطان کو بھگا تو نہیں سکتے، وہ تو مقرر ہے، البتہ اسے اس طرح غیر مؤثر کر سکتے ہیں کہ اس کی چال میں نہ آئیں۔ لہٰذا ایک کام تو یہ کریں کہ شیطان کے وسوسے کی پرواہ نہ کریں۔ دوسری بات یہ کہ ذکر اللّٰہ کی کثرت کریں۔ موت کی یاد اور صحبتِ صالحین کا اہتمام رکھیں۔ اس کے ذریعے سے انسان شیطان سے بچتا رہتا ہے۔ شیطان کو ختم نہیں کیا جا سکتا، یہاں تک کہ فرماتے ہیں: جب اذان شروع ہوتی ہے تو اس کی آواز سن کر شیطان ریح نکالتے ہوئے دوڑتا ہے، جب تک اذان ہو رہی ہوتی ہے، وہ دور جا رہا ہوتا ہے لیکن جیسے ہی اذان ختم ہوتی ہے یہ واپس آ جاتا ہے۔ لہٰذا یہ بات تو طے ہے کہ ہم اس کو ختم نہیں کر سکتے۔ لیکن اس سے اتنا ڈرنا بھی درست نہیں کہ انسان بالکل معطل ہو جائے اور اس کے خلاف منہ ہی نہ کر سکے۔ شیطان انسان کے ساتھ کچھ نہیں کر سکتا۔ اس کی ساری طاقت وسوسے میں ہے، اس کے وسوسے پہ عمل نہ کرو، بس شیطان تمہیں کچھ نہیں کر سکتا۔ ”دشمن گر قوی است نگہباں قوی تر است“۔ دشمن اگر مضبوط ہے تو نگہباں اس سے بھی زیادہ مضبوط ہے۔ اللّٰہ میاں کے ساتھ رہو تو شیطان کچھ نہیں کر سکتا۔ اللّٰہ میاں کے ساتھ رہنے کا طریقہ یہ ہے:
﴿فَاذْكُرُوْنِیْۤ اَذْكُرْكُمْ﴾ (البقرۃ: 152)
ترجمہ: ”لہٰذا مجھے یاد کرو، میں تمہیں یاد رکھوں گا“۔
سوال نمبر16:
اصلاح ذکر سے زیادہ ہوتی ہے یا مراقبے سے زیادہ ہوتی ہے؟
جواب:
اصل میں یہ تصوف کے مختلف طریقے ہیں۔ نقشبندی حضرات سے پوچھیں گے تو وہ مراقبہ کا زیادہ فائدہ بتائیں گے۔ چشتی حضرات سے پوچھیں گے تو وہ جہری ذکر کا زیادہ فائدہ بتائیں گے۔ یہ ابتدا کی بات ہے، انتہا میں سارے ایک ہو جاتے ہیں۔
سوال نمبر17:
اکثر حضرات کو ضربیں لگانے والا ذکر اور مراقبہ، دونوں چیزیں دی جاتی ہیں۔ کیا اس کے کوئی خاص اثرات ہوتے ہیں؟
جواب:
میں اکثر ہمارے ساتھی ڈاکٹر حضرات سے کہا کرتا ہوں کہ آپ لوگ ذرا plants (پودوں) کی مفردات پہ بھی تحقیق کر لیا کریں۔ یہ بڑی مفید چیزیں ہیں۔ آسانی کے ساتھ فائدہ ہو جاتا ہے۔ اگر ڈاکٹر کو یہ چیزیں معلوم ہوں تو مریض لمبے چوڑے علاجوں سے بچ جاتا ہے۔ Pathology تو دونوں صورتوں میں جاننی ہوتی ہے۔ حکیم کو بھی جاننی ہوتی ہے اور ڈاکٹروں کو بھی جاننی ہوتی ہے۔ اگر ڈاکٹری میں اُس نے Pathology سمجھی ہے تو اس سے مریض کو زیادہ فائدہ ہو سکتا ہے۔ Abnormal pathology سے normal پہ آنے کے لیے علاج معالجے کے دو طریقے ہیں۔ ایک ایلو پیتھی ہے دوسرا حکمت ہے۔ حکمت میں مفردات کے خواص وغیرہ جان کر ان تمام چیزوں کو استعمال کروایا جا سکتا ہے۔ یہ بھی ایک بات ہے کہ تمام صورتوں میں ایلو پیتھی بھی زیادہ مفید نہیں ہے اور حکیمی علاج بھی ہر صورت میں زیادہ مفید نہیں ہے۔ کہیں پر حکیمی علاج زیادہ مفید ہے، کہیں پر ایلو پیتھی زیادہ مفید ہے۔ اگر معالج دونوں طریقے جانتا ہو گا تو جہاں پر جو طریقہ زیادہ مفید ہو گا اسی کے ذریعے علاج کر لے گا۔ ذکر بالجہر اور مراقبات کا بھی یہی معاملہ ہے۔ دونوں کا اپنا اپنا فائدہ ہے۔ بعض صورتوں میں ذکر زیادہ مفید ہوتا ہے اور بعض صورتوں میں مراقبہ زیادہ مفید ہوتا ہے۔ جہاں جہاں جو مفید ہو گا اس کے بارے میں مشائخ بتا دیں گے۔ جو مشائخ چاروں سلسلوں میں مجاز ہوتے ہیں انہیں اللّٰہ پاک نے یہ سہولت عطا فرمائی ہوتی ہے۔ چونکہ چاروں کے چاروں سلسلوں میں سے ہر سلسلہ ان کا ہوتا ہے اس لئے وہ مرید کو دیکھتے ہیں کہ اس کا مزاج کیسا ہے۔ اگر وہ مرید چشتی مزاج ہے تو اُسے اس کے مطابق چلاتے ہیں، اگر مرید نقشبندی مزاج ہے تو اس کے مطابق چلاتے ہیں۔ لہٰذا بجائے اس کے کہ انسان اپنے آپ کو دیکھے اسے مرید کو دیکھنا چاہیے کہ وہ کیسا ہے، اس کے حساب سے اس کا علاج تجویز کرنا چاہیے۔
سوال نمبر18:
حضرت علی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ہے کہ اگر جنت اور جہنم ہمارے سامنے آ جائیں تو ہمارے ایمان میں ذرہ بھر اضافہ ہو گا نہ کمی ہو گی۔ اسی ضمن میں یہ بھی سنا ہے کہ انبیاء کا ایمان بڑھتا رہتا ہے، جبکہ فرشتوں کا ایمان ایک جگہ پہ بر قرار ہے اور انسانوں کا ایمان کبھی بڑھتا ہے کبھی گھٹتا ہے۔ اس بارے میں کچھ تشریح فرما دیں۔
جواب:
میں بارہا بیان کر چکا ہوں کہ جہاں ایمان میں اضافے کی بات آتی ہے وہ اصل میں تقویٰ میں اضافے کی بات ہوتی ہے۔ کیونکہ ولایت کے حصول اور اللّٰہ کے تعلق کے لیے ایمان کے ساتھ دوسری شِق تقوی بتائی گئی ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللّہ علیہ کے مسلک کے مطابق ایمان نہ گھٹتا ہے نہ بڑھتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایمان کسی چیز کے ماننے کو کہتے ہیں۔ مثلاً میں اللّٰہ کو ایک مانتا ہوں۔ آپ مجھے بتائیے کہ یہ کیسے گھٹے گا کیسے بڑھے گا۔ یہ تو ایک یقینی خبر ہے۔ مجھے پتا ہے کہ اللّٰہ ایک ہے۔ جب میں اس کو ایک مانتا ہوں تو بس وہ ایک ہی ہے۔ اس میں یا تو صفر ہے یا ایک ہے۔ یہ بائنری ہے۔ ایمان کی ہر صورت بائنری ہے۔ لہذا اس میں گھٹنا بڑھنا نہیں ہوتا لیکن گھٹنے بڑھنے کے بارے میں جو فرمایا گیا ہے وہ اس کی دوسری شق تقویٰ کے بارے میں ہے۔ تقویٰ گھٹتا بڑھتا ہے۔ اب تقویٰ حضرت علی کرم اللّٰہ وجہہ کا بھی بڑھتا تھا، انبیاء کا بھی بڑھتا ہے اور نیک صحبت میں عام لوگوں کا بھی بڑھتا ہے۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے قول میں ایمان سے مراد یقین ہے۔ حضرت علی کرم اللّٰہ وجہہ کی مراد یہ تھی کہ یقین بڑھتا ہے۔ کیونکہ یقین کے درجات ہوتے ہیں۔ ایک علم الیقین ہوتا ہے، ایک عین الیقین ہوتا ہے اور ایک حق الیقین ہوتا ہے۔ علم الیقین یہ ہوتا ہے کہ کوئی آپ کو خبر دے اور آپ کو وہ بات معلوم ہو جائے۔ اس میں انسان ذرا متردد ہوتا ہے کہ پتا نہیں ایسا ہے یا نہیں ہے، اس کے یقین اور علم میں کچھ کمزوری ہوتی ہے، جب تک دیکھا نہ ہو۔ جب آدمی دیکھ لے تو بات پکی ہو جاتی ہے۔ تب اسے عین الیقین کا درجہ حاصل ہو جاتا ہے اور جب وہ بات اس پہ گزر جائے تو وہ حق الیقین ہو جاتا ہے۔ حضرت علی کرم اللّٰہ وجہہ کی صورت حال یہ تھی کہ ان کا نبی کریم ﷺ کے اوپر ایمان اتنا مضبوط تھا کہ وہ اس کے علاوہ کوئی اور بات سوچ ہی نہیں سکتے تھے۔ ان کا مکمل اور پختہ یقین تھا جو بات آپ ﷺ نے کی ہے اس میں غلطی ہو ہی نہیں سکتی لہذا اگر وہ جنت اور دوزخ دیکھ بھی لیتے تو بات وہی ہوتی جو آپ ﷺ نے ان کو پہلے سے بتائی تھی۔ اس لئے فرمایا کہ ہمارے ایمان میں ذرا بھر اضافہ نہ ہو گا۔ سمجھنے کے لحاظ سے یہ ذرا مشکل بات ہے۔
سوال نمبر19:
”فاعلہ“ سے کیا مراد ہے؟
جواب:
ذکر، مراقبہ اور شغل۔ یہ تینوں فاعلہ کہلاتے ہیں۔ تینوں کا مقصد ایک ہے کہ ہمارے اندر جو صلاحیتیں رکھی گئی ہیں وہ استعمال نہ ہونے کی وجہ سے مخفی پڑی ہیں، وہ صلاحیتیں ان چیزوں کے ذریعے سے ابھار دی جائیں، سامنے لائی جائیں، اور انہیں نفس کی اصلاح میں استعمال کیا جائے۔
سوال نمبر20:
حضرت! اس طرح کا تجربہ ہوا ہے کہ اچھی عادت مثلاً دعا کرنا کچھ مہینے کے لیے رہی پھر غائب ہو گئی، پھر کئی مہینوں کے بعد دوبارہ وہ چیز پیدا ہو گئی۔ تو یہ اچھی عادتوں کا آنا اور جانا، کیا یہ اصلاح کا process (دور) چل رہا ہے؟
جواب:
دو چیزیں ہیں: ایک تلوین ہے، اور ایک تمکین ہے۔ تلوین میں چیزیں تبدیل ہوتی رہتی ہیں، کبھی کچھ اور کبھی کچھ ہوتی ہیں جبکہ تمکین میں انسان ایک حال پر ٹھہر جاتا ہے۔ مثلاً بعض بزرگوں کو آپ نے دیکھا ہو گا کہ بات بات پہ دعا کریں گے جبکہ بعض بزرگ عمل کی دعوت دیتے ہیں اور ان باتوں کی طرف یعنی shortcut کی طرف نہیں آنے دیتے۔ بعض حضرات یہاں تک کہتے ہیں کہ غائبانہ دعا زیادہ قابلِ قبول اور بہتر ہے اس لئے میں آپ کے سامنے دعا کیوں کروں۔ تو یہ مختلف احوال ہوتے ہیں۔ جس کو جس حال پر رکھا گیا ہے، اس کے لیے وہی مفید ہوتا ہے وہ اس کا مقام ہوتا ہے۔ پھر یہ حضرات عمر بھر ویسے ہی رہتے ہیں۔ ہر حال میں ویسے ہی رہتے ہیں، وہ تبدیل نہیں ہوتے۔ البتہ اس مقام تک پہنچنے سے پہلے ان میں کافی تبدیلی آتی ہے۔ میں نے کچھ چیزوں کے بارے میں اپنے شیخ سے اس کی طرح باتیں کی تھیں تو مجھے حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے یہی فرمایا تھا کہ یہ حال بدلتا رہتا ہے، ان شاء اللّٰہ جب آپ اس منزل تک پہنچ جائیں گے تو پھر ایک حال پر ٹھہر جائیں گے۔ یہ تلوین ہے جس میں انسان بدلتا رہتا ہے۔
سوال نمبر21:
فضائل اعمال میں ہے کہ ذکر آدمی کے دل کو نیند سے جگاتا ہے، غفلت سے چوکنا کرتا ہے اور جو دل سوتا رہتا ہے اپنے سارے ہی مناقب کھوتا رہتا ہے۔
جواب:
دل ایک observer (مُشاہدہ کرنے والا) ہے اور receiver (چیزیں وصول کرنے والا) ہے اور implementer (نافذ کرنے والا) ہے۔ اِن سب چیزوں کے لیے جاگنا ضروری ہے۔ مشاہدہ کرنے کے لیے، وصول کرنے کے لیے اور نافذ کرنے کے لئے جاگنا ضروری ہے۔ دل کی حیات ذکر ہے۔ جیسے حدیث شریف میں فرمایا گیا ہے کہ ذکر کرنے والے اور نہ کرنے والے کی مثال ایسی ہے جیسے زندہ اور مردہ۔ پس ذکر کرنے والا زندہ ہوتا ہے اس کی یہ تینوں چیزیں جان دار ہوتی ہیں۔ وہ observe (مشاہدہ) بھی صحیح کرتا ہے، اللّٰہ کی طرف سے پیغام وصول بھی صحیح کرتا ہے اور اپنے نفس کے اوپر implement (نافذ) بھی خوب کرتا ہے۔ اس طرح وہ زندگی سے بھرپور ہوتا ہے۔ میرے خیال میں یہ بہت خوبصورت جواب ہے۔ الحمد للّٰہ یہ آپ کی برکت سے ہے۔ میں تو اس پہ کچھ نہیں کہہ سکتا۔
سوال نمبر22:
فضائلِ اعمال میں ایک حدیث شریف لکھی گئی ہے جس کا مفہوم ہے کہ جس شخص کی نماز اس کو بری باتوں سے نہ روکے تو وہ نماز ہی نہیں۔ بلکہ ایسی نماز کی وجہ سے اللّٰہ تعالیٰ سے دوری پیدا ہوتی ہے۔
جواب:
یہ بات آپ نماز نہ پڑھنے والے کو نہیں بتائیں گے بلکہ نماز پڑھنے والوں کو بتائیں گے۔ کیونکہ جو نماز نہیں پڑھتا پہلے تو اس کو نماز پہ لانا ہے۔ اس لیے فرماتے ہیں کہ جو لوگ اخلاص والے نہیں ہیں تو پہلے ان کو ایک چیز کی عادت ڈال دو، جب عادت بن جائے گی تو پھر عبادت بھی بن جائے گی، پہلے ریا ہو گی، پھر عادت ہو جائے گی، پھر عبادت ہو جائے گی۔ لہٰذا جو پہلے مرحلہ پہ ہیں ان لوگوں سے یہ بیان نہ کریں۔
سوال نمبر23:
آج کے زمانے، میں جب فرائض و واجبات ہی زندگیوں سے ختم ہو رہے ہیں، ایسے حالات میں کیا دوسروں کو مستحب عمل کی دعوت دینی چاہیے؟
جواب:
اصلاح کی لائن میں مباح کی گنجائش بھی ہے۔ مباحات سے بھی علاج ہوتا ہے۔ مباح نہ مستحب ہوتا ہے نہ فرض اور نہ ہی واجب۔ لہٰذا اگر مستحب عمل کسی کی اصلاح کا ذریعہ بن جائے تو کیا اس سے روک دیا جائے گا؟ اس سے نہیں روکنا چاہیے۔ کیونکہ بنیاد اصلاح پر ہے، اصل مقصد اصلاح ہے جو فرض عین ہے۔ لہٰذا اگر آپ کسی ایسے مستحب کی دعوت دے رہے ہیں جو اصلاح کا ذریعہ بن سکتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ مثلاً آپ کسی کو دعوت دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ درود شریف پڑھو۔ اب درود شریف ہے تو مستحب، لیکن درود شریف سے اس کا تعلق آپ ﷺ کے ساتھ بنے گا، آپ ﷺ کی محبت اس کے دل میں پیدا ہو گی، اس کے ذریعے سنتوں پہ چلنا آسان ہو جائے گا اور سنتوں پہ چل چل کے اس کو فرائض ادا کرنے کی توفیق مل جائے گی۔ دیکھئے درود شریف ہے تو مستحب لیکن اس کے فوائد فرائض تک پہنچ گئے۔ لہٰذا مستحبات کی دعوت بھی دی جا سکتی ہے۔
سوال نمبر24:
میں درود اور سلام میں کیا فرق ہے؟
جواب:
درود نبی کریم ﷺ پر رحمتوں کے نزول کی درخواست ہے اور سلام اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے سلامتی مانگنا ہے۔ جیسے ہم کہتے ہیں ”اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ“ اللّٰہ پاک کی طرف سے آپ پر سلامتی ہو۔
سوال نمبر25:
ایمانِ مجمل میں میں ہے: ”وَ الْقَدْرِ خَیْرِہٖ وَ شَرِّہٖ مِنَ اللّٰہِ تَعَالیٰ“۔ ”اچھی اور بری تقدیر اللہ کی طرف سے ہے“۔ اس کا کیا مطلب ہے؟
جواب:
تقدیر چاہے اچھی ہے یا بری ہے وہ اللّٰہ کی طرف سے ہوتی ہے۔ بالفاظِ دیگر جو کچھ اچھا یا برا ہو رہا ہے وہ اللّٰہ کے امر سے ہو رہا ہے۔ اس بات پر یقین رکھنا ایمان کا حصہ ہے۔
سوال نمبر26:
ایک صاحب نے کسی کے پاس کچھ رقم امانت رکھوائی اور کہا کہ اسے گن لیں۔ انہوں نے کہا: وقت نہیں ہے۔ امانت رکھوانے والے نے اصرار کیا کہ یہ سنت ہے گن لیں مگر انہوں نے کہا کہ یہ امانت ہے اور بغیر گنے پیسے رکھ لیے۔ کیا ان کا عمل درست ہے اور کیا امانت کو گن کے نہیں لینا چاہیے؟
جواب:
اگر امانت رکھوانے والے نے وہ رقم بند کر کے دی ہے تو پھر اسے کھولنا نہیں چاہیے۔ اگر کھول کے دی ہے تو پھر گننا بہتر ہے تاکہ اس کو پتا ہو۔ کیونکہ عین ممکن ہے کہ اس سے دو تین نوٹ آگے پیچھے ہو جائیں۔ گننے کی صورت میں اس کو علم ہو گا کہ جب لئے تھے تو اتنے تھے۔ ورنہ اختلاف ہو جائے گا اور شیطان کو موقع مل جائے گا۔
میں ایک دفعہ ایک بینک سے پیسے نکلوا رہا تھا۔ کیشئر میرا دوست تھا۔ وہ مجھے پانچ پانچ سو روپے کے نوٹ دے رہا تھا۔ میں انہیں گن رہا تھا۔ اس نے کہا: کیوں گنتے ہو؟ میں نے کہا: عین ممکن ہے آپ زیادہ دے دیں، میں اس نیت سے گنتا ہوں کہ آپ زیادہ دے دیں تو واپس کر دوں۔ کہنے لگا: بینک والے کبھی زیادہ دے سکتے ہیں؟ میں نے کہا: میری نیت مجھ تک ہے، آپ نہ دے سکیں تو علیحدہ بات ہے لیکن میں تو اسی نیت سے گنتا ہوں۔ خدا کی شان، جب میں نے گن لیے تو معلوم ہوا کہ اس نے ایک نوٹ زیادہ دے دیا ہے۔ میں نے اسے پیسے پکڑائے اور کہا کہ یہ گن لو، جب اس نے خود دوبارہ گنا تو اس کا رنگ فق ہو گیا۔ کہنے لگا کہ یہ کیسے ہو گیا؟ میں نے کہا کہ یہ تیرا تکبر توڑا جا رہا ہے۔ لہذا گننے میں فائدہ تو ہے، البتہ اس کی نیت یہ ہو کہ زیادہ نہ دیا ہو، کیونکہ اس نیت میں خود غرضی ہے کہ کہیں کم نہ دیا ہو، اور اس نیت میں ایثار ہے کہ کہیں زیادہ نہ دیا ہو، لہٰذا اچھی نیت کرنی چاہیے۔
سوال نمبر27:
یہ جو ماں کا دن، باپ کا دن اور فلاں کا دن، یہ جو دن منائے جاتے ہیں۔ اس کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
جواب:
اصل میں سارے دن ماں کے ہیں۔ سارے دن باپ کے ہیں۔ سارے دن اولاد کے ہیں۔ کون سے دن میں کس کا کام رک جائے گا؟ کیا خیال ہے کہ جب ماں کا دن ہو تو باپ کی کوئی پرواہ نہیں کرنی چاہیے؟ یہ تو لوگوں نے اپنے لیے کھیل بنائے ہوئے ہیں۔ لوگ میسیجنگ کرتے ہیں، مضامین لکھے جاتے ہیں اور بڑے نخرے ہوتے ہیں۔ لیکن یہی لوگ جو اس قسم کی باتیں کرتے ہیں، اپنی ماں باپ کے ساتھ ان کا رویہ درست نہیں ہوتا۔
سوال نمبر28:
حضرت! والدین کا دن منانے میں حرج کیا ہے؟ یہ بھی خدمت کی ایک صورت ہے۔
جواب:
حضرت مولانا فضل الرحمن گنج مراد آبادی رحمۃ اللّٰہ علیہ جو ایک مجذوب نما بزرگ تھے۔ مجذوب نما سے مراد یہ ہے کہ کبھی مجذوب ہوتے تھے کبھی ہوش میں ہوتے تھے۔ بہت بڑے بزرگ تھے۔ ان سے کسی نے کہا کہ حضرت آپ میلاد کیوں نہیں مناتے؟ فرمایا: ہم بھلا کیوں نہیں مناتے (ہم ہی تو مناتے ہیں)۔ اگر آپ ﷺ تشریف نہ لاتے تو ہمیں یہ کلمہ معلوم نہ ہوتا، ہم یہ کلمہ نہ پڑھتے، ان کا کلمہ پڑھنا ان کی میلاد منانا ہی تو ہے۔
بھئی والدین کی خدمت کرو، ان کے لیے جتنا آپ سے ہو سکتا ہے وہ کرو، بھلا یہ کیا بات ہے کہ ایک دن ساری بھڑاس نکال لی اور پھر سارا سال پرواہ نہ کی۔ یہ تو صرف ایک قسم کا پریشر ککر کی طرح پریشر نکالنے کرنے والی بات ہے۔ یہ ہمارے طریقے نہیں ہیں۔ یہ تو عقلی جواب تھا اور نقلی جواب یہ ہے کہ اس سلسلے میں بس مختصر سی بات یہ ہے کہ یہ طریقے دین میں ثابت نہیں ہیں۔ آپ ﷺ سے یا کسی صحابی سے ثابت نہیں ہے کہ انہوں نے ماں کا دن منایا ہو، باپ کا دن منایا ہو، استاد کا دن منایا ہو، برسی منائی ہو۔ جب ثابت نہیں ہے تو ہم کیوں منائیں۔
اپنا واقعہ عرض کرتا ہوں۔ میری تاریخ پیدائش کاغذات کے مطابق 24 اپریل ہے۔ اصل میں یہ نہیں ہے، بس لکھوا دی گئی تھی۔ گاؤں میں جب بچے سکولوں میں داخل کیے جاتے ہیں تو جو لکھ دیتے ہیں پھر وہی چلتا رہتا ہے۔ تو میری تاریخ پیدائش 24 اپریل لکھی ہوئی تھی۔ جب میں جرمنی گیا تو وہاں میرے کاغذات ہمارے آفس کی سیکرٹری کے پاس تھے۔ اسے میری تاریخ پیدائش کا پتا تھا۔ جب 24 اپریل کا دن آیا تو وہ مجھے کہتی ہے: Happy birthday to you۔ میں نے کہا: ?What is this۔ کہنے لگی: کیا آج 24 اپریل نہیں ہے؟ میں نے کہا: وہ تو ہے۔ کہتی ہے: کیا اس دن آپ کی سال گرہ نہیں ہوتی؟ میں نے سوچا اب اس کے ساتھ کون بحث کرے گا، اس سے الجھنے کی ضرورت ہی نہیں ہے اور اسے کہا:
We don't follow this calendar , we have another one.
اور یہ کہہ کر بات ختم کر دی۔
یہ اُن لوگوں کا طریقہ ہے، وہ کرتے ہیں۔ تو کریں، شمع جلائیں، پھر پھونکیں ماریں اور نہ جانے کیا کیا کریں۔ یہ سارے بچوں کے کھیل ہیں۔ وہ یہ سب اس لئے کرتے ہیں کہ ان کے دلوں میں کچھ نہیں ہے۔ جن کے دل میں اللّٰہ ہوتا ہے ان کو ان چیزوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ صرف اپنے آپ کو بہلانے کے بہانے ہیں۔ مختلف طریقوں سے بہلاتے ہیں کیونکہ ان کے پاس اور کچھ ہوتا نہیں۔ وہ لوگ یورپ کے ہیں جو والدین کو قید کر لیتے ہیں اور اولڈ ہاؤسز میں بھیج دیتے ہیں۔ ان کے لحاظ سے یہ کوئی اچھی چیز ہو گی۔ وہ سال میں ایک دن والدین کے پاس اولڈ ہاؤس میں جاتے ہیں، ان کو پھول پیش کرتے ہیں۔ اور پھول کے ساتھ بھول بھی پیش کرتے ہیں کہ اس کے بعد ہم آپ کو بھول جائیں گے۔ یہ ان کا کلچر ہے۔ let them follow. It is their culture
سوال نمبر28:
یہ مغربی لوگ تو کتوں کو ساتھ سلانے والے ہیں، (یعنی جانوروں کا بھی اتنا خیال رکھتے ہیں) دوسری طرف سگے ماں باپ کو بھول جاتے ہیں۔ دونوں باتوں میں بہت دوری ہے۔ یہ انسان میں کیسے پیدا ہو جاتی ہے؟
جواب:
ان کے کسی فعل میں حقیقت کا انعکاس نہیں ہے۔ یہ ساری ظاہر داری ہے اس کے پیچھے کوئی مضبوط بنیاد نہیں ہے۔ یہ شیطان نے انہیں تھوڑا سا مطمئن کرنے کے لئے ڈھکوسلے دئیے ہوئے ہیں۔ جیسے میں نے پریشر ککر والی مثال دی کہ ان کا مطمح نظر یہ ہوتا ہے کہ کسی طریقے سے پریشر ختم ہو جائے تاکہ ان کے اندر یہ جذبہ زیادہ نہ پنپ جائے۔ کہیں حقیقت میں والدین کی خدمت کرنا شروع نہ کر دیں۔ اس لئے شیطان ان کو یہ ذرا سے ڈھکوسلے دئیے رکھتا ہے۔ حکومتوں نے میڈیا کو جو آزادی دی ہوتی ہے اس کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ لوگوں کے اندر جو پریشر پنپ رہا ہے وہ میڈیا کے ذریعے سے نکال دیں تاکہ وہ پریشر بڑھ نہ جائے۔ آپ کو معلوم ہے کہ انگلینڈ میں ایک پارک ہے جہاں انسان کسی کو کچھ بھی کہہ سکتا ہے، وہاں کسی بھی آدمی کے بارے میں کچھ بھی کہہ دیں دے، اس پہ کوئی قانونی گرفت نہیں ہوتی۔ کسی بھی آدمی کے بارے میں کچھ کہہ دے، کوئی تقریر کر لے، وہ Off the record ہوتی ہے۔ یہ سب بھی پریشر نکالنے کے لیے ہے تاکہ وہ اصل بات پہ نہ آئیں اور عملی طور پر قدم نہ اٹھا لیں۔
سوال نمبر29:
یہ جو ایک دوسرے کو کہتے ہیں کہ آئیے تشریف لائیے، چائے پیئیں، چائے تیار ہی ہو گی، آئیے آئیے کھانا کھائیے۔ کیا اس طرح کہنے کی ضرورت ہے؟
جواب:
سوال میں ہی جواب موجود ہے۔ میں اس بارے میں کیا کہہ سکتا ہوں۔
سوال نمبر30:
کیا ایک مومن کے شایان شان ہے کہ اس کے مزاج میں خشکی ہو؟ خندہ پیشانی سے ملنا کسے کہتے ہیں؟
جواب:
اصل میں بعض لوگ اپنے مطلب کے لیے terminology (اصطلاحات) کو تبدیل کر لیتے ہیں۔ بعض دفعہ سنجیدگی ہوتی ہے لیکن اس کو خشکی سمجھ لیا جاتا ہے۔ بعض لوگ خشکی کو سنجیدگی کہنے لگتے ہیں۔ بعض لوگ حِدت کو شدت بنا لیتے ہیں۔ بعض لوگ تَصَلُّب کر رہے ہوتے ہیں لیکن لوگ اسے تعصب کہنا شروع کر دیتے ہیں جب کہ بعض لوگ تعصب کرتے ہیں لیکن لوگ اسے تَصَلُّب کہنا شروع کر دیتے ہیں۔ حالانکہ یہ دونوں متضاد چیزیں ہیں۔
سنجیدگی تو بڑی اچھی چیز ہے کیونکہ اس میں ہر چیز کا حق ادا ہوتا ہے۔ خشکی کسی بھی صورت میں نہ ماننے کو کہتے ہیں۔ ایسا چڑچڑا پن جس کی وجہ سے انسان کوئی بات بالکل سننا ہی نہ چاہے، خشکی کہلاتا ہے لیکن ایک آدمی سنجیدہ ہے وہ بلاوجہ گفتگو نہیں کرنا چاہتا، خاموش رہتا ہے تو اسے خشکی نہیں کہیں گے بلکہ یہ ایک اچھی صفت ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے:
”مَنْ صَمَتَ نَجَا“ (سنن ترمذی: 2501)
ترجمہ: ”جو خاموش رہا اس نے نجات پائی“۔
ہمیں سنت کے مطابق زندگی گزارنی چاہیے، چاہے لوگ اس کو کچھ بھی کہہ دیں۔
خندہ پیشانی کے ساتھ ملنا، ضروری نہیں کہ ہر وقت ممکن ہو۔ ایک شخص بیمار ہے وہ خندہ پیشانی سے نہیں مل سکتا، کیا اس پہ زبردستی کریں کہ خندہ پیشانی سے ملو۔ اگر وہ تکلف کے ساتھ ایسا کرے گا تو یہ تصنع ہو جائے گا اور تصنع کوئی اچھی صفت نہیں ہے۔ دوسرے لوگوں کو اس کا خیال رکھنا چاہیے کہ وہ بیمار ہے، اسے اس حد تک نہیں لے جانا چاہیے۔ اسی طرح ایک آدمی بہت مصروف ہے، اس کے پاس ملنے کا وقت نہیں ہے، جیسے مولانا تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم ہیں۔ اب وہ لوگوں سے خندہ پیشانی سے ملا کریں گے تو کام کب کریں گے۔ وہ بیچارے تو نماز میں سب سے آخری صف میں کھڑے ہوتے ہیں اور سب سے پہلے بھاگنے والے ہوتے ہیں۔ وہ سب سے آخر میں مسجد میں آنے والے ہوتے ہیں کیونکہ ان کو پتا ہے کہ اگر وہ تھوڑی دیر پہلے آ گئے تو جمگھٹا ہو جائے گا۔ ہر شخص کے اپنے اپنے حالات ہوتے ہیں، اس وجہ سے اس کے حساب سے بات کرنی چاہیے۔ سب کے لئے ایک ترتیب نہیں بنائی جا سکتی۔
سوال نمبر30:
کچھ لوگوں کا مزاج لوگوں کے ساتھ تبدیل ہو جاتا ہے۔ مثلاً وہ کسی بڑے انسان سے بات کر رہے ہوں تو لہجہ تبدیل کر لیتے ہیں لیکن اگر کوئی چھوٹا آدمی ہے تو اس سے اچھے مزاج میں بات نہیں کریں گے، کہہ دیں گے کہ میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے یا اس طرح کی کوئی اور بات کر لیں گے۔
جواب:
حفظ مراتب بھی دین ہی کا اصول ہے۔ مثلاً ایک آدمی آتا ہے جو دین کے لیے بہت زیادہ کام کر سکتا ہے آپ اس نیت سے اس کا اکرام کرتے ہیں کہ وہ زیادہ استعمال ہو جائے لیکن آپ کے دل میں اس سے دنیا کے فائدے کی خواہش نہ ہو تو اس کو غلط نہیں کہا جائے گا۔ دوسری طرف ایک غریب آدمی تھوڑے اکرام سے بھی خوش ہو جائے گا کیونکہ وہ زیادہ کا عادی نہیں ہے۔ اب دونوں کو برابر تو نہیں کر سکتے۔ آپ ہر ایک کے ساتھ برابر کا معاملہ تو نہیں کر سکتے۔ لہٰذا سب سے الگ الگ طریقے سے ملنا غلط نہیں ہے۔ یہ بات حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھی ہے۔
اس معاملے میں اس بات کو زیادہ اہمیت دینی چاہیے کہ ”إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ“ ”تمام اعمال کا دار و دار نیتوں پر ہے“۔ اس سے بات زیادہ بہتر طریقے سے سمجھ آ سکتی ہے۔
ورنہ پھر یہ ہے کہ ہر کوئی اپنے اپنے مطلب کی بات کرے گا۔ اور ہر ایک پہ اعتراض کرے گا۔ حالانکہ اگر یہ معترض خود دوسرے کی حالت میں چلے جائیں تو اس سے زیادہ خراب ہوں گے۔
مثلاً میں مولانا تقی عثمانی صاحب کی بات کرتا ہوں۔ اگر میں اُن حالات میں چلا جاؤں تو شاید دروازے ہی بند کر دوں۔ وہ کم سے کم گھر سے نکلتے تو ہیں۔ ہر ایک کے اپنے اپنے حالات ہوتے ہیں۔ بڑے لوگوں کے بارے میں بعض دفعہ لوگ اس قسم کی باتیں کر دیتے ہیں، یہ رویہ مناسب نہیں ہے۔
ایک مرتبہ کچھ لوگ حضرت مولانا تقی عثمانی صاحب کے پاس ملنے کے لئے آئے تھے۔ انہوں نے چٹ بھیجی کہ حضرت ہم تو آپ کو اپنا مقتدا سمجھ کے آئے تھے اور بڑی محبت کے ساتھ آئے تھے کہ آپ دین کا بڑا کام کر رہے لیکن ہمیں یہ دیکھ کر بہت افسوس ہوا کہ آپ نے آستینوں میں کف بنائے ہوئے ہیں، حالانکہ یہ تو علماء کا شعار نہیں ہے۔ حضرت نے بھری مجلس میں طلباء کے سامنے جواب دیا تھا کہ دیکھو بھائیو! میں آپ لوگوں سے درخواست کرتا ہوں خدا کے لیے میرے معتقد نہ بنو، مجھے آزاد چھوڑ دو، میں کسی کو معتقد نہیں بنانا چاہتا۔ جہاں تک میرے کف کی بات ہے تو مجھے یہ بھی پتا نہیں ہے کہ میں نے قمیص کس کی پہنی ہوئی ہے، مجھے تو یہ بھی کوئی اور بتاتا ہے، مجھے یہ کیسے پتا چلے گا کہ میں نے کف والی قمیض پہنی ہوئی ہے یا بغیر کف والی قمیض پہنی ہوئی ہے۔ بعض لوگوں کا ایسا مزاج بھی ہوتا ہے، ہر قسم کے حضرات ہوتے ہیں۔ یہ میدان بہت وسیع ہے۔ میرے خیال میں ”ظُنُّوْا المُؤْمِنِیْنَ خَیْرًا“ پر عمل کرنا زیادہ بہتر ہے کہ مومنوں کے ساتھ اچھا گمان رکھا جائے۔ ورنہ اگر ہم بزرگوں کے تجزیے کرنا شروع کر دیں تو ہمیشہ خسارے میں رہیں گے۔ کیونکہ ہر ایک کے کسی نہ کسی عمل سے تو ہمیں اختلاف ہو گا ہی، لہٰذا ہم کسی کے پاس نہیں رہ سکیں گے۔ شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے تو اب آنا نہیں ہے، وہ اب نہیں آئیں گے، امام مہدی علیہ السلام ہماری قسمت میں ہیں یا نہیں، یہ ہمیں معلوم نہیں ہے تو پھر کیا کریں۔ یہی بہتر ہے کہ سب کے ساتھ اچھا گمان رکھیں۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ