اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال نمبر1:
قرآن پاک میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں آیا ہے:
﴿يُرِيْدُوْنَ وَجْهَهٗ﴾ (الکھف: 28)
ترجمہ: ”وہ اس کی خوشنودی کے طلبگار ہیں“۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنے ہر قول، فعل اور عمل میں اللہ پاک کی رضا کو مد نظر رکھا کرتے تھے۔ حضرت جی اس بارے میں رہنمائی فرمائیں کہ ہم اپنے اندر اس صفت کو کیسے پیدا کریں اور کیسے ترقی دیں؟
جواب:
انسان مختلف چیزوں سے متاثر ہو کر ان کے مطابق عمل کرتا ہے۔ جو انسان اللہ پاک کو اپنا سب کچھ سمجھے اور اس بات پر یقین رکھے کہ میری ہر چیز اللہ تعالیٰ کے قبضہ و قدرت میں ہے لہذا مجھے اللہ کو راضی کرنا چاہیے، اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کرنا آسان ہو جاتا ہے، پھر وہ سارے کام اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق کرتا ہے۔ جو آدمی ہر کام اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق کرے گا نتیجتاً اس کا ہر کام ٹھیک ہو گا۔
ہر وقت ہر جگہ ہر کام میں اللہ تعالیٰ کی طرف دھیان ہونا، اسی کا نام ”کیفیتِ احسان“ ہے۔ جس کو کیفیتِ احسان حاصل ہو جائے، اسے دو فائدے ہوں گے۔ ایک یہ کہ اس کا ہر کام اللہ کی رضا کے مطابق ہو گا، دوسرا یہ کہ اس کے ہر کام کا بہترین اور احسن نتیجہ مرتب ہو گا۔
سوال نمبر2:
لوگوں کے سامنے بات کرنے میں جھجھک اور ہچکچاہٹ کو کیسے دور کیا جائے؟
جواب:
انسان جس سے مرعوب ہوتا ہے یا اس کی کسی بات سے زیادہ متاثر ہوتا ہے، اس کے سامنے ہچکچاہٹ اور بوکھلاہٹ آ ہی جاتی ہے۔
اگر آپ وزیر اعظم کے سامنے کھڑے ہو جائیں اور آپ کو معلوم نہ ہو کہ یہ وزیر اعظم ہے تو آپ اطمینان سے بات کر رہے ہوں گے لیکن جیسے ہی آپ کو پتا چل جائے کہ یہ وزیراعظم ہے تو آپ کے ہاتھ پیر پھول جائیں گے۔
اس لئے ہمیں یہ چاہیے کہ اپنے آپ کو اللہ سے متاثر کریں اور اپنے دل میں اسی ذات کا خوف اور رعب پیدا کریں۔ اگر انسان اللہ پاک سے متاثر ہونا سیکھ لے اور سمجھ لے کہ ہر کام اللہ ہی کرتا ہے، جب تک اللہ نہ چاہے کوئی چیز مجھے نقصان نہیں پہنچا سکتی، تو پھر انسان اپنے آپ کو صرف اللہ کے سامنے شرمندہ سمجھے گا، صرف اللہ جلّ شانہٗ کے سامنے جھجک ہو گی، صرف اللہ جل شانہ سے ڈر ہو گا، اس کے علاوہ باقی سب چیزوں اور سب لوگوں کا ڈر ختم ہو جائے گا، ان سے جھجھک ہٹ جائے گی اور یہ مسئلہ ٹھیک ہو جائے گا۔ لہذا انسان مخلوق سے متاثر نہ ہو، صرف اللہ پاک سے متاثر ہو۔
ایک صحابی کا واقعہ ہے جو بطور سفیر رستم بادشاہ کے دربار میں گئے تھے۔ رستم نے بڑا پر شوکت اور با رعب قسم کا دربار سجایا تھا اور فرش پر بے حد قیمتی قالین بچھے ہوئے تھے۔ جب یہ صحابی وہاں پہنچے تو گھوڑا دربار کے باہر باندھنے کی بجائے اسے اندر ہی لے آئے اور ہاتھ میں جو نیزہ تھا اسے قالین پر ٹیکتے ہوئے دربار میں داخل ہوئے، بادشاہ کے قریب پہنچ کر تخت کے ساتھ گھوڑا باندھ دیا، دربار کے داخلی دروازے سے تخت تک کا تمام قالین نیزے کی انی لگنے کی وجہ سے جگہ جگہ سے پھٹ گیا۔ لوگ حیران ہو گئے کہ یہ کیسے آدمی ہیں کہ بادشاہ کی شان و شوکت اور رعب و دبدبہ سے ذرہ بھر متاثر نہیں ہوئے۔ نتیجتاً وہ لوگ ان صحابی سے مرعوب ہو گئے اور ڈر نے لگ گئے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی انسان کے دل میں صرف اللہ پاک کا رعب، خوف اور ڈر ہو تو باقی سب چیزوں کے اثرات خود بخود ختم ہو جائیں گے۔
ایک تواضع ہے اور ایک احساس کمتری ہے۔ دونوں میں فرق ہے۔ احساس کمتری بہت بری بیماری ہے یہ انسان کی شخصیت کو مسخ کر کے رکھ دیتی ہے جبکہ تواضع ایک اعلیٰ صفت ہے۔ تواضع کا مطلب ہے اللہ جل شانہ کے حکم کی وجہ سے عاجزی اختیار کرنا اور اللہ پاک کی ہر مخلوق کو محترم سمجھنا، یہ سمجھنا کہ جس طرح اللہ نے مجھے نعمتیں دی ہیں، اسی طرح اللہ تعالیٰ مجھ سے یہ نعمتیں لے بھی سکتے ہیں۔ اور جس طرح اللہ پاک نے دوسروں کو یہ نعمتیں نہیں دیں، ان کو دے بھی سکتے ہیں۔
تواضع کرنے والے اپنی کسی چیز پر اتراتے نہیں ہیں بلکہ ہر چیز کو اللہ کی طرف سے امانت سمجھتے ہیں۔ ان میں تواضع تو ہوتی ہے لیکن احساسِ کمتری نہیں ہوتا۔
احساس کمتری میں یہ ہوتا ہے کہ انسان اپنے آپ کو دنیاوی چیزوں کی وجہ سے کم درجہ کا سمجھنے لگتا ہے۔ مثال کے طور پر کسی کا دوست ڈپٹی کمشنر بن گیا ہے۔ اب اسے اپنے دوست کے بارے میں سوچ کر یہ خیال آتا ہے کہ اس کے پاس عہدہ ہے میرے پاس عہدہ نہیں ہے، فلاں کا کاروبار ہے میرا کاروبار نہیں ہے، فلاں کے پاس دولت زیادہ ہے میرے پاس دولت کم ہے، اور ان دنیاوی چیزوں کی کمی کی وجہ سے اپنے آپ کو کم درجہ کا حامل سمجھنے لگتا ہے، اس قسم کے احساس کو احساسِ کمتری کہتے ہیں۔ جس آدمی کا دل دنیا کی چیزوں میں اٹکا ہوتا ہے وہ احساس کمتری کا شکار ہوتا ہے۔ جس کا دل ان چیزوں میں نہیں پھنسا ہوتا بلکہ صرف اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتا ہے اسے دنیا کی وجہ سے احساسِ کمتری نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنے پاس موجود چیزوں پر مطمئن ہوتا ہے۔ وہ کہتا ہے اگر اللہ تعالیٰ نے اس میں میرے لئے خیر رکھی ہوتی تو مجھے دیا ہوتا، ضرور اس میں میرے لئے کوئی شر ہو گا اس لئے اللہ نے مجھے یہ چیز نہیں دی۔
جو عہدے ہمیں اللہ نے نہیں دیئے، لازماً اس کی حکمت یہی ہو گی کہ ہمیں وہ عہدے نہ دے اور اسی میں ہمارے لئے خیر ہو گی۔ ممکن ہے کہ ہمارے پاس بہت زیادہ مال کا آنا ہمارے لئے نقصان دہ ہو، اسی لیے اللہ نے ہمیں نہ دیا ہو۔ لہٰذا اپنی سوچ و فکر ہر دم اللہ پاک کی طرف رکھنی چاہیے، اس کے دئیے پہ راضی رہنا چاہیے، جو اس نے نہیں دیا اس کی وجہ سے دنیا کے معاملے میں اپنے آپ کو کم درجہ کا نہیں سمجھنا چاہیے، بلکہ عاجزی صرف اور صرف اس لئے اختیار کرنی چاہیے کہ اللہ پاک نے حکم دیا ہے۔
سوال نمبر3:
طلب میں اخلاص ہونا چاہیے یا اخلاص کی طلب ہونی چاہیے؟
جواب:
دونوں چیزیں ضروری ہیں۔ اخلاص کی طلب بھی ہونی چاہیے کہ یا اللہ مجھے اخلاصِ نیت عطا فرما دے۔ پھر اس طلب میں بھی اخلاص ہونا چاہیے کہ یا اللہ میں جو اخلاص مانگ رہا ہوں اس سے میرا مقصد صرف تیری رضا ہے۔
ہمارے شیخ رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے:
نہ آہ چاہتا ہوں نہ واہ چاہتا ہوں
خدا کے لئے میں خدا چاہتا ہوں
یعنی خدا کا چاہنا بھی خدا کے لئے ہونا چاہیے۔
سوال نمبر4:
اس بارے میں رہنمائی فرما دیں کہ ایک آدمی کا معمول ہے کہ وہ شیخ کے پاس جایا کرتا ہے اس کے علاوہ ذکر و اذکار اور مراقبات کے معمولات بھی کرتا ہے۔ ان دونوں میں سے کس کو ترجیح دینی چاہیے۔ شیخ کے پاس جانا زیادہ ضروری ہے یا اپنے اذکار و مراقبات کرنا۔
جواب:
دونوں کی اپنی اپنی اہمیت ہے۔ دونوں ہی ضروری ہیں۔ شیخ کی صحبت میں جانا ایک مستقل معمول ہے اور اپنے اذکار و مراقبات روزانہ کرنا یہ بھی ایک معمول ہے۔ بغیر عذر کے دونوں میں سے کوئی معمول نہیں چھوڑنا چاہیے۔ شیطان دونوں طرح کے معمولات کے بارے میں وسوسے ڈالتا ہے، کسی نہ کسی بہانے سے کوئی معمول چھڑاتا ہے، جب ایک بار معمول چھوڑ دیا تو پھر شیطان کے لئے راستہ بن جاتا ہے۔ خواہ وہ معمول شیخ کے پاس جانا ہو یا دوسرے معمولات ہوں۔ اس لئے دونوں قسم کے معمولات کو بالکل نہیں چھوڑنا چاہیے بلکہ ایسی ترتیب بنانی چاہیے کہ دونوں قسم کے معمولات پابندی سے ہوتے رہیں۔
سوال نمبر5:
کیا نفس اور قلب ایک ہی چیز ہیں یا الگ الگ ہیں۔ اس بارے میں رہنمائی فرما دیجئے۔
جواب:
نفس اور قلب، دونوں مختلف چیزیں ہیں۔ قلب روح کا مرکز ہے اور نفس خواہشات کے نظام کا مرکز ہے۔
مثلاً انسان کی آنکھ کی اپنی خواہشات ہیں، زبان کی اپنی خواہشات ہیں، کان کی اپنی خواہشات ہیں، جسم کے دیگر اعضاء کی اپنی اپنی خواہشات ہیں، ان سب خواہشات کا مرکز نفس ہے۔
قلب روح کے نظام سے متعلق ہے۔ تمام روحانی کاموں کا مرکز قلب ہے۔ قلب میں دو طرح کے چینل ہیں، ایک الہامِ رحمانی وصول کرنے کے لئے جبکہ دوسرا چینل وساوسِ شیطانی کے لئے ہے۔ الہامِ رحمانی والا چینل ایسی چیزیں اپنی جانب وصول کرتا ہے جن سے روحانیت کو ترقی ملتی ہے، جبکہ دوسرا چینل نفسانیت والی چیزیں کھینچتا ہے۔
انسان کے اعضاء، آنکھ، کان، زبان اور ہاتھ پاؤں وغیرہ کا تعلق قلب کے ساتھ بھی ہے اور نفس کے ساتھ بھی ہے، اگر قلب میں الہامِ رحمانی والا چینل بیدار ہے تو اس کے ذریعہ انسان کے قلب میں روحانیت آتی ہے جس کا اثر اس کے اعضاء پر ہوتا ہے اور انسان کے اعضاء و جوارح سے اعمالِ صالحہ صادر ہوتے ہیں۔ اور اگر اس کا شیطانی چینل زیادہ بیدار ہے تو اس کے قلب میں نفسانی خواہشات کا اثر غالب ہوتا ہے جس کے نتیجے میں یہی اثر اس کے اعضاء و جوارح میں سرایت کر جاتا ہے اور اس کے اعضاء سے شیطانی اعمال صادر ہوتے ہیں۔
اگر کسی کا روحانی چینل کمزور ہو تو اسے طاقتور اور بیدار کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ وہ زیادہ نیک اعمال کرے، خواہ اسے اس سلسلے میں اپنے اوپر جبر ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ انسان جتنے زیادہ نیک اعمال کرے گا اس کا روحانی چینل اتنا زیادہ طاقتور ہو گا اور شیطانی چینل اتنا ہی زیادہ کمزور ہوگا۔ پھر ایک بار نیک اعمال شروع کرنے کے بعد اگر انسان مستقل مزاجی سے اس پر قائم رہے اور ان کو بڑھاتا رہے تو شیطانی چینل کمزور ہوتے ہوتے بالکل بند ہو جائے اور اس کی روحانیت مکمل طور پر بیدار ہو جائے گی۔
قلب کا علاج ذکر اللہ کے ذریعے ہوتا ہے اور نفس کا علاج مجاہدہ کے ذریعے ہوتا ہے۔
اگر اپنی قوت ارادی کو استعمال کرتے ہوئے نفس کی خواہشات پر قابو پایا جائے تو آہستہ آہستہ نفس کے اندر قبولیت کی صفت پیدا ہوتی جائے گی اور وہ بات ماننا شروع کر دے گا۔ یہی نفس کا علاج ہے۔
نفس کی مثال گاڑی کی سی ہے اور دل کی مثال ڈرائیور کی سی ہے۔ ڈرائیور صحیح نہ ہو صرف گاڑی صحیح ہو تو کام نہیں ہو سکتا، اسی طرح ڈرائیور صحیح ہو مگر گاڑی صحیح نہ ہو تب بھی کام نہیں ہو سکتا۔ دونوں ٹھیک ہوں گے تب کام بنے گا۔ لہذا نفس کا علاج بھی چاہیے اور دل کا علاج بھی چاہیے۔ دونوں کے علاج سے کام ٹھیک ہوتے ہیں۔
سوال نمبر6:
شیخ جو ذکر اذکار دیتا ہے، وہ اللہ پاک کے اسماء پر مشتمل ہوتے ہیں۔ بزرگ فرماتے ہیں کہ شیخ کے دئیے ہوئے ذکر میں نہ کمی کرنی چاہیے نہ اضافہ کرنا چاہیے اور نہ ہی اس کی ترتیب میں تبدیلی کی جائے۔ اس میں کیا حکمت ہے، ان اذکار میں کمی بیشی کرنے سے کیا نقصان ہوتا ہے؟
جواب:
در اصل شیخ جو ذکر دیتا ہے وہ علاجی ذکر ہوتا ہے، اس کی مثال وزرش کی طرح ہوتی ہے۔ جب انسان ورزش کرتا ہے تو ہر پچھلی ورزش اگلی ورزش کے لئے بنیاد اور سہارے کا کام کرتی ہے۔ اگر ورزش بے ترتیب کی جائے یا وقفے وقفے سے کی جائے، ایک بیٹھک صبح لگا لی جائے دو شام اور ایک رات، تو اس کا فائدہ نہیں ہوتا۔
علاجی ذکر کی مثال ڈاکٹر کی دی ہوئی دوائی کی طرح ہوتی ہے۔ مثلاً ڈاکٹر نے تجویز کیا ہو کہ صبح دوپہر شام ایک ایک گولی کھانی ہے۔ اب اگر آپ ایک وقت میں ہی تین گولیاں کھا لیں گے تو فائدہ کم ہو گا، بعض صورتوں میں بالکل فائدہ نہیں ہو گا جبکہ بعض صورتوں میں فائدہ کی بجائے نقصان کا خطرہ بھی ہو گا۔ اسی طرح کم کرنے سے بھی نقصان ہو گا، ترتیب کو تبدیل کرنے سے بھی نقصان کا خدشہ ہے۔ علاجی ذکر کا معاملہ ایسا ہی ہوتا ہے اس لئے اس میں نہ کمی بیشی کی جا سکتی ہے اور نہ ہی اس کی ترتیب میں تبدیلی کی جا سکتی ہے۔ ہاں غذائی اور ثوابی اذکار میں کچھ گنجائش ہوتی ہے اس میں کبھی کمی بیشی یا ترتیب کی تبدیلی کی جا سکتی ہے لیکن اسے بھی عادت نہیں بنانا چاہیے۔
سوال نمبر7:
حضرت جی! آپ سالکین کو ذکر دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایک ماہ بعد اطلاع کریں۔ ایک ماہ بعد اگر ان کی رپورٹ ٹھیک ہو تو آپ ان کا ذکر بڑھا دیتے ہیں۔ اگر کوئی آدمی ایک ماہ بعد اپنا معمول نہیں بتاتا، وہ چاہتا ہے کہ ابھی اس کا ذکر نہ بڑھے اتنا ہی رہے۔ ایسا کرنے سے اس کی اصلاح پر کیا فرق پڑ سکتا ہے؟
جواب:
اگر کوئی سالک ذکر بالکل ہی چھوڑ دے تو اس میں یہ نقصان ہے کہ اس کی اصلاح کا سلسلہ مکمل طور پر موقوف ہو جائے گا۔ اگر کوئی ذکر مکمل طور پر نہیں چھوڑتا مگر شیخ کو بتاتا نہیں جس کے نتیجے میں اس کا ذکر آگے نہیں بڑھتا تو اس کی ترقی رک جاتی ہے، اور اصلاح میں تاخیر ہو جاتی ہے۔ اگر کسی کو ترقی نہیں کرنی اور اصلاح نہیں کروانی تو بے شک وہ ایسا کر سکتا ہے، اس معاملے میں کسی پہ کوئی زبردستی نہیں ہو سکتی۔ لیکن ایسا نہیں کرنا چاہیے ورنہ اِس راہ پر چلنے اور بیعت ہونے کا مقصد ہی فوت ہو جائے گا۔ بیعت کا مقصد اصلاح کروانا ہے، اصلاح ذکر اور مجاہدہ سے ہوتی ہے، یہ علاج کے ذرائع ہیں، جن چیزوں سے اصلاح ہوتی ہے اگر انہی کو روک دیا جائے تو اصلاح ہی نہیں ہو گی۔
مثلاً ڈاکٹر نے مریض کو ایک مہینہ بعد آنے کی ہدایت کی ہے مگر وہ ایک کے بجائے دو مہینہ کے بعد آتا ہے تو اس میں ڈاکٹر کا نقصان نہیں ہے بلکہ مریض کا اپنا نقصان ہے۔ اسی طرح مقرر وقت پورا ہو جانے کے بعد شیخ کو اطلاع نہ کرنا بھی نقصان کا باعث ہے۔ لہٰذا جو اصلاح کا سچا متلاشی ہے وہ ایسا نہیں کرے گا۔
سوال نمبر8:
جب انسان کو فنا فی اللہ حاصل ہوتی ہے تبھی اس کو بقا بھی حاصل ہوتی ہے۔ انسان ایک ہی وقت میں فانی فی اللہ اور باقی باللہ، دونوں صفتوں کے ساتھ کیسے متصف ہوتا ہے؟
جواب:
فانی فی اللہ اور باقی باللہ۔ ان دونوں صفتوں کے ساتھ بیک وقت متصف ہونا اس طرح ممکن ہے کہ ایک سالک فانی اس لحاظ سے ہوتا ہے کہ اس نے اپنی خواہشات اللہ کی محبت اور رضا میں فنا کر لی ہیں، جبکہ باقی اس لحاظ سے ہوتا ہے کہ اب وہ اللہ کا بن گیا ہے۔ نفس کے لئے فانی ہو چکا ہے اور اللہ کے لئے باقی رہ گیا ہے۔ جیسے حضرت خواجہ عزیز الحسن مجذوب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
ہر تمنا دل سے رخصت ہو گئی
اب تو آ جا اب تو خلوت ہو گئی
اللہ کے سوا ہر چیز کی تمنا کو اپنے اندر سے ختم کر دینا فنا ہے اور صرف اللہ کی رضا کے لیے باقی رہنا بقا ہے۔
جو انسان اللہ تعالیٰ کے لئے اپنے آپ کو فنا کرتا ہے اسے اللہ پاک زندگئ جاوید عطا فرماتا ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کے لئے اپنے آپ کو گراتا ہے اللہ اس کو اٹھاتا ہے۔ اس کی بہترین مثال یہ ہے کہ جو آدمی اللہ کی راہ میں اپنی جان قربان کر کے اپنے آپ کو فنا کر دے اور شہید ہو جائے تو اللہ اسے ہمیشہ کی زندگی عطا کرتا ہے۔ قرآن پاک میں ایسے شخص کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ اسے مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہے۔ اس نے اپنی جان کو اللہ کی راہ میں فنا کر دیا تو اللہ پاک نے اس کو ہمیشہ کے لئے زندہ کر دیا۔ اسی طرح جو آدمی اپنے نفس اور اپنی خواہشات کو اللہ تعالیٰ کی رضا میں فنا کر دیتا ہے اللہ پاک اس کو بقا عطا فرما دیتے ہیں۔ وہ جتنا جتنا فانی ہوتا ہے اتنا اتنا باقی ہوتا جاتا ہے۔ اس کا نفس جتنا جتنا منظر سے ہٹتا جاتا ہے اللہ کی رضا میں اس کی بقا اسی حد تک ظاہر ہوتی جاتی ہے۔
ایک خاتون کو میں نے مراقبۂ عبدیت کرنے کی ہدایت کی تھی۔ مراقبۂ عبدیت کی تفصیل کرتے ہوئے اسے بتایا تھا کہ یہ تصور کرنا ہے کہ میرا ہر بال سجدے میں ہے۔ اس نے مجھے بتایا کہ جب میں نے مراقبہ شروع کیا تو عجیب حال طاری ہو گیا، ایسا محسوس ہونے لگ گیا کہ میں بالکل ختم ہو رہی ہوں، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی محسوس ہونے لگا کہ بن بھی رہی ہوں۔ ایک ہی وقت میں بننا اور ختم ہونا، یہ دونوں کام ہو رہے ہیں۔
اس خاتون نے یہ تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ مجھے پریشانی ہو رہی ہے کہ یہ کیسی کیفیت ہے۔ میں نے اسے بتایا کہ اس کیفیت میں پریشانی والی کوئی بات نہیں ہے، آپ فنا فی اللہ اور بقا باللہ کا مراقبہ کر رہی ہیں، اس لئے آپ کو دونوں کیفیتیں حاصل ہو رہی ہیں۔ اس لئے یہ دونوں کیفیتیں ایک ہی وقت میں حاصل ہونا کوئی عجیب بات نہیں ہے۔
سوال نمبر9:
بہت کوشش کے بعد بھی سستی کا علاج نہیں ہو پاتا، اس بارے میں رہنمائی فرمائیے کہ سستی کا علاج کیسے کیا جائے؟ کیا اس کے لئے یہ طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے کہ دنیا کے کاموں میں سستی ختم کرنے کی کوشش کی جائے اور مشق کی جائے پھر اسی مشق کو دین کے کاموں میں سستی ختم کرنے میں استعمال کیا جائے۔
جواب:
یہ طبیعت طبیعت کی بات ہوتی ہے۔ بعض لوگوں کی طبیعت میں سستی ہوتی ہے، ایسے لوگوں کی ہر چیز میں سستی کا عنصر پایا جاتا ہے۔ ان کی تربیت اس طرح کی جاتی ہے کہ انہیں کہا جاتا ہے کہ سستی نہ کرو اور اپنی ہر چیز میں اس بات کا خاص خیال رکھو کہ سستی نہ ہونے پائے۔ جیسے جیسے وہ اس بات کا خیال رکھتے جاتے ہیں ویسے ویسے ان کی طبیعت سے سستی کا عنصر کم ہونا شروع ہوتا جاتا ہے۔ نفس سے اسی طرح بات منوائی جاتی ہے کہ اس کی نا جائز خواہشات کے الٹ کام کیا جاتا ہے، اس طرح تدریجاً وہ ماننا شروع کر لیتا ہے اور انسان کے لئے شریعت پہ عمل کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ سستی کسی کام میں نہیں ہونی چاہیے، نہ دنیا کے کاموں میں اور نہ ہی دین کاموں میں۔ دنیا کے جائز کاموں میں سستی ختم کرنے کی مشق کو بعد میں دین کے لئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اگر کوئی آدمی دنیا کے کاموں میں سستی دور کرنے میں کامیاب ہو گیا تو آخرت کے لئے بھی سستی دور ہو جائے گی، اس کا نفس اس کی بات ماننا شروع کر لے گا۔
مثلاً کسی دنیاوی نقصان سے بچنے کی کوشش کرنا دنیا ہی کا کام ہے۔ لیکن جو انسان دنیاوی نقصان سے بچنے میں ہوشیار ہو گا جب اس کے دل میں اللہ کی محبت پیدا ہو گی تو اس کی یہی ہوشیاری دینی نقصان سے حفاظت میں کام آئے گی۔ لہٰذا سستی ختم کرنا اور چستی پیدا کرنا چاہے دنیاوی کاموں میں ہو چاہے دینی کاموں میں ہو، یہ ایک اچھی صفت ہے۔
سوال نمبر10:
جو لوگ راہ سلوک پہ نہ چل رہے ہوں ان کے لئے نماز میں توجہ پیدا کرنے کا کیا طریقہ ہے؟ اور جو راہ سلوک پہ چل رہے ہوں ان کے لئے کیا طریقہ ہے؟
جواب:
نماز اللہ کا حکم ہے اور دین کا ایک اہم ستون ہے۔ اس میں توجہ پیدا کرنے کی جب بھی کوشش کی جائے گی وہ کوشش سلوک ہی کہلائے گی۔ ہاں اگر ایسا آدمی کسی سے اصلاح نہیں کروا رہا خود اپنے طور پر، اپنی سمجھ کے مطابق کوششیں کر رہا ہے تو ہم اس کی ان کوششوں کو بے قاعدہ سلوک کہتے ہیں۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے کسی بھی حکم پر بہتر طریقے سے عمل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ سلوک ہی طے کر رہے ہیں، اگر وہ روزے کے اوپر محنت کر رہے ہیں تو یہ بھی سلوک ہے، اگر وہ نماز کو ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تو یہ بھی سلوک ہے، الغرض جو بھی دینی کام آپ بہتر طریقے سے کرنا چاہتے ہیں، اس کے لئے کوشش کرنا سلوک ہی کہلائے گا، لیکن اگر آپ کسی شیخ کی رہنمائی کے بغیر یہ کوششیں کر رہے ہیں تو یہ بے قاعدہ سلوک ہو گا۔ لہٰذا اس سوال کو ہم یوں کہیں تو بے جا نہ ہو گا کہ جو لوگ با قاعدہ سلوک طے کر رہے ہیں ان کے لئے نماز میں توجہ پیدا کرنے کا کیا طریقہ ہے اور جو بے قاعدہ سلوک طے کر رہے ہیں ان کے لئے کیا طریقہ ہے؟
با قاعدہ سلوک یہ ہے کہ سلوک طے کرنے کے معروف طریقہ کو اختیار کیا جائے، ایسا کرنے سے یہ سب چیزیں خود بخود ٹھیک ہوتی جائیں گی۔
میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ تصوف کا حاصل یہ ہے کہ دنیا کی محبت کو دل سے دور کر لو اور اللہ کی محبت کو دل میں لے آؤ۔ یہ با قاعدہ سلوک ہے، اسی کے لئے ساری محنتیں ہو رہی ہیں۔ اس میں نہ نماز کا ذکر ہے، نہ روزے کا ذکر ہے، نہ زکوٰۃ کا ذکر ہے، بس دنیا کی محبت کو نکالنا ہے اور اللہ تعالیٰ کی محبت کو پیدا کرنا ہے۔ جس وقت دنیا کی محبت نکل گئی اور اللہ تعالیٰ کی محبت دل میں پیدا ہو گئی تو آپ کی ساری چیزیں درست ہو جائیں گی۔ جب آپ کو علم ہو گا کہ اللہ پاک نے نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے، اور آپ کو اللہ کے ساتھ محبت ہو گی تو آپ نماز پڑھنے سے رک نہیں سکیں گے۔
اللہ جل شانہ نے فرمایا ہے کہ آپ ﷺ کا اتباع کرو۔ جس آدمی کو اللہ کے ساتھ محبت ہو گی وہ اس حکم کو دیکھ اور سن کر سوچے گا کہ آپ ﷺ کیسے نماز پڑھتے تھے، اس بارے میں معلوم کرے گا اور ویسی نماز پڑھنے کی کوشش کرے گا۔ آہستہ آہستہ یہی چیز اس کی زندگی کے تمام معاملات پہ حاوی ہوتی چلی جائے گی اور وہ تمام کاموں میں اللہ تعالیٰ کے احکام پر نبی کریم ﷺ کی ہدایات کے مطابق صحابہ کرام کے طریقہ کے مطابق عمل کرنے لگ جائے گا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا سلوک یہی تھا کہ انہیں نبی ﷺ کی برکت سے ایمان لاتے ہی اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل ہو گئی تھی، دنیا کی محبت ان کے دل سے نکل گئی تھی، لہٰذا ان کی ساری چیزیں خود بخود ٹھیک ہو گئی تھیں۔ ان کو ہر چیز پر علیحدہ علیحدہ محنت نہیں کرنی پڑی۔ لیکن ہمیں محنت کرنا پڑے گی اور ہماری محنت کا مقصد یہی ہو گا کہ ہم صحابہ رضی اللہ عنہم کے طریق پر چلنے لگ جائیں جس کا باقاعدہ طریقہ یہی ہوتا ہے کہ شیخ کامل کی راہنمائی میں دل، نفس اور عقل پر محنت کی جائے جس کے نتیجہ میں اللہ پاک کی محبت دل میں آ جائے اور دنیا کی محبت نکل جائے۔
بے قاعدہ سلوک والوں کی نیت بھی یہی ہوتی ہے کہ اللہ پاک کی محبت دل میں آ جائے لیکن چونکہ وہ بے قاعدہ طریقے سے کرتے ہیں، کسی کی رہنمائی میں نہیں کرتے، خود ہی اپنے استاد ہوتے ہیں، اس لئے ان کا خیال ہوتا ہے کہ میری ساری روحانی بیماریاں خود بخود ٹھیک ہو جائیں۔ یہ راستہ بہت طویل ہے، اور اس میں بھٹکنے کا بھی بہت خطرہ ہے، اس راہ میں جگہ جگہ نفس اور شیطان گھات لگا کر بیٹھے ہوئے ہیں، کسی بھی جگہ سے اچک سکتے ہیں۔
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ اس راستہ کی مثال ایسی ہے جیسے ریلوے ٹریک پر ایک گاڑی کھڑی ہے جس کا انجن نہیں ہے اور آپ اس کو چلا رہے ہیں۔ اول تو وہ چلے گی نہیں، اگر چل بھی گئی تو بے حد قوت لگے گی، اور فوراً رک جائے گی، جب تک آپ دھکا لگاتے رہیں گے یا کھیچنتے رہیں گے تب تک وہ رک رک کر، گھسٹ گھسٹ کر چلتی رہے گی، اور بہت زیادہ عرصہ میں بہت کم فاصلہ طے کرے گی، جب آپ رک جائیں گے تب گاڑی بھی رک جائے گی۔ لیکن اگر آپ نے اس کے ساتھ انجن لگا دیا تو پھر ایسی رفتار پکڑے گی کہ اسے روکنا مشکل ہو جائے گا۔ اللہ کی محبت وہی انجن ہے۔ اگر اللہ کی محبت پیدا ہو جائے تو پھر روکنا مشکل ہو جاتا ہے۔ سب اعمال خود بخود ہونے لگتے ہیں۔
لہٰذا ایسے سوالوں کے جواب میں ہم یہ کہتے ہیں کہ با قاعدہ سلوک طے کر لو، باقی چیزیں خود بخود حاصل ہو جائیں گی۔ اگر بے قاعدہ کرنا ہے تو اس کے لئے بھی طریقہ ہے کہ آپ فرداً فرداً ہر چیز کا خیال رکھیں، مثلاً نماز کے لئے یہ تصور کریں میں اللہ کے سامنے کھڑا ہوں، یہ نہیں کر سکتے تو پھر یہ تصور کر لیں کہ میں خانہ کعبہ کے سامنے کھڑا ہوں، یہ بھی نہیں کر سکتے تو نماز کے ہر ہر رکن کے اندر قلبی نیت کر لیں کہ اب رکوع میں جا رہا ہوں، اب سجدہ میں جا رہا ہوں، اور قرأت کچے حافظ کی طرح سوچ سوچ کر کریں۔ اس طرح بھی توجہ آ جائے گی۔ جب آپ ان سب چیزوں کی طرف دھیان رکھیں گے تو آپ کی توجہ نہیں بھٹکے گی۔ کیونکہ ایک وقت میں دو چیزوں کی طرف خیال نہیں جا سکتا۔ اس طرح آپ کی نماز وقتی طور پر بہتر ہو جائے گی لیکن اگلی نماز کے لئے آپ کو پھر یہ سب کرنا پڑے گا۔ عارضی ذریعہ کا فائدہ بھی عارضی ہوتا ہے۔ اس لیے عارضی ذرائع چھوڑیں اور با قاعدہ سلوک طے کر لیں۔
سوال نمبر10:
اگر کوئی شخص شادی کے لئے کئی بار استخارہ کر چکا ہو اس کے با وجود بھی اس کا دل مطمئن نہ ہو اور تردد باقی رہے تو اسے کیا کرنا چاہیے؟
جواب:
شاید آپ نے ہر مرتبہ ایک ہی شخص کے بارے میں استخارہ کیا ہو گا۔ اس لیے کسی اور کے بارے میں استخارہ کریں، اگر پھر بھی اطمینان نہ آئے تو تیسری شخصیت کے بارے میں استخارہ کریں۔ اگر شادی کسی ایک خاص شخصیت سے کرنی ہے تو پھر استخارہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر آپ استخارہ اس لئے کر رہے ہیں کہ شادی کروں یا نہ کروں تو پھر شخصیت تبدیل کر کے دیکھیں۔
سوال نمبر 11:
اس بات کی وضاحت فرما دیں کہ قرآن میں آیا ہے کہ اِس قرآن مجید میں اُس شخص کے لئے نصیحت ہے جس کے پاس دل ہو۔ اسی طرح حدیث میں بھی آیا ہے کہ جس کام کے بارے میں گناہ یا نیکی ہونے کا تردد ہو تو اپنے دل سے پوچھ لیا کرو۔
لیکن دل ہمیشہ ٹھیک بات تو نہیں بتاتا، کئی مرتبہ غلط کام پر بھی دل مطمئن ہوتا ہے۔ پھر ان آیات و احادیث کا کیا مطلب سمجھا جائے؟
جواب:
قرآن پاک میں ہے:
﴿اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَذِكْرٰی لِمَنْ كَانَ لَهٗ قَلْبٌ﴾ (ق: 37)
ترجمہ: ”یقیناً اس (قرآن) میں اس شخص کے لیے بڑی نصیحت کا سامان ہے جس کے پاس دل ہو“۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یقیناً قرآن نصیحت کا سر چشمہ ہے مگر اس سے نصیحت وہی شخص حاصل کر سکتا ہے جس کے پاس دل ہو۔ آیت کے الفاظ سے صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ نصیحت قبول کرنے والے شخص کے پاس دل ہو۔ اس کے علاوہ کوئی تفصیل نہیں بتائی گئی۔ مفسرین کے مطابق ”دل ہو“ سے مراد یہ ہے کہ ”دل بنا ہو“۔ یہ معنیٰ آیت کے سیاق و سباق سے معلوم ہوتا ہے۔ کیونکہ اگر دل بنا نہ ہو تو پھر اس آیت کا کوئی خاص معنی نہیں بنتا۔ صرف دل تو کافر، فاسق، فاجر الغرض ہر شخص کے پاس ہوتا ہے۔ اگر اس کا مطلب یہی لیا جائے کہ نصیحت قبول کرنے کے لئے صرف دل کا ہونا کافی ہے پھر تو فقرہ ہی بے معنی رہ جائے گا، جبکہ کلام اللہ کا بے معنی ہونا محال ہے۔ جب اللہ پاک کی پیدا کی ہوئی حقیر ترین چیز بھی بے مطلب نہیں ہے تو اس کا عظیم الشان کلام کیسے بے مطلب ہو سکتا ہے۔ لہٰذا اس فقرہ کا مطلب بنتا ہی تب ہے جب یہ معنی لیا جائے کہ ”قرآن پاک میں اس شخص کے لئے نصیحت ہے جس کا دل بنا ہوا ہو“۔
ایک حدیث مبارکہ میں آیا ہے کہ ایک صحابئ رسول حضرت وابصہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ سے نیکی اور گناہ کے بارے میں سوال کیا تو آپ ﷺ نے جواب دیتے ہوئے فرمایا: ”اِسْتَفْتِ قَلْبَكَ“ یعنی اپنے دل سے پوچھو، تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ کیا گناہ ہے اور کیا نیکی ہے۔
اس حدیث میں جس دل کی بات کی گئی ہے اس سے مراد بھی وہ دل ہے جو بنا ہوا ہو، جس کی اصلاح ہو چکی ہو جو محض قلب نہ رہا ہو بلکہ قلبِ سلیم بن چکا ہو۔ جب تک دل کی اصلاح نہیں ہوئی ہوتی تب تک وہ نفس کے زیرِ اثر ہوتا ہے، اگر ایسے دل سے پوچھا جائے گا تو وہ گناہ کے حق میں ہی فیصلہ دے گا اور گناہ کے کام کو بھی اچھا بتائے گا۔ جیسے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ موسیقی روح کی غذا ہے، حالانکہ در حقیقت موسیقی روح کے لئے عذاب ہے۔ لیکن چونکہ نفس کو پسند ہے، اور جس کا دل بنا نہ ہو وہ نفس کے زیرِ اثر ہوتا ہے، ایسے دل اور ایسی روح سے پوچھا جائے گا تو وہ موسیقی کو اچھا ہی بتائے گا۔ ایک آدمی اپنے دل سے پوچھے کہ کیا میں چوری کر لوں؟ اس کا نفس جواب دے کہ ہاں کر لو۔ چونکہ اس آدمی کا دل بنا نہیں ہوا، اس لیے وہ نفس کے جواب کو ہی دل کا جواب سمجھے گا اور مطمئن ہو جائے گا کہ میں نے دل سے فتویٰ لے لیا ہے۔ اور جب وہ بار بار اسی طرح نفس کے بہکانے پہ گناہ کے کام کرے گا تو اس کا ضمیر بالکل ہی مر جائے گا، اس کی آواز آنا بند ہو جائے گی۔ لہٰذا قرآن و احادیث مبارکہ میں جس دل کی بات ہوئی ہے اس سے مراد قلبِ سلیم اور بنا ہوا دل ہے۔
سوال نمبر12:
تکبر کا کیا علاج کیا جائے؟ اس بارے میں رہنمائی فرما دیجیے۔
جواب:
در اصل تکبر ایک قلبی صفت ہے لیکن یہ اچھی صفت نہیں ہے بلکہ ایک رذیلہ ہے۔ ایک ایسا رذیلہ جس کا تعلق قلب سے ہے۔ متکبر انسان اپنے آپ کو دوسروں سے بڑا سمجھتا ہے۔
اس کے دو علاج ہیں۔ ایک وقتی اور فوری علاج ہے، لیکن وہ دائمی نہیں ہے۔ اس سے وقتی طور پر علاج ہو جاتا ہے لیکن بیماری جڑ سے ختم نہیں ہوتی۔ دوسرا علاج دائمی ہوتا ہے جس سے بیماری جڑ سے ہی ختم ہو جاتی ہے۔ دائمی علاج تو با قاعدہ سلوک طے کرنا ہے جبکہ وقتی علاج یہ ہے کہ آدمی یہ سوچے کہ سب کو پیدا کرنے والا اللہ ہے لہٰذا اصل میں تو بڑا اللہ ہے۔ میں اپنے آپ کو کسی چیز کی وجہ سے بڑا سمجھتا ہوں، اگر اللہ پاک چاہے تو مجھ سے ابھی وہ چیز واپس لے سکتا ہے۔ اور جس کو میں اس وجہ سے کم تر سمجھ رہا ہوں کہ اس کے پاس یہ چیز نہیں ہے، اگر اللہ چاہے تو اس کو یہ چیز دے سکتا ہے۔ میں اپنے آپ کو بڑا سمجھ کے اللہ تعالیٰ کی نظروں میں کیوں گروں، مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ اس سوچ کے ذریعے انسان وقتی طور پر تو تکبر سے بچ سکتا ہے لیکن اس سے تکبر مکمل طور پہ ختم نہیں ہوتا، دوبارہ پھر عود کر آتا ہے۔ لیکن جب انسان پورا سلوک طے کر لے، تصوف کے ذریعے اپنی اصلاح کروا لے، دل میں اللہ کی محبت کو پیدا کر لے اور دنیا کی محبت کو نکال دے تو پھر اس کی نظر میں اللہ کے سوا کسی اور چیز کی حقیقت ہی نہیں رہتی، جب کسی اور چیز کی اہمیت ہی نہیں رہتی تو وہ دنیا کی وجہ سے اپنے آپ کو بڑا اور دوسروں کو حقیر بھی نہیں سمجھتا۔ بلکہ جب انسان کو اللہ کی معرفت حاصل ہو جاتی ہے تو وہ اپنے آپ کو اللہ کے سامنے اتنا حقیر سمجھتا ہے کہ اسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ زمین پر ایک بوجھ ہے، وہ ہر ایک کو اپنے سے بہتر سمجھنے لگتا ہے اور اپنے آپ کو سب سے حقیر سمجھنے لگتا ہے۔ ایسی صورت میں اس کو تسلی دی جاتی ہے کہ آپ اشرف المخلوقات ہیں، اپنے آپ کو اتنا حقیر نہ سمجھیں، اللہ پاک نے آپ کو جو مقام دیا ہے اس کی قدر کریں۔
لہٰذا تکبر کا دائمی علاج کرنے کے لئے اور اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے مستقل محنت کی ضرورت ہے، اور وہ محنت بار بار کرنے کی ضرورت ہے۔ محنتیں کرتے ہوئے عمریں لگ جاتی ہیں تب کہیں جا کر اس سے جان چھوٹتی ہے۔
سوال نمبر 13:
کیا یہ بات درست ہے کہ انسان ایک مرتبہ اچھی صحبت میں بیٹھ کر اس کے فیوض حاصل کر لے، اس کے بعد بری صحبت میں جائے تو اچھی صحبت کے اثرات ختم ہو جاتے ہیں یا کم ہو جاتے ہیں اور بری صحبت کے اثرات آ جاتے ہیں؟ اس بات کی وضاحت فرما دیجئے۔
جواب:
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے کہا تھا کہ حضرت جب ہم آپ کے پاس آتے ہیں تو ٹھیک ہو جاتے ہیں، پھر جب واپس اپنے ماحول میں جاتے ہیں تو خراب ہو جاتے ہیں، پھر یہاں آتے ہیں تو ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا جواب دیا تھا کہ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے انسان دھلے ہوئے کپڑے پہنتا ہے، وہ میلے ہو جاتے ہیں، پھر دھوبی کو دیتا ہے، وہ ان کو دھو دیتا ہے اور یہ دوبارہ انہیں پہن لیتا ہے، وہ پھر میلے ہو جاتے ہیں، یہ پھر دھوبی کو دیتا ہے اور وہ دھو دیتا ہے۔ اور یہ سلسلہ چلتا ہی رہتا ہے۔
در اصل ماحول کا اثر ہونا ایک فطری بات ہے۔ ایک بننے کا ماحول ہوتا ہے اور ایک بگڑنے کا ماحول ہوتا ہے۔ آپ بننے کے ماحول میں آئیں گے تو بنیں گے، بگڑنے کے ماحول میں جائیں گے تو بگڑیں گے۔ گرم جگہ پہ جائیں گے تو گرمی ہو گی، ٹھنڈی جگہ پہ جائیں گے تو ٹھنڈک ہو گی۔ یہ فطرت کا ایک ضابطہ ہے۔ لہٰذا اپنا دامن ہمیشہ صالحین کی صحبت کے ساتھ وابستہ رکھیں۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن