اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال نمبر1:
جزاء الاعمال میں ہے کہ اپنے ملوک (حکمرانوں) کو برا نہ کہو۔ اس کی روشنی میں دیکھا جائے تو ہم دفتروں میں گپیں لگاتے ہوئے حکمرانوں کو برا بھلا کہتے ہیں ان پہ تنقید کرتے ہیں، کیا یہ بالکل فضول باتیں ہیں؟
جواب:
ہر کام ایک مقصد کے تحت ہونا چاہیے، اگر حکمرانوں کی برائیاں کرنے سے مقصد صرف حَظِّ نفس ہے تو یہ ٹھیک نہیں ہے۔ حَظِّ نفس کا معنی ہے کہ نفس کو اِس کام میں مزہ آ رہا ہے، لہٰذا محض نفس کے مزے کے لیے یہ کام کرنا درست نہیں ہے۔ اور اگر حکمرانوں پر تنقید کا مقصد لوگوں کو غلط چیز سے بچانا ہے تو پھر یہ کام غلط نہیں ہے۔ آج کل چونکہ جمہوریت کا دور ہے، سارے لوگ اس میں شریک ہوتے ہیں اس لئے اگر کسی کا ذہن بن جائے اور وہ غلط لوگوں سے متنفر ہو جائے اور صحیح لوگوں کو چننے میں ذریعہ بن جائے تو اس تنقید کا فائدہ ہو گا۔ لہٰذا اگر اس نیت سے حکمرانوں پہ تنقید کی جائے، ان کی بری چیزوں کو سامنے لایا جائے تو یہ کام غلط نہیں ہے۔ انسان کو اپنی نیت کو درست کرنا چاہیے، اپنے دل کے مزے کے لیے یہ کام نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس کا مقصد صرف یہ ہو کہ لوگوں کو صحیح بات کا پتا چل جائے اور وہ غلط حکمرانوں کے انتخاب سے بچ جائیں۔
سوال نمبر2:
مثنوی شریف کے متعلق اس طرح کہا گیا ہے کہ گویا فارسی میں قرآن نازل ہوا ہو۔ کیا اس طرح کی بات کہنے سے عوام الناس کے شکوک و شبہات میں پڑنے کا خطرہ نہیں ہے؟
جواب:
در اصل جس وقت یہ بات کہی گئی تھی اس وقت عوام الناس کو ایسے مسائل لاحق نہیں تھے، آج کل کے دور میں یہ مسائل لاحق ہو گئے ہیں لہذا احتیاط کرنی چاہیے، البتہ سمجھ دار لوگوں کے سامنے اب بھی یہ بات کہی جا سکتی ہے۔
اس کا مطلب صرف اتنا ہے کہ مثنوی میں قرآنی مضامین کو فارسی میں نظم کی صورت میں بیان کیا گیا ہے۔ البتہ مثنوی کے واقعات اور قرآن کریم میں یہ فرق ہے کہ مثنوی میں کئی فرضی واقعات بیان کیے گئے ہیں۔ میں ایک بیان میں بتا چکا ہوں کہ ان فرضی واقعات کو بیان کرنے کی وجہ کیا ہے، وجہ یہ ہے کہ اللّٰہ جل شانہ ہر چیز پر قادر ہے وہ شان نزول پیدا فرما دیتا ہے، جس چیز کی بنیاد پر کسی بات کو سمجھانا ہوتا ہے وہ واقعہ پہلے سے ہو جاتا ہے کیونکہ اللّٰہ پاک اس پر قادر ہے، لیکن بندہ قادر نہیں ہوتا، بندہ کسی بات کے شان نزول کے طور پہ حقیقی واقعہ کو وجود میں نہیں لا سکتا لہٰذا ایک فرضی حکایت کے ذریعے بات کو سمجھا دیتا ہے۔ جیسے قرآن میں بھی کچھ باتوں کو مثالوں کے ذریعے سمجھایا گیا ہے اسی طرح مثنوی میں بھی مثالوں کے ذریعے سمجھایا گیا ہے۔
سوال نمبر3:
آج کل شرک و بدعت کے ماحول میں مزارات سے متعلق کیا آداب ملحوظ رکھنے چاہئیں؟
جواب:
میں کئی بار یہ بات عرض کر چکا ہوں کہ ایسی توحید جس میں شعائر اللّٰہ کی توہین ہو اس سے بچنا چاہیے اور ایسا ادب جس میں شرک کا پہلو ہو اس سے بچنا چاہیے۔ ہمارے لیے توحید کا بنیادی اصول ﴿اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ﴾ ہے یعنی ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔ اللّٰہ جل شانہ نے دو لفظوں میں ساری بات بتا دی ہے۔ اگر ہم لوگ عبادت اور استعانت کا معاملہ غیر اللّٰہ کے ساتھ نہ رکھیں اور شعائر اللّٰہ کی تعظیم کریں تو کوئی گناہ نہیں ہے۔ اولیاء اللّٰہ بھی اللّٰہ تعالیٰ کے محبوب ہوتے ہیں ان کی تعظیم بھی اللّٰہ کے لیے ہوتی ہے لہٰذا اگر ان کا ادب اور تعظیم صرف تعظیم کی حد تک رکھی جائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ محبت کے ساتھ تعظیم کی جائے لیکن ان کی بندگی نہ کی جائے، ان سے مانگا نہ جائے۔ جن کاموں میں مانگنے اور بندگی کی صورت بن سکتی ہے ان سے بچا جائے۔ مثلاً طواف ایک عبادت ہے، لہٰذا قبر کا طواف نہیں کرنا چاہیے کیونکہ طواف خانہ کعبہ کے لیے خاص ہے۔ قبروں پر جا کر قبر والوں سے مانگنا نہیں چاہیے بلکہ یوں سمجھنا چاہیے کہ جب ہم کسی ایسی جگہ پر موجود ہوتے ہیں جہاں اللّٰہ پاک کی رحمت ہوتی ہے تو اس رحمت سے ہمیں بھی فائدہ ہوتا ہے، اس لئے اولیاء اللہ کے مزارات پر اللہ کی رحمت ہوتی ہے تو اس سے ہمیں بھی فائدہ ہوتا ہے۔
قبروں پر حاضری کے وقت زیارتِ قبور کے مسنون طریقہ کا خیال رکھا جائے اور یہ دعا پڑھی جائے:
”اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ یَا اَھْلَ الْقُبُوْرِ یَغْفِرُ اللہُ لَنَا وَ لَکُمْ، اَنْتُمْ سَلَفُنَا وَ نَحْنُ بِالْاَثَرِ، وَ اِنَّا اِنْ شَاءَ اللہُ بِکُمْ لَاحِقُوْنَ“
اس کے علاوہ ایصال ثواب کیا جائے۔ ایصال ثواب سے مراد یہ ہے کہ انسان کوئی بھی نفلی عمل مثلاً ذکر و تسبیح یا صدقہ خیرات کر کے اس کا ثواب ان کو بخش دے، ایسا کرنے سے ان کے فیوض و برکات نصیب ہو جاتے ہیں اور یہ فیوض و برکات دیتا اللہ ہی ہے، انسان نہیں دیتا۔ اللّٰہ جل شانہ رحم فرما دیتے ہیں اور ایسے مواقع کی برکت سے ایصال ثواب کرنے والے کے دل میں تبدیلی فرما دیتے ہیں۔
ابھی کچھ دن قبل ہم مفتی نعیم بخاری صاحب کے ساتھ اپنے جدِّ امجد حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کے مزار پر گئے تھے۔ جب ہم وہاں سے ہو کر باہر آ گئے تو مفتی صاحب نے فرمایا کہ ایک بڑی مشکل بات جو کتابوں میں لکھی ہوتی ہے مگر سمجھ میں نہیں آ رہی ہوتی، اب مجھے سمجھ میں آ گئی ہے۔ مفتی صاحب نے فرمایا کہ عام طور پر یہ بات سمجھنا بڑا مشکل ہوتا ہے لیکن ایسی جگہوں کی برکت سے اللّٰہ تعالیٰ آسانی فرما دیتے ہیں۔
لہٰذا اگر انسان آداب کا خیال رکھتے ہوئے اور عقیدہ کی حفاظت کرتے ہوئے ایسی جگہوں پہ جائے تو انسان کو فائدہ ہوتا ہے اور وہ نقصان سے بھی بچ جاتا ہے۔ البتہ قبروں کو چومنا، چاٹنا، سجدہ کرنا اور ان کے سامنے جھکنا یا ان سے مانگنا منع ہے، اس سے اپنے آپ کو بچانا چاہیے۔
سوال نمبر4:
بعض اوقات تلاوت کرتے ہوئے دوسروں کا خیال نہیں رکھا جاتا کہ کہیں ان کو تنگی تو نہیں ہو رہی، اس بارے میں کیا طریقہ اپنانا چاہیے؟
جواب:
اصل بات کو سمجھنا چاہیے اور وہ یہ ہے کہ انسان کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ کس وقت کون سے عمل کو ترجیح دی جائے۔ اگر اس کے مطابق کیا جائے تو کبھی غلطی نہیں ہو گی۔ مثلاً دوسروں کو اپنے شر اور اپنی تکلیف سے بچانا واجب ہے جبکہ تلاوت ایک نفلی عمل ہے۔ اگر اس نفلی عمل کو کرنا ہے تو اس طرح کرنا ہے کہ کسی واجب کا ترک نہ ہو، کسی کو کوئی تکلیف نہ ہو۔ لہٰذا جب ہم تلاوت کرنا چاہیں تو یہ خیال رکھنا چاہیے کہ اگر اونچی آواز میں تلاوت کرنے سے کسی کو تکلیف ہو رہی ہو تو ہم خاموشی کے ساتھ تلاوت کریں، اس طرح نفل بھی ادا ہو جائے گا اور کسی کو تکلیف بھی نہیں ہو گی۔ اسی طرح اگر تکلیف کا اندیشہ ہو تو ذکر بھی آہستہ کرنا چاہیے۔ یہ اعمال ہمارے ذاتی اعمال ہیں انہیں کرتے ہوئے یہ خیال رکھنا چاہیے کہ کسی کو تکلیف نہ ہو۔
سوال نمبر5:
مفتی صاحب سے سادات کی تعظیم کے حوالے سے دریافت کیا تھا جس کے جواب میں انہوں نے حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللّٰہ علیہ کا واقعہ سنایا تھا کہ ایک سید کے ساتھ کشتی کے دوران انہوں نے جان بوجھ کر اپنے آپ کو گرا دیا اور سید کو جیتنے دیا، اس کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے ان کو ہدایت دے دی۔ سوال یہ ہے کہ ہمیں سادات کے ساتھ کس طریقے سے معاملہ کرنا چاہیے کیونکہ بعض اوقات ان سے لین دین ہوتا ہے، بعض جگہ اپنے حقوق بھی لینے ہوتے ہیں، اس حوالے سے ان کے ساتھ کس طرح کا برتاؤ کیا جائے؟
جواب:
جہاں تک حقوق کا معاملہ ہے تو اللّٰہ جل شانہ نے جس کو جو حق دیا ہے وہ اپنا حق لینے میں مختار ہے۔ جہاں تک محبت کا معاملہ ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا ہے کہ تم اللّٰہ کے ساتھ محبت کرو کیونکہ اللّٰہ پاک تمہیں نعمتیں دیتا ہے اور اللّٰہ کی خوشنودی کے لیے میرے ساتھ محبت کرو، اور میری خوشنودی کے لیے میرے اہل بیت کے ساتھ محبت کرو۔ لہذا جس کے دل میں آپ ﷺ کی محبت ہو گی وہ آپ ﷺ کی اولاد کے لیے کوئی ایسی بات نہیں سوچ سکے گا جو ان کی شان کے مناسب نہ ہو۔
جہاں تک سوال ہے اس بات کا کہ سادات کے ساتھ کیسا برتاؤ رکھنا چاہیے تو کم از کم ان کو تکلیف بالکل نہیں دینی چاہیے اور ان کو نقصان نہیں پہنچانا چاہیے۔ اپنی منفی چیزوں سے تو سادات کو بچانا چاہیے باقی جہاں تک مثبت کا تعلق ہے تو وہ اپنی اپنی ہمت کی بات ہے۔ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی ہمت بہت زیادہ تھی لہذا اللّٰہ پاک نے ان کو بہت نواز دیا۔ اگر کسی کی ہمت کم ہو گی تو اسے اس کی ہمت کے مطابق نواز دیا جائے گا۔
سوال نمبر6:
ایک آدمی کسی شیخ سے تعلق قائم کیے بغیر خود ہی مستقل ذکر کرتا رہتا ہے اور اس ضمن میں سنا ہے کہ غالباً مولانا الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ جو آدمی تین تسبیحات تین سال تک مستقل کرے گا اس کو اللّٰہ پاک ہدایت عطا فرمائے گا۔ سوال یہ ہے کہ ایک آدمی بغیر شیخ کے پوری زندگی ذکر کر رہا ہے، کیا وہ اسی کے ساتھ منازلِ سلوک طے کر سکتا ہے؟ کیا وہ کبھی نہ کبھی اپنی منزل پر پہنچ جائے گا؟
جواب:
حضرت مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ نے جو فرمایا ہے وہ بھی غلط نہیں ہے اور شیخ کی ضرورت بھی اپنی جگہ مستقل طور پر ہے۔ حضرت نے یہ نہیں فرمایا کہ یہ تین تسبیحات کر کے وہ شخص بغیر شیخ کے اپنی منزل تک پہنچ جائے گا بلکہ یہ فرمایا کہ اللّٰہ پاک اس کو ولی بنا دے گا۔ اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ وہ ذکر کرنا شروع کر دے، جس کی برکت سے اس کے دل میں جذب اور طلب پیدا ہو اور اللّٰہ تعالیٰ اسے اچھا شیخ دے دے جس کی برکت سے وہ منزل تک پہنچ جائے۔
اللّٰہ پاک کسی کے بارے میں یہ فیصلہ فرما دے کہ اس کو میں نے ایک چیز دینی ہے تو اس کے لیے اسباب بھی خود ہی پیدا فرمائے گا، اگر وہ سبب شیخ ہے تو اللّٰہ پاک اسے شیخ بھی دے گا، اس کے لیے شیخ کا انتظام ہو جائے گا۔
حضرت سید احمد شہید رحمۃ اللّٰہ علیہ کا نشانہ بہت عمدہ تھا، ایک دفعہ نشانہ لگاتے ہوئے فرمایا کہ اگر کوئی پرندہ اس طرف آیا تو وہ بچ کے نہیں جائے گا۔ کسی ساتھی نے کہا: حضرت اگر اس کے مقدر میں اس نشانہ پر آنا نہ ہوا تو؟ فرمایا: پھر اللّٰہ پاک اس کو اس طرف آنے ہی نہیں دے گا۔
سوال نمبر7:
حضرت! چغلی کس کو کہتے ہیں اور چغلی کس کو نہیں کہتے۔
جواب:
چغلی اِسے کہتے ہیں کہ آپ نے کسی سے ایک بات سنی اور وہ اس کے مخالف کو پہنچا دی، اس نیت سے کہ آپ کا نفس خوش ہو جائے۔ یہ گناہ ہے اور اس پر سزا ہے، لیکن اگر اس کو شر سے بچانے کے لیے مناسب انداز میں بات پہنچا دی جائے تاکہ وہ اپنی حفاظت کر لے تب اس کو چغلی نہیں کہتے۔ اس میں اپنے نفس کے شر سے بچنے کی حفاظت کرنی پڑے گی اور یہ ہر ایک نہیں کر سکتا، لہذا احتیاطاً اپنے آپ کو بچا ہی لیا جائے تو اچھا ہے۔
سوال نمبر8:
نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے کہ جو شخص جس قوم کی مشابہت کرتا ہے وہ انہی میں سے ہے۔ کیا اس میں ظاہری اور باطنی مشابہت دونوں مراد ہیں؟ اس بارے میں بھی وضاحت فرما دیں کہ ایک ہے ان کی کسی مذہبی چیز کو پسند کرنا اور ایک ان کی اچھی چیز کو پسند کرنا ہے مثلاً ان کی محنت اور ایمان داری وغیرہ کو پسند کرنا۔ اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟
جواب:
جی ہاں، دونوں مشابہتیں مراد ہیں۔ ظاہری مشابہت تو واضح ہے، باطنی مشابہت یہ ہے کہ ان کی کسی چیز کو پسند کرنا مثلاً عیسائیوں کی کسی چیز کو پسند کرنا یا یہودیوں کی کسی چیز کو پسند کرنا۔ دل کا معاملہ تو اور زیادہ خطر ناک ہوتا ہے، پھر اللّٰہ تعالی ٰان کے ساتھ وہی معاملہ فرما دیتے ہیں۔ اللّٰہ تعالیٰ اس سے ہر ایک کو بچائے۔
جہاں تک ان کی اچھی چیزوں کو پسند کرنے کا سوال ہے تو اس بارے میں یہ حدیث شریف ذہن میں رکھنی چاہیے:
”اَلْحِکْمَةُ ضَالَّةُ المُؤْمِنِ“ (سنن ترمذی: 2687)
ترجمہ: ”دانائی کی بات مسلمان کی مومن کی گمشدہ میراث ہے“۔
لہٰذا اگر ان میں کوئی اچھی چیز ہے تو در اصل وہ انہوں نے ہم سے ہی لی ہے، اس کو پسند کرنا یا اپنانا ان کی مشابہت نہیں ہو گا، وہ تو ہم اپنی ہی چیز ان سے لے رہے ہیں۔
سوال نمبر9:
ٹائی کا کیا حکم ہے اور اس کی کیا حیثیت ہے، کیا اس سے عقیدے پر کوئی فرق پڑ سکتا ہے؟
جواب:
ٹائی کے بارے میں ایک صاحب نے اپنی تحقیق میں بیان کیا تھا کہ یہ صلیب کی ایک عملی شکل ہے۔ عیسائیوں کا حضرت عیسی علیہ السلام کے بارے میں یہ عقیدہ ہے کہ ان کو پھانسی دی گئی ہے، یہ ٹائی در اصل اسی صلیب کی ایک عملی تصویر ہے۔ انہوں نے صلیب کی یادگار میں اسے شروع کیا تھا۔ اس لحاظ سے ٹائی لگانا عیسائیوں کے مذہبی شعار میں آ جاتا ہے اس وجہ سے یہ اور بھی بڑا جرم ہے۔
سوال نمبر10:
ایک مفتی صاحب نے ٹائی کے بارے میں بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ کالر بھی ٹائی ہی کے لیے بنائے گئے ہیں، اس لیے اس سے بھی پرہیز کیا جائے، اس کے بارے میں رہنمائی فرما دیجئے۔
جواب:
کالر والے کپڑے پہننا صلحاء کا طریقہ نہیں ہے۔ پرانے حضرات ایسے کپڑے نہیں پہنا کرتے تھے۔ الحمد للّٰہ ہم کوشش کرتے ہیں کہ ہمارے کپڑوں میں کالر والی قمیص نہ ہو، بعض اوقات اگر کوئی ہوتی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اکثر اوقات میرے کپڑے دوسرے لوگ بناتے ہیں، مجھے پتا بھی نہیں ہوتا کہ کوئی میرے لیے کپڑے بنا رہا ہے، بعض لوگ اس طرح کے کالر والے کپڑے بھی بنا لیتے ہیں، اگر میرا بس چلے تو میں بتا دیتا ہوں کہ کالر نہ بنائیں اور کف بھی بنائیں۔ بعض دفعہ لوگ بنا لیتے ہیں تو پورا کپڑا صرف کالر یا کف کی وجہ سے ضائع کرنا مناسب معلوم نہیں ہوتا، ایسی صورت میں مجبوراً پہن لیتا ہوں لیکن کوشش یہ ہوتی ہے کہ ایسا نہ بنائیں۔
سوال نمبر11:
ایک مرتبہ ڈاکٹر ذاکر نائیک سے ٹائی کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ٹائی جائز ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس کے بارے میں کیا کہیں گے؟
جواب:
غیر مقلدوں کی یہی بات ہے کہ وہ جو کام کرتے ہیں اس کے بارے میں انہیں اتنا حوصلہ نہیں ہوتا کہ اس کو غلط کہہ سکیں کیونکہ وہ نفس کے لوگ ہوتے ہیں، وہ شریعت پہ چلنے والے لوگ نہیں ہوتے۔ مثلا برہنہ سر نماز پڑھنا آپ ﷺ سے بہت کم حالات میں ثابت ہے، کہیں خال خال بہت مجبوری کے وقت میں ثابت ہو گا مگر انہوں نے اس کو اپنا مستقل شعار بنا لیا ہے۔ اس لئے ان سے یہ توقع رکھنا کہ وہ حق بات کریں گے، بڑی مشکل بات ہے۔ مجھ سے جب ذاکر نائیک کے بارے میں پوچھا جاتا ہے تو میں یہ جواب دیتا ہوں کہ ذاکر نائیک کا تقابل ادیان کے میدان میں معلومات اور کام قابل قدر ہے، غیر مسلموں کے ساتھ ان کے مناظرے قابلِ قدر ہیں۔ اس میدان میں وہ اپنے ایک استاد سے سب علم لیتے ہیں، ان کے استاد جنوبی افریقہ کے ایک عالم احمد دیدات رحمۃ اللّٰہ علیہ تھے، وہ واقعی بہت قابل قدر بزرگ تھے اور انہوں نے اپنی زندگی صرف غیر مسلموں کے ساتھ مناظرے کے لیے خاص کر رکھی تھی، اس کے علاوہ وہ دوسرے موضوعات پر بات نہیں کرتے تھے، مسلمانوں کے آپسی مسلکی اختلافات پر کبھی بات نہیں کرتے تھے۔ ذاکر نائیک نے غیر مسلموں کے ساتھ مناظرے ان سے سیکھے ہیں، یہ چیز تو ان کی ٹھیک ہے لیکن بعد میں انہوں نے مسلکی اختلافات اور دوسرے موضوعات پر بات کرنا شروع کر لی، یزید کو اچھا کہنا شروع کر دیا، غیر شرعی لباس کو شرعی ثابت کرنے لگے، ان کے یہ سب کام غلط ہیں اور غلط کو غلط کہنا چاہیے، صحیح کو صحیح کہنا چاہیے۔
سوال نمبر12:
(Inner peace) اندرونی سکون کی ہماری روحانیت میں کیا اہمیت ہے، یہ کیسے حاصل ہوتا ہے؟
جواب:
اللّٰہ پاک نے قرآن پاک میں فرمایا ہے:
﴿اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُ﴾ (الرعد: 28)
ترجمہ: ”یاد رکھو کہ صرف اللہ کا ذکر ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے“۔
دل کا اطمینان ہی اندرونی سکون ہے، دل پورے جسم کا بادشاہ ہے اگر اس کو اطمینان ہو گا تو پورے جسم کو سکون حاصل ہو گا۔
در اصل ہر گناہ کے اندر ایک سوزش ہے، ایک بے قراری ہے، ایک بے چینی ہے، اس لئے اگر گناہ نہیں ہو گا تو دل سکون میں ہو گا جس کی وجہ انسان کا پورا جسم، اعصاب اور روح بھی سکون میں ہو ں گے۔ اگر ہماری آنکھیں غلط استعمال نہیں ہوں گی تو سکون ہو گا، اگر ہمارے کان غلط استعمال نہیں ہوں گے تو سکون ہو گا، اگر ہماری زبان غلط استعمال نہیں ہو گی تو سکون ہو گا، اگر ہمارے ہاتھ پاؤں غلط استعمال نہیں ہوں گے تو سکون ہو گا اور ایسا صرف دل کی اصلاح کے ساتھ ہی ممکن ہے اس کے بغیر یہ چیز ممکن نہیں ہے۔ دل کی اصلاح کے ساتھ دل کو سکون بھی ہو جاتا ہے اور اس میں ذکر کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔
سوال نمبر13:
کیا کیڑے مکوڑوں کو مارنا ٹھیک ہے؟
جواب:
شریعت کا عمومی حکم یہ ہے کہ انسان کے علاوہ جو چیز تمہیں نقصان پہنچائے اسے مارا جا سکتا ہے اور اگر کوئی انسان نقصان پہنچائے تو اس کے ساتھ یہ معاملہ کرنا ہو گا کہ جتنا اس نے مارا ہے یا نقصان پہنچایا ہے اس کے برابر بدلہ لینا جائز ہے اس سے زیادہ نہیں۔ انسان کے علاوہ دوسرے جانداروں کی بات اور ہے، مچھر تمہیں کاٹ لے تو تم اس کو مار بھی لیتے ہو کیونکہ مچھر کے کاٹنے کے جواب میں اسے کاٹا تو نہیں جا سکتا لہٰذا اس کے بارے میں تو یہ جائز ہے کہ تم اس کو مار بھی سکتے ہو، سانپ کو بھی مار سکتے ہو، بچھو کو بھی مار سکتے ہو کسی دوسرے جانور کو بھی مار سکتے ہو لیکن انسان کے ساتھ اس طرح نہیں کر سکتے کہ وہ تمہیں تھپڑ مارے اور تم اس کو گولی مار دو۔ انسان کے لئے خصوصی ہدایات ہیں۔ جبکہ موذی جانوروں اور حشرات الارض کے بارے میں یہی حکم ہے کہ انہیں مارا جا سکتا ہے، جو جان دار موذی نہیں ہیں، ممکن ہے ان کا کوئی الگ حکم ہو اس بارے میں مفتیانِ کرام وضاحت کر سکتے ہیں۔
سوال نمبر14:
اللّٰہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہم تمہیں آزمائیں گے خوف سے، بھوک سے اور پھلوں کی کمی سے۔ اس کے بارے میں کچھ فرما دیجئے۔
جواب:
جی ہاں بالکل آزمائش کے بارے میں قرآن پاک میں آتا ہے:
﴿اَلَّذِیْنَ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِیْبَةٌ قَالُوْۤا اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَؕ O اُولٰٓىِٕكَ عَلَیْهِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ رَحْمَةٌ وَ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُهْتَدُوْنَ﴾ (البقرۃ: 156-157)
ترجمہ: ”یہ وہ لوگ ہیں کہ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو یہ کہتے ہیں کہ ہم سب اللہ ہی کے ہیں اور ہم کو اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے یہ وہ لوگ ہیں جن پر ان کے پروردگار کی طرف سے خصوصی عنایتیں ہیں، اور رحمت ہے اور یہی لوگ ہیں جو ہدایت پر ہیں“۔
مصیبت کسی بھی جگہ سے آ سکتی ہے، کسی بھی طریقے سے آ سکتی ہے، کسی بھی وقت آ سکتی ہے، پھلوں میں کمی کے ذریعے بھی آ سکتی ہے، جان کے نقصان کے ذریعے بھی آ سکتی ہے، مال کے ذریعے بھی آ سکتی ہے لیکن اگر کوئی اس پر صبر کر لے اور اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ کہہ دے یعنی اپنا رشتہ اللّٰہ تعالی کے ساتھ اس کے ذریعے جوڑ لے تو اس پہ اللہ کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں۔ جب بھی مصیبت آئے ہم یہ سمجھیں کہ ہم تو اللّٰہ کے لیے ہیں، ہم ان چیزوں کے پیچھے کیوں پڑیں اور ہم اللّٰہ ہی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں، وہی ہمیں اجر دے گا اور یہ سوچ کر مطمئن ہو جائیں، جس کا دل اللّٰہ پاک کے ساتھ مطمئن ہو جائے تو اس پر اللّٰہ پاک کی طرف سے خصوصی رحمتیں نازل ہوتی ہیں۔ تکلیف اور پریشانی میں اللّٰہ کی طرف دل کا متوجہ ہونا سعادت کی علامت ہے۔
سوال نمبر15:
حضرت! ”چیست دنیا از خدا غافل بدن“ کے مطابق ایک بزنس مین یا انجینئر (یا کسی بھی شعبے کا آدمی) اپنے اس پیشے میں رہتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے غافل نہیں ہے، تو کیا اس کا اس پیشے کا کام کرنا بھی دین ہو گا؟
جواب:
جی ہاں یہ بالکل صحیح بات ہے۔
چیست دنیا از خدا غافل بدن
”دنیا کیا چیز ہے؟ اللّٰہ تعالیٰٰ سے کسی بھی چیز کی وجہ سے غافل ہو جانا“۔
مثلاً اگر میں اس لیے کماتا ہوں کہ میں سوال سے بچ جاؤں، اِشرافِ نفس سے بچ جاؤں، کسی پر ظلم سے بچ جاؤں تو میرا کمانا عین عبادت ہے۔ اسی طرح اگر میں والدین کے حقوق ادا کر رہا ہوں، استادوں کے حقوق ادا کر رہا ہوں، اولاد کے حقوق ادا کر رہا ہوں، بیوی کے حقوق ادا کر رہا ہوں تو یہ دنیا نہیں ہے بلکہ یہ تو میں با قاعدہ ایک دینی فریضہ ادا کر رہا ہوں، لیکن اگر بیوی مجھے کوئی ایسی بات کرے، کوئی ایسی خواہش کرے جس سے اللّٰہ پاک ناراض ہوتے ہیں اور میں بیوی کے لیے وہ کروں تو اب یہ غفلت ہو گئی کیونکہ اس وقت یہ اللہ کے لیے نہیں رہی بلکہ مخلوق کے لیے ہو گئی۔ اگر ایک طرف اللّٰہ ہو اور دوسری طرف کوئی اور ہو اور اس کے لیے اللّٰہ کو چھوڑ دیا جائے تو یہ غفلت ہے۔
سوال نمبر16:
حضرت مائیں بچوں کو چھوٹی چھوٹی چیزوں سے ڈراتی ہیں، مثلاً چوہے اور بلی وغیرہ سے ڈراتے ہوئے کہتی ہیں کہ سو جاؤ بلی کھا جائے گی وغیرہ وغیرہ۔ ایسا نہ کرتے ہوئے اللّٰہ تعالیٰ سے ڈرانے کا کیا طریقہ ہونا چاہیے؟
جواب:
ما شاء اللہ بعض مائیں اس طرح کرتی ہیں کہ وہ بچوں کو کہتی ہیں کہ ایسا نہ کرو اللّٰہ ناراض ہو جائیں گے، ایسا نہ کرو اللّٰہ پاک خفا ہو جائیں گے، ایسا نہ کرو ورنہ اللہ پاک سزا دیتے ہیں۔ ایک خاتون نے اپنے بچوں کو یہ بتایا تھا کہ ٹیلی ویژن کے اندر شیطان ہوتا ہے، ایک دفعہ وہ اپنے دادا کے پاس گئے، وہاں ٹی وی پر پاکستان کا کوئی وزیر اعظم تقریر کر رہا تھا۔ بچے جب اپنی والدہ کے پاس گئے تو کہتے ہیں کہ امی وہاں اتنا بڑا شیطان بول رہا تھا۔
سوال نمبر17:
سوال یہ ہے کہ جب چھپکلی کو مارنے کا ثواب ہے تو اسے پیدا کرنے کی کیا حکمت ہے؟ اگر کسی دنیا دار شخص کو حقوق اللّٰہ نماز روزے کا کہیں تو وہ کہتے ہیں کہ ہم حقوق العباد اور معاملات کے بہت مضبوط اور خیال رکھنے والے ہیں کیونکہ حقوق اللّٰہ کے بارے میں اللّٰہ نے خود کہا ہے کہ وہ معاف ہو جائیں گے۔ کیا یہ ان کا جواز ٹھیک ہے؟
جواب:
کسی چیز کو مارنے کا حکم ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ اس کا وجود حکمت سے خالی ہے۔ چھپکلی کو مارنے کا ثواب ہے جیسے جنگ میں کافر کو مارنے کا ثواب ہے۔ اللّٰہ جل شانہ نے ہر چیز کے اندر حکمت پیدا کی ہے، بے شک وہ ہمیں معلوم ہو یا معلوم نہ ہو۔ قرآن پاک میں ہے:
﴿اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّهَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِ O الَّذِیْنَ یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ قِیٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰی جُنُوْبِهِمْ وَ یَتَفَكَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًا سُبْحٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ﴾ (آل عمران: 190-191)
ترجمہ: ”بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات دن کے بارے بارے آنے جانے میں ان عقل والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں۔ جو اٹھتے بیٹھتے اور لیٹے ہوئے (ہر حال میں) اللہ کو یاد کرتے ہیں، اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق پر غور کرتے ہیں، (اور انھیں دیکھ کر بول اٹھتے ہیں کہ) اے ہمارے پروردگار! آپ نے یہ سب کچھ بےمقصد پیدا نہیں کیا۔ آپ (ایسے فضول کام سے) پاک ہیں، پس ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لیجیے“۔
اس آیت میں ہے کہ ”اے رب ہمارے تو نے ان تمام چیزوں کو بے فائدہ نہیں پیدا کیا“۔ انسان میں اس بات کا یقین ذکر اور فکر سے پیدا ہوتا ہے، تم بھی ذکر و فکر شروع کر لو تو معلوم ہو جائے گا کہ کوئی چیز حکمت سے خالی نہیں ہے۔
بعض دنیا دار لوگ یہ کہتے ہیں کہ اگر ہم حقوق العباد کا خیال رکھیں اور حقوق اللّٰہ کا خیال نہ رکھیں تو کوئی بات نہیں وہ تو اللہ معاف کر ہی دے گا۔ یہ ان کی غلط فہمی ہے کہ حقوق العباد حقوق اللہ سے کوئی الگ چیز ہیں، در اصل حقوق العباد بھی حقوق اللّٰہ ہی کا ایک حصہ ہیں، اگر اللّٰہ جل شانہ والد کا حق نہ مقرر کرتے تو کون مقرر کر سکتا تھا؟ اگر بیوی بچوں کا حق مقرر نہ کرتے تو کون مقرر کر سکتا تھا؟ اگر استاد کا حق مقرر نہ کرتے تو کون مقرر کر سکتا تھا؟ اگر پڑوسی کا حق مقرر نہ کرتے تو کون مقرر کر سکتا تھا؟ یہ سارے حقوق بھی اللہ تعالیٰ نے ہی مقرر کیے ہیں لہذا یہ بھی حقوق اللّٰہ ہیں لیکن بصورتِ حقوق العباد ہیں۔ پس حقوق اللّٰہ اصل ہیں اور حقوق العباد ان کی فرع ہیں۔ اس میں صرف اس حد تک بات کی گئی ہے کہ اللّٰہ جل شانہ چونکہ غنی ہے محتاج نہیں ہے لہذا اس کو حقوق کی کوئی پروا نہیں ہے اس لئے اگر کوئی توبہ کر لے تو اللّٰہ معاف کر دیں گے، اللہ کو معاف کرنے میں کوئی مشکل نہیں ہے لیکن حقوق العباد کو معاف کرنے کی ایک شرط رکھی گئی ہے کہ وہ بندہ بھی معاف کر دے، اس وجہ سے ان کی معافی اور تلافی مشکل ہو جاتی ہے نعوذ باللہ من ذلک اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حقوق اللّٰہ کا خیال نہیں رکھنا چاہیے یا ان کا درجہ کم ہے، بلکہ یہ بات ہے کہ حقوق اللہ میں کوتاہی پر توبہ کرنا آسان ہے۔ حقوق اللہ میں کوتاہی پر توبہ میں تین شرطیں ہیں اور حقوق العباد میں ایک چوتھی شرط یہ بھی ہے کہ اس بندے سے بھی معاف کروانا ہو گا اور اللّٰہ سے بھی معاف کروانا ہو گا۔ اللّٰہ سے معاف کروانے کے لیے توبہ ہے اور بندے سے معاف کروانے کے لیے معافی مانگنا ہے یا اس کو اس کا حق دے دینا ہے۔ اس وجہ سے چونکہ حقوق العباد کا پورا کرنا مشکل ہو جاتا ہے، لہذا اس وجہ سے کہا گیا ہے کہ ان کا زیادہ خیال رکھو یہ نہیں کہ نعوذ باللّٰہ من ذلک یہ اللّٰہ تعالیٰ کے حقوق سے زیادہ افضل ہیں۔ اگر کوئی اس طرح سوچتا ہے تو یہ اس کی غلط فہمی ہے۔
سوال نمبر18:
اگر ہمارے ذمے کسی کا کوئی حق ہے اور وہ فوت ہو چکا ہے تو کیا کیا جائے؟
جواب:
اگر وہ حق کوئی مال ہے تو اس کے ورثاء کو پہنچا دیا جائے گا اور اگر اسے کوئی تکلیف پہنچائی تھی تو اس کے لیے ایصال ثواب کرنا چاہیے اور تب تک کرنا چاہیے کہ انسان کا دل گواہی دے دے کہ اب وہ مجھے معاف کر چکا ہو گا۔
سوال نمبر19:
آج کل کے سکالر قسم کے لوگ کہتے ہیں کہ اگر آپ مشائخ کے پاس جاتے ہیں یا ان کی تعظیم کرتے ہیں تو یہ شخصیت پرستی ہے۔ ان کو اس کا کیا جواب دیا جائے؟
جواب:
یہ لوگ بادشاہوں، حکمرانوں اور عہدہ داروں کا ادب و احترام کرتے ہیں تو کیا یہ شخصیت پرستی نہیں ہے؟ حکومت کے عہدہ داروں کو سلیوٹ کرتے ہیں، کیا یہ شخصیت پرستی نہیں ہے؟ کیا صرف علماء و مشائخ کا ادب و احترام اور تعظیم شخصیت پرستی ہے؟ ایسے لوگ جب عہدہ داروں کی کاسہ لیسی کرتے ہیں اور ان کے چمچے بنے ہوتے ہیں اس وقت ان کو توحید یاد نہیں آتی؟
لہٰذا علماء و مشائخ کا ادب و احترام اور تعظیم کوئی شخصیت پرستی نہیں ہے، ہاں اتنا خیال ضرور رکھا جائے کہ تعظیم میں ادب ہونا چاہیے، عبادت نہیں ہونی چاہیے۔ اپنے آپ کو غیر اللہ کی عبادت سے بچانے کا حکم ہے، تعظیم سے بچانے کا حکم نہیں ہے۔ فرمایا:
﴿وَ مَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآىِٕرَ اللّٰهِ فَاِنَّهَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ﴾ (الحج: 32)
ترجمہ: ”اور جو شخص اللہ کے شعائر کی تعظیم کرے، تو یہ بات دلوں کے تقوی سے حاصل ہوتی ہے“۔
یہ اللہ کا حکم ہے کسی بندے کا حکم تو نہیں ہے۔ علماء و مشائخ کے ادب پر شخصیت پرستی کا اعتراض کرنے والے لوگوں کا اپنا عمل دیکھو کہ بادشاہوں اور حکومت والوں کے ساتھ ان کا رویہ کیا ہوتا ہے۔ ایسے ہی لوگوں نے انگریزوں کو درخواست دی تھی کہ ہمارا نام اہلِ حدیث رکھا جائے۔ یہ اہل حدیث کا نام انہوں نے انگریزوں سے الاٹ کروایا تھا۔ ہمارے علماء ان کو اہلِ ہویٰ کہتے ہیں، اہلِ حدیث نہیں کہتے۔ اہلِ حدیث ہم ہیں، ہمارے ائمہ میں امام احمد بن حنبل رحمۃ اللّٰہ علیہ اہلِ حدیث کہلاتے ہیں۔
سوال نمبر20:
حضرت آپ نے ایک دفعہ فرمایا تھا:
ایں سعادت بزورِ بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
اس کا کیا مطلب ہے؟
جواب:
اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ سعادت انسان قوت بازو سے حاصل نہیں کر سکتا جب تک اللّٰہ توفیق نہ دے۔ جیسے قرآن میں پیغمبر کا قول نقل کیا گیا ہے:
﴿وَ مَا تَوْفِیْقِیْۤ اِلَّا بِاللّٰهِ﴾ (ہود: 88)
ترجمہ: ”اور مجھے جو کچھ توفیق ہوتی ہے صرف اللہ کی مدد سے ہوتی ہے“۔
سوال نمبر21:
حضرت! مسلمان بزدل ہو سکتا ہے، بخیل بھی ہو سکتا ہے، لیکن جھوٹا نہیں ہو سکتا۔ اس کی کیا وجہ ہے؟
جواب:
جھوٹ بہت بڑا گناہ ہے اور اس کے اندر دوسرے کئی گناہوں کے پورے پورے مجموعے شامل ہیں، یہ اکیلا گناہ نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ کئی دوسرے گناہ ساتھ ملے ہوئے ہیں، لہٰذا جھوٹ سے بچنے کے لئے بہت زیادہ اہتمام کرنا چاہیے۔ مسلمان جھوٹا نہیں ہو سکتا، اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان کی شان نہیں ہے کہ وہ جھوٹ بولے۔
ایک استاد کہا کرتے تھے کہ ”اَھْلُ الجَنَّةِ بُلْهَةٌ“ یعنی اہلِ جنت سادہ لوگ ہوں گے۔
ایک عالم جو استاذ تھے اور بہت بڑے بزرگ تھے، ان کے ساتھ بچے دھوکہ کرتے تھے، گھڑی کو آگے کر کے انہیں کہتے کہ استاد جی اتنا وقت ہو گیا ہے تو وہ انہیں چھٹی دے دیتے تھے۔ کسی نے کہا کہ بچے آپ کے ساتھ دھوکہ کرتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ مسلمان دھوکا نہیں کر سکتا، مسلمان جھوٹ نہیں بول سکتا۔ انہیں اس قول پر اتنا زیادہ یقین تھا۔
سوال نمبر22:
غالباً حضرت مولانا عمر پالن پوری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ واقعہ بیان فرمایا کہ ایک آدمی جھک کر جا رہا تھا تو حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے اس کو کھونٹا لگایا اور فرمایا کہ سیدھا چل تقوی دل میں ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آدمی اگر سر اٹھا کر خود اعتمادی کے انداز میں چلے تو یہ تکبر میں شمار نہیں ہو گا؟
جواب:
اس روایت میں تھوڑا سا خلط ہو گیا ہے، اصل روایت اس طرح ہے کہ کوئی آدمی سر جھکا کے جا رہا تھا تو عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنھا نے پوچھا کہ یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا یہ متواضع ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنھا نے فرمایا کہ عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ اس سے زیادہ متواضع تھے، وہ تو اس طرح سر جھکا کے نہیں چلتے تھے۔
مقصد یہ ہے کہ تقویٰ دل میں ہوتا ہے اور تقویٰ ساری نیکیوں کی جڑ ہے۔ اس لئے جو لوگ خواہ مخواہ ظاہری طور پر کوئی ایسی صورت بنا لیتے ہیں، اس کا بنانا ضروری نہیں ہے، اصل چیز تقویٰ کی حقیقت کو حاصل کرنا ہے۔
انسان کو چاہیے کہ فطری طور پر رہے لیکن اپنے دل کو اللّٰہ تعالیٰ کے ساتھ لگائے رکھے۔ جیسے حضرت اکبر الہ آبادی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: ؎
تم شوق سے کالج میں پڑھو پارک میں پھولو
جائز ہے غباروں میں اڑو چرخ پہ جھولو
بس ایک ہی سخن بندۂ عاجز کا رہے یاد
اللہ کو اور اپنی حقیقت کو نہ بھولو
اگر تم دنیا کی چیزوں سے فائدہ اٹھا رہے ہو تو یہ نا جائز نہیں ہے لیکن اللّٰہ سے اپنے تعلق کو منقطع مت کرو، اللّٰہ تعالیٰ کا تعلق آپ کو ہر وقت حاصل رہنا چاہیے۔
سوال نمبر23:
جہاد کے دوران اپنی داڑھی کو سیاہ کرنے کی اجازت ہے، اسی طرح طواف کے دوران رمل یعنی اکڑ کر چلنے کی اجازت ہے، تو کیا اس سے یہ سمجھا جائے کہ تکبر دل سے ہی ہوتا ہے ظاہری طور پر کسی ایسی حرکت کا ارتکاب تکبر میں شمار نہیں ہو گا؟
جواب:
جہاد کے دوران داڑھی کو سیاہ کرنے کی اجازت ایک خاص حکمت کے تحت ہے کہ مد مقابل لوگوں کو یہ معلوم نہ ہو کہ یہ بوڑھا ہے، اسی طرح طواف کے تین چکروں میں رمل کرنا، اکڑ کر چلنا اس کے پس منظر میں بھی ایک واقعہ ہے۔ اس کے علاوہ جو آدمی ظاہری طور پر ایسا کام کرے تو اصل فیصلہ اللّٰہ کے پاس ہے، اللّٰہ ہی بہتر جانتے ہیں۔ وَاللّٰهُ اَعْلمُ بِالصَّوَابِ۔
سوال نمبر24:
”اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ فِیْ عَیْنِیْ صَغِیْرًا وَّفِیْ اَعْیُنِ النَّاسِ کَبِیْرًا“
ترجمہ: ”اے اللہ مجھے اپنی نگاہوں میں چھوٹا اور لوگوں کی نگاہوں میں بڑا کر دے“۔
نبی کریم ﷺ یہ دعا مانگا کرتے تھے۔ اپنی نگاہوں میں چھوٹا اور لوگوں کی نگاہوں میں بڑا ہونے میں کیا حکمت ہے، کیا یہ اچھی بات ہے؟
جواب:
جی ہاں، نبی کریم ﷺ جو کر رہے ہیں وہ یقیناً اچھا ہی ہو گا۔ در اصل اس دعا میں ہم یہ مانگتے ہیں کہ اے اللہ! مجھے اپنی نگاہوں میں چھوٹا کر دے اور دوسروں کی نگاہوں میں بڑا کر دے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ اپنے آپ کو بڑا سمجھنا تکبر یا عجب ہے اور یہ نا جائز ہے، جبکہ کوئی دوسرا آپ کو بڑا سمجھے تو وہ نا جائز نہیں ہے، اس کے ذمہ دار آپ نہیں ہیں۔
اس کے علاوہ دوسروں کے بڑا سمجھنے میں خیر ہے اور وہ خیر یہ ہے کہ عین ممکن ہے کہ اگر کوئی دوسرا تمہیں چھوٹا سمجھے تو تمہیں نا حق تکلیف دے یا پریشان کرے، اگر وہ آپ کو بڑا سمجھتا ہے تو کم از کم نقصان تو نہیں دے گا، آپ کو کمزور سمجھ کر تنگ نہیں کرے گا۔ جیسے جہاد میں داڑھی سیاہ کرنے کی وجہ یہی ہے کہ دشمن آپ کو طاقتور سمجھے اور آپ اس کے شر سے بچے رہیں۔ لہٰذا اگر اپنے آپ کو دوسروں کے شر سے بچانے کے لیے انسان یہ دعا کرے کہ اے اللّٰہ مجھے دوسروں کی نگاہوں میں بڑا کر دے تو یہ مستحسن ہے۔
سوال نمبر25:
آپ نے یہ ایک آدھ دفعہ یہ شعر پڑھا ہے:
کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے
مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق
اس کا کیا مطلب ہے؟
جواب:
اس کا مطلب ہے کہ کافر کا دل دنیا میں لگا ہوا ہے، وہ دنیا کے لیے سب کچھ کر رہا ہے اور مومن کے اندر پورا آفاق گم ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جب تک ایک شخص بھی اللّٰہ اللّٰہ کرنے والا موجود رہے گا تب تک یہ کائنات باقی رہے گی اور جب ایک بھی نہیں رہے گا تب اللہ تعالیٰ کائنات کو ختم کر دیں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ کائنات کا وجود مومن کی وجہ سے ہے اور کافر کے دل میں دنیا ہوتی ہے۔
سوال نمبر26:
ایک آدمی دعا کرتا ہے کہ یا اللہ میرے دل میں اپنا دھیان بھر دے اور دوسرا آدمی یہ مراقبہ کرتا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کا دھیان اس کے دل میں آ جائے۔ کیا یہ مراقبہ کرنے والا بھی دعا کرنے والے کی مانند ہے؟ اسی طرح کیا self suggestions اپنے لیے دعا کرنے ہی کی مانند ہے؟
جواب:
اسے چاہیے کہ دونوں کام کرے، دعا بھی کرے، مراقبہ بھی کرے۔ دعا کرے اور اس کی کامیابی کے لیے مراقبہ کرے۔ مراقبہ ہوتا ہی اللّٰہ تعالیٰ کے دھیان کو حاصل کرنے کے لیے ہے، ایک چیز دعا کی صورت میں انسان کی خواہش ہے اور دوسرا اس خواہش کو پورا کرنے کے لیے اسباب کو اختیار کرنا ہے۔
سوال نمبر27:
جزاء الاعمال میں ہے کہ حضرت عکرمہ رحمۃ اللّٰہ علیہ جب قرآن پاک کو کھولتے تھے تو بے ہوش ہو کے گر جاتے تھے، ان کی زبان پہ ”ھٰذَا کَلَامُ رَبِّیْ“ کے الفاظ جاری ہو جاتے تھے۔ جب دل میں بہت زیادہ عظمت آتی ہے تو کیا ایسی کیفیات طاری ہوتی ہیں؟
جواب:
اس سلسلے میں ایک اصول یاد رکھنا چاہیے۔ ”آبشار کے سامنے ہاتھی بھی نہیں ٹھہر سکتا اور تنکا تھوڑے پانی میں بھی بہہ جاتا ہے“۔
مقصد یہ ہے کہ بعض دفعہ انسان کمزور ہوتا ہے، وارد اتنا زیادہ نہیں ہوتا لیکن وہ اس وارد کو برداشت نہیں کر پاتا اور بعض دفعہ وارد اتنا شدید ہوتا ہے کہ اس کو پہلوان بھی نہیں برداشت کر سکتا۔
ہم لوگ ظاہری صورت سے تقابل نہیں کر سکتے بلکہ دیکھیں گے کہ جو چیز وارد ہے وہ کتنی طاقت کی ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین بڑے قوی دل والے تھے، ان کو قرآن کی عظمت کا بہت شدید ادراک تھا جس کی وجہ سے اس قسم کے واقعات ظاہر ہوتے تھے۔
بعض مرتبہ ہم لوگ بھی قرآن پڑھتے ہوئے روتے ہیں، بعض دفعہ ہمارے اوپر بھی ایسا اثر ہو جاتا ہے لیکن وہ ہمارے دل کی کمزوری کی وجہ سے ہوتا ہے، ہم لوگ اتنے قوی نہیں ہیں لہٰذا ہمارے لیے تھوڑا وارد بھی زیادہ ہو جاتا ہے، ہم برداشت نہیں کر پاتے لیکن ان کا وارد اتنا زیادہ ہوتا تھا کہ اسے انسان برداشت ہی نہیں کر سکتا۔ میں یہ فون والا وارد نہیں کہہ رہا، یہ کوئی اور وارد ہے۔
سوال نمبر28:
علماء سے سنا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم جب کسی قوم کے پاس جاتے تھے تو اس قوم کو کہتے ”کُوْنُوْا مِثْلَنَا“ ”ہم جیسے ہو جاؤ“۔ اپنے آپ کو بطور نمونہ پیش کرتے تھے۔ کیا اس وقت بھی دنیا میں کوئی ایسا علاقہ یا کوئی ایسی جگہ ہے جہاں اس طرح اسلام کے رول ماڈل موجود ہوں؟
جواب:
حکومتی سطح پر تو شاید ایسا کہیں بھی نہیں ہے غیر مسلم طاقتیں مسلمانوں کی صحیح حکومت کو باقی نہیں رہنے دیتیں۔ البتہ شخصیتوں کی حد تک ایسے لوگ ضرور موجود ہیں جنہیں اس سلسلے میں رول ماڈل کہا جا سکتا ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین بھی اپنی شخصیات کو پیش فرماتے تھے کہ ہماری طرح ہو جاؤ، اور شخصیات اب بھی ہو سکتی ہیں۔
سوال نمبر29:
ایک آدمی تصوف میں (مثلاً) دو سال تک ذکر اذکار کرتا ہے، بظاہر اسے کوئی تبدیلی نظر نہیں آئے گی لیکن اندر ہی اندر اس کا تکبر صاف ہو رہا ہو گا، اس کا حسد اور باقی بیماریاں صاف ہو رہی ہوں گی، جبکہ اس کے مقابلے میں اگر وہ کسی دینی ماحول صرف تین دن کے لیے جاتا ہے تو اچانک ہی اس کے چہرے پہ داڑھی آ جاتی ہے، اچانک وہ نماز پڑھنے لگ جاتا ہے۔ ظاہر کی آنکھ سے دیکھیں تو دوسری صورت میں تین دن میں ہی بہت زیادہ تبدیلی نظر آ رہی ہے جب کہ پہلی صورت میں دو سال میں بھی کوئی ظاہری تبدیلی نظر نہیں آئی۔ اس بارے میں کچھ وضاحت فرما دیں۔
جواب:
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے تھے کہ جب میں دیکھتا ہوں کہ کوئی آدمی نماز نہیں پڑھتا تو مجھے اتنی فکر نہیں ہوتی کیونکہ اگر وہ ابھی ارادہ کر لے گا تو پانچ منٹ میں نمازی ہو جائے گا لیکن جب میں دیکھتا ہوں کہ کسی کے دل میں تکبر ہے تو میرے پیروں کے نیچے سے زمین نکل جاتی ہے کیونکہ اگر ابھی یہ اپنا تکبر نکالنے کا ارادہ کر بھی لے گا تو تکبر کو نکالتے نکالتے برسوں لگیں گے۔
دل کی بیماریاں بہت مشکل سے ٹھیک ہوتی ہیں، انہیں نکالنا بہت زیادہ ضروری بھی ہوتا ہے جبکہ ظاہری صورتیں بہت آسانی سے درست ہو سکتی ہیں۔ تصوف کے اندر بھی ظاہری صورت ٹھیک ہو جاتی ہے، تصوف میں تو کسی نے یہ نہیں کہا کہ ظاہری صورت ٹھیک نہیں ہوتی، البتہ تصوف میں ظاہر کے ساتھ باطن بھی سنور جاتا ہے جبکہ دوسری جگہوں میں زیادہ تر صرف ظاہر سنورتا ہے۔
سوال نمبر30:
وہ صوفی کہ تھا خدمت حق میں مرد
محبت میں یکتا حمیت میں فرد
عجم کے خیالات میں کھو گیا
یہ سالک مقامات میں کھو گیا
اس کی تشریح فرما دیں۔
جواب:
حضرت علامہ اقبال کے کلام کو سمجھنے میں ایک خیال رکھنا پڑتا ہے کہ ان کے زندگی کے تین ادوار ہیں، پہلا دور طالب علمی کا دور ہے، یہ عام لوگوں کی طرح ہی جیسے سکول کالج کے لوگ ہوتے ہیں، اس دور میں انہوں نے ایسی باتیں کی ہیں جو ان کے آخری دور کی شان کے مطابق نہیں ہیں۔ اس کے بعد ان پر فلسفے کا ایک دور آیا اس دور میں انہوں نے زیادہ تر فلسفے کی باتیں کی ہیں، اور بعض ایسی باتیں کی ہیں جو ان کے آخری دور کے حساب سے ٹھیک نہیں ہیں۔ مثلاً اس نے کہا:
کاخِ اُمرا کے در و دیوار ہلا دو
جس کھیت سے دہقان کو میسر نہیں روزی
اس کھیت کا ہر گوشہ گندم کو جلا دو
یہ علامہ اقبال کے اس دور کی باتیں ہیں جب وہ سوشلزم اور کمیونزم سے بھی متاثر ہوئے تھے۔ بعد میں وہ ایسے نہیں رہے۔ جب ان میں تبدیلی آئی تو انہیں اس بات کا استحضار تھا کہ اصل تصوف سامنے آنا چاہیے، تصوف کی اصل روح کو سامنے آنا چاہیے۔ انہوں نے ان لوگوں کا رد کیا ہے جو بظاہر صوفی ہیں لیکن اصل تصوف ان کو حاصل نہیں ہے۔ لہٰذا سوال میں ذکر کردہ شعر میں نقلی صوفی کا رد ہے اصلی صوفی کا رد نہیں ہے کیونکہ اصلی صوفی کے بارے میں ان کا ایک اور شعر ہے، وہ بھی سن لیں، فرماتے ہیں:
نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی، ارادت ہو تو دیکھ ان کو
یدِ بیضا لیے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں
یعنی ان خرقہ پوشوں کو جو صوفی لوگ ہیں نہ چھیڑو، اگر تم ان کو جاننا چاہتے ہو تو ذرا ان کو دیکھ لینا تمہیں نظر آئے گا کہ یہ تو موسیٰ علیہ السلام کا ید بیضا، جس کے ذریعے دوسرے لوگوں کو موسی علیہ السلام کے ساتھ اللّٰہ پاک کا تعلق نظر آ جاتا تھا، اپنی آستینوں میں لیے بیٹھے ہیں۔ ان کے ذریعے تو بہت سارے لوگوں کے کام بن رہے ہیں۔ یہ ان کا اصلی تصوف کے بارے میں شعر ہے۔ اگر ان کے کلام کی حقیقت کو سمجھا جائے، اس کے ظاہر پہ نہ جایا جائے تو ان کا کلام بہت بڑے پائے کا کلام ہوتا ہے۔ یہ صرف علامہ اقبال کے ساتھ نہیں ہے، بہت سارے شعراء کے ساتھ یہی بات ہے کہ انہوں نے جس انداز میں کلام کہا ہے لوگوں نے اس انداز میں سمجھا ہی نہیں ہے نتیجتاً وہ گمراہ ہو گئے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن پاک کے بارے میں فرمایا ہے:
(یُضِلُّ بِهٖ كَثِیْرًا وَّ یَهْدِیْ بِهٖ كَثِیْرًا وَ مَا یُضِلُّ بِهٖۤ اِلَّا الْفٰسِقِیْنَ﴾ (البقرۃ: 26)
ترجمہ: ”اللہ اس مثال سے بہت سے لوگوں کو گمراہی میں مبتلا کرتا ہے اور بہت سوں کو ہدایت دیتا ہے (مگر) وہ گمراہ انہی کو کرتا ہے جو نافرمان ہیں“۔
سوال نمبر31:
علماء بتاتے ہیں کہ جب حضرت ربیع بن عامر رضی اللّٰہ عنہ رستم کے دربار میں گئے تو اس نے پوچھا: کیوں آئے ہو؟ انہوں نے فرمایا کہ ہم اس لئے آئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس لئے مبعوث کیا ہے تاکہ لوگوں کو لوگوں کی غلامی سے نکال کے اللہ کی غلامی پہ ڈال دیں اور لوگوں کو باطل مذاہب کے ظلم سے نکال کے اسلام کے عدل پہ ڈال دیں اور دنیا کی مشقتوں سے نکال کے دنیا کی آسانیوں پہ ڈال دیں۔
اس کی کچھ وضاحت فرما دیں۔
جواب:
پہلی بات تو بالکل واضح ہے کہ ہم لوگوں کو لوگوں کی غلامی سے آزاد کرنے کے لیے آئے ہیں۔
حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے فرمایا کہ اللّٰہ جل شانہ نے جن کو آزاد پیدا کیا تم ان کو کیسے غلام بنا سکتے ہو؟
مقصد یہ ہے کہ جو حقوق اللّٰہ تعالیٰ نے مقرر کیے ہیں، ان حقوق کا خیال رکھو لوگوں کو غلام نہ بناؤ، ان کے حقوق کو سلب نہ کرو۔ عجمی لوگ لوگوں کو غلام بنا لیتے تھے اور یہ سب ان کی شان و شوکت کی وجہ سے ہوتا تھا۔ حضرت ربیع رضی اللہ عنہ نے اس کے بارے میں فرمایا کہ ہم اس سے آزاد کرانے کے لیے آئے ہیں۔
دوسری بات یہ فرمائی کہ ہم لوگوں کو باطل مذاہبِ کے ظلم سے نکال کے اسلام کے عدل پہ ڈالنے کے لیے آئے ہیں۔ اس میں بھی کوئی اشکال نہیں ہے۔
تیسری بات یہ فرمائی کہ ہم لوگوں کو دنیا کی مشقتوں سے نکال کے دنیا کی آسانیوں پہ ڈالنے کے لیے آئے ہیں۔ مشقتوں سے مراد یہ ہے کہ جب انسان اپنے آپ کو، اپنے دل کو، اپنے نفس کو دنیا کی چیزوں کے ساتھ وابستہ کرتا ہے تو وہ ایسا بن جاتا ہے جیسے کانٹوں کے اوپر کوئی کمبل ڈال لے اور اس کمبل کو کھینچے تو اس کا ریشہ ریشہ کانٹوں میں پھنس کر پھٹ جاتا ہے، اسی طرح اگر ہمارا دل دنیا کے ساتھ لگا ہوتا ہے تو جب ہم محسوس کرتے ہیں کہ وہ ہم سے جا رہی ہیں تو بہت زیادہ تکلیف ہوتی ہے لیکن اگر کسی کے دل کا تعلق اللّٰہ کے ساتھ ہو جائے تو پھر دنیاوی چیزوں کے جانے سے اتنی تکلیف نہیں ہو گی۔ اس طرح دنیا کی مشقت ختم ہو جاتی ہے اور دنیا کی آسانی مل جاتی ہے۔
سوال نمبر32:
حضرت سلطان ایوبی رحمۃ اللّٰہ علیہ پوری زندگی صلیبیوں کے خلاف لڑتے رہے ان کو ناکوں چنے چبواتے رہے لیکن اس سب کے با وجود آج بھی اہلِ مغرب ان کے اعلی کردار کے معترف ہیں، ان کی بہادری کے معترف ہیں، ان کو انتہا پسند دہشت گرد یا اس طرح کا کوئی لقب کیوں نہیں ملا؟ ان پہلے لوگوں میں ایسی کیا چیز تھی؟
جواب:
اس کی وجہ دو طرفہ ہے۔ ایک تو یہ کہ ان کی شان بھی اونچی تھی دوسرا یہ کہ اُس وقت کے کافر بھی کچھ اصول پسند تھے۔ اب کفار بھی بہت کمینے ہیں، وہ کسی کی اچھائی کو دیکھ نہیں سکتے اور مسلمان بھی کمزور ہو گئے ہیں۔ پشتو میں کہتے ہیں (سہ جرندہ ورانہ دہ سہ دانے لمدے دے) یعنی کچھ تو چکی خراب ہو چکی ہے اور کچھ دانے بھی گیلے ہیں۔
سوال نمبر33:
ابھی چند دن پہلے ایک اہل علم نے اپنا واقعہ سنایا کہ وہ روضۂ رسول ﷺ پہ حاضر ہوئے تو شرطوں نے باقی لوگوں کو دھکیلتے ہوئے انہیں بھی نکال دیا۔ انہوں نے دل میں سوچا کہ معاملہ کچھ اور ہے، وہ واپس گئے اور کچھ اپنے اعمال وغیرہ کیے اور ایک دو دن بعد دوبارہ حاضر ہوئے۔ اس دفعہ یوں ہوا کہ شرطے باقیوں کو تو نکالتے گئے مگر ان کو کھڑے رہنے دیا۔ اسی دوران ان کی شرطوں سے بات چیت ہو گئی، انہوں نے ان کو دعوت دی۔ انہیں اس بات کی خوشی تھی کہ روضۂ رسول ﷺ کے سامنے انہوں نے دین کی بات کی ہے۔
اس پر سوال یہ ہے کہ ادب کے لحاظ سے اس جگہ پر کیا ضروری تھا، کیونکہ ادب میں خاموش رہنا زیادہ ضروری ہوتا ہے، کیا خاموش رہنا بہتر تھا یا دین کی بات کرنا بہتر تھا؟
جواب:
اس کا جواب دینا مشکل ہے کیونکہ ہم اس شخص کے بارے میں کوئی تفصیلات نہیں جانتے، اس لیے میں صرف اتنا عرض کر سکوں گا کہ اس واقعہ سے قطع نظر عمومی حکم کیا ہے، خاص ان کے بارے میں کوئی حکم نہیں لگا سکتا کیونکہ میں ان کے بارے میں تفصیلات نہیں جانتا۔
عمومی حکم یہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین اور اولیاء کرام رحمۃ اللہ علیہم اجمعین کے عمل سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ روضۂ رسول ﷺ پر خاموشی بہتر ہے۔ حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ بھی وہاں بات چیت سے منع فرماتے تھے۔ وہاں پر تو صلوٰۃ و سلام ہے، خاموشی ہے اور محبت کا اظہار ہے۔ جہاں تک دعوت کا کام ہے وہ انسان کو روضۂ رسول ﷺ سے باہر آ کر کرنا چاہیے۔ نبی ﷺ کے دور میں عین آپ ﷺ کے سامنے کوئی دعوت نہیں دیتا تھا، جب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آپ ﷺ کے سامنے موجود ہوتے تھے اس وقت ان کے لئے سب سے بڑا کام یہ ہوتا کہ آپ ﷺ کے سامنے با ادب بیٹھے رہیں اور کچھ سنیں یا سمجھیں اور آپ ﷺ کی برکت کو حاصل کر لیں۔ ہمارے لیے بھی یہی بات قابل تقلید ہونی چاہیے کیونکہ آپ ﷺ تو حیات ہیں، لہٰذا ہم آپ ﷺ کے سامنے اسی طریقے سے با ادب کھڑے ہوں کہ ہمیں کچھ مل رہا ہے تو ہم اس کو لے لیں۔
یہ میں خاص طور پر اس آدمی کے بارے میں کچھ نہیں کہہ رہا بلکہ عمومی حکم بتا رہا ہوں اور صرف اتنا کہہ رہا ہوں کہ بزرگوں کا طریقہ یہ نہیں رہا۔ میں نے بہت ساری چیزیں تواتر کے ساتھ بیان کر دی ہیں، اگر ایک واقعے کے سامنے تواتر والی چیز ہو تو آپ تواتر والی بات کو لیں گے یا کسی ایک واقعہ کو لیں گے۔
سوال نمبر34:
سوال یہ ہے کہ معاشرے کے اندر کسی آدمی کے ساتھ عزت سے بات کی جاتی ہے، سوسائٹی کے اندر اس کی عزت ہوتی ہے لیکن اچانک کوئی اس کو تو تراں کر کے بلائے تو ایک دم اسے جھٹکا سا لگتا ہے۔ اب وہ زبان سے تو اپنے آپ کو کہتا ہے کہ میں کچھ نہیں ہوں لیکن اس کا اندر ٹھیک طرح اس کا ساتھ نہیں دیتا اور اس میں اپنے آپ کو کچھ سمجھنے اور اپنے کچھ ہونے کی بات چلتی رہتی ہے۔ ایسا کیا کیا جائے کہ صحیح طور پہ اللّٰہ کے لیے تواضع حاصل ہو جائے۔
جواب:
در اصل یہ بات دو لفظوں میں بیان نہیں کی جا سکتی اور یہ الفاظ میں بیان کرنے کی چیز بھی نہیں ہے، یہ عملی چیز ہے اور عملی طور پر سمجھ میں بھی آتی ہے اور عملی طور پر حاصل بھی کی جاتی ہے۔ جتنا جتنا انسان کا اللّٰہ کے ساتھ تعلق پختہ ہوتا جائے گا، یہ چیزیں خود بخود سمجھ میں آنی شروع ہو جائیں گی۔
؏ محبت تجھے آدابِ محبت خود سکھا دے گی۔
جس کو صحیح معنوں میں محبت ہوتی جائے گی اسے یہ ساری چیزیں خود بخود سمجھ میں آنی شروع ہو جائیں گی کہ یہ کیا بات ہے اور کیا بات نہیں ہے۔ اس میں Back of mind بھی ایک چیز ہے لیکن Back of mind بھی دل سے متاثر ہوتا ہے، لہٰذا اگر دل ٹھیک ہو جائے تو Back of mind بھی ٹھیک ہو جائے گا اس لئے اصل محنت تو دل پر ہے۔
اگر کوئی دل سے کوشش کر رہا ہے کہ میرے دل سے عجب اور تکبر نکل جائے، اللّٰہ سے دعا بھی کر رہا ہے پھر اس کے دل و دماغ میں اپنے آپ کو اونچا سمجھنے کے خیالات آتے ہیں تو یہ وسوسہ بھی ہو سکتا ہے اور اگر حقیقت ہو تب بھی مایوس نہیں ہونا چاہیے انسان کے ذمہ صرف کوشش لازم ہے۔
سوال نمبر35:
وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہيں ذرا
روح محمد اس کے بدن سے نکال دو
فکر عرب کو دے کے فرنگي تخيلات
اسلام کو حجاز و يمن سے نکال دو
اس میں روحِ محمد ﷺ اور فرنگی تخیلات سے کیا مراد ہے؟
جواب:
”روحِ محمد (ﷺ) اس کے بدن سے نکال دو“ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان کو آپ ﷺ کے مبارک طریقہ سے منقطع کر دو، آپ ﷺ کی پیروی کو دل سے جدا کر دو تو یہ اللّٰہ سے کٹ جائے گا، جب اللّٰہ سے کٹ جائے گا پھر اس کے پاس کچھ نہیں رہ جائے گا پھر تو یہ کٹی ہوئی پتنگ کی طرح اڑتا جائے گا۔
”فکر عرب کو دے کے فرنگی تخیلات، اسلام کو حجاز و یمن سے نکال دو“ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی طرح عرب سے اسلام کو نکال دو تو ان کے پاس کچھ نہیں رہے گا جاہل عرب باقی رہ جائے گا۔ اسی نظم میں آگے یہ بھی کہا گیا ہے:
افغانيوں کي غيرت ديں کا ہے يہ علاج
ملا کو ان کے کوہ و دمن سے نکال دو
سوال نمبر36:
”لب پہ درود و سلام، دل میں درود و سلام“۔ دل میں درود و سلام سے کیا مراد ہے؟
جواب:
وَاٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ