سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 32

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال نمبر1:

اصلاح میں اللہ اور حضور ﷺ کی عظمت کا کیا کردار ہے؟

جواب: قرآن پاک میں تعظیمِ شعائر کو دل کے تقویٰ کی علامت بتایا گیا ہے۔ تقویٰ بنیادی چیز ہے اسی کو حاصل کرنے کے لئے ساری محنت ہے۔ ایمان لانے سے ایمان تو حاصل ہو جاتا ہے۔ ایمان نہ کم ہوتا ہے نہ زیادہ ہوتا ہے، البتہ اس کی تقویت تقویٰ کے ساتھ ہوتی ہے۔ بالفاظِ دیگر تقویٰ جتنا بڑھتا ہے ایمان اتنا مضبوط ہوتا جاتا ہے۔ ایمان کی قوت در اصل تقویٰ کی مضبوطی سے ہے۔ جیسے عام لوگ کہتے ہیں کہ فلاں کا ایمان بہت مضبوط ہے تو در اصل اس کا تقویٰ زیادہ ہوتا ہے۔ کیونکہ ایمان نہ کم ہوتا ہے نہ زیادہ ہوتا ہے۔ اس پہ کافی تفصیل سے بات ہو چکی ہے کہ ایمان میں کمی بیشی نہیں ہوتی، وہ مستقل ہے کیونکہ ایمان ماننے کو کہتے ہیں۔ جب انسان اللہ پاک کو اور اللہ پاک کی صفات کو مان گیا، اس پر ایمان لے آیا تو ایمان حاصل ہو گیا، اب اس میں کمی بیشی نہیں آ سکتی۔ ایمان میں ایک ہی بات ہوتی ہے کہ یا تو آدمی مانے گا یا نہیں مانے گا، درمیان میں کوئی اور بات ہے ہی نہیں، لیکن عمل کے لئے، جس کو ہم ایمان کی مضبوطی کہتے ہیں، تقویٰ معیار ہوتا ہے۔ جس میں تقویٰ زیادہ ہوتا ہے اسے عمل کی توفیق زیادہ ہوتی ہے۔ عظمت کے بارے میں اللہ پاک فرماتے ہیں:

﴿ذٰلِكَ وَ مَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآىِٕرَ اللّٰهِ فَاِنَّهَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ﴾ (الحج: 32)

ترجمہ: ”یہ ساری باتیں یاد رکھو، اور جو شخص اللہ کے شعائر کی تعظیم کرے، تو یہ بات دلوں کے تقوی سے حاصل ہوتی ہے“۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی نے تقویٰ حاصل کیا ہو گا تو لازماً اسے تعظیمِ شعائر حاصل ہو گی۔ پس یوں کہہ سکتے ہیں کہ تعظیمِ شعائر ایک میٹر ہے اور ایک معیار ہے اس بات کی پہچان کے لئے کہ آیا آدمی کے دل میں تقویٰ ہے یا نہیں ہے۔

جن کے دل میں ادب اور عظمت ہوتی ہے ان کی بات میں اثر بھی زیادہ ہوتا ہے۔ مثلاً اگر اللہ کا ادب اور اس کی عظمت دل میں ہو تو اللہ پاک کی بات کی قدر ہو گی، قرآن کی بات کا اثر ہو گا۔ نتیجتاً اصلاح میں اثر ہو گا جس سے آدمی کو فائدہ ہو گا۔ جیسے قرآن کریم میں اللہ پاک فرماتے ہیں:

﴿اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَذِكْرٰی لِمَنْ كَانَ لَهٗ قَلْبٌ﴾ (ق: 37)

ترجمہ: ”یقیناً اس میں اس شخص کے لئے بڑی نصیحت کا سامان ہے جس کے پاس دل ہو“۔

”جس کے پاس دل ہو“ کا معنی ہے کہ ”جس کا دل بنا ہوا ہو“۔ دل بننے کا مطلب یہی ہے کہ اس کو تقویٰ حاصل ہو۔ جب آدمی کو تقویٰ حاصل ہو گا تو وہ اللہ پاک کی بات سے اثر لے گا، قرآن پاک کی بات سے اثر لے گا، حدیث کی بات سے اثر لے گا، اس طرح انسان کو ان چیزوں کا زیادہ فائدہ ہو گا۔

معلوم ہوا کہ عظمت بیک وقت ایک میٹر بھی ہے، اس سے پتا چلتا ہے کہ مجھ میں کتنا تقویٰ ہے۔ اور دوسری طرف اس تقویٰ میں عظمت کا بھی اثر ہو گا کیونکہ جو عظمت تقویٰ کی وجہ سے آ رہی ہے اس کا اثر آدمی کے اعمال پر ہو گا، سارے اعمال میں اس کا وزن ہو گا نتیجتاً وہ اعمال زیادہ وزن دار ہوں گے۔

سوال نمبر2:

اگر کوئی شخص اللہ اور رسول کی عظمت محسوس نہ کرے تو اسے کیا کرنا چاہیے؟

جواب:

دو صورتیں ممکن ہیں ایک تو یہ ہے کہ واقعی عظمت نہ ہو یعنی دل میں تقویٰ نہ ہو۔ دوسری صورت یہ ہے کہ عظمت اتنی زیادہ ہو کہ غایتِ عظمت کی وجہ سے انسان ڈر رہا ہو کہ شاید میرے دل میں عظمت نہیں ہے۔ جیسے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے اوپر منافق ہونے کا گمان ہو رہا تھا۔ عظمت کا محسوس نہ ہونا دونوں صورتوں میں ہو سکتا ہے جیسے بعض دفعہ بلڈ پریشر کی کمی اور زیادتی ایک قسم کی علامات پیدا کرتی ہیں۔ بلڈ پریشر کی کمی کی وجہ سے بھی سر چکراتا ہے اور زیادتی کی وجہ سے بھی چکراتا ہے۔ ایسی صورت میں سر کا چکرانا Confirmatory test نہیں ہوتا بلکہ اس کے لئے کچھ اور علامات کو دیکھنا ہوتا ہے کہ یہ کون سا بلڈ پریشر ہے۔ یہ علامات ہائی بلڈ پریشر کی ہیں یا لو بلڈ پریشر کی ہیں۔

اسی طرح اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی عظمت کو دل میں محسوس نہیں کرتا تو یہ دو وجوہات کی بنا پر ہو سکتا ہے۔ ایک یہ کہ اس کے دل میں عظمت نہ ہو تب بھی اسے عظمت محسوس نہیں ہو گی، یا پھر یہ وجہ ہو سکتی ہے کہ اس کے دل میں طلب زیادہ ہو تب بھی اسے عظمت محسوس نہیں ہو گی بلکہ کمی محسوس ہو گی۔

اگر دل میں طلب ہو لیکن عظمت محسوس نہ ہو تو اسے وسوسہ سمجھیں۔ یہ دیکھ لیں کہ میں عظمت کے تقاضے پہ عمل کر رہا ہوں یا نہیں کر رہا۔ اگر آپ کو خطرہ ہے کہ میرے دل میں عظمت نہیں ہے تو دیکھیں کہ میرے اعمال پہ کیا اثر ہے۔ اگر اعمال پہ ایسا اثر ہو رہا ہے جو عظمت کے تقاضے کے خلاف ہے تو اس کا مطلب ہے کہ واقعی آپ کے دل میں عظمت نہیں ہے۔ پھر تو ڈریں، اس کے لئے تیاری کریں اور محنت کریں۔ لیکن اگر اعمال عظمت کے تقاضے کے مطابق ہو رہے ہیں مثلاً آدمی قرآن پاک کی کسی بات کو کم نہیں سمجھ رہا، اللہ تعالیٰ کی بات کو کم نہیں سمجھ رہا تو پھر عظمت کا محسوس نہ ہونا ایک وسوسہ ہے اس کی پروا نہ کرے۔ اگر واقعتاً اس قسم کے اثرات ہوں کہ انسان واقعی قرآن پہ عمل نہیں کر رہا یا حدیث پہ عمل نہیں کر رہا، بڑے گناہ اور چھوٹے گناہ میں فرق نہ رہا ہو تو پھر یہ ساری باتیں ڈرنے کی ہیں، ایسی صورت میں اپنا علاج کرے۔

سوال نمبر3:

اگر کسی کو اللہ کی عظمت محسوس ہو تو کیا وہ گناہ سے بچ سکتا ہے؟ بالفرض وہ گناہ کرنے سے شرمندہ ہو مگر اللہ کے سامنے جانے سے نہ ڈرے، مثلاً ایک شخص چوری کرے تو یہ ڈر ہو کہ پولیس گشت پر ہے اور مجھے پکڑ لے گی؟

جواب:

اگر آدمی گناہ کر رہا ہو اور سمجھ رہا ہو کہ اللہ ہے تو دوسری ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اسے ناز ہو کہ اللہ مجھے معاف کر دے گا۔ بعض دفعہ آدمی کو یہ غلط فہمی ہو سکتی ہے۔ یہ غلط فہمی بڑی خطر ناک ہے کہ اپنے اوپر ناز ہو کہ مجھے اللہ معاف کر دے گا۔ جیسے یہود اور بنی اسرائیل کو تھا۔ تو اس وجہ سے بھی انسان گناہ کرتا ہے۔ مثلاً سید آدمی اپنے آپ کو اللہ کا پیارا سمجھے یا نیک لوگوں کی اولاد سمجھے یا کوئی اور وجہ اپنے ذہن میں رکھے اور گناہ کر لے تو یہ بڑی خطر ناک بات ہے۔ ایسے شخص کو فوراً استغفار کرنا چاہیے، اللہ پاک کے استحضار کی کوشش کرنی چاہیے اور اپنے آپ کو سمجھانا چاہیے کہ تیری اللہ کے ساتھ کوئی رشتہ داری نہیں ہے، اللہ کے لئے سارے برابر ہیں اور قانون بھی سب کے لئے برابر ہے لہذا اگر تو اس قسم کی حرکت کرے گا تو تجھے بھی سزا ہو سکتی ہے اور وہ سزا زیادہ سخت ہو سکتی ہے کیونکہ تو جان بوجھ کر کر رہا ہے۔ دوسرا بے وقوفی اور نا سمجھی سے کر رہا ہے مگر تو جان بوجھ کر کر رہا ہے، تجھے زیادہ سخت سزا ہو سکتی ہے۔ لہذا توبہ کرنی چاہیے اور اپنے آپ کو اللہ کے سامنے کھڑا سمجھنا چاہیے۔ یہی تو کیفیت احسان ہے کہ انسان اپنے آپ کو اللہ کے سامنے سمجھے اور اللہ پاک کی تمام صفات کا بھی ادراک کرے کہ اللہ پاک کی صفات کون کون سی ہیں۔ اللہ پاک بعض دفعہ بہت سخت گرفت فرماتے ہیں اگر اچانک اِس وقت گرفت فرما لی تو ہم کیا کریں گے۔

ع۔ نہ جا اس کے تحمل پر کہ ہے بے ڈھب گرفت اس کی

کہیں ایسا نہ ہو کہ اللہ ڈھیل دے رہا ہو، ڈھیل دیتے دیتے اچانک کھینچ لے، پھر کیا کریں گے؟ پھر تو آدمی کچھ نہیں کر سکتا کیونکہ اچانک گرفت آ سکتی ہے۔ اس لئے اس بات سے ڈرنا چاہیے، توبہ و استغفار کرنا چاہیے۔

سوال نمبر4:

انسان اللہ اور رسول ﷺ کی عظمت دل میں پیدا کرنے کے لئے دعا کے علاوہ اور کونسا عمل کرے؟

جواب:

جو چیزیں انسان کے دل میں تقویٰ پیدا کرنے والی ہیں وہ پیدا کرے۔ کیونکہ عظمت تقویٰ کا اثر ہے اس لئے تقویٰ کو حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ اس کے لئے ایک تو انسان کیفیتِ احسان پیدا کرے اور دوسری بات یہ ہے کہ اللہ پاک کی صفات کا مراقبہ کر لے کہ اللہ پاک اپنی ذات میں مستقل ہے اور میرا اللہ کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں ہے۔ اللہ پاک جو کسی اور کے ساتھ کر سکتا ہے وہ میرے ساتھ بھی کر سکتا ہے، میں اس کے قوانین سے مستثنیٰ نہیں ہوں۔ ناز کی کیفیت کو ختم کر کے نیاز کی کیفیت کو حاصل کرنا چاہیے۔

سوال نمبر5:

بچوں کی اصلاح والدین خود کریں یا جس شیخ سے اپنی اصلاح چل رہی ہو اس سے کروائیں۔

جواب:

اس سلسلے میں کچھ کام خود کرنا ہوتا ہے اور کچھ شیخ سے کروانا ہوتا ہے۔ بچہ زیادہ تر والدین کے ساتھ ہوتا ہے لہذا والدین ان کی زیادہ دیکھ بھال کر سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں شیخ سے مشورہ کر لیا جائے اور شیخ سے جو اصلاح ذکر اذکار اور معمولات کے ذریعے ہو سکتی ہے وہ شیخ سے کروائی جائے اور اس کی نگرانی خود کی جائے۔

سوال نمبر6:

اگر ہم بچوں کو مصروف کرنا چاہیں تو کیا بچوں کو کمپیوٹر پر کارٹون دکھا سکتے ہیں؟ بصورت دیگر بچے والدین کو تنگ کرتے ہیں اور ضروری کاموں میں حرج واقع ہو جاتا ہے بالخصوص اس وقت جب بچوں کو باہر لے جانے کا وقت نہ ہو۔

جواب:

ایک قانون سن لیجئے کہ جو پانی ناپاک ہو وہ جانور کو بھی نہیں پلانا چاہیے اور اس سے دیوار کو بھی نہیں لیپنا چاہیے۔ اس سے پتا چل گیا کہ بچوں کے ساتھ ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ بچے کم از کم جانوروں سے تو اچھے ہیں۔ اگر جانوروں کو ناپاک پانی نہیں پلایا جا سکتا تو بچوں کو ناپاک چیزیں کیسے دے سکتے ہیں۔ پھر یہ بھی سوچیں کہ ابھی بچوں کا Brought up ہو رہا ہے۔ ان کے ذہن آئینہ کی طرح ہیں، شیشہ کی طرح ہیں وہ سب کچھ لے رہے ہیں، اس وقت جو آپ ان سے کروا رہے ہیں یہی ان کے ذہن میں نقش ہو رہا ہے اور دل میں جگہ کر رہا ہے۔ لہٰذا ایسی چیزیں نہیں کرنی چاہئیں جو شرعاً جائز نہ ہوں، جن سے فرشتے رکتے ہوں۔ بلکہ میں بڑا حیران ہوتا ہوں کہ جب لوگ بچوں کو ایسی چیزیں دیتے ہیں جن میں اس کے لئے نقصان ہے۔ کیا بچے کو پتا ہے کہ ناجائز چیز میں زیادہ خوشی ہے اور جائز چیز میں کم خوشی ہے! اگر آپ اس کو ایک گاڑی دے دیں تو اس کے لئے وہ اتنی قیمتی نہیں ہے جتنی کہ اسے گڑیا اچھی لگتی ہے۔ آپ اس کو کوئی چھتری دے دیں، آپ اس کو کوئی گاڑی دے دیں یا آپ اس کو کوئی اور چیز دے دیں، اس کے لئے ان سب چیزوں میں کیا فرق ہے؟ وہ سب چیزوں سے یکساں طور پہ خوش ہو گا۔ یہ تو ہم لوگوں نے اپنے لئے مصیبتیں بنائی ہیں۔ ہم لوگ خود ان چیزوں میں احتیاط نہیں کرتے لہذا بچوں کو بھی وہ دیتے رہتے ہیں، بچوں کے لئے تو ہر چیز نئی ہے، آپ جو بھی چیز ان کو دے دیں گے وہ اس کو کھیل کے طور پہ لے لیں گے۔ اس لئے بچوں کو جائز چیزیں دینی چاہئیں، ناجائز چیزیں نہیں دینی چاہئیں۔

کارٹونوں کی بجائے جائز گیمز دکھا سکتے ہیں مثلاً وہ گیمز جن میں تصویریں نہیں ہیں اور جائز مواد پر مشتمل ہیں ان پہ بچوں کو لایا جا سکتا ہے۔ لیکن اس سے بھی بہتر اور مناسب یہ ہے ان کی گیمز چلنے پھرنے اور کھیلنے کودنے والی ہوں۔ کپیوٹر گیمز تو بچوں کو خراب کرتی ہیں۔ یہ گیمز بچوں کی توانائی ضائع کرنے کا سبب ہیں۔ اس کے بجائے بچے جتنا چلیں پھریں گے، اچھلیں کودیں گے اتنی ہی ان کے جسم کی نشو و نما ہو گی اور ان کے جسم کے اعضاء مضبوط ہوں گے۔ اگر آپ نے ان کو بیٹھنے پہ لگا دیا تو آپ نے اس کا سب کچھ روک دیا۔ لہٰذا ان کو ایسی گیمز میں نہیں لانا چاہیے جو ان کی نشو و نما کو کم کر دیں۔ در اصل ہم لوگ شارٹ کٹ مارنا چاہتے ہیں، شارٹ کٹ مارنے کے لئے یہ نقصان گوارا کر لیتے ہیں، بچوں کی عادتیں خراب کر دیتے ہیں پھر کہتے ہیں کہ اب کیا کریں بچے اس کے علاوہ مانتے ہی نہیں ہیں۔ لہذا پھر اس کے بعد جو نتائج ہوتے ہیں وہ سامنے آتے ہیں۔

سوال نمبر7:

بچوں کو نماز پڑھوانے کی عمر سات سال بتائی گئی ہے کیا قرآن پاک کے لئے بھی کوئی عمر مختص ہے جیسے نورانی قاعدہ وغیرہ یا سورتیں جو verbally پڑھائی جائیں؟

جواب:

میں نے کل بھی یہ بتائی تھی کہ جب بچے کو اللہ اللہ سکھایا جاتا ہے تب اس کی بہت تھوڑی عمر ہوتی ہے۔ اس کی پڑھائی تو اسی وقت سے شروع ہو جاتی ہے۔ پھر اسے چھوٹی چھوٹی چیزیں سکھائی جاتی ہیں۔ لیکن اس میں اس کی عمر کا خیال رکھنا چاہیے، آخر وہ بچہ ہے۔ جیسے سکولوں میں بھی چھوٹے بچوں کو کھیل کود میں چیزیں سکھائی جاتی ہیں اسی طرح تم ان کو اچھی چیزیں مثلاً کلمے، نورانی قاعدہ وغیرہ سکھاؤ اور اس طریقے سے سکھاؤ جس طریقے سے وہ ہضم کر سکیں۔ میرے خیال میں پرائمری میں پانچ سال کے بچے کو داخل کیا جاتا ہے اور نرسری میں ساڑھے تین چار سال کے بچے کو لیا جاتا ہے۔ اگر آپ اس عمر میں ان کو دنیاوی علوم سکھا سکتے ہیں تو دینی علوم کیوں نہیں سکھا سکتے۔ لہذا جب اس کی سیکھنے کی عمر شروع ہو جائے تو کافی ہے پھر اسے سکھانا چاہیے۔ یہ تجربہ کے اوپر منحصر ہے۔

سوال نمبر8:

اگر مسلمان کافر یا مشرک بن جائے یا محسوس کرے کہ وہ غلط ہے تو کیا وہ توبہ کر سکتا ہے؟

جواب:

کیوں نہیں، جس طرح موت سے پہلے پہلے ہر گناہ سے توبہ کی جا سکتی ہے اسی طرح کافر یا مشرک موت سے پہلے پہلے مسلمان بھی ہو سکتا ہے۔ البتہ اگر کوئی مسلمان کافر یا مشرک بن گیا ہے تو اگر وہ شادی شدہ تھا تو کافر ہونے کے ساتھ ہی اس کا نکاح بھی ٹوٹ گیا ہے۔ اب اگر وہ توبہ کر کے تجدیدِ ایمان کرتا ہے تو اسے دوبارہ نکاح بھی کرنا پڑے گا۔ صرف کلمہ پڑھنے سے وہ مسلمان ہو جائے گا لیکن نکاح دوبارہ تب ہی ہو گا جب اس کا نئے سرے سے نکاح پڑھایا جائے گا۔ اس کے علاوہ کافر ہوتے ہی اس کی ساری نمازیں ختم ہو جائیں گی، سارے روزے ختم ہو جائیں گے، اگر حج کیا تھا تو وہ بھی ختم ہو جائے گا دوبارہ کرنا پڑے گا۔ یہ معاملہ اتنا سادہ بھی نہیں ہے لیکن ایسا مشکل بھی نہیں ہے کہ دوبارہ نہ کیا جا سکتا ہو۔

لہذا اپنے ایمانوں کی حفاظت تو بہت زبردست کرنی چاہیے، خدا نخواستہ اگر کہیں ایسی بات ہو چکی ہے تو فوراً کلمہ پڑھ لے اور اس کے بعد نکاح کی تجدید کر لے۔

سوال نمبر9:

بچوں بیوی اور والدین کے لئے شوہر کے کیا فرائض ہیں؟

جواب:

سوال غلط ہے۔ الفاظ کے لحاظ سے یہ کہنا چاہیے کہ مرد کے کیا فرائض ہیں بچوں، بیوی اور والدین کے لئے۔ سوال میں شوہر کا لفظ کہا گیا ہے یہ لفظ بیوی کے لئے تو ٹھیک ہے مگر بچوں اور والدین کے لئے ٹھیک نہیں ہے۔

بہرحال سوال کا جواب یہ ہے کہ مرد کے فرائض ہر شخص کے لحاظ سے الگ الگ متعین ہیں۔ بیوی کے حقوق الگ ہیں، بچوں کے حقوق الگ ہیں اور والدین کے حقوق الگ ہیں۔ بس اتنی بات خیال میں رکھنی چاہیے کہ بیوی کے حقوق کے لئے والدین کے حقوق تلف نہیں ہونے چاہئیں، والدین کے حقوق کے لئے بیوی کے حقوق تلف نہیں ہونے چاہئیں اور بچوں کے حقوق کے لئے بیوی اور والدین کے حقوق تلف نہیں ہونے چاہئیں۔ ان تینوں کے وہ سب حقوق ضرور پورے کرنے چاہئیں جو شریعت بتاتی ہے۔

مثلاً بیوی کا یہ حق ہے کہ اس کا ایک کمرہ پرائیویٹ ہو جس میں گھر کا کوئی اور فرد مداخلت نہ کرے۔ باقی یہ ہے کہ جیسے بعض گھروں میں ایسا ہوتا ہے کہ دیور بھی بھائی کی بیوی کو مارنے لگتے ہیں۔ اس کی اجازت ہرگز نہیں دینی چاہیے۔ اسی طرح بیوی کے ذمہ شوہر کے حقوق پورے کرنا لازم ہے ان کو شوہر کے والدین کے حقوق نہیں سمجھنا چاہیے، اس میں فرق کرنا چاہیے۔ شوہر کے والدین کے الگ حقوق ہیں اور شوہر کے الگ حقوق ہیں۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ شوہر اپنے والدین کے حقوق ایسے ہی پورے کرواتے ہیں جیسے اپنے حقوق ہوتے ہیں، یہ درست نہیں ہے، شریعت نے ہر ایک کے الگ الگ حقوق رکھے ہیں۔ کسی ایک کے حق کے لئے دوسرے کے حق کو تلف نہیں کرنا چاہیے۔ یہ عام قانون ہے کہ جس کا حق جو ہے وہ اس حق دار کو دے دو۔ ایسا نہیں کرنا چاہیے کہ والدین کے لئے بیوی کو مار رہے ہیں، بیوی کے لئے والدین کو مار رہے ہیں، بچوں کے لئے ان دونوں کو مار رہے ہیں۔ یہ چیز ٹھیک نہیں ہے۔ اپنی اپنی جگہ پر ہر ایک کام کرنا چاہیے۔

سوال نمبر10:

اگر بیوی شوہر کے والدین کے ساتھ نہ رہنا چاہے تو شوہر کو کیا کرنا چاہیے؟

جواب:

اگر بیوی شوہر کے والدین کے ساتھ نہ رہنا چاہے تو پہلے حالات کو دیکھنا پڑے گا کہ غلطی اور قصور کس کا ہے۔ اگر قصور والدین کا ہے جیسا آج کل ایسا ہونا نا ممکن نہیں ہے تو ایسی صورت میں علیحدہ رہنے میں فائدہ ہے۔ کیونکہ روز روز کی جھنجھٹ کو حل کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ مسائل بڑھتے رہتے ہیں۔ Joint family کے بہت فوائد ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کی مشکلات بھی ہیں۔ اگر مشکلات اتنی بڑھ جائیں کہ اس کے فوائد سے زیادہ ہو جائیں تو پھر علیحدہ رہنے کو ترجیح دی جائے گی۔ اس لئے قاعدہ ہے کہ اجتماع بھی محبت پر ہو اور علیحدگی بھی محبت پر ہو۔ اس طرح نہیں ہونا چاہیے کہ لڑائی سے علیحدگی ہو۔ لیکن اگر زیادتی والدین کی نہ ہو اور بیوی محض اپنی کجی کی وجہ سے اس طرح کر رہی ہو تو اسے قائل کرنا چاہیے۔ بالخصوص اس صورت میں کہ جب حالات ایسے ہوں کہ شوہر کے پاس وسائل بھی نہ ہوں تو پھر بیوی کو اس کا وہ حق لازمی دینا چاہیے جو شریعت نے مقرر کیا ہے۔ اگر اس کا وہ حق اسے دے دیا گیا تو پھر وہ اس سے زیادہ کا مطالبہ نہیں کر سکے گی۔ مثلاً اس کے ایک کمرے میں اس کا اختیار کامل ہو اور باقی جگہوں پہ اس کا کوئی دخل نہ ہو۔ ہر جگہ اپنا اپنا حساب ہو گا۔ والدین کو یہ سمجھانا پڑے گا کہ اس کے کمرے میں مداخلت نہ کریں وہاں پر اسے مکمل اختیار ہو گا، وہ وہاں کسی کو لے جانا چاہے یا نہ لے جانا چاہے اس سلسلے میں اس کو پورا پورا اختیار ہو گا۔ یہ بات شوہر کو والدین اور بہن بھائیوں کو سمجھانا پڑے گی۔ لہٰذا بیوی کو اس کا یہ حق دے کر اسے والدین والے گھر میں ہی رہنے پر قائل کرنا چاہیے، لیکن اگر دوسری طرف سے زیادتی ہو تو پھر مناسب یہ ہے کہ محبت کے ساتھ جدائی ہو جائے۔

سوال نمبر11:

کیا بچوں اور والدین کے لئے اوقات کی تقسیم بھی اصلاح اور تربیت کے لئے ہے؟

جواب:

اصل میں ہم سوال و جواب کے اس سیشن میں زیادہ تفصیلات میں نہیں جا سکتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ باتیں Man to man vary کرتی ہیں، اور یہ چیزیں حالات to حالات vary کرتی ہیں۔ ان کے لئے کوئی عمومی ضابطہ بنانا ممکن نہیں ہے۔ بس یوں سمجھ لیجئے کہ ہمارے دوسرے فرائض میں حرج نہیں ہونا چاہیے، اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے والدین اور بچوں کو اتنا وقت دینا چاہیے جتنا ان کا حق ہے۔ کسی ایک کے حق کے لئے دوسرے کے حق کو ختم نہیں کرنا چاہیے۔ مثلاً دفتر کا وقت تو آپ ان کو نہیں دے سکتے یا نماز کا وقت بھی آپ ان کو نہیں دے سکتے، کیونکہ یہ آپ کے اپنے اوپر فرائض ہیں۔ اسی طرح آپ کسی اور کا حق بھی ان کو نہیں دے سکتے۔ اس کے علاوہ جو وقت بچتا ہے وہ آپ ضرورت کے مطابق تقسیم کر لیں۔

سوال نمبر12:

والد کو بچوں کی اصلاح کے لئے کیسے اور کس قسم کا وقت نکالنا چاہیے۔

جواب:

بچوں کی اصلاح کے لئے وقت نکالنے کو کیا کہتے ہیں۔ مثلاً ایک شخص دیکھتا ہے کہ اگر میں بچوں کو وقت نہیں دیتا تو یہ میرے لئے پریشانی کا باعث بنیں گے تو اسی حساب سے حکمت کے ساتھ بچوں کو وقت دینا پڑے گا تاکہ آگے جا کر مسائل نہ ہوں۔ خانقاہ لے جانے کے لئے یا گھر پر تربیت کے لئے وقت دینا، یہ سب ان حالات پر منحصر ہے کہ خانقاہ دور ہے یا قریب ہے اور گھر پر بچوں کے لئے کیا ہو سکتا ہے۔ چونکہ اس کا کوئی عمومی ضابطہ نہیں ہے لہذا اس پر انفرادی طور پر مشورہ کرنا چاہیے کہ میرے یہ حالات ہیں میں ان میں کیا کر سکتا ہوں۔ تو شیخ اس آدمی کی ضرورت کے مطابق جواب دے دیں گے۔

سوال نمبر13:

کیا شوہر بیوی کو دنیاوی معاملات میں صرف نصیحت کر سکتا ہے؟

جواب:

دنیاوی معاملات کون سے ہیں، یہ بھی Man to man vary کرتے ہیں۔ مثلاً ایک عورت کا دنیاوی معاملہ یہ ہے کہ وہ ٹیچنگ کر رہی ہے تو اس میں شوہر اس کو صرف نصیحت ہی کر سکے گا کیونکہ یہ معاملہ ایسا ہے کہ یہ مرد کا دائرۂ اختیار ہی نہیں ہے، ایسی صورت میں تو واقعی صرف نصیحت ہی کر سکے گا۔ دنیاوی معاملات میں ترجیحات ہوتی ہیں، مثلاً مہمانوں کی خاطرداری بھی دنیاوی معاملہ ہے، بچوں کی تربیت بھی دنیاوی معاملہ ہے، اسی طرح دوسری چیزیں بھی ہیں۔ درمیان میں ایک خط کھینچنا کہ یہ دنیاوی معاملہ ہے اور یہ آخرت کا معاملہ ہے، کافی مشکل بات ہے۔

اس سلسلہ میں یہ بات مد نظر رکھی جائے کہ شوہر کی تابعداری بیوی پر لازم ہے اور شوہر پر بیوی کا خیال رکھنا لازم ہے کہ اس کے اوپر اتنا کام ڈالے جتنا وہ کر سکتی ہو اور اس سے اتنی توقع کر لے جتنی ممکن ہو۔

ہم لوگوں کی تواقعات کچھ زیادہ ہی ہوتی ہیں اس وجہ سے کبھی اطمینان نہیں ہوتا۔ ہم کہتے ہیں کہ یہ بھی کرے، یہ بھی کرے اور یہ بھی کرے۔ آدمی خود تصور کر کے دیکھ لے کہ اگر میں بیوی ہوتی تو کیا ہوتا، میرے شوہر کو مجھ سے کیا توقع رکھنی چاہیے تھی۔ یہ جانچنے کا ایک اصول ہے، آج کل کی منیجمنٹ کا اصول بھی یہ ہے کہ آپ اس کو اپنی جگہ پر بیٹھا دو یا خود اس کی جگہ پہ بیٹھ جاؤ پھر دیکھو کہ کیا ہونا چاہیے اور اس کے مطابق عمل کرو۔ یہاں پر بھی یہی بات ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے بیوی کو عورت پیدا کیا ہے تو اس کا مطلب یہ تو نہیں ہے کہ وہ ہمیشہ مظلوم ہی ہو، اس کے بھی حقوق ہیں۔ ان تمام چیزوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے آپ اپنی بیوی کو جو مشورہ دیں تو بیوی کی اپنی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کو قبول کرے۔ اس میں جس کی طرف سے بھی کمی ہو گی اللہ تعالیٰ اس کو دیکھتا ہے۔ اس لئے ہر آدمی اس بات سے ڈرے کہ اللہ کو حقیقت پتا ہے، اگر میں نے کچھ زیادتی کی تو اللہ پاک اس کا مجھ سے بدلہ لیں گے۔ اس وجہ سے اس بات سے ڈرنا چاہیے۔ میں اس لئے بہت زیادہ ہلکے پھلکے انداز میں بات کر رہا ہوں کہ خاص معاملات الگ ہوتے ہیں جبکہ عام معاملات الگ ہوتے ہیں۔ خاص معاملات میں عمومی قوانین بتانا بڑا مشکل ہے۔ البتہ اگر خوش قسمتی سے میاں اور بیوی دونوں کسی ایک ہی شیخ سے بیعت ہوں تو پھر بڑی آسانی ہو جاتی ہے کیونکہ دونوں اپنے اپنے کیس شیخ کے پاس لے جائیں گے، وہ فیصلہ کرے گا اور وہ فیصلہ دونوں پہ لاگو ہو جائے گا۔ چونکہ دونوں کو اپنے شیخ سے محبت بھی ہو گی لہذا اس کی بات مان بھی لیں گے۔ کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔ اور اگر دونوں کے معاملات علیحدہ علیحدہ ہیں تو پھر مسئلہ ٹیڑھا ہو جاتا ہے، مشکلات پیدا ہو جاتی ہیں کیونکہ ہر ایک کی اپنی اپنی سمجھ ہوتی ہے۔

اگر کوئی شخص دو کام کر لے تو کافی فائدہ ہو گا۔ ایک یہ کہ فقہ کے عام قوانین پر مشتمل ایک کتاب کو اپنے اور اپنی بیوی کے درمیان بنیاد بنا لے کہ یہ ہمارے درمیان حَکَم ہے۔ اگر ہمارے درمیان اختلاف ہو گیا تو ہم اس کے مطابق فیصلہ کریں گے۔ یا پھر کسی آدمی پہ متفق ہو جائیں کہ اگر ہمارے درمیان اختلاف ہو گیا تو ہم اس سے فیصلہ کروائیں گے۔ پھر جو فیصلہ وہ آدمی کرے اس پہ واقعی مطمئن ہو کے رہیں ورنہ مسئلہ بڑھتا جائے گا اور اسے کنٹرول کرنا آسان نہیں ہو گا۔

سوال نمبر14:

زرعی زمین پر عشر دیا جاتا ہے۔ عشر ٹوٹل فصل پر ہے یا فصل پر جو خرچ ہوا ہے اس کو نکال کر عشر کا حساب کرنا ہو گا؟

جواب:

عشر تو کل پیداوار پر ہے۔ زکوٰۃ سیونگ پر ہے جبکہ عشر سیونگ پر نہیں ہے وہ کل مقدار پر ہے۔ شریعت نے اس کا خیال پہلے سے رکھا ہوا ہے۔ جس فصل میں آپ کا خرچ ہوتا ہے، مثلاً پانی آپ خود دیتے ہیں یعنی نہری پانی سے فصل سیراب کرتے ہیں اس میں بیسواں حصہ ہوتا ہے اور جس فصل کی بڑھوتری میں آپ کی کوئی کاوش نہ ہو، وہ اللہ تعالیٰ کے نظام کے مطابق ہی پھل پھول رہی ہو یعنی بارش وغیرہ کے ذریعے سے سیراب ہو رہی ہو، بارانی زمین ہو تو اس میں دسواں حصہ ہوتا ہے۔

سوال نمبر15:

حضرت صاحب آپ کی تمام کتابیں پڑھ لی ہیں اور آپ کے بیانات سننے کی بھی توفیق ہوتی رہتی ہے۔ اب اکابرین کی کتابیں تجویز کر دیں جو گھر میں بیوی بچوں کو پڑھائی جا سکیں مثلاً مجھے کسی نے مفتی تقی عثمانی صاحب کے اصلاحی خطبات کے بارے میں بتایا ہے۔

جواب:

الحمد للہ! یہ ہمارے اکابر میں سے ہیں اور ان کے اصلاحی خطبات میں ہمارے لئے بہت نور ہے۔ ہمارے دیگر اکابرین کی کتابیں بھی ہمارے لئے بڑی مفید ہیں خواہ وہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے سلسلہ کی کتابیں ہوں یا حضرت مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے سلسلہ کی ہوں۔ یہ حضرات کتابیں لکھتے رہتے تھے۔ اگر کتابیں پڑھنی ہوں تو ان حضرات کی کتابوں سے ہمیں بہت فائدہ ہوتا ہے۔ لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ پہلے فرضِ عین علم کو پورا حاصل کر لیا جائے۔ اس کے لئے میں یہ تین کتابیں تجویز کرتا ہوں: ”بہشتی زیور“، ”تعلیم الاسلام“ اور ”آپ کے مسائل اور ان کا حل“۔ بہشتی زیور حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی ہے، تعلیم الاسلام حضرت مفتی کفایت اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی ہے اور آپ کے مسائل اور ان کا حل مولانا یوسف لدھیانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی ہے۔ جب یہ مکمل ہو جائیں تو اس کے بعد مشورہ کر لیا جائے کیونکہ فرض عین علم ان کتابوں میں تقریباً تقریباً آ جاتا ہے۔ اس لئے باقی اصلاحی کتب کے مقابلہ میں ان کتابوں کا پڑھنا زیادہ ضروری ہے کیونکہ ان کا روز مرہ کے مسائل اور فقہی ضرورتوں کے ساتھ تعلق ہے۔

اصلاحی کتب سے ذہن بنتا ہے کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے لیکن عمل کرنے کے لئے فقہ کا علم ضروری ہے اور اس کے لئے فقہی کتابیں ہیں۔ جن سے آپ معلوم کرتے ہیں کہ کرنا کیا ہے۔ چونکہ اس سے پہلے اصلاحی کتب اور تربیت کے ذریعے دل بن چکا ہو گا اس لئے عمل کرنے کی توفیق ہو جائے گی۔ عمل کرنے کے لئے علم ضروری ہے اور علم فقہی کتابوں سے ملے گا۔ اس لئے پہلے فرض عین علم ہے پھر اس کے بعد باقی چیزیں ہیں۔

سوال نمبر16:

جب بندہ شیخ کی باتوں پر ممکنہ حد تک عمل کرنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ شیخ کے ساتھ تعلق بڑھ رہا ہے اور جب یہ تعلق بڑھ رہا ہوتا ہے تو شیخ کے ساتھ احترام اور ادب بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے اس کی وجہ سے شیخ کو اپنے حالات اور بات بتانے میں بڑی جھجک محسوس ہوتی ہے۔ کیا یہ جھجک ہونا ٹھیک ہے؟

جواب:

ایک ہے ادب، ایک ہے جھجک۔ ادب تو ضروری ہے اور ایسی جھجک جو انسان کے لئے معمولات بتانے میں رکاوٹ بن جائے اس کو دور کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ معمولات بتانا تو لازم ہے۔

چار چیزیں شیخ کا حق ہیں: ؎

چار حق مرشد کے ہیں رکھ ان کو یاد

اطلاع و اتباع و اعتقاد و انقیاد

اگر آپ کی جھجک کی وجہ سے اس بات میں رکاوٹ ہو رہی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ حق پورا نہیں ہو رہا۔ ایک طرف شیخ کا حق ہے دوسری طرف شیخ کا ادب ہے تو شیخ کے حق کو ترجیح دیں۔ ”اَلْاَمْرُ فَوْقَ الْاَدَبِ“ ایک مشہور کلیہ ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ حکم کا درجہ ادب سے اونچا ہے۔ لہذا شیخ سے اس وجہ سے پوچھنا ضروری ہے کہ مجھے پتا چل جائے کہ کرنا کیا ہے۔ اس کے لئے ادب تو لازماً ہو، بے ادبی کے ساتھ نہ پوچھے لیکن بالکل ہی نہ پوچھنا ادب نہیں ہے بلکہ غیر ضروری باتیں نہ پوچھنا ادب ہے۔ اگر کوئی انسان اپنے شیخ سے غیر ضروری باتیں بھی پوچھنے لگے، گپ شپ لگانا شروع کر دے تو یہ ادب نہیں ہے۔ گپ شپ کسی اور کے ساتھ لگائے اور یہاں صرف ضروری طور پہ جتنی بات کرنی چاہیے وہ ادب کے ساتھ کر لے۔

سوال نمبر17:

بعض اوقات یہ خیال ہوتا ہے کہ شیخ کو کوئی بات بتاتے ہوئے کہیں کوئی بے ادبی نہ ہو جائے۔

جواب:

انسان دل میں ادب کا خیال رکھتے ہوئے اپنی بات ضرور بتائے تاکہ کوئی رکاوٹ نہ آئے۔ مثلاً ایک ڈاکٹر کا احترام تو سر آنکھوں پہ ہے لیکن اگر آپ اس کو اپنا حال نہیں بتائیں گے تو وہ علاج کیا کرے گا۔ دونوں چیزیں ضروری ہیں احترام بھی ٹھیک ہے لیکن احترام کے ساتھ ساتھ اپنے مسائل بتانا بھی ضروری ہے۔

سوال نمبر18:

ریا سے کیسے بچا جا سکتا ہے، کیا اس سلسلے میں self-suggestion سے کام لیا جا سکتا ہے؟

جواب:

جب تک تکمیل نہیں ہوئی ہے اور جب تک انسان راستے میں ہے تب تک انسان بار بار اپنے آپ کو self-suggestion کرے۔ البتہ تکمیل یعنی سلوک طے کرنے کے بعد ان چیزوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ چونکہ یہ چیزیں پہلے سے فرض ہیں یعنی ان سے بچنا فرض ہے، لہٰذا ان سے بچنے کے لئے آپ تکمیل کا انتظار نہیں کریں گے، یہ سوچ درست نہیں ہے کہ ابھی تکمیل نہیں ہوئی لہٰذا ریا کی اجازت ہے۔ ظاہر ہے ریا سے ہر وقت ہی بچنا ہو گا۔ ایسے وقت میں یہ کلئے کام آتے ہیں۔

انسان ایک بات یہ ذہن میں رکھے کہ میں ریا کیوں کرتا ہوں۔ اگر اس لئے کرتا ہوں کہ کسی کی نظر میں با وقعت ہو جاؤں۔ اگر اس کی نظر میں با وقعت ہو گیا تو کیا حاصل ہو گا، کچھ بھی نہیں۔ یہ ایک وہمی چیز ہے ضروری نہیں ہے کہ میں اس کی نظر میں پھر بھی با وقعت ہو جاؤں۔ لہٰذا ایک وہمی چیز کے لئے میں یقینی برائی میں کیوں مبتلا ہو جاؤں؟

دوسری بات یہ کہ اگر یہ آدمی مجھ سے خوش بھی ہو جائے تو کیا فائدہ، اگر اللہ نہ دینا چاہے تو یہ مجھے کیا دے سکتا ہے۔ پھر اللہ کا معاملہ تو میرے ساتھ ہمیشہ کے لئے ہے، اِدھر کا بھی ہے اُدھر کا بھی ہے۔ یہ تو یہاں رہ جائے گا تو میں اس کا خیال کیوں رکھوں اور اللہ کا خیال کیوں نہ رکھوں، ایک طرف اللہ ہے دوسری طرف یہ لوگ ہیں، میں ان کا کیوں خیال رکھوں؟

اس سوچ کو اپنے ذہن میں بار بار بٹھانے سے انسان کو خیال ہو جاتا ہے کہ مجھے کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے۔ انسان یہ نہ سوچے کہ لوگ میرا خیال رکھیں بلکہ یہ سوچے کہ مجھے یہ کرنا ہے کہ اللہ کی نظروں میں اچھا رہوں، اگر اللہ کی نظروں میں اچھا ہوا تو باقی لوگوں کی نظروں میں اچھا ہو ہی جاؤں گا کیونکہ اللہ پاک ان کے دل بدل لیں گے۔ لیکن اگر لوگوں کی نظروں میں اچھا ہوں اور اللہ کی نظروں میں اچھا نہ ہوں تو پھر کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اگر میں واقعی لوگوں کی نظروں میں اچھا ہو بھی گیا تو کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ جب تک اللہ کی مرضی نہ ہو یہ مجھے کچھ نہیں دے سکتے۔ ویسے ہوتا بھی یہ ہے کہ انسان لوگوں کی نظروں میں اچھا نہیں ہو پاتا، بعد میں بات کھل جاتی ہے۔ بہرحال اپنے کو سمجھانا اور self-suggestion مفید ہے۔

سوال نمبر19: حضرت آپ نے ایک سوال کے جواب میں شعائر اللہ کی عظمت کے بارے میں بات کی تھی۔ ہم نے اکثر علماء اور بزرگوں سے یہ واقعہ سنا ہے کہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ مسجد نبوی ﷺ میں درس دے رہے ہیں، چہرہ پہ تغیر آ گیا لیکن علم اور حدیث نبوی کے ادب کی وجہ سے ہل نہیں رہے۔ ہمیں فضائل تو یہ سنائے گئے ہیں۔ لیکن جب عملی طور پر دیکھتے ہیں تو عموماً یہ صورت حال ہوتی ہے کہ ایک طرف رسالے رکھے ہوتے ہیں، حدیث شریف کی کتب رکھی ہوتی ہیں، دائیں بائیں قرآن شریف رکھا ہوتا ہے تو کبھی ساتھ جوتے بھی ہوتے ہیں۔ کیا اس عمل اور ان فضائل میں تصادم نہیں ہے؟

جواب:

جی نہیں، ان فضائل اور ہمارے اس عمل میں تصادم نہیں ہے کیونکہ اِس وقت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نہیں ہیں۔ اگر آپ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے اس طرح فضائل سنتے اور ان کا عمل اِن فضائل کے مخالف دیکھتے تو تصادم ہو جاتا۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے لئے یہ بات ٹھیک تھی لیکن ہم لوگ بدل گئے ہیں۔ اس بدلنے کی وجہ بھی ہمیں با آسانی سمجھ آ سکتی ہے۔ اگر ہم گزشتہ زندگی پر نظر دوڑائیں اور دیکھیں کہ بیس پچیس سال پہلے کیا حالت تھی، ہمارے کیا آداب تھے، مثلاً بڑے کے سامنے بغیر ٹوپی کے بیٹھنا تو تصور میں بھی نہیں آ سکتا تھا، چین سموکرز تک اپنی سگریٹ چھپا دیتے تھے، اس طریقے سے انسان اپنی غلطی پہ شرمندہ ہو جاتا تھا۔ جبکہ آج کل یہ ہوتا ہے کہ سگریٹ جلا کر کہہ دیتے ہیں کہ "Can I smoke" حالانکہ یہ بھی کوئی اجازت لینے کا طریقہ ہے؟ اس وقت اجازت کا کیا تک بنتا ہے کہ جب سگریٹ نکال کر پینے کا فیصلہ کر لیا۔ اب یہ صرف etiquettes بن گئے ہیں، پہلے والی بات نہیں رہی۔ ہماری اس جنریشن میں ہماری موجودگی میں ہی اتنی تبدیلی آ گئی ہے تو غور کریں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے دور سے لے کر تابعین کے دور تک کتنی تبدیلی آئی ہو گی۔ آخر تب بھی تبدیلی آ رہی تھی۔ ہم سے پہلی والی نسل اور ہماری نسل میں بہت فرق آیا ہوا ہے۔

لہٰذا ہم لوگوں کے پاس معیار تو وہی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس معیار پر پورا اترنے میں ہم کتنے کامیاب ہوتے ہیں۔ ہمیں اس معیار کے مطابق پورا اترنے کی کوشش کرنی چاہیے پھر جتنا بھی نصیب ہو جائے۔

سوال نمبر20:

ادب اور فضائل کے وہ واقعات جو ہم سنتے ہیں کیا وہ سننے چاہئیں؟

جواب:

جی بالکل، اس لئے سننے چاہئیں تاکہ ہمیں معیار معلوم ہو جائے، اگر آپ کو اخیر تک بالکل صحیح راستہ نہیں بتایا جائے گا تو پھر آپ کو کچھ حاصل نہیں ہو گا۔

سوال نمبر21:

حضرت جی! سائیکالوجسٹ کے مطابق پانچ سے چھ سال میں دماغ کی نشو و نما مکمل ہو جاتی ہے یعنی بچے کی شخصیت بن جاتی ہے۔ تصوف کے حوالے سے وہ کون سی بنیادی چیزیں ہیں جو سب والدین اپنے بچوں کو اس عمر میں سکھا سکتے ہیں جو ان کے دماغ کے sub-conscious میں پرنٹ ہو جائیں، وہ پوری زندگی کے لئے اللہ اللہ کرتے رہیں۔

جواب:

آپ کی فکر بالکل صحیح ہے۔ اس سلسلے میں چند باتوں کو ذہن نشین کرنا چاہیے۔

اللہ جل شانہ کی ذات، اللہ پاک کا ایک ہونا، اللہ تعالیٰ ہی سے سب چیزوں کا ہونا اور اللہ پاک کو خوش کرنے سے ساری چیزوں کا ٹھیک ہونا۔ یہ چار باتیں تو اللہ تعالیٰ کے لحاظ سے ہیں۔

حضور ﷺ کے ساتھ محبت کا طریقہ بچوں کو سکھانا، آپ ﷺ کے چھوٹے چھوٹے واقعات بتانا، موقع محل کے حساب سے آپ ﷺ کی سنتیں بتانا، مثلاً کھانا دائیں ہاتھ سے شروع کرنا سکھایا جا سکتا ہے۔ بیٹھنے کا سنت انداز سکھایا جا سکتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی مسنون دعائیں سکھائی جا سکتی ہیں۔

اس طرح چھوٹے چھوٹے اہداف بنا کر کچھ نہ کچھ سکھانا چاہیے، باقی تکمیل بعد میں ہو جائے گی کیونکہ اس وقت ذہن بنانا ہے اور چھوٹی عمر میں بچوں کا ذہن بنایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح بچوں کو بڑوں کا ادب سکھایا جا سکتا ہے۔ جن شعائر اللہ سے سامنا ہوتا ہے ان کا ادب سکھایا جا سکتا ہے مثلاً نماز کا ادب ہے، قرآن کا ادب ہے اور اگر اللہ پاک اُدھر لے جائے تو خانہ کعبہ کا ادب ہے۔ پیغمبر کا ادب بھی اس میں آ جاتا ہے، بڑوں کا ادب اس میں آ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ توحید، رسالت اور آخرت کا تصور کسی حد تک سکھایا جا سکتا ہے کہ ہم آخرت کے لئے سب کچھ کرنے والے بن جائیں۔

کیونکہ قرآن کے تین بنیادی مضامین ہیں توحید، رسالت اور آخرت۔ یہ بنیادی مضامین ہیں باقی تفصیلات ہیں۔ اگر یہ بنیادی چیزیں ان کے ذہن میں راسخ ہو گئیں، اگر یہ چیزیں آپ ان کو کامیابی کے ساتھ سمجھا سکیں اور ان کے ذہن میں بٹھا سکیں تو ان کی شخصیت ان شاء اللہ آگے تفصیلات ہی طے کرے گی۔

سوال نمبر22:

حضرت بچوں کے تزکیہ کے بارے میں کیا کیا جائے تاکہ ان کے اندر حسد اور دوسرے رذائل والے مادے بچپن سے ہی دب جائیں اور زیادتی کی طرف نہ جائیں۔

جواب:

اگر بچے کے concepts صحیح ہو گئے ہیں۔ مثلاً اللہ اور آخرت کا تصور ٹھیک ہو گیا ہے تو پھر اس کو حسد نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ حسد اللہ کے فیصلہ پہ راضی نہ ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اگر اس کو یہ سکھا دیا جائے کہ اللہ جو کچھ کرتا ہے ٹھیک کرتا ہے تو پھر اس کو حسد کا خیال نہیں آئے گا۔ وہ اس کے اندر built-in ہے، یقیناً اس میں تفصیلات نہیں ہوں گی لیکن جتنی بنیاد بننی چاہیے وہ بن جائے گی۔

سوال نمبر23:

حضرت آپ نے ایک سوال کے جواب میں self-suggestion کا ذکر کیا۔ مغرب میں بھی self-suggestion کا بڑا trend چلتا ہے۔ diagnosis میں بھی یہ چیز ہے۔ کیا یہی self-suggestion تکمیل میں بھی exploration پیدا کرے گی؟

جواب:

جی بالکل کرتی ہے کیونکہ self-suggestion میں انسان اپنے آپ کو ان چیزوں کے بارے میں یاد دہانی کراتا ہے جو اسے حاصل کرنی ہیں۔ قرآن پاک کی ایک آیت ہے:

﴿وَ ذَكِّرْ فَاِنَّ الذِّكْرٰی تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِیْنَ﴾ (الذاریات: 59)

ترجمہ: ”اور نصیحت کرتے رہو، کیونکہ نصیحت ایمان لانے والوں کو فائدہ دیتی ہے“۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یاد دہانی سے مومن کو نفع ہوتا ہے۔ انسان یاد دہانی اپنے آپ کو خود بھی کرا سکتا ہے، اس سے بھی فائدہ ہوتا ہے۔

سوال نمبر24:

حضرت یہ مجاہدہ کا داعیہ اور جذبہ خود اندر سے پیدا ہوتا ہے اس کے کیا ذرائع ہیں؟

جواب:

سالک کے دل میں اصلاح کا داعیہ ہونا چاہیے اور اس کے لئے مجاہدہ کا داعیہ شیخ کے دل میں ہونا چاہیے۔ مرید کو شیخ کی ہر بات ماننے کے لئے تیار رہنا چاہیے، مرید کو یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ مجھے مجاہدہ کرنا ہے لیکن اس بات کے لئے تیار رہنا چاہیے کہ اگر شیخ نے مجاہدہ بتایا تو میں اس کے لئے تیار ہوں۔

مجھے ایک خاتون کا فون آیا۔ اس نے کچھ کتابیں پڑھ لی تھیں۔ کتابیں پڑھتے ہوئے کوئی نئی چیز سامنے آ جاتی ہے تو دل میں آتا ہے کہ میں بھی کروں۔ اس خاتون نے مجھے کہا کہ میں یہ فلاں فلاں کام کرتی ہوں، آپ مجھے کوئی شغل بتایئے۔ میں نے اس سے کہا: ان شاء اللہ بعد میں آپ سے بات کر لوں گا۔

مقصد یہ ہے کہ یہ فیصلہ شیخ کو کرنا ہے کہ مرید کو کون سی دوائی دینی چاہیے۔ جیسے جسمانی امراض میں اس بات کا فیصلہ ڈاکٹر کرتا ہے۔ اب اگر کوئی ڈاکٹر کو کہے کہ مجھے پیراسٹامول دے دو تو ڈاکٹر اسے یہی کہے گا کہ دوا تجویز کرنا تمہارا کام نہیں ہے۔ یہ فیصلہ تو ڈاکٹر کو کرنا چاہیے مریض کو نہیں۔ اسی طرح مرید کو یہ فیصلہ نہیں کرنا چاہیے کہ مجھے کیا کرنا ہے بلکہ اسے اپنے آپ کو تیار رکھنا چاہیے اور شیخ کے اوپر اندھا دھند اعتماد کرنا چاہیے کہ وہ جو بھی مجھے کہے گا میرے لئے وہی ٹھیک ہو گا۔ اسی میں اس کا مجاہدہ خود بخود آ جائے گا۔

سوال نمبر25:

”وہ لوگ جو اپنی امانتوں اور عہدوں کا خیال رکھتے ہیں“۔ عہد سے مراد نوکری کا عہد مراد ہے، امانتوں کا عہد مراد ہے؟

جواب:

امانتوں کا خیال رکھنے سے مراد یہ ہے کہ اگر آپ کو کسی نے کسی چیز کا امین بنایا ہے تو اس کے اس حسن ظن کو مجروح نہ کریں جو انہوں نے آپ کے بارے میں کیا ہے، اور آپ کو کسی چیز کا امانت دار بنایا ہے تو آپ اس کو مجروح نہ کریں۔

امانت میں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کسی نے آپ کو کوئی بات بتائی ہے لیکن اس بات کو عام کرنے کی اجازت نہیں دی ہے تو آپ اس سے پوچھے بغیر وہ بات دوسروں کو نہ بتائیں، اس کے راز کو راز رکھیں۔ اس طرح کی سب باتیں امانت میں آتی ہیں چاہے وہ مالی امور ہوں، چاہے اخلاقی امور ہوں، چاہے معاشرتی امور ہوں۔

عہد سے مراد یہ ہے کہ آپ نے کوئی وعدہ کیا ہے تو اس کو پورا کریں۔ کیونکہ اس سے اس آدمی کا سارا لائحۂ عمل وابستہ ہوتا ہے۔ مثلاً میں نے کسی کو پانچ بجے کا ٹائم دیا اب وہ بیچارہ بڑی مشکل سے ٹائم فارغ کر کے آئے گا، ممکن ہے کوئی ضروری کام چھوڑ کے آ رہا ہو لہٰذا اب مجھے اس کا پابند ہونا چاہیے کہ میں اس کو ٹائم دوں اور اس کے عہد کو مجروح نہ کروں۔ دوسری طرف اس آدمی کو بھی اتنا ہی خیال رکھنا ضروری ہے کہ اگر اس نے وقت لیا ہے تو پھر اس کو بہر صورت آنا چاہیے۔ بعد میں وہ یہ نہ کہے کہ معذرت میں نہیں آ سکا۔ یہ قطعاً نا قابل برداشت بات ہے۔ آئندہ اِس شخص کو اختیار ہے کہ اُس کو کبھی بھی ٹائم نہ دے۔ اگر ایک دفعہ اس کے اعتماد کو توڑ دیا تو اس نے اپنے اوپر اعتماد کو ختم کر لیا۔ اب اگر وہ دوبارہ ٹائم مانگے اور یہ کہے کہ میں آپ کو ٹائم نہیں دیتا تو اِس کے اوپر کوئی گناہ نہیں ہے کیونکہ اُس نے اِس کے اعتماد کو مجروح کر دیا ہے۔

مجھے یاد ہے۔ ہم جرمنی میں تھے۔ وہاں اگر کسی کا ٹائم فکس ہو جاتا تو وقت سے کچھ دیر پہلے پہنچ جاتے۔ مثلاً چھ بجے ملنا ہے تو پانچ منٹ کم چھ پر پہنچ جاتے اور انتظار کرتے۔ جب چھ بج جاتے تو گھنٹی بجاتے۔ وقت سے پہلے آکر بھی مطلوبہ شخص سے عین وقت پر ہی رابطہ کرتے۔ وقت سے پہلے آنے کا مطلب یہ نہیں سمجھتے تھے کہ مطلوبہ شخص سے بھی دیئے ہوئے وقت سے پہلے رابطہ کر لیں۔ یہاں پر تو واقعی ایسا ہوتا ہے کہ چار بجے ٹائم لیا ہو گا اور دو بجے پہنچ جائیں گے۔ حالانکہ ہو سکتا ہے اس نے دو بجے کسی اور کو ٹائم دیا ہو یا وہ آرام کر رہا ہو یا کھانا کھا رہا ہو یا کسی اور ضروری کام میں مصروف ہو۔ اس کا اپنا وقت ہے، آپ نے اس کو خواہ مخواہ وقت سے پہلے پابند کر دیا۔ یہ طریقہ بھی غلط ہے کہ وقت سے پہلے پہنچ جائیں، وقت سے پہلے بے شک پہنچو لیکن اس کے معاملات میں اسی ٹائم پر دخل انداز ہوں جو وقت اس نے دیا ہو تاکہ اس کے کسی کام کا حرج نہ ہو۔ بنیادی مقصد یہ ہے کہ انسان کسی کا حق متاثر نہ کرے۔

(سائل: حضرت اس کا مطلب ہے کہ چھ بجے کا مطلب چھ بجے ہی ہے یہ نہیں کہ سات بجے آ گئے)

حضرت صاحب:

جی ہاں بالکل۔ میں یہی کرتا ہوں۔ میرے ساتھ تو اگر کوئی ٹائم طے کرتا ہے کہ مثلاً میں اس کو کہہ دوں کہ آپ اتنے بجے آ جائیں اور وہ اس ٹائم پہ نہیں آیا تو میں اس کی appointment کینسل کر دیتا ہوں۔ پھر وہ پہنچ بھی جائے تو میں کہتا ہوں کہ نہیں، آپ کو جو ٹائم دیا تھا آپ اس پر نہیں پہنچ سکے لہذا معذرت۔ اب میرا اور کام شروع ہو گیا ہے اور بعض دفعہ میرا کام نہیں بھی ہوتا لیکن اس کو ٹائم نہیں دیتا تاکہ اس کو سبق مل جائے کہ آئندہ کے لئے وہ کسی کا وقت ضائع نہ کرے۔ ظاہر ہے کوئی ہر وقت فارغ تو نہیں بیٹھا ہو گا۔ ممکن ہے اس وقت میں اتفاقاً فارغ بھی ہوں، اگر میں اس وقت مل لوں تو یہ اس کی عادت خراب کرنے والی بات ہے۔ بالخصوص جس کی تربیت آپ کے ساتھ وابستہ ہے اس کو تو آپ نے سکھانا بھی ہے۔ اس کو آپ نے بتانا بھی ہے جتانا بھی ہے کہ یہ کیا کر رہے ہو۔

حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر شیخ کسی کو یہ نہیں کہہ سکتا کہ تو نالائق ہے تو کم از کم اتنا تو کہہ سکتا ہو کہ تیری یہ حرکت نالائق ہے، ورنہ پھر وہ شیخ نہیں ہے۔ اتنا تو اس کو ہونا چاہیے کہ مرید کو بتائے کہ تیری یہ حرکت ٹھیک نہیں ہے تو نے مجھے تکلیف پہنچائی ہے، اس کو جتانا چاہیے۔

حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی تربیت السالک میں دیکھیں۔ وہ باقاعدہ کھل کے کہتے ہیں کہ تو نے سخت نالاں حرکت کی، تو نے مجھے تکلیف پہنچائی ہے۔ وہ معافی مانگتے ہیں تو حضرت فرماتے ہیں کہ معاف تو میں نے کر دیا لیکن تغیر ختم نہیں ہو گا، وہ وقت پہ ختم ہو گا۔

سوال نمبر26:

حضرت اگر کسی جگہ ولیمہ کا وقت دو بجے ہے، اور کھانا چار بجے شروع ہوتا ہے، تو کیا یہ عہد ٹوٹ رہا ہے؟

جواب:

بالکل، یہ عہد ٹوٹ رہا ہے۔ ایسا تکبر کی وجہ سے ہوتا ہے۔ جو لوگ لیٹ آتے ہیں وہ متکبر ہوتے ہیں بے شک وہ اس کا اقرار کریں یا نہ کریں۔ وہ اپنے آپ کو کچھ سمجھتے ہیں کہ ہمارا خیال رکھا جائے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ پاکستان میں جتنے بڑے ہوتے ہیں وہ فنکشنز میں زیادہ دیر سے آتے ہیں، باقی لوگ انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔ شریعت میں تکبر توڑا جاتا ہے۔ یہاں تک کہا گیا ہے کہ جب کھانا آ جائے فوراً بیٹھ جاؤ، دستر خوان پہ کھانا تمھارا انتظار نہ کرے، یہ تکبر ہے۔ کھانا پہلے اٹھانا چاہیے اور خود بعد میں اٹھنا چاہیے۔ یہ نہیں کہ تم اٹھو اور کھانا وہیں پڑا ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ تکبر کی علامت ہے کہ کھانا پہلے آ گیا ہے اور تم بعد میں آ رہے ہو۔ ایسا نہیں کرنا چاہیے بلکہ پہلے تم آ جاؤ، کھانا بعد میں آ جائے، کھانا کھا لو اس کے بعد کھانا پہلے اٹھا دیا جائے تم بعد میں اٹھو، کھانے کا یہ ادب سکھایا جاتا ہے کیونکہ ہم کھانے کے محتاج ہیں، کھانا ہمارا محتاج نہیں ہے۔ جو محتاج ہو گا وہ نیچے جائے گا۔ اب جو اپنی محتاجی کو نہیں مانے گا وہ متکبر ہو گا۔

سوال نمبر27:

میں کسی کو وقت دوں کہ کل چھ بجے آنا ہے۔ اگرچہ اس کے لئے یہ نہیں کہا کہ میں وعدہ کرتا ہوں کہ کل چھ بجے آپ آئیں گے اور میں وقت دوں گا، بس چھ بجے ملنے کا کہہ دیا، کیا اس کا مطلب ہے کہ یہ میری طرف سے وعدہ ہو گیا؟ عملی طور پر آج تک کہیں ایسا نظر نہیں آیا کہ ایک آدمی وقت پہ پہنچا ہو اور دوسرا وہاں موجود ہو۔

جواب:

جب تک ہماری یہ صورتِ حال ٹھیک نہیں ہوتی اس وقت ساتھ یہ بتانا بہتر ہے (ضروری نہیں ہے بلکہ بہتر ہے) کہ بھائی میرے چھ بجے، چھ بجے ہیں۔ اگر آپ اس کے بعد آئے اور میں موجود نہ ہوا تو معذرت ہو گی۔ تاکہ اس کو سہولت ہو اور معلوم ہو جائے کہ یہ دوسرا version بھی ہو سکتا ہے، اس لئے مجھے اسی وقت پہ آنا ضروری ہے، اس کو یہ خیال ہونا چاہیے۔

سوال نمبر28:

اگر ایک آدمی نے کسی کے ساتھ وقت طے کر رکھا ہے مگر اچانک اس کو کوئی مجبوری بن گئی تو وہ اسے تقریباً آدھا گھنٹہ بتا دے کہ میں نہیں آ سکتا۔ کیا یہ درست ہے؟

جواب:

اس کے لئے آسان ہے کہ اس کو مان لے۔ عین ممکن ہے کہ اس نے دو گھنٹہ پہلے آپ کے لئے appointment کینسل کی ہو، وہ تو اب نہیں ہو سکتی۔ مثلاً اس کو اسلام آباد جانا تھا، آپ نے اس سے ٹائم مانگا، آپ کے لئے اس کے دل میں وقعت تھی، اس نے آپ کو ٹائم دے دیا اور اسلام آباد نہیں گیا، اسلام آباد کا پروگرام دوسرے دن پر مؤخر کر دیا۔ اب آپ اس کو آدھا گھنٹہ پہلے اطلاع دیں تو کیا خیال ہے وہ اسلام آباد جا سکے گا؟ اس کا کام تو خراب ہو گیا، اب تو اس کا ایک دن ضائع ہو گیا۔ در اصل کام اتنے ضروری نہیں ہوتے، جتنا ہم انہیں ضروری سمجھ لیتے ہیں۔ جو کام واقعی ضرورت ہوتے ہیں ان کا بھی پتا لگ جاتا ہے اور ان پر وہ معاف بھی کر دیتا ہے۔ لیکن ہم لوگوں نے اپنے آپ کو زیادہ ضروری سمجھا ہوتا ہے کہ میں زیادہ ضروری ہوں لہذا یہ زیادہ ضروری ہے کہ میری بات چل جائے۔ اس طرح کہتا کوئی نہیں ہے لیکن ہوتا اسی طرح ہے۔

Priority goes to oneself

اس لحاظ سے پھر مسائل پیدا ہوتے ہیں اور سمجھنے میں مشکلات ہوتی ہیں۔

سوال نمبر29:

گویا اگر آپ نے کسی کو ٹائم دے دیا تو پہلی ترجیح اس کو دینی ہے؟

جواب:

جی ہاں! اگر آپ نے اس کو ٹائم دے دیا تو وہ آپ کی پہلی ترجیح ہونی چاہیے، اس کے بعد مزید پلاننگ اس کے مطابق ہونی چاہیے۔ ہاں آپ کا اگر بیٹا گر گیا آپ ہسپتال جا رہے ہیں تو اس کو بھی پتا چل جائے گا۔ اس میں تو بہت ساری باتیں آ جاتی ہیں۔ آپ جماعت کی نماز بھی چھوڑ دیں گے، اور بہت ساری باتیں اس میں آئیں گی۔ لیکن ”میرے خیال میں ایسا ہونا چاہیے“ یہ بات درست نہیں ہے۔

سوال نمبر30:

کسی کو appointment دی ہو اور اس سے ملاقات کے وقت جماعت کی نماز کا وقت ہو جائے۔ ایسی صورت میں نماز با جماعت کو ترجیح دیں گے یا اس شخص سے ملاقات کے عہد کو ترجیح دیں گے؟

جواب:

یہ آپ مفتی صاحب سے پوچھ لیں.

مفتی صاحب کی رائے:

ایک دفعہ میں نے تحقیق کی تھی تو معلوم ہوا کہ باجماعت نماز سے زیادہ ضروری عہد کا پورا کرنا ہے۔

حضرت صاحب:

تو بس مفتی صاحب کی رائے یہی ہے۔ میں اس مسئلہ میں اب بھی نہیں بولوں گا کیونکہ یہ میرا شعبہ ہی نہیں ہے۔ اگر مجھے ضرورت پڑ جائے گی تو میں اپنے لئے مفتی صاحب سے پوچھ لوں گا کہ مجھے کیا کرنا چاہیے۔ اگر وہ کہہ دیں تو اب ذمہ داری ان کی ہو گی، میری ذمہ داری ختم ہو جائے گی۔ کیونکہ اگر میں خود سے فیصلہ کروں گا تو میں ذمہ دار ہو جاؤں گا اور یہ بڑا مشکل کام ہے۔

سوال نمبر31:

ادب کے سلسلے میں ایک نکتہ اٹھایا جاتا ہے کہ بیویوں کے لئے خاوند کا نام لینا مکروہ ہے۔ یہ کون سا مکروہ ہے؟ کیونکہ آپ ایک دفعہ فرما رہے تھے کہ فقہ میں مکروہ کی وضاحت کی جاتی ہے کہ یہ کونسا مکروہ ہے؟

جواب:

یہ بات بھی فقہ سے متعلق ہے۔ اس سلسلے میں عرف کو دیکھا جائے گا۔ بعض دفعہ عرف میں کچھ چیزوں میں گنجائش ہوتی ہے لیکن اس کا تعین مفتی کرے گا میں نہیں کروں گا کہ کہاں پر گنجائش ہے اور کہاں پر نہیں ہے۔ شیخ جو تعین کرتا ہے وہ اتنا کرے گا کہ کتنے پانی میں ہے۔ کیا میں اس کو مکروہ کی حد میں لا سکتا ہوں یا نہیں؟ اگر وہ فرائض کی حدود میں ہو تو وہ اُس کو اُس طرف نہیں لے جائے گا۔ وہ کہے گا یہ تو فی الحال فرائض کی حد تک ہے، لیکن تعریف تو تبدیل نہیں کرے گا۔ اُس کو اِس قابل نہیں سمجھے گا کہ فی الحال اس کو یہ بات بتا دی جائے۔ کیونکہ وہ اتنا برداشت ہی نہیں کر سکتا، اتنا کر ہی نہیں سکتا۔ لہٰذا اس کو آسان طریقے پہ لے جائے گا۔

بعض لوگوں کا تو ایمان بچانا ہوتا ہے، اعمال تو بعد کی بات ہے۔ وہ تو منہ سے کفر بک رہے ہوتے ہیں اور آدمی ان کے ساتھ گزارا کر رہا ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ آپ اس طرح نہیں کہہ رہے۔ ان کے منہ میں لقمہ دے رہا ہوتا ہے تاکہ وہ کفر سے بچ جائے۔

بعض دفعہ ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کے ساتھ آپ مجبوراً چل رہے ہوتے ہیں۔ حضرت مسرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ ایسا ہی کیا کرتے تھے۔ ان کے پاس ایسے ایسے لوگ آتے تھے کہ آدمی حیران ہو جاتا تھا کہ حضرت ان کے ساتھ کس طرح گزارا کرتے ہیں۔ لیکن وہ ان کے لئے کچھ نہ کچھ ایسی تاویل بنا لیتے تھے کہ ان کا ایمان بچ جائے۔ لہٰذا جن کا ایمان بچانے کی ضرورت ہو، ان سے آپ اعمال کی باتیں نہیں کرتے اور جو فرائض و واجبات کے دائرے میں ہوتے ہوں ان سے آپ مستحبات اور سنتوں کی باتیں نہیں کرتے۔ یہ ہوتا رہتا ہے۔ شیخ یہ تو کر سکتا ہے کہ اس کی حدود کا تعین کر لے کہ یہ شخص کس درجے کا ہے کہ میں اس کے ساتھ کونسی بات کروں اور کونسی بات نہ کروں لیکن وہ تعریف تبدیل نہیں کرے گا کہ یہ مکروہ نہیں ہے یا سنت نہیں ہے۔ یہ کام مفتی کا ہے، مفتی ہی کرے گا۔

سوال نمبر32:

عطّارؔ ہو، رومیؔ ہو، رازیؔ ہو، غزالیؔ ہو

کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہِ سحَر گاہی

جواب:

اس کا مطلب یہ ہے کہ عطار کو بھی سحر گاہی کرنی پڑی ہے، رومی کو بھی کرنی پڑی ہے اور دوسرے بزرگوں کو بھی کرنی پڑی ہے۔ یہ ایسی چیز ہے جو اللہ کے قریب کرنے والی ہے۔

سوال نمبر33:

حضرت! جس طرح بری نظر لگتی ہے، اس طرح اچھی نظر لگائی بھی جا سکتی ہے یا لگ سکتی ہے؟

جواب:

جی ہاں اچھی نظر لگتی ہے اور لگ سکتی ہے۔ خطر ناک نظر حسد والی ہوتی ہے، وہ زیادہ سخت ہوتی ہے اور لگائی بھی جا سکتی ہے۔ کچھ خاص لوگ ہوتے ہیں جن کی آنکھوں کی مقناطیسی قوت زیادہ ہوتی ہے، وہ اس پہ focus کر لیتے ہیں تو وہ چیز ہو جاتی ہے لیکن وہ لوگ دنیا کے بڑے بد قسمت لوگ ہوتے ہیں جو اس طرح کر سکتے ہیں، ان کی اپنی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے کیونکہ انہوں نے بہت سارے گھروں کو ویران کیا ہوتا ہے۔ اس میں ان کا اپنا ارادہ بھی شامل ہو جاتا ہے۔ جو بہت سارے گھروں کو ویران کر دیتے ہیں ان کا اپنا گھر بھی ویران رہتا ہے۔ یہ ہمیں تجربہ سے معلوم ہوا ہے کہ جو اس طرح کرتے ہیں ان کا گھر آباد نہیں رہتا۔ ان کو بڑی سخت سزا ہوتی ہے۔ ہمارے گاؤں میں ہمارا ایک رشتہ دار ہے۔ اس کی نظر بہت سخت لگتی تھی، لوگ اس سے بڑے ڈرتے تھے۔ ایک دن وہ اپنی بیٹی کے گھر گیا۔ اس کی ایک بڑی خوبصورت گائے تھی، اس آدمی کی نظر اس پر پڑی تو وہ گائے پاگل ہو گئی اور اس نے اسی پر حملہ کر دیا۔ پاگل تو پاگل ہوتا ہے اس کو اس کا کیا پتا کہ جس نے نظر لگائی اس پر حملہ نہیں کرنا۔ اس گائے نے اس پر حملہ کر کے اسے نیچے گرا دیا۔ یہ آدمی گائے کے سینگوں کے درمیان آ گیا۔ زخم تو بہت آئے لیکن موت سے بچ گیا۔ اس کے بعد اس کی نظر والی حس ختم ہو گئی، پھر اس کی نظر نہیں لگتی تھی۔

مفتی زرولی خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے ایک درس میں اس پہ بڑی چیزیں نقل کی ہیں۔ عربوں میں بھی اس قسم کے لوگ ہوتے تھے۔ ان کے قصے حضرت نے نقل کیے ہیں۔ یہ چیزیں ہوتی ہیں لیکن یہ بیچارے بڑے بد قسمت لوگ ہوتے ہیں۔ اللہ بچائے۔

خیر خواہی دین کا نچوڑ ہے۔ ”اَلدِّیْنُ النَّصِیْحَةُ“۔ جن لوگوں میں میں خیر خواہی و مہربانی نہیں ہوتی وہ بیچارے بہت پریشان رہتے ہیں کیونکہ ”الْخَلْقُ عِيَالُ اللّٰهِ“ مخلوق اللہ تعالیٰ کا کنبہ ہے۔ اس کے ساتھ کوئی جس طریقے سے بھی نا انصافی اور ظلم کرتا ہے، اس کی اپنی حالت بھی خراب ہو جاتی ہے۔

سوال نمبر34:

اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے۔ جب ایک شخص کفریہ کلمات کہے تو شیخ یا بزرگ کے تاویل دینے سے اس کا ایمان بچ سکتا ہے؟ جبکہ اس شخص نے جو کلمات کہے وہ کفریہ کلمات تھے۔

جواب:

بے شک اس وقت وہ کفر پر قائم رہے گا لیکن شیخ یا بزرگ کا تاویل دینا اسے آئندہ کے لئے راستہ دیتا ہے کہ آئندہ وہ کسی نہ کسی سطح پر واپس آ سکے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ نے کیا کیا تھا جب ہندوستان میں شدھی کی تحریک چلائی گئی تھی اور مسلمانوں کا ایک پورا گاؤں ہندو ہو گیا تھا۔

حضرت مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ ان کے پاس گئے اور ان کے ساتھ بیٹھے اور ان سے کہا کہ سنا ہے کہ آپ لوگوں کے آباء و اجداد بڑے بزدل تھے؟

انہوں نے کہا: یہ کیسے کہتے ہو، ہمارے آباء و اجداد بزدل کیسے ہو سکتے ہیں، وہ تو بڑے بہادر تھے۔

حضرت نے فرمایا: تو کیا کسی بہادر کا دین کوئی زبردستی تبدیل کر سکتا ہے؟

گاؤں والے کہنے لگے کہ نہیں کر سکتا۔

حضرت نے فرمایا کہ آپ کے آباء و اجداد جو مسلمان ہوئے تھے، کیا کسی نے انہیں زبردستی مسلمان کیا تھا؟

انہوں نے کہا کہ وہ مرضی سے مسلمان ہوئے تھے۔

حضرت نے فرمایا کہ تو پھر تم لوگ یہ کیسے کہتے ہو کہ ہمیں زبردستی مسلمان کیا گیا تھا اس وجہ سے اب ہم دوبارہ ہندو ہو رہے ہیں۔

پھر ان سے پوچھا کہ مجھے بتاؤ تم لوگوں کے ختنے ہو چکے ہیں یا نہیں؟

انہوں نے کہا ہو چکے ہیں۔

حضرت نے فرمایا: تم تو اب کافر ہو ہی نہیں سکتے۔

گاؤں والے کہنے لگے کہ اچھا اب ہم کافر نہیں ہو سکتے تو پھر مسلمان ہی رہنے دو۔

آپ اس واقعہ پر غور کریں تو معلوم ہو گا کہ حضرت مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ ان کے ساتھ جو بات چیت کر رہے تھے وہی بات ایک طرح سے ان کے اسلام میں واپس آنے کا ذریعہ بن گئی۔ شیخ یا بزرگ کسی کے کفریہ کلمات پہ جو تاویل دیتے ہیں وہ اسی قسم کی ہوتی ہے اور کبھی نہ کبھی ان کے لوٹنے کا سبب بن جاتی ہے۔ اس کا مدار مختلف حالات پر ہوتا ہے۔ یہی کام ڈاکٹر حضرات بھی کرتے ہیں۔ جس وقت کسی کو ہارٹ اٹیک ہو جائے تو ڈاکٹر اس کے ساتھ کیا کرتے ہیں، وہ مریض کے سینہ پر اچھل کود کرتے ہیں۔ اس وقت کوئی کہتا ہے کہ بھائی اس کی پسلی نہ ٹوٹ جائے۔ ڈاکٹر کہتے ہیں خدا کے بندے تم صحیح پسلی کے ساتھ لاش لے جانا چاہتے ہو یا ٹوٹی پسلی کے ساتھ زندہ آدمی لے جانا چاہتے ہو۔ یہ حالات حالات کی بات ہوتی ہے۔ جس وقت انسان کفر کے دہانے پر کھڑا ہو اس وقت اسے بچانا لازمی ہوتا ہے اور یہ کام ایک درد دل والال انسان ہی کر سکتا ہے۔ اسی سے علامہ اقبال کا یہ شعر بھی سمجھ میں آ جائے گا ؎

درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو

ورنہ طاعت کے واسطے کچھ کم نہ تھے کر و بیاں

سوال نمبر35:

حضرت یہ ذکر، مراقبہ خودی کے نگہبان نہیں تو کچھ بھی نہیں۔

جواب:

سبحان اللہ بالکل ٹھیک کہا ہے۔ کیونکہ خودی کی تعریف یہ ہے:

؎ خودی کا سرِّ نہاں، لا الہ الا اللہ۔

جس کے دل میں لا الہ الا اللہ کی کیفیت نہ پیدا ہوئی ہو تو باقی باتیں صرف side effects ہیں۔ اصل چیز تو یہ ہے۔ اگر یہ کیفیت لا الہ الا اللہ کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے تو سبحان اللہ اچھی بات ہے لیکن اگر یہ چیزیں ہیں اور وہ لا الہ الا اللہ کی کیفیت نہیں ہے تو پھر یہ سرسری چیزیں ہیں۔

سوال نمبر36:

حضرت اسی ضمن میں اس کی تشریح فرما دیں:

زباں سے کہہ بھی دیا لا الہ الا اللہ تو کیا حاصل

دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں

جواب:

زبانی کہہ دیا اور دل میں نہیں آیا تو کوئی فائدہ نہیں۔ خودی تو دل میں لا الہ الا للہ کی کیفیت کا نام ہے۔ اگر صرف زبان کہے، دل نہ کہے تو یہ منافقت ہے۔

سوال نمبر37:

اصلاح کا آسان طریقہ کیا ہے؟

جواب:

جیسے مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے مجھ سے فرمایا تھا کہ تم مجھے ایٹم بم بنانے کا آسان نسخہ بتا دو تو میں تمہیں یہ چیز بتا دوں گا۔ در اصل ہر چیز کا اپنا ایک sequence ہوتا ہے اور وہ sequence اس کی Boundary conditions پر depend کر رہا ہوتا ہے۔ اگر کسی کے سامنے Boundary conditions نہ ہوں تو اسے sequence سمجھ میں نہیں آئے گا۔ اس وجہ سے اس کا کوئی عمومی کلیہ بتانا ممکن نہیں ہے۔ یہ چیز Man to man vary کرتی ہے۔ شیخ مرید کے حالات کے مطابق کسی کو ایک لائن پہ ڈال دے اس کو اس طریقے سے زیادہ فائدہ ہو جاتا ہے، دوسرے کو اس کے حالات کے مطابق دوسرے طریقے پہ لگا دے تو اسے اس طرح زیادہ فائدہ ہو جاتا ہے۔ مثلاً میں نے ایک صاحب کو کہہ دیا کہ اپنے دل پہ انگلی رکھو اور تصور کرو کہ میرا دل اللہ اللہ کر رہا ہے۔ اس کے لئے وہ طریقہ بہتر تھا، اس کو اس سے فائدہ ہو گیا۔ کسی کے لئے کوئی طریقہ ہوتا ہے، کسی کے لئے کوئی اور طریقہ ہوتا ہے۔

There are many methods and there are many people, which method fits which person?۔

اس کو عمومی طور پہ سمجھانا ذرا مشکل ہوتا ہے کیونکہ اگر اس طرح عمومی اصول ہوتے تو ہم بس ایک چھوٹی سی کتاب شائع کر دیتے کہ اس کے لئے یہ کر لو، اس کے لئے یہ کر لو اور اس کے لئے یہ کر لو۔ پھر نہ خانقاہ کی ضرورت ہوتی نہ کسی اور چیز کی ضرورت ہوتی، سب چیزیں خود بخود ہو جاتیں۔

سوال نمبر38:

بازو ترا توحید کی قوّت سے قوی ہے

اسلام ترا دیس ہے، تُو مصطفوی ہے

جواب:

اس کا مطلب یہ ہے کہ توحید کے ساتھ حبِ رسول ﷺ اور سنتِ رسولﷺ دونوں ضروری ہیں۔ یہ دونوں بازو ہوں گے تو پرواز ہو گی۔ شاعر نے اِس شعر میں یہی بات کی ہے۔ اسلام تیرا دیس ہے یعنی اسلام تیرا environment ہے، تو اسی کے اندر کام کر رہا ہے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ