اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال نمبر1:
اللہ اور رسول ﷺ کی تعظیم کی کیا اہمیت ہے؟
جواب:
آپ اس کو اصطلاحاً ادب کہہ سکتے ہیں۔ اللہ جل شانہ نے دو قسم کی چیزیں بنائی ہیں۔ ایک قسم کی چیزیں وہ ہیں جو انسان کو وقت پر ملتی ہیں۔ مثبت چیزوں کو مثبت طریقے سے حاصل کرنا ہوتا ہے اور منفی چیزوں سے بچنا بھی ہوتا ہے۔ منفی چیزوں سے نقصان ہوتا ہے۔ بے ادبی سے ساری نیکیاں ختم ہو جاتی ہیں۔ جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ﴾ (الحجرات: 2)
ترجمہ: ”اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے بلند مت کیا کرو، اور نہ ان سے بات کرتے ہوئے اس طرح زور سے بولا کرو جیسے تم ایک دوسرے سے زور سے بولتے ہو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال برباد ہو جائیں، اور تمہیں پتہ بھی نہ چلے“۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی نے اپنی آواز آپ ﷺ کی آواز سے بلند کی، بے ادبی کی تو اس کی ساری نیکیاں ختم ہو جاتی ہیں۔ لہٰذا بے ادبی سے بچنا ضروری ہے۔ ”با ادب با نصیب بے ادب بے نصیب“ مشہور کہاوت ہے۔ جو با نصیب ہو گا اس کی ساری چیزیں زیادہ اچھی ہو جائیں گی۔
سوال نمبر2:
اگر کوئی شخص اللہ و رسول ﷺ کی عظمت محسوس نہ کرے تو اسے کیا کرنا چاہیے؟
جواب:
ایک وسوسہ ہوتا ہے، ایک حقیقت ہوتی ہے۔ وسوسہ کی پروا نہیں کرنی چاہیے۔ کوئی بھی چیز حقیقت تب بنتی ہے جب اس کے تقاضے پر عمل ہو، مثلاً اگر کوئی شخص اپنے اندر ادب بھی محسوس نہیں کرتا اور اس سے بے ادبی بھی سرزد ہوتی ہے تو وہ حقیقت میں بے ادبی ہے، ورنہ اگر صرف دل میں ادب محسوس نہیں ہو رہا تو یہ وسوسہ ہے۔ اگر آدمی ادب کرتا ہے، کوئی ایسی حرکت نہیں کرتا جس سے بے ادبی ظاہر ہوتی ہو تو وہ مجاہدہ کر رہا ہے اور وسوسہ کا اس کو کوئی نقصان نہیں ہو رہا۔ اگر خدا نخواستہ وہ اس کے تقاضے پہ عمل کرتا ہے اور ان چیزوں کی پروا نہیں کرتا جن سے بے ادبی ہوتی ہے تو بے ادبی کا اثر اس پر بھی ہو جائے گا۔ اس وجہ سے اس کی اصل سے بچنا چاہیے، تقاضے سے بچنا چاہیے۔ البتہ وسوسہ کی کوئی پروا نہیں کرنی چاہیے۔
سوال نمبر3:
اگر کوئی اللہ کی عظمت محسوس نہیں کرتا تو کیا وہ گناہ سے بچ سکتا ہے؟
جواب:
ادب کو محسوس نہیں کیا جاتا بلکہ اس کا اثر محسوس کیا جاتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی آدمی بے ادبی کر لے تو اس کو انسان محسوس کر لیتا ہے۔ جیسے عام لوگ سب بزرگوں اور اولیاء کرام کا ادب کرتے ہیں، وہ عام طور پہ محسوس نہیں ہوتا لیکن اگر کوئی ایسی بات سامنے آ جائے تو پھر اس کے تقاضے پہ عمل کرنے سے پتا چل جاتا ہے کہ یہ بے ادب ہے یا نہیں ہے۔
سوال نمبر4:
اپنے دل میں اللہ اور رسول ﷺ کی عظمت پیدا کرنے کے لئے دعا کے علاوہ اور کون سا عمل کیا جائے؟
جواب:
اصل میں محبت سے بات شروع ہوتی ہے لہٰذا اللہ اور رسول ﷺ کی محبت کو پیدا کرنے والی چیزیں یہاں پر بھی نافع ہوں گی۔
سوال نمبر5:
بچوں کی اصلاح والدین خود کریں یا جس شیخ سے اپنی اصلاح کروا رہے ہوں، اس سے کروائیں؟
جواب:
بچوں کی اصلاح ایک تو اپنے گھر میں ہوتی ہے جو والدین کرتے ہیں اور ایک اللہ کا نظام بھی بچوں کی تربیت کے لئے موجود ہوتا ہے۔ لہٰذا والدین خود بھی اصلاح کر سکتے ہیں اور یہ بھی کر سکتے ہیں کہ کسی ایسے شخص کے ساتھ بچوں کا رابطہ کرا دیں جو اصلاح کر سکتا ہو۔
سوال نمبر6:
اگر ہم بچوں کو مصروف کرنا چاہیں تو کیا بچوں کو کمپیوٹر پر کارٹون دکھا سکتے ہیں؟ بصورتِ دیگر بچے والدین کو تنگ کرتے ہیں اور ضروری کاموں میں خلل واقع ہوتا ہے، بالخصوص اس وقت جب بچوں کو باہر لے جانے کا وقت نہ ہو۔
جواب:
یہ آج کل کا المیہ ہے۔ ہم لوگوں نے یہ مسئلہ خود ہی پیدا کیا ہوا ہے۔ اگر ابتدا سے ہی احتیاط کی جائے تو اس سے بچا جا سکتا ہے۔ اس وجہ سے میں کہا کرتا ہوں کہ بچوں کی تربیت کے لئے والدین کی اپنی تربیت ضروری ہوتی ہے. اگر والدین کی اپنی تربیت ہو چکی ہو تو وہ ان چیزوں سے پہلے سے ہی بچتے ہیں اور اپنے بچوں کو بھی محفوظ رکھتے ہیں۔ لہٰذا یہ کوئی عذر نہیں ہے کہ ہمارے کاموں میں حرج ہوتا ہے اس لئے ہم ان کو اس قسم کی چیزیں کرنے دیں۔ بچوں کے لئے جو چیزیں کارٹون وغیرہ کا مناسب متبادل ہیں ان کا انتظام کرنا چاہیے اور انہیں ناجائز چیزوں میں مبتلا نہیں کرنا چاہیے۔
سوال نمبر7:
بچوں کو نماز پڑھوانے کی عمر سات سال بتائی گئی ہے کیا قرآن پاک کے لئے بھی کوئی عمر مختص ہے جیسے نورانی قاعدہ وغیرہ یا سورتیں جو زابانی پڑھائی جائیں؟
جواب:
میرے پاس مفتی صدیق صاحب موجود ہیں، وہ فرما رہے ہیں کہ تعلیم میں بھی یہ اصول چلے گا۔ لیکن جیسے ہی بچے شعور میں آ جائیں یعنی جب شعور شروع ہو جائے تو اس وقت ان کی تعلیم کا سلسلہ شروع کرنا چاہیے۔ جیسے ”اَللہ اَللہ“ کا ذکر ابتدا میں شروع کروایا جاتا ہے کہ وہ سب سے پہلے اللہ کا نام لے۔ تب تو بہت چھوٹی عمر ہوتی ہے، جب شعور کی عمر تھوڑی تھوڑی شروع ہو جائے تب ان کو اِن چیزوں کے ساتھ مانوس کرنا چاہیے لیکن ثقیل انداز میں نہیں ذرا ہلکے انداز میں، جیسا کہ بچوں کے ساتھ ہوتا ہے۔
سوال نمبر8:
اگر مسلمان کافر یا مشرک بن جائے یا محسوس کرے کہ وہ غلط ہے تو کیا وہ توبہ کر سکتا ہے اور دوبارہ مسلمان ہو سکتا ہے؟
جواب:
ظاہر ہے موت سے پہلے پہلے توبہ کا دروازہ تک کھلا ہے، تب تک انسان کسی بھی وقت توبہ کر سکتا ہے۔ بعض دفعہ احتیاطی طور پر بھی تجدیدِ کلمہ کرنی پڑتی ہے۔ اس بات کو غلط نہیں لینا چاہیے۔ اگر کبھی کسی کو محسوس ہوتا ہے کہ اس سے کچھ کلمات ایسے سرزد ہو گئے ہیں جن سے کافر ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے تو وہ تجدیدِ کلمہ تو فوراً کر لے اور باقی علماء سے مشورہ کر لے وہ تفصیل بتا دیں گے کہ اس میں نکاح کی تجدید کی ضرورت ہے یا نہیں۔ کیونکہ اگر کوئی شادی شدہ آدمی کافر ہو جائے تو اس کا نکاح بھی ٹوٹ جاتا ہے۔ اس لئے اس بارے میں کسی مفتی سے مشورہ کر لیا جائے تاکہ معلوم ہو جائے کہ واقعی کافر ہو گیا ہے یا نہیں، لیکن فوری طور پر تجدیدِ کلمہ ضرور کر لے کیونکہ موت اور زندگی کا پتا نہیں ہے۔
سوال نمبر9:
ایک شادی شدہ آدمی کے اس کی بیوی، بچوں اور اس کے والدین کے حوالے سے کیا فرائض ہیں؟
جواب:
ایسی صورت میں وہ رواج یا لوگوں کے جذبات کی پرواہ نہ کرے بلکہ حکمت سے کام لے یعنی ہر ایک کے ساتھ اچھا تعلق رکھے اور ان کو بتائے کہ میں آپ کا احترام کرتا ہوں، لیکن کرے وہی جو شریعت کہتی ہے۔ شوہر پر جو حقوق بیوی کے ہیں وہ اس کو دے اور والدین کے حقوق ان کو دے، اس میں کسی کی رعایت نہ کرے۔ البتہ حکمتاً سب کے ساتھ ایسا طرزِ عمل کر سکتا ہے کہ ہر ایک کو سمجھائے کہ میں آپ کا خیر خواہ ہوں۔
سوال نمبر10:
اگر بیوی شوہر کے والدین کے ساتھ نہ رہنا چاہے تو شوہر کو کیا کرنا چاہیے؟
جواب:
اگر بیوی شوہر کے والدین کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تو وہ اسے بالکل الگ تھلگ رکھنے کا پابند نہیں ہے، البتہ اتنا ضروری ہے کہ اس کے لئے ایک کمرہ ایسا ہونا چاہیے جو اس کا پرائیویٹ ہو اور اس میں اس کی مرضی کے بغیر کوئی نہ آئے۔
سوال نمبر11:
شوہر کو بیوی، بچوں اور والدین کے درمیان وقت کی تقسیم کیسے کرنی چاہیے؟
جواب:
شوہر کو اپنی بیوی کے حقوق معلوم ہونے چاہیں اور اپنے والدین کے حقوق بھی معلوم ہونے چاہئیں۔ ان حقوق میں وقت اور باقی ساری چیزیں آ جاتی ہیں۔ آدمی والدین کی خدمت کرے گا تو خدمت کے لئے ان کے پاس ہونا چاہیے اور بیوی کے حقوق ادا کرنے کے لئے جو وقت ہوتا ہے اس کے پاس ہونا چاہیے۔ باقی تو اس کا اپنا وقت ہو گا۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن