اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن وَالصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ اَمَّا بَعْدُ
بِسمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
سوال نمبر1:
علماء کرام سائنسی علم کو ایک ہنر کے طور پہ treat کرتے ہیں،اس کی کوئی مذہبی افادیت نہیں مانتے اور یہ فرماتے ہیں کہ قرآن و حدیث شریف میں جو فضیلت بیان کی گئی ہے، وہ صرف دینی علم کے لئے ہے البتہ اگر کوئی یہ علم اس نیت سے حاصل کرے کہ مسلمانوں کے فائدے کے لئے استعمال ہو گا تو اسے اس نیت کا اجر ملے گا، اگر بذات خود کسی علم کی فضیلت ہے تو وہ دین کا علم ہی ہے، اس کے علاوہ کسی علم کی فضیلت بطور علم کے نہیں ہے۔ اس کے بعد یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سائنس دو قسم کی ہوتی ہے ایک عملی سائنس ہے جسے ہم روزمرہ زندگی میں استعمال کرتے ہیں مثلاً انجینئرنگ میڈیکل اور agriculture وغیرہ، اگر ان کے استعمال میں نیت اسلام کے لئے استعمال کی کی جائے تو ان کا اجر ملے گا لیکن فزکس، کیمسٹری، mathematics پڑھنے والے لوگوں کا اس کا اجر کیسے ملے گا؟ ان کے علم کو کس category میں شمار کیا جائے گا، کیونکہ سائنس کا ایک شعبہ ایسا ہے جس کا عملی استعمال نہیں ہے اس کا تعلق تھیوریز سے ہے، عملی طور پر اس کا کوئی ایسا استعمال نہیں ہے جس کے بارے میں یہ کہہ سکیں کہ اسے اسلام کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس بارے میں کچھ وضاحت فرما دیجیے۔
جواب:
میرے خیال میں جنہوں نے یہ سوال کیا ہے شاید انہوں نے کچھ چیزوں کو ذہن میں نہیں رکھا جس کی وجہ سے ان کو اشکال ہو گیا۔ حالانکہ قرآن پاک میں اس بارے میں واضح اشارہ موجود ہے، بس ذرا اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
اللہ پاک فرماتے ہیں:
﴿اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّهَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِۚۙ الَّذِیْنَ یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ قِیٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰى جُنُوْبِهِمْ وَ یَتَفَكَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِۚ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًاۚ سُبْحٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ﴾ (آل عمران: 190-191)
ترجمہ: ”بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات دن کے بارے بارے آنے جانے میں ان عقل والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں۔ جو اٹھتے بیٹھتے اور لیٹے ہوئے (ہر حال میں) اللہ کو یاد کرتے ہیں، اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق پر غور کرتے ہیں، (اور انھیں دیکھ کر بول اٹھتے ہیں کہ) اے ہمارے پروردگار ! آپ نے یہ سب کچھ بےمقصد پیدا نہیں کیا۔ آپ ( ایسے فضول کام سے) پاک ہیں، پس ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لیجیے۔ “
ان آیات میں اللہ جل شانہ ارشاد فرماتے ہیں:
”بے شک اس کائنات کی تخلیق میں اور دنوں کے الٹ پھیر میں عقل مندوں کے لیے نشانیاں ہیں۔“
عقل مند کون لوگ ہیں؟ وہ لوگ جو کھڑے بیٹھے اور لیٹے ہر حال میں اللہ پاک کو یاد کرتے ہیں اور کائنات کی تخلیق میں غور کرتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکل آتا ہے کہ اے ہمارے پروردگار تو نے ان تمام چیزوں کو بے فائدہ نہیں پیدا کیا، تو پاک ہے پس ہمیں عذاب جہنم سے نجات عطا فرما۔
ان آیات کے مطابق اگر ہم ان علوم ریاضی، کیمسٹری اور فزکس کے اندر غور و فکر کریں گے تو اللہ جل شانہ کی معرفت بڑھتی جائے گی۔ اگر آپ غور کریں تو معلوم ہوگا کہ یہ سارے علوم کائنات کو سمجھنے کے لئے ایک ذریعہ کا کام دیتے ہیں۔ کیمسٹری کیا ہے؟ چیزوں کی ماہیت اور ان کی گہرائی میں جا کر سمجھنے کا نام کیمسٹری ہے۔ فزکس کیا ہے؟ کائنات کی وسعتوں، مختلف چیزوں کے آپس میں تعلق اور اس کے نتیجے میں مختلف چیزوں کے ظہور کا نام ہے۔ اسی طرح ریاضی چیزوں کے جوڑنے کا علم ہے۔ باقی علوم فزیالوجی، بائیو کیمسٹری باٹنی وغیرہ یہ سب علوم اسی ضمن میں آتے ہیں۔ ان سب علوم کے ذریعہ اللہ پاک کی معرفت حاصل ہوتی ہے اور جن علوم کے ذریعے اللہ پاک کی معرفت حاصل ہوتی ہو انہیں ذکر و فکر کے ساتھ حاصل کیا جائے اور سمجھا جائے تو وہ بھی اخروی اجر کا سبب بن جاتے ہیں اور جو لوگ یہ علوم جانتے ہیں اور انہیں اللہ پاک کی معرفت کا ذریعہ بناتے ہیں ان کے بارے میں اللہ پاک نے فرمایا ہے کہ بے شک یہی لوگ عقل مند ہیں۔
اللہ پاک کی طرف سے عقل مند کا تمغہ ملنا بہت بڑی بات ہے، لہٰذا ان لوگوں کو مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ اگر ان علوم کے حصول سے ان کی نیت اللہ کی معرفت کے حصول کی ہو تو ایسے لوگ اللہ پاک کی طرف سے دنیا و آخرت میں بے انتہا اجر کے مستحق ہیں۔
آج کل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے سائنس دان حضرات سائنس میں اللہ کی معرفت تلاش نہیں کرتے بلکہ اپنی معرفت تلاش کرتے ہیں۔ وہ جب ریسرچ پیپر لکھتے ہیں تو اس میں کہیں اللہ پاک کا ذکر نہیں ہوتا بلکہ اس میں ان کی اپنی بڑائی ظاہر ہو رہی ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں اللہ کی معرفت حاصل نہیں ہوتی اور معرفت حاصل نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یہ ذکر نہیں کرتے۔ اگر یہ ذکر کرنا شروع کر لیں اور روحانیت تک ان کی رسائی کٹ ہو جائے تو پھر یہی علم ان کے لیے اللہ پاک کی معرفت کا ذریعہ ہو جائے گا۔ لہٰذا ان کو مایوس نہیں ہونا چاہیے جیسے میڈیکل انجینئرنگ میں اللہ کی رضا کی نیت کرنے سے انہیں اجر ملے گا اسی طرح باقی سب علوم کو حاصل کرتے وقت بھی اگر نیت اللہ کی معرفت کی ہو اور اس علم کے ساتھ ذکر و فکر جاری رکھا جائے تو دنیا و آخرت میں بہت اجر و ثواب کا باعث ہے۔
میں جب فلکیات پہ کام کر رہا تھا تو مجھے ایک بہت بڑے شیخ نے فرمایا کہ اگر اس پر کام کرتے ہوئے آپ کے اوراد و اذکار کے معمولات کمی بیشی ہو جائے تو اس کی پروا نہ کریں کیونکہ جو کام آپ کر رہے ہیں یہ بھی ذکر ہے۔
لہٰذا انسان اللہ کی معرفت کے حصول کی نیت رکھ کر یہ علوم حاصل کرے تو یہ بہت بڑے اجر کا باعث بنے گا۔ مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے، سائنسدان اور سائنس کے شعبوں سے وابستہ لوگوں کے لئے اللہ کے ہاں بہت کچھ ہے۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ وہ بغیر ذکر کے وہ فکر حاصل نہیں ہو سکتا جس سے اللہ کی پہچان ہو۔ بغیر ذکر کے کوئی بھی فکر اللہ تعالی کی معرفت تک رسائی نہیں دے سکتی۔ ذکر کے ذریعے فکر میں نکھار آتا ہے۔ انسان جب تک ذکر کرتا رہتا ہے تو اس کا اندر و باہر اللہ جل شانہ کی محبت،اللہ جل شانہ کے استحضار اور اللہ جل شانہ کی طرف دھیان پر مرکوز رہتا ہے،اس کے ساتھ ساتھ ان کی تحقیق بھی جاری ہو تو سبحان اللہ نور علی نور والی بات ہوجاتی ہے۔ یہی تحقیق اگر اللہ تعالی کے ذکر کے ساتھ ہو تو اس کے ساتھ اللہ تعالی کی معرفت حاصل ہو گی۔
سوال نمبر2:
کیا انسان کی زندگی میں کبھی ایسا مقام آتا ہے کہ وہ ہر روحانی بیماری سے پاک و صاف ہو جائے اور دوبارہ کبھی اس میں مبتلا نہ ہو مثلاً ریا، تکبر، حسد کینہ وغیرہ۔ اگر کسی کے اندر اس بات کا قوی یقین بیٹھ جائے، کہ اب وہ کبھی ان بیماریوں میں مبتلا نہ ہوگا تو کیا یہ صحیح ہے یا غلط؟ اور یہ بتائیے کہ انسان کو گناہوں پر اور نیکیوں پر کس حد تک اختیار دیا گیا ہے۔
جواب:
سبحان اللہ! بڑا فلسفیانہ سوال ہے۔ کتنا اختیار ہے؟ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے یہ سوال پوچھا گیا تھا کہ ہمیں کتنا اختیار ہے اور ہم کتنے مجبور ہیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو اللہ تعالی نے یہ ملکہ نصیب فرمایا تھا کہ بہت مختصر طریقہ سے ایک ہی اشارہ سے بہت بڑی بات سمجھا دیتے تھے۔ اللہ تعالی نے انہیں یہ کمال دیا تھا، تبھی تو آپ ﷺ نے ان کو بابِ علم فرمایا تھا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اس شخص سے کہا: اپنا پیر اٹھاؤ۔ اس نے پیر اٹھا لیا۔ پھر فرمایا : اب دوسرا پیر بھی اٹھاؤ۔ اس نے کہا: یہ تو نہیں کر سکتا۔ انہوں نے فرمایا:یہ تمہارے سوال کا جواب ہے، انسان اتنا ہی مختار ہے اور اتنا ہی مجبور ہے۔ اس کو یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ ایک آدمی بیمار ہے، یہ اس کی مجبوری ہے۔ اب وہ اس بیماری میں جو جو کر سکتا ہے یہ اس کا اختیار ہے اور جو نہیں کر سکتا وہ اس کے اختیار میں نہیں ہے۔
ہر شخص مال دار ہونا چاہتا ہے لیکن ہر شخص مال دار نہیں ہوتا۔ دو بھائی اپنی اپنی دکان پہ بیٹھے ہوتے ہیں ایک کی بِکری ہو رہی ہوتی ہے ایک کی نہیں ہو رہی ہوتی۔ یہی تو خدا کی شان ہے۔ دینا اللہ کا کام ہے۔ انسان کوشش کرتا ہے لیکن اس کوشش میں جان ڈالنا اللہ کا کام ہے۔
اب مال داری میں مجھ پر کیا حقوق لازم ہیں اور غریبی میں میرے اوپر کیا حقوق ہیں۔ اللہ پاک یہ دیکھے گا کہ جو مجبوری اس بندے پر مسلط ہے، اس مجبوری کے مطابق اس پر کچھ حقوق لازم ہیں کیا یہ آدمی وہ حقوق ادا کرتا ہے یا نہیں۔
مثلاً میں پٹھان پیدا کیا گیا ہوں تو یہ میری مجبوری ہے، لیکن پٹھان ہو کر میں دین کے لیے کیا کر سکتا ہوں اور دین پر کیسے چل سکتا ہوں یہ میرا اختیار ہے۔ اس کے بارے میں مجھ سے پوچھا جائے گا۔ میں پنجابی ہوں، یہ میری مجبوری ہے لیکن یہ میرا اختیار ہے کہ میں پنجابی ہو کر دین کے لئے کیا کر سکتا ہوں، اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ پوچھے گا۔ تو جس ماحول میں میں پیدا ہوا ہوں یہ میری مجبوری ہے لیکن اس ماحول میں میں کیا کیا کر سکتا ہوں یہ میرے اختیار میں ہے، اسی کی مجھ سے پوچھ ہوگی۔ ہمارے جسم کے اندر جو کچھ ہو رہا ہے وہ ہماری مجبوری ہے، بہت ساری چیزیں ایسی ہیں جن کا ہمیں پتا بھی نہیں کہ ہو رہی ہیں، لیکن وہ ہو رہی ہیں، ان کے ہونے سے جو نتائج آئیں گے وہ ہماری مجبوری ہے، لیکن انہی حالات کے ہوتے ہوئےہم کیا کیا کر سکتے ہیں وہ ہمارے اختیار میں ہے۔ چونکہ ہر ایک کی مجبوریاں جدا جدا ہیں اس وجہ سے ہر ایک کا اختیار جدا جدا ہے اور ہر ایک سے اس کے حالات اور اختیار کے مطابق جدا جدا پوچھا جائے گا۔ ساری باتیں اللہ پاک کے حساب میں ہیں، اللہ پاک سریع الحساب ہے، اللہ پاک حساب آسانی سے کر لے گا۔
دوسرا سوال یہ پوچھا گیا ہے کہ کیا انسان کی زندگی میں کبھی ایسا مقام آتا ہے کہ وہ ہر دل کی بیماری سے پاک و صاف ہو جائے اور دوبارہ کبھی اس میں مبتلا نہ ہو؟
میرے خیال میں میری کتابوں کو پوری طرح پڑھا نہیں گیا۔ اگر ان کو دھیان سے پڑھا جائے تو اس میں بہت ساری چیزوں کے جوابات موجود ہیں۔ تصوف میں دو اصطلاحات ہیں، سیر الی اللہ اور سیر فی اللہ۔ سیر الی اللہ کا مطلب یہ ہے کہ انسان ضرورت کے درجہ میں تمام رذائل سے پاک صاف ہو جائے اور ضروری فضائل حاصل کر لے، یہ سیر الی اللہ ہے۔ یہ ہر ایک کی برابر ہو سکتی ہے۔ کیونکہ یہ چیزیں limited ہیں۔ اس کے بعد سیر فی اللہ شروع ہوتی ہے۔ سیر فی اللہ کا مطلب یہ ہے کہ اس نے رذائل سے پاکی حاصل کرکے فضائل حاصل کئے ہیں، اس میں مزید کتنی ترقی حاصل کرے گا اور اس سے کیا کیا کام لے گا۔یہ لا متناہی چیز ہے۔ اس کو سیر فی اللہ کہتے ہیں۔
عموماً بنیادی اصلاح ہو جانے کے بعد لوگ سمجھتے ہیں۔ حالانکہ اب تو کام شروع ہوا ہے۔ اس کی مثال ایسے ہے جیسے ایک آدمی ہسپتال میں داخل ہے، وہاں اس کا علاج ہو رہا ہے، جب ٹھیک ہو جائے تو کیا خیال ہے وہ یہ کہہ دے کہ میرا کام ختم ہو گیا؟ ایسا نہیں ہے بلکہ ابھی تو اس کا کام شروع ہوا ہے، جب بیمار تھا تو اپنی زندگی کے کام وغیرہ نہیں کر پا رہا تھا، اب صحت یاب ہوا ہے تو اپنے کام وغیرہ کرنے کے لئے ٹھیک ہو گیا ہے، اب اسے اپنے کام شروع کرنے چاہئیں۔ یہ مثال سیر فی اللہ کی ہے، سیر الی اللہ میں آدمی اپنی بیماریوں سے صحت یاب ہوتا ہے اور صحت حاصل کرتا ہے، اب آگے وہ اپنے آپ کو اس کام میں لگائے گا جو اس کی زندگی کا اصل مقصد ہے، یعنی ان روحانی بیماریوں سے ہمیشہ کے لئے دوری رکھنا اور فضائل میں ترقی حاصل کرتے رہنا، اور ان دونوں کاموں کے ذریعے اللہ کی معرفت حاصل کرتے رہنا، یہ اس کا اصل کام ہے۔ اب وہ جتنا زیادہ اللہ تعالی کی معرفت حاصل کر سکتا ہے،وہ کرے اور اپنا مقام جتنا بڑھا سکتا ہے بڑھائے۔
باقی رہی یہ بات کہ کیا ایسا ممکن ہے کہ انسان دوبارہ کبھی ان رذائل میں مبتلا نہ ہو، ہمیشہ کے لئے ان سے چھٹکا را حاصل کر لے۔
اگر واقعی قبولیت ہو جائے اور اللہ جل شانہ کے حفاظت کے نظام میں آ جائے تو پھر با قاعدہ حفاظت ہوتی ہے اور انسان ان رذائل میں واپس نہیں آتا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس سے کبھی غلطی ہو ہی نہیں سکتی، غلطی تو ممکن ہے، لیکن اسے فوراً اللہ کی طرف سے اس پہ سخت تنبیہ ہوجاتی ہے اور ایسی تنبیہ ہوتی ہے کہ اس غلطی سے توبہ کئے بغیر اور اسے چھوڑے بغیر کوئی چارہ نہیں رہتا۔ کیونکہ اب اللہ نے اس کو قبول کر لیا ہے، اس کا دوبارہ خراب ہونا اس کی منشا نہیں ہے، لہٰذا اس کا معاملہ ایسا ہو جاتا ہے کہ اِدھر اس نے گناہ کیا نہیں اور اُدھر اِسے تھپڑ لگا نہیں۔بالفاظِ دیگر شاخ تراشی اور تنقیح و تہذیب ہوتی رہتی ہے، ہاں اگر نفس نفسِ مطمئنہ ہو جائے اور آرام سے اللہ تعالی کے کاموں پہ چلنے لگے اور گڑبڑ نہ کرے پھر پوری زندگی اچھی گزرے گی، لیکن آدمی مکمل طور پہ مطمئن پھر بھی نہیں ہو سکتا۔
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے پوچھا تھا کہ حضرت کچھ ایسی بات بتائیں جس سے اپنے بارے میں اطمینان ہو جائے۔ فرمایا: وہ دن ماتم کا ہو گا جب آپ کو اپنے بارے میں اطمینان ہو جائے گا۔
ہوتا یہ ہے کہ جتنی جتنی قلب کی صفائی ہوتی جائے گی، اتنا اتنا تقویٰ بڑھے گا، اتنا اتنا خوف خدا بڑھے گا، اتنا اتنا ڈر میں اضافہ ہو گا، اتنا اتنا اپنے اوپر بدگمانی میں اضافہ ہو گا۔ یہ کیسی بات ہے کہ انسان اپنے اوپر نیک گمان ہو جائے کہ بس ٹھیک ہے اب میں بزرگ ہو گیا۔ یہی تو وہ بزرگی ہے جس سے روکا جاتا ہے۔ یہ بزرگی تو بہت بڑا مسئلہ ہے۔اگر کسی میں بزرگی پیدا ہو جائے تو اسے دور کیا جاتا ہے۔ انسان اپنے آپ کو ہمیشہ خطرہ میں سمجھے۔
کسی نے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ صاحب کو لکھا کہ حضرت مجھے بڑا خطرہ ہے۔ فرمایا یہی خطرہ تو معرفت کا قطرہ ہے۔
لہٰذا اپنے آپ سے مطمئن نہیں ہونا چاہیے، اسی سے تو کام شروع ہوتا ہے، جب اطمینان ہو گیا تو معاملہ خراب ہو گیا پھر خطرناک حد تک بات جا سکتی ہے۔ اس وجہ سے انسان کو ہر وقت دغدغہ میں رہنا چاہیے، ایمان خوف اور امید کے درمیان ہے، اسی خوف و امید کے درمیان رہنا چاہیے۔
سوال نمبر3:
حدیث میں آتا ہے:
”الْمُؤْمِنُ غِرٌّ كَرِيم وَالْفَاجِرُ خِبٌّ لَئِيم“ (سنن ابی داؤد: حدیث نمبر : 4790)
ترجمہ: ”مومن سیدھا سادا شریف ہوتا ہے اور فاجر دھوکہ باز کمینہ ہوتا ہے۔“
سوال یہ ہے کہ کسی ضمن میں سمجھدار ہونا یا شاطر ہونا ایک ہی بات ہے یا یہ دونوں الگ الگ چیزیں ہیں؟
جواب:
در اصل سیدھا سادا اور شریف ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ بے وقوف مجذوب ہوتا ہے اور اسے کسی چیز کی سمجھ نہیں ہوتی، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے سمجھ ہر چیز کی ہوتی ہے، لیکن وہ اس سمجھ کا غلط فائدہ نہیں اٹھاتا، اس سمجھ سے کسی کو نقصان نہیں پہنچاتا، کسی کی سادگی اور کم عقلی سے غلط فائدہ اٹھا کر اس کا استحصال نہیں کرتا بلکہ اگر کوئی آدمی کم سمجھ اور کم عقل ہے تو اس کے ساتھ ہمدردی کرتا ہے، اس کی مدد کرتا ہے۔ وہ اپنے ذہن کو منفی چیزوں کے لئے استعمال نہیں کرتا، اس کے اندر کجی نہیں ہوتی۔
نیز اس حدیث کا یہ مطلب بھی نہیں کہ اگر کوئی آدمی ہوشیار اور سمجھدار ہو تو وہ کمینہ اور دھوکہ باز ہوتا ہے، دھوکے بازی اور کمینگی الگ چیز ہے، ہوشیاری، سمجھداری اور احتیاط الگ چیز ہے۔ مثلاً امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ بے حد ہوشیار اور زیرک انسان تھے، ان کو کوئی دھوکہ نہیں دے سکتا تھا۔ اسی طرح حضرت عمر، حضرت علی رضی اللہ عنہ اور کئی حضرات صحابہ و تابعین کی عقلمندی زیرکی اور ہوشیاری ضرب المثل ہے، ان کو دھوکہ نہیں جا سکتا تھا۔ اب کیا نعوذ باللہ ان سب کو دھوکہ باز یا کمینہ کہا جائے گا؟ ایسی بات نہیں ہے، دھوکہ بازی اور کمینگی اپنی عقل اور سمجھداری کا غلط فائدہ اٹھانا اور غلط طور پر استعمال کرنا ہے۔ جبکہ شرافت اور سادگی یہ ہے کہ اپنی عقل دانش کا غلط فائدہ نہ اٹھایا جائے اور اس کے ساتھ دھوکہ بھی نہ کھایا جائے۔ جس طرح اس حدیث میں یہ آیا ہے کہ مومن سیدھا سادا شریف آدمی ہوتا ہے، اسی طرح ایک دوسری حدیث میں یہ بھی آیا ہے کہ ” مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا۔ “۔ یعنی وہ سمجھدار اور ہوشیار بھی ہوتا ہے۔
اسی ضمن میں ایک واقعہ قابل ذکر ہے۔ حضرت مولانا تقی عثمانی صاحب نے لکھا ہے کہ جب میں سعودی عرب میں تھا وہاں ایک صاحب نے اپنا واقعہ سنایا۔ کہتے ہیں ایک دن میں کپڑا خریدنے کے لئے بازار گیا، ایک دکان پر کپڑے دیکھنے لگا، ایک کپڑا مجھے پسند آیا، دکاندار سے بھاؤ تاؤ شروع کیا، ریٹ طے ہو گیا۔ دکاندار کہنے لگا کہ یہی کپڑا بالکل اسی کوالٹی، اسی کمپنی اور اسی ریٹ میں آپ کو ساتھ والی دکان سے مل جائے گا، میرا مشورہ ہے کہ آپ یہ وہاں سے لے لیں۔ میں نے کہا، میں تو آپ ہی سے لوں گا۔ اس نے اصرار کرنا شروع کیا کہ آپ وہیں سے لے لیں اور میں نے انکار کرنا شروع کر دیا۔ آخر کچھ بات چیت کے بعد میں نے کہا کہ اگر آپ اس کی وجہ بتائیں اور وہ وجہ مجھے معقول محسوس ہوئی تو میں وہاں سے لے لوں گا، ورنہ آپ ہی سے خریدوں گا۔ پہلے تو اس نے وجہ بتانے میں ٹال مٹول کی، آخر کار وہ بتانے پہ راضی ہو گیا اور یہ وجہ بتائی کہ میں صبح سے دیکھ رہا ہوں کہ میرے اس دکان والے کی اتنی بکری نہیں ہوئی اور میری بہت زیادہ ہوئی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ کچھ وہ بھی کما لے اس لئے آپ سے کہہ رہا ہوں کہ آپ وہاں سے خرید لیں۔
اب دیکھیں مومن ایسا ہوتا ہے۔ وہ کسی کے ساتھ دھوکہ نہیں کرے گا، کسی کی جیب پہ ڈاکہ نہیں ڈالے گا، کسی کا استحصال نہیں کرے گا۔
سرمایہ دارانہ نظام ایک استحصالی نظام ہے اس کی تو تعریف ہی یہ ہے کہ پیسوں کے ذریعہ سے اپنے سے کم مال دار کی جیب سے پیسے نکالیں، پیسوں کے ذریعے پیسہ کمائیں چاہے وہ پیسہ امیر سے نکلے یا غریب سے، اس کی کوئی پروا نہیں۔
ایک آدمی کو کسی نے کہا تھاکہ پیسہ پیسہ کو کھینچتا ہے۔ وہ ذرا بے وقوف آدمی تھا، اس نے جیب سے سکہ نکالا اور دکاندار کے گلے کے اوپر رکھ کھڑا ہوگیا کہ شاید میرا یہ سکہ مزید پیسے کھینچے گا۔ کافی دیر تک جب پیسے نہیں نکلے تو غصہ ہوگیا کہ وہ تھیوری تو غلط ثابت ہو گئی، غصہ میں آکر وہ سکہ اس نے دکاندار کے گلے میں پھینک دیا۔ دکان دار کے وجہ پوچھنے پر ساری بات بتائی، تو دکان دار نے کہ بات تو ٹھیک ہے، دیکھو میرے پیسوں نے تمہارا پیسہ کھینچ لیا۔ وہ پیسے زیادہ تھے یہ تھوڑے تھے، زیادہ نے تھوڑے کو کھینچ لیا۔
capitalism کی تھیوری یہی ہوتی ہے زیادہ پیسے کم پیسوں کو کھینچتے ہیں، حالانکہ یہ اخلاقیات کے خلاف ہے۔ اخلاقیات کا تقاضا تو یہ ہے کہ جس کے پاس زیادہ ہے اس کے پیسے کم پیسے والوں کے پاس جانے چاہییں، لیکن یہ معاملہ آپ capitalism میں نہیں دیکھیں گے۔ یہ تو بالکل جونک جیس نظام ہے جو غریبوں کا خون چوس کر موٹا ہوتا رہتا ہے۔ مومن ان چیزوں سے بچتا ہے وہ جونک نہیں بنتا۔ وہ باقاعدہ مدد کرنے والا بنتا ہے، رضا کار بنتا ہے وہ کسی اور کا حصہ نہیں کھاتا۔
سوال نمبر4:
حضرت لقمان حکیم نے بیٹے سے فرمایا نہ اتنا میٹھا نہ بنو کہ لوگ نگل جائیں اور نہ اتنا پھیکا بنو کہ لوگ تمھیں تھوک دیں۔ اس کی وضاحت فرما دیجیے۔
جواب:
صحیح فرمایا۔ یہ بڑی حکمت کا اصول ہے۔ یہ میٹھا بننے سے مراد یہ ہے کہ انسان اتنا نرم پڑ جائے کہ لوگ اس کے حقوق چھیننے لگیں اور کڑوا بننے کا مطلب یہ ہے کہ ایسا ظالم بن جائے کہ دوسروں کے حقوق غصب کرنے لگے اور ان سے نفرت کرنے لگے۔ اعتدال پہ رہو، کسی کو دھوکہ دو نہ کسی سے دھوکہ کھاؤ۔
حضرت ابو سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے زمانہ کفر میں شاہ روم قیصر سے گفتگو کے دوران کہا تھا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں کہ وہ دھوکہ دیتے ہیں نہ دھوکہ کھاتے ہیں۔ قیصر نے کہا: یہ ان کے دیندار اور ذہین ہونے کی علامت ہے، جس کا خلیفہ ایسا ہو اس پیغمبر کی اپنی شان کیسی ہو گی۔
لہٰذا کسی کو دھوکہ نہ دینا اور خود دھوکہ کھانے سے بچنا یہ بڑی حکمت کی بات ہے۔ انسان کو اعتدال پہ رہنا چاہیے،اپنے حقوق تلف نہیں کروانے چاہییں، کسی کے سامنے ایسا نہیں بننا چاہیے کہ وہ آپ کو تر نوالہ سمجھ کر کھا جائے۔
ایک دن مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرمانے لگے: بھئی میری چیزیں اگر کوئی میری اجازت کے بغیر لے جائے تو یہ تبرک نہیں ہے۔
بعد میں حضرت نے فرمایا: اگر میں یہ نہ کہتا تو لوگ تبرک سمجھ کر میری چیزیں لے جاتے۔
میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ انسان کو منتظم بھی ہونا چاہئے تاکہ اپنی چیزوں کو سنبھال سکے، اپنے حقوق کی حفاظت کر سکے اور دوسروں کے حقوق کی ادائیگی بھی کرے،یہ ایک معتدل طریقہ ہے۔
سوال نمبر5:
حضرت! رکوع سے اٹھ کر ”سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ“ کہنے میں کیا حکمت ہے۔
جواب:
یہ استحضار اور یاد دہانی ہے اس بات کی کہ میں نے اللہ کے حضور کھڑے ہوکر اس کی تعریف کی، اس سے مدد مانگی اور اس سے سیدھے راستے پر قائم رہنے کی دعا مانگی، اور اللہ تعالیٰ نے یہ ساری چیزیں سن لیں۔ یہ استحضار ہے اس بات کاکہ میں جو کہہ رہا ہوں اللہ تعالیٰ اس کو سن رہا ہے۔ جب آپ کو یہ احساس ہو گا کہ اللہ اس کو سن رہا ہے تو آپ وہ کام دل سے کریں گے۔
سوال نمبر6:
ایمان کی حلاوت اور گناہ کی کثافت سے کیا مراد ہے؟
جواب:
یہ بہت اچھا سوال ہے۔ ایمان کا مطلب یہ ہے کہ بغیر دیکھے بغیر محسوس کیے صرف قرآن اور آپ ﷺ کے بتانے سے ہم ان باتوں کو مان جائیں۔ اب اگر کسی کو ان باتوں پر اتنا پختہ یقین ہو جائے کہ ایمان کے ذریعہ وجود میں آنے والے اعمال میں مزہ آنے لگے تو یہ ایمان کی حلاوت ہے۔
گناہ کی کثافت یہ ہے کہ جب انسان سے گناہ ہوتا ہے تو اس کی وجہ سے دل پہ ایک تاریکی اور ظلمت آ جاتی ہے جس کی وجہ سے انسان چیزوں سے بے زار ہونے لگتا ہےاور ڈپریشن جیسے امراض کی طرف چلا جاتا ہے۔ یہ کثافت ہے جو گناہ کی وجہ سے آتی ہے۔
سوال نمبر7:
حضرت! ”مؤمن کی فراست سے ڈرو وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔“۔ اس کا کیا مطلب ہے؟
جواب:
اس کا مطلب تو بہت آسان ہے، اگر آپ اس کا ذریعہ پوچھتے تو وہ ذرا مشکل بات تھی۔ مطلب تو یہ ہے کہ مومن کی فراست سے ڈرو، دکیونکہ تم مومن سے چھپا سکتے ہو لیکن اللہ سے تو نہیں چھپا سکتے۔ مومن کا تعلق اللہ کے ساتھ ہوتا ہے، اللہ اس کی قلب میں چیزوں کے حقائق القا فرما دیتے ہیں، یہی فراست ہے۔ مومن بذات خود کچھ نہیں کر سکتا، و اللہ تعالی کے ساتھ تعلق ہونے کی وجہ سے اس کے دل پر اللہ پاک کچھ چیزیں کھول دیتے ہیں۔ لہٰذا مومن کی فراست سے ڈرو کیونکہ وہ خدا کے نور سے دیکھتا ہے۔ خدا کے نور سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قلب میں ہونے والے نورانی القا کے ذریعہ مومن کو پتا چلتا ہے اس کے علاوہ ظاہری ذریعہ کوئی اورنہیں ہے۔
hypnotism اور ٹیلی پیتھی والے بھی اپنے تجربات اور ریاضات و مجاہدات کی وجہ یہ چیزیں حاصل کر سکتے ہیں لیکن اُن میں اور اللہ والوں میں فرق یہ ہے کہ اللہ والے ان کی طرح ان چیزوں کے کورس نہیں کراتے، نیز اللہ والوں کا ریاضات و مجاہدات سے مقصد اصلی کشف یا لوگوں کے حالات معلوم کرنا نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ تو اپنی اصلاح اور اللہ کی رضا کے لئے اعمال و معمولات کر رہے ہوتے ہیں، بغیر نیت کئے اور بغیر مقصد کے لئے محنت کیے ان کو بھی بعض دفعہ یہ چیزیں معلوم ہونے لگتی ہیں۔ اب اِنہوں نے تو اس چیز کی کوئی محنت نہیں کی پھر بھی وہ چیز ان کو کس طریقہ سے حاصل ہو گئی، دراصل اللہ پاک نے ان کو یہ چیز عطا فرما دی۔
حضرت امام زین العابدین رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ایک جوگی کو لایا گیا۔ وہ امام صاحب کے سامنے اپنا کمال دکھانے کے لئے ہوا میں اڑنے لگا، امام صاحب نے اس کے پیچھے اپنا جوتا بھیج دیااور وہ جوتا اسے مارتا مارتا واپس لے آیا۔ پھر امام صاحب نے کرامتاً کہیں دور جنگل میں فاختہ کے گھونسلے سے دو انڈے اٹھائے اور اس سے کہا بتاؤ میرے ہاتھ میں کیا ہے؟ اس نے بہت سوچا پھر کہا کہ سب چیزیں اپنی جگہ پر ہیں، ہاں فلاں جگہ ایک گھونسلہ اس میں پہلے دو انڈے تھے اب وہ نہیں ہیں، آپ کے ہاتھ میں وہی ہوں گے۔ امام صاحب نے اس سے پوچھا کہ تجھے یہ کمال کیسے حاصل ہوا؟ اس نے کہا: میں اپنے نفس کی مخالفت کرتا ہوں۔ اگر نفس کہتا ہے کہ گرم پانی پیو تو میں ٹھنڈا پیتا ہوں، وہ اگر کہتا ہے کہ ٹھنڈا پیو تو میں گرم پیتا ہوں۔ وہ کہتا ہے اٹھ کھڑا ہو تو میں بیٹھ جاتا ہوں اور اگر کہے بیٹھ جا تو اٹھ کھڑا ہوتا ہوں غرض کسی بات میں نفس کی نہیں مانتا۔
فرمایا: آپ نے میرے لئے راستہ بڑا آسان کر دیا، چلو میں تمہیں کہتا ہوں کہ کلمہ پڑھو اور اسلام قبول کرلو۔ اس نے اس سے انکار کر دیا۔ اب امام صاحب نے اپنی پیٹھ کے پیچھے سے دو چھوٹے چھوٹے پتھر اٹھا کر ہاتھ میں رکھے اور پوچھا اب بتاؤ میرے ہاتھ میں کیا ہے؟ وہ نہیں بتا سکا اور رونے لگ گیا۔ کہتا ہے آپ نے میرا علم چھین لیا۔
فرمایاکہ میں نے نہیں چھینا تو نے خود خراب کیا، تونے خود فارمولا بتایا تھا کہ میں نفس کی نہیں مانتا اس لئے مجھے یہ کمال حاصل ہے، لیکن اب تم نے کلمہ اس لیے نہیں پڑھا کہ تمہارے نفس نے کلمہ پڑھنے سے روکا اور تم اس کی بات مان کر رک گئے۔ لہٰذا تمہارا اصول ٹوٹ گیا، اس وجہ سے اب تمہارے پاس وہ کمال نہ رہا۔ یہ سب سن اور دیکھ کر وہ ایمان لے آیا۔
اب دیکھیں جوگی نے ان سب چیزوں کے حصول کے لئے بڑی محنت کی تھی، لیکن امام صاحب نے ان چیزوں پر کوئی محنت نہیں کی تھی، انہیں اللہ نے ویسے ہی سب کچھ عطا فرما دیا تھا۔
ایک مرتبہ کیلیفورنیا سے دو بڑے زبردست اور ماہر ہپناٹسٹ یہاں ہمارے شیخ حضرت مولانا اشرف رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس میں آئے تھے۔ وہ ان چیزوں پر تحقیق کر رہے تھے، اس سلسلے میں چائنا بھی گئے تھے، جاپان بھی گئے تھے، وہاں کے پرانے جوگیوں وغیرہ کے ساتھ ملاقاتیں کیں۔ ہندوستان بھی گئے پھر اخیر میں پاکستان آئے اور پاکستان میں وہ انجینئرنگ کالج کے پرنسپل درانی صاحب کے پاس ٹھہرے۔ درانی صاحب خود ہپناٹزم کے بڑے ماہر تھے، اس حد تک ماہر تھے کہ وہ کالج کے طلبہ کے احتجاجی جلوسوں تک کو اپنی ہپناٹزم سے کنٹرول کر لیتے تھے، جب کبھی ایسا ہوتا کہ سٹوڈنٹس وغیرہ کوئی احتجاجی جلوس نکالتے یا کالج میں ہنگامہ وغیرہ کرتے تو درانی صاحب ان کے لیڈر پہ توجہ کر لیتے اور وہ اس توجہ سے متاثر ہو کر احتجاج وغیرہ ختم کر دیتا تھا۔ ان کو یہ طریقے آتے تھے۔ کیلیفورنیا کے دونوں ہپناٹسٹ کو درانی صاحب کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ ان کے پاس جاؤ یہ بڑے ماہر ہیں۔ وہ ان سے ملے اور جیسے پہلوان ایک دوسرے کو تولتے ہیں اس طرح انہوں نے ان کو دیکھا کہ ہمارے مقابلہ کا ہے یا نہیں۔ تو ان کو وہ اپنے مقابلہ کے نہیں لگے، انہوں نے کہا یہ تو ہم سے ذرا کم ہے، ان سے ہمیں کچھ حاصل نہیں ہو سکتا۔ ان دونوں سے پتا نہیں کس نے کہہ دیا کہ یہاں ایک مولانا صاحب ہیں وہ بھی اس معاملے میں کافی دسترس رکھتے ہیں، آپ ان سے بھی مل لیں۔ بس ان کی قسمت اچھی تھی کہ وہ مولانا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے پاس آئے اور ان کی مجلس میں بیٹھ گئے۔
انسان میں خود نمائی اور ظاہر داری کا جذبہ تو ہوتا ہی ہے، اس کے پاس اگر کوئی کمال کی چیز ہوتی ہے تو وہ چاہتا ہے کہ میں اس کی نمائش کروں اس کو استعمال کروں۔ انہوں نے بھی ایسا ہی کیا اور مولانا صاحب کے کسی مرید پر توجہ کی۔ مولانا صاحب کو اس کا پتا چل گیا۔ مولانا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی زبان سے بے اختیار ایک نعرہ نکلا ”الا اللہ “۔
جو ہی ان کی زبان سے یہ نعرہ نکلا تو یہ دونوں جو مرید پر توجہ کر رہے تھے، ان کا سارا معاملہ منقطع ہو گیا وہ توجہ ختم ہو گئی۔ کچھ دیر بعد جب مولانا صاحب کا دوسرا نعرہ لگا تو یہ بالکل سنبھل کے بیٹھ گیااور جب تیسرا نعرہ لگا تو وہ بول پڑا، کہنے لگا کہ
Molana Sahb for God sake please don’t do it again
کہنے لگا اگر آپ چوتھا نعرہ لگا دیں گے تو میں مرجاؤں گا۔ اس کے بعد وہ دونوں حضرت کے بڑے معتقد ہو گئے، پھر جب تک پاکستان میں رہے اکثر مولانا صاحب کے پاس آیا کرتے تھے۔ مولانا صاحب نے ان سے کہا کہ اگر تمہیں کوئی کمال دکھانا تھا تو مجھے کہہ دیتے میں تمہیں اجازت دے دیتا۔ لیکن جو تم نے کیا وہ آدابِ مہمانی کے خلاف تھا، اس طرح نہیں کرنا چاہیے۔ خیر وہ مولانا صاحب سے وابستہ رہے اور اخیر میں مسلمان بھی ہو گئے، الحمد للہ!
یہ واقعہ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ مولانا صاحب نے کہاں یہ چیزیں سیکھی تھیں، انہوں نے یہ سب چیزیں کبھی کہیں نہیں سیکھی تھیں، جبکہ ان دونوں نے تو پوری دنیا چھان ماری تھی۔ لیکن مولانا صاحب تو ساری زندگی انہی ذکر و اذکار، معمولات اور مریدوں کی اصلاح میں لگے رہے تھے۔
انسان کو اللہ پاک کی طرف توجہ رکھنی چاہیے، اللہ پاک اپنی طرف سے کچھ عنایت فرما دے تو اس کا کرم اور احسان ہو گا اور نہ دے تو بھی اس کا کرم اور احسان ہے۔
سوال نمبر8:
حضرت! کیا مختلف مجاہدوں کے نفس پر مختلف اثرات ہوتے ہیں؟
جواب:
جی ہاں! کم کھانے کے اپنے اثرات ہیں، کم سونے کے اپنے اثرات ہیں، کم ملنے جلنے کے اپنے اثرات ہیں، اسی طرح کم بات کرنے کے اپنے اثرات ہیں۔ یہ اثرات مختلف ہو سکتے ہیں اور ان کے combination سے مختلف نتائج نکالے جاتے ہیں۔
سوال نمبر9:
حضرت! ایک بات بڑی مشہور کہ نا امیدی کفر ہے۔ اس سے کیا مراد ہے؟
جواب:
نا امیدی کو کفر اس لئے کہا جاتا ہے کہ نا امیدی میں آدمی یہ سمجھتا ہے کہ اللہ پاک اس کو بدلنے پہ قادر نہیں، اسی لئے وہ مایوس ہوتا ہے۔ اور اللہ پاک کے بارے میں ایسا سوچنا تو کفر ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ تو ہر چیز پر قادر ہے وہ چاہے تو کوئی چیز بھی بدل لے۔ اللہ تعالیٰ خراب سے خراب سے حالات سے بھی اچھے حالات پیدا کر سکتا ہے وہ تو اللہ تعالی کوئی چیز دیکھتا ہے، جب وہ ہم میں وقوع پذیر ہو جائے تو حالات بدل دیتا ہے۔
مولانا یوسف کاندھلوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے سوال کیا تھا کہ حضرت آپ کا کام چیونٹی کی رفتار سے چل رہا ہے اور برائی جہاز کی رفتار سے بڑھ رہی ہے، چیونٹی جہاز کو کیسے پکڑے گی، یہ ممکن ہی نہیں ہے۔ حضرت نے فرمایا : بھئی خدا کے بندے ہم نے کب دعوی کیا ہے کہ ہم اس کو پکڑیں گے۔ ہم تو صرف ایک کوشش کرتے ہیں کہ اللہ کو پسند آ جائے اور بس۔ اگر وہ ایک دفعہ اللہ کو پسند آ گئی تو اللہ ہی پکڑوائے گا، اس کے لیے پھر کیا مشکل ہے، برائی کو پکڑنا ہمارا کام نہیں، ہمارا کام کوشش کرنا ہے۔ انسان صرف کوشش کر سکتا ہے اور اللہ پاک جب چاہے تو برے سے برے حالات سے اچھے سے اچھے حالات پیدا کر سکتا ہے۔ دیکھ لیں جنگ بدر میں کیا ہوا تھا۔ بدر میں یہ حالت تھی کہ مسلمانوں کی تعداد بھی کم، فوجی سامان بھی کم، اور جو زمین ملی وہ بھی جنگ کے لحاظ سے خراب تھی۔ مسلمانوں کو ریتلا علاقہ ملا اور کفار سخت زمین ملی جو اس وقت جنگ کے لیے مناسب تھی۔ الغرض سب ظاہری حالات مسلمانوں کے مخالف تھے۔ لیکن دیکھو اللہ کے ایک فیصلہ سے بارش ہو گئی۔ بارش کی وجہ سے ریت والا علاقہ تو ٹھیک ہو گیا اور دوسری طرف والی زمین پر کیچڑ ہو گیا۔ وہی زمین جو پہلے مسلمانوں کے لئے مناسب نہ تھی اب فائدہ مند ہو گئی۔ تو اس وجہ سے کہتے ہیں :
﴿تُخْرِ جُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَ تُخْرِ جُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ﴾ (آل عمران: 27)
ترجمہ: ”اور تو ہی بےجان چیز میں سے جاندار کو برآمد کرلیتا ہے اور جاندار میں سے بےجان چیز نکال لاتا ہے“۔
اور فرمایا:
﴿وَ عَسٰۤى اَنْ تَكْرَهُوْا شَیْـــاً وَّ هُوَ خَیْرٌ لَّكُمْۚ وَ عَسٰۤى اَنْ تُحِبُّوْا شَیْـــاً وَّ هُوَ شَرٌّ لَّكُمْؕ وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۠﴾ (البقرۃ: 216)
ترجمہ: ” اور یہ عین ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو برا سمجھو حالانکہ وہ تمہارے حق میں بہتر ہو، اور یہ بھی ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو پسند کرو، حالانکہ وہ تمہارے حق میں بری ہو، اور (اصل حقیقت تو) اللہ جانتا ہے، اور تم نہیں جانتے۔ “
مایوسی اللہ پاک کی صفتِ قدرت کے ذہن سے غائب ہونے کا نام ہے، جو کفر ہے اللہ ہم سب کو اس سے بچائے۔
سوال نمبر10:
حضرت! جب دل کی اصلاح کا process چل ہوتا ہے، اس دوران فضائل کی محنت کا اثر دماغ پر ہوتا ہے، کیا اس کے بعد دماغ دل کی مدد کرتا ہے؟
جواب:
اسے سمجھنا بہت آسان بات ہے۔ دل کے پانچ راستے ہیں جنہیں حواس خمسہ کہتے ہیں۔ دل ان راستوں سے input لیتا ہے اور ان راستوں کو input بھی دیتا ہے۔ پس اگر دل اچھا ہے تو ان کا استعمال اچھا ہو گا۔اور ان کا استعمال اچھا ہو گا تو دل اچھا ہوتا جائے گا۔ دل کو اچھا کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ آنکھ کا استعمال صحیح کرو، کان کا استعمال صحیح کرو اور زبان کا استعمال صحیح کرو اور اس کے ساتھ ساتھ ذکر بھی کرو تو دل اچھا ہونا شروع ہو جائے گا۔
مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
لب بند گوش بند چشم بند گر نہ بینی نور بر ما بہ خدن
اپنے لبوں کو سی لو، اپنے کانوں کو بند کر لو اور اپنی آنکھوں کو بھی بند کر لو پھر اگر تم اپنے دل کے اندر نور نہ پاؤ تو میرے اوپر ہنس دینا۔
خلوت کا فائدہ یہ ہے کہ جو دل آنکھ، کان، زبان اور دیگر اعضاء و جوارح کے غلط استعمال سے خراب ہو رہا ہے، وہ غلط استعمال رک جائے، تاکہ دل تک برائیوں کا اثر نہ پہنچےاور ساتھ ساتھ ذکر کرے، اس طرح دل خرابی سے ہٹ کر اچھائی کی طرف جانا شروع ہو جائے گا۔ اس کی مثال آپ یوں لے سکتے ہیں کہ بیماری میں دو چیزیں ضروری ہوتی ہیں، دوا اور پرہیز۔ یہ دونوں چیزیں ساتھ ساتھ جاری رہیں تو مریض جلدی ٹھیک ہو جاتاہے۔ اگر آپ ایک طرف علاج کرتے جائیں ساتھ بد پرہیزی بھی کرتے رہیں، تو فائدہ نہیں ہو گا۔ خلوت کی مثال بھی ایسی ہی ہےکہ خلوت پرہیز کی طرح ہے اور ذکر علاج کی طرح ہے لہٰذا خلوت اور ذکر، پرہیز اور علاج دونوں ساتھ ساتھ ہوں تو فائدہ بہت جلدی ہوتا ہے۔ دماغ بھی ایک sense ہے، یہ دل کے ساتھ interact کرتا ہے، اس لئے دماغ کا صحیح استعمال دل کے اچھے ہونے پر مبنی ہے، اور دماغ کے صحیح استعمال سے دل بھی اچھا ہوتا جائے گا۔
سوال نمبر11:
حضرت! کیا ہماری دین سے دوری حضور پاک ﷺ کے زمانہ مبارک سے دوری کی وجہ سے ہے؟
جواب:
جی بالکل! آج کے زمانے میں دین سے دور ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔ لیکن یہ واحد وجہ نہیں ہے۔ دوری کی وجہ سے فرق پڑ رہا ہے لیکن اس فرق کو اپنی کوشش اور ہمت سے کم بھی کیا جا سکتا ہے۔
لوگ کہتے ہیں صحابہ کرام تو یہ ذکر نہیں کرتے تھے، ہم جو ضربیں لگاتے ہیں، صحابہ کرام تو یہ ضربیں نہیں لگاتے تھے، یہ آج کل کا ذکر وغیرہ صحابہ کرام سے کہاں ثابت ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ خدا کے بندو !صحابہ تو آپ ﷺ کو دیکھ رہے تھے، ان کو ان سب چیزوں کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ اس کے بعد تابعین کا دور آ گیا وہ آپ ﷺ کو نہیں دیکھ رہے تھے۔ اس وجہ سے کمی آ گئی، فرق پڑ گیا۔ اس فرق اور کمی کو دور کرنے کے لئے انہیں کچھ کوشش اپنی طرف سے بھی کرنی پڑتی تھی۔ اس کے بعد نبی کریم ﷺ کے دور سے جتنی جتنی دوری آتی گئی، روحانیت میں اتنا اتنا فرق آتا گیا، اور اس روحانیت کو حاصل کرنے کے لئے اضافی کوششوں میں اتنی بڑھوتری آتی گئی۔ نتیجۃً کچھ مجاہدات بھی شامل ہو گئے، ذکر اذکار اور اشغال و مراقبات کئی چیزیں شامل ہو گئیں۔ آج کل اگر ہم نے اپنی جگہ پہ رہنا ہے تو ہمیں بہت کچھ کرنا پڑتا ہے، اگر نہیں رہنا تو پھر خرابی تو ہو ہی رہی ہے، لڑھکتے جاؤ جتنا لڑھک سکتے ہو۔ بچنا ہے تو محنت کرنی پڑے گی، ہوش سے کام لینا پڑے گا۔
سوال نمبر12:
حضرت! سجدے میں ”سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی“ اور رکوع میں ”سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْم“ پڑھتے ہیں، معنی کے لحاظ سے کچھ اتنا زیادہ فرق نہیں ہے، پھر بھی الفاظ الگ الگ رکھے گئے، اس میں کیا حکمت ہے؟
جواب:
یہ ایسی چیزیں ہیں کہ اگر آپ ان کی علتیں جان بھی لیں تو آپ کو کوئی فرق نہیں پڑے گا، اس کی وجہ یہ ہے کہ جو چیز منصوص ہو جاتی ہے اس پہ ایمان بالغیب کافی ہوتا ہے، اس کی حکمتیں تلاش کرنے کے درپے نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اس میں نقصان کا اندیشہ ہے۔ جب آپ ﷺ نے فرما دیا کہ رکوع میں ”سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْم“ پڑھ لو اور سجدے میں ”سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی“ پڑھ لو تو اس کے بعد کسی اور حکمت کا پتا نہ بھی ہو تو کوئی بات نہیں۔ معنوی لحاظ سے دونوں ایک ہی ہیں۔ ایک میں عطمت کی بات ہے، دوسرے میں علو اور رفعت کی بات ہے۔ دونوں چیزیں ایک ہی ہیں البتہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ عظیم کے سامنے انسان جھکتا ہے اور اعلی ٰکے سامنے گرتا ہے۔
سوال نمبر13:
حضرت! غصہ کو پیا کیسے جاتا ہے، یہ بعض اوقات کینے میں بھی convert ہو جاتا ہے؟
جواب:
آپ نے کسی کو غصہ پیتے ہوئے دیکھا ہے؟ میں نے دیکھا ہے، الحمد للہ! یہ ڈاکٹر حمزہ خان کا واقعہ ہے۔ بہت ہی صابر آدمی ہیں۔ ایک مرتبہ ان کو کسی نے تھپڑ مارا، لیکن انہوں نے اپنے آپ کو کنٹرول کر لیا ورنہ جواب میں یہ بھی لڑ سکتا تھا اگر وہ نہ دیکھتا کہ یہ مولانا صاحب کا گھر ہے۔ لیکن اس نے واقعتاً غصہ کو کنٹرول کیا۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ضبط کی وجہ اس کا نرخرہ اس طرح ہل رہا تھا جیسے کوئی گھونٹ بھرتا ہے۔
سوال نمبر14:
حضرت! کیا یہ غصہ جو ابھی ضبط کر لیا گیا ہے، بعد میں کسی وقت explode نہیں ہو جائے گا؟
جواب:
اگرچہ روحانیت کا لیول تو سٹور ہو جائے گا اور بعد میں نقصان پہنچائے گا لیکن اگر اس کی روحانیت زندہ ہے تو سٹور نہیں ہو گا بلکہ مجاہدہ میں convert ہو جائے گا۔ یہ چیز اس کے لئے مجاہدہ بن جائے گا۔ جیسے امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ ہوا تھا۔
ایک مرتبہ امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ کی ایک باندی ان کے ہاتھ دھلا رہی تھی کہ اس کے ہاتھ سے برتن پھسلا اور پانی امام رضی اللہ عنہ کے کپڑوں پہ گر گیا۔ امام صاحب بڑے نفیس مزاج تھے۔ باندی گھبرا گئی کہ اب تو میری شامت آ گئی۔ اس نے فوراً یہ آیت پڑھی۔
﴿وَالْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ﴾ (آل عمران: 134)
ترجمہ: ”اور جو غصے کو پی جاتے ہیں“۔
امام صاحب یہ سن کر خاموش ہو گئے اور غصہ نہیں کیا، روک دیا۔
اس نے کہا:
﴿وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ﴾ (آل عمران: 134)
ترجمہ: ”اور لوگوں کو معاف کردینے کے عادی ہیں “۔
امام صاحب نے فرمایا: میں نے تجھے معاف کردیا۔
پھر اس نے کہا:
﴿وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ﴾ (آل عمران: 134)
ترجمہ: ”اللہ ایسے نیک لوگوں سے محبت کرتا ہے۔ “
فرمایا: جا میں نے تجھے آزاد کردیا۔
دیکھیں ان کی روحانیت اعلیٰ درجہ کی تھی، مکمل اصلاح بلکہ انعام یافتہ تھے، تو ان کا غصہ کینہ میں تبدیل نہیں ہوا بلکہ انہوں نے اس کو انعام دیا۔
سوال نمبر15:
حضرت! آج کل ہمارے وضو خانے عام طور پہ بدبو دار ہوتے ہیں، اس لئے وہاں وہ وضو کی مسنون دعائیں نہیں پڑھنی چاہئیں؟
جواب:
جہاں بدبو ہو وہاں فرشتے نہیں آتے۔ دعائیں اس جگہ پر نہیں پڑھتے جہاں نجاست ظاہری پڑی ہو، وضو خانے میں بدبو تو ہوتی ہے مگر ظاہری نجاست نہیں ہوتی، اسلئے گنجائش ہے، دعائیں پڑھ سکتے ہیں۔
سوال نمبر16:
حضرت! دین ادب کا نام ہے، اور باادب با نصیب ہوتا ہے، اس بارے میں کچھ رہنمائی فرما دیجیے۔
جواب:
یقیناً دین ادب ہے۔ ادب اس کو کہتے ہیں کہ آپ کسی چیز کے مرتبے کو پہچان لیں اور اس کے مطابق اس کے ساتھ معاملہ کریں۔ دین سارا یہی ہے کہ آپ ہر چیز کو پہچان لیں کہ کون سی چیز کتنی اہم ہے، کس چیز کا کیا درجہ ہے اور اس کے ساتھ مجھے کیسا معاملہ کرنا ہے، اگر اس میں گڑبڑ ہوئی تو بے ادبی ہو جائے گی، اور بے ادبی بد نصیبی کا سبب ہے۔ دین سراسر ادب ہے توحید تو ہے ہی ادب کا نام۔ کیونکہ توحید کا عقیدہ در اصل اللہ پاک کا ادب ہے۔ اس کے علاوہ شعائرہ اللہ کی تعظیم بھی ادب ہے، اور تقریباً سارا دین انہی شعائر کی تعظیم والے اعمال پر مشتمل ہے۔ بہر حال ادب یہ ہے کہ ہر چیز کے مرتبے کو پہچانا جائے۔
سوال نمبر17:
حضرت فارسی کا ایک شعر ہے، جس کا ترجمہ ہے کہ ایسے مت بنو کہ ظاہر با یزید کی طرح اور باطن یزید کی طرح ہو۔ اس کے بارے میں رہنمائی فرما دیں۔
جواب:
اصل میں یہ ان لوگوں کے بارے میں کہا گیا ہے جو باطن کا خیال ہی نہیں رکھتے صرف ظاہر داری اور تصنع کرتے ہیں۔ مصنوعی رکھ رکھاؤ کرتے ہیں اصل چیز کی طرف نہیں جاتے، ان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ان کا ظاہر بایزید کی طرح ہے اور باطن یزید کی طرح ہے۔ ہاں اگر کسی کا معاملہ ایسا نہیں ہے، وہ تصنع نہیں کرتا لیکن ابھی progress میں ہے، اس کا ظاہر کسی حد تک ٹھیک ہے اور باطن بھی کچھ نہ کچھ ٹھیک ہے تو ایسا آدمی اس شعر کے تحت نہیں آتا۔
سوال نمبر18:
حضرت! کہا گیا ہے : ” اَلْحُبُّ فِی اللّٰہ وَالْبُغْضُ فِی اللّٰہ“ یعنی کسی سے بغض ہو تو اللہ کی محبت میں ہو اور کسی سے محبت ہو تو بھی اللہ کی محبت کی وجہ سے ہو۔
اس سلسلے میں سوال ہے کہ کسی سے بغض رکھنا ہو تو اس کی برائی سے رکھا جائے گا یا اس کی ذات سے؟ مثلا! کافر کے کفر سے دشمنی رکھنی ہے یا اس کی ذات سے رکھنی ہے، اسی طرح مسلمان اگر برا عمل کرتا ہے تو اس کے عمل سے بغض رکھنا ہے یا اس کی ذات بغض رکھنا ہے؟
اسی طرح ایک مسلمان دین کے کسی شعبے کی مخالفت کرتا ہے تو بغض صرف اس کی ذات سے رکھنا ضروری ہے یا اس کے عمل سے رکھنا ضروری ہے؟
جواب:
ایک کلیہ ہے کہ جتنا جتنا حب بڑھے گا اتنا اتنا اس کے منفی سے بغض بڑھے گا۔ یہ دو چیزیں proportional ہیں، بغض نہ ہونا در اصل اس بات کی علامت ہے کہ حب نہیں ہے۔
دیکھیں ایک آدمی گناہ کر رہا ہے لیکن وہ اسلام کو کچھ نقصان نہیں پہنچا رہا یا کسی مسلمان کو نقصان نہیں پہنچا رہا، صرف اپنے آپ کو نقصان پہنچا رہا ہے تو آپ اس کی برائی سے بغض رکھیں مگر اس کی ذات سے نہ رکھیں۔ لیکن جو اسلام کے مقابلے میں آئے گا، اس کی تو ذات سے ہی بغض رکھنا پڑے گا کیونکہ وہ اپنی ذات کو اسلام دشمنی میں استعمال کر رہا ہے۔ مثلاً اگر آپ کی طرف تلوار بڑھ رہی ہے تو کیا خیال ہے آپ تلوار کی کاٹ سے بغض رکھیں گے، تلوار سے رکھیں گے یا تلوار چلانے والے سے رکھیں گے۔ آپ کو تینوں سے ہی بغض ہو جائے گا۔ لہٰذا جو اسلام دشمن ہو اس کی ذات سے بھی بغض ہو جاتا ہے، اس کے بغیر دفاع ہی نہیں ہو سکتا۔
سوال نمبر19:
حضرت اس بارے میں یہ سنا ہے کہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا حُب کی طرف زیادہ رجحان تھا اور حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ کا بغض کی طرف زیادہ رجحان تھا۔
جواب:
ہر انسان میں حب و بغض دونوں عنصر ہوتے ہیں، ہاں ان کے اظہار کا طریقہ مختلف ہو سکتا ہے، یہ ہر آدمی کی اپنی طبیعت اور ذوق پر منحصر ہے کہ وہ اپنے کون سے پہلو کو ظاہر کرتے ہیں اور کون سے کو چھپا کے رکھتے ہیں، یہ ان کے مزاج پر منحصر ہوتا ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کو بھی گناہوں اور گناہ گاروں سے بہت بغض ہوتا تھا، آپ ان کی کتاب’’ تربیت السالک‘‘ پڑھ لیں، آپ کو اس بات کی سمجھ آ جائے گی۔
حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ فتنوں کے خلاف کام کرتے تھے اس لئے انہیں ردّ زیادہ کرنا ہوتا تھا، اور اسلام دشمن فتنوں کا ردّ کرتے ہوئے ان سے بغض کا پہلوظاہر ہوجاتا ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ لوگوں کی اصلاح کا کام کرتے تھے، اللہ تعالی کے ساتھ ان کی محبت بڑھا رہے تھے تاکہ ان کے رذائل ختم ہو جائیں تو اس کا اظہار حُب والے انداز سے ہوتا تھا، لیکن در حقیقت دونوں حضرات میں حُب فی اللہ بھی تھا اور بُغض فی اللہ بھی تھا۔ صرف نوعیت کا فرق ہونے کی وجہ سے اظہار مختلف انداز میں ہوتا تھا۔
سوال نمبر20:
اگر ایک مسلمان آدمی اسلام اور مسلمانوں کی مخالفت تو نہیں کرتا لیکن مذاق اڑاتا ہے، یا دین کے کسی کام کی مخالفت کرتا ہے، کیا اس کی ذات سے بغض رکھنا ہوگا، کیونکہ وہ اپنی ذات کو اس کے لئے استعمال کر رہا ہے۔
جواب:
جی بالکل درست کہا۔ کیونکہ اگر اسے اس بغض کی سزا ملے گی تو وہ سزا اس کی ذات پر نافذ ہوگی، اس لئے اگر اس سے بغض رکھا جائے گا تو اس کی ذات سے ہی رکھنا ضروری ہے۔
دین کی مخالفت کرنے والے کا بھی یہی حکم ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ آپ کا کام خراب کر رہا ہے۔
سوال نمبر21:
حضرت ! ظاہر کی اصلاح اور باطن کی اصلاح کے بارے میں کچھ وضاحت فرما دیں۔
جواب:
ظاہر چھلکا ہے، برتن ہے، ظرف ہے اور باطن اس چھلکے کے اندر کا گودا ہے، ظرف کے اندر رکھا ایک مظروف ہے۔ آپ دودھ پینا چاہیں تو برتن کے بغیر نہیں پی سکتے، برتن تو ساتھ رکھنا ہی ہو گا۔
مثلاً نماز ایک خاص ذکر کو اپنے اندر لیے ہوئے ہے جس کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اگر نماز نہیں ہو گی تو وہ ذکر کا حکم کیسے پورا ہوگا۔ اس ذکر کے لئے نماز ضروری ہے۔ فرمایا:
﴿ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِی﴾ (طٰهٰ: 14)
ترجمہ: ”اور مجھے یاد رکھنے کے لیے نماز قائم کرو۔ “
اب اگر کوئی آدمی کہہ دے کہ بس میں ذکر کر لیتا ہوں نماز کی ضرورت نہیں ہے، تو یہ ذکر ادا نہیں ہوگا۔ کیونکہ اس ذکر اور یاد کا طریقہ ہی نما زہے، یہ اس کے بغیر ہو ہی نہیں سکتا۔
ظاہر پہلے آتا ہے، باطن اس کے بعد آتا ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ باطن بن جائے اور ظاہر نہ بنے۔ ظاہر کے نہ بننا علامت ہے کہ ابھی باطن نہیں بنا۔ البتہ ظاہر بن جائے تو یہ لازم نہیں کہ پورا باطن بن گیا۔ ظاہر کا بننا اس بات کی علامت نہیں کہ پورا باطن بن گیا۔ ابھی اس کی اصلاح ہونا باقی ہے۔ جس شخص کا ظاہر خراب ہو،اس کا باطن ٹھیک نہیں ہو سکتا۔ البتہ جس کا ظاہر ٹھیک ہے،ضروری نہیں کہ اس کا باطن بھی پورا ٹھیک ہو۔
باطن کا اثر ظاہر پر ہوتا ہے اور ظاہر کا باطن پہ ہوتا ہے۔ اگر کوئی آدمی ظاہری نماز پر محنت کرے گا تو اس کا اثر باطن پر بھی پڑے گا۔ اللہ نے فرمایا ہے:
﴿اِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ ۗ وَلَذِكْرُ اللّٰهِ أَكْبَرُ﴾ (العنکبوت: 45)
ترجمہ: ”بیشک نماز بےحیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے۔ اور اللہ کا ذکر سب سے بڑی چیز ہے۔ “
اس سے معلوم ہوا کہ نماز ظاہری چیز ہے لیکن اس کا اثر باطن پہ پڑتا ہے۔
اور فرمایا:
﴿كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ﴾ (البقرۃ: 183)
ترجمہ: ”اے ایمان والو ! تم پر روزے فرض کردیئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے، تاکہ تمہارے اندر تقوی پیدا ہو “۔
روزہ ظاہری چیز ہے لیکن روزہ رکھنے سے جو تقویٰ حاصل ہوتا ہے وہ باطنی چیز ہے، اس سے پتا چلا کہ ظاہری اعمال کا باطن پر اثر پڑتا ہے۔
سوال نمبر22:
حضرت اکثر دیکھا جاتا ہے کہ کیفیت سے نماز پڑھ رہے ہیں لیکن اس کی تاثیر نہیں ہو رہی۔
جواب:
اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ نماز میں کچھ چیزیں پوری نہیں ہوتیں، مثلاًنماز کا سجدہ، رکوع وغیرہ تو ہے لیکن خشوع خضوع نہیں ہے، عاجزی نہیں ہے۔ اس وجہ سے پورا فائدہ بھی نہیں ہوتا۔ اور یہ چیزیں آپ ظاہری آنکھ سے دیکھ نہیں سکتے۔ اس لئے آپ کو ان کی نماز تو نظر آئے گی لیکن دل و دماغ کی حالت نظر نہیں آئے گی اور آپ صرف ظاہری عمل کو دیکھ کر کہیں گے کہ نماز کی وجہ سے اس کی اصلاح کیوں نہیں ہوئی۔ حالانکہ نماز کی وجہ سے جتنی اصلاح ہے وہ بھی نماز ہی کی برکت سے ہے لیکن بات یہ ہے کہ ابھی وہ چیزیں پوری نہیں ہوئیں جو نماز کا حصہ ہوتی ہیں وہ پوری ہو جائیں تو پھر اثر ہو جائے گا۔
سوال نمبر23:
حضرت کئی مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ بندہ کسی آدمی کو تصوف کی طرف راغب کرنے کے لئے بات چیت کرتا ہے، تو وہ پوری بات سن کر پوچھتا ہے کہ آپ نے اتنا عرصہ تصوف میں گزارا ہے آپ کو اس سے کیا ملا ہے؟ اس کا کیا جواب دیا جائے؟
جواب:
آپ ان سے کہا کریں: مجھے کہ کم از کم گناہ کا پتا ہے اور کم از کم اتنا احساس ہے کہ جب گناہ ہو جاتا ہے تو اس پہ شرمندہ ہوتا ہوں۔ تصوف سے مجھے یہ چیز اللہ پاک نے دی ہے کہ جب گناہ ہو جاتا ہے تو شرمندہ ہو جاتا ہوں اور جب نیک کام ہو جاتا ہے تو اس پہ اللہ پاک خوشی نصیب فرما دیتے ہیں، مجھے نیک لوگ مجھے پسند ہیں، برے لوگوں کے ساتھ میرا دل نہیں ملتا۔ تصوف سے بس یہ چیز ملی ہےاور یہ بہت بڑی چیز ہے۔
سوال نمبر24:
ایک اہل دل اور ایک غیر اہل دل آدمی، یہ دونوں کسی نصیحت کرتے ہیں کہ نماز پڑھا کرو۔ ان دونوں کی نصیحت میں کیا فرق ہو گا؟
جواب:
جب اہل دل یہ بات کہتا ہے تو اس کی بات میں اس کے دل کی قوت شامل ہے، للہیت شامل ہے اور اپنے آپ کو عاجز و گناہ گار سمجھ کر کہنا شامل ہے۔ اہل دل کے لیے یہ بات بہت آسان ہے کہ وہ اپنے آپ کو گناہ گار سمجھیں اور جسے نصیحت و تبلیغ کر رہے ہیں اس کو اپنے سے افضل سمجھیں،اس کام کو بہت زیادہ افضل سمجھیں اور اس کو خیر خواہی کے طور پر دعوت دیں۔ جبکہ غیر اہل دل آدمی اپنے دل میں اسے گناہ گار سمجھے گا، اپنے آپ کو اچھا سمجھے گا اور اس کی برائی کو دور کرنے کی نیت سے کہے گا کہ میں تو اچھا ہوں یہ اچھا نہیں، نیتوں میں بڑا فرق ہے۔ اور اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ لہٰذا غیر اہل دل کی طرف سے نصیحت کا وہ اثر نہیں ہو گا جو اہل دل کا ہو گا۔
تبلیغ کے اصول میں ہے کہ جب کوئی کسی کو دعوت دے تو جس کو دعوت دے رہا ہے اسے اپنے آپ سے اچھا سمجھے۔ اسے اپنے آپ سے افضل سمجھے، پھر تبلیغ کا اثر ہو گا ورنہ نہیں ہو گا بلکہ اگر اسے کم تر سمجھو گے تو الٹا اثر ہو گا اور اپنے آپ کو کمتر سمجھنا دوسرے کو افضل سمجھنا، یہ کام کوئی اہل دل ہی کر سکتا ہے اور اس بات کی سمجھ بھی اسی کوہو گی جو اہل دل ہو گا۔
یقین جانیے مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ اور یہ حضرات اپنے آپ کو سب سے زیادہ گناہ گار سمجھتے تھے۔ وہ جب کسی کو دعوت دیتے تھے تو اپنے آپ کو سب سے کمتر اور دوسرے کو افضل سمجھتے تھے۔ ہم نے اپنے بزرگوں سے سنا جو ہمیں ہدایات دیتے تھے کہ جب آپ کبھی کسی جگہ پر دعوت کے لیے جائیں تو یہ سوچیں کہ یہ ہم سے بہتر لوگ ہیں، تبھی ہمیں ان کے پاس ان کی دینی خدمت کے لیے بھیجا گیا ہے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن