اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال نمبر1:
نہ چاہتے ہوئے بھی بچوں کی کسی حرکت کی طرف نماز میں دھیان رہتا ہے۔ ایسی صورت میں خشوع و خضوع والی نماز کا اہتمام کیسے ہو؟ سوا چار سالہ بچہ بھی نماز میں پیچھے سے کھینچتا ہے اور کبھی دوسرے طریقوں سے توجہ منتشر کرتا ہے۔
جواب:
ایک بات یاد رکھنی چاہیے کہ اللّٰہ جل شانہ کے ہاں ہر چیز پہ نظر ہوتی ہے۔ انسان جو کام نہیں کر سکتا اس کا مطالبہ بھی اس سے نہیں ہوتا۔ انسان جتنا کر سکتا ہے اتنا ہی مطالبہ ہوتا ہے۔
﴿لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا﴾ (البقرہ: 286)
ترجمہ: ”اللہ کسی بھی شخص کو اس کی وسعت سے زیادہ ذمہ داری نہیں سونپتا“۔
جب یہ بات سمجھ میں آ گئی تو اب یہ سمجھیں کہ بچے تو نا سمجھ ہوتے ہیں وہ اپنی نا سمجھی کی وجہ سے کوئی بھی حرکت کر سکتے ہیں۔ اگر ان کی نا سمجھی کی وجہ سے ماں کا دل ان کی طرف لگا رہتا ہے تو اس سے نماز میں خشوع و خضوع کا نقصان نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک ماں کا خشوع و خضوع اتنا ہی ہو سکتا ہے۔
حضرت صوفی اقبال صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ نے ایک چھوٹی سی کتاب لکھی ہے: ”ٹھیلے والے کی نماز“۔ اس میں حضرت صوفی اقبال صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ایک بہت اہم بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ایک ریٹائرڈ آدمی جو اطمینان اور خشوع و خضوع کے ساتھ اپنی نماز پڑھ رہا ہے، وہ اس ٹھیلے والے کی نماز تک نہیں پہنچ سکتا جسے ہر وقت یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ بچے میرے ٹھیلے کو لے نہ جائیں۔ اس نے بڑی مشکل سے اپنا ٹھیلا کھڑا کیا ہوتا ہے اور نماز میں مشغول ہوتا ہے۔ اس کی نماز اُس افسر کی نماز سے زیادہ اعلیٰ درجہ کی ہے۔ اس لئے کہ اس کا مجاہدہ زیادہ ہے اور مجاہدہ کے بارے میں میں ارشاد ہے:
﴿وَ الَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا﴾ (العنکبوت: 69)
ترجمہ: ”اور جن لوگوں نے ہماری خاطر کوشش کی ہے، ہم انھیں ضرور بالضرور اپنے راستوں پر پہنچائیں گے“۔
دیکھئے۔ یہاں فرمایا کہ جو میرے راستے سے مجھ تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نماز بھی خدا تک پہنچنے کا ایک راستہ ہے۔ اور فرمایا کہ جو مجھ تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں میں ضرور بالضرور ان کو ہدایت کے راستے سجھاؤں گا۔ یہ اللّٰہ پاک کا وعدہ ہے۔ لہذا انسان جتنا کر سکتا ہے اتنا تو ضرور کرے اس میں غفلت نہ کرے۔
اللّٰہ پاک دلوں کے حال جانتا ہے۔ لہذا اگر کوئی اس میں ڈنڈی مارتا ہے تو اس کے بارے میں اللّٰہ کو بخوبی پتا ہے کہ یہ کر سکتا ہے مگر نہیں کرتا۔ اور جو نہیں کر سکتا اس کے بارے میں بھی اللّٰہ جل شانہ کو پتا ہوتا ہے کہ جتنا یہ عام حالت میں کر سکتا تھا اِس حالت میں اتنا نہیں کر سکتا۔ اس لئے اللہ پاک اُسے اس عمل کا اجر بھی عطا فرما رہا ہے جو یہ اس حالت میں نہیں کر پا رہا۔ کیونکہ معذور کے لیے یہی حکم ہے۔ اگر کوئی شخص صحت مند ہے اور سفر میں بھی نہیں ہے، تو جس طرح وہ معمولات ادا کر رہا ہے، سفر میں جانے کی وجہ سے ان معمولات میں حرج ہو تو اسے ان معمولات کا ثواب اسی طرح مل جاتا ہے اور اگر وہ معذور ہو جائے تو معذوری میں بھی اسے ان معمولات کا ثواب ویسے ہی ملتا ہے جیسے صحت کی حالت میں ملتا تھا۔
اس لیے اکثر میں عرض کرتا رہتا ہوں کہ جوانی میں معمولات سیکھ لو اور یہ معمولات کر لو تو ان شاء اللّٰہ بڑھاپے میں ان کا اجر ملتا رہے گا۔ اور اگر جوانی میں نہیں کیا تو بڑھاپے میں بالکل نہیں کر سکو گے، لہٰذا اجر نہیں ملے گا۔ اجر تب ملے گا جب جوانی میں یہ معمولات کر چکے ہو گے۔
اس وجہ سے اس مسئلہ پر آپ کو اپنا دل خراب نہیں کرنا چاہیے۔ اپنی طرف سے پوری کوشش کرنی چاہیے کہ فرائض اور واجبات میں خلل نہ ہو۔ فرائض و واجبات آسان ہیں۔ مثلاً سینہ قبلہ سے 45 درجے سے زیادہ نہ پھرے۔ اگر نمازی کا سینہ قبلہ کے رخ سے 45 درجے سے کم پھرا ہے تو اس سے نماز نہیں ٹوٹتی، اگر 45 درجے سے زیادہ پھر گیا تو نماز ٹوٹ جائے گی۔ لہذا اپنے سینے کو اس حد تک قائم رکھا جائے کہ 45 درجے سے زیادہ نہ پھرے۔
دوسری بات یہ ہے کہ الفاظ میں کوئی غیر عربی لفظ نہیں آنا چاہیے۔ زبان سے ایسی کوئی ادائیگی نہ ہو۔ مثلاً بچے کو یہ نہ کہے کہ دور ہو جاؤ۔ ایسا کرنے سے نماز ٹوٹ جائے گی۔ یہ اصول یاد رکھیں کہ اگر ایک ہاتھ سے کوئی حرکت ہو تو اس سے نماز نہیں ٹوٹتی بشرطیکہ ایک رکن میں تین یا تین سے زیادہ دفعہ نہ ہو۔ جیسے مفتیان کرام نے موبائل کو بند کرنے کی اجازت دی ہے۔ اسی طرح بچے کو بھی اس طریقے سے ہٹانے کی اجازت ہے کہ اگر وہ سجدے کے درمیان حائل ہو رہا ہو تو سجدے والی جگہ سے ہٹا کے سجدہ کر لے۔
ان چیزوں کی گنجائشیں سیکھنی چاہئیں۔ یہ بھی علم کا حصہ ہے۔
سوال نمبر2:
جو لوگ دین کے مخالف ہیں انہیں تبلیغ کرتے ہوئے بعض اوقات ان کا اثر سالک پر پڑنے لگتا ہے۔ تبلیغ کرتے ہوئے ان اثرات سے کیسے محفوظ رہا جائے؟
جواب:
”صحبتِ نا جنس“ اسی کو کہتے ہیں۔ صحبتِ نا جنس سے پرہیز، یہ یکسوئی کو بچانے کے لیے ہے۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں کہ ”یکسوئی ہو چاہے پاس ایک سوئی بھی نہ ہو۔“
یکسوئی اتنی اہم چیز ہے کہ آپ حتی الامکان اس کو متاثر نہ ہونے دیں۔ صحبتِ نا جنس میں جانے سے یکسوئی خراب ہوتی ہے کیونکہ نا جنس لوگوں کی باتیں وساوس ہوتی ہیں۔ جیسے شیطان وسوسے ڈالتا ہے اسی طرح ان لوگوں کی باتیں بھی وساوس ہوتی ہیں۔ مثلاً وہ لوگ آپ کے شیخ کے بارے میں کوئی ایسی بات کر دیں گے کہ آپ کو غصہ آئے گا یا آپ کے دل میں کوئی تردد اور الجھن پیدا ہو جائے گی۔ یہ دونوں صورتیں خطرناک ہیں۔ اس وجہ سے انسان ایسے لوگوں سے بچے اور ایسے لوگوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے اجتناب کرے جن کی طرف سے اس بات کا خطرہ ہو کہ سلسلے کے بارے میں کوئی بات کہیں گے یا شیخ کے بارے میں کوئی ایسی بات سننی پڑے گی۔ تاکہ دل میلا نہ ہو اور معمولات کا بھی حرج نہ ہو۔ ایسے لوگوں کو ﴿وَ اِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا﴾ (الفرقان: 63) کے عنوان سے دفع کرنا چاہیے۔
قرآن پاک کی ہدایت ہے کہ جس وقت جاہل لوگ اس قسم کی باتیں کرنے لگیں تو ان کو لطائف الحیل سے ٹال دینا چاہیے۔ اس طریقے سے انسان کی حفاظت ہو جاتی ہے۔ اگر کوئی آدمی بے دین لوگوں کو تبلیغ کے نقطہ نظر سے اپنے قریب کرتا ہے تو اس میں بڑی حکمت کی ضرورت ہے۔ کہ اپنے دین کا حرج بھی نہ کریں اور ان کو فائدہ بھی پہنچائیں۔ اپنے دین کا حرج کر کے دوسروں کو فائدہ پہنچانا درست نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فقہ کا مشہور کلیہ ہے کہ جلبِ منفعت سے دفعِ مضرت اہم ہے۔ اگر آپ کو ایک کام سے فائدہ بھی ہو رہا ہو اور کچھ نقصان بھی ہو رہا ہو تو نقصان سے بچنا لازم ہے۔ اگر وہ استحبابی فائدہ ہو تو اس سے بچنا چاہیے۔
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک مشہور مقولہ ہے کہ ”دوسروں کے جوتوں کی حفاظت کے لیے اپنی گٹھڑی کو گم نہ کریں“۔
انسان کو کسی کا اتنا ہی خیال رکھنا چاہیے جتنا وہ اپنے آپ کو بچا کے رکھ سکتا ہے۔ اگر خود کو نقصان پہنچتا ہو تو پھر انسان کو ایسا کام نہیں کرنا چاہیے۔
جہاز میں سفر کرنے والوں کو معلوم ہو گا کہ جہاز میں سفر کی ہدایات میں ایک ہدایت یہ بھی ہوتی ہے کہ اگر آکسیجن کم ہو جائے تو آپ کے سامنے آکسیجن ماسک گرے گا۔ سب سے پہلے وہ اپنے آپ کو لگائیں اس کے بعد اگر کوئی بچہ آپ کے پاس ہے تو اس کو لگائیں۔
میں سوچ رہا تھا کہ اس میں کیا حکمت ہے۔ معلوم ہوا کہ اس میں یہ حکمت ہے کہ اگر آپ بچے کو ماسک پہلے لگانے لگ جائیں اور اس دوران آپ خود بے ہوش ہو جائیں تو بچہ بھی گیا اور آپ بھی گئے۔ دو جانیں ضائع ہو جائیں گی۔ لیکن اگر آپ پہلے اپنے آپ کو ماسک لگاتے ہیں تو آپ نے اپنے آپ کو بچا لیا، جب خود بچیں گے تو بچے کو بھی بچا سکیں گے۔ پہلی صورت میں دونوں کی جان جانے کا خطرہ ہے، دوسری صورت میں دونوں کی حفاظت ہے۔ اس لیے وہ تجربے کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ پہلے اپنے آپ کو بچاؤ پھر اپنے ساتھ والے کو بچاؤ۔ یہ بات حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے ان الفاظ میں فرما دی کہ دوسروں کے جوتوں کی حفاظت کے لیے اپنی گٹھڑی کو گم نہ کرو۔
اس بات کو اس مثال کے ذریعے بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ مثلاً کوئی ہیرا نالی میں گر گیا ہے تو ہیرا اٹھانا لازم ہے، کیونکہ اگر ہیرا نہ اٹھایا تو بڑا نقصان ہے۔ لیکن جب آپ اس کو اٹھانے کے لیے نالی میں جائیں گے تو آپ کے ہاتھ بھی میلے ہوں گے، پیر بھی میلے ہوں گے اور کپڑے بھی میلے ہوں گے۔ اُس وقت آپ کے پاس پانی، لوٹا، صابن تولیہ وغیرہ کا انتظام ہونا چاہیے۔ اسی طرح اگر آپ ایسے لوگوں میں تبلیغ کرنا چاہتے ہیں جن کا اثر آپ کے اوپر پڑنے کا اندیشہ ہے تو پھر اپنی حفاظت کے انتظامات ساتھ رکھیں۔ اگر ایسا نہیں کریں گے تو اپنے آپ کو نقصان پہنچائیں گے۔ دین کا کام کرنے والوں کے لیے لازم ہے کہ وہ پہلے اپنی حفاظت کا بندوبست کریں۔
مجھے ایک کمپاؤنڈر نے یہ بتایا کہ ایک دفعہ ایک علاقے میں ہیضہ پھوٹ پڑا تھا۔ اس علاقے میں ڈاکٹروں اور کمپاؤنڈروں کی ٹیمیں بنا کر بھیجی گئی تھیں۔ جب ہم وہاں کام کر رہے تھے تو ہمیں بہت اعلیٰ قسم کا کھانا کھلایا جاتا تھا اس کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ ہمارے جسم کی ساری ضروریات پوری ہو جائیں تاکہ ہمارے جسم کی مزاحمت اچھی طرح قائم رہے۔ اگر ہمارے اوپر ہیضہ کے جراثیم حملہ کر لیں تو ہمیں گرا نہ سکیں۔ کیونکہ مزاحمت کے لحاظ سے کمزور شخص پر جراثیم جلدی اثر کرتے ہیں۔
اسی طریقے سے ایسے لوگوں کو اپنی اصلاح کی طرف زیادہ توجہ دینی ہوتی ہے اور رات کے معمولات پہ کافی زور لگانا پڑتا ہے تہجد اور ذکر اذکار کا خصوصی اہتمام کرنا پڑتا ہے تاکہ اگر خدانخواستہ کسی کے دل کا اثر اس کے دل پہ پڑے تو مدافعتی نظام موجود ہو اور اِسے کوئی نقصان نہ ہو۔
دل پر دوسروں کے خیالات کا اثر پڑتا ہے۔ کیونکہ دل ایک سرکاری سڑک کی طرح ہے۔ اس پر ہر ایک پھرتا ہے۔ اس پہ شریف لوگ بھی جا رہے ہوتے ہیں اور رذیل لوگ بھی جا رہے ہوتے ہیں۔ اس پہ بہت ہوشیار لوگ بھی جا رہے ہیں اور بے وقوف بھی جا رہے ہوتے ہیں۔ بڑے بوڑھے، بچے، عورتیں اور مرد سب اس پر جا رہے ہوتے ہیں۔ آپ کسی دوسرے کو قابو نہیں کر سکتے بلکہ آپ کو خود اپنی حفاظت کرنا ہوتی ہے۔
اگر کسی کو اس قسم کے خیالات و وساوس آتے ہیں تو اسے اپنے مراقبہ میں اس کے اوپر توجہ کرنی چاہیے۔ مثلاً جب وہ کہے: ”لَاۤ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ لَاۤ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ لَاۤ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ“۔ تو ”لَاۤ اِلٰہَ“ کے ساتھ یہ تصور ہو کہ میرے دل سے دنیا کی محبت نکل رہی ہے اور ”اِلاَّ اللّٰہ“ کے ساتھ مسلسل یہ تصور چل رہا ہو کہ میرے دل میں اللّٰہ پاک کی محبت آ رہی ہے۔ انسان کا خیال ایک وقت میں دو چیزوں کی طرف نہیں جا سکتا۔ یہ فلسفے کا مسئلہ ہے کہ ایک وقت میں دو چیزوں کی طرف خیال نہیں جا سکتا۔ اگر آپ نے اپنے آپ کو اِس خیال میں مشغول کر دیا تو دوسرا خیال نہیں آئے گا۔ یہ کام آپ اختیاری طور پر کر سکتے ہیں، اس لئے جب اختیاری طور پر یہ کریں گے تو غیر اختیاری چیزوں سے بچ جائیں گے۔
بوتل میں ہوا ہو تو اسے نکالنے کا طریقہ یہ ہے کہ اس میں پانی ڈال دو، ہوا نکل جائے گی۔ اگر بوتل میں پانی نہیں ڈالو گے تو ہوا موجود رہے گی۔ آپ کو یہ بات پتا ہے کہ اگر آپ بوتل کو پانی سے بھر لیں اور سیدھا کر لیں تو اس میں سے پانی نیچے نہیں گرتا، کیونکہ پانی کا دباؤ نیچے سے اس کو روک رہا ہے۔ اگر آپ اس طرح کر لیں کہ اس میں تھوڑا سا ٹائٹ کر لیں، تھوڑا سا پانی slip ہو جائے تو اس میں ہوا گھس جائے گی، ہوا کو راستہ مل گیا لہذا پانی ادھر چلا جائے گا۔ ایسی صورت میں جب پانی نکلتا ہے تو وہ بھی گھونٹ گھونٹ کر کے نکلتا ہے، اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہوا مسلسل اپنا ایک راستہ بنا رہی ہے اور پانی اپنے اندر راستہ بنا رہا ہے، دونوں کے درمیان مقابلہ ہے کبھی پانی غالب ہے اور کبھی ہوا غالب ہے۔
اسی طرح اپنے آپ کو مشغول کرنا چاہیے۔ اگر درمیان میں فاصلہ کافی زیادہ ہو جائے پھر تو بہتری کی نیت سے دوبارہ نئے سرے سے شروع کیا جائے اور اگر فصل کم رہا ہے، کچھ دیر کے لئے رہا ہے تو پھر وہیں سے شروع کر دیں۔
سوال نمبر3:
حضرت میں نے ایک بات نوٹ کی ہے کہ اگر مراقبہ ایک مقررہ وقت پر کیا جائے تو وہ زیادہ اچھا ہوتا ہے۔ اس کے بر عکس جب مختلف اوقات میں کیا جائے تو ایسا نہیں ہوتا۔ مراقبہ کا معاملہ ایسا ہے تو کیا باقی معمولات میں بھی ایسے ہی ہوتا ہے؟
جواب:
یہ ان (سائل) کا مشاہدہ ہے کہ اگر ایک مقررہ وقت میں مراقبہ کروں، مثلاً روزانہ اگر ظہر کے بعد کرتا ہوں تو ٹھیک رہتا ہے لیکن اگر کبھی ظہر کے بعد کبھی عصر کے بعد کبھی مغرب کے بعد اور کبھی عشاء کے بعد کروں تو پھر ویسا نہیں رہتا۔
کیونکہ انسان کا جسم ایک نفسیاتی نظام ہے، یہ ایک با قاعدگی چاہتا ہے۔ اس میں بے قاعدگی سے انتشار آتا ہے۔ آپ کو پتا ہو گا کہ بعض لوگوں کو کسی اور کے بستر پر نیند نہیں آتی کیوں کہ وہ بستر اگرچہ آرام دہ ہوتا ہے لیکن یہ اس کے ساتھ عادی نہیں ہوتے۔ صرف خلاف عادت ہونا بھی پریشان کرتا ہے۔ اگر آپ نے اپنی ایک عادت بنا لی ہے تو اس عادت کی خلاف ورزی کرنے سے پریشانی ہوتی ہے۔
یہ جو حافظ قرآن ہوتے ہیں۔ اگر کسی نے 16 سطری قرآن مجید سے حفظ کیا ہوا ہو وہ 15 سطری سے یاد نہیں کر سکتا۔ حالانکہ آج کل 15 سطری زیادہ بہتر ہے کیونکہ اس میں آیات پوری پوری ہیں۔ 16 سطری قرآن مجید میں (صفحہ کے اواخر میں) آیات ٹوٹ جاتی ہیں۔ لیکن جو لوگ 16 سطری سے پڑھ چکے ہوں وہ 15 سطری کو ہاتھ بھی نہیں لگاتے۔ میرا بیٹا حافظ ہے۔ ایک صاحب جو تھوڑے سے حافظ ہیں انہوں نے کچھ پارے یاد کیے ہوئے ہیں۔ وہ کہہ رہے تھے کہ لوگ 15 سطری پہ کیوں نہیں پڑھتے ہیں حالانکہ اس میں پوری پوری آیات ہیں۔ میرے بیٹے نے ان سے پوچھا کہ آپ کون سا نسخہ استعمال کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا: 16 سطری۔ اس نے کہا: بس جواب مل گیا دیکھیں آپ خود بھی یہی کرتے ہیں۔
ایسا ہوتا ہے۔ انسان کا مزاج عادت پسند ہے۔ جب عادت بن جاتی ہے، چاہے وہ عادت بیٹھنے کے لحاظ سے ہو چاہے وہ وقت کے لحاظ سے ہو، تو جب اس عادت کی موافقت ہو رہی ہوتی ہے تو یکسوئی جلدی حاصل ہو جاتی ہے انتشار نہیں رہتا۔ اگر اس کی پابندی نہ کی جائے تو انتشار رہتا ہے جس کی وجہ سے مسئلہ ہوتا ہے۔
سوال نمبر4:
اگر کسی روز معمولات چھوٹ جائیں تو اس کی تلافی کیسے ہو گی، ملامت اور ندامت سے ہو گی یا کسی اور طریقے سے ہو گی؟
جواب:
اچھا اور عملی سوال ہے۔
انسان اپنے نفس کو راستہ نہ دے ورنہ یہ بڑا ہی مکار ہے، بے حد مکار ہے، مکر میں specialist (ماہر) ہے۔
اول تو معمولات چھوٹنے نہیں چاہئیں۔ بہتر یہی ہے کہ معمولات مقررہ وقت پر کیے جائیں۔ اگر معمولات چھوٹنے کا اندیشہ ہو۔ مثلاً ظہر کے بعد کرنے کا معمول تھا مگر ظہر کے بعد نہ کر سکے تو عصر کے بعد کر لے۔ عصر کے بعد نہ کر سکے تو مغرب کے بعد کر لے۔ کیونکہ بالکل نہ کرنے سے بے قاعدہ کرنا افضل اور بہتر ہے۔ بالکل چھوٹ جانے سے بے قاعدہ طور پہ کر لینا بہتر ہے۔ کیونکہ بالکل چھوٹ جانے سے ناغہ ہو گا اور ناغے کی بے برکتی وقت بدلنے کی نسبت بہت زیادہ ہے۔
"Something is better than nothing"
اس اصول کے مطابق اگر کچھ نہ کچھ ہو جائے تو وہ نہ ہونے سے بہتر ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو ملامت بھی کرے۔ اس پر ندامت بھی ہو اور آئندہ ایسا نہ کرنے کا عزم بھی ہو تو ان شاء اللّٰہ حفاظت ہو جائے گی۔
compensation (تلافی ما فات) کے بارے میں اصل بات یہ ہے کہ کسی چیز کو کوئی تلافی در حقیقت ہوتی نہیں ہے۔ مثلاً اگر کسی کا ورزش کرنے کا معمول ہے اور ایک دن ورزش رہ جائے۔ مجھے بتائیں اس کی کیا تلافی ہو سکتی ہے۔ اگر آپ کے ذہن میں اس کی کوئی تلافی ہو تو بتائیں۔ یہ ورزش جسم کے اندر کے معمولات ہیں جس طرح ان کی تلافی نہیں ہو سکتی اسی طرح دوسرے معمولات کی بھی کوئی تلافی نہیں ہوتی۔ آپ کا جتنا معمول روزانہ کرنے کا ہے، آپ اس سے زیادہ کر نہیں سکتے، ورنہ آپ برداشت نہیں کر سکیں گے، اس کی وجہ سے کوئی نہ کوئی مسئلہ ہو جائے گا۔ اگر آپ کا معمول صبح کے وقت ورزش کا ہے تو بہتر یہ ہے کہ صبح کے وقت ہی کریں، کیونکہ ایک تو آپ کا معمول صبح کے وقت ورزش کرنے کا ہے دوسرا یہ کہ ورزش کا اصول بھی یہی ہے۔ لیکن اگر آپ صبح کے وقت نہیں کر سکے تو ظہر کے بعد کر لیں۔ ظہر کے بعد نہیں کر سکے تو عصر کے بعد کر لیں۔ عشاء تک بھی پہنچا سکتے ہیں، بالکل نہ کرنے سے تو وہ بھی اچھا ہو گا۔ اتنی بات ضرور ہے کہ وقفہ جتنا زیادہ ہو گا، نقصان اتنا زیادہ اور فائدہ اتنا ہی کم ہو گا لیکن ناغہ سے کم ہی نقصان ہو گا۔ اس وجہ سے ناغہ سے کم نقصان اختیار کیا جا سکتا ہے۔
بہرحال ناغہ کی تلافی نہیں ہوتی۔ اس لیے کہ آپ ایک دن میں دو کا فائدہ تو حاصل نہیں کر سکتے۔ بالکل اسی طرح جیسے ڈاکٹر آپ کو اینٹی بائیوٹک دوائی دے، جو روزانہ صبح ایک، دوپہر ایک اور شام کو ایک لینی ہو۔ یہ دوائی ایک دن آپ سے چھوٹ جائے تو کیا خیال ہے اگلے دن دو دو خوراکیں لینے سے پچھلے دن کے ناغہ کی تلافی ہو جائے گی؟ ظاہر ہے ایسا نہیں ہو سکتا۔ یہ ذکر بھی ایک دوا کی طرح ہے، یہ علاجی ذکر ہے۔ یہ ساری تفصیلات علاجی ذکر کے ساتھ ہوتی ہیں، وہ جو اجر والا ذکر ہے اس کے ساتھ یہ باتیں نہیں ہوتیں۔ وہ آپ جتنا مرضی کر لیں۔
سوال نمبر5:
کیا معمولات کے چھوٹنے پر اپنے آپ پہ کوئی جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے، کچھ روزے رکھ لیے جائیں یا نوافل پڑھ لیے جائیں یا کوئی اور صورت اختیار کر کے ایسا کیا جا سکتا ہے؟
جواب:
اس قسم کی چیزوں کی گنجائش ہے لیکن یہ برداشت کے بقدر ہونا چاہیے اتنا نہیں ہونا چاہیے کہ انسان کی برداشت کی حد عبور کر جائے۔ کہتے ہیں کہ اگر انسان اپنے آپ کو جرمانہ کرے تو اتنا کم بھی نہ ہو کہ محسوس ہی نہ ہو اور اتنا زیادہ بھی نہ ہو کہ دے ہی نہ سکے۔ کیونکہ اس کی وجہ سے پھر رہ ہی جائے گا۔ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ وہ اپنا نظام الاوقات بڑا زبردست بناتے ہیں۔ اچھی طرح خوب سوچ سوچ کے ڈیزائن کرتے ہیں لیکن وہ اگلے دو تین دن میں ہی رہ جاتا ہے کیونکہ وہ فطری نہیں ہوتا، جتنی اس کی استعداد ہے اس سے زیادہ ہوتا ہے، نتیجتاً رہ جاتا ہے۔ اور رہ جانے میں یہی مسئلہ ہوتا ہے کہ ہمت ٹوٹ جاتی ہے۔ ایک مرتبہ ٹوٹنے کے بعد آدمی دوبارہ ہمت ہی نہیں کر سکتا۔ یہی سوچتا ہے کہ مجھ سے رہ جائے گا، پھر ہمت ہی نہیں کرتا اور شیطان یہی چاہتا ہے کہ بندے کی ہمت ٹوٹ جائے۔
پہلی دفعہ جو اس نے اپنی استعداد سے بڑھ کر نظام الاوقات بنایا یہ بھی شیطان نے کروایا ہے تاکہ اس کی ہمت ٹوٹ جائے اور آئندہ کے لیے کام ہی نہ کر سکے۔ شیخ کے مشورہ کی ضرورت اسی لیے ہوتی ہے کہ ایسا نہ ہو کہ اپنے اوپر اتنا بوجھ ڈالیں کہ پھر اٹھا ہی نہ سکیں اور پھر ہمت ہمیشہ کے لیے ٹوٹ جائے۔
سوال نمبر6:
علاجی ذکر کس وقت کیا جائے۔ آج کل مغرب سے پہلے کرنا بہتر یا سونے سے پہلے پہلے کر لیا جائے؟
جواب:
یہ آپ کے اپنے معمول پہ منحصر ہے۔ کیونکہ آپ کو شیخ نے علاجی ذکر بتا دیا اور یہ اجازت دے دی کہ آپ خود کوئی وقت طے کر لیں۔ جو آپ نے طے کیا وہی آپ کا وقت ہے۔ البتہ میں نے اس کے بارے میں اصول بتا دیا ہے کہ اگر رہ جانے کا اندیشہ ہو تو تھوڑا بہت آگے پیچھے کرنے میں کوئی زیادہ حرج نہیں ہے، کم از کم ناغہ سے بہتر ہے۔ لیکن بہتر یہی ہے کہ اسی وقت پہ ہی کیا جائے جو وقت آپ نے مقرر کیا ہے۔
سوال نمبر7:
مغرب کے بعد تو اگلا دن شروع ہو جائے گا جبکہ علاجی ذکر 24 گھنٹے میں ایک دفعہ کرنا ہے۔ لہٰذا مغرب کے بعد ہی کرے یا ایسا بھی کر سکتا ہے کہ سو گیا اور تہجد کے وقت میں اٹھ کر ذکر کر لیا؟
جواب:
اصلاح کے لیے دنیاوی فارمولے استعمال نہیں ہوتے کہ دن کب شروع ہوتا ہے اور رات کب ختم ہو تی ہے۔ اس میں آپ 24 گھنٹے کی ترتیب رکھ سکتے ہیں۔ مثلاً آج آپ 10 بجے ذکر کر رہے ہیں تو اگلے دن 10 بجے 24 گھنٹے پورے ہو جائیں گے۔ اگر آپ نے درمیان میں 6 یا 8 گھنٹے آگے پیچھے کر لیا تو اس سے کچھ نہ کچھ نقصان تو ہو گا، میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ نقصان نہیں ہو گا، کچھ نہ کچھ نقصان تو ضرور ہو گا، برکت میں کمی آ جائے گی، لیکن یہ کمی ناغے کی کمی سے کم ہے، ناغے میں کمی زیادہ ہے آپ تھوڑا بہت وقت آگے پیچھے کر کے اپنے آپ کو ناغے سے بچا رہے ہیں۔ ایسا نہیں کہ مقررہ وقت سے ہٹنے میں نقصان نہیں ہوا، نقصان تو ہو گیا لیکن کم نقصان ہوا، اگر ناغہ ہو جاتا تو زیادہ نقصان ہو جاتا۔
سوال نمبر8:
کیا علاجی ذکر 24 گھنٹے میں ایک دفعہ کیا جاتا ہے؟ اور مقررہ وقت سے تاخیر ہو تو کم سے کم کتنی تاخیر کی گنجائش ہے؟
جواب:
جی ہاں یہ 24 گھنٹے میں ایک دفعہ کیا جاتا ہے۔ اس میں اکثریت کا کلیہ استعمال ہوتا ہے۔ یہ دیکھا جائے گا کہ آپ دن کس کو کہتے ہیں۔ جو وقت آپ نے مقرر کیا ہو گا اس سے جتنی تاخیر ہوتی جائے گی فائدے میں اتنی کمی آتی جائے گی۔ مثلاً آپ نے مغرب کے بعد کا وقت مقرر کیا ہے، اور ایک دن آپ اس وقت سے 12 گھنٹے لیٹ ہو گئے ہیں، تو فائدے میں اتنی ہی کمی آ جائے گی۔ اس میں اکثریت کا معیار ہوتا ہے۔ مثلاً اگر آپ سے نماز میں سورہ فاتحہ اکثر رہ گئی تو سجدہ سہو ہے، اگر کم رہ گئی تو سجدہ سہو نہیں ہے۔ اس میں بھی اکثر پہ فیصلہ ہوتا ہے۔ اس وجہ سے اگر آپ کو 12 گھنٹے سے زیادہ ہو گئے تو پھر آپ سے اکثر حصہ رہ گیا۔
سوال نمبر9:
اگر ذکر کے دوران چھوٹا بچہ آ گیا اور گود میں لیٹ گیا۔ اب آدمی اسے اٹھاتا ہے تو وہ روتا ہے اور پھر گود میں بیٹھ جاتا ہے۔ ایسے میں کیا کیا جائے؟
جواب:
اگر بچہ گود میں بیٹھ کر ذکر سن رہا ہے، پھر تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن اگر وہ مزید شرارتیں کر رہا ہے تو پھر حرج ہو گا۔ اس کا حل یہ ہے کہ آپ بجائے اس کے کہ مسلسل اس خلل کو برداشت کریں، اسے اس کی والدہ کے حوالے کر دیں اور کہہ دیں کہ میں نے ذکر کرنا ہے۔ درمیان میں جو تھوڑا سا رہ گیا اس سے بھی نقصان تو ہو گا لیکن یہ ذکر رہ جانے کے نقصان سے کم ہو گا۔ اگر ایسا بار بار ہوتا ہے تو اس کو میں mismanagement (بد انتظامی) کہوں گا۔
سوال نمبر10:
(ایک خط آیا تھا۔ اس کا جواب بھی شاید دے دیا گیا ہے لیکن میں باقی لوگوں کے فائدے کے لیے اس کو دوبارہ پڑھ لیتا ہوں اور اس کا جواب بھی دے دیتا ہوں)
سوال: اللّٰہ تعالی ہم سب کو ہدایت کی توفیق عطا فرمائے۔ در اصل مجھے آج کل کچھ مشکل پیش آ رہی ہے جس کے بارے میں میں آپ سے کچھ پوچھنا چاہتی ہوں۔ آپ سے فون پر بات نہیں ہو سکی۔
آج کل عجیب طرح کی پریشانی اور خوف نے گھیر رکھا ہے۔ آپ نے جو ذکر وغیرہ دیا تھا وہ تو اللّٰہ کا کرم ہے با آسانی ہو رہا ہے لیکن مراقبہ نہیں کر پا رہی وہ نہیں ہو رہا۔
دوسری بات یہ ہے کہ پردہ تو کرتی ہوں لیکن شرعی نہیں۔ کافی عرصے سے میں شرعی پردہ کا سوچ رہی ہوں لیکن عمل نہیں کر پا رہی۔ اپنے شوہر سے بات کی تھی لیکن انہوں نے بھی حوصلہ افزا جواب نہیں دیا۔
دوسری بات یہ ہے کہ میرے دل میں عجیب طرح کا خوف ہے۔ اس خوف اور ڈر کی وجہ سے میری طبیعت بگڑ جاتی ہے۔ دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے جسم پر کپکپی طاری ہو جاتی ہے سانس تیز ہو جاتی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ ابھی میرا دل بند ہو جائے گا۔ اور ایسا لگتا ہے کہ میں تنہا ہو گئی ہوں۔
صبح کے وقت سورۂ یٰسین اور رات کے وقت سورۂ ملک با قاعدگی سے پڑھتی ہوں اور اللّٰہ کے کرم سے 5 وقت کی نماز بھی با قاعدگی سے ادا ہو جاتی ہے البتہ قرآن پاک کی تلاوت روز نہیں کر پاتی۔ گھر کا تھوڑا کام بھی پہاڑ لگتا ہے۔ تھکاوٹ بہت ہو جاتی ہے۔ نیند بہت آتی ہے لیکن سو نہیں سکتی۔ صرف رات کی نیند 5 6 گھنٹے ہوتی ہے۔ اس میں بار بار آنکھ کھل جاتی ہے۔ سکون کے ساتھ نہیں سو سکتی۔ برائے مہربانی میرے لیے دعا کریں۔ خاص دعا کریں کہ اللّٰہ تعالیٰ مجھے سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
جواب:
غالباً ذکر سے مراد تسبیحات ہیں۔ کیونکہ خواتین کو میں اکثر تسبیحات دیتا ہوں۔ تیسرا کلمہ، درود شریف، استغفار اور ساتھ کچھ مراقبہ ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ذکر جو آپ نے دیا وہ تو اللّٰہ کا کرم ہے آسانی سے ہو جاتا ہے۔ لیکن مراقبہ نہیں ہو رہا۔
اس کے بارے میں اتنا عرض کروں گا کہ شیطان بہت چالاک ہے۔ وہ انسان سے ہر خیر ٹالنا چاہتا ہے۔ اس کی کوشش ہوتی ہے کہ انسان خیر کی طرف نہ جائے۔ پھر اس کی پالیسی یہ ہوتی ہے کہ اگر وہ بالکل نہیں روک سکتا تو کم کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ انسان خیر زیادہ نہ لے سکے، تھوڑی لے لے۔ وہ کسی نہ کسی طریقے سے انسان کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔ چاہے فائدہ میں کمی کر دے چاہے نقصان پہنچا دے۔
تسبیحات کا ذکر مستحب ہے۔ مثلاً تیسرا کلمہ پڑھنا مستحب ہے، فرض نہیں ہے۔ اور اگر آپ کے سامنے نبی کریم ﷺ کا نام نہیں لیا گیا تو درود شریف پڑھنا بھی مستحب ہے۔ اگر نبی کریم ﷺ کا نام لیا جائے تو پہلی دفعہ درود شریف پڑھنا واجب ہوتا ہے، اس کے بعد ہر بار مستحب ہوتا ہے۔ استغفار بھی مستحب ہے۔ لیکن مراقبہ کا معاملہ اور ہے، یہ اصلاح کے لیے ہے اور اپنے نفس کی اصلاح فرضِ عین ہے، اس لحاظ سے اصلاح کے لئے کیا جانے والا مراقبہ بھی فرض ہے۔ شیطان کو خوب پتا ہے کہ مراقبہ اس کے ایک فرضِ عین کو پورا کرا رہا ہے اگر یہ فرض پورا ہو گیا تو مزید کئی فرضوں کے پورا ہونے کا ذریعہ بنے گا۔ اس لیے شیطان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ انسان اس چیز کو روک دے، بیشک ذکر کر لے، قرآن پاک کی تلاوت کر لے لیکن مراقبہ کو چھوڑ دے۔ کیونکہ اس کو پتا ہے کہ یہ چابی ہے، اگر چابی گم کروا دوں تو بس ٹھیک ہے پھر مزے کرتا رہے۔ شیطان چالاک ہے وہ اس بات کو جانتا ہے۔ لہذا لوگوں کو اسی میں ہی پریشانی پیش آتی ہے۔ کیونکہ شیطان اس سے ذکر بھی چھڑوانا چاہتا ہے۔ اگر کوئی با ہمت ہے اور ذکر نہیں چھوڑتا تو شیطان کہتا ہے کہ اچھا ذکر کرو لیکن مراقبہ چھوڑ دو۔ شیطان اس سے مراقبہ چھڑواتا ہے یا پھر اصلاحی ذکر چھڑوا دیتا ہے۔
انسان کو ہمت سے کام لینا چاہیے اور اس چیز کو نہیں چھوڑنا چاہیے۔ اس کی priority (ترجیح) ذہن میں لانی چاہیے کہ مجھ سے ثوابی ذکر بے شک رہ جائے لیکن اصلاحی ذکر نہ رہے۔ بس اصلاحی ذکر اور اصلاحی مراقبہ کو top priority (اولین ترجیح) دے دیں۔ جس کام کو انسان اولین ترجیح دیتا ہے وہ آسانی سے ہو جاتا ہے۔ اللّٰہ پاک نے انسان کو یہ صلاحیت عطا فرمائی ہے کہ اگر یہ نرم ہونا چاہے تو نرم بن جاتا ہے اگر سخت ہونا چاہے تو سخت بن جاتا ہے۔ ہمت سے انسان کو فائدہ ہوتا ہے ؎
ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا
وہ کون سا عقدہ ہے جو وا ہو نہیں سکتا
شرعی پردہ کے بارے میں بات کی ہے۔ ماشاء اللّٰہ یہ بڑی اچھی سوچ ہے۔ خواتین کو شرعی پردہ ہی کرنا چاہیے کیونکہ پردہ کہتے ہی اِس کو ہیں۔ جو خواتین شرعی پردہ نہیں کرتیں وہ ہر وقت خطرے میں ہوتی ہیں۔ گناہ تو ان کو ہوتا ہی ہے۔
آپ ﷺ سے پوچھا گیا: ”یا رسول اللّٰہ کیا دیور سے بھی پردہ ہے؟“
فرمایا: ”اَلْحَمْوُ الْمَوْتُ“ (صحیح بخاری: 3945)
ترجمہ: ”دیور تو موت ہے“۔
یعنی اس سے پردہ نہ کرنے میں زیادہ نقصان ہے۔
ہمارے ہاں جو رواجی پردہ ہے اس میں یہ چیز نہیں ہوتی۔ رواجی پردے میں لوگ اس چیز کا خیال نہیں رکھتے۔ خواتین اپنے کزنوں سے پردہ نہیں کرتیں۔ دیوروں سے پردہ نہیں کرتیں۔ اس طریقے سے گناہ گار تو ہو ہی جاتی ہیں۔ بے شک وہ پردہ دار مشہور ہوں لیکن اللّٰہ کے نزدیک وہ پردہ دار نہیں ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ رہا سہا پردہ بھی ختم کر دیا جائے۔ کیونکہ اس طرح نقصان مزید بڑھ جاتا ہے۔ ہونا یہ چاہیے کہ اچھائی کی طرف جائیں برائی کی طرف نہ جائیں۔ لہٰذا جتنا پردہ ہے اسے تو باقی رکھیں لیکن شرعی پردہ کی کوشش کرتی رہیں۔ اور کوشش کرنے میں یہی بات ہو سکتی ہے کہ پردہ کی گنجائشوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ کس حد تک گنجائش ہے۔ مثلاً ایک عورت گھر میں رہتی ہے، جہاں Joint family system (مشترکہ خاندانی نظام) ہے۔ ایسی صورت میں وہ ان چیزوں کا خیال رکھے کہ اپنے کام کاج عبایا پہن کر یا سکارف پہن کر لیا کرے۔ مثلاً کھانا رکھنا چاہتی ہے تو اس کے ساتھ ہی رکھے۔ تنہائی میں جمع نہ ہو اور بلا وجہ سامنے نہ جائے۔ اگر جانا پڑے تو اس طرح جائے کہ کم از کم بدن حجاب میں ہو۔ نقصان کو کم سے کم کرنے کی کوشش کی جائے تو پھر اللّٰہ تعالی مزید انعامات سے بھی نوازتے ہیں اور آسانی ہو جاتی ہے۔ اللّٰہ پاک دوسرے فریق کے دل میں بھی اس کا خیال ڈال دیتے ہیں اور وہ بھی بچنا شروع ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا ہمت کرنی چاہیے۔
بالخصوص جنہوں نے یہ خط لکھا ہے، ان کے ہاں تو شرعی پردہ شروع ہو گیا ہے۔ ماشاء اللّٰہ کئی خواتین کر رہی ہیں۔ لہٰذا یہ بھی ہمت کر لیں۔ وہاں ماحول موجود ہے اور باقی لوگ ان کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔ ایسی صورت میں دیر کس بات کی۔
آپ نے جو یہ لکھا کہ عجیب طرح کا خوف ہے۔ یہ دو وجوہات سے ہو سکتا ہے۔ ایک تو یہ کہ یہ کوئی نفسیاتی مسئلہ بھی ہو سکتا ہے، دوسرا یہ کہ کوئی جسمانی مسئلہ بھی ہو سکتا ہے۔ جسمانی مسئلہ اس طرح کہ جن لوگوں کو بلڈ پریشر کا عارضہ ہوتا ہے وہ زیادہ لوگوں میں نہیں بیٹھ سکتے، انہیں تنگی ہوتی ہے، وہ چاہتے ہیں کہ ہم اِدھر سے نکل جائیں۔ اس کی وجہ سے ان کا دل بھی تنگ ہوتا ہے دھڑکن بھی تیز ہو جاتی ہے گھبراہٹ بھی آ جاتی ہے۔ لہٰذا آپ ڈاکٹر سے رجوع کر لیں اور ڈاکٹر جو علاج تجویز کرے اس پر با قاعدگی کے ساتھ عمل کریں۔
آپ نے لکھا کہ سورۂ یسین شریف کی تلاوت کرتی ہوں اور رات کے وقت سورۂ ملک با قاعدگی سے پڑھتی ہوں۔ نماز با قاعدگی سے ہوتی ہے لیکن قرآن پاک کی تلاوت روز نہیں کر سکتی۔
اس کا طریقہ یہ ہے کہ قرآن پاک کی تلاوت کم کر لیا کریں لیکن با قاعدگی سے کیا کریں۔ مثلاً مقرر کر لیں کہ میں نے 2 صفحے روزانہ پڑھنے ہیں۔ پھر ان 2 صفحوں کو با قاعدگی کے ساتھ پڑھیں تو بے قاعدگی نہیں ہو گی۔ مخصوص سورتوں کو بھی ضرور پڑھنا چاہیے لیکن قرآن پاک کی با قاعدہ تلاوت کو بھی جاری رکھنا چاہیے۔ ایسا نہ کرنے سے انسان کو محرومی ہو جاتی ہے کیونکہ قرآن پاک کی ہر آیت کے ساتھ ایک تجلی ہے۔ اگر انسان با قاعدگی کے ساتھ پورا قرآن تلاوت نہیں کرتا، بے شک وہ کتنے ہی دن میں ہو جائے، تو اس کو ان تجلیات سے محرومی ہو جاتی ہے۔ مثلاً سورۂ یٰسین شریف اور سورۂ ملک کی تجلی تو اس کو بار بار حاصل ہو رہی ہے لیکن قرآن کا جو حصہ نہیں پڑھ رہی ان کی تجلیات حاصل نہیں ہو رہیں۔ اس کی وجہ سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ جیسے انسان کے جسم میں مختلف قسم کے minerals ہوتے ہیں۔ اگر ان میں سے کسی میں کچھ کمی ہو جائے تو اس کی وجہ سے مسائل ہوتے ہیں۔ اسی طرح اگر انسان کے اندر سے روحانی معمولات کم ہو جائیں تو روحانیت میں بھی مسئلہ ہوتا ہے۔
اور یہ جو نیند والا مسئلہ لکھا ہے، اس کے بارے بھی ڈاکٹروں سے رجوع کر لیا جائے۔
سوال نمبر11:
بچیوں کو کس عمر سے پردہ شروع کروا دینا چاہیے؟
جواب:
میرے خیال میں اس بارے میں اگر نماز کے فارمولے کے مطابق عمل کر لیں تو بہتر ہے۔
ویسے تو نماز بلوغ کے وقت سے فرض ہوتی ہے لیکن حکم ہے کہ بچے کو 7 سال کی عمر سے نماز شروع کروائی جائے اور اگر 10 سال کے بعد بھی نہیں پڑھتے تو پھر مار کر نماز پڑھوائی جائے۔ بعد میں جب فرض ہو جائے تو گناہ بھی ہوتا ہے۔ 10 سال کے بعد بھی بالغ ہونے تک اگر نماز نہیں پڑھتا تو بچے کو گناہ تو نہیں ہوتا لیکن چونکہ عادت ڈلوانی ہوتی ہے اس لیے فرمایا گیا کہ مار کر پڑھواؤ۔
جہاں تک بچیوں کا تعلق ہے تو بچیوں کی تین سٹیجز (مراحل) ہوتی ہیں۔ بالکل بچیاں (یعنی) معصوم بچیاں۔ مراہقہ (یعنی قریب البلوغ) اور بالغ بچیاں۔
سب سے خطرناک مراہقہ والی حالت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو بچیاں مراہقہ ہوتی ہیں، ان کی طرف لوگوں کی کشش ہوتی ہے لیکن اِن بچیوں کو سمجھ نہیں ہوتی۔ اس سمجھ نہ ہونے کی وجہ سے لوگ ان کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ پھر جب بڑی ہو جاتی ہیں، سمجھ دار ہو جاتی ہیں تب اپنے آپ کو بچا سکتی ہیں۔
مطلب یہ ہے کہ بالغ ہونے پر بے شک لوگوں کی کشش اس کی طرف ہوتی ہے لیکن اسے اپنے آپ کو بچانے کا سلیقہ بھی آ جاتا ہے، وہ پردہ بھی کر سکتی ہے، اگر چاہے تو اوٹ میں بھی جا سکتی ہے، لوگوں کی نظروں کو بھی جان سکتی ہے۔ لہٰذا اُس عمر میں تو بچت ہو جاتی ہے لیکن جو درمیانی سٹیج ہے، یعنی آٹھ نو سال سے لے کر بلوغ تک کا جو زمانہ ہے، اس وقت میں ان کو زیادہ تر گھر میں بٹھانا، بلا ضرورت گھر سے نہ نکلنے دینا، خصوصاً اپنے ہم عمر یا عمر سے بڑے بچوں کے ساتھ تنہائی میں نہ جانے دینا، حتی کہ اس عمر کے بہن بھائیوں کے لیے بھی حکم ہے کہ ان کو اکٹھے نہ سونے دیا جائے، ان ساری چیزوں کا خیال رکھنا چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے ساتھ خطرات ملحق ہوتے ہیں۔ چونکہ میرے ساتھ لوگوں کا اصلاحی تعلق ہوتا ہے اس لیے مجھے لوگ اپنی وہ باتیں بھی بتاتے ہیں جو کسی اور کو نہیں بتا سکتے۔ مجھے ایسی باتیں سن کے بہت زیادہ تجربہ اور معلومات ہوئی ہیں کہ پھر کیا کیا ہوتا ہے۔ لہٰذا ہم جو باتیں کر رہے ہیں یہ فرضی نہیں ہیں بالکل عملی باتیں۔ ایسا ہوتا ہے۔ شریعت نے جن چیزوں سے روکا ہے ویسے ہی نہیں روکا، اس میں ضرور بہت ساری چیزیں ہوتی ہیں اس لیے احتیاط کرنا لازم ہے۔
سوال نمبر12:
جس طرح اپنی بچیوں اور خواتین کی تربیت کی ذمہ داری باپ اور بھائی پر ہے اسی طرح شوہر پر بھی ہے؟
جواب:
جی بالکل شوہر پر ذمہ داری ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک عورت چار مردوں کو اپنے ساتھ جہنم لے جا سکتی ہے۔ باپ، بیٹا، بھائی اور شوہر۔ priority (ترجیح) میں فرق ہو سکتا ہے، مثلاً شوہر کی زیادہ ذمہ داری ہے، پھر والد ہے، پھر بیٹا ہے، پھر بھائی ہے۔ لیکن یہ بات ضرور ہے کہ متاثر سارے ہوں گے۔
سوال نمبر13:
اگر انسان ذکر کا ناغہ کرتا رہے تو اس کو کب پتا چلے گا کہ اب میں اس ذکر کو نہیں کر سکتا اور مجھے شیخ سے نیا ذکر لے لینا چاہیے؟
جواب:
پتا نہیں ایسا سوال کیوں کر رہے ہیں۔ نیا ذکر لینے نہ لینے کا تو اس میں سوال ہی نہیں ہے۔ بس انسان کو ناغہ نہیں کرنا چاہیے۔ اگر ناغہ ہو رہا ہے تو شیخ کو اطلاع کرنی چاہیے پھر وہ جو بھی بتائے اس پہ عمل کرنا چاہیے۔ اطلاع فوراً کرنی چاہیے تاکہ نقصان زیادہ نہ ہو۔
جب انسان ایک معمول روزانہ مقررہ وقت پر کرتا ہے تو اس میں ایک خاص بات یہ ہوتی ہے کہ روزانہ فرشتے روز اسی وقت آتے ہیں اور جب ناغہ ہوتا ہے تو فرشتے چلے جاتے ہیں اور آئندہ کے لیے نہیں آتے۔ بزرگوں نے یہ بات کی ہے۔ چونکہ یہ معاملہ کشف کے ساتھ تعلق رکھتا ہے لہذا اہل کشف حضرات کو اس چیز کا صحیح اندازہ ہو سکتا ہے۔ وہ حضرات فرماتے ہیں کہ بزرگوں نے ایسا فرمایا ہے کہ جس وقت انسان ذکر کے لیے وقت مقرر کرتا ہے اس وقت فرشتے اس کے لیے آتے ہیں، فرشتے ذکر کے انتظار میں رہتے ہیں کہ ابھی ذکر شروع ہو گا کیونکہ یہ اس آدمی کے ذکر کرنے کا وقت ہے۔ ذکر فرشتوں کی خوراک ہے جب ان کو اپنے وقت پہ خوراک نہیں ملتی تو ان کو تکلیف ہوتی ہے اور اس تکلیف کی وجہ سے بے برکتی ہوتی ہے۔ اس لیے فرماتے ہیں کہ ناغہ میں بے برکتی ہوتی ہے۔
سوال نمبر14:
جب خانقاہ میں ذکر کرتا ہوں تو اس کی کیفیت کوئی اور ہوتی ہے اور جب گھر میں یا خانقاہ سے باہر کہیں ذکر کرتا ہوں تو اس کی کیفیت کوئی اور ہوتی ہے۔ اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟
جواب:
اس کی وجہ یہ ہے کہ جیسے وقت کے ساتھ فرشتوں کا تعلق ہے اسی طرح جگہ کے ساتھ بھی ہے۔ جس جگہ ذکر زیادہ ہوتا ہے وہ جگہ ذکر کے ساتھ مانوس ہو جاتی ہے۔ یہاں تک کہ جب غیر ذاکر لوگ ایسی جگہ پہ آ تے ہیں تو ان کو بھی ذکر نصیب ہو جاتا ہے، ان کا دل چاہتا ہے کہ کچھ ذکر کیا جائے۔
مجھے خود اس کا تجربہ ہوا ہے۔ ایک صاحب میری گاڑی ڈرائیو کر رہے تھے۔ وہ مجھے ایک گھرانے میں لے گئے جو ذاکر گھرانہ تھا، ذکر با قاعدگی کے ساتھ کرتا تھا۔ میں اپنے ڈرائیور حضرات کا ذرا زیادہ خیال رکھتا ہوں کیونکہ ان کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اس لئے میں کہتا ہوں کہ ایسے آدمی کو سونے کا موقع دینا چاہیے۔ کیونکہ آگے جا کر راستے میں باقی لوگ تو سو جائیں گے مگر ڈرائیور کو موقع نہیں ملے گا، اگر ڈرائیور کی نیند پوری نہ ہوئی تو نقصان سب کو ہی ہو گا۔ لہذا میں اکثر ڈرائیونگ کرنے والے ساتھیوں کو سلانے کا موقع خصوصیت سے تلاش کرتا ہوں۔ خیر اس واقعہ کے دوران جو ساتھی ڈرائیورنگ کے لیے ہمراہ تھے میں نے انہیں کہا کہ آپ سو جائیں۔ ہمارے میزبانوں نے ان کے لئے گھر کے ایک کمرے میں سونے کا انتظام کیا۔ وہ اس کمرے میں جا کر ایک بیڈ پرلیٹ گئے۔ وہ ایک ذاکرہ خاتون کا بیڈ تھا جو ذکر با قاعدگی کے ساتھ کرتی تھی۔ جب وہ ساتھی واپس آیا تو مجھے کہنے لگا کہ شاہ صاحب آپ نے مجھے سونے کے لیے بھیجا تھا یا ذکر کرنے کے لیے بھیجا تھا؟ میں نے کہا کیا مطلب؟ کہتے ہیں کہ میں سویا نہیں بلکہ میں نے ذکر کیا ہے، اس بیڈ پر لیٹتے ہی میرا ذکر شروع ہو گیا تھا۔
دیکھیں جس جگہ پر ذکر ہوتا تھا، اسے اس جگہ کا فائدہ ہوا۔ معلوم ہوا کہ جہاں با قاعدگی کے ساتھ ذکر ہوتا ہے وہاں ذکر کے انوارات شروع ہو جاتے ہیں۔ آخر یہ جو مسجدیں اور ذکر کی جگہیں آسمان میں ستاروں کی طرح چمکتی ہیں اس کی کچھ وجہ تو ہوتی ہے۔ جہاں پر ذکر کے حلقے ہوتے ہیں ان جگہوں کے بارے میں آپ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جب جنت کی چرا گاہوں میں پہنچو تو وہاں خوب چرو۔ پوچھا گیا: یا رسول اللّٰہ! جنت کی چرا گاہیں کون سی ہیں؟ فرمایا: ذکر کے حلقے۔
خانقاہ بھی ذکر کا حلقہ ہی ہوتا ہے۔ اس لئے جب انسان خانقاہ میں پہنچتا ہے تو اس کی کیفیت الگ ہوتی ہے۔ یہ کیفیات خانقاہ کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ پھر یہ بات بھی ہے کہ اللّٰہ جل شانہ نے ان جگہوں کو ایک قبولیت عطا فرمائی ہوتی ہے۔ آج کل تو یہ قبولیت بہت زیادہ ہے۔ ہمیں تو کھلی آنکھوں پتا چلتا ہے کہ آج کل خانقاہوں کے ساتھ اللّٰہ پاک کا محبت کا تعلق بہت زیادہ ہے، میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا کہ یہ تعلق کتنا زیادہ ہے۔ اس لئے جو لوگ خانقاہوں کی خدمت کرتے ہیں یا خانقاہوں کے اندر رہتے ہیں یا خانقاہوں کے اندر ان کا آنا جانا ہوتا ہے، انہیں مسلسل اس کے فائدے مل رہے ہوتے ہیں جن میں سے ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ ان کا ذکر ذرا مختلف ہوتا ہے۔
سوال نمبر15:
نئے شیخ کے ساتھ بیعت کرنے کے بعد پرانے شیخ کے دئیے ہوئے اذکار و معمولات کر سکتے ہیں یا نہیں؟
جواب:
اس بارے میں اپنے موجودہ شیخ کو بتا دیں۔ اگر وہ انہی معمولات کو باقی رکھے تو کر سکتے ہیں اور اگر وہ باقی نہ رکھے تو مرید کو چاہیے کہ گزشتہ معمولات چھوڑ دے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اب موجودہ شیخ کا علاج شروع ہو گیا ہے۔ اب گزشتہ شیخ والے معمولات نہیں چلیں گے۔ بالکل ایسے ہی‘ جیسے آپ جب نئے ڈاکٹر کا علاج شروع کر لیں تو پرانے ڈاکٹر کی دوائیاں استعمال نہیں کر سکتے۔ اگر نیا ڈاکٹر پرانی دوائیاں چھڑا دے تو چھوڑنی پڑیں گی۔ آپ اس پہ یہ اعتراض نہیں کر سکتے کہ مجھے تو ان سے فائدہ ہوتا تھا۔ کیونکہ فائدہ پورے set میں ہوتا ہے۔ کئی sets ہو سکتے ہیں، اور سب سے فائدہ بھی ہو سکتا ہے لیکن آپ یہ نہیں کر سکتے کہ کچھ فائدہ اِس سے، کچھ اِس سے اور کچھ اِس سے لے لیں۔ اس طرح نہیں ہوتا۔ مثلاً ایلوپیتھی ایک set ہے، ہومیوپیتھی ایک set ہے، یونانی طریقۂ علاج ایک set ہے۔ اب آپ ایک دوائی ایلوپیتھی سے لیں، ایک ہومیو پیتھی سے اور ایک آکو پنکچر سے لیں تو فائدہ نہیں ہو گا۔
سوال نمبر 16:
قرآن پاک میں ہے کہ اسلام میں کوئی زبردستی نہیں ہے، جبکہ دوسری طرف یہ بھی ارشاد ہے کہ بچہ اگر 10 سال کی عمر تک نماز نہ پڑھے تو اسے مار کر پڑھواؤ۔ ان دونوں باتوں میں تطبیق کیسے ہو گی؟ اور ”اسلام میں کوئی زبردستی نہیں ہے“ اس کا صحیح مطلب کیا ہے؟
جواب:
یہ جو فرمایا کہ اسلام میں جبر نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مسلمانوں کے اوپر دین کے بارے میں سختی نہیں کی جا سکتی۔ بلکہ اس سے مراد صرف اتنا ہے کہ آپ زبردستی کسی کو مسلمان نہیں کر سکتے۔
﴿لَاۤ اِكْرَاهَ فِی الدِّیْنِ قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ فَمَنْ یَّكْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَ یُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقٰی لَا انْفِصَامَ لَهَا وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ﴾ (البقرۃ: 256)
ترجمہ: ”دین کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں ہے، ہدایت کا راستہ گمراہی سے ممتاز ہو کر واضح ہو چکا، اس کے بعد جو شخص طاغوت کا انکار کر کے اللہ پر ایمان لے آئے گا، اس نے ایک مضبوط کُنڈا تھام لیا جس کے ٹوٹنے کا کوئی امکان نہیں، اور اللہ خوب سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔“
معلوم ہوا کہ کفر و اسلام کے بارے میں کوئی جبر نہیں ہے۔ اگر کوئی کافر آدمی مسلمان نہیں ہونا چاہتا تو آپ اسے زبردستی مسلمان نہیں کر سکتے۔ لیکن جو بچے آپ کے زیرِ تربیت ہیں ان کی شرعی تربیت آپ کی ذمہ داری ہے اور اس تربیت میں سختی بھی ہوتی ہے نرمی بھی ہوتی ہے، مٹھائی بھی ہوتی ہے پٹائی بھی ہوتی ہے۔ اگر مٹھائی آپ صحیح سمجھتے ہیں تو پٹائی کو کیسے غلط سمجھتے ہیں؟ تربیت میں دونوں چیزیں ہوتی ہیں۔ اور یہ انہی کے فائدے کے لیے ہے۔ کیونکہ ابھی بچے نا سمجھ ہیں، بعد میں وہ دعائیں دیں گے۔ جن بچوں کو ماں باپ نے نماز کا پابند کیا ہوتا ہے اور آگے جا کر انہیں اس کے فوائد مل رہے ہوتے ہیں تو وہ والدین کو دعائیں دے رہے ہوتے ہیں کہ اللّٰہ کا شکر ہے انہوں نے ہمیں اس لائن پہ لگا دیا۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ وقتی طور پر نا سمجھی میں وہ رو بھی سکتے ہیں ضد بھی کر سکتے ہیں سب کچھ کر سکتے ہیں لیکن ایسا وہ نا سمجھی کی وجہ سے کرتے ہیں۔ انہیں کیا پتا کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ لیکن جس وقت اس کا فائدہ شروع ہو جائے گا اور پتا چل جائے گا تب وہ دعائیں دیں گے۔
سوال نمبر17: اگر کبھی سواری میں یا کسی کے گھر مہمانی میں جائیں، وہاں میوزک ٹی وی وغیرہ لگا ہو اور اٹھنا محال ہو تو ذکر و استغفار کریں، خاموش رہیں یا ان کے لیے دعا کریں؟
جواب:
اگر کبھی دوران سفر ایسا معاملہ پیش آئے، یا کسی کے گھر بطور مہمان جائیں اور وہاں میوزک یا ٹی وی لگا ہو تو انسان اتنا ضرور کرے کہ اپنے ذہن کو اس سے ہٹا کر کسی اور چیز کی طرف لگا لے، مثلاً ذکر اذکار میں لگ جائے، اس کی طرف دھیان نہ کرے۔ ایسی جگہ سے اٹھ جائے تو بہتر ہے لیکن اگر واقعی وہاں سے اٹھنا محال ہو تو پھر وہیں بیٹھے بیٹھے ذکر اذکار میں لگا رہے۔ اس کے لیے میں اکثر یہ وظیفہ بتایا کرتا ہوں: ”یَا ھَادِیُ یَا نُوْرُ لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللّٰهِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ“۔ ایسے مواقع میں اس وظیفے کے ذریعے بچت ہو جاتی ہے۔ آپ یہ وظیفہ کیا کریں اور دعا بھی کریں، اپنے لیے بھی اور اُن کے لیے بھی۔ اپنے لئے حفاظت کی دعا کریں اور ان کے لئے ہدایت کی دعا کریں۔
حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ نے ہمیں اس وظیفہ کی تعلیم فرمائی تھی۔ فرمایا کہ جب کبھی ہندوؤں کے پرانے گھروں کے قریب سے گزرو یا کہیں پر میوزک بج رہا ہو، گانے لگے ہوں۔ ایسی جگہ سے گزرنا ہو یا سینماؤں کے سامنے سے گزرنا ہو تو یہ دعا پڑھ لیا کرو ”یَا ھَادِیُ یَا نُوْرُ لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللّٰهِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ“۔ تو شیاطین کے شر سے بچ جاؤ گے۔ ایسی جگہوں پر شیاطین کی کثرت ہوتی ہے۔ میوزک کی جگہوں پہ، سینما گھروں والی جگہوں پہ اور پرانے کھنڈرات اور ہندوؤں کے گھروں وغیرہ میں شیاطین کی کثرت ہوتی ہے کیونکہ یہ شرک کے اڈے ہوتے ہیں۔ اگر آپ اپنی حفاظت کا بند و بست نہ کریں تو یہ شیاطین آپ کو پڑ سکتے ہیں، جس کی وجہ سے پھر آپ کے دل میں وسوسے آ سکتے ہیں اور آپ بھٹک سکتے ہیں۔ مجھے اس کا تجربہ ہوا ہے۔ تجربہ کیا نہیں بلکہ تجربہ ہوا ہے۔ نوشہرہ میں دو سینما ہیں، جب کبھی نوشہرہ جانا ہوتا تو ان سینماؤں کے سامنے سے ہمارا گزر ہوتا تھا۔ اگر کبھی ہم نے یہ وظیفہ نہ پڑھا ہوتا تو دل میں وسوسہ آتا کہ ذرا یہ پوسٹر دیکھ لو۔ اب انہوں نے پوسٹر اسی لیے تو لگائے ہوتے ہیں کہ لوگ متوجہ ہوں۔ اگر آپ پوسٹر کو دیکھنے لگیں تو خود بخود سینما کے مزید قریب چلے جائیں گے، قریب چلے جائیں تو دل میں خواہش بھی پیدا ہو سکتی ہے کہ چلو فلم دیکھ لیتے ہیں۔ ایسی جگہوں پر انسان ان شیاطین کی دعوت و ترغیب کی لائن میں آ جاتا ہے۔ خیر! اگر کبھی ہم نے یہ وظیفہ پڑھا ہوتا تھا تو کوئی پروا نہیں ہوتی تھی، ہم آگے چلے جاتے تھے، بصورتِ دیگر وسوسے آ جاتے تھے۔
موسیقی کے اثراتِ بد سے حفاظت میں بھی اس وظیفے کو بڑا دخل ہے۔ ہمارے ساتھ ایسا ہوتا تھا کہ اگر ہم یہ وظیفہ نہیں پڑھتے تھے تو جہاں میوزک وغیرہ چل رہا ہوتا تھا ایسی جگہ سے گزرتے ہوئے ہم ذہنی تناؤ کا شکار ہوتے تھے، ہمارا اور میوزک کا مقابلہ ہوتا رہتا تھا۔ میوزک ہمیں اپنی جانب کھینچتا اور ہم اس سے دور ہونے کی کوشش کرتے رہتے۔ اس طرح ایک مسلسل تناؤ کی کیفیت رہتی۔ لیکن جب سے ہمیں یہ وظیفہ ملا اور ہم پڑھ لیتے تو وہ تناؤ کی کیفیت ختم ہو جاتی تھی، ہمارا دھیان بس ذکر کی طرف رہتا تھا۔
سوال نمبر18:
اگر کسی جگہ میوزک وغیر چل رہا ہو اور ہمیں وہاں کافی دیر بیٹھنا پڑے تو کیا اس تمام وقت میں مسلسل یہ وظیفہ پڑھتے رہنا چاہیے؟
جواب:
جی ہاں۔ ایسا ہی کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ آج کل جہازوں میں ائیر پلگ وغیرہ ملتے ہیں، ڈیپارٹمنٹل سٹوروں پر بھی مل جاتے ہیں، وہ اپنے ساتھ رکھنے چاہئیں اور ایسے مواقع پر کانوں میں لگا لینے چاہئیں۔ اس طرح میوزک کی آواز نہیں آئے گی، بس وہ کانوں میں لگا لے اور مزے سے سو جائے یا ذکر کرتا رہے۔ جب بھی ایسا موقع ہو تو نظریں جھکا لو، کانوں میں ائیر پلگ لگا لو، اور اختیاری طور پر بہرے ہو جاؤ۔
سوال نمبر19:
کیا بد نظمی کے علاج کے لئے بھی کوئی وظیفہ ہے؟ کیا اس مسئلہ کے لئے یہی وظیفہ استعمال کیا جا سکتا ہے؟
جواب:
یقیناً فائدہ تو ہو جاتا ہے لیکن اصل چیز ہمت ہے۔ اگر سارے کام وظیفوں سے ہوتے تو پھر ہمت والی بات نہ رہ جاتی۔ یہ وظیفہ آسانی کے لیے ہے، اس مسئلہ کے لیے بھی آپ یہ وظیفہ استعمال کر سکتے ہیں۔
سوال نمبر20:
اگر بیوی کوئی بات نہ مانے جو شرعی بھی ہو۔ کسی صورت درستگی کی امید نظر نہ آتی ہو تو معاملہ اللّٰہ ہی پر چھوڑ دے یا کوئی اور عمل کرے۔ کیا عورت کو شوہر کی نافرمانی کا گناہ ملے گا؟ کیا شوہر اسی صورت پر صبر کرے یا کچھ اور حل نکالے؟
جواب:
مشکل سوال ہے۔ اللّٰہ پاک مدد فرمائے۔ اگر بیوی بات نہیں مانتی تو اس میں شوہر کا کوئی قصور بھی ہو سکتا ہے۔ مثلاً ممکن ہے کہ اس نے حکمت سے کام نہ لیا ہو۔
دیکھیں اگر آپ نے اپنی بیوی کو تعلیم پہنچانے کا راستہ ہی نہ دیا ہو۔ آپ نے ان کو اچھائی برائی کی تمیز کا راستہ ہی نہ دیا ہو۔ آپ نے ان کو اچھے ماحول کے ساتھ مانوس ہی نہ کیا ہو۔ آپ نے ان کو اپنی اصلاح کی کوشش کا عادی نہ کیا ہو۔ تو پھر کیا خیال ہے وہ صرف آپ کی خواہش سے ہی ٹھیک ہو جائے گی؟
اپنے بیوی بچوں کو کون ٹھیک نہیں کرنا چاہتا۔ لیکن کیا صرف خواہش سے کوئی چیز ٹھیک ہو جاتی ہے؟ ایسا نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیے انسان کو کچھ پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں، کچھ رستے بنانے پڑتے ہیں۔
اصل میں ہوتا یوں ہے کہ جتنے بھی دین کے مقاصد ہیں ان سے کوئی اختلاف نہیں کرتا لیکن دین کے مقاصد تک پہنچنے کے جو ذرائع ہیں، ان کی اہمیت لوگوں کے دلوں میں نہیں ہوتی۔ اگر دل میں ذرائع کی اہمیت ہو تو ذرائع ہی سے کام ہوتا ہے۔ مثلاً ایک بچہ نہیں پڑھتا تو آپ اس کے لیے ٹیوشن کا انتظام کرتے ہیں۔ ٹیوشن کیا ہے؟ کیا یہ فرض ہے یا واجب ہے؟ نہ فرض ہے نہ واجب۔ لیکن آپ اس کی ضرورت محسوس کرتے ہیں، آپ سمجھتے ہیں کہ بچے کو اس کے بغیر فائدہ نہیں ہو گا اس لئے ٹیوشن کا بندوبست کرتے ہیں۔ تو یہ ایک ذریعہ ہے۔ اسی طرح اصلاح کے جتنے ذریعے ہیں، ان سے اپنے گھر والوں کو حکمت کے ساتھ روشناس کرانا، اچھے لوگوں کے ساتھ ان کا تعلق بنانا اور اس کو خود pursue کرنا (اپنانا)، اس میں ان کی مدد کرنا۔ یہ ساری چیزیں اس میں شامل ہیں۔
بہرحال چونکہ یہ ایک عمومی مجلس ہے، اس میں عمومی طور پر اتنی ہی بات کی جا سکتی ہے جتنی میں نے کر دی۔ جہاں تک کسی خاص شخص کے بارے میں تفصیلی جواب کا تعلق ہے تو وہ اس کے مکمل حالات جان کر ہی دیا جا سکتا ہے کہ اس میں قصور کس کا ہے اور مسئلہ کیا ہے۔ کیونکہ بعض دفعہ شوہر کا قصور ہوتا ہے بعض دفعہ بیوی کا قصور ہوتا ہے اور بعض دفعہ دونوں کا قصور ہوتا ہے۔
سوال نمبر21:
ایک شخص کو ماں باپ نے بچپن میں دین کی تعلیم نہیں دی یہاں تک کہ وہ بالغ ہو گیا سمجھ دار ہو گیا۔ اب اگر وہ گناہ وغیرہ کرتا ہے تو کیا یہ اس کی اپنی غلطی ہے یا اس میں اس کے ماں باپ بھی گناہ گار ہوں گے۔
جواب:
دو باتیں ہیں۔ ایک یہ کہ اس معاملے میں گناہ گار کون ہے۔ دوسری یہ کہ اگر کوئی آدمی اسی طرح بڑا ہو گیا اور گناہ میں مبتلا ہے تو کرنا کیا چاہیے۔ اگر میں اس بات کی تحقیق کروں کہ گناہ گار کون ہے تو میرے خیال میں اس سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا کیونکہ یہ بات تو اللّٰہ ہی کو پتا ہے کہ کون گناہ گار ہے۔ لیکن اگر کوئی کسی کو گناہ گار مان لے اور خود جو کر سکتا ہے وہ نہ کرے تو اپنے آپ کو مزید نقصان پہنچائے گا۔ لہٰذا پہلا کام تو یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو نقصان سے بچائے۔ اگر اس کو اتنی سمجھ ہے کہ مجھ میں غلطیاں ہیں تو ان غلطیوں کو دور کرنے کے لیے جو کوشش ہو سکتی ہے اس میں سستی نہ کرے۔ بلکہ عین ممکن ہے کہ اس کی برکت سے والدین کی بھی اصلاح ہو جائے۔ کیونکہ ضروری تو نہیں کہ تمام والدین تربیت یافتہ ہوں اور لوگوں کی اصلاح کرتے پھریں۔ بعض دفعہ بچوں کے ذریعے سے والدین کی بھی اصلاح ہو جاتی ہے۔ لہٰذا ہمت کریں، کوشش کریں کہ اپنی اصلاح بھی کریں اور اپنے گھر والوں کے لیے بھی مفید بن جائیں۔
سوال نمبر22:
ایک واقعہ ہے کہ ایک شخص جو دین دار نہیں تھا، اس کی داڑھی نہیں تھی، نمازیں بھی نہیں پڑھتا تھا۔ اس کا پانچ سال کا ایک بچہ تھا۔ وہ ضد کرتا تھا کہ مجھے مسجد لے جائیں۔ تو کبھی کبھی یہ بچے کی ضد پوری کرنے کے لئے اسے مسجد چھوڑ آتا تھا۔ اس طرح اس کا مسجد آنا جانا شروع ہو گیا۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ پھر اس شخص نے با قاعدگی سے نماز پڑھنا شروع کر دی، داڈھی بھی رکھ لی اور اس کے اندر کافی تبدیلی آ گئی۔
جواب:
اللّٰہ پاک اس پر بہت مہربان ہوں گے۔ اس کی کوئی ایسی نیکی کام آئی ہو گی جو اللّٰہ کو پسند آ گئی ہو گی جس کی وجہ سے اللّٰہ پاک نے ایک چھوٹے معصوم بچے کو اس کے لیے واسطہ اور وسیلہ بنا دیا۔ 5 سال کی عمر کوئی سمجھ داری کی عمر نہیں ہوتی۔ لیکن اللہ پاک نے اس بچے کو اسے ٹھیک کرنے کا ذریعہ بنا دیا۔ یہ اللّٰہ کی مہربانی ہے کہ اس بندے کا کوئی اچھا کام ایسا ہو گا جو اللّٰہ کو پسند آ چکا ہو گا اور اللّٰہ پاک نے اس کی ہدایت کا فیصلہ کر دیا اور اس کے لیے اس بچے کو وسیلہ بنا دیا۔ بڑی عمر کے بچے بھی اپنی سمجھ کے ساتھ اس طرح کر سکتے ہیں، اس سے ان کو بھی فائدہ ہو گا اور ان کے والدین کو بھی فائدہ ہو گا۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ