سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 17

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم

سوال 1:

قرآن کی نصوص سے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا جنتی ہونا یقینی ہے اور حضرت محمد ﷺ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جنت کی بشارت بھی دی تھی۔ تو پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا پوچھنا کہ میرا نام منافقوں میں تو نہیں اس کا کیا مطلب ہے؟

جواب:

ایک ہوتا ہے کسی چیز کا علم ہونا اور ایک ہوتا ہے کیفیت کا پتا ہونا، یہ دونوں چیزیں مختلف ہیں۔ بعض دفعہ کیفیت علم کے مطابق ہوتی ہے اور بعض دفعہ کیفیت علم سے مختلف ہوتی ہے۔ مثلاً ایک طالب علم نے بڑی اچھی تیاری کی ہے، اس کو لوگ تسلی دیتے ہیں کہ بھائی تم بڑے اچھے نمبروں سے پاس ہو جاؤ گے لیکن اس کو اطمینان نہیں ہوتا۔ اس کو اپنی کمزوریاں نظر آ رہی ہوتی ہیں کیونکہ اس کا معیار بہت اونچا ہے، نتیجتاً وہ سمجھتا ہے کہ میرا فلاں فلاں کام خراب ہے۔

انجینئرنگ کے پہلے سال میں ایک دفعہ ہمارا ایک viva ہمارے لحاظ سے خراب ہو گیا۔ مجھے بڑی فکر اور پریشانی تھی۔ ایک senior شاید تیسرے یا چوتھے سال میں تھے، انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ بھئی امتحان کیسا ہو رہا ہے؟ میں نے کہا: اچھا نہیں ہوا اور viva ٹھیک نہیں ہوا۔ کہتے ہیں کہ میرا تجربہ ہے کہ جو لوگ زیادہ روتے ہیں وہ زیادہ نمبر حاصل کرتے ہیں۔ آپ کے نمبر بڑے اچھے آئیں گے۔ بہر حال اللہ کا شکر ہے کہ نمبر بڑے اچھے آ گئے۔ مجھے بھی سمجھ نہیں آئی کہ کیسے اچھے آئے؟ معلوم ہوا جن کا معیار اونچا ہوتا ہے ان کو ڈر بھی زیادہ ہوتا ہے۔ اس وجہ سے آپ ﷺ نے فرمایا: میں تم میں سے اللہ تعالیٰ سے سب سے زیادہ ڈرنے والا ہوں۔ حالانکہ آپ ﷺ تو بخشے بخشائے تھے، بارہا یہ باتیں آپ ﷺ تک پہنچی تھیں لیکن معیار بہت اونچا تھا۔ حضرت مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ سے جب حضرت کے شیخ نے پوچھا کہ ایک شخص کہتا ہے "سُبْحَانِیْ مَا اَعْظَمَ شَانِیْ" ”میں پاک ہوں اور میری شان کتنی اونچی ہے“ اور دوسرا کہتا ہے کہ اے اللہ! میں نے تیری ثناء کا حق ادا نہیں کیا۔ ان میں کون بڑا ہے؟ حضرت مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ اس وقت محض عالم تھے، اس وقت تصوف کے نقشے کوچے میں داخل نہیں ہوئے تھے۔ فرمایا: دوسرا والا بڑا ہے۔ پوچھا: کیسے بڑا ہے حالانکہ وہ تو کہتا ہے کہ میں نے تیری ثناء کا حق ادا نہیں کیا۔ انہوں جواب دیا: اس کا ظرف بڑا ہے، وہ چَھلکا نہیں جب کہ پہلے کا ظرف چَھلک گیا، لہذا وہ کہتا ہے کہ میں بڑا ہوں، میری شان اونچی ہے۔ جن لوگوں کا ظرف بڑا ہوتا ہے ان کو اپنے آپ کا کچھ نہ ہونا نظر آتا ہے۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بات تو ہے ہی، لیکن ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نہیں دیکھتے ہو کہ وہ کیا فرماتے ہیں؟ وہ فرماتے ہیں کہ کاش میں کوئی تنکا ہوتا، جس کو کوئی جانور کھا لیتا۔ کاش میں پیدا نہ ہوتا۔ دیکھو جانور کیسے آرام سے سو رہا ہے، میرے سے حساب ہونا ہے۔ یہ باتیں اس لئے تھیں کہ ان کو احساس تھا، ان کو اللہ پاک کی عظمت کا ادراک تھا، ان کو اپنی کمزوریوں کا احساس تھا۔ اس وجہ سے وہ ہمیشہ تھرتھر کانپ رہے ہوتے تھے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب مومن سے کوئی غلطی ہوتی ہے تو ایسا لگتا ہے جیسے اس کے اوپر کوئی پہاڑ گر گیا ہے، جب تک وہ اللہ تعالیٰ سے رو دھو کے معافی نہ کروا لے اس وقت تک اس کو چین نہیں آتا اور فاسق سے جب کوئی گناہ ہوتا ہے تو وہ اس کے لئے ایسے ہے جیسے مچھر آیا اور اڑا دیا، اس کو کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔ اس کو بڑی بڑی باتوں کا بالکل احساس نہیں ہوتا۔ اگر اس کو کوئی کچھ بھی کہتا ہے تو آ گے سے جواب دیتا ہے: اللہ غفور رحیم ہے۔ کیا صحابہ کو اور بڑے بڑے بزرگوں کو پتا نہیں تھا کہ اللہ غفور رحیم ہے؟ لیکن ان کو اللہ کے قانون کا بھی پتا تھا، اللہ کی عظمت کا بھی ادراک تھا۔ مثلاً کسی کا ایک بہت ہی اچھا عزیز مہمان ہو، دل سے جس کی خدمت کرنا چاہتا ہو اور اپنا سب کچھ لٹا بھی دے پھر بھی سمجھتا ہے کہ میں نے کچھ بھی نہیں کیا اور مہمان سے معذرت کرتا ہے۔ آج کل تو نمائشی طور پہ کہا جاتا ہے کہ ہم نے آپ کی کوئی خدمت نہیں کی اور اگر وہ کہہ دے کہ بالکل آپ ٹھیک کہتے ہیں تو پھر برا مانتے ہیں۔ جن کے ساتھ کسی کا قلبی تعلق ہوتا ہے تو پھر وہ جتنی بھی خدمت کر لیں پھر بھی یہی سمجھتے ہیں کہ میں نے کچھ نہیں کیا۔ یہی بات حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پیشِ نظر تھی۔ ان کو ساری باتیں معلوم تھیں لیکن ان کو اللہ تعالیٰ کی عظمت کا ادراک بہت زیادہ تھا، اللہ تعالیٰ کے قانون کا بہت زیادہ احساس تھا، لہٰذا اپنی ساری نیکیاں اس کے سامنے ہیچ سمجھتے تھے اور یہ ایک بہت ہی قابل قدر بات ہے۔ بشارتیں بھی ملی تھیں بلکہ لوگوں نے کہا کہ آپ کو بشارتیں دی گئی ہیں آپ پھر بھی کیوں اس طرح کی باتیں کرتے ہیں؟ فرمایا: جو کام آپ ﷺ کے سامنے ہوئے ہیں ان کے بارے میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان شاء اللہ بچت ہو جائے گی لیکن جو ہم نے بعد میں کئے ہیں ان کا حساب ہو گا۔ ہر ایک کا اپنا اپنا ظرف ہے۔ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ظرف بہت اونچا تھا اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ظرف ان سے بھی اونچا تھا۔

سوال 2:

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے متعلق ایک دوست اعتراض کرتا ہے کہ آپ کو غسل آپ کی زوجہ محترمہ حضرت اسماء نے دیا اور انہیں کپڑوں میں جو پہنے ہوئے تھے انہیں دفنایا گیا، کیا یہ صحیح ہے؟

جواب:

اس پہ میری تحقیق نہیں ہے کیونکہ یہ تاریخ کا سوال ہے، اس کا تصوف کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ لہٰذا اس کا جواب دینا ہمارے ذمے نہیں ہے۔ بہر حال چونکہ سوال آ گیا ہے تو اس کی تحقیق کر کے کچھ عرض کر سکوں گا ان شاء اللہ۔

سوال 3:

حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کے کسی خادم نے حضرت کی کوئی کیفیت دیکھی اور ان سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا: مجھے اللہ پاک نے آسمان کو دکھایا، جنت دکھائی اور پھر مجھ سے پوچھا کہ تجھے ان میں سے کیا چاہیے؟ میں نے عرض کیا کہ یا اللہ مجھے تُو ہی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تو واقعی میرا خالص بندہ ہے۔ یعنی اللہ کا مل جانا اور اس کی حقیقت کیا ہے؟

جواب:

میں علمی جواب بھی دے سکتا ہوں، لیکن اس کا جواب وہی دے سکتا ہے جو اس کیفیت سے گزر رہا ہو کیونکہ یہ کیفیت کی چیز ہے۔ اس کو کیفیت والا ہی سمجھ سکتا ہے۔ علمی طور پر اس کو کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ کیونکہ پھر علمی اشکالات پیدا ہوں گے جیسے جنت کا اللہ پاک نے حکم دیا ہے کہ مجھ سے مانگو اور جنت کی تعریف بھی ایسی ہی کی گئی ہے۔ اللہ پاک کا فرمان ہے: ﴿وَ لَكُمْ فِیْهَا مَا تَشْتَهِیْۤ اَنْفُسُكُمْ وَ لَكُمْ فِیْهَا مَا تَدَّعُوْنَ (حم السجدہ: 31)

ترجمہ: ”اور جنت میں ہر وہ چیز تمہارے لئے ہے جس کو تمہارا دل چاہے، اور اس میں ہر وہ چیز تمہارے ہی لئے ہے جو تم منگوانا چاہو۔“

لیکن وہ قرآن پاک کی یہ آیت بھول جاتے ہیں: ﴿وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلهِ (البقرہ: 165)

ترجمہ: ”اور جو ایمان لا چکے ہیں وہ اللہ ہی سے سب سے زیادہ محبت رکھتے ہیں۔“

شدید محبت سے مراد کیا ہے؟ یعنی باقی ساری چیزوں کی اس کے سامنے کچھ حیثیت نہ رہے۔ اگر کسی کو یہ کیفیت حاصل ہے تو اس کے ساتھ ایسا ہی ہو گا اور واقعتاً اس کا بڑا مقام ہے۔ وہ اللہ کا خاص بندہ ہے۔ اس وجہ سے انسان کی نظر جب دنیا سے ہٹ جائے اور آخرت پر آ جائے تو اللہ اس کی اتنی قدر دانی کرتا ہے کہ اس کو آخرت کی نعمتیں نصیب فرما دیتا ہے۔ جب آخرت کی چیزوں سے بھی نظر ہٹ جائے گی اور اللہ پر آ جائے گی تو پھر اس کو کیا دیں گے؟ بس ہمارے دل میں تُو ہی تُو ہے۔ اور حضرت خواجہ صاحب رحمۃ اللہ کا شعر ہے:

ہر تمنا دل سے رخصت ہو گئی

اب تو آ جا اب تو خلوت ہو گئی

آپ ﷺ کے آخری الفاظ کیا ہیں؟ "بالرَّفِیقِ الْاَعْلٰی" اب تو رفیقِ اعلیٰ ہی درکار ہے۔ جنت کہا؟ کچھ اور کہا؟ لوگ صوفیا کی باتوں کی نا قدری اور ان پے اعتراض کرتے ہیں حالانکہ ان کا کوئی نہ کوئی ناتا قرآن کی کسی آیت یا کسی حدیث شریف کے ساتھ ہوتا ہے لیکن وہ چیزیں مستحضر نہیں ہوتیں۔ لوگوں کے دلوں میں صوفیا کی وقعت نہیں ہے۔

حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے باقی سلسلے بھی بہت اچھے ہیں لیکن چشتیہ سلسلہ اقرب الی السنہ ہے لیکن لوگ نہیں جانتے۔ یہ اس لئے فرمایا کہ چشتیہ سلسلے کو لوگ سنت کے خلاف سمجھتے ہیں۔ لیکن جب سنت پے گہری نظر ہو تو یہ چیز نظر آئے گی۔ چنانچہ ان کا اتنا علمی مقام ہو کہ ان کو سنت کی تمام چیزوں کا پتا ہو۔ مثلاً کتنے لوگوں کو پتا ہے کہ حضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اشراق کے وقت شعر و شاعری کی باتیں کیا کرتے تھے اور آپ ﷺ بھی سنتے تھے۔ اب شعر و شاعری ہوتی ہے تو لوگوں کے ماتھے پہ بل پڑ جاتے ہیں اور کہتے ہیں: یہ کہاں سے ثابت ہے؟ خدا کے بندو! عربوں میں تو یہ چیز اتنی زیادہ تھی کہ ہر گھر میں ایک شاعر ہوتا تھا۔ چنانچہ قرآن سے بھی دلیل مل گئی۔ اللہ کا فرمان ہے: ﴿وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلهِ (البقرۃ: 165) حدیث شریف سے بھی دلیل مل گئی "بالرفیق الاعلٰی" لہذا اس قسم کی چیزیں چونکہ حال سے تعلق رکھتی ہیں چنانچہ صاحبِ حال ہی اس کو جان سکتا ہے اور سمجھ سکتا ہے اور سمجھا سکتا ہے۔ واقعتاً جب حال تک طاری نہ ہو تو اس وقت تک ساری چیزیں قال ہی قال رہتی ہیں۔ حضرت مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:

قال را بگزار مرد حال شو

پیش مرد کامل پامال شو

قال کو ایک گونہ ترک کر دو، اب صاحب حال بن جاؤ اور اس کے لئے اپنے آپ کو کسی صاحبِ حال کامل آدمی کے سپرد کر دو، پھر یہ چیز ملے گی۔ سعید الدین مرعشی رحمۃ اللہ علیہ چشتیہ سلسلے کے شیخ گزرے ہیں، ان کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا۔ آخر وقت میں اللہ تعالیٰ نے جنت منکشف فرما دی، انہوں نے چہرہ موڑ دیا کہ یا اللہ اگر میں نے سب کچھ اس کے لئے کیا تو میں نے اپنا وقت ضائع کر دیا۔ پھر اللہ پاک نے ان پر اپنی تجلئ خاص ڈالی اور اسی حالت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلا لیا۔ یہ مقام مقام کی اور سمجھ سمجھ کی بات ہے۔ جس کو سمجھ آ جائے اس کی قسمت ہے اور جس کو سمجھ نہ آئے وہ کہاں دیکھ سکتا ہے؟ وہ جو سمجھ رہا ہے وہ تو ٹھیک ہے لیکن جو وہ نہیں سمجھ رہا ہے وہ الگ ہی چیز ہے۔

اس سوال پر مجھے حیرت ہو رہی ہے کیونکہ شیخ کے ساتھ سارا معاملہ ہی محبت کا ہوتا ہے۔ اس میں کسی اور چیز کی نیت نہیں کی جاتی، البتہ اللہ تک پہنچنے کی نیت کی جاتی ہے۔ جیسے یہ بات ہے کہ اللہ پاک کی بات ماننا جنت کے لئے ہے یا اللہ کی بات ماننا اللہ کے لئے ہے۔ اسی طرح وہ چیز اگر سمجھ میں آ رہی ہے تو پھر یہ بھی سمجھ آ جائے گی کہ شیخ کی بات ماننا شیخ کی محبت کے لئے یا شیخ کی بات ماننا ثواب کے لئے ہے۔ ثواب کی نا قدری نہیں ہے لیکن محبت کی قدر دانی ہے۔

سوال 4:

کچھ دنوں سے میری عجیب کیفیت ہے، پچھلی زندگی پر نظر دوڑاؤں تو بہت غلطیاں اور کوتاہیاں نظر آتی ہیں، سب دکھاوا اور ریا لگتا ہے۔ فرائض کی ادائیگی نہیں ہوتی، نفلی عبادات جو اپنی تعریف کے لئے کیں اور ساری زندگی ضائع کر ڈالی۔ کل بھی مجھے اس بات پر بہت رونا آیا، میرا دل انتہائی بجھا ہوا ہے، میں استغفار کر رہی ہوں مگر ابھی اگر عمل کا لمحہ ختم ہو گیا تو قبر کی تاریکی میں کیا حال ہو گا! اللہ کے لئے دنیاوی ضرورت کے لئے مانگتی ہوں، یہ سوچ کر دل گھبرا جاتا ہے کہ کس منہ سے مانگوں؟ اس مالک عظیم کے حضور اتنے گناہ کر ڈالے۔ دعا کرتی ضرور ہوں لیکن انتہائی شرمندگی کے ساتھ اور احساسِ شرمندگی سے بیٹھی رہتی ہوں۔

جواب:

ما شاء اللہ بڑا اچھا حال ہے۔ انسان جس وقت روحانی طور پہ ترقی کر رہا ہوتا ہے تو اس کا پہلا step یہ ہوتا ہے کہ اس کو اپنی غلطیاں نظر آتی ہیں۔ جو غلطیاں انسان سے چھپی ہوئی ہوتی ہیں وہ غلطیاں بھی نظر آ جاتی ہیں۔ بعینہٖ اس قسم کی مثال ہے کہ اگر ہم microscope میں اپنا تھوک دیکھیں تو اس میں اتنے جراثیم نظر آئیں گے کہ انسان گھبرا جائے گا۔ بڑی بڑی بلاؤں کے درمیان ہم گھرے ہوئے ہیں۔ یہ تو اللہ کا حکم ہے کہ وہ ہمیں نہیں پکڑتیں ورنہ سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم کیسے بچے ہوئے ہیں؟ نا سمجھ آدمی جب بیمار ہوتا ہے تو حیران ہوتا ہے کہ میں بیمار کیسے ہوا؟ اور سمجھدار آدمی سمجھتا ہے کہ میں صحت مند کیسے ہوں؟ معلوم ہوا اس کو وہ نظر آ رہا ہے جو باقیوں کو نظر نہیں آتا۔ اسی طریقے سے جب تک انسان کے اوپر کیفیت طاری نہیں ہوتی، اس کے حال کا مرتبہ نہیں آتا، اس کو اللہ جل شانہ کی عظمت کا ادراک جب تک نہیں ہو رہا ہوتا اور اپنی آخرت کا احساس نہیں ہو رہا ہوتا تب تک وہ اپنا سب کچھ ٹھیک سمجھتا ہے بلکہ اللہ پر احسان کرتا ہے۔ نماز پڑھتا ہے تو بھی اللہ پر احسان کرتا ہے۔ روزہ رکھتا ہے تو بھی اللہ پر احسان کرتا ہے۔ سچ بولتا ہے تو بھی اللہ پر احسان کرتا ہے اور اس پر ناز کرتا ہے۔ روحانیت کا پہلا قدم یہی ہے کہ ناز ٹوٹ جائے اور نیاز شروع ہو جائے۔ غلطیاں باقی لوگ بھی کر رہے ہوتے ہیں۔ جیسے لوگ دنیا کے لئے دعائیں مانگ رہے ہوتے ہیں لیکن ان کو کبھی وسوسہ بھی نہیں آتا کہ میں کیا کر رہا ہوں یا کیا کر رہی ہوں؟ دوسرا قدم یہ ہے کہ اس کو اپنی ذات کے لحاظ سے نہ مانگتے ہوں بلکہ اللہ کا حکم سمجھ کر مانگتے ہوں کہ میں عاجز ہوں، میں کمزور ہوں۔ اللہ پاک کو عاجزی پسند ہے، اس کے اظہار کے لئے میں اللہ پاک سے مانگوں۔ جیسے موسیٰ علیہ السلام نے کہا تھا: ﴿رَبِّ اِنِّیْ لِمَاۤ اَنْزَلْتَ اِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیْرٌ (القصص: 24) اپنے آپ کو فقیر محتاج سمجھے کیونکہ اس پہ اللہ پاک خوش ہوتے ہیں۔ اللہ کے لئے اس چیز کو لینا الگ بات ہے اور اپنے نفس کے لئے اس چیز کو مانگنا الگ بات ہے۔ پہلے اپنے نفس کی بات ٹوٹے گی، یعنی ادھر سے کٹیں گے اور اللہ کی طرف جائیں گے۔ جیسے آپ کی اس کیفیت میں نظر آ رہا ہے۔ اس کے بعد جب اللہ کی محبت غالب ہوتی ہے اور اللہ کے سامنے اپنا عجز واضح ہوتا ہے تو اس وقت انسان یہ احساس کرتا ہے کہ میں وہی کروں گا یا کروں گی جو اللہ مجھ سے چاہتا ہے، میری اپنی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ یہ پھر اس سے اوپر کا حال ہے۔ بہر حال ما شاء اللہ اچھا حال ہے۔ اور امید ہے کہ اور اچھا ہو چکا ہو گا۔

سوال 5:

ہمارے بہت سے اکابر کا طریقہ یہ رہا ہے کہ جب ایک شیخ فوت ہو جاتا ہے تو دوسرے شیخ سے بیعت کر لیتے ہیں حالانکہ پہلے شیخ سے ان کو اجازت بھی مل چکی ہوتی ہے یعنی وہ سیر الی اللہ طے کر چکے ہوتے ہیں اور ان کی باطنی اصلاح پوری ہو چکی ہوتی ہے، پھر کیا وہ محض برکت کے لئے دوسرے شیخ سے رجوع کرتے ہیں یا شیخ کی ضرورت انسان کو عمر بھر ہوتی ہے؟

جواب:

بڑا اچھا سوال ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے اوپر منافق ہونے کا گمان تھا، کیونکہ ان کو اللہ پاک کا بہت زیادہ اور اپنے کچھ نہ ہونے کا استحضار تھا۔ تمام دلائل پر یہ کیفیت غالب ہو جاتی تھی لہٰذا وہ اپنے اوپر اس قسم کا خیال کرتے تھے۔ اسی طرح جس کا ظرف بڑا ہوتا ہے تو بے شک اس کو گزشتہ شیخ سے اجازت بھی مل چکی ہوتی ہے لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے تو بڑی بات نہیں ہے۔ اگر کسی کو اجازت مل چکی ہو تو یہ ایک ضمنی بات ہے۔ جب کہ آپ ﷺ کی زبان اطہر سے نکلی ہوئی بات یقینی ہے۔ اگر یقینی بات کے بعد کسی کا یہ حال ہو سکتا ہے تو ظنی بات کے بعد یہ حال ہونا کیا بعید ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ بے شک ان حضرات نے میرے اوپر نیک گمان کر لیا لیکن میں اس قابل نہیں ہوں، وہ کسی اور شیخ کی ضرورت سمجھے اور اپنے سر کے اوپر کوئی سایہ رکھنا مناسب سمجھے تو یہ اچھا حال ہے۔ اس میں عاجزی ہے اور اللہ پاک کو عاجزی پسند ہے۔ یہ کوئی دنیا کی چیز نہیں ہے جس کے لئے وہ ایسا کرنا چاہتا ہو۔ بلکہ پہلے شیخ سے اجازت حاصل ہونے کے بعد دوسرے شیخ سے رجوع کرنا اللہ کو زیادہ محبوب اس لئے ہو سکتا ہے کہ اس میں یہ خطرہ تو نہیں ہے کہ مجھے اجازت مل جائے گی کیوں کہ اجازت تو مل چکی ہے۔ لیکن اس کے با وجود بھی اگر چاہتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس کو اخلاص حاصل ہے، وہ اپنی اصلاح چاہتا ہے اور اس کے لئے کسی اور شیخ کے پاس دوبارہ جانا چاہتا ہے۔ چونکہ ہمارے اکابر اللہ والے تھے اور اللہ کو چاہتے تھے لہٰذا اگر کسی اور شیخ سے رابطہ کرتے ہیں تو یہ مستحسن ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جب دوسرے مشائخ سے رابطہ کیا جاتا ہے، وہ اکثر ایسے صاحب کو الا ما شاء اللہ بعض لوگوں کے اختلاف کے ساتھ کسی خدمت میں ہی مشغول کر لیتے ہیں۔ یعنی ان کو جو حاصل ہو چکا ہوتا ہے اس سے بھی فائدہ لینا شروع کر لیتے ہیں اور مزید برکت بھی حاصل ہو رہی ہوتی ہے کیونکہ ان کو اس کا احساس ہے کہ اگر یہ میرے پاس آیا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میں اس سے اچھا ہوں۔ با وجود اس کے کہ روحانیت میں وہ ان کی خدمت کر رہے ہوتے ہیں لیکن ساتھ ساتھ ان کی اس چیز کا بھی خیال رکھتے ہیں لہٰذا ان کا معاملہ دوسرے لوگوں سے مختلف رکھتے ہیں۔

سوال 6:

اگر اپنے شیخ سے اجازت نہ ملی ہو تو انسان پھر بھی کسی سے بیعت کر سکتا ہے؟

جواب:

اُس وقت کسی سے بیعت کرنا کافی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ ابھی سیر الی اللہ طے نہیں ہوا، ابھی اس کی تکمیل باقی ہے۔ اگر دوسرے شیخ سے رجوع کر لے تو یہ اس سے زیادہ مستحسن ہے کیونکہ وہ مستحب کے زمرے میں آتا ہے اور یہ فرضِ عین کے زمرے میں آتا ہے۔ معلوم ہوا جب تک وہ چیز حاصل نہ ہو تو اس کے لئے کوشش جاری رہنی چاہیے۔ میں کہتا ہوں کہ بیعت مستحب یعنی سنت مستحبہ ہے لیکن اصلاح فرض عین ہے۔ اصلاح کے لئے تعلق رکھ لے، بیشک بیعت کرے نہ کرے، لیکن اگر بیعت کر لے تو زیادہ فائدہ اس لئے ہوتا ہے کہ ایک تو اس سلسلے کی بھی برکت حاصل ہو جاتی ہے اور ساتھ ساتھ اس کو زیادہ احساس بھی ہوتا ہے کہ اب مجھے اسی سے کرنا ہے کسی اور کی طرف نہیں جانا۔ یکسوئی بھی زیادہ حاصل ہو جاتی ہے۔ چنانچہ اس کے لئے زیادہ مستحسن یہی ہے۔ در اصل سلسلہ ایک عمومی چیز ہے اور مناسبت ہونا خصوصی چیز ہے۔ خصوصی کو عمومی پر فوقیت حاصل ہوتی ہے۔ پھر اپنے سلسلے کے سارے بزرگوں سے بھی ضروری نہیں کہ مناسبت ہو۔ دو پیر بھائی ہوتے ہیں، ایک سے ہوتی ہے ایک سے نہیں ہوتی۔ یہ بالکل صحیح طے شدہ بات ہے۔ مناسبت ہونا زیادہ ضروری ہے کیونکہ فائدہ مناسبت کے لحاظ سے ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں سلسلوں کا مسئلہ ہی نہیں کیونکہ چاروں سلسلوں میں جس سے بھی بیعت ہوں گے تو اگر مناسبت ہو تو اس میں مسئلہ ہی نہیں آیا کیونکہ ہر سلسلہ فیض پہنچانے میں حریص ہوتا ہے۔ انسان کو صرف طلب دکھانی ہوتی ہے۔ طلب نظر آ جائے تو ہر سلسلہ جس کے ساتھ اس کو مناسبت ہو گی خود بخود اس کو پکڑے گا۔

سوال 7:

حضرت جب سے رات کو عشا کے بعد نوافل صلوۃِ توبہ پڑھنا شروع کئے ہیں اس قت سے شرمندگی اور نادانی والی کیفیت اس قدر ہوتی ہے کہ بعض دفعہ رونے کی حالت ہو جاتی ہے۔ اس کی ایک صورت یہ ہے کہ ہم نوافل پڑ لیتے ہیں یا ذکر کر لیتے ہیں تو کیفیت تھوڑی متذبذب ہوتی ہے۔ یعنی دل کی کیفیت الحمد للہ اسی طرح رہتی ہے اور ذکر اب 24 گھنٹے چلتا رہتا ہے۔ لیکن بعض دفعہ ذہنی طور پر کچھ خلش سی ہوتی ہے۔

جواب:

ذہن کی خلش کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے۔ اللہ کے ساتھ تعلق اور اللہ پاک کی طرف توجہ بنیادی چیز ہے اور اپنی غلطیوں، کوتاہیوں کا استحضار، ان پر توبہ اور آئندہ کے لئے صحیح کام کرنے کا عزم یہ بنیادی چیز ہے۔ اگر Line اس پر ہے تو پھر پرواہ نہیں کرنی چاہیے۔ کہتے ہیں:

بر صراطِ مستقیم ہرگز کسے گمراہ نشد

جب سیدھے راستے پر ہو گئے تو پھر گمراہ نہیں ہو گے۔ آپ کو پتا ہے کہ یہ راستہ لاہور کو جاتا ہے، آپ چاہے آہستہ جائیں یا تیز جائیں لیکن پہنچیں گے لاہور ہی۔ لیکن اگر آپ کو پتا ہے کہ میں پشاور کی طرف جا رہا ہوں اور جانا لاہور کو تھا، کیسے اطمینان ہو گا؟

سوال 8:

کسی بچی کا ایک بہت پرانا خط ہے اور الحمد للہ مجھے بڑی خوشی ہے کہ ہمارے سلسلے میں جو بچیاں یا خواتین آئی ہیں ان کو اصلاح کی فکر ہو گئی ہے۔ فکر ہونا بڑی بات ہے، ہاتھ اللہ ہی پکڑتے ہیں، دینے والی ذات تو وہی ہے۔ اگر کسی کو فکر ہو جائے تو اس تک پہنچنے کے لئے راستہ بنا دیتے ہیں۔ وہ لکھتی ہے: بعد تسلیم عرض ہے کہ میرے میٹرک کا رزلٹ آیا ہے، 775/1050 نمبر ہیں۔ مجھے بڑا ناز تھا کہ میری دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ نہ جانے کیا مسئلہ تھا کہ میں papers کے بعد سے results تک جو دعائیں کرتی رہی وہ قبول نہیں ہوئیں۔ اپنی کلاس میں ہمیشہ اول آتی تھی۔ اب ایک اور لڑکی آگے نکل گئی ہے۔ result دیکھ کر میں نے اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْن پڑھا۔ یہ نا شکری کے کلمات تھے جو بے اختیار زبان سے نکلے، البتہ میں نے منہ سے نا شکری نہیں کی، آنکھوں سے آنسو آ گئے۔ سورہ کہف کے درمیان result آیا تھا وہ بھی روتے روتے ختم کی۔ سارے فون کر کر کے مبارک باد دے رہے تھے۔ تب احساس ہوا کہ نمبر تو شاید اچھے آئے ہیں۔ پھر جب رات کو اپنی Mark sheet دیکھی تو English میں 76 نمبر تھے۔ میرا تو حال برا ہو گیا کہ سب subject میں 100 سے اوپر اور English میں 76! پھر میں نے سوچا کہ میرے اتنے کم نمبر نہیں آ سکتے، مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ کیا ہوا ہے؟ ابو بھی کہتے ہیں English میں اتنے کم نمبر کیسے! البتہ ہمارے گھر مٹھائی بھی آئی، کیک بھی کاٹا گیا۔ میں اس نا شکری کا ازالہ کیسے کروں؟ ابھی تو English کے teacher بھی نہ جانے کیا کچھ کہیں گے۔ سارے کہتے ہیں کہ سائنس میں تو زیادہ نمبر آتے ہیں تم نے آرٹس پڑھ کر اتنے نمبر کیسے لئے! سمجھ نہیں آتا کہ کس کو دیکھوں؟ اپنے سے اوپر والوں کو یا نیچے والوں کو، دعاؤں کی درخواست ہے۔

جواب:

نا شکری کے کلمات کہے تو احساس ہو گیا ورنہ کہاں احساس ہوتا ہے؟ ان باتوں کی طرف کون دیکھتا ہے؟ کیسی پیاری باتیں ہیں۔ مجھے اس پر بڑے شکر کے جذبات آتے ہیں جب اپنے سلسلے کی بچیوں کو اور متعلقین کو الحمد للہ اپنی اصلاح کی فکر کرتے دیکھتا ہوں۔ یہی احساس آگے بڑھاتا ہے تو پھر کام ہو جاتا ہے۔ کسی وقت ایک صاحب نے مولانا فقیر محمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو خواب میں دیکھا۔ حضرت کو پہلوانی کی صورت میں دیکھا جیسے آستینیں چڑھائی ہوئیں اور کہہ رہے ہیں کہ یہ کام کر لو اور وہ کام کر لو۔ یہ ان کی روحانی قوت کی طرف اشارہ تھا، ان کی روحانی قوت زیادہ تھی، اللہ پاک ان سے بہت کام لے رہے تھے۔ وہ صاحب حضرت کے سامنے اپنا سارا رونا رو رہے ہیں کہ حضرت میں تو ایسا ہوں، میں تو ویسا ہوں۔ ساری چیزیں گڑبڑ ہیں، میرے ساتھ کیا ہو گا؟ حضرت فرماتے ہیں کہ ما شاء اللہ، ما شاء اللہ آپ کو احساس ہو گیا اور جب احساس ہو جاتا ہے تو پھر اللہ اصلاح فرما دیتے ہیں۔ جب تک احساس نہیں ہوتا اس وقت تک معاملہ مختلف ہوتا ہے اور جب احساس ہونے لگتا ہے تو پھر اللہ کی طرف سے مدد بھی آتی ہے اور پھر ساری چیزیں ٹھیک بھی ہونے لگتی ہیں۔

یہاں یہ بچی دو کیفیتوں میں پھنسی ہوئی ہے۔ ایک تو یہ بات کہ اس نے محنت بڑی زبردست کی ہے، مقابلے میں تھی اور جو مقابلے میں ہوتے ہیں ان کے جذبات ایسے ہی ہوتے ہیں۔ دنیا میں marks وغیرہ کے لئے محنت و مشقت کرنے میں ایسا ہی ہوتا ہے، اس میں کوئی اجنبیت والی بات نہیں ہے۔ دوسری بات کہی کہ کہ زبان سے تو کچھ نہیں کہا لیکن آنکھوں سے آنسو آ گئے۔ لوگ مبارک باد دے رہے ہیں اور میں رو رہی ہوں۔ اس پر ڈر ہوا کہ میں نے زبان سے تو نا شکری نہیں کی لیکن دل سے نا شکری ہو گئی، اس کا کیا ہو گا؟ اس کا تدارک کیسے ہو گا؟ یہ اس کا روحانیت کا مقام ہے جو سلسلے کی برکت سے اس کو ملا ہے۔ چنانچہ یہ دو کیفیتوں میں پھنسی ہوئی تھی، اب ممکن ہے نکل گئی ہو۔

اصل بات یہ ہے کہ انسان اسباب اختیار کرنے کا مکلف ہے جس کے اندر کوئی کمی نہیں ہونی چاہیے۔ لیکن نتیجہ پھر جو بھی نکلے اس پر دل سے راضی ہونا اللہ پاک کو مطلوب ہے۔ اسباب سارے کے سارے ٹھیک ہوں اور کچھ بھی نہ دے اور اسباب بالکل ٹھیک نہ ہوں اور سب کچھ دے دے یہ اللہ پاک کے اختیار میں ہے۔ اللہ پاک کا فرمان ہے: ﴿وَ تُخْرِ جُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَ تُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ٘ (آل عمران: 27) مردے سے زندہ نکالنا، زندے سے مردہ نکالنا اس کے لئے کوئی مشکل نہیں ہے۔ معلوم ہوا انسان کو اسباب پورے اختیار کرنے چاہئیں، نتیجہ جو بھی آئے اس پر دل سے راضی ہونا یہی عین مطلوب ہے۔ چونکہ اب جو اس نے محںت کی اور اسباب اختیار کئے اس میں تو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ البتہ نتیجہ جو آیا اس کو دل سے قبول کرنے کی بات عین مطلوب ہے۔ اس مسئلہ میں تفویض محض ہونا چاہیے۔ تفویض کا درجہ فی الحال نہیں تھا لیکن ضبط کا درجہ تھا۔ اس پر بھی اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کیونکہ شکر کرنے سے نعمت بڑھتی ہے۔ اس نے اتنا ضبط کیا کہ زبان سے کچھ نہیں کہا اور انسان اتنے کا ہی مکلف ہے کہ زبان سے کچھ نہ کہے۔ باقی دل کیا کہے اور آنسو کیا کہیں اس کا انسان مکلف نہیں لیکن یہ indicator ہے۔ اپنے روحانی مقام کو بڑھانا چاہیے کہ انسان دل سے تفویض کرے اور اپنے آپ کو کسی چیز کے قابل نہ سمجھے اور سارے اسباب اختیار کرلے۔ کہتے ہیں:

جان دے دی، دی ہوئی اسی کی تھی

حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

یعنی انسان کوشش اتنی کرے کہ جیسے جان دینی ہو لیکن سوچے کہ یہ میرا کمال نہیں ہے بلکہ یہ توفیق من جانب اللہ ہے۔ اپنے آپ کو کسی چیز کے قابل نہ سمجھنا یہی مطلوب ہے۔ لیکن یہاں افراط تفریط ہو جاتی ہے، کچھ لوگ تفویض کا معنی یہ لے لیتے ہیں کہ کام کچھ نہ کریں بس جو ہو سو ہو اور ہم ہر چیز پر راضی ہیں۔ یہ بھی مطلوب نہیں ہے۔ دوسری طرف انسان محنت، مشقت زیادہ کرتا ہے اور نتیجہ بھی اسی طرح کا طے کرتا ہے یہ بھی مطلوب نہیں ہے۔ مطلوب یہ ہے کہ اسباب تو سارے اختیار کرے لیکن نتیجہ محض اللہ کے حوالے کرے اور یہی تفویض ہے۔

توکل کا یہ مطلب ہے کہ خنجر تیز رکھ اپنا

پھر انجام اس کی تیزی کا مقدر کے حوالے کر

گفت پیغمبر با آواز بلند

بر توکل زانوئے اشتر ببند

پیغمبر نے بلند آواز سے کہا کہ اونٹ کا گھٹنا باندھ کر توکل کرو۔ کسی نے آپ ﷺ سے پوچھا: ہم اونٹ کا گھٹنا کھلا چھوڑ کے توکل کیا کریں یا باندھ کے توکل کیا کریں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: گھٹنا باندھ کر توکل کرو۔ مقصد یہ ہے کہ اسباب اختیار کر لو، لیکن نتیجہ کو خدا کے حوالے کر دو۔ نتیجے میں تم اپنی طرف سے کچھ نہ کہو۔ چنانچہ اس بچی کو احساس ہے۔ البتہ English میں نمبر کم آئے، اس میں کچھ مسائل ہوتے ہیں۔ ہمارے ملکی حالات ایسے ہیں کہ اس طرح کی گڑبڑ ہوتی رہتی ہے۔ بعض دفعہ competition ہوتا ہے اور کسی کو آگے کرنا ہوتا ہے، کسی کو پیچھے کرنا ہوتا ہے، اس وجہ سے اس قسم کے مسائل آ جاتے ہیں۔ بہر حال نتیجہ جو بھی آئے وہ اللہ کے حوالے کرنا مطلوب ہے۔

سوال 9:

حضرت! عادت ہے کہ میں چھوٹی سے چھوٹی چیز نوٹ کر لیتی ہوں۔ کسی نے کچھ اچھا پہنا ہو یا کچھ منفرد ہو تو فوراً مجھے پتا چل جاتا ہے۔ البتہ میری کوشش ہے کہ میری یہ چیز اللہ کے دین کے لئے ہو جائے اور دین کے معاملے میں میرے اندر یکسوئی آ جائے۔

جواب:

الحمد للہ بہت اچھی بات ہے۔ خواتین کو اللہ پاک نے یکسوئی کی دولت سے نوازا ہوتا ہے۔ چاہے کوئی بھی چیز ہو، جیسے کپڑوں میں یکسوئی ہو جائے تو بس کپڑوں کے پیچھے لگی رہتی ہیں۔ کسی کے ہاں چلی جائیں تو بعض کو پرواہ ہی نہیں ہوتی، ان کو نظر ہی نہیں آتا کہ کیا ہوا؟ لیکن بعض کو کپڑوں کی باریکیوں کا پتا ہوتا ہے کہ اس نے ایسے کپڑے پہنے ہوئے تھے اور اس میں یہ چیز ٹھیک نہیں تھی اور یہ چیز زبردست تھی وغیرہ۔ انسان حیران ہو جاتا ہے کہ اتنی باریک بینی کے ساتھ کسی چیز پر نگاہ ہونا بڑی عجیب بات ہے لیکن بہر حال ان کو یہ حاصل ہوتا ہے۔ اسی طریقے سے گھروں کی چیزوں پر ان کو بڑی یکسوئی حاصل ہوتی ہے۔ کسی کے ہاں چلی جائیں تو ان کے گھر کی بہت سی چیزیں نوٹ کر لیتی ہیں اور اس پہ ان کے گھر میں اچھی خاصی Commentary pass ہو جاتی ہے۔

اب اگر کسی کو اللہ تعالیٰ یہ نسبت عطا فرمائے کہ اس کی یہ یکسوئی دین کی طرف اور للہیت کی طرف آ جائے جیسے اس بچی میں اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمائی۔ اور اس طرف ہی سارا رجحان ہو جائے کہ میری فلاں چیز ٹھیک نہیں ہے، یہ ٹھیک ہونا چاہیے، وہ ٹھیک ہونا چاہیے وغیرہ، تو کیا ہی بات ہے۔ اس لئے ہمارے مشائخ فرماتے ہیں کہ ہمارے ہاں ازالہ نہیں ہوتا بلکہ امالہ ہوتا ہے۔ ازالہ سے مراد یہ ہے کہ کسی چیز کو زائل کر دو۔ مثلاً یکسوئی چونکہ دنیا میں ہے تو اس کو زائل کرنے کی بجائے دین کی طرف موڑ دو۔ ایک دفعہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک راستے سے گزر رہے تھے۔ اس زمانے میں کوئی مشہور گویّا گانا گا رہا تھا۔ حضرت نے سن لیا، تو جاتے جاتے comment کر گئے کہ کاش یہ آواز قرآن کے لئے استعمال ہوتی۔ بعد میں گویّئے سے کسی نے پوچھا: آپ کو پتا ہے کہ اس راستے سے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ گزرے ہیں؟ اس نے کہا: نہیں۔ کہا: انہوں نے آپ کی آواز سن کے کہا کاش یہ آواز قرآن کے لئے استعمال ہوتی۔ اب چونکہ ایک عارف کے قلب سے آواز آئی تھی تو اس کا اتنا اثر ہوا کہ اس نے توبہ کر لی، اس کے بعد اس نے قرآن پاک کی تجوید سیکھی۔ قراء حضرات ہمارے علاقے میں جو قراءت کرتے ہیں ”قراءت حفص“ یہ وہی صاحب تھے۔ یعنی اتنے مشہور ہو گئے اور قراءت کے امام بن گئے۔ تو ہمارے مشائخ ازالہ نہیں کرتے بلکہ امالہ کرتے ہیں۔ کسی چیز کا جو فائدہ ہو اس کو اسی جگہ استعمال کر لیتے ہیں جہاں اس کو استعمال ہونا چاہیے۔

سوال 10:

طریقت بھی اصلاح کا ایک راستہ ہے، تبلیغ و دعوت بھی اصلاح کا راستہ ہے۔ کسی کے پاس محدود وقت ہو، تو وہ کیا کرے؟

جواب:

حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا مرید ہونا، ان کے ساتھ ہونا اور پھر یہ سوال کرنا بڑا عجیب ہے۔ کیونکہ مولانا صاحب رحمۃ اللہ علیہ تو ہمیں الحمد للہ یہ ساری چیزیں بتا چکے ہیں۔ انہی سے تو ہم نے سنا ہے۔ اس میں کوئی دوسری بات نہیں ہے، دونوں چیزیں ساتھ ساتھ چل سکتی ہیں اور ما شاء اللہ کامل درجے میں چل سکتی ہیں۔ میں نے اپنی کتاب ”تصوف کا خلاصہ“ میں یہ بات لکھی ہے کہ حضرت شاہ عبد العزیز دعا جو رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے فرمایا: مولانا تبلیغ آپ کے مجاہدے کی لائن ہے اور تصوف آپ کے ذکر کی لائن ہے۔ اس سے میں نے یہ نکتہ نکالا اور اپنی کتاب میں اس کو بیان بھی کیا ہے کہ تبلیغ والوں کو کسی سے سیکھ کر ذکر اللہ کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ اگر وہ کسی سے بیعت نہ ہوں یا کسی سے روحانی تعلق قائم نہ ہو تو مجاہدہ ان کا ہوتا رہے گا لیکن چونکہ ذکر والی لائن نہیں ہوتی اس لئے ان کو فائدہ نہیں ہو رہا ہوتا۔ مثال کے طور پر مجاہدے کو آپ بڑے بڑے خوبصورت پتھر سمجھیں جن سے building بنائی جاتی ہے، بنیادوں میں ڈالے جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ کچھ سیمنٹ وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے، ذکر اس کا سیمنٹ ہے۔ اب وہ پتھر جمع کر رہے ہیں لیکن اگر سیمنٹ کا انتظام نہیں کیا تو اس سے وہ چیز نہیں بنے گی جو اس کے ساتھ مل کر بننی چاہیے۔ کبھی پتھروں کو ویسے ہی رکھ رکھ کے عمارتیں بنائی جاتی ہیں لیکن وہ ایک منزلہ کی چھوٹی چھت کی عمارت بنے گی، آپ اس کے اوپر بہت بڑا بوجھ نہیں ڈال سکتے کیونکہ اس کے ساتھ Binding agent نہیں ہے اگر Binding agent اس کے لئے arrange ہو جائے تو پھر تین منزلہ، چار منزلہ بنا دو کوئی مسئلہ نہیں کیونکہ اس کے اندر integrity اور enforcement آ جائے گی لہذا بہت اعلیٰ چیز بن جائے گی۔

تبلیغ والے ما شاء اللہ بڑے اونچے راستے پر ہیں بس صرف ان کو ذکر اللہ کی ضرورت ہے اور وہ بھی کسی سے سیکھ کر۔ اس کمی کو دور کر لیں تو سبحان اللہ۔ یہ بات نا کافی ہے کہ تبلیغ والا بھی راستہ اصلاح کا راستہ ہے اور تصوف والا بھی راستہ اصلاح کا راستہ ہے حالانکہ تبلیغ کے اندر بذات خود اگر ذکر کی لائن شامل نہ ہو تو پھر اس میں انسان میں عجب آنا شروع ہو جاتا ہے اور آدمی سمجھتا ہے کہ میں دوسروں کی اصلاح کر رہا ہوں اور اس سے بعض دفعہ بجائے فائدے کے نقصان ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر ذکر کی لائن ساتھ ہو تو اس سے عجب نہیں آتا۔ البتہ ذکر کسی سے سیکھ کر کرے بغیر سیکھے کرے گا تو عجب آ جائے گا۔ لیکن جب کسی سے سیکھ کر کر رہا ہوتا ہے تو اس میں پھر عجب نہیں آتا۔ تصوف کے اندر سب سے بڑی چیز جو مجھے نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ اس میں نظر اپنے شیخ پر ہوتی ہے اپنے اوپر نہیں جاتی۔ جب اللہ تعالیٰ اس کو کوئی کمال نصیب فرماتے ہیں تو کہتا ہے: یہ ہمارے حضرت کا کمال ہے۔ سب حضرات فرماتے ہیں۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ خود فرماتے ہیں کہ ایک وکیل صاحب میرے بہت شدید مخالف تھے، بعد میں اللہ کا شکر ہے کہ معتقد ہو گئے۔ ایک دن میں وعظ کر رہا تھا اور وہ میرے سامنے بیٹھے ہوئے تھے۔ اس وقت تقریباً مادری زبان فارسی تھی اور متوسط درجے کے لوگ عام طور پر عربی، فارسی سب پڑھ لیتے، سن لیتے تھے۔ تو وہ وکیل صاحب بار بار کہہ رہے تھے:

تو مکمل از کمال کیستی

تو منور از جمال کیستی

مسلسل مجھے دیکھ دیکھ کر یہ شعر پڑھ رہے تھے۔ فرمایا: میں بھی جوان تھا مجھے جوش آ گیا، میں نے کہا :

من مکمل از کمال حاجیم

من منور از جمال حاجیم

میں حاجی صاحب کے کمال سے مکمل ہوں، میں حاجی صاحب کے جمال سے منور ہوں۔ نظر کس پہ گئی؟ تعریف کس کی ہو رہی ہے؟ وکیل صاحب تعریف کس کی کر رہے ہیں؟ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ جواب میں کس کی تعریف کر رہے ہیں؟ اپنے شیخ کی اور ان کے شیخ اپنے شیخ کی کر رہے ہیں اور ان کے شیخ اپنے شیخ کی کر رہے ہیں، ہوتے ہوتے یہ بات کہاں پہنچ جاتی ہے؟ بس یہی تصوف کا کمال ہے۔ اس وجہ سے جب انسان تصوف میں آتا ہے تو اس کی اپنے اوپر سے نظر ہٹ جاتی ہے، اللہ پاک اس کی حفاظت فرما دیتے ہیں۔ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کو ایک دفعہ آپ ﷺ کی زیارت ہوئی اور کچھ بات بتا دی۔ حضرت جنید صاحب رحمۃ اللہ علیہ بڑے خوش ہو گئے اور بڑی خوشی سے اپنے شیخ کو یہ بات بتانا چاہتے تھے، صبح حضرت سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ آئے اور پوچھا: کیا آج آپ کو خواب میں حضور ﷺ کی زیارت ہوئی ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں آپ کو کیسے پتا چلا؟ فرمایا: مجھے اللہ پاک نے فرما دیا کہ میں نے اپنے حبیب کو ان کے پاس بھیجا۔ سبحان اللہ اور وہ چیز توڑ دی۔ یعنی ان کو جو یہ وہم ہو رہا تھا کہ میں کچھ ہو گیا ہوں کہ مجھے آپ ﷺ کی زیارت ہو گئی۔ ممکن ہے جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ اپنے شیخ سے آگے ہوں، اللہ کو پتا ہے، ہمیں نہیں پتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ ان کی اس چیز کو ختم کرنا چاہتے تھے۔ جو تصوف کا طرۂ امتیاز ہے اس کو بر قرار رکھنا چاہا نتیجتاً بہت زبردست انتظام کر دیا۔ مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

مولوی ہرگز نہ شد مولائے روم

تا غلامِ شمس تبریزے نہ شد

مولوی اس وقت تک مولانا روم نہیں بنے جب تک کہ شمس تبریز کے غلام نہ بنے۔ اس چیز کو حاصل کرنے کے لئے اپنے اوپر سے نظر ہٹ جائے اور سب کچھ اللہ تعالیٰ کے لئے ہو جائے، تمام مجاہدات کو جوڑنے کے لئے یہ Binding agent ہے ورنہ محض مجاہدے سے خشکی آ جاتی ہے۔ ہمارے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنا ایک واقعہ بیان کیا ہے۔ خود میں نے ان کی زبان سے سنا ہے۔ حضرت نے ہمارے سامنے فرمایا: ایک بڑے میاں تبلیغی جماعت میں چلہ لگا کر آئے اور کہا: مجھے جو اس چلے میں حاصل ہوا وہ مولانا جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کو بھی حاصل نہیں ہوا ہو گا۔ میں نے ان سے کہا: بڑے میاں آپ دودھ وغیرہ پیا کریں اور میں نے دل میں سوچا کہ مجاہدات کر کر کے ان کو خشکی ہو گئی ہے اس وجہ سے یہ حالت ہو گئی ہے۔ تبلیغ میں مجاہدہ بہت ہے۔ کبھی کیا حال ہو، کبھی کیا حال ہو، بہت سے حالات اور مجاہدات پیش آتے ہیں۔ انہی مجاہدات سے اگر کام لیا جائے تو کیا سے کیا بن جائیں لیکن اسی مجاہدہ کو شیطان اگر انسان کے خلاف استعمال کر لے تو بھی کیا سے کیا بن جائے گا۔ معلوم ہوا جس کا شیخ کے ساتھ تعلق ہوتا ہے اس کے سارے مجاہدات کام آ جاتے ہیں اور اس کی کبھی بھی اپنے اوپر نظر نہیں ہوتی بلکہ اپنے شیخ پہ ہی ہوتی ہے۔

سوال 11:

کیا تصوف کے بغیر کامیابی ممکن ہے؟

جواب:

اگر تصوف کی صحیح تعریف معلوم ہے تو اللہ پاک کی قدرت پر یقین رکھتے ہوئے سب کچھ ممکن ہے۔ لیکن اللہ نے جو اسباب کی دنیا بنائی ہے اس کے لحاظ سے دیکھا جائے تو تصوف کے بغیر اگر نا ممکن نہیں ہے تو حد درجہ مشکل ضرور ہے۔ کیونکہ تصوف میں مختلف رنگ ہوتے ہیں، ہر ایک کے لئے تصوف ایک جیسا نہیں ہوتا۔ تصوف procedure کو کہتے ہیں۔ عین ممکن ہے کسی کے لئے مختلف procedure ہو لیکن وہ بھی اس کا تصوف ہو گا۔ جس طرح ہم ضربیں لگاتے ہیں یا مراقبے کرتے ہیں تو صرف اسی پر انحصار نہیں ہے۔ اگر اللہ پاک نے کسی کے لئے کوئی اور طریقہ بنایا ہوا ہے اور اس کے شیخ کے دل میں ڈال دیا تو وہ اس طریقے سے کرا دے گا لیکن اس کو بھی اس کا تصوف کہیں گے۔ کیونکہ تصوف یوں سمجھ لیجئے کہ Those procedures which are used for the sake of purification of heart and یعنی اپنے نفس کو نیک اعمال کے لئے عادی بنانا ہے، وہ اس کا تصوف ہے۔

سوال 12:

کیا خواتین کی آواز میں نعتیں نیٹ پر خود خواتین سن سکتی ہیں؟

جواب:

اس میں کچھ شرعی تفصیلات ہیں۔ میرے دل میں اِس وقت فوراً ایک حدیث شریف القاء ہوئی ہے۔ آپ ﷺ نے ایک دفعہ ایک حُدی خوان کو روک دیا۔ حدی خوان وہ لوگ ہوتے تھے جو اونٹوں کو تیز چلانے کے لئے کچھ اشعار پڑھتے تھے جس کی وجہ سے اونٹ بڑے تیز چلتے، جیسے بِین سے سانپ جھومتا ہے۔ اسی طریقے سے اونٹوں کو کچھ چیزیں زیادہ پسند ہوتی ہیں جس سے وہ جوش میں آتا ہے اور تیز بھاگتا ہے۔ چونکہ عربوں کے ہاں اونٹ Mercedes تھا لہذا وہ ان تمام چیزوں کو جانتے تھے۔ آپ ﷺ نے ایک حدی خوان کو فرمایا: رک جاؤ! شیشے ٹوٹ جائیں گے۔ کیونکہ کجاووں میں ازواج مطہرات بیٹھی ہوئی تھیں، دیگر خواتین بیٹھی ہوئی تھیں، خواتین چونکہ زود حِس ہوتی ہیں اور حساس ہوتی ہیں، ان میں انفعالیت ہوتی ہے، اثر جلدی لے لیتی ہیں۔ ہر جلدی اثر لینے والی چیز ضروری نہیں کہ اچھی بھی ہو۔ کہتے ہیں: ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی، چمک انسان کو بڑی اچھی لگتی ہے۔ لیکن ضروری نہیں کہ وہ سونا ہی ہو۔ اس طریقے حساسیت بعض دفعہ مسئلہ بن جاتی ہے۔ مثلاً allergy یعنی Hyper sensitivity against some activity یہ ایک بیماری ہے۔ حالانکہ یہ hypersensitivity کسی چیز کا زیادہ حساس ہونا ہے۔ جتنا بھی ہمارا secretion کا system ہے مثلاً ناک کے اندر، آنکھوں کے اندر سب ہمارے فائدے کے لئے ہے، اگر یہ نہ ہو تو ہماری آنکھ کی صفائی نہ ہو، ہمارے ناک کی صفائی نہ ہو، بلغم نہ نکلے، گلے کی صفائی نہ ہو یہ اس کے صفائی کے نظام ہیں۔ لیکن جس وقت hypersensitivity ہو جائے تو یہ اپنی موجودہ مقدار سے زیادہ ہو جاتے ہیں اور وہی بیماری ہے۔ Access of everything is bad یعنی یہ چیز زیادہ ہو جاتی ہے تو بیماری ہو جاتی ہے۔ حالانکہ اگر معتدل مقدار میں ہو تو صحت ہے اور کم ہو تو پھر بھی بیماری ہے۔ مثلاً کسی کے آنسو نہ آئیں یا ناک ہر وقت خشک رہے یا تھوک نہ بنے۔ ایک صاحب ہر وقت گلاس ساتھ لئے رہتے تھے لوگوں نے پوچھا: کیا وجہ ہے؟ کہتے ہیں: میرے منہ میں تھوک نہیں بنتا۔ اس کو ہر وقت پیاس لگتی تھی کیونکہ اس کے منہ میں Cooling system نہیں ہے۔ معلوم ہوا اعتدال پہ ہو تو ٹھیک ہے، کم ہو تو بیماری، زیادہ ہو تو بیماری۔ اسی طریقے سے اگر کوئی شخص کسی چیز سے محسوس ہی نہیں کرتا تو وہ بھی ایک کمزوری اور بیماری ہے اور دوسرا شخص بہت زیادہ محسوس کرتا ہے، جیسے اگر چاند پر کوئی پہنچ جائے تو وہاں چلنا پھرنا کافی مشکل ہو جائے۔ کیونکہ gravity کم ہے۔ آپ زمین پہ چلنے کے عادی ہوں گے اور ایک فٹ قدم کے لئے طاقت استعمال کریں گے لیکن چھ فٹ اٹھ جائے گا۔ توازن بر قرار رکھنا ہی مشکل ہو جائے گا۔ خواتین کے اندر کیونکہ حساسیت زیادہ ہے لہذا ان کو ایسی چیزوں میں نہیں پڑنا چاہیے جس سے ان کو اس قسم کے مسائل ہوں۔ بے شک وہ کتنی ہی بظاہر اچھی نظر آتی ہوں۔ سیفی لوگوں کے ہاں ٰ(اللہ تعالیٰ سب کو ہدایت عطا فرمائے) اچھل کود کو ہی سب کچھ سمجھا جاتا ہے۔ پورا ایک تماشہ ہوتا ہے۔ لوگ بھی ان کے پاس اس لئے جاتے ہیں کہ وہ لوٹ پوٹ کر دیتے ہیں۔ کیا لوٹ پوٹ کرنا مقصود ہے؟ لوٹ پوٹ تو ایک Side effect ہے۔ مثلاً آپ کو ایک احساس ہو گیا اس کو اگر لوٹ پوٹ ہونے کے بغیر لے لیں تو ما شاء اللہ آپ اس کو کام کے لئے استعمال کر لیں گے۔ لیکن جو کمزور ہوتا ہے تو وہ اس چیز کو حاصل کرنے کے ساتھ لوٹ پوٹ بھی ہو جاتا ہے لیکن لوٹ پوٹ ہونا مقصود نہیں ہے۔ آپ اس کو زیادہ سے زیادہ برداشت کر سکتے ہیں کہ Side effect ہے جیسے دوائیوں کے Side effect برداشت کرنے پڑتے ہیں لہذا آپ اس کا بھی Side effect برداشت کریں۔ لیکن یہ کوئی مقصود چیز نہیں ہے کہ آپ اس کے پیچھے جائیں۔ لیکن سیفی برادران کے ہاں اس چیز کو مقصود سمجھا جاتا ہے، لہذا یہ ایک مسئلہ اور بیماری ہے۔ اب ان لوگوں نے عورتوں کو بھی اس لائن پہ لگا دیا ہے اور عورتیں بھی ان کے قدموں میں گر جاتی ہیں۔ اِنَّا لِلهِ یہاں سے فسق کا معاملہ شروع ہو گیا۔ پردے کا معاملہ ختم ہو گیا، شریعت کس لئے ہے؟

سوال کیا گیا ہے کہ خواتین کی آواز میں نعتیں net پر خود خواتین سن سکتی ہیں یا نہیں؟ اس میں دو باتیں ہیں ایک تو میں نے بتا دی کہ خواتین کو control کرنا ضروری ہے لہذا اتنا سنیں کہ Out of control نہ ہو جائیں۔ اس کا فیصلہ ان کو خود کرنا پڑے گا کیونکہ مقصود Out of control ہونا نہیں بلکہ control کے اندر رہنا ہے۔ اتنا سنیں جتنا وہ control کر سکتی ہیں۔ دوسری بات ان خواتین سے سنیں جو فاسقہ نہ ہوں، یعنی ڈومنیاں نہ ہوں، جیسے گانے والی ہوتی ہیں۔ وہ ایسی محفلوں میں سنائیں گی جہاں مرد بھی ہوں۔ جیسے ریڈیو پر، ٹیلی ویژن پر گا رہی ہوں تو وہ فاسقہ ہیں کیونکہ ان کی آواز بھی ستر ہے، مردوں تک نہیں پہنچنی چاہیے۔ اگر انہوں نے اس کا اہتمام نہیں کیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ فاسقہ ہیں اور فاسقہ کی آواز سے اللہ کا نام بھی آئے گا وہ بھی اثر انداز نہیں ہو گا۔ اس وجہ سے اپنے آپ کو بچانا چاہیے۔ اگر اپنے اندر کچھ خوش آواز خواتین ہوں، اگر وہ پاک باز ہیں اور مردوں کو سنانے والی نہیں ہیں اور تمام چیزوں کا خیال رکھتی ہیں تو ان کی آواز سن سکتی ہیں۔ لیکن وہ بھی Control limit کے اندر اندر۔ اور خواتین مردوں آواز میں نعتیں سن سکتی ہیں اگر فتنہ نہ ہو۔ فتنے کا اندیشہ ہوتا ہے کیونکہ آواز میں جادو ہے۔ حدیث شریف میں ہے: "اِنِّ مِنَ الْبَیَانِ لَسِحْرًا" (ابوداؤد، السنن، حدیث نمبر: 5007)

ترجمہ: ”بے شک بعض تقریریں جادو ہوتی ہیں۔“

چنانچہ ان مردوں کے ساتھ دل involve نہ ہو جائے جو فتنہ ہے، لہٰذا احتیاط لازم ہے۔ چونکہ اس میں شرعی مسئلے آ گئے ہیں۔ میرا تو یہ مقام نہیں کہ میں اس پہ بات کروں لیکن جن حضرات سے میں نے سنا ہے ان کی باتیں میں نے آپ تک پہنچا دی ہیں۔

سوال 13:

حضرت! حدیث پاک میں آتا ہے نماز مومن کی معراج ہے اس میں معراج سے کیا مراد ہے؟ کیا اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ نماز میں انسان کو یہ تصور کرنا چاہیے کہ میں اللہ کے سامنے کھڑا ہوں۔ جیسے آپ ﷺ معراج میں اللہ کے سامنے تھے۔

جواب:

"اَلصَّلٰوۃُ مِعْرَاجُ الْمُوْمِن" اس حدیث شریف کا معنی سمجھنا چاہیے۔ در اصل عبدیت انسان کی معراج ہے۔ معراج شریف کا واقعہ طائف کے واقعے کے فوراً بعد ہوا ہے۔ طائف کے سفر میں آپ ﷺ کو بڑی تکلیف پہنچائی گئی، بے عزتی کرنے کی کوشش کی گئی، بچے پیچھے لگا دیئے گئے، پاؤں خون سے بھر گئے، آوازیں کسی گئیں۔ یہ سب آپ ﷺ نے برداشت کر لیا اور طائف میں ایک حال والی دعا بھی آپ ﷺ سے منقول ہے جو عبدیت کی انتہاء تھی۔ اس کے فوراً بعد اس کا نتیجہ معراج شریف کی صورت میں آ گیا۔ اس وجہ سے عبدیت انسان کی معراج ہے اور نماز چونکہ عبدیت کا مظہر ہے لہذا وہ اس کی معراج ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ بھی اپنے لئے کوئی معراج بنا دیں کہ میں عرش پہ کھڑا ہوں۔ یہ میرا مقام نہیں ہے، میں تو کہوں گا: میں زمین پر کھڑا ہونے کے قابل بھی نہیں ہوں۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ مجھے اپنے سامنے کھڑا کیا۔ اللہ کا فضل ہے کہ اپنا نام لینے کی توفیق دے رہا ہے۔ کہاں میں اور کہاں میری زبان! صوفیا کو چونکہ اللہ پاک نے حسنِ ذوق دیا ہوتا ہے وہ اس کی ادائیگی ذرا بہتر طریقے سے کر سکتے ہیں۔ تو ایک بہت بڑے صوفی شاعر عراقی رحمۃ اللہ علیہ کے اشعار ہیں:

بزمیں چوں سجدہ کردم کہ ز زمیں صدا برآید

کہ مرا خراب کردی تو بسجدۂ ریائی

میں نے جب زمین پر سجدہ کیا تو زمین سے آواز آئی، تو نے مجھے ریا کے سجدے سے خراب کر دیا۔ تو کیا وہ عرش پہ کھڑا ہونے کے قابل سمجھ رہا ہے؟ نہیں! بلکہ وہ خود کو زمین پر کھڑا ہونے کے قابل بھی نہیں سمجھ رہا۔

چوں بخانہ کعبہ رفتم ز کعبہ صدا برآید

توں بیرون ز چہ کردی کہ درونِ خانہ آیی

میں جب خانہ کعبہ کے اندر چلا گیا تو خانہ کعبہ سے آواز آئی تو نے باہر کیا کیا ہے کہ اندر آ گیا؟ اپنے باہر کو ذرا دیکھو اندر کیا لینے آئے ہو؟ خانہ کعبہ کے اندر جانا کتنا بڑا مقام ہے لیکن وہ اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجھ رہا۔ یہ عبدیت ہے، اور یہی معراج ہے۔ "اَلصَّلٰوۃُ مِعْرَاجُ الْمُوْمِنِیْن" میں اللہ پاک کی عظمت منکشف ہوتی ہے۔ نماز میں کیونکہ ہم اپنی پیشانی کو جو سب سے اشرف ترین جگہ ہے زمین پر جو سب سے اسفل ترین جگہ ہے اس پے اللہ کے لئے رکھتے ہیں۔ یہ symbolically اظہار ہے کہ اے اللہ! میں تیرے سامنے کچھ نہیں ہوں، یہی اصل میں عبدیت ہے۔ جب نماز کے اندر کسی کو یہ احساس ہو گیا کہ میں کچھ ہوں تو اس کی نماز کی ابتدا ہی نہیں ہوئی، یعنی عبدیت کی ابتدا ہی نہیں ہوئی۔ اس وجہ سے نماز کے فوراً بعد مسنون طریقہ ”استغفر اللہ“ کہنے کا ہے۔ تو انسان کو یاد رہنا چاہیے کہ میں نماز جو پڑھ رہا ہوں تو کہاں میں اور کہاں اللہ کے سامنے کھڑا ہونا! حضرت علی کرم اللہ وجہہ نماز میں کھڑے ہوتے تو رنگ زرد ہو جاتا۔ لوگوں نے پوچھا کہ حضرت ایسا کیوں ہوتا ہے؟ فرمایا: احکم الحاکمین کے سامنے کھڑا ہوتا ہوں اس لئے۔

وَمَا عَلَينَآ إلَّا البَلَاغ