اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
جو سوالات فقہی امور سے متعلق ہوں ان کے جواب کے لئے مفتیانِ سے پوچھا جائے کیونکہ ہم بھی مفتیانِ کرام سے ہی پوچھتے ہیں۔ البتہ جو سوالات طریقت سے تعلق رکھتے ہوں، اللہ پر توکل کرتے ہوئے یہاں ان کے جواب دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔
سوال 1:
اصلاحی ذکر کا بہترین وقت کون سا ہے؟
جواب:
ذکر کی دو قسمیں بہت واضح ہیں۔ ایک: جس سے اجر مقصود ہوتا ہے، مثلاً "سُبْحَانَ اللہِ وَ بِحَمْدہٖ سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِیم" "لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ" "اَستَغفِرُ اللہ"، درود شریف، اور تلاوتِ قرآن۔ چنانچہ اس میں تعداد مقرر نہیں ہوتی۔ البتہ انتظامی طور پر مقرر کی جا سکتی ہے لیکن اُس میں صرف انتظامی امور کو خیال میں رکھا جاتا ہے اصلاح کو نہیں۔ اس میں وقت کی بھی قید نہیں ہے بلکہ انتظامی طور پر متعین کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر کوئی شخص دفتر جاتا ہے اس کے لئے مشورۃً عرض کیا جا سکتا ہے کہ بہتر وقت کون سا ہو گا لیکن وہ وقت اس کے لئے لازمی نہیں ہو گا۔ اسی طریقے سے قرآن پاک کی تلاوت کے متعلق بھی مناسبِ حال جواب دیا جا سکتا ہے۔۔
دوسری قسم کا ذکر ”اصلاحی ذکر“ کہلاتا ہے۔ یعنی جس سے انسان کے قلب کی اصلاح ہو۔ اصل میں انسان کا قلب دو کام کرتا ہے، ایک تو شیطان کی طرف سے جو وسوسہ آتا ہے اس کو respond کر سکتا ہے۔ دوسرا جو اللہ کی طرف سے نیک کام کا الہام آتا ہے، اس کو بھی respond کر سکتا ہے۔ اصلاحی ذکر میں ایسے طریقوں سے جن سے انسان کے دل کے اوپر دنیا کی محبت کے جو جالے پڑے ہوتے ہیں ان کو دور کیا جائے تاکہ شیطان اس کو اپنے الہام کے لئے ذریعہ نہ بنا سکے۔ کیونکہ شیاطین اپنے الہام کے لئے انہی چیزوں کو ذریعہ بناتے ہیں۔ مثلاً دل میں اگر دنیا کی محبت ہو تو یقیناً شیطان اس کے لئے کوئی وسوسہ بنا سکتا ہے کہ دودھ میں پانی ڈال لو، رشوت لے لو، سود کھا لو یا کوئی اور طریقہ اس کو سکھا سکتا ہے جو اس وقت کے مطابق ہو۔ وہ شخص اس کو اپیل بھی کرے گا۔ معلوم ہوا جب تک اس دنیا کی محبت کا جالا دل سے باہر نہ پھینکا جائے تو شیطان کے لئے گویا کہ ہم نے راستہ بنایا ہوا ہے۔ اصلاحی ذکر اس کے اوپر اثر کرتا ہے۔ اس سے مقصود علاج اور اصلاح ہوتا ہے اجر نہیں ہوتا۔
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے ایک دفعہ پوچھا گیا کہ ہم اللہ کا ذکر کرتے ہیں تو کبھی کبھی الفاظ ایسے ہو جاتے ہیں جن سے تجوید کے قواعد کے مطابق صحیح ادائیگی نہیں ہو پاتی، ایسی صورت میں ہم کیا کریں؟ حضرت نے فرمایا کہ اس میں مقصود چونکہ اصلاح ہے ذکر کے الفاظ نہیں ہیں لہٰذا ذکر کے الفاظ جیسے بھی بنیں، اُس کی کیفیت صحیح بننی چاہیے۔ چنانچہ کیفیت کو حاصل کرنے کے لئے توجہ اور کوشش کی ضرورت ہوتی ہے۔ بہر حال اس میں کیفیت مقصود ہوتی ہے الفاظ نہیں۔ چنانچہ ذکر اللہ کے وہ طریقے بتائے جاتے ہیں جن سے دل کے سوئے ہوئے گوشے بیدار ہو جائیں۔ مثال کے طور پر اس میں ضرب و جہر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ ضرب و جہر کوئی منصوص چیز نہیں ہے۔ یہاں ضرب و جہر ایک خاص مقصد کے لئے کیا جاتا ہے کہ دل کو متاثر کیا جائے۔ کیونکہ دل ضرب و جہر دونوں سے متاثر ہوتا ہے۔ خوش آوازی سے بھی متاثر ہوتا ہے۔ مشائخ اس سے بھی کام لیتے ہیں۔ مشائخ چونکہ قلبی ڈاکٹر ہوتے ہیں لہٰذا وہ دل کے امراض کو بھی جانتے ہیں، وہ دل کو درست کرنے کے طریقے بھی جانتے ہیں، وہ دل کو متاثر کرنے والی چیزوں کو بھی جانتے ہیں۔ مثلاً چشتیہ سلسلے میں بارہ تسبیح کا ذکر کرایا جاتا ہے، یوں سمجھ لیجئے کہ اذکار کے ذریعے سے اصلاح قلب کی یہ ایک چھوٹی سی ریہرسل ہوتی ہے جو بار بار انسان کرتا ہے۔ مثلاً پہلے ہم ”لا الہ الا اللہ“ کا ذکر 200 مرتبہ کراتے ہیں اس میں دل کے اوپر ضرب لگتی ہے۔ یہ تصور کیا جاتا ہے کہ لا الہ کے ذریعے دل سے دنیا کی محبت کو اتار پھینکا جائے اور الا اللہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی محبت دل میں لائی جائے۔ اس کے بعد الا اللہ کا ذکر اس طرح ہوتا ہے کہ اس میں خاص چیز کی طرف متوجہ کرایا جاتا ہے کہ اللہ ہی اللہ۔ یعنی باقی تمام چیزوں سے منقطع ہو کے اللہ کی طرف متوجہ ہونے کا طریقہ ہوتا ہے۔ اُس میں ہم کہتے ہیں ”اِلَّا اللہ۔ اِلَّا للہ۔ اِلَّا اللہ۔ اِلَّا اللہ“ اس میں جہر بھی ہے اور ضرب بھی ہے۔ ضرب دل کے اوپر لگتی ہے اس کو جگانے کے لئے اور متاثر کرنے کے لئے اور جہر وساوس کو دور کرنے کے لئے اور ساتھ ساتھ اس سے دل بھی متاثر ہوتا ہے۔ یہ ہم چار سو مرتبہ کراتے ہیں۔ اس کے بعد ”اَللہُ اَللہ“ ”اَللہُ اَللہ“ ”اَللہُ اَللہ“۔ اس میں ہم دل کے اوپر دائیں بائیں ضرب لگاتے ہیں، پہلے ”اَللہُ“ کے ساتھ اور پھر ”اَللہْ“ کے ساتھ۔ یہاں پر ایک تصور بھی کرایا جاتا ہے کہ عرشِ الٰہی سے انوارِ الٰہی میرے دل پر آ رہے ہیں۔ اس کے بعد ”اَللہ“ کا ذکر ”اَللہْ اَللہْ اَللہْ“ اس میں یہ تصور کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ محبت کے ساتھ ہمارے دل کو دیکھ رہے ہیں۔ حدیث قدسی میں اللہ پاک فرماتے ہیں: ”اَنَا عِندْ ظَنِّ عَبْدِیْ بِیْ“۔ (البخاری، حدیث نمبر: 7066)
ترجمہ: ”میں بندے کے گمان کے ساتھ ہوں۔“
اگر کوئی یہ تصور کر لے کہ اللہ پاک میرے دل کو محبت کے ساتھ دیکھ رہے ہیں تو یہ گمان اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہوتے ہوتے ہو بھی جاتا ہے۔
اس طریقے سے ہم اصلاح کے تمام کام کرتے ہیں۔ ہمارے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ ایک شخص کو لطائف کا ذکر سکھا رہے تھے۔ فرمایا کہ ہر لطیفے پہ ایک چلہ لگائیں، ساتھ یہ بھی فرمایا: بھئی دل کے سارے پٹ کھولنے ہیں۔ مقصد یہ کہ جہاں جہاں سے بھی دل کو متاثر کیا جا سکتا ہے تو اس کے نظام پر محنت کرائی جاتی ہے۔ چنانچہ آہستہ آہستہ ذکر اللہ سے دل کی اصلاح ہوتی جاتی ہے۔
ایک بڑے مشہور مفتی صاحب جو سادات میں سے ہیں، ہمارے ساتھی ہیں ان کو میں نے ذکر سکھایا۔ انہوں نے بتایا کہ میرے خاندان کے کوئی بڑے بزرگ خواب میں تشریف لائے اور مجھ سے کہا کہ تو ذکر کیسے کرتا ہے؟ میں نے بتا دیا۔ فرمایا: اس طرح کرو کہ ”لَآ اِلٰہَ“ کے ساتھ۔ مفتی صاحب نے بتایا کہ ان کے اتنا کہنے کے ساتھ ہی دل میں ایک کافی بڑا دروازہ بن گیا۔ پھر ”اِلَّا اللہ“ کے ساتھ، دوسری طرف ایک باریک سا سوراخ بن گیا۔ انہوں نے فرمایا: اس دروازے سے گندگی اور دنیا کی محبت اتار پھینکو۔ اور ”اِلّا اللہ“ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی محبت کے نور کو کھینچو۔ میں نے پوچھا کہ حضرت یہ دروازہ بڑا ہے سوراخ بہت چھوٹا ہے۔ فرمایا بے وقوف! گندگی کو پھینکنے کے لئے بڑا دروازہ چاہیے اور نور کو تو باقی رکھنا ہے۔ اس کے بعد ”اِلَّا اللہ“ کا ذکر مجھے اس طرح سے سکھایا کہ دائیں ہاتھ میں اپنے دل کو رکھ دو۔ اللہ سے اس طرح تصور میں کہو ”اِلَّا اللہ، اِلَّا اللہ“ یہ ہے میرا دل، یہ ہے میرا دل، یہ ہے میرا دل۔ واقعتاً اگر کسی کو اس کا لطف آ جائے اور ہو جائے تو کیا بات ہو گی۔ پھر ”اَللہُ اَللہ“ کا بھی اس طرح بتایا پھر ”اَللہْ“ کا بتایا۔ مقصد یہ ہے کہ مشائخ ان چیزوں کو جانتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی مدد ہوتی ہے۔ جیسے اللہ پاک نے ان کی مدد فرمائی۔ تو اصلاحی اذکار اس طریقے سے با قاعدہ دیئے جاتے ہیں اور اس کی با قاعدہ پیروی کی جاتی ہے اور پوچھا جاتا ہے، پھر اصلاح کی جاتی ہے۔ جو چیزیں صحیح طریقے سے کرنی ہوتی ہیں ان کا بتایا جاتا ہے اور اس طرح ہوتے ہوتے ما شاء اللہ بہت ساری چیزیں حاصل ہوتی ہیں۔
سوال یہ تھا کہ اصلاحی ذکر کا بہترین وقت کون سا ہے؟ اصلاحی ذکر کا بہترین وقت تہجد کا ہے۔ وہ یکسوئی کا وقت ہوتا ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یکسوئی ہو، چاہے پاس ایک سوئی بھی نہ ہو۔ مقصد یہ ہے کہ یکسوئی سے بہت سارے مسائل حل ہو جاتے ہیں۔ جو کام یکسوئی کو disturb کرتے ہیں ان سے اپنے آپ کو بچانا چاہیے۔ تو تہجد کے وقت اگر کوئی نہ اٹھ سکے تو پھر فجر کی نماز کے بعد۔ فجر کی نماز کے بعد وقت نہ ملے تو پھر عصر کے بعد کا وقت ہے، اس کے بعد مغرب کے بعد کا وقت ہے اور مغرب کے بعد بھی نہ ہو تو پھر اخیر میں عشا کا وقت ہے اور یہ بہت کم مفید وقت ہے۔ کیونکہ اس وقت انسان تھکا تھکایا ہوتا، اکثر و بیشتر ایسے لوگوں کو یہ شکایت ہوتی ہے کہ ہمیں نیند آ جاتی ہے۔ وقت ہی آپ نے نیند کا منتخب کیا ہے۔ ہماری جماعت کے بعض ساتھیوں کو ذکر اللہ کی اہمیت نسبتاً کم ہوتی ہے۔ اکثر جب گشت کر کے تھک تھکائے آ جاتے ہیں پھر بستر پر ذکر کرتے ہیں جس کی وجہ سے نیند آ جاتی ہے اور پورا نہیں کر پاتے۔ معلوم ہوا مناسب وقت تہجد کا وقت ہے۔ اگر اس وقت کوئی ذکر کر سکتا ہے تو سبحان اللہ ورنہ پھر اسی ترتیب سے کرے جو اوپر بتائی گئی ہے۔ لیکن عشاء کے بعد بالکل خانہ پری والا ذکر ہے۔ البتہ نہ ہونے سے ہونا بہتر ہے۔ بہر حال اس کو اہمیت دینے کی ضرورت ہے کیونکہ اصلاح فرض عین ہے اور جو اس کے ذرائع ہوں گے وہ بھی اہم ہوں گے۔ جیسے حج فرض ہے تو اس کے لئے ٹکٹ خریدنا اور ویزے لگوانا وغیرہ تمام چیزیں بھی اہم ہوں گی۔ ایک آدمی کہتا ہے: کیا ٹکٹ لینا اور ویزا لگوانا فرض ہے؟ آپ کہیں گے: آرام سے بیٹھ جاؤ پھر حج ہی نہ کرو۔ مقصد یہ ہے کہ جب کوئی چیز فرض ہو تو اس کو حاصل کرنے کے جتنے ذرائع ہیں وہ بھی اس کے لوازمات بن جاتے ہیں۔ چاہے جلدی کرو چاہے بعد میں کرو۔ چونکہ موت سے پہلے پہلے اصلاحِ نفس، فرضِ عین ہے۔
سوال 2:
ایک خواب ہے۔ میرے 14 سالہ بھانجے نے ایک خواب سنایا کہ ایک آدمی نے پوچھا کہ تمھیں آخری نبی کریم ﷺ کی زیارت کراؤں؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ اس نے ایک دوسرے شخص سے ملایا جس کے چہرے سے روشنی آ رہی تھی۔ اس نے کہا: یہ آخری نبی کریم ﷺ ہیں۔ پھر عصر کی اذان ہونے لگی تو میں نے کہا: نماز کا وقت ہو گیا مسجد چلتے ہیں اور پھر میری آنکھ کھل گئی۔
جواب:
سبحان اللہ بہت مبارک خواب ہے اللہ جل شانہٗ ان صاحب کو جو جنہوں نے خواب میں آپ ﷺ کی زیارت کی ہے، اس زیارت کی جملہ برکات نصیب فرمائے۔ ہمیں مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے: جب کبھی خواب میں کسی کو آپ ﷺ کی زیارت ہو تو اب وہ کثرت کے ساتھ درود شریف پڑھے۔ کیونکہ یہ اس کا ادب ہے۔ چنانچہ اب وہ کثرت کے ساتھ درود شریف پڑھیں اور سنتوں پہ چلنے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کریں۔ تاکہ حقیقت میں آپ ﷺ تک پہنچ جائیں۔ اللہ اس کی تعالیٰ تمام برکات نصیب فرمائے۔
سوال 3:
مناجات مقبول عربی میں پڑھنی چاہیے یا اردو میں؟
جواب:
مناجات مقبول کی دعائیں قرآنی اور احادیث شریفہ کی دعائیں ہیں۔ اگر اردو میں کوئی دعا کرتا ہے تو منع نہیں ہے کیونکہ ہر زبان میں دعا کی جاتی ہے بلکہ بے زبان کی دعائیں بھی ہوتی ہیں۔ یعنی زبان ہلائے بغیر بھی بڑی اچھی دعا ہوتی ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ تو جانتے ہیں کہ کیا مانگ رہا ہے۔ لیکن جو برکت قرآنی دعا میں اور حدیث کی دعا میں ہے وہ ہماری زبان میں نہیں ہے۔ البتہ اس کے ساتھ دو باتیں ہیں، عربی دعا منصوص ہے۔ یعنی قرآن و حدیث کی دعا ہے، اس وجہ سے اس کو فضیلت ہے۔ اور اردو کی دعاؤں میں انسان کو ذرا یکسوئی زیادہ ہوتی ہے کیونکہ پتا چلتا ہے کہ میں کیا مانگ رہا ہوں؟ لہٰذا اس کو اللہ کی طرف توجہ ہوتی ہے اور یہ بھی بہت بڑی افضل چیز ہے۔ اگر ان دونوں فضیلتوں کو جمع کیا جائے تو سبحان اللہ۔ چنانچہ انہی عربی دعاؤں کے اردو ترجمے کو اچھی طرح سیکھا جائے۔ اتنا زیادہ سیکھا جائے کہ اس کے لئے اپنی زبان بن جائے۔ جیسے میں کہتا ہوں: "اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا" تو مجھے معلوم ہو کہ میں کیا کہہ رہا ہوں؟ "اٰتِنَا فِیْ الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّ فِیْ الاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّار" مجھے چشم تصور میں بعینہٖ جیسے میں اپنی زبان میں مانگ رہا ہوں اسی طریقے سے اس کو تیار کرنا چاہیے۔ پھر اس کے بعد جب میں عربی کی دعائیں مانگوں گا تو اس کے ساتھ پھر توجہ بھی ہو گی، یکسوئی بھی ہو گی اور عربی دعاؤں کے منصوص ہونے کی فضیلت بھی ہو گی۔ یہ زیادہ بہتر ہو گا۔ لیکن جب تک نہ ہو تو عربی دعائیں مانگی جائیں اور ساتھ ساتھ اس کا ترجمہ بھی پڑھا جائے تاکہ معلوم ہو کہ میں کیا مانگ رہا ہوں؟
سوال 4:
نماز میں کھڑے ہوتے ہی سب کام یاد آنے لگ جاتے ہیں جو عام حالات میں بھولے ہوتے ہیں۔ ساری توجہ اس طرف ہو جاتی ہے، اس سے کیسے بچا جائے؟
جواب:
سبحان اللہ بڑا practical سوال ہے یہ تقریباً بہت سارے لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ چونکہ شیطان ہمارا دشمن ہے اور شیطان کو پرانی چیزیں یاد دلانے کی مہارت ہے۔ وہ اس کو نہیں جانتا کہ اس کی کون سی چیز اس کو یاد ہے۔ وہ اصل میں اس کے دماغ کے اوپر اتنا تصرف کر لیتا ہے کہ اس کو پرانی چیزیں یاد آنی شروع ہو جاتی ہیں۔ اس کو اس سے کوئی غرض نہیں ہے کہ اس کو کون سی چیز یاد آنی چاہیے؟ بلکہ اس کو غرض پرانی چیز یاد آنے سے ہے۔ ایک دفعہ حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ایک شخص آئے اور عرض کیا: میں کوئی چیز کہیں رکھ کر بھول چکا ہوں۔ اب میں ڈھونڈ رہا ہوں لیکن نہیں مل رہی۔ حضرت نے فرمایا: پوری رات نوافل پڑھو اور اگر یاد آ جائے تو اس جگہ دیکھو۔ اگلے دن وہ شخص ملا اور کہا: حضرت آپ نے بڑا اچھا طریقہ بتایا تھا، میں نے جوں ہی نوافل شروع کئے مجھے فوراً یاد آ گیا اور وہ چیز مل گئی۔ حضرت نے اس سے پوچھا کہ پھر کیا کیا؟ اس نے کہا: میں نے وہ چیز اٹھا لی۔ پوچھا: پھر کیا کیا؟ کہا: پھر میں سو گیا۔ فرمایا: خدا کے بندے باقی رات شکر کے طور پر نفلیں پڑھتے رہتے۔ یہی تو شیطان چاہتا تھا کیونکہ شیطان نے تجھے بھلایا تھا اور جب اس کو پتا چل گیا کہ یہ نفلیں پڑھے گا تو اس نے فوراً یاد دلایا۔ بہت سارے لوگوں کو بتایا جاتا ہے کہ اگر نیند نہیں آتی تو درود شریف پڑھنا شروع کر دو۔ میرے خیال میں 100 بھی پورا نہیں کرتے کہ ان کو نیند آ جاتی ہے۔ کیونکہ شیطان نہیں چاہتا کہ وہ درود شریف پڑھتا رہے۔ چنانچہ اس کا طریقہ یہ ہے کہ اپنی نماز کے اندر مشغول ہونے کو سیکھا جائے اور تصور کرے کہ میں اللہ کے سامنے کھڑا ہوں۔ جتنا آپ کا یہ تصور پکا ہوتا جائے گا آپ باقی چیزوں کو بھولتے جائیں گے۔ جیسے بڑے آدمی کے ساتھ کوئی بیٹھا ہو تو اس کو کچھ یاد نہیں ہوتا بس یہی ہوتا ہے کہ میں بڑے آدمی کے ساتھ بیٹھا ہوں۔ اگر یہ نہیں ہو سکتا تو پھر خانہ کعبہ کا تصور کر لے کہ میں خانہ کعبہ کے سامنے کھڑا ہوں۔ یا پھر کچے حافظ کے طور پر پڑھا جائے۔ یعنی دل سے ایک ایک رکن کے ادا کرنے کی نیت کی جائے کہ میں اب رکوع میں جا رہا ہوں، اب میں سجدے میں جا رہا ہوں، اب میں سجدے سے اٹھ رہا ہوں تاکہ خیال نماز میں رہے، باقی چیزوں کی طرف نہ جائے۔
سوال 5:
انسان کو اپنی زندگی میں توریہ کا کس حد تک سہارا لینا چاہیے؟ لوگ اپنے دنیاوی مفادات کے لئے بھی توریہ کا بے جا استعمال کرتے ہیں۔
جواب:
اصل میں توریہ اس کو کہتے ہیں کہ جیسے کسی بات کے دو یا تین معنے ہوں۔ آپ اپنے ذہن میں ایک معنیٰ رکھیں اور سننے والا دوسرا معنی مراد لے۔ آپ کا مقصد پورا ہو جائے گا۔ مثلاً میں نوشہرہ جا رہا ہوں، لیکن میں کسی کو بتانا نہیں چاہتا۔ تو اگر میں کہہ دوں پشاور کی طرف جا رہا ہوں، تو یہ بات ٹھیک ہے کیونکہ نوشہرہ پشاور کی طرف ہی ہے۔ پشاور کی طرف بہت ساری جگہیں ہیں، اس کو کیا پتا ہو گا کہ میں نوشہرہ کی طرف جا رہا ہوں، یہی توریہ ہے۔ بعض دفعہ دینی ضروریات کے پیش نظر اس کا استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً آپ ﷺ جب کبھی جہاد کے لئے تشریف لے جاتے تو چونکہ دشمن کے جاسوسوں کا اندیشہ ہوتا تھا کہ ان کو پتا نہ چل جائے کہ ہماری planning کیا ہے؟ اس کو چھپانا ہوتا ہے۔ اس لئے فرمایا کہ اگر کامیاب ہونا چاہتے ہو تو اپنے راز کو راز رکھو۔ اب راز کو راز کیسے رکھا جائے؟ حضرت نے بعض دفعہ پشاور کی طرف جانا ہوتا لیکن لاہور کے بارے میں معلومات حاصل کرنا شروع کر لیتے۔ کس راستے میں ہے، اس کے بعد پھر کیا ہے وغیرہ؟ اس سے لوگوں کا خیال ہوتا کہ شاید لاہور کی طرف سفر کا ارادہ ہے۔ لیکن دنیاوی مفادات کے لئے جس میں کسی اور کو ضرر دینا مقصود ہو وہاں توریہ جائز نہیں۔ اپنے آپ کو ضرر سے بچانے کے لئے دنیاوی مفاد میں بھی توریہ کی اجازت ہے۔ مثال کے طور پر ایک آدمی آپ سے قرض لیکر واپس نہیں کرتا۔ دوبارہ آپ اس کو قرض نہیں دینا چاہتے۔ اس کے لئے توریہ کرنا ٹھیک ہے۔ کیونکہ آپ اپنے آپ کو نقصان سے بچانا چاہتے ہیں اور اس میں اس کا کوئی نقصان نہیں ہو گا۔ لیکن اگر کسی کو دھوکہ دینے کے لئے کسی نے توریہ کیا تو جائز نہیں ہو گا۔
سوال 6:
حضرت! فیض کیا ہوتا ہے؟
جواب:
اصل میں فیض اس کو کہتے ہیں کہ جیسے ایک شخص کے پاس کچھ ہو اور آپ اس سے فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ آپ اس سے مستفیض ہو رہے ہیں۔ یعنی آپ اس کا فیض حاصل کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ علم ہو تو آپ اس سے علمی فیض حاصل کرتے ہیں۔ اگر وہ سمجھ ہو تو اس سے فہم کا فیض حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اور اگر اس کے پاس روحانیت ہو تو اس سے روحانیت کا فیض آپ حاصل کرتے ہیں۔ بعض دفعہ علماء کے ساتھ بیٹھنا، بیشک دنیاوی مفاد کے لئے بھی آپ کسی عالم کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہوں، آپ کو بہت ساری علمی چیزیں حاصل ہوتی ہوں گی۔ حتیٰ کہ ان کے لطیفوں میں بھی علم ہوتا ہے۔ چنانچہ علماء کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے میں آپ کو علم حاصل ہوتا ہے، تو آپ ان سے علمی فیض لے رہے ہیں بے شک آپ کا ارادہ نہ بھی ہو تب بھی آپ ان سے استفادہ کر رہے ہوتے ہیں۔ اسی طریقے سے اللہ والوں کی صحبت میں بیٹھنے سے اللہ تعالیٰ بعض حضرات کا بہت زیادہ فیض جاری کر دیتے ہیں اگرچہ آپ اور فیض دینے والے نیت بھی نہ کریں۔ بعض حضرات کی مثال سورج کی طرح ہوتی ہے۔ سورج کسی کو دھوپ اور روشنی دینے کا ارادہ نہیں کر رہا لیکن سب لوگ فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اس طریقے سے بعض مشائخ سورج کی طرح ہوتے ہیں کہ ان کی برکت سے لوگوں کو فائدہ ہو رہا ہوتا ہے۔ مثلاً حضرت خواجہ خان محمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ جب فوت ہو گئے تو ان کے علاقے کے جو بالکل جاہل اور مزدور لوگ جو روحانیت کو نہیں جانتے۔ وہ بھی کہتے تھے: کوئی چیز تھی جو اب نہیں ہے۔ یہ حضرت کا فیض تھا اور ان کی برکت سے اللہ تعالیٰ ان کے بہت سارے کام کروا رہے تھے۔ حالات ان کے حق میں جا رہے تھے۔
آپ ﷺ جب دنیا سے تشریف لے گئے۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ابھی ہم نے آپ ﷺ کی قبر اطہر کی مٹی سے ہاتھ ہی جھاڑے تھے کہ ہمیں اپنے دلوں میں اثر محسوس ہو گیا کہ کوئی چیز کم ہو گئی ہے۔ کوئی چیز رک گئی۔ اسی طرح کوئی بھی بڑا آدمی جب دنیا سے تشریف لے جاتا ہے، پتا چل جاتا ہے کہ ان کا فیض تھا جو غیر محسوس طریقے سے چل رہا تھا۔ ہمارے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ جب حیات تھے۔ ہمیں یاد ہے کہ جیسے ہی ہم اسلامیہ کالج کے gate سے داخل ہوتے ہمیں اندازہ ہو جاتا کہ ہم مختلف جگہ پہ آ گئے ہیں۔ یہ عام جگہ نہیں ہے۔ یہی حضرت کا فیض تھا جو پوری فضا میں چھایا ہوا تھا۔ جب حضرت دنیا میں نہیں رہے تو اس کے بعد سے وہ چیز نہیں ہے۔ کبھی ارادۃً انسان فیض حاصل کر سکتا ہے۔ جیسے آپ کسی عالم سے کوئی چیز پڑھنا چاہیں تو اس کا فیض آپ لے رہے ہیں۔ لیکن بعض دفعہ بلا ارادہ بھی حاصل ہوتا ہے، عالم کا دینے کا ارادہ بھی نہیں ہوتا اور حاصل ہونے لگتا ہے۔ اسی طریقے سے مشائخ سے کچھ لوگ با قاعدہ فیض حاصل کرتے ہیں، وہ ان کے مرید ہوتے ہیں۔ کچھ حضرات یوں ہی ان سے ملتے جلتے ہیں، پھر بھی ان کو فیض حاصل ہوتا ہے، بشرطیکہ وہ خود دے رہے ہوں اور بعض دفعہ وہ خود دینے کا ارادہ نہیں کرتے لیکن لوگ ان سے فیض حاصل کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ فیض کی تشریح ہے۔
سوال 7:
حضرت حال سے حال اور قال سے قال پھیلتا ہے، اس کا کیا مطلب ہے؟
جواب:
یہ فیض ہی ہے۔ قال کا فیض قال کا ہے اور حال کا فیض حال کا ہے۔ جیسے محبت حال ہے۔ اہل محبت کے ساتھ بیٹھو گے تو محبت ہو جائے گی۔ یہ حال سے حال ہے۔ اور جن کا علمی مشغلہ ہوتا ہے وہ قال ہے۔ ان کے ساتھ اٹھو بیٹھو گے تو آپ کو وہ چیز حاصل ہو جائے گی۔ حضرت مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ نے اسی وجہ سے فرمایا تھا:
قال را بگذار مرد حال شو
پیش مرد کاملے پامال شو
اپنے قال کو کچھ دیر کے لئے موقوف کر لو اور مرد حال بن جاؤ۔ یہ نہیں فرمایا کہ ختم کر لو۔ اس کے لئے اپنے آپ کو کسی شیخ کامل کے سامنے پامال کر دو۔
سوال 8:
کیا حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ اتباع سنت اصلاح کا مختصر ترین طریقہ ہے؟
جواب:
میں نے حضرت سے پوچھا تھا کہ اصلاح کا بہتر اور مختصر آسان ترین طریقہ کیا ہے؟ حضرت مسکرائے پھر فرمایا: سیرت کی کتابیں عمل کی نیت سے پڑھو۔ ہمارے ایک ساتھی عمرے پہ گئے تھے، ان کا بڑا شوق تھا کہ میں کسی طرح آپ ﷺ کی سنتوں پہ چلنا شروع کر دوں۔ کہتے ہیں: اتنی زور سے میرے دل میں بات آئی کہ ڈاکٹر عبدالحئی صاحب کی کتاب ”اسوۂ رسول اکرم“ پڑھو۔ مجھے بتایا۔ میں نے کہا: واقعی اگر آپ یہ کتاب پڑھیں گے تو ان شاء اللہ آپ کو سنت پہ عمل نصیب ہو جائے گا۔ معلوم ہوا اتباع سنت اصلاح کا سب سے آسان ترین طریقہ ہے۔
سوال 9:
حال اور قال میں کس کو اولیت ہے؟ نیز یہ اختیاری ہیں یا غیر اختیاری؟
جواب:
سبحان اللہ بڑا اچھا سوال ہے۔ اولیت والا سوال تھوڑا سا پیچیدہ ہے۔ ہر چیز جس کے لئے قال ضروری ہے تو ظاہر ہے پہلے قال حاصل ہو گا، اس کے بعد حال حاصل ہو گا۔ ممکن ہے کہ حال آپ کو کسی ایسے صاحب سے حاصل ہو جائے کہ اس کے ساتھ قال بھی حاصل ہو جائے۔ مثلاً کوئی عالم با عمل ہو، اس کے ساتھ حال بھی حاصل ہو جائے اور قال بھی حاصل ہو جائے۔ بہر حال آپ قال کو بھی نہیں چھوڑ سکتے۔ جیسے دو روشنیاں ہیں ایک سورج کی روشنی ہے اور دوسری بلبوں کی روشنی ہے۔ سورج کی روشنیوں کو استعمال کرنے پر بھی ہم مجبور ہیں، یہ خارجی روشنی ہے اور بیشک کسی کی نظر بہت ہی تیز کیوں نہ ہو لیکن وہ اس روشنی کا محتاج ہے، بغیر اس روشنی کے کوئی کچھ بھی نہیں دیکھ سکتا۔ لیکن اگر کسی کی بینائی نہ ہو تو بے شک کتنے ہی تیز بلب جلا دئیے جائیں، کتنا ہی سورج چمک رہا ہو اس کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ اس وجہ سے کسی بھی چیز کو دیکھنے کے لئے دونوں روشنیوں کا بیک وقت حصول ضروری ہے۔ چنانچہ اللہ پاک کی کتاب سے اور آپ ﷺ کی حدیث سے جو بات آئی ہے وہ قال ہے۔ اس کی مثال سورج یا بلب کی روشنی کی طرح ہے۔ اگر یہ آپ کو حاصل نہ ہو تو یقیناً آپ روشنی کو حاصل نہیں کر سکتے۔ لیکن یہ روشنی تب آپ کو فائدہ پہنچائے گی، آپ اس کو محسوس کر سکیں گے جب تک آپ کے پاس بینائی ہو گی اور بینائی سے مراد یہاں پر بصیرت ہے۔ یعنی دل کا روشن ہونا۔ جب تک آپ کا دل روشن نہیں ہو گا اس وقت تک آپ قرآن سے ہدایت نہیں لے سکتے، نہ ہی حدیث شریف سے ہدایت لے سکتے ہیں۔ کیونکہ قرآن خود بتاتا ہے ﴿اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَذِكْرٰى لِمَنْ كَانَ لَهٗ قَلْبٌ﴾ (ق: 37)
ترجمہ: ”یقیناً اس میں اس شخص کے لئے نصیحت کا بڑا سامان ہے جس کے پاس دل ہو، یا جو حاضر دماغ بن کر کان دھرے۔“
دل کا بننا بھی ضروری ہے۔ پس یوں کہہ سکتے ہیں کہ دل کا بننا حال ہے اور قرآن و سنت کا علم قال ہے۔ قال اور حال دونوں بیک وقت ضروری ہیں۔
حضرت مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ”قال را بگزار مرد حال شو“ یہ علماء کو کہا ہے۔ ان کو قال حاصل ہے۔ وہ قال کے پیچھے رہیں گے اور حال حاصل نہیں کریں گے تو وہ قال سے فائدہ ہی نہیں اٹھا سکتے۔ جیسے کہ قرآن پاک خود کہتا ہے: ﴿اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَذِكْرٰى لِمَنْ كَانَ لَهٗ قَلْبٌ﴾ (ق: 37) جب تک اس کا قلب نہیں بنا ہو گا اس وقت تک وہ قال سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ قال ان کے ساتھ موجود ہوتا ہے۔ جیسے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: بعد میں بعض لوگ آئیں گے جو قرآن کو اس طرح سیدھا کر کے پڑھیں گے جیسے الف کو کیا جاتا ہے، لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ ان کو فائدہ نہیں پہنچائے گا۔ خوارج کے بارے میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا: ایسے لوگ آئیں گے جن کے اعمال ایسے ہوں گے کہ تم اپنے اعمال کو ان کے سامنے ہیچ سمجھو گے لیکن وہ دین سے ایسے نکل چکے ہوں گے جیسے تیر کمان سے نکل جاتا ہے۔ یعنی سب کچھ ہے لیکن فائدہ کچھ بھی نہیں۔ معلوم ہوا قال کی بھی ضرورت ہے اور حال کی بھی ضرورت ہے۔ قال اور حال کو بیک وقت کرنا پڑے گا۔ البتہ پہلے قال حاصل ہوتا ہے پھر حال حاصل ہوتا ہے۔ اکثر یہی قانون ہے، الا ما شاء اللہ۔ بعض دفعہ اللہ تعالیٰ اس کے بر عکس بھی کر دیتے ہیں کیونکہ وہ اپنے قوانین کا پابند نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ خرق عادت کام بھی کر سکتا ہے۔ جیسے حضرت مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کی مثنوی میں ہے کہ "اَمْسَیْتُ کُرْدِیًّا وَ اَصْبَحْتُ عَرَبِیًّا" یعنی بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان سوتا تو جاہل ہے اور اٹھتا عالم ہے۔ لیکن یہ خرق عادت ہے عام قاعدہ نہیں ہے۔ عام قاعدہ یہی ہے کہ قال پہلے حاصل کرو گے اس کے بعد حال حاصل کرو گے اور اپنی اپنی محنت کے مطابق۔ کیونکہ قال کی بھی کوئی حد نہیں ہے اور حال کی بھی کوئی حد نہیں ہے۔ اس میں پھر درجات ہیں کہ جو جس درجے کا صاحب قال ہے اور حال ہے وہ اپنے طور پہ کرے۔
فرمایا: یہ اختیاری ہیں یا غیر اختیاری؟ اس کی ابتدا تو اختیاری ہے اور انتہا غیر اختیاری ہے۔ یعنی ابتدا میں آپ جو کوشش کریں گے یہ کسبی ہے۔ کسی عالم کے سامنے آپ دو زانو ہوں گے اور ان سے علم حاصل کرنے کی کوشش کریں گے تب آپ کو علم حاصل ہو گا۔ آپ دعائیں کرنا شروع کر دیں کہ یا اللہ مجھے عالم بنا دے اور کسی عالم کے پاس پہنچا دے تو ایسا نہیں ہوتا۔ اس کی ابتدا اختیاری ہے لیکن اس کے بعد اس میں برکت عطا فرمانا اللہ کا کام ہے جو غیر اختیاری ہے۔ چنانچہ جس کے علم میں جتنی برکت دے دی جائے اور جس کے حال میں جتنی برکت دے دی جائے وہ اللہ پاک کی مرضی ہے۔
سوال 10:
نفس کی تعریف کیا ہے اور روح کی تعریف کیا ہے؟
جواب:
قرآن پاک میں بہت ساری جگہوں پہ نفس اور روح کا ذکر ہے، جس طرح سائنسدان حضرات کسی چیز کی جامع و مانع تعریف کرتے ہیں۔ مثلاً درجہ حرارت کیا چیز ہے؟ کوئی ایسی تعریف کریں گے کہ اس پہ تمام چیزیں صادق آ جائیں۔ حالات سے اندازہ لگاتے ہیں کہ یہاں پر یہ چیز ہے وہاں پر وہ چیز ہے، دونوں کو ملا کر دیکھا جائے تو کیا بنے گا؟ اس طرح اس کی تعریف کرتے ہیں۔ نفس کے بارے میں قرآن پاک میں بہت ساری جگہوں پہ ذکر آیا مثلاً ﴿فَلَا تَلُوْمُوْنِیْ وَ لُوْمُوْۤا اَنْفُسَكُمْ﴾ (ابراہیم: 22)
ترجمہ: ”لہٰذا اب مجھے ملامت نہ کرو بلکہ خود اپنے آپ کو ملامت کرو۔“
یہاں نفس سے مراد خود انسان ہے۔ اسی طرح قیامت میں بتایا گیا کہ سب کہیں گے "نَفْسِیْ نَفْسِی" میں خود میں خود، یعنی میرا کام ہو جائے میرا کام ہو جائے۔ اور آپ ﷺ فرمائیں گے "اُمَّتِیْ اُمَّتِیْ"۔ یہاں پر بھی نفس سے مراد انسان کا اپنا آپ ہے۔ اور فرمایا: ﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا﴾ (الشمس: 9-10) اس سے پہلے فرمایا: ﴿وَ نَفْسٍ وَّ مَا سَوَّاھَا فَاَلْھَمھَا فُجُوْرَھَا وَ تَقْوَاھَا﴾ (الشمس: 7-8)
ترجمہ: ”اور انسانی جان کی، اور اس کی جس نے اسے سنوارا۔ پھر اس کے دل میں وہ بات بھی ڈل دی جو اس کے لئے بد کاری کی ہے، اور وہ بھی جو اس کے لئے پرہیز گاری کی ہے۔“
فرمایا نفس کے اندر اللہ پاک نے دو چیزیں الہام کیں ”فُجُوْرَھَا“ اس کے فجور یعنی بری خواہشات وغیرہ۔ ”وَ تَقْوَاھَا“ اور اس کی اللہ سے ڈرنے کی صلاحیت۔ یہ نفس فجور کی طرف بھی مائل ہے اور تقوی کو بھی حاصل کر سکتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اگلی آیت اس کی تشریح کرتی ہے: ﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا﴾ (الشمس: 9-10)
ترجمہ: ”فلاح اسے ملے گی جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے۔ اور نا مراد وہ ہو گا جو اس کو (گناہ میں) دھنسا دے۔“
پتا چلا تقویٰ کا حصول محنت کے ساتھ ہے لیکن فجور کی صلاحیت بغیر محنت کے ہے۔ کیونکہ اگر آپ اس کو چھوڑ دو اور اس پہ کچھ بھی محنت نہ کرو تو فجور تو اس کے اندر خود بخود ہے۔ جیسے پانی کا رجحان ڈھلوان کی طرف ہے اوپر کی طرف نہیں جاتا۔ اوپر لے جانے کے لئے موٹر اور پمپ کی ضرورت ہوتی ہے اور نیچے جانے کے لئے کسی چیز کی ضرورت نہیں۔ اس کو روکنے کے لئے کچھ کرنا پڑے گا ورنہ پانی خود بخود اپنا راستہ بنا لے گا۔ اسی طریقے سے نفس بھی اپنا راستہ بنا لیتا ہے، اس کے لئے محنت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ خود اچھائی کی طرف اس کے لئے راستہ بنائیں گے۔ یوں سمجھ لیں کہ ہمارے جسم کے جتنے احساس رکھتے والے اعضاء ہیں، ان کی بری خواہشات کو ہم نفس کہتے ہیں۔ یعنی بری خواہشات کے مادہ کو نفس کہتے ہیں۔ مثلاً آنکھوں کا نفس، کانوں کا نفس، ناک کا نفس کیونکہ وہ خوشبو سے خوش ہوتا ہے اور بدبو سے تنگ ہوتا ہے۔ اسی طرح زبان کا نفس، ہاتھ پاؤں کا نفس، جسم کے باقی اعضاء کا نفس، یعنی جسم کے اندر جن ذرائع سے ہم فجور کی طرف جا سکتے ہیں وہی نفس کی تعریف میں آتے ہیں۔ چنانچہ ہم نے یہ محنت کرنی ہے کہ ان کی خواہشات کو پورا نہیں ہونے دینا۔ اس کو ہم مجاہدہ کہتے ہیں۔ یعنی خواہشات کو دبانے کے لئے با قاعدہ محنت کے ساتھ مجاہدہ کرنا چاہے آپ کو تکلیف ہو، مثلاً پیٹ کی خواہش ہے کہ میں سیر ہو جاؤں لیکن آپ اپنے آپ کو بھوکا رکھیں گے۔ کھانا نہ کھلانا یہ مجاہدہ ہے۔ زبان کی خواہش ہے کہ بولوں، آپ نے سوچا کہ نہیں بولنا۔ آپ کا پورا جسم چاہتا ہے کہ آرام کروں۔ نہیں کرنا۔ دل چاہتا ہے میں لوگوں سے ملوں، آپ کہتے ہیں: نہیں ملو گے۔ یہ اس کا مجاہدہ ہے۔ یہ چار مجاہدات اس کے لئے مشائخ کے ہاں مروج ہیں جن کے ذریعے نفس کو لگام دی جاتی ہے۔ کیونکہ کھانے پینے اور سونے کا نفس کے لئے بہت مشکل مجاہدہ ہے۔ بولنے کا اور لوگوں سے ملنے جلنے کا بھی کافی مشکل مجاہدہ ہے۔ اگر اس کے اوپر پابندی لگا دی جائے تو بات بن جائے۔
پرانے دور میں بالخصوص مشائخِ چشت کے ہاں شروع میں ذکر اذکار کی تلقین نہیں کی جاتی تھی بلکہ مجاہدات کروائے جاتے تھے تاکہ نفس ماننا سیکھے۔ جب نفس ماننا سیکھ لیتا تو تھوڑے سے ذکر اذکار سے بھی ان کا کام ہو جاتا تھا۔ نفس کے ماننے کے لئے وہ چار چیزوں پر مجاہدات کراتے تھے یعنی کم کھانا، کم سونا، کم لوگوں کے ساتھ ملنا جلنا اور کم بولنا۔ ہمارے قریبی دور میں مشائخ نے دیکھا کہ اب لوگوں کو اگر کم سونا اور کم کھانا بتا دیا جائے تو یہ اتنے کمزور ہو جائیں گے کہ اپنے اعمال بھی نہیں کر سکیں گے یا بیمار ہو جائیں گے۔ لہٰذا فرمایا کہ یہ مجاہدات اب متروک ہیں۔ لیکن کم بولنا اور کم لوگوں سے ملنا جلنا، یہ مجاہدات بر قرار ہیں۔ لیکن اب تجربے سے ایک بات پتا چلتی ہے جیسے ڈاکٹرز کے ہاں Latest research اہم ہوتی ہے۔ ہمارے صوفی اقبال صاحب رحمۃ اللہ علیہ مدینہ منورہ میں تھے، حضرت ڈاکٹر حفیظ اللہ چیمہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ (سکھر والوں)کا صوفی اقبال صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ ملنا جلنا تھا۔ وہ بیمار تھے خود بھی میڈیکل ڈاکٹر تھے، ان کا بیٹا بھی ڈاکٹر تھا۔ خود ڈاکٹر ہونے کے لحاظ سے اپنے لئے خود دوائیاں تجویز کر سکتے تھے۔ صوفی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ایک دفعہ ان سے بڑی عجیب بات فرمائی۔ فرمایا: حضرت! دینی علم کے لحاظ سے پرانوں کی بات زیادہ صحیح ہوتی ہے لہٰذا اس میں تو ہم پرانوں کی طرف دیکھتے ہیں۔ لیکن دنیاوی لحاظ سے جدید لوگوں کی جو جدید تحقیق ہوتی ہے، اس کی بات چلتی ہے۔ لہٰذا آپ اس میں اپنے بیٹے کی نا قدری نہ کریں، بے شک آپ بھی ڈاکٹر ہیں لیکن وہ آپ کے بعد والا ڈاکٹر ہے، وہ آج کل کی چیزیں زیادہ جانتا ہے۔ لہٰذا آپ ان کی بات مان لیا کریں، اس میں فائدہ ہے۔ میں نے بڑی مشکل تمہید ڈھونڈی ہے۔ لیکن آگے جا کر میں نے اس میں بہت اہم بات کرنی ہے۔ چنانچہ اصلاح میں جدید دور کے مشائخ کی بات مانی جائے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اُس دور میں رہ رہے ہوتے ہیں، ان کو پتا ہے کہ کون سی چیز کتنی کار آمد ہو سکتی ہے۔ جیسے آج کل کے بزرگوں نے کہا کہ اب یہ متروک ہے لیکن پہلے متروک نہیں تھی معلوم ہوا اپنے پرانے بزرگوں کی بات مجبوراً تبدیل کر لی۔ اگر اس کے بعد آنے والے حضرات موجودہ دور کے بزرگوں کی بات تبدیل کر لیں تو یہ بھی جائز ہو گا۔ آج کل کی جدید تحقیق میں کم کھانے اور کم سونے والے مجاہدات بالکل نہیں کرنے چاہئیں کیونکہ اس سے بگاڑ آ گیا ہے۔ جو بگاڑ متوقع تھا وہ آ گیا مثلاً لوگ ذکر اذکار بھی کرتے ہیں پھر بھی ان کی گمراہیاں نہیں چھوٹتیں۔ چنانچہ آج کل کی جدید تحقیق کے مطابق مجاہدہ تو بر قرار رکھا جائے لیکن صورت تبدیل کی جائے۔ جیسے ایک ہفتہ کم کھایا جائے، ظاہر ہے بوجھ تو آئے گا جس سے نفس کو کچھ dose ملے گی۔ پھر اگلے ہفتے مجاہدہ نہ کیا جائے بلکہ خوب reasoneable کھایا جائے تاکہ قوت کی کمی پوری ہو جائے۔ پھر اگلے ہفتے مجاہدہ کیا جائے تاکہ قوت میں تو کمی نہ آئے لیکن مجاہدہ کا اثر ہو جائے۔ اس طرح مجاہدہ کا اثر double ہو جاتا ہے۔ کیونکہ اگر مجاہدے میں انسان کم کھائے تو قوت تو کم ہوتی جائے گی لیکن مجاہدے کا اثر بھی کم ہوتا جائے گا کیونکہ وہ عادی ہو جائے گا پھر اس کے لئے وہ مجاہدہ نہیں رہے گا۔ لیکن ایک ہفتہ مجاہدہ کرنے اور دوسرے ہفتے نہ کرنے سے چونکہ عادی نہیں ہو رہا لہٰذا ہر ہفتے اس کو مجاہدہ کرنا پڑ رہا ہے۔ معلوم ہوا اس کی مجاہدے کی صلاحیت ختم نہیں ہو رہی اور ساتھ ساتھ قوت میں کمی بھی نہیں آ رہی۔ لہٰذا جدید تحقیق کے مطابق اس ترتیب سے مجاہدہ کروانا چاہیے۔ میں نے جب یہ بات ایک ڈاکٹر صاحب سے کی جو شیخ بھی ہیں تو بہت خوش ہوئے اور کہا: یہی کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا مجاہدہ تھا۔ یعنی ہمارے جد امجد یہی مجاہدہ کرتے تھے، بہت کم کھاتے تھے اور اگلا پورا ہفتہ گھی پیتے تھے۔ میں نے سوچا الحمد للہ تائید ہو گئی۔ نفس کو لگام دینے کا طریقہ مجاہدہ ہے۔
روح کیا چیز ہے؟ اس کے بارے میں بہت کم بات کی جا سکتی ہے کیونکہ اللہ پاک نے بھی بہت کم بات بتائی ہے فرمایا: ﴿قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ﴾ (الإسراء: 85)
ترجمہ: ”کہہ دو کہ روح میرے رب کے حکم سے (بنی) ہے۔“
البتہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ روح جسم میں ہر ہر جگہ موجود ہے۔ جس طرح نفس ہر ہر جگہ موجود ہے۔ آنکھ میں بھی روح ہے، کان میں بھی روح ہے، زبان میں بھی روح ہے، دل میں بھی روح ہے۔ دل والی روح، روحانی قلب ہے۔ قرآن اور حدیث میں جس قلب کی طرف اشارہ ہے وہ یہی روحانی قلب ہے۔ کیونکہ گوشت والے دل کو شیطان access نہیں کرتا۔ لطیفۂ قلب کو شیطان access کرتا ہے۔ الہام ربانی بھی اسی لطیفۂ قلب میں آتا ہے۔ اس وجہ سے channels اس میں موجود ہیں۔ لہٰذا قلب کو صاف کرنے کا ذریعہ ذکر اللہ ہے۔ معلوم ہوا دو چیزیں ہیں۔ قلب کی اصلاح ذکر کے ذریعے سے اور نفس کی اصلاح مجاہدہ کے ذریعے سے، یہ دونوں کام کسی شیخ کی نگرانی میں ہونے چاہئیں۔
سوال 11:
حضرت آپ نے فرمایا تھا کہ اگر ذکر کو بھی مجاہدے کے ساتھ کیا جائے تو Two in one یعنی ایک تیر سے دو شکار ہوتے ہیں، کیا عام لوگوں کے لئے بھی ایسا ہی ہے؟
جواب:
عام لوگوں کے لئے اس طرح آسان اس لئے نہیں ہے کہ ہر ایک کے لئے وہ مشکل نہیں ہے۔ جیسے اگر ذکر کرنا مشکل ہو جائے یعنی ذکر کرنے کو جی نہ چاہے، اس وقت آپ کا ذکر کرنا نفس اور دل کا علاج بھی ہو جائے گا کیونکہ اس وقت آپ کا جی نہیں چاہے گا تو وہ نفس کے اوپر بوجھ ہو گا۔ یہ مجاہدہ کہلائے گا۔ آپ کو مجاہدہ کا فائدہ بھی ہو گا لیکن یہ ہمیشہ نہیں ہو گا، عین ممکن ہے کہ آپ کا نفس ماننا شروع کر دے۔ پھر وہ مجاہدہ نہیں رہے گا۔
سوال 12:
حضرت جی website پہ لطائف کے بارے میں کیا لکھا ہوا ہے؟ جہاں نفس کو بتایا گیا ہے۔ اس سمت کے بارے میں کیا لکھا ہوا ہے؟
جواب:
در اصل یہ مشائخ کی کشفی چیزیں ہیں۔ جیسے ڈاکٹروں کے ہاں مختلف چیزوں کی تشریحات میں بڑے بڑے اختلافات ہیں۔ مثلاً antibiotic کے بارے میں بہت اختلافات ہیں۔ اسی طرح مشائخ کے ہاں بھی کشفی چیزوں کے بارے میں اختلافات پائے جاتے ہیں۔ جس میں نص سے راہنمائی نہیں ملتی بلکہ تجرباتی چیز ہوتی ہے۔ ہمارے مشائخ چشت اس میں صرف لطیفۂ قلب مانتے ہیں باقی لطائف نہیں مانتے۔ وہ کہتے ہیں: باقی جگہوں پر جو sensation ہے یہ قلب ہی کے ایک لطیفہ کا مختلف جگہوں پہ اظہار ہے اور میں اس کو غلط نہیں کہتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مجھے اس کا تجربہ ہو چکا ہے۔
دوسری بات حضراتِ مشائخِ نقشبندی میں پھر دو بڑے School of thoughts ہیں۔ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے بیٹے امام خواجہ معصوم رحمۃ اللہ علیہ کی اپنی تحقیق ہے اور حضرت آدم بنوری رحمۃ اللہ علیہ کی اپنی تحقیق ہے۔ حضرت آدم بنوری رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق کے مطابق جہاں لطیفۂ قلب ہے لطیفۂ روح اس کے دائیں طرف اور لطیفۂ سِر درمیان میں ہے۔ البتہ لطیفۂ خفی پیشانی یا ہونٹوں کے درمیان کسی کا کہیں اور کسی کا کہیں ہوتا ہے۔ لطیفۂ اخفاء جہاں حرام مغز ہے، وہاں پر ہے اور بعض حضرات کے نزدیک دوسری جگہ ہے۔ حضرت خواجہ معصوم رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق کے مطابق یہ قلب ہے، یہ روح ہے، یہ سر ہے یعنی چار انگل اوپر دل سے، اور دو انگل سینے کی طرف سِر ہے، اور بالکل روح سے چار انگل اوپر اور اندر سینے کی طرف دو انگل، یہ خفی ہے اور ان کے درمیان تھوڑا سا اوپر حلق سے نیچے یہ اخفیٰ ہے اور یہ پیشانی والا نفس ہے۔ پہلے ہم عموماً بنوریہ سلسلہ چلاتے تھے، جو ہمارے مشائخ چلاتے رہے ہیں۔ لیکن اس میں ایک مسءلہ ہو گیا۔ میں اکثر مرد حضرات کو لطائف کا ذکر کم دیتا ہوں، ان کو زیادہ تر مشائخ چشت والا ذکر دیتا ہوں۔ بعد میں جن کا چل پڑے تو ان کو لطائف کا ذکر دیتا ہوں۔ لیکن عورتوں کی ابتدا ہی اس سے کرواتا ہوں۔ یعنی جب چلہ ہو جاتا ہے تو پھر میں ان کو لطائف کا ذکر شروع کراتا ہوں۔ اب اس میں ہوا یہ کہ بعض عورتوں کے لطائف بہت تیز چل پڑے۔ نتیجتاً عورتوں کی شکایت آنے لگی کہ جب ان کا لطیفۂ اخفیٰ چل پڑا تو ان کا سر بھی بغیر ان کے ارادے کے ہلنے لگا۔ جیسے بعض لوگوں کا ہلتا ہے۔ عورتوں کے لئے یہ ایک عیب کی بات ہے کہ ان کا سر ہلنے لگے۔ بعض جوان بچیوں کا اگر سر ہلنے لگے تو لوگ ان سے شادی ہی نہ کریں۔ ایک مسئلہ بن جائے گا۔ میں نے سوچا اگر ان کو مراقبات نہ کراؤں تو وہ چیز حاصل نہ ہو اور کراؤں تو اس میں یہ مسئلہ ہے۔ میں اس بارے میں بڑا سوچا کہ یا اللہ کیا کروں؟ اتنے عرصے میں مجھے کہیں سے خواجہ معصوم رحمۃ اللہ علیہ کے مراقبات کا پتا چل گیا۔ اس میں کوئی بھی لطیفہ اخفیٰ تک، سینے سے باہر نہیں بلکہ سارے سینے میں ہیں۔ اور سینہ ایک مضبوط چیز ہے۔ وہاں کوئی Pivoting point نہیں ہے۔ سر میں ایک Pivoting point پوائنٹ ہے وہ ہل سکتا ہے، لیکن سینہ مضبوط چیز ہے۔ میں نے سوچا کیوں نہ خواتین کو ہم یہ طریقہ شروع کرا دیں۔ اس سے ان کا سر نہیں ہلے گا۔ اس وجہ سے پھر ہم نے اپنا طریقہ change کر دیا اور ہم نے خواجہ معصوم رحمۃ اللہ علیہ کا طریقہ شروع کر دیا۔ اس کے بعد کہیں سے شکایت نہیں آئی الحمد للہ۔ نفس کے لطیفہ کو کوئی نہیں چھیڑتا۔ نفس ہر چیز میں ہے جیسے ہر چیز میں روح ہے۔ ظاہر ہے قلب کی اس میں الگ حیثیت ہے، چنانچہ اس کے اظہار کا point ایک خاص جگہ پر ہے۔ حضرت معصوم کی تحقیق میں یہاں پر اظہار ہے اور ہمارا بنوریہ طریقہ میں زیر ناف ہے۔ بہر حال یہ تحقیقات ہیں اور ہم دونوں کو ٹھیک کہتے ہیں۔ اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے یہ ان کی researches ہیں۔
ہمارے سامنے ایک بڑی عجیب چیز آئی جس کو میں شاید نہ بیان کر سکتا اگر میرے پاس یہ تجربہ نہ آتا۔ اور وہ یہ ہے کہ جب میں کسی خاتون کو لطیفہ دیتا تو ان میں بعض بڑی سریع الاثر ہوتی تھیں۔ میں نے ان کو قلب کا لطیفہ دے دیا تو ساتھ ان کا روح بھی جاری ہو گیا۔ روح دے دیا تو ان کا سر بھی جاری ہو گیا۔ سر دے دیا تو خفی بھی جاری ہو گیا۔ خفی دے دیا تو اخفٰی بھی جاری ہو گیا۔ یعنی ایک لطیفہ یا دو لطیفے دینے سے آگے ان کا سلسلہ چلنا شروع ہو گیا۔ جب میں حضرت خواجہ آدم بنوری رحمۃ اللہ علیہ کا سلسلہ چلاتا تھا تو اس میں مثال کے طور پر کسی کو میں نے سر دے دیا، تو ساتھ ہی خود بخود بغیر میرے بتائے خفی والا اثر بھی شروع ہو جاتا تھا۔ جب میں نے خواجہ معصوم رحمۃ اللہ علیہ والا طریقہ شروع کرایا تو حالانکہ میں نے ان کو نہیں بتاتا تھا کہ میں آپ کو خواجہ معصوم رحمۃ اللہ علیہ والا طریقہ کرا رہا ہوں۔ لطیفہ روح جب میں نے کرا دیا تو اس کے بعد خود بخود لطیفہ کہاں جا سکتا ہے، کیونکہ وہ معلوم ہوا اُدھر بھی ہو سکتا ہے اور اِدھر بھی ہو سکتا ہے۔ چونکہ خفی بنوریہ میں تھا، اس کے بعد ادھر آنا چاہیے تھا لیکن اس کے بعد پھر ایک یا دو لطیفے جب بھاگتے تھے تو وہ ادھر ہی ہوتے تھے۔ یعنی میں نے اگر روح کا بتا دیا تو سر کا ادھر، اگر سر کا بتا دیا تو خفی کا ادھر، خفی کا بتا دیا تو اخفیٰ کا ادھر۔ اس سے ایک بہت بڑا نتیجہ نکلتا ہے کہ لطائف شیخ کے منتقل ہوتے ہیں یعنی منتقل ہوتے ہیں، خود سے نہیں ہوتے۔ یہ شیخ کا عکس ہوتا ہے، انعکاسی فیض ہوتا ہے۔ شیخ جو بتا رہا ہے، جو اس کے اندر ہے وہ ساتھ چل رہا ہوتا ہے۔ یعنی ایک اس کی تلقین ہے اور ایک اس کی اپنا ذات ہے، اس کی ذات کا اثر بھی منتقل ہو رہا ہوتا ہے۔ پہلے چونکہ میں بنوریہ چلا رہا تھا تو وہ آ گے میرے ارادے کے بغیر چل رہا تھا۔ جس وقت میں نے سلسلہ معصومیہ شروع کیا تو یہ آگے چلنے لگا۔ یہ انعکاسی فیض کا بہت بڑا ثبوت ہے۔
ایک دفعہ ایک صاحب کو میں نے ان کی ترقی کے لئے ایک مراقبہ دیا وہ ان کو بہت پسند آیا، اب میں نے اس مراقبہ کو روکنا تھا لیکن ان کو بہت پسند تھا۔ چنانچہ ان کو میں نے کہہ دیا کہ اب یہ مراقبہ نہ کرو، اور دوسرا دے دیا۔ بعد میں اس نے مجھے بتایا کہ وہی پہلے والا مراقبہ چونکہ مجھے بہت پسند تھا اس لئے میں نے پھر سے کرنے کی کوشش کی لیکن نہیں ہوا۔ یہ دوسرا ثبوت ہے کہ اللہ تعالیٰ کا نظام شیخ کی تلقین کے ساتھ چلتا ہے۔ تو جو لوگ خود اپنے ارادے سے شیخ سے آگے بڑھنا چاہتے ہیں وہ آگے نہیں چلتے۔ البتہ اللہ تعالیٰ کسی کو آگے کرنا چاہے تو اس میں کوئی پابندی نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پہ قادر ہے۔ خود ادب کے ساتھ پیچھے رہنا ہوتا ہے تاکہ فائدہ ہو۔
جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کو آپ ﷺ نے خواب میں ایک چیز بتائی، ان کو بڑا خیال ہوا کہ ما شاء اللہ اب تو مجھے اللہ پاک نے بہت بڑی چیز دے دی اور وہ چیز حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے مجھے عطا ہوئی۔ تو اللہ پاک نے ان کو بچانا چاہا کہ کہیں کوئی بڑائی ان میں نہ آ جائے کہ میں شیخ سے آگے ہو گیا ہوں۔ شیخ نے ان سے اگلے دن پوچھا کہ کیا آپ کو حضور ﷺ کی خواب میں زیارت ہوئی ہے؟ یہ بڑے حیران ہوئے کہ میں نے کسی کو بھی نہیں بتایا، حضرت کو کیسے پتا چلا؟ پوچھا: انہوں نے کہا حضرت آپ کو کیسے پتا چلا؟ فرمایا: مجھے اللہ پاک نے فرما دیا کہ میں اپنے حبیب کو بھیج چکا ہوں۔ معلوم ہوا اللہ پاک اس نظام کو رکھنا چاہتا ہے تاکہ کوئی اپنے شیخ سے آگے نہ ہو۔ پھر ہی ان کو فائدہ ملتا ہے۔ کہتے ہیں ”با ادب با نصیب بے ادب بے نصیب“۔ چونکہ اس راستے میں ادب بہت بڑی چیز ہے لہٰذا اس کو اللہ تعالیٰ باقی رکھنا چاہتے ہیں۔ جن پہ اللہ تعالیٰ کی محبت کی نظر ہوتی ہے ان کو بے ادبی کے ذرائع سے بچا کے رکھتے ہیں۔
سوال 13:
لطیفہ نفس کو کیوں نہیں چھیڑتے؟
جواب:
لطیفۂ نفس کے اندر ایک شر ہے کہ اگر یہ کسی کا چل پڑے تو لوگ اس کی بہت عزت کرتے ہیں۔ بعض لوگ قصداً نفس کے اوپر اسی نیت سے محنت کرتے ہیں کہ لوگ ہماری عزت کریں تو اپنے آپ کا راستہ مار دیتے ہیں۔ ان کو مشائخ بچاتے ہیں اور وہ نفس کے لطیفہ کو نہیں چھیڑتے کیونکہ اگر لوگ اسی نیت کریں کہ لوگ ہماری عزت کریں تو جاہ پرستی ہو گئی اور تصوف کا نچوڑ ختم ہو گیا۔ تصوف میں اپنے نفس کو مارنا ہوتا ہے۔ جس نے اپنے نفس کو بنانا شروع کر دیا تو نتیجہ ہی خراب ہو گیا۔
سوال 14:
حضرت بیماریاں نفس کے اندر ہوتی ہیں؟ انسان سے گناہ ہوتا ہے، اس کی اصل وجہ نفس ہے یا شیطان؟ جس طرح آپ نے کہا دل کا نفس ہے۔
جواب:
میں نے یہ نہیں کہا۔ میرے خیال میں لوگ تھوڑی بات بھول جاتے ہیں۔ میں نے یہ کہا ہے کہ نفس کے امراض ہوتے ہیں اور نفس چونکہ اپنی خواہش پہ چلتا ہے اس کو اس سے غرض نہیں کہ اس سے گناہ ہوتا ہے یا نہیں، مثال کے طور پر بد نظری چاہتا ہے تو جس طرف بھی جاؤ گے بد نظری کی طرف ہی لپکے گا۔ یہ نہیں کہ ابھی بد نظری ہے تو کبھی کسی دوسرے گناہ کی طرف لپکے۔ یہ نفس کا کام نہیں ہے بلکہ نفس اپنی خواہش پوری کرنا چاہتا ہے۔ وہ جائز طریقے سے ہو چاہے نا جائز طریقے سے ہو۔ جبکہ شیطان کی خواہش صرف گناہ کی ہے، پورا کرنا اس کا شوق نہیں ہے۔ لہٰذا اگر آپ شیطان کی ایک چیز سے بچتے ہیں تو دوسری طرف لے جائے گا۔ بعض بچے بڑے ذہین اور شرارتی ہوتے ہیں آپ ان کو ایک شرارت سے روکتے ہیں تو دوسری شرارت فوراً تیار، اس سے روکتے ہیں، تیسری شرارت تیار، آپ حیران ہوتے ہیں کہ اس نے شرارت اتنی جلدی کیسے ڈیزائن کی؟ لیکن وہ کر لیتے ہیں۔ اسی طرح شیطان اس کا بڑا ماہر ہے۔ اگر آپ ایک چیز سے روکتے ہیں تو دوسرے پہ چلا گیا، دوسرے سے تیسرے پہ چلا گیا، تیسرے سے چوتھے پہ چلا گیا۔ جب اس طرح چیزیں بدل رہی ہوں تو سمجھو کہ شیطان میرے ساتھ game کھیل رہا ہے۔ ایک گناہ کا مسلسل تقاضا ہونا یہ نفس کی علامت ہے اور ایک بڑی علامت یہ ہے کہ جو گناہ کافروں میں اور مسلمانوں میں مشترک ہیں وہ نفس کی وجہ سے ہوتے ہیں اور جو گناہ کافروں میں تو نہیں ہیں لیکن مسلمانوں میں ہیں تو یہ شیطان کی وجہ سے ہیں۔
سوال 15:
بد گمانی ذہن کے نفس میں ہوتی ہے، جس طرح بد نظری آنکھ کے نفس کی ہوتی ہے، یعنی وہ بد گمانی کرنے پہ ہم کو مجبور کرتا ہے، گویا کوئی بھی بیماری نفس سے related ہے۔
جواب:
آپ اس کو اس طرح کہہ سکتے ہیں، لیکن اصل بات یہ ہے کہ یہ دنیا کی محبت کا ایک اثر ہے۔ مثلاً اگر آپ دنیا کی جاہ چاہتے ہیں تو آپ ہر چیز میں یہی خیال رکھیں گے کہ کہیں یہ مجھے ٹھیس نہیں پہنچا رہا۔ آپ اس ٹوہ میں لگے رہیں گے تو یہ بد گمانی ہے۔
سوال 16:
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذت آشنائی
اس کی تھوڑی سی تشریح فرما دیں۔
جواب:
اگر اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو تعلق ہو جائے تو پھر کسی اور چیز پہ نظر نہیں رہے گی۔ مثلاً ایک نو مسلم تھے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا ذکر کیا ہے، فرمایا کہ وہ بہت زیادہ تنہائی پسند ہو گئے۔ کسی نے کہا کہ پہلے تو آپ ما شاء اللہ بڑے سیر سپاٹے کرتے تھے اب سیر سپاٹوں سے آپ کا بالکل جی بھر گیا۔ اب تنہائی میں رہتے ہیں۔ فرمایا: جب اللہ تعالیٰ مجھے ملے، مجھے کسی اور چیز کی خواہش نہیں رہی۔ واقعتًا جن کو خلوت پسند ہو، جلوت میں مجبوراً جائے تو سمجھو کہ اس کا اللہ کے ساتھ تعلق ہو رہا ہے۔ اور جس کو جلوت پسند ہو کہ میں باہر کہیں ادھر کہیں ادھر پھرتا رہوں تو سمجھو کہ اس کے دل میں ابھی بہت چیزیں ہیں۔ ابھی اس کو لذتِ آشنائی حاصل نہیں ہوئی۔ بطور assignment باہر جانا الگ بات ہے لیکن بطور شوق جانا دوسری چیز ہے۔
سوال 17:
حضرت! تفویض اور توکل میں فرق؟
جواب:
توکل عرفی کا معنی ہے بھروسہ کرنا۔ مثلاً آپ کو ایک شخص کے بارے میں پتا ہے کہ میرا خیر خواہ بھی ہے اور یہ کام کرا سکتا ہے تو آپ اس کو کہہ کر بے فکر ہو جائیں گے۔ یہ آپ نے اس کے اوپر بھروسہ کر لیا۔ اگر کسی کو اللہ پر ایسا بھروسہ ہو جائے تو وہ توکل ہے۔ اس کو عرفی توکل کہتے ہیں۔ البتہ توکل کے دو درجے ہیں ایک توکل واجب ہے اور ایک توکل مستحب ہے۔ توکل واجب یہ ہے کہ انسان کو اللہ پر کم از کم اتنا بھروسہ حاصل ہو کہ اس کو گناہ کے اندر کوئی فائدہ نظر نہ آئے، جیسے اللہ کی نا فرمانی کے ساتھ کوئی پیسہ حاصل ہوتا ہے یا کوئی جاہ حاصل ہوتی ہے یا کوئی لذت حاصل ہوتی ہے۔ وہ یہ سمجھے کہ یہاں میرا فائدہ نہیں ہے۔ لہٰذا اس مسئلے میں وہ اللہ پہ بھروسہ کرے کہ وہ مجھے سب کچھ دے گا۔ مثلاً مجھے سود نہیں چاہیے، رشوت نہیں چاہیے، نا جائز مال نہیں چاہیے۔ یہ اللہ پر بھروسہ ہے اور اتنا توکل کرنا ہر مسلمان کے اوپر لازم ہے۔ لیکن توکل مستحب یہ ہے کہ آدمی عام ذرائع میں بھی انہماک نہ کرے اور اپنے دینی مشغلوں کو اولیت دے۔ چونکہ عام لوگ اس کے اہل نہیں ہوتے، لہٰذا ان کو نہ یہ بتایا جاتا ہے نہ سکھایا جاتا ہے۔ ان کو توکل واجب پر ہی رکھتے ہیں۔ لیکن جو اہل ہوتے ہیں ان کو یہ چیز حاصل بھی ہو جاتی ہے۔
بہت سارے دنیا دار طبقے کے لوگ اس چیز کے بارے میں چونکہ آگاہ نہیں ہوتے تو وہ باتیں کرتے ہیں کہ دنیا کا کام تو کرنا ہے، پیٹ بھی تو پالنا ہے۔ پھر اس کے قرآن و حدیث سے دلائل بھی دینا شروع کر دیتے ہیں حالانکہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایسی باتیں نہ کرو ورنہ بہت دور تک چلے جاؤ گے۔ آپ ﷺ سے بعثت کے ہونے سے پہلے دنیاوی کام ثابت ہیں، اس کے بعد ثابت نہیں۔ دنیاوی کام انہوں نے اعلان نبوت سے پہلے پہلے کیے ہیں۔ بھیڑ بکریاں بھی چرائی ہیں اور تجارت بھی کی ہے مختلف کام کیے ہیں۔ ایسے مشائخ جن کو مستحب توکل حاصل ہو وہ اللہ کا نام لے کر خانقاہ میں بیٹھ جاتے ہیں اور ان کا کام چلتا رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کا کام کرتا رہتا ہے۔ یہ مستحب توکل ہر ایک کو حاصل نہیں ہوتا۔ لہٰذا جن کا توکل کچا ہوتا ہے ان کو کہا جاتا ہے: تم ایسا نہ کرو۔
حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ مکتب میں پروف ریڈنگ کے دس روپے لیتے تھے، تو حضرت نے حاجی صاحب کو خط لکھا کہ حضرت میں توکل کرنا چاہتا ہوں اور ملازمت چھوڑنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے فرمایا: ملازمت نہ چھوڑو۔ کچھ عرصہ کے بعد حضرت نے پھر لکھا: حضرت میں نے ملازمت چھوڑ دی۔ فرمایا: مبارک ہو، مبارک ہو۔ لوگوں نے کہا: حضرت آپ نے پہلے منع کیا تھا اب مبارک دے رہے ہیں؟ فرمایا: جب پوچھا تھا تو توکل کچا تھا لہٰذا میں نے منع کر دیا اور جب پکا ہو گیا تو پوچھے بغیر ہی چھوڑ دیا۔ تو مبارک باد دے دی کہ اچھا ہوا اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ چیز نصیب فرما دی۔ یہ مستحب ہے۔
تفویض یہ ہے کہ آپ خود اپنی بات نہ کریں کہ مجھے ایسی چیز حاصل ہو۔ یعنی خود ڈیمانڈ نہ کریں بلکہ اللہ پر چھوڑ دیں کہ بس اللہ پاک میرے لئے جو کرے گا وہی بہتر ہو گا۔ اس میں آپ کسی بھی چیز کا مطالبہ نہیں کرتے۔ چنانچہ تفویضِ محض بہت مشکل چیز ہے لیکن ہے بہت مزیدار چیز۔ کیونکہ اگر کسی کو واقعی تفویض حاصل ہو جائے تو اس کو کامل اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ اس کے بغیر کامل اطمینان حاصل ہی نہیں ہو سکتا۔ ﴿وَ اُفَوِّضُ اَمْرِیْۤ اِلَى اللهِؕ اِنَّ اللهَ بَصِیْرٌۢ بِالْعِبَادِ﴾ (المؤمن: 44)
ترجمہ: ”اور میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں۔ یقیناً اللہ سارے بندوں کو خوب دیکھنے والا ہے۔“
صاحب تفویض بزرگوں نے تفویض کی راحت و اطمینان سے بھی پناہ مانگی ہے کہ یہ ہماری تفویض کے راستہ میں حائل نہ ہو جائے، یعنی demand چھوڑ دیتے ہیں۔ تو انسان اپنا ارادہ چھوڑ دے اور اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر مطمئن ہو جائے۔ یہ تفویض ہے۔
سوال 18:
حضرت! ایک نعت کا ٹکڑا ہے ”صاحبِ لامکاں دل کے اندر ہے تو“ کیا یہ مناسب ہے؟
جواب:
دل کے اندر تو ہوتا ہے بلکہ یہی وہ مقام ہے جس کو حاصل کرنے کے لئے کوشش کی جاتی ہے۔ اس کو تصور ذاتِ بحت کہتے ہیں۔
وَ آخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِين