سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 12

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

نشست نمبر12،مورخہ 14 فروری 2012۔


سوال نمبر 01:

جس کی شرعی داڑھی نہ ہو کیا اس کی باطنی اصلاح ہوسکتی ہے؟

جواب نمبر 01:

اللہ تعالیٰ کے بھروسے پر جواب دیتا ہوں، اور وہ یہ کہ اصلاح تو کافر کی بھی ہوسکتی ہے اگر ایمان لائے۔ گناہ گار کی تو بدرجہ اتم اصلاح ہو سکتی ہے۔ اور اصلاح ہوتی ہی گناہگار کی ہے۔ جس کی اصلاح ہوچکی ہو اس کی آپ کیا اصلاح کریں گے۔ ہمارے حضرت پیر مہر علی شاہؒ گولڑہ شریفوالے ساتھ ہی ہیں، حضرت کے وقت میں یہ اسلام آباد جنگل تھا۔ اس وقت حضرت کے ہاں لوگ آتے تھے، اور حضرت کے ہاں لنگر بھی چلتا تھا۔ اور یہ مجاہدانہ سرگرمیوں والے حضرات میں سے تھے۔ انگریزوں کو ان کے ہاں لوگوں کا آنا اچھا نہیں لگتا تھا۔ تو انہوں نے حضرت پر الزام لگایا کہ آپ کے پاس چور اچکے آتے ہیں اور یہ بات ٹھیک نہیں ہے، آپ ان کو نہ آنے دیں۔ حضرت نے بڑا عارفانہ جواب دیا، فرمایا: میں تو یہاں پر بیٹھا ہی ہوں خدمت خلق کے لیے کہ مخلوق خدا کی خدمت کروں، جو اصلاح چاہتے ہیں ان کی مدد کروں، میرے پاس تو یہی لوگ آئیں گے جن کی اصلاح نہیں ہوچکی ہوتی۔ جن کی اصلاح ہوچکی ہو وہ میرے پاس کیوں آئیں گے اور میں ان کو اپنے پاس کیوں رکھوں گا۔ تو اس سوال کا جواب بھی یہی ہے کہ جو بھی گناہگار ہے اور اپنے آپ کو گناہگار سمجھتا ہے تو اس کی اصلاح ہوسکتی ہے۔ کہتے ہیں کہ جہل کی تین قسمیں ہیں ایک یہ کہ جاہل اپنے آپ کو جاہل سمجھتا ہو، اس کی اصلاح ہو سکتی ہے۔ اور جو جاہل اپنے آپ کو جاہل نہیں سمجھتا اس کی اصلاح مشکل ہے کیونکہ وہ اپنے آپ کو جاہل نہیں سمجھ رہا۔ پہلے اس کو یہ سمجھانا پڑے گا کہ تم جاہل ہو، اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے کوئی شخص کسی خطرناک بیماری میں مبتلا ہو اور اس کو احساس ہی نہ ہو کہ مجھے خطرناک بیماری ہے۔ بظاہر اس کی کوئی علامت نہ ہو تو پہلے تو اس کو احتیاط کے ساتھ یہ سمجھانا ہو گا کہ تم بیمار ہو، پھر اس کے بعد علاج کی باری آئے گی تو ایسے جاہل جو جہل مرکب میں مبتلا ہوں یعنی اس کو یہ بھی پتا نہ ہو کہ میں جاہل ہوں، ان کو طریقے سے سمجھانا ہوگا کہ تم جاہل ہو اور ہمارے ہاں جو اصلاح کا طریقہ ہے اس میں عموماً اسی قسم کی اصلاح ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو پہلے آتے ہیں وہ صرف دیکھا دیکھی آ جاتے ہیں، وہ اپنے آپ کو روحانی بیمار نہیں سمجھتے بلکہ بعض لوگ تو بڑے بڑے دعوے بھی کرتے ہیں کہ میں تو ایسا ہوں اور ایسا ہوں، ایسے لوگوں کے ساتھ صوفیاء کرام indirect طریقے سے بات نہیں کرتے بلکہ indirect طریقے سے بات کرتے ہیں تاکہ ان کو سمجھ بھی آ جائے اور وہ برا بھی نہ مانیں اور بھاگیں بھی نہیں۔ جیسے حضرت مولانا الیاس صاحبؒ کی بات ہے کہ ان کے ساتھ ایک صاحب کافی اٹھنے بیٹھنے لگے تو حضرت کو خیال ہوا کہ شاید اب یہ سننے کے قابل ہو گئے ہیں تو حضرت نے ان سے داڑھی کی بات کی کہ آپ داڑھی کیوں نہیں رکھتے؟ تو اس صاحب نے آنا چھوڑ دیا۔ حضرت بڑے پریشان ہوئے، کروٹوں پر کروٹیں بدلتے اور فرمایا کہ ٹھنڈے توے پر آٹا ڈال دیا، آٹا بھی ضائع ہوگیا، یعنی ابھی اس شخض کا مقام نہیں بنا تھا کہ اس کو بات بتائی جائے، پہلے تو اس کو یہ سمجھانا تھا کہ اس کی ضرورت ہے تو فرمایا کہ مجھ سے غلطی ہوگئی ٹھنڈے توے پر آٹا ڈال دیا۔ اس لیے ہم اکثر اکابر کے ہاں دیکھتے ہیں کہ وہ بہت کم براہ راست یہ کہتے ہیں کہ آپ کی داڑھی نہیں ہے یا عورتوں سے کہتے ہیں کہ آپ پردہ نہیں کرتیں۔ براہ راست خطاب تو ان کے ہاں تقریباً تقریباً نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ ان کی ترتیب یہ ہوتی ہے کہ یا تو مجمع عام میں بات کرتے ہیں اور لوگ اپنی اپنی بات سمجھ لیتے ہیں یا پھر کسی طریقے سے Indirect طور پر بات سمجھاتے ہیں، یہی طریقہ قابل عمل ہے۔ مشائخ کے ہاں جو لوگ آتے ہیں بے شک ان کی داڑھی نہ ہو پھر بھی ان کو فائدہ ہوتا ہے اور خواتین جو مجالس میں آتی ہیں بے شک وہ پردہ نہ کرتی ہوں تب بھی ان کو فائدہ ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ آئیں گے تو فائدہ ہوگا، اگر نہیں آئیں گی تو فائدہ نہیں ہوگا۔ یہاں بہت سی خواتین ایسی آئی ہیں جو ابتداء میں پردہ نہیں کرتی تھیں، اب ماشاء اللہ شرعی پردہ کرتی ہیں، ایسا پردہ کہ جس کا آج کل عموماً رواج نہیں ہے۔ یہ تو وقت کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ توفیقات سے نوازتے ہیں۔ لہٰذا پہلے آئیں تو سہی اس کے بعد آہستہ آہستہ اللہ تعالیٰ توفیقات سے نوازیں گے اور ان کو سمجھ بھی آئے گا اور وہ پھر کام بھی کریں گے انشاء اللہ۔

سوال نمبر 02:

ایک مسجد میں نماز شروع ہونے سے پہلے ایک شخص نے پہلی صف میں کھڑے ہوکر اعلان کیا کہ جن کی داڑھی نہیں ہے اور جنہوں نے پینٹ شرٹ پہنی ہوئی ہے وہ پچھلی صفوں میں چلے جائیں اور جو داڑھی والے ہیں وہ پہلی صف میں آجائیں۔ کیا یہ طریقہ درست ہے؟

جواب نمبر 02:

اصل میں بات یہ ہے کہ طریقہ کار کا اختلاف ہوتا ہے، ویسے ہمارا ذوق تو یہ نہیں ہے۔ ہم تو ایسا نہیں کرتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آج کل کے دور میں شفقت کی بڑی ضرورت ہے۔ طریقے سے بات کرنے کی بہت ضرورت ہے۔ تو لوگ آہستہ آہستہ قریب آئیں گے اور پھر وہ بات سننے کے قابل ہوں گے۔ ایسے لوگوں میں بعض ہیرے لوگ بھی موجود ہوتے ہیں ماشاء اللہ! ان میں بعض ایسے ہوتے ہیں جو بعد میں جاکر بڑے قابل نکلتے ہیں اور دین کی بڑی خدمت انجام دیتے ہیں۔ ہمارے پاس بھی ایسے حضرات تھے جو پہلے انہی لوگوں میں سے تھے لیکن الحمد اللہ اب وہ کافی آگے جا چکے ہیں، اگر ہم لوگ ان کو ضائع کر دیتے اور ان کے ساتھ اس قسم کی باتیں کرکے اپنے سے بدظن کردیتے تو یہ چیز شاید ان کو حاصل نہ ہوتی۔ اس وجہ سے ماحول کو دیکھنا چاہیے، حالات کو دیکھنا چاہیے، میرے خیال میں آج کل طریقہ تعلیم کچھ ایسا ہی ہونا چاہیے۔

سوال نمبر03:

یہ خط ایک خاتون کی طرف سے آیا ہے، لکھا ہے کہ میرا مراقبہ اچھا جارہا ہے، آپ نے جو اضافی ذکر دیا تھا مغرب کے بعد اللہ 11 دفعہ کہنے کا اور دو دو دفعہ بڑھانے کا، اس کو پینتالیس بار تک پہنچا دیا ہے۔ حضرت جی! اپنے اندر موجود ایک مرض کا علم ہوا ہے جو بہت شدید ہے اور وہ ہے بدگمانی۔ میں کچھ دنوں سے نوٹ کررہی ہوں کہ کافی باتوں کے اندر میں بدگمانی کرتی ہوں اور جس بات پر میں بدگمان ہوتی ہوں وہ میرے گمان سے بالکل الٹ ہوتی ہے، بدگمانی کرنے میں اکثر لوگوں کو ڈانٹتی بھی ہوں اور اس سلسلے میں جو مرض تشخیص ہوا ہے وہ ہے احساس برتری، یعنی مجھے اپنی خوبیوں کا اندازہ ہے اور دوسروں کے عبیوں کی تلاش میں رہتی ہوں، حالانکہ اپنے اندر وہی عیب موجود ہے اور اس کا علم بھی ہے۔ حضرت جی پچھلی بار اگر میں خط لکھتی تو بتاتی کہ میں نمازیں وقت آنے کے کافی دیر بعد پڑھتی ہوں لیکن الحمد اللہ اس ہفتے ہر نماز جماعت شروع ہونے سے پہلے اپنی نماز ختم کردیتی ہوں سوائے فجر اور تہجد کے۔ ان میں تاحال نیند کا غلبہ ہے حالانکہ میں جلدی سو جاتی ہوں۔ حضرت جی! آپ سے ایک اور حال ذکر کرنا تھا وہ ہے گنگنانا۔ کچھ دنوں سے پتا نہیں مجھے کیا ہوگیا ہے کہ میں بہت پہلے کے سنے ہوئے گانے یعنی میں نے فروری 2008ء میں گانے سننے سے پختہ توبہ کی تھی۔ اور آج تک گانے نہیں سنے۔ اکثر زبان ہلائے بغیر اور کبھی کبھی بالکل ہلکی آواز میں گنگنانا شروع کردیتی ہوں جبکہ ان دنوں میں گانے نہیں سنے، اور حد تو یہ ہے کہ احساس ہونے کے باوجود بھی اسے فوری چھوڑ نہیں دیتی، بلکہ جب تک مکمل بند نہ ہوجائے، گنگنانا نہیں چھوڑتی۔

جواب نمبر 04:

ماشاء اللہ یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ احساس عیوب ہوا ہے۔ اپنے عیوب کا احساس ترقی کی پہلی سیڑھی ہے۔ کیونکہ جب تک عیوب کا احساس نہیں ہوتا تو جیسے میں نے پہلے ذکر کیا، اس وقت تک اس کا فائدہ نہیں ہوپاتا۔

الحمد للہ! یہ جو خاتون ہے ان کو کم از کم اس کا احساس ہو گیا ہے کہ میرے اندر جو عیوب ہیں وہ کیا ہیں، اور بدگمانی کے بارے میں بڑے پتے کی بات کی ہے۔ قران پاک میں بھی اس بارے میں ہے کہ﴿إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ﴾۔ یعنی بعض گمان گناہ ہوتے ہیں، اس کا مطلب ہے کہ احتیاط کرنا چاہیے اور کسی پر بدگمانی نہیں کرنی چاہیے۔ بلکہ فرماتے ہیں کہ حضرت شیخ سعدیؒ نے فرمایا ہے کہ مجھے شیخ شہابؒ سے دو باتیں حاصل ہوئی ہیں، انہوں نے فارسی کے شعر میں یہ بات کہی ہے، شعر تو مجھے یاد نہیں ہے لیکن مجھے اس کا مفہوم یاد ہے فرماتے ہیں کہ "برخود خوش می مہ باش" کہ اپنے اوپر تو خوش گمان نہ ہوں، اور "بر غیر بد می مہ باش" اور دوسرے پر بدگمان نہ ہوں، تو یہ معاملہ آج کل الٹ ہے۔ انسان اپنے اوپر خوش گمان ہوتا ہے، خوشگمانی کرتا ہے اور دوسرے کے ساتھ بدگمانی کرتا ہے۔ ماشاء اللہ! ان میں سے نہیں ہے۔ یہ اپنے اوپر بدگمان ہے،اگرچہ کہتی ہے که میں بدگمانی کرتی ہوں لیکن میرے خیال میں اگر گہری نظر سے دیکھا جائے تو یہ نیک گمان کرتی ہے کیونکہ یہ اپنی غلطی نوٹ کررہی ہے کہ میں تو اکثر الٹ کرتی ہوں، یعنی جن کے بارے میں مجھے بدگمانی ہوتی ہے تو ایسا نہیں ہوتا، تو اس کا مطلب ہے کہ جب ان کو احساس ہو گیا کہ میں ایسا کرتی ہوں تو اس کی بدگمانی خوش گمانی میں تبدیل ہوگئی، یعنی یہ جو کہتی ہیں کہ میں اپنے اوپر خوش گمان ہوں تو یہ خوش گمان نہیں بدگمان ہے کیونکہ نتیجہ آخری اس کا نکلتا ہے، دوسرے پر جو بدگمانی کی بات کرتی ہیں تو اس کا آخری نتیجہ خوش گمانی نکلتا ہے۔ لہذا یہ فکر کی وجہ ہے کہ ان کو زیادہ شدید فکر ہے۔ لہذا اس قسم کی بات ہونے لگی ہے اور یہ اچھی بات ہے اللہ تعالیٰ مزید توفیقات سے نوازے۔ یہ برتری کا احساس جو ان کو ہوا ہے، یہ اصل میں برتری کا احساس نہیں ہوا کرتا،جو اپنے آپ کو برتر سمجھتا ہے اس کو برتری کا احساس نہیں ہوتا کہ میں ایسا ہوں۔ یہ ایسی چیز ہے کہ عملی اور ہوتی ہیں اور الفاظ میں اور ہوتی ہیں، تو جو اپنے آپ کو احساس برتری میں مبتلا سمجھے تو وہ احساس برتری میں مبتلا نہیں ہوتا بلکہ تصوف کی یہ ایک اصطلاح ہے،اس کو فناء الفنا کہتے ہیں کہ انسان اپنے آپ کو کچھ نہ سمجھے، اللہ جل شانہ کے سامنے، تو یہ فنا مطلوب ہے اور یہ ایک مقام ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے مقام ہم سب کو نصیب فرمائے۔ لیکن فرماتے ہیں کہ اصل فنا، فناء الفناء ہے۔ کہ یہ بھی پتا نہ چلے کہ میں فانی ہوچکا ہوں، کیونکہ انسان اگر اپنے آپ کو فانی کہنا شروع کردے تو یہ بھی اپنے اندر اچھائی دیکھنے والی بات ہے۔ تو فرمایا کہ اصل فنا ان کو ہے جن کو فناء الفناء حاصل ہے۔ تو ماشاء اللہ یہ کافی ترقی کی نشانی ہے، اللہ تعالیٰ مزید توفیقات دے۔ اور یہ جو لکھا ہے کہ پچھلی بار اگر میں خط لکھتی تو میں کہتی کہ میں نماز وقت ہونے کے کافی دیر بعد پڑھتی ہوں تو یہ عورتوں کے ایک خاص مرض کے بارے میں بتا رہی ہیں کہ عورتیں اکثر نماز کافی دیر بعد پڑھتی ہیں۔ اور اللہ کا شکر ہے کہ اکثر مجالس میں اس کا ذکر یہاں ہوتا رہتا ہے کہ عورتیں نماز دیر سے پڑھتی ہیں، لہذا وہ نماز اپنے وقت پر پڑھا کریں۔ ان کو گھر کے کاموں میں مسئلہ ہوتا ہے، ان میں لگی ہوتی ہیں، کام تو کرنے ہوتے ہیں لیکن جب بعد میں کام چھوڑنا ہے تو وقت پر چھوڑے۔ صرف ترتیب کی بات ہے، management کی بات ہے۔ مثال کے طور پر اگر مغرب کی نماز کا وقت دیکھا جائے تو گھنٹہ سوا گھنٹہ وقت ہوتا ہے تو اس وقت میں اگر یہ لیٹ نماز پڑھے مثلاً گھنٹہ کے بعد پڑھے تو پھر بھی کام تو چھوڑنا پڑے گا اور اگر گھنٹہ پہلے چھوڑ دے تو پھر بھی کام چھوڑنا پڑے گا تو جب کام چھوڑنا ہی ہے تو پہلے چھوڑ دے۔ نماز پڑھ لے اس کے بعد باقی کام کرلے۔ بہرحال خواتین کے اندر یہ مسئلہ ہوتا ہے۔ تو انہوں نے بھی یہ بتایا ہے اور میرے خیال میں اب الحمد للہ ان کا یہ مسئلہ حل ہو گیا ہے کہ انہیں یہ مسئلہ تھا لیکن اب بتا رہی ہیں کہ میں نماز جلد ہی پڑھ لیتی ہوں، تہجد کے بارے میں بتایا ہے کہ میں تہجد پڑھتی ہوں لیکن اس میں نیند کا غلبہ ہوتا ہے۔ ہاں بعض طبیعتیں ایسی ہوتی ہیں کہ جب سارے لوگ سو رہے ہوں تو اس وقت اگر وہ نماز پڑھ رہے ہوں تو ان پر بھی نیند کا غلبہ ہوتا ہے۔ یہ صرف نفسیاتی اثر کی وجہ سے ہوتا ہے۔ بے شک ان کی نیند پوری بھی ہو، پھر بھی ان کو اثر ہوتا ہے۔جیسے کہتے ہیں کہ فرنٹ سیٹ پر سونا منع ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فرنٹ سیٹ پر اگر کوئی سو رہا ہے تو ڈرائیور پر بھی اثر ہوجاتا ہے۔ وہ بھی سونا چاہتا ہے تو یہ ایک نفسیاتی اثر ہے، اس کو ان شاء اللہ وقت خود ہی دور کردے گا، جب یہ معمول چلتا رہے گا تو یہ باقی لوگوں کے سوتے ہوئے جاگنے کی عادی ہو جائے گی، ان شاء اللہ پھر یہ کیفیت نہیں رہے گی۔

اور پھر انہوں نے جو ذکر کا بتایا ہے کہ مغرب کی نماز کے بعد اللہ گیارہ مرتبہ کہنے کا اور دو دفعہ بڑھانے کا، اصل میں یہ ہماری ترتیب ان کے لیے ہوتی ہے جن کا قلبی ذکر جاری نہیں ہوتا، اگر قلبی ذکر جاری ہوچکا ہو تو پھر اس کے کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اور آپ کا اگر جاری ہو چکا ہے تو اس کی ضرورت نہیں اور اگر جاری نہیں ہوا تو ٹھیک ہے جاری رکھیں۔

اس طرح گنگنانے والی بات کی ہے۔ اصل میں یہ واقعی ایک مرض ہے اور مرض جب راسخ ہو جاتا ہے تو اس کی علامت یہ ہوتی ہے، بعض طبعیتیں گانوں سے اور میوزک سے زیادہ اثر لیتی ہیں مزاجاً طبیعتوں پر اس کا اثر زیادہ ہوتا ہے، ان میں، میں بھی شامل ہوں، اس وجہ سے میں ان چیزوں سے زیادہ بھاگتا ہوں کیونکہ مجھے پتا ہے کہ اس کا اثر مجھ پر زیادہ ہوتا ہے. اور ایک تو یہ ہے کہ ابھی نہ کرے پہلے جو کیا ہے وہ اگر سننے میں آ جاتا ہے تو یقیناً اس میں شیطان کا بڑا ہاتھ ہے کہ وہ گزشتہ چیزیں سامنے لاتا ہے۔ چونکہ ان چیزوں کا ذوق تو ہوتا ہے تو وہ ذوق غالب آجاتا ہے اور اگر زبان سے نہیں تو آدمی ذہن میں گنگنانے لگتا ہے۔ اور کبھی کبھی یہ اور زیادہ غالب ہو تو پھر زبان پر بھی آجاتا ہے، ایسی صورت میں اس کا علاج یہ ہے کہ بہت ساری نعتیں سنی جائیں۔ صحیح نعتیں۔ کیونکہ ایسے لوگوں کو اس کی ضرورت ہوتی ہے۔تو نعتیں سنیں اور اتنی سنیں کہ وہ نعتیں ان پر غالب آجائیں، جب وہ نعتیں ان پر غالب آجائیں گی تو اس کے بعد اگر وہ گنگنائیں گی تو ظاہر ہے نعتیں ہی گنگنائے گی۔ البتہ صرف گنگنانا ہی ہو، ایسا نہ ہو کہ پڑھنا ہی شروع ہو جائے کیونکہ عورتوں کے لیے نعت پڑھنے میں کچھ مسائل ہیں تو اس پر بھی عمل ہو۔ تو گنگنانے کی حد تک ہو تو ٹھیک ہے۔ پھر ماشاء اللہ ذہن میں بھی وہ چیزیں آتی رہیں گی۔ میرے ساتھ بھی ایسا ہوا تھا کہ ایک دفعہ میں سکردو سے آرہا تھا، ویسے تو جہاز کا سفر تھا لیکن موسم کی خرابی کی وجہ سے گاڑی پر آنا پڑا. بس کا سفر تقریباً بائیس گھنٹے کا تھا۔ اور میرے جیسا آدمی جو دو گھنٹے میں بھی تھک جاتا ہے بائیس گھنٹے تو اچھا خاصا سفر تھا تو مجھے فرنٹ سیٹ ملی تھی اور یہ اچھی سیٹ سمجھی جاتی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ ڈرائیور اپنے آپ کو معذور بتارہا تھا کہ میں نے گانے لگانے ہیں اور ہم چونکہ بغیر پروگرام کے آئے تھے اگر پروگرام سے آتے تو پھر شاید اپنے ساتھ کچھ نعتوں کی کیسٹ لے آتے اور ان کو دیتے کہ یہ لو، آپ بھی سنو اور ہمیں بھی سناؤ اور یہ مسئلہ نہ ہوتا، لیکن بہر حال مجھے وہ زبردستی کے گانے سننے پڑے کیونکہ اور کوئی ذریعہ نہیں تھا کہ میں اس سے اپنے آپ کو بچاؤں، تو وہ جو زبردستی گانے سنے تھے وہ میرے ذہن پر کافی غالب ہو گئے۔ یہاں پہنچنے کے بعد تقریباً دو تین دن میں نے نعتیں ہی نعتیں سنیں، میں بیٹھ کر نعتیں ہی سنتا رہا۔ اس کا یہ فائدہ ہوگیا کہ الحمد للہ وہ گانے واش ہو گئے، اور الحمد للہ اس پر وہ نعتیں غالب آ گئیں۔ تو یہ عملی چیز ہے، عملی طور پر ایسا کرنا پڑتا ہے۔

تو آپ اس عادت کو اس طریقے سے رفع کرسکتی ہیں۔ ویسے جب تک یہ رفع نہ ہوں تو ہمت کرنا لازم ہے۔ کیونکہ شریعت میں یہ بات ہے کہ جو چیز انسان کے لیے مشکل ہو تو یہ نہیں کہ اس کا حکم بدل گیا، نہیں بلکہ مشکل میں اجر بڑھ گیا۔ اگر مشکل ہو تو کرنا پھر بھی پڑے گا، لیکن اس کا اجر بڑھ جائے گا تو ایسی صورت میں ہمت کے ساتھ اپنے آپ کو روکے رکھیں اور اس طرح نہ ہونے دیں۔ بے خیالی میں ہوجائے تو اس پر استغفار کریں تو وہ معاف ہوجائے گا اور جیسے ہی خیال آ جائے اس کو فوراً روک دے۔ یا اپنے ذہن کو کسی اور طرف متوجہ کر لیں یا کسی اور مفید کام میں اپنے آپ کو لگا دیں تاکہ ایسا نہ ہو۔

کچھ خوفناک اور خطرناک قسم کا تذکرہ کر رہی ہیں، ہمارے حضرات خوابوں پر یقین نہیں رکھتے۔ حضرت تھانویؒ کو جو لوگ زیادہ خواب سناتے تو وہ فرماتے کہ

نہ شب ام نہ شب پرستم کہ حدیث خواب گویم

من ہما زے آفتاب ام زے آفتاب گویم

”میں تو نہ آفتاب ہوں نہ رات کے ساتھ ہوں میں تو سورج ہوں اور سورج کی باتیں کرتا ہوں“

مطلب دن کی باتیں کرو۔ تو یہ جو خطرناک خواب کی بات انہوں نے کی ہے، اس کا طریقہ یہ ہے کہ تین دفعہ اعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم پڑھیں اور بائیں طرف تھوک دے اگر قبلہ نہ ہو، اگر قبلہ ہو تو کسی اور طرف تھوکے کیونکہ قبلہ کی طرف تھوکنا منع ہے۔

اس پر ایک بات مجھے یاد آگئی۔ حضرت شیخ عبد القادر جیلانی کو بتایا گیا کہ فلاں جگہ ایک بزرگ تشریف لائے ہوئے ہیں تو فرمایا کہ ان کے پاس چلتے ہیں، جب ان کے قریب گئے تو ان کو بتایا کہ یہ بزرگ ہیں تو ادھر ہی سے واپس آگئے۔ پوچھا کیا ہوا تو فرمایا: بس ٹھیک ہے، اچھا آدمی ہوگا لیکن بزرگ نہیں ہے، پوچھا کیسے پتا چلا۔ فرمایا: اس نے میرے سامنے قبلہ کی طرف تھوک دیا۔ تو یہ ہے ادب کی بات، شعائر اللہ کی تعظیم۔ فرمایا:﴿وَمَنْ يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوب﴾جن کے دل میں تقویٰ ہو تو وہ شعائر اللہ کی تعظیم کرتے ہیں جس کے دل میں تقویٰ نہیں وہ تعظیم نہیں کرتے۔

سوال نمبر 04:

جو لوگ دور سے بیان سنتے ہیں یا live یا ریکارڈڈ بیان سنتے ہیں تو اس کا کیا مقابلہ ہے یہاں مجلس میں بیٹھ کر سننے سے، کیا اس میں فرق ہوتا ہے؟

جواب نمبر 04:

یقیناً فرق ہوتا ہے۔ لیکن اس میں کچھ تفصیلات ہیں۔ تفصیلات یہ ہیں کہ آیا اس مجلس میں آنا ممکن ہے یا نہیں؟ مثلاً: مجلس میں آنا ممکن نہیں، کوئی کراچی سے سن رہا ہے۔ تو اب کراچی والے کو آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہاں سے یہاں آکر سن لے کیونکہ یہ تو اس کے لیے ممکن نہیں، لہذا کراچی والے کے لیے live بیان ایسے ہی ہوگا جیسے مجلس میں۔ کیونکہ یہ اس کے لیے نعم البدل کا باعث بن سکتا ہے، ہاں یہ الگ بات ہے کہ سال میں اگر وہ ایک دو دفعہ وقت نکال سکتا ہے اور مجلس میں آسکتا ہے تو پھر اس کے حساب سے بہت فرق پڑے گا۔ کیونکہ اللہ جل شانہ کے ہاں تکلیف کا فیصلہ اس پر ہوتا ہے کہ آیا وہ استطاعت رکھتا ہے یا نہیں۔ جیسے حج کے بارے میں ہے کہ جو استطاعت نہیں رکھتا اس پر حج فرض ہی نہیں اور جو استطاعت نہیں رکھتا اس پر زکوٰة بھی فرض نہیں ہے۔ تو اگر کوئی استطاعت رکھتا ہے تو پھر اس حساب سے فرق پڑ جاتا ہے۔ یعنی جو اس سے فائدہ اٹھاتا ہے تو اس کو زیادہ فائدہ ہوگا اور جو فائدہ نہیں اٹھا رہا کسی اور ذریعے کو استعمال کررہا ہے تو فائدہ تو پھر بھی ہوگا لیکن کم ہوگا۔ اس لیے راولپنڈی اسلام آباد میں رہنے والے لوگ مجلس میں آئیں گے تو ان کو زیادہ فائدہ ہوگا اور جو live بیان سنیں گے، ان کو نسبتاً کم فائدہ ہوگا اور جو recorded بیان سنیں گے ان کو اس سے بھی کم فائدہ ہوگا۔ اور جو لوگ باہر ہیں اور یہ بات خود ہمارے ایک ساتھی نے اٹھائی جو live بیان سننے والوں میں سے ہیں مستقل، تو انہوں نے بتایا کہ مجھے خود یہ پتا چل گیا کہ جب میں مجلس میں آتا ہوں تو اس کا اثر اور ہوتا ہے اور جب میں گھر میں سنتا ہوں تو اس کا اثر اور ہوتا ہے۔ خود تقابل کر رہا ہے یہاں تک کہ خواتین نے بھی یہ بات محسوس کی ہے حالانکہ خواتین کے لیے مسئلہ یہ ہے کہ ان کے سامنے تو میں ہوتا ہی نہیں، وہ پردے میں بیٹھتی ہیں، وہاں بھی اکثر میں بار بار کہتا ہوں کہ آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل والی بات ہے۔ تو جب میں خواتین سے پوچھتا ہوں تو وہ زچ ہوجاتی ہیں کہتی ہیں کہ ہمیں نہیں پتا لیکن ہمیں فرق محسوس ہوتا ہے۔ جب آپ آکر بیان کرتے ہیں تو اس کا اثر اور ہوتا ہے اور جب ہم دور سے live بیان سن رہے ہوتے ہیں تو اس کا اثر اور ہوتا ہے۔ تو میرے خیال میں یہ بات اس قسم کی ہے کہ مثال کے طور پر میں اسلام آباد میں کہیں بیان کرتا ہوں وہ خواتین جن کا آنے کا امکان ہوتا ہے اور وہ نہیں آتیں تو پھر ان کے لیے بھی وہی بات ہو جاتی ہے کہ اگر وہ live سن لیں تو ان کے لیے اس حساب سے کچھ کمی ہوجاتی ہے لیکن اگر اسلام آباد کے علاوہ کراچی والی ہیں یا لاہور والی ہیں تو ان کے لیے ایسا ہی ہوگا جیسے مردوں کے لیے میں نے ابھی ذکر کیا۔ تو گویا کہ اللہ جل شانہ چاہتے ہیں کہ دین کے لیے طلب کا اظہار کیا جائے۔ تو جس میں طلب کے اظہار کا موقع ہوتا ہے اس کو اس حساب سے ملتا ہے یعنی طلب کے مطابق۔ اور جہاں طلب میں کمی کا اظہار ہوتا ہے اس حساب سے پھر اثر کا بھی فرق ہوتا ہے۔

سوال نمبر 05:

ایک شخص راولپنڈی اسلام آباد میں ہے اور وہ یہاں سستی کی وجہ سے نہیں آ سکتا اور دوسرا یہاں پر آتا ہے لیکن غفلت میں ہوتا ہے۔ اس میں کیا فرق ہے؟

جواب نمبر 05:

بالکل فرق ہے۔ لیکن بات یہ ہے کہ ممکن ہے اثر کسی وقت بالکل برابر ہو۔ یہاں آ کر غفلت میں رہنا اور بات ہے اور وہاں رہ کر سننا اور بات ہے۔ وہاں جو غفلت ہے وہ اصل میں ابتداء کے لحاظ سے ہے کہ آپ نے ابتداء میں غفلت کی اور آئے نہیں۔ اور یہاں کی غفلت وہ دوران عمل غفلت ہے یعنی عمل کے دوران غافل ہیں، عمل کے دوران آدمی جب غافل ہوتا ہے پھر بھی تھوڑا بہت موقع مل جاتا ہے درمیان میں کبھی کبھی صحیح سن بھی لیتا ہے۔ اس وجہ سے فرق پڑ جاتا ہے لیکن اگر مستقل ہی ایسا ہو تو پھر ممکن ہے کہ برابر ہوجائے۔ بہرحال ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ ایک آدمی اتنا ہی غافل ہو کہ وہ اتنا سفر کر کے آ بھی جائے اور پھر بھی غافل رہے، عملاً ایسا بظاہر محال نظر آتا ہے، بہر حال اگر ہو تو پھر شاید اثر بھی ایسا ہی ہوگا۔

سوال نمبر 06:

ایک وسوسہ شیطان کی طرف سے ہوتا ہے ایک حدیث نفس ہوتا ہے اور ایک اپنے ذہن کے خیالات، ان میں کیا فرق ہے؟

جواب نمبر 06:

شیطان کا وسوسہ اور حدیثِ نفس میں تو واضح فرق ہے۔ شیطان کا وسوسہ ایسا ہوتا ہے جو کہ کسی خاص گناہ کے لیے نہیں ہوتا بلکہ وہ صرف دور کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ لہذا اس کا پہلا حملہ عقیدے پر ہوتا ہے۔ اگر عقیدے میں خرابی نہ ہو تو پھر اس کا دوسرا حملہ فرائض پر ہوتا ہے اور حرام کی طرف ہوتا ہے اس میں وہ تخصیص نہیں کرتا کہ کونسا فرض چھڑوا دے اور کونسا حرام کروا دے۔ اگر ایک نہیں تو دوسرا کروا دے گا، دوسرا نہیں تو تیسرا کروا دے گا۔ جیسے بچے اس بات میں دلچسپی نہیں رکھتے کہ کونسی شرارت کریں۔ ایک شرارت سے آپ روکیں گے وہ دوسری کر لیں گے۔ مطلب ان کو صرف شرارت کرنی ہے۔ ان کو اس سے غرض نہیں کہ کونسی شرارت کریں۔ اسی طرح شیطان کو بھی اس سے کوئی غرض نہیں کہ کونسا گناہ کروالے اس کو مقصود اللہ سے دور کرنا ہے۔ چاہے وہ کسی طریقے سے بھی دور ہو جائے۔ اور اگر زیادہ دور نہ ہوسکے تو کم دور کردے گا۔ یعنی اگر کسی گناہ پر آمادہ نہ کرسکا تو کسی فرض سے روک دے گا اگر فرض سے نہ روک سکے تو واجب سے روک دے گا، واجب سے نہ روک سکے تو سنت سے روک لے گا، سنت سے نہ روک سکے تو مستحب سے روک لے گا اور نہیں تو لایعنی باتوں میں مبتلا کردے گا۔ یعنی کوئی نہ کوئی اثر کرے گا چاہے کچھ بھی ہو، تو یہ شیطان کا طریقہ کار ہے۔ حدیثِ نفس اصل میں نفس کی خواہشات ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر نفس کے اندر یہ بات ہے کہ لوگ مجھے اچھا کہیں۔ اپنی تعریف کی خواہش ہو تو پھر اس کے ذہن میں یہ خیال آئے گا کہ فلاں میری تعریف کرے، فلاں میری تعریف کرے۔ یہ سارا حدیث نفس ہے۔ کیونکہ اس میں تعریف کی خواہش ہے۔ تو وہ تعریف کی طرف ہی ہو گا۔

اسی طرح اگر بد گمانی ہو تو بد گمانی ہی کی طرف جائے گا، فلاں کے بارے میں بد گمانی فلاں کے بارے میں بدگمانی اس کے بارے میں مسلسل جائے گا اس سے رکے گا نہیں۔ یوں سمجھ لیں اس کا خیال دوسری طرف تبدیل نہیں ہوگا۔ وہ بس اس particular direction میں جائے گا اِلَؐا یہ کہ آپ خود اس کو کنٹرول کرلیں۔ تو حدیث نفس کسی خاص بات کی طرف ہوتی ہے۔ یہ ایک نفسانی خواہش کی بنیاد پر ہوتا ہے اور مستقل جاری رہتا ہے جب تک کہ آپ اس کو کنٹرول نہ کریں۔

اور جو ذہنی خیال ہے تو بعض دفعہ کوئی علمی اشکال ہوتا ہے، اس کی طرف ذہن چلا جاتا ہے یا ویسے انسان کو نئی research کررہا ہوتا ہے، جیسے میں نے ایک دفعہ کسی بزرگ سے کہا کہ جو سوال مجھ سے حل نہ ہوسکے تو نماز میں شاید حل ہوجائے، انہوں نے فرمایا: اس کا مطلب ہے کہ شیطان آپ کا mathematician ہے۔

تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ چکر بھی چلتے ہیں تو اسمیں یہ ہے کہ عموماً انسان کا ذہن جن چیزوں میں نماز سے پہلے Involve ہو تو وہ خیالات آنے لگتے ہیں، اس وجہ سے ذہنی خیالات انسان کے اپنے عمل سے وجود میں آتے ہیں۔ جیسے میں نے گانوں کا ذکر کیا، یہ بھی ذہنی خیال ہی ہے۔ البتہ اس میں شیطان یاد دلاتا ہے،پھر انسان کے اپنے خیالات ہوتے ہیں چلتے رہتے ہیں، trigger دبا دیتا ہے اور انسانی خیالات چلتے رہتے ہیں، تو یہ تینوں مختلف قسم کی چیزیں ہیں۔

سوال نمبر 07:

اکثر دوران نماز خیالات آتے ہیں، جونہی نماز ختم ہوجاتی ہے تو ان خیالات کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟

جواب نمبر 07:

اصل میں نماز کے دوران شیطان پوری طرح فعال ہوتا ہے۔ نماز کو خراب کرنے والے خصوصی شیاطین ہوتے ہیں۔ انسان کے ذہن کے اندر جو چیزیں dump ہوچکی ہوتی ہیں تو وہ dump کے منہ کھولتے ہیں، اب اس میں سے جو بھی باہر آجائے تو آدمی وہ سوچنا شروع کر لیتا ہے،مطلب یہ نہیں کہ کوئی خاص خیال آئے مطلب ماضی کی کوئی بات ذہن میں آجائے گی یہ نہیں که وہ عالم الغیب ہیں تو نماز کے اندر اس لیے آتے ہیں کہ شیطان نماز کے اندر ہی instructed ہے کہ اس کو لائے۔

ایک دفعہ ایسا ہوا کہ میں حرم شریف میں بیٹھا تھا تو ایک صاحب نماز پڑھ رہے تھے، نماز میں پہلے انہوں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے دستار کو ٹھیک کرلیا، ہمارے ہاں تو دونوں ہاتھوں سے عمل، عمل کثیر ہے، بعض کے ہاں نہیں ہے۔ تو اس نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے دستار کو ٹھیک کرلیا، پھر کبھی اپنے کپڑوں کو ٹھیک کر رہا ہے۔ کبھی خارش کررہا ہے کبھی کیا کررہا ہے حتیٰ کہ جیب میں بھی ہاتھ ڈال دیا اور جیب سے ویسے ہاتھ نکال لیا کوئی ضرورت بھی نہیں تھی۔ مطلب یہ کہ وہ دوران نماز انہیں چیزوں میں لگا رہا اور میں بڑی حیرت سے اس کو دیکھ رہا تھا کہ یہ کر کیا رہا ہے۔ہمارے وہاں کے ایک ساتھی ہیں حاجی عبدالمنان صاحب، ہمارے پیر بھائی بھی ہیں تو وہ مجھے دیکھنے لگے کہ میں بڑے غور سے اس آدمی کی طرف دیکھ رہا ہوں تو مجھ سے پوچھا کہ آپ کو اس پر حیرت ہو رہی ہے، میں نے کہا حیرت نہ ہو تو کیا ہو، انہوں نے فرمایا کہ ابھی نہیں بلکہ اس کے بعد آپ کو اور حیرت ہوگی، میں نے کہا یا اللہ خیر ابھی ڈانس شروع کرے گا پتا نہیں کیا شروع کرنے والا ہے۔ کیونکہ جو کچھ وہ کررہا ہے اس کے بعد یہی کیا کرے گا، بہرحال میں دیکھ رہا تھا تھوڑی دیر کے بعد جب اس نے نماز ختم کی تو بڑے آرام سے بیٹھ گیا، نہ خارش ہے نہ کپڑے ٹھیک کررہا ہے نہ دستار ٹھیک کررہا ہے بالکل آرام سے بیٹھا ہے۔ حاجی صاحب نے فرمایا یہ ہے حیرت کی بات۔ اس کو ساری خارش، سارے کام صرف نماز میں ہی یاد آرہے ہیں نماز کےبعد کچھ بھی نہیں۔ تو میرے خیال میں یہ اس کا زیادہ عملی مظاہرہ تھا۔ ہاں سب کے ساتھ خیالات کے درجے میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ اِلَؐا کہ آدمی خود نماز کی طرف concentrate نہ کرے، اپنے خیالات کو کنٹرول نہ کرے اور ان چیزوں کو نہ روکے۔

سوال نمبر08:

ہم سنتے تھے کہ پہلے زمانے میں اگر کوئی چیز گم ہوجاتی اور یاد نہیں آتی تھی تو کہتے تھے کہ آپ دو رکعت نفل پڑھ لیں یاد آجائے گی۔ اس کی کیا حقیقت ہے؟

جواب نمبر 08:

یہ اصل میں امام ابو حنیفہؒ کا مشہور واقعہ ہے کہ ان کے پاس کوئی آدمی آیا اور اس نے یہی بات کی کہ میری کوئی چیز گم ہوگئی ہے اور مل نہیں رہی۔ تو حضرت نے فرمایا کہ نماز پڑھو یاد آجائے گی۔ جب اس نے نماز شروع کی تو اس کو ابتداء ہی میں یاد آ گیا کہ میں نے وہ چیز فلاں جگہ رکھی ہے۔ تو اس نے نماز مکمل کرنے کے بعد وہ چیز اس جگہ سے لے لی اور اس کے بعد سو گئے۔ صبح وہ حضرت کے پاس گئے اور کہا کہ حضرت آپ نے بالکل صحیح نسخہ بتایا تھا، میں نے جیسے ہی نماز شروع کی مجھے یاد آ گیا۔ حضرت نے پوچھا پھر آپ نے کیا کیا؟ اس نے کہا کہ پھر میں سو گیا۔ فرمایا کاش آپ شکریہ کے طور پر مزید نفلیں پڑھتے۔ پھر فرمایا کہ مجھے پہلے سے پتا تھا کہ شیطان نے آپ کو بھلایا ہوا ہے۔ جیسے ہی آپ نماز شروع کریں گے تو شیطان آپ کو چھوڑے گا نہیں کہ آپ نماز پڑھ لیں وہ جلد ہی آپ کو یاد دلا دے گا۔ بہت سارے لوگوں کا یہ تجربہ ہے کہ جب ان کو نیند نہیں آتی وہ درود شریف پڑھنا شروع کردیتے ہیں اور ابھی انہوں نے سو دفعہ مکمل نہیں کیا ہوتا کہ ان کو نیند آ جاتی ہے۔ تو یہ گویا شیطان کو تڑی لگانے والی بات ہے کہ اچھا تم مجھے چھیڑ رہے ہو تو میں بھی تمہیں چھیڑ تا ہوں۔ تو بس شیطان پھر گھبرا جاتا ہے کہتا ہے کہ اگر یہ ساری رات درود شریف پڑھتا رہا تو میرا تو کباڑا ہوجائے گا۔ لہذا وہ نیند طاری کردیتا ہے۔

سوال نمبر 09:

کیا شیطان اس چیز پر قدرت رکھتا ہے کہ ہمیں سلا سکے یا اس طرح کرسکے۔

جواب نمبر 09:

کمال کی بات ہے۔ ایک آدمی آپ کو بار بار چھیڑ رہا ہے، اور اس کی وجہ سے آپ کو نیند نہیں آ رہی تو جب وہ چھیڑنا بند کردے گا تو آپ کو نیند آجائے گی، شیطان یہی تو کرتا ہے۔ وہ آپ کو سونے نہیں دے رہا۔ جب وہ آپ کو سونے نہیں دے گا اور پھر چھوڑ دے گا تو آپ سو جائیں گے۔

سوال نمبر 10:

ایک شخص نے نماز شروع کی، اس میں خیالات اور وسوسوں کا شکار رہا۔ آخر سلام کے وقت احساس ہوا کہ نماز ختم ہو گئی۔ کیا ایسی نماز کا کوئی فائدہ ہے یا اس کا ثواب ملے گا۔

جواب نمبر 10:

اصل میں اللہ پاک کی طرف سے چیزیں آتی ہیں میں تو اس پر قادر نہیں ہوں حضرت گنگوہیؒ اپنی آخری عمر میں نابینا ہوچکے تھے، تو حضرت مولانا یحییٰ صاحبؒ جو حضرت مولانا ذکریا صاحبؒ کے والد تھے اور مولانا الیاس صاحبؒ جو ان کے بھائی تھے، یہ ان سے ملنے کے لیے آئے۔ دروازہ کھٹکھٹایا تو حضرت باہر تشریف لائے لیکن ابھی دروازے میں ہی تھے پوچھا کون؟ انہوں نے جواب دیا یحییٰ اور الیاس۔ حضرت نے فرمایا سن لو! اگر کوئی غفلت کے ساتھ بھی ذکر کررہا ہو پھر بھی اس کا فائدہ ہے۔ مقصد یہ ہے کہ پورا فائدہ تو نہیں ہوگا لیکن کچھ تو ہوگا۔ یعنی جتنی غفلت ہوگی اتنا فائدہ نہیں ہوگا لیکن زیرو پر نہیں آئے گا۔ اور جو ذکر نہیں کررہا وہ تو زیرو پر ہے۔ اس سے پتا چلا کہ ایک انسان جس کو بالکل خیال نہیں ہے، تسبیح اس کے ہاتھ میں ہے اور اللہ اللہ کررہا ہے۔ لوگ کہتے ہیں یہ کیا ہے یہ باتیں بھی کررہا ہے اور تسبیح بھی گھما رہا ہے۔ تو میں کہتا ہوں کہ تم سے تو اچھا ہے، تم تو بالکل نہیں کر رہے۔ اس کو کبھی کبھی جو یہ توفیق ہورہی ہے تو اس کا فائدہ ہے، اس کے اکاؤنٹ میں تو یہ چیز جارہی ہے۔ اللہ پاک نے فرمایا کہ ﴿وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي﴾ نماز قائم کرو میری یاد کے لیے۔ یعنی ذکر کے لیے۔ تو اب بے شک غفلت والا ذکر ہی کیوں نہ ہو لیکن ہے تو صحیح۔ ہو تو رہا ہے، لہذا فائدہ تو ہوگا، البتہ پورا فائدہ نہیں ہوگا۔ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نماز پڑھتا ہے تو اس کو پورا حصہ ملتا ہے کسی کو آدھا ملتا ہے، کسی کو دسواں حصہ ملتا ہے، کسی کو بیسواں ملتا ہے اور کسی کو بالکل بھی نہیں ملتا، ظاہر ہے کوئی ایسی حالت بھی ہوسکتی ہے۔ تو اس کا مطلب ہے کہ درمیان میں درجات ہیں، اب بجائے اس کے کہ نماز ہی کو چھوڑ دیا جائے، نماز کو بہتر بنایا جائے اور اس کے لیے کوشش کی جائے۔ اس کے لیے طریقے موجود ہیں وہ سیکھے جائیں۔ امید ہے انشاء اللہ العزیز نماز بہتر ہوجائے گی۔

سوال نمبر 11:

بچوں کو شرارت پر شیطان کہنا کیسا ہے؟

جواب نمبر 11:

اگر یہ محض کہنا ہے، اس کو شیطان سمجھا نہیں جا رہا تو پھر تو ظاہر ہے ایک لغو بات ہے۔ لیکن اگر اس کو شیطان سمجھا جارہا ہے تو پھر گناہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بچے تو معصوم ہوتے ہیں، ان کو تو گناہگار بھی نہیں کہہ سکتے تو شیطان کیسے کہہ سکتے ہیں۔ لہذا ان کو شیطان عقلًا نہیں کہہ سکتے ہاں یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ شیطان کی طرح حرکتیں کرتا ہے۔ جیسے حدیث شریف ہے﴿مَنْ تَرَکَ صَلَاتَهُ مُتَعَمِّداً فقد کفر﴾جس نے نماز کو قصداً چھوڑ دیا تو اس نے کفر کیا۔ اس کا ترجمہ یہ نہیں کیا کہ وہ کافر ہے۔ بلکہ اس کا ترجمہ ہے کہ اس نے کافروں جیسی حرکت کی، یعنی نماز کو تو کافر ہی نہیں پڑھتا تو اس نے کافروں جیسی حرکت کی۔ لیکن اس کو کافر نہیں کہیں گے کیونکہ ہمارے ہاں کبائر کا مرتکب گناہگار ہوتا ہے، وہ کافر نہیں ہوتا۔ اس طرح بچہ اگر کوئی حرکت کرتا ہے تو ایسے کرتا ہے جیسے شیطان کرتا ہے، تو اگر اس معنی میں وہ اس کو کہتا ہے تو وہ ایک لغو بات ہے لیکن اگر وہ اس کو شیطان سمجھ رہا ہے تو پھر گناہ کی بات ہے۔ کیونکہ وہ معصوم ہے معصوم کے ساتھ اللہ کاحساب نہیں تو ہم کیسے حساب کر سکتے ہیں۔

سوال نمبر 12:

practically اللہ تعالیٰ کے لیے بغض کیسے کیا جاسکتا ہے۔ دفتروں میں غلط قسم کے لوگ ہوتے ہیں، غلط عقائد رکھتے ہیں تو ان کے ساتھ کیسے اللہ کےلیے بغض رکھا جاسکتا ہے۔

جواب نمبر 12

﴿اَلْحُبُّ فِی اللہِ وَالْبُغْضُ فِی اللہِیعنی اللہ کے لیے محبت اور اللہ کے لیے بغض اس پر ایک شعر سن لیں۔ شعر ہے مولانا محمد علی جوہرؒ کا۔ فرماتے ہیں

ہوجائے اگر ساری خدائی بھی مخالف

کافی ہے اگر ایک خدا میرے لیے ہے

تو حید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے

یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لیے ہے

ایک شخص غلط کام کررہاہے اور آدمی اس کو غلط نہیں سمجھ رہا اس چیز کو غلط سمجھ رہا ہے اور اس کے بارے میں فکرمند ہے اگر وہ مسلمان ہے، تو یہ ٹھیک ہے۔ اس کا بغض ایسی حالت میں ہو گا کہ اس کو اس برائی سے بغض ہے۔ اور کافروں کے ساتھ بغض اس طریقے سے ہوگا کہ جو کافر مسلمانوں کے خلاف سازشیں کررہے ہیں، مسلمانوں کو ختم کررہے ہیں تو ان کے ساتھ بغض اس لیے ہوگا۔ اعمال کا بغض تھوڑا مشکل کام ہے۔ اس میں انسان اس گناہگار کو برا نہ سمجھے گناہ کو برا سمجھے یعنی بیمار کو برا نہ سمجھے بیماری کو برا سمجھے اور اس کے لیے فکر کرے، اس کے لیے دعاگو ہو کہ اللہ تعالیٰ اس سے یہ گناہ کی بیماری دور کرلے اوراس کو صحت دے۔

سوال نمبر 13:

تو کیا اس کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے۔

جواب نمبر 13:

حسن سلوک intelligently۔ اس سے مراد یہ ہے کہ کوئی ایسا کام نہ کیا جائے جس سے شہ پا کر وہ مزید خراب ہوجائے۔ یعنی اس کو encourage بھی نہ کیا جائے اور اس طرح discourage بھی نہ کیا جائے کہ آپ کی طرف آئے ہی نہ۔ اس سے اس طریقے پر رکھنا ہے جس سے اس کو فائدہ ہو۔ لیکن اگر آپ کو خطرہ ہو کہ میں اس کو ٹھیک نہیں کرسکتا بلکہ یہ مجھے خراب کر دے گا تو پھر اپنے آپ کو بچانا لازمی ہے۔ کیونکہ ’’جَلبِ مَنفَعَت‘‘ سے ’’دَفعِ مَضَرَؐت‘‘ اہم ہے۔ یہ فقہ کا اصول ہے۔ اپنے آپ کو بچانا لازم ہے بمقابلہ دوسروں کو بچانے سے۔ حضرت تھانویؒ نے اس کے لیے اصول بنایا ہے کہ دوسروں کے جوتوں کی حفاظت کے لیے اپنی گٹھڑی کو گم نہ کریں۔ ایسا نہ ہو کہ تم دوسروں کو ٹھیک کرتے کرتے خود خراب ہو جاؤ۔

سوال نمبر 14:

کیا اس ضمن میں کافروں سے جو دوستی ہے، دلی دوستی ہوسکتی ہے۔

جواب نمبر 14:

کبھی بھی نہیں ہوسکتی۔ اس کے بارے میں تو آیت کریمہ بھی ہے۔ ان سے قلبی دوستی نہیں ہوسکتی۔ مدارات ہوسکتی ہے۔

مجھے حضرت مولانا اشرف صاحبؒ نے یہ فرمایا تھا کہ ان لوگوں کے ساتھ مدارات ہوسکتی ہیں۔ مدارات دو وجوہات سے ہوتی ہیں، ان کی اصلاح کے لیے اور اپنے آپ کو ان کے شر سے بچانے کے لیے۔ مدارات کی گنجائش ہے لیکن ان سے دوستی کی گنجائش نہیں ہے جو ان سے دوستی رکھتا ہے یہ انتہائی درجے کی حماقت ہے۔ یہ اپنے دل کو تباہ کردے گا۔

حضرت مجدد الف ثانیؒ کا واقعہ ہے۔ نقشبندی حضرات کے ہاں توجہات کی لائن ہوتی ہے، تو موت کے وقت جب نزع کا عالم ہوتا ہے، اس سے تھوڑی دیر پہلے یہ توجہ کے ذریعے قلب کی جتنی بھی maximum اصلاح ہوسکتی ہے کرتے ہیں۔ کیونکہ اس وقت تلقین کی صورت تو بنتی نہیں، اس وقت یہی طریقہ ہوتا ہے کہ توجہ سے اس کا رخ بدلا جائے، یعنی بشاشت ہوجائے، اللہ جل شانہ کے ساتھ محبت کا پہلو غالب آئے تو اس سے موت اچھی ہوجاتی ہے۔ تو یہ حضرات ایسی کوشش کرتے ہیں، تو حضرت مجدد الف ثانیؒ کا ایک ایسے شخص پر گزر ہوا جو اس حالت سے دوچار تھا۔ حضرت نے کوشش کی کہ اس پر توجہ ڈالیں۔ لیکن اس شخص پر بالکل اثر نہیں ہورہا تھا، بالکل ٹس سے مس نہیں ہو رہا تھا اس کا دل۔ حضرت بہت فکر مند ہو گئے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ یا اللہ یہ کیا مسئلہ ہے کیوں اس پر اثر نہیں ہورہا۔ فرماتے ہیں کہ حضرت کو الہام ہوگیا کہ اس کی کافروں کے ساتھ دوستی تھی اور تمہاری توجہ اس کا دل نہیں بدل نہیں سکتی اب جہنم کی آگ اس کو ٹھیک کرے گی۔ تو کافروں سے دوستی اتنی خطرناک چیز ہے۔

سوال نمبر 15:

کیا دوستی کا مطلب دل سے چاہنا ہے اس کو۔

جواب نمبر 15:

انسان کافر کو کیسے دل سے چاہ سکتا ہے؟ دل سے ان کی اصلاح چاہ سکتے ہیں۔ کافر کو تو نہیں چاہ سکتے آپ، یہ توممکن نہیں۔ اس کی اصلاح کے لیے کوشش کرسکتا ہے۔ اسی کے لیے قران کی آیت کا مفہوم ہے کہ لوگوں کی سرگوشی میں ضروری نہیں کہ خیر ہو لیکن جو خیر کے لیے سرگوشیاں کی جاتی ہیں لوگوں کے اصلاح کے لیے، اس میں خیر ہوتی ہے۔

سوال نمبر 16:

میں نے کہیں پڑھا ہے کہ شعائراللہ میں وہ تمام چیزیں شامل ہیں جنہیں دیکھ کر اللہ یاد آئے۔ کیا تمام ولی اللہ بھی اس تعریف میں شامل ہیں؟

جواب نمبر 16:

اصل میں شعائراللہ ان چیزوں کو کہتے ہیں جن سے اللہ جل شانہ کی کسی عظمت کا اظہار ہوتا ہے۔ مثلاً نماز سے اللہ تعالیٰ کی عظمت کا اظہار ہوتا ہے۔ خانہ کعبہ سے اللہ تعالیٰ کی عظمت کا اظہار ہوتا ہے۔ آپ ﷺ اور قران پاک سے اللہ پاک کی عظمت کا اظہار ہوتا ہے۔ اس طرح مسواک کے بارے میں بھی یہی بتایا گیا ہے۔ صفا مروہ کے بارے میں بھی ہے تو جن سے اللہ تعالیٰ کی عظمت کا اظہار ہوتا ہے وہ شعائر اللہ ہیں، اللہ کی نشانیاں ہیں۔ تو چونکہ ان سے اللہ کی عظمت کا اظہار ہوتا ہے لہذا ان کی تعظیم کرنا دل کے تقویٰ کی وجہ سے ہے۔﴿وَمَنْ يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوبِ﴾۔ تو اولیاء اللہ کے ساتھ جب اللہ یاد آئے تو اللہ تعالیٰ کی عظمت کا اظہار ہوجاتا ہے تو وہ بھی ان میں شامل ہیں۔ اور یہ بات تو صحیح ہے جو لوگ اولیاء اللہ کی تعظیم کرتے ہیں، ان کو نوازا جاتا ہے اور جو ان کو ایذاء پہنچاتا ہے، اس کے ساتھ اللہ جل شانہ کا اعلان جنگ ہے۔

سوال نمبر 17:

جو لوگ غلط فہمی میں ان کی مخالفت کرتے ہیں ان کے لیے کیا حکم ہے۔

جواب نمبر 17:

اصل میں یہ اللہ کو پتا ہے کہ وہ کس وجہ سے غلط فہمی میں مبتلا ہے۔ اگر وہ قابل معافی ہو تو اللہ پاک اس کو معاف کردیں گے، لیکن risk تو بہت بڑا ہے، کیونکہ حکم تو عام نظر آتا ہے، جو اولیا کو ایذا دیتے ہیں، مطلب حکم میں تو تمام چیزیں الا والی نہیں دی گئیں تو حکم چونکہ عام ہے اس وجہ سے ڈرنے والی بات ہے۔ لیکن ہم چونکہ تفصیلات جانتے نہیں تو اگر ایسی کوئی حالت ہو جس میں گنجائش ہو تو ٹھیک ہے ہم نے ان کے لیے نیک گمان رکھنا ہے، لیکن خود اپنے لیے بدگمانی کرنی چاہیے کہ میں تو نہیں کروں گا گویا انسان کو اس معاملے میں نرم نہیں پڑنا چاہیے بلکہ جس شدت سے یہ حدیث شریف میں بتایا گیا ہے اس شدت کو محسوس کرنا چاہیے، کم از کم اپنی حد تک۔

سوال نمبر 18:

اگر نماز کے اندر خیالات آرہے ہوں، تو کیا ان سے دھیان بھٹکانے کے لیے سر کو جھٹکا جا سکتا ہے؟

جواب نمبر 18:

میں مفتی نہیں ہوں اس لیے میں فتویٰ تو نہیں دے سکتا، لیکن ایک چیز سے استدلال کرتا ہوں اگر وہ صحیح ہو کہ نماز میں چہرہ پھیرنا مفسد صلاۃ نہیں۔ مکروہ ہی ہے اس لیے اگر سر جھٹک لیا تو نماز فاسد نہیں ہو گی البتہ جھٹکانا نہیں چاہیے دل سے جھٹکنا چاہیے لیکن اگر جھٹک دیا تو نماز فاسد نہیں ہو گی۔

سوال نمبر 19:

ایک شخص شیخ کی نمائشی خدمت کرتا ہے جبکہ دوسرا مخفی طور پر کرتا ہے جس کا شیخ کو ظاہراً معلوم نہ ہو، کیا شیخ کو اس کی اطلاع ہوتی ہے یا پہلے شخص کی ترقی رک سکتی ہے یا دوسرے کی ترقی ہوسکتی ہے؟

جواب نمبر 19:

شیخ کا معاملہ کچھ ایسا ہے کہ اس کے ساتھ تعلق اخلاص پیدا کرنے کے لیے ہے، کیونکہ اخلاص مطلوب ہوتا ہے اور شیخ سے تعلق اس لیے رکھا جاتا ہے کہ اخلاص پیدا ہوجائے۔ اب اس اخلاص کو پیدا کرنے کا جو عمل ہے وہ تو کم از کم اخلاص سے ہونا چاہیے تاکہ مزید اخلاص کھینچا جائے، اگر اسی میں نمائش ہو تو وہ تو خطرے کی بات ہے۔ لیکن اگر وہ اپنے آپ کو معذور اس انداز میں سمجھتے ہیں کہ ابھی میری اصلاح نہیں ہوئی تو چلو میں نمائشی خدمت کرتا ہوں یہ ٹھیک ہو جائے گا وقت کے ساتھ، تو پھر اس کی گنجائش ہے۔ اگر وہ سمجھتا ہے کہ میں نمائشی خدمت کررہا ہوں اور اس کو وہ صحیح سمجھتا ہے اور اچھا سمجھتا ہے تو پھر تو اس کو اپنے آپ کو روکنا چاہیے، کیونکہ کم از کم شیخ کی خدمت تو اخلاص کے ساتھ اللہ کی رضا کے لیے ہونی چاہیے اس میں کوئی اور مقصد شامل نہ ہو، مخفی طور سے جو کرتا ہے میرے خیال میں اس کو اتنا زیادہ مخفی بھی نہیں کرنا چاہیے کہ اس میں بزرگ بننے کی کوشش کرے۔ بس نارمل رہے نہ زیادہ مخفی نہ نمائشی کرے، natural انداز میں کرے۔ کیونکہ مخفی میں دو غلطیاں ہوسکتی ہیں، ایک تو آدمی عجب میں مبتلا ہوتا ہے کہ دیکھو میں اس انداز میں خدمت کرتا ہوں کہ شیخ کو پتا ہی نہیں چل رہا اور میں اس کی خدمت کررہا ہوں تو اس میں عجب کا پہلو آ سکتا ہے اور دوسری بات یہ کہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ اگر کسی کے ساتھ محبت ہو تو اس کو بتا بھی دیا جائے کہ مجھے تم سے محبت ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس کے اوپر ظاہر کردے اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ تو اللہ کے لیے ہے۔ تو وہ اس کو ظاہر کردے اس کا دل بھی خوش ہوجائے گا تو حدیث شریف سے اس کی تائید ہوجاتی ہے کہ اس کو ظاہر کرنا چاہیے لیکن ایسا بھی نہ ہو کہ وہ نمائشی ہوجائے، ہو اخلاص کے ساتھ اور اس کو سنت سمجھتے ہوئے آپ ﷺ کے حکم پر عمل کرنے کے لیے اس کو ظاہر بھی کردے، باقی ترقی کی بات کیا ہے وہ تو حدیث شریف میں آتا ہے کہ﴿إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ﴾ تمام اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ اگر کوئی یہ نیت رکھتا ہے کہ اللہ کے لیے اور اللہ کے رسول کے لیے ہجرت کررہا ہے تو پھر اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہے اور اگر کسی عورت کے ساتھ شادی کےلیے کررہا ہے تو پھر اس کی ہجرت اس کےلیے ہے۔ تو معاملہ چونکہ اللہ کے ساتھ ہے لہذا اس معاملے میں انسان کو اپنے آپ کو جلد سے جلد ٹھیک کر لینا چاہیے۔

سوال نمبر 20:

مومن نہ دھوکہ دیتا ہے نہ دھوکہ کھاتا ہے۔ اس کا کیا مطلب ہے؟

جواب نمبر 20:

اس کا مقصد یہ ہے کہ اتنا عقل سے کام لینا چاہیے کہ کسی سے دھوکہ نہ کھا سکے اور اتنا اخلاص ہونا چاہیے کہ دھوکہ دے نہ سکے۔ یعنی دینداری ایسی غالب ہونی چاہیے کہ وہ دھوکہ نہ دے اور اتنی عقلمندی ہو کہ اس کو کوئی دھوکہ دے نہ سکے۔

سوال نمبر 21:

یہ اکثر سننے میں آتا ہے کہ بزرگوں کی روح نماز میں عرش پر چلی جاتی ہے یا ایسا کچھ ہوتا ہے تو اس کے بارے میں کچھ فرمائیں۔

جواب نمبر 21:

﴿قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّی﴾یہ تو بہت آسان بات ہے کہ اللہ جل شانہ نے کہہ دیا کہ کہہ دو یہ میرے رب کا امر ہے۔ تو روح کی باتیں تو اللہ ہی سمجھائے، کیونکہ یہ زیادہ تر وجدانی ہوتی ہیں، لہذا اگر وجدان خود مل جائے تو پھر تو ٹھیک ہے ورنہ یہ الفاظ میں بیان نہیں ہوسکتے۔ میں ان چیزوں سے تھوڑا ہٹ کے رہتا ہوں ہوں کیونکہ اس میں خطرات ہیں۔ بعض لوگ اس میں اپنے آپ کو بہت زیادہ involve کرلیتے ہیں۔ تو ایسی ظنی چیزوں میں اپنے آپ کو involve کرنے سے نقصان ہوتا ہے۔

حضرت امام غزالیؒ نے لکھا ہے کہ بعض دفعہ ظنی چیزوں پر اپنے آپ کو منحصر کرنے سے ایمان آخر میں سلب ہوسکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے جو اپنے ذہن میں خاکہ بنایا ہوتا ہے تو وہ ضروری سمجھتا ہے کہ ایسا ہی ہے اور موت کے وقت پتا چل جاتا ہے کہ ایسا نہیں ہے تو پھر اس کو شیطان شک میں ڈال دیتا ہے کہ یہ تو پھر ساری چیزیں غلط ہیں تو بس کام خراب ہو جاتا ہے۔ لہذا اس میں کچی باتیں نہیں کرنی چاہئیں۔بعض بیچارےکشفیات میں ایسے آگے چلے جاتے ہیں کہ ان کی ہر چیز میں کشف کی بات ہوتی ہے۔ یہ کشف قبور ہے اور فلاں کا یہ دائرہ ہے اور فلاں کا وہ دائرہ ہے۔ اس کو اس دائرے میں پہنچا دیا اور اس کو ا س دائرے میں پہنچا دیا۔ ان کا پورا گورکھ دھندہ ہی یہی ہوتا ہے۔ مجھے کسی نے ان کا ایک رسالہ دے دیا وہ میں نے پڑھ کر واپس کیا اور ان کو کہا کہ میں اتنے دائروں میں اپنے آپ کو قید نہیں کرسکتا یہ لے لو۔ ہم تو وہی قران و سنت والی بات کریں گے وہی سیدھی بات ہے اس سے زیادہ ہم اپنے آپ کو پریشان نہیں کرنا چاہتے۔ حضرت تھانویؒ نے فرمایا ہمارے ہاں تو سیدھی سادھی ملائیت ہے۔ اور اسی میں اللہ تعالیٰ کسی کو اتنا نواز دیتے ہیں کہ نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی دل پر گزرا ہے اور نہ کسی کان نے سنا ہے۔ دل سے شریعت پر عمل، یہ طریقت ہے۔ تو ہمارے ہاں سیدھی سادھی یہی بات ہے، باریکیات میں ہم نہیں جاتے۔

میں نے ایک دفعہ خواب دیکھا کہ مولانا اشرف صاحبؒ کا اسلامیہ کالج والا گھر ہے۔ اس کے آگے جو بڑا چمن ہے وہاں پرایک ٹیوب ہے سائیکل کی، اس میں ایک پنکچر ہے، اس میں پریشر سے پانی آ رہا ہے، اس سے پانی کی ایک دھار نکل رہی ہے اور میں اس پر وضو کررہا ہوں، پانی کافی ہے دھار کی صورت میں وضو کر لیتا ہوں۔ جب پیر دھونے کا وقت آتا ہے تو میں دیکھتا ہوں کہ میرے قریب ہی نہر بہہ رہی ہے۔ میں کہتا ہوں کمال ہے نہر قریب ہے اور تم دھار پر وضو کررہے ہو، تو میں نے اپنے پیر اس نہر میں دھو لیے۔ میں نے اس خواب دیکھنے سے پہلے حضرت کو خط لکھا تھا جس میں میں نے اپنی کچھ کیفیات بیان کی تھیں۔ تو حضرت نے اس کا جواب دیا وہ یوں سمجھ لیں کہ وہ اس خواب کی تعبیر تھی۔ حالانکہ میں نے حضرت سے اس خواب کا ذکر نہیں کیا تھا لیکن اس خط میں لکھا تھا، سیدھی سادھی شریعت پر عمل کرلو، باریکات میں نہ پڑو۔ بس کسی مفتی سے فتویٰ معلوم کرکے اس پر عمل کرو۔ تو یہ اس خواب کی تعبیر بھی تھی۔ کہ باریکات میں نہ پڑھو جو پانی بہہ رہا ہے اس سے آرام سے وضو کرلو۔کوئی پرواہ نہیں۔

سوال نمبر 22:

بد گمانی عام طور پر کس کو کہتے ہیں۔ ہم کسی کے بارے میں سوچیں گے تو اس سے بچیں گے؟

جواب نمبر 22:

اصل میں بدگمانی اور اپنے آپ کو بچانا یہ دو مختلف چیزیں ہیں اگر ایک انسان اپنے آپ کو بچاتا ہے تو بچانا تو انسان اس سے بھی کرسکتا ہے کہ صرف خیال ہو، خطرہ ہو، ایسے بھی بچا سکتا ہے۔ اس پر یقینی حکم لگانا تو ضروری نہیں ہے۔ مثلاً مجھے پتا نہیں کہ یہ راستہ کہاں جاتا ہے، لیکن میرا خیال ہے کہ یہ رنڈیوں کے محلہ کی طرف جاتا ہے تو یہ صرف میرا خیال ہے لیکن اس وجہ سے میں بچ جاؤں تو یقین تو میرا نہیں تھا کہ رنڈیوں کا محلہ ہوگا، لیکن اس سے بچنے کے لیے اگر میں نے کرلیا تو اچھا کیا یا نہیں؟ تو اس طریقے سے اگر کسی کے بارے میں آپ کو خطرہ ہو کہ اس میں یہ ہوسکتا ہے تو میں کیوں اپنے آپ کو خطرے میں ڈال دوں؟ تو آدمی ایسے بچ سکتا ہے، اس کے بارے میں حتمی رائے قائم کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ بدگمانی میں انسان کی رائے حتمی ہوتی ہے، انسان اس میں سمجھتا ہے کہ وہ ایسا ہے، چونکہ اس کے بارے میں ہم لوگوں کو یقینی علم نہیں ہوتا، اللہ کو پتا ہوتا ہے تو اس وجہ سے اپنے ظن کو آگے نہیں بڑھانا چاہیے۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔