اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
سوال نمبر1:
گھر کے علاوہ کسی اور جگہ جانے سے اکثر معمولات چھوٹ جاتے ہیں، ان میں استقامت کیسے لائی جائے؟
جواب:
کسی کام کے ہو سکنے یا نہ ہو سکنے کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کی ترجیحات کیا ہیں۔ انسان ہمیشہ اپنے کام ترجیحات کی بنیاد پر کرتا یا چھوڑتا ہے۔ اس کے نزدیک جس چیز کو زیادہ ترجیح ہوتی ہے اسے اول درجہ میں رکھتا ہے۔ اگر ہماری ترجیح ہمارے معمولات نہیں ہوں گے تو ان میں سستی ہونا لازمی ہے۔
اپنے گھر کے علاوہ دوسری جگہوں پہ جانے سے معمولات میں حرج ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہاں ماحول الگ ہوتا ہے، اپنے کنٹرول میں کچھ نہیں ہوتا، اس لئے دوسری جگہوں پر جاتے وقت اپنی طرف سے تیاری اور استقامت زیادہ ہونی چاہیے۔ یوں سمجھ لیا جائے کہ دوسری جگہوں پہ روحانی گند زیادہ ہوتا ہے اس لئے وہاں جاتے ہوئے صفائی کا انتظام بھی زیادہ ہونا چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ جتنا صفائی کا انتظام پہلے تھا وہ بھی ختم کر دیا جائے، بلکہ ایسے وقت میں زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔ انسان اس طرف متوجہ رہے کہ میں نے اپنے معمولات پورے کرنے ہیں۔ جہاں جائے وہاں دوسرے لوگوں کو بھی بتا دے کہ میں نے اپنے معمولات ہر صورت پورے کرنے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر مرحلہ پر یہ سوچ سامنے رکھی جائے کہ ہمارا اصل فائدہ کس چیز میں ہے۔ اگر انسان کو اس بات کا علم ہو کہ میرا اصل فائدہ کس چیز میں ہے تو اس کے لئے انسان بڑی سے بڑی قربانی بھی دے سکتا ہے۔
حضرت حافظ ضامن شہید رحمۃ اللہ علیہ بڑے بزرگ گزرے ہیں اور حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے بڑے خلفاء میں سے تھے۔ ایک مرتبہ وہ اپنے شیخ کے ساتھ ایک علاقہ میں گئے، اتفاق سے وہیں حافظ ضامن صاحب کے بیٹے کا سسرال بھی تھا۔ ہندوستان میں رکھ رکھاؤ کا خیال ذرا زیادہ رکھا جاتا ہے۔ لوگوں نے کہا حافظ صاحب آپ یوں اتنی تواضع سے نہ رہا کریں، اکثر آپ نے سامان وغیرہ خود اٹھایا ہوا ہوتا ہے، کپڑے اور برتن وغیرہ خود دھو رہے ہوتے ہیں، ایسا مت کیا کریں یہاں آپ کے بیٹے کا سسرال ہے کچھ خیال کریں وہ لوگ کیا سوچیں گے۔ حافظ ضامن شہید رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ میرے بیٹے کے سسرال کی ایسی کی تیسی، میں اپنے آپ کو بچاؤں گا یا ان کا خیال رکھوں گا۔
دیکھیں ان کے نزدیک اپنا کام خود کرنا اور اپنے شیخ کی خدمت کرنا، اس بات کی زیادہ ترجیح تھی تو انہوں نے بتا دیا کہ میں وہی کروں گا جو میری ترجیح ہے اور اس سلسلے میں کسی کی پروا نہیں کروں گا۔
آپ بھی اپنے معمولات کو اپنی اول ترجیح بنا لیں اور جس جگہ جانا ہو وہاں اس بات کو واضح کر دیا کریں کہ سب سے پہلے نمبر پر میں اپنے معمولات کو وقت دوں گا اس کے بعد باقی کام ہوں گے۔
سوال نمبر2:
میرا دن کا زیادہ تر وقت دفتر میں گزرتا ہے۔ وہاں لوگوں سے معاملات کرتے ہوئے خانقاہ اور شیخ سے تعلق اور اصلاح نفس میں نقصان ہوتا ہے۔ اس کا کیا حل ہے؟ میں خانقاہ اور شیخ سے تعلق کو ہر جگہ یاد رکھنا چاہتا ہوں، کیا دفتر میں اپنے معمولات کر لیا کروں تو اس سے کچھ مدد مل سکتی ہے؟
جواب:
ہر جگہ ایک جیسا استحضار قائم نہیں رکھا جا سکتا۔ استحضار کی مختلف قسمیں ہیں۔ خانقاہ میں ایک طرح کا استحضار ہوتا ہے، گھر میں دوسری طرح کا استحضار ہوتا ہے جبکہ بازار، دفتر یا کسی اور جگہ پر جو استحضار ہوتا ہے اس کی نوعیت الگ ہوتی ہے۔
دفتر میں بھی معمولات کیے جا سکتے ہیں بشرطیکہ دفتر کی طرف سے سونپی گئی ذمہ داریوں میں کوئی حرج نہ ہو۔ کیونکہ آپ دفتر سے تنخواہ لیتے ہیں اس تنخواہ کے بدلے جو کام آپ کے ذمے لگائے گئے ہیں انہیں پورا کرنا ضروری ہے۔ لہٰذا اگر معمولات کرنے سے دفتر کے کام کا حرج ہوتا ہے تو پھر دفتر میں معمولات کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ہاں اگر کسی کا ایسا کام ہو جس میں صرف اس کی موجودگی ضروری ہو، اس کے علاوہ کوئی اور کام ذمے نہ لگایا گیا ہو۔ بعض لوگوں کا کام بس یہی ہوتا ہے کہ کچھ فائلز پہ دستخط کر لئے، دو تین ملاقاتیں کر لیں، اس کے بعد باقی وقت فارغ ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں معمولات کئے جا سکتے ہیں۔
دفتر میں خانقاہ سے تعلق کا استحضار قائم رکھنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آدمی یہ سوچے کہ میں اپنے دفتر میں کوئی ایسا کام نہ کروں جس سے خانقاہ بد نام ہو اور خانقاہ کی طرف انگلی اٹھے۔ یہ طریقہ اپنایا جا سکتا ہے اس طریقے سے خانقاہ کے تعلق کا استحضار رہے گا۔
سوال نمبر3:
ماتحتوں سے کام لیتے وقت ان کی رپورٹس پر اعتماد یا ان پر شک، ان سے نرمی یا سختی اختیار کرنے میں متردد رہتا ہوں۔ اس بارے میں رہنمائی فرمائیے کہ کیسے اس تردد کو ختم کیا جائے۔
جواب:
اس کے جواب میں پہلے اپنا ایک واقعہ سناتا ہوں جس سے اندازہ ہو جائے گا کہ اس سلسلہ میں فیصلہ کیسے لیا جائے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب مجھے Faculty member بنایا گیا تھا۔ Faculty member ہونا ایک بڑی ذمہ داری ہوتی ہے۔ پڑھانا ایک الگ کام ہے لیکن اس میں امتحان لینا ہوتا ہے، اس لحاظ سے یہ بڑی ذمہ داری کا کام ہے۔ اب اگر میں اپنے آپ کو ایک متوسط درجہ کا طالب مان لوں اور یہ سوچوں کہ میرا امتحانات میں نمبر لینے کا تناسب 70 فیصد تھا اس لئے اب میں اسی کو کسوٹی مان کے چلتا ہوں اور امتحانات میں جس کی کار کردگی 70 فیصد ہو گی اسے بہتر طالب علم سمجھوں گا اور طلباء کو نمبر دینے اور پاس یا فیل کرنے میں اتنی ہی سختی برتوں جتنی 70 فیصدی کار کردگی والے طلبا کے لئے ٹھیک ہے۔ تو کیا میری یہ سوچ درست ہو گی؟ ظاہر ہے یہ انتہائی غلط سوچ ہو گی اور اس سے بہت نقصان ہو جائے گا۔ کیونکہ اگر میں 70 فیصدی تھا تو جو میرے حساب سے 70 فیصدی کار کردگی کا حامل طالب علم ہو گا در حققیت وہ 70 فیصد نہیں 49 فیصد ہو گا اور اس کا 70 فیصد آ جائے تو وہ 35 فیصد ہو گا۔ اس طرح یہ سلسلہ مسلسل خرابی کی طرف بڑھتا جائے گا۔
جب میں Faculty member بنا تو میں نے یہ سوچا کہ بے شک میں 70 فیصد کار کردگی والا طالب ہوتا تھا لیکن یہاں جس معیار پہ امتحان لوں گا وہ 100 فیصد کار کردگی کے حساب سے طے کیا جائے گا۔
جب آپ کسی پوسٹ پر ہوں تو آپ کو کام یہ دیکھ کر نہیں کرنا کہ آپ خود کیسے ہیں بلکہ یہ دیکھ کر کرنا ہے کہ دفتر والوں کو کیسا کام چاہیے۔ آپ کا اپنا معیار چاہے 100 فیصد ہے یا 30 فیصد، آپ اس کو مت دیکھیں بلکہ دفتر کی طرف سے طے شدہ معیار مد نظر رکھیں اپنے ماتحتوں سے اسی معیار پہ کام لیں۔
آپ کو جو اپنے ماتحتوں پر اعتماد و بے اعتمادی اور سختی و نرمی میں تردد ہوتا ہے اس کا حل یہ ہے کہ آپ Office requirements کو مد نظر رکھ کر فیصلہ کیا کریں۔ دفتر کے اصول و ضوابط کو سامنے رکھا کریں جس کی رپورٹ ان اصول و ضوابط کے مطابق درست ہو اس پر اعتماد کریں اور جس کی رپورٹ ان ضوابط کے مطابق صحیح نہ ہو اس کی پکڑ کریں۔ اصول و ضوابط کی پابندی کروانے کے لئے جو سختی ہوتی ہے وہ در اصل سختی نہیں بلکہ مینجمنٹ ہوتی ہے۔
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اکثر ارشاد فرماتے تھے کہ مجھے لوگ سخت کہتے ہیں حالانکہ میں سخت نہیں ہوں، میرے قوانین اور اصول و ضوابط نرم ہیں مگر میں ان پر سختی سے عمل کرواتا ہوں۔
ٹریفک کے قوانین اس لئے بنائے جاتے ہیں کہ حادثات نہ ہوں، یہ قوانین آسان ہوتے ہیں لیکن اگر ان پر عمل سختی سے کروایا جائے کہ کوئی ان کی خلاف ورزی نہ کر سکے تو ان قوانین کا پورا فائدہ حاصل ہو گا۔
شاہ عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ بہت بڑے ولی اللہ تھے۔ بعض بزرگوں میں تشریعی و تکوینی امور دونوں جمع کر دیئے جاتے ہیں، انہیں دونوں طرح کے علوم حاصل ہوتے ہیں، شاہ عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ بھی ایسے ہی بزرگوں میں سے تھے۔ ایک مرتبہ ان سے کسی نے پوچھا کہ حضرت آج کل ہر چیز میں خرابی ہے کوئی کام ٹھیک نہیں ہو رہا، اس کی کیا وجہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج کل اس علاقے کا صاحبِ تکوین کچھ ایسا ہی ہے۔ اس آدمی نے پوچھا وہ کیسے؟ فرمایا: فلاں مسجد کے سامنے ایک آدمی خربوزے بیچتا ہے وہ اس علاقہ کا صاحبِ تکوین ہے، جاؤ ذرا اس کو دیکھو کہ وہ کیسا ہے۔
وہ آدمی وہاں گیا تو دیکھا واقعی ایک آدمی وہاں خربوزے بیچ رہا ہے۔ اس نے ایک خربوزہ کٹوایا اور چکھ کے کہا یہ پھیکا ہے کوئی اور دکھاؤ، اس نے دوسرا کاٹا، اِس نے وہ بھی تھوڑا سا چکھ کے رکھ دیا کہ یہ بھی پھیکا ہے، مجھے یہ نہیں لینا کوئی اور دکھاؤ۔ اس طرح سارے خربوزے کٹوا کر چکھے اور ایک بھی نہ لیا۔ خربوزے والے نے اسے کچھ بھی نہ کہا۔ یہ وہاں سے چلا آیا۔
کچھ عرصے کے بعد حالات نسبتاً بہتر ہو گئے اور ساری چیزیں ٹھیک ٹھاک ہو گئیں۔ اس آدمی نے پھر شاہ صاحب سے پوچھا کہ حضرت آج کل بڑے اچھے حالات ہیں اس کی کیا وجہ ہو گی؟ فرمایا: آج کل صاحب تکوین ایسا ہی ہے۔ اس نے پوچھا کہ وہ کہاں ملے گا۔ فرمایا: فلاں جگہ پر شربت بیچ رہا ہو گا۔ وہ آدمی اس جگہ پہنچا اور شربت والے کو ڈھونڈھ لیا، اس کے پاس جا کر ایک گلاس شربت مانگا۔ اس نے کہا: تمہارے پاس دام ہیں؟ ایک ٹکے کا ایک گلاس ملے گا۔ اِس نے ایک ٹکا شربت والے کو دیا، شربت والے نے شربت کا گلاس بھر کے دیا۔ اِس نے تھوڑا سا پی کر رکھ دیا اور کہا کہ یہ پھیکا ہے دوسرا گلاس دو۔ اس نے کہا: دوسرا چاہیے تو پہلے پیسے دو۔ پہلے پیسے لئے پھر اسے دوسرا گلاس دیا اور کہا: شاید تم نے مجھے خربوزے والے کی طرح سمجھا ہو گا۔
لہٰذا ایسے معاملات میں خربوزے والا نہیں بننا چاہیے، شربت والا بننا چاہیے۔ اگر خربوزے والا بنیں گے تو لوگ نرمی کا غلط فائدہ اٹھائیں گے۔
سوال نمبر4:
تکوینی اور تشریعی امور کے بارے میں کچھ تفصیل بتا دیں۔
جواب:
تشریعی امور سے مراد قرآن و سنت کا علم ہے۔ علماء اس کی تعلیم دیتے ہیں اور مشائخ اس کے مطابق تربیت کرتے ہیں۔ ان میں جو سب سے بڑا شیخ ہوتا ہے اسے قطبِ ارشاد کہتے ہیں۔ تشریعی امور میں ہر سو سال بعد ایک مجدد آتا ہے۔
تکوینی امور کا پورا ایک نظام ہے اس میں مختلف عہدے ہوتے ہیں جو اللہ کی طرف سے منتخب بندوں کو دیئے جاتے ہیں اور ان کے ذمہ کچھ خاص ذمہ داریاں لگائی جاتی ہیں۔
تشریعی امور میں جو قطب ارشاد ہوتا ہے یا جو ولی اللہ ہوتے ہیں انہیں اپنے بارے میں پتا ہونا ضروری نہیں ہوتا کہ ہم ولی اللہ ہیں یا نہیں بلکہ بعض اوقات ممکن ہے کہ کوئی ولی اللہ اپنے آپ کو فاسق سمجھتا ہو۔ لیکن صاحبِ تکوین کو بخوبی پتا ہوتا ہے کہ میں کیا ہوں کیونکہ اس سے با قاعدہ کام لیا جاتا ہے۔ ان حضرات سے اس طرح کام لیا جاتا ہے جیسے فرشتوں سے کام لیا جاتا ہے۔ یہ ہوتے انسان ہی ہیں لیکن ان سے کام فرشتوں جیسے لئے جاتے ہیں۔
حضرت مولانا فقیر محمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا ایک واقعہ ہے۔ ایک مرتبہ حج کے موقع پر منیٰ میں آگ لگی اور بہت زیادہ پھیل گئی اس میں کئی حاجی شہید بھی ہوئے تھے۔ مولانا فقیر محمد صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ اس سال وہاں حج کر رہے تھے۔ جب آگ لگی تو حضرت مسلسل رو رو کے دعائیں کر رہے تھے کہ یا اللہ آگ بجھا دے یا اللہ اس سے حفاظت فرما دے۔ ایک مجذوب مسلسل مولانا فقیر محمد صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ سے کہہ رہا تھا کہ فقیر محمد چپ ہو جاؤ مجھے سب کچھ جلانے دو، مجھے اللہ کی طرف سے یہی حکم ہے۔ بعد میں اللہ پاک کا کرم ہوا اور فیصلہ ہو گیا کہ آگ کو ختم کر دیں۔ اس کے بعد حکم ہوا کہ آگ کا رخ پہاڑ کی طرف ہو جائے تو آگ پہاڑ کی طرف چلی گئی تھی۔ اب دیکھیں دونوں لوگ اپنی اپنی ڈیوٹی پوری کر رہے تھے۔ اس مجذوب کو تکوینی طور پر آگ پھیلانے کا حکم تھا وہ اپنا کام پورا کر رہا تھا، دوسری طرف مولانا فقیر محمد رحمۃ اللہ علیہ اپنی ڈیوٹی کر رہے تھے کہ خلق خدا کو آگ میں جلتے دیکھ کر دعا اور الحاح و زاری میں لگے ہوئے تھے۔ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ صاحب تکوین ایک کام کر رہا ہوتا ہے اور صاحب تشریع دوسرا کام کر رہا ہوتا ہے اور یہ دونوں کام ایک دوسرے کے الٹ ہوتے ہیں۔ اس کی مثال حضرت ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ ہے۔ اللہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو تو حکم دیا کہ بیٹے کو ذبح کرو اور اس کے لئے چھری چلاؤ جبکہ چھری کو حکم دیا گیا کہ تو نے حضرت اسماعیل کے گلے پر نہیں چلنا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جو حکم دیا گیا وہ تشریعی امر تھا اور چھری کو جو حکم دیا گیا وہ تکوینی امر تھا۔ ایسی صورتوں میں ظاہری فیصلہ وہی ہوتا ہے جو تکوینی طور پر طے کر دیا گیا ہوتا ہے لیکن انسانوں کو وہی کام کرنا ہوتا ہے جس کا انہیں تشریعی طور پر حکم دیا گیا ہوتا ہے۔ تکوین والا کام بھی پورا ہوتا ہے اور تشریع والا کام بھی پورا ہوتا ہے۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے گلے پہ چھری نہ چل سکی، لیکن اللہ نے جو بیٹا قربان کرنے کا حکم دیا تھا وہ بھی پورا ہوا کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام ذبح تو نہیں ہوئے لیکن ایسے سمجھا گیا کہ جیسے ان کے ذبح کا حکم پورا ہو چکا ہے اور قربانی کا نظام چل پڑا کیونکہ شریعت میں ارادہ پہ فیصلہ ہو جاتا ہے۔ اس موضوع پر اتنی ہی تفصیل کافی ہے۔
سوال نمبر5:
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے مواعظ میں لکھا ہے کہ اپنے شیخ کے ساتھ زیادہ ملنا بھی نقصان کا باعث ہو سکتا ہے۔ بعض اوقات شیخ کی کچھ خامیاں انسان کو نظر آ جاتی ہیں جن کے ذریعہ شیطان کے ہاتھ مرید کو بھٹکانے کا موقعہ لگ جاتا ہے۔ بزرگوں کے بعض واقعات ایسے ملتے ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ انہوں نے اپنے بعض مریدوں کو اپنے پاس زیادہ آنے سے منع کیا ہے جبکہ بعض واقعات سے اس کے بر عکس یہ معلوم ہوتا ہے کہ مشائخ نے اپنے مریدوں پر اپنی صحبت لازم قرار دی۔ اس بارے میں رہنمائی فرما دیں کہ مرید کو شیخ سے ملنے جلنے میں کیا طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔
جواب:
گاڑی کے بہترین طور پر چلنے کے لئے بریک بھی ضروری ہے اور ایکسلریٹر بھی ضروری ہے۔ گاڑی کے ڈرائیور کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ بریک کب لگانی ہے اور ایکسلیریٹر کب دبانا ہے، یہ ہر ڈرائیور کے لئے ضروری ہے ورنہ اس کا لائسنس ضبط کر لینا چاہیے۔ شیخ کی مثال ایک ماہر ڈرائیور کی سی ہوتی ہے، اسے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ کس مرید کو زیادہ ملنے سے فائدہ ہو گا اور کسی مرید کو کم ملنے سے فائدہ ہو گا اور وہ اپنے مریدوں کو ان کے فائدہ کی خاطر ہی کم یا زیادہ ملنے کی ہدایت دیتا ہے۔ اس لئے جو اوقات شیخ نے افادہ و استفادہ کے لئے مقرر کئے ہوں ان سے بھر پور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ مثلاً ہماری سوال و جواب کی مجلس ہے، مختلف کتب کے دروس ہیں، ان کے علاوہ ہمارے اجتماعات اور جوڑ ہوتے ہیں، ایسے مواقع سے بھر پور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ان کے علاوہ باقی اوقات میں شیخ کو تنگ نہیں کرنا چاہیے۔ کچھ اوقات شیخ کی ذاتی ضروریات کے ہوتے ہیں، مثلاً عشاء کے بعد وہ جانا چاہتے ہیں اور آپ کہتے ہیں جی میری ایک بات سن لیں۔ پورے دن چار پانچ مرتبہ مجلس منعقد ہوئی تب آپ نے نہیں پوچھا اور جس وقت وہ جا رہے ہیں تب آپ نے پوچھنا شروع کر دیا۔ اس قسم کی حرکات سے منع کیا گیا ہے۔ شیخ بھی آخر انسان ہے، اس نے گھر میں بھی کچھ وقت دینا ہے، کچھ اور ضروری کام بھی ہو سکتے ہیں۔ اگر کوئی آدمی شیخ کے مقرر کردہ اوقات کے علاوہ یہ توقع کرے گا کہ میری بات سن لیں اور شیخ سے بات چیت کرنے لگ جائے گا تو اس سے شیخ کے دل میں تکدر آ سکتا ہے جس کی وجہ سے مرید کا نقصان ہو جاتا ہے۔
خیابان میں ہماری خانقاہ ایسی جگہ پہ تھی کہ وہاں جانے کے لئے ہمیں ایک سڑک سے گزرنا پڑتا تھا۔ اس سڑک پر بہت رش ہوتا تھا۔ تب میں نے یہ پابندی لگائی تھی کہ کوئی مجھ سے راستے میں سوال نہ کرے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ میری عادت ہے کہ اگر کوئی مجھ سے سوال کرے تو میں سو فیصد اس کی طرف متوجہ ہو جاتا ہوں، پھر میرا دوسری چیزوں کی طرف خیال نہیں رہتا۔ اس چیز کو مد نظر رکھتے ہوئے اس سڑک پر سوال کرنے میں حادثے کا خطرہ تھا۔ اس وجہ سے میں نے کہا کہ مجھ سے راستے میں کوئی سوال نہ کرے۔ پھر بھی کچھ لوگ اس بات پہ عمل نہیں کرتے تھے، جب کوئی راستہ میں سوال کرتا تو مجھے سخت تکلیف ہوتی تھی کہ خانقاہ میں بیٹھا ہوتا ہوں تب پوچھنے کی توفیق نہیں ہوتی اور سڑک پہ چلتے ہوئے سوال یاد آ جاتے ہیں۔
مرید کو شیخ کا مزاج شناس ہونا چاہیے۔ اس راستے میں کامیابی کا بڑا ذریعہ شیخ کے مزاج کو سمجھنا ہے کہ وہ کن چیزوں سے خوش ہوتا ہے اور کن چیزوں سے نا راض ہوتا ہے۔ جب آپ کو معلوم ہے کہ فلاں حرکت سے شیخ کی طبیعت پر ناگوار اثر پڑتا ہے تو آپ کو اس سے بچنا چاہیے اور اس کے لئے شیخ کے مزاج کو اچھی طرح جاننا اور سمجھنا چاہیے۔ اسی کو شیخ کی مزاج شناسی کہتے ہیں۔ مرید کو معلوم ہو کہ کن چیزوں سے شیخ خوش ہوتے ہیں اور کن چیزوں سے نا راض ہوتے ہیں۔ اگر کوئی مرید اس طرح کرے گا تو ان شاء اللہ بہت زیادہ فائدہ حاصل ہو گا۔
سوال نمبر6:
مزاج شناسی کے بارے میں کچھ وضاحت فرما دیں کہ شیخ کی مزاج شناسی میں کیا کیا چیزیں شامل ہیں؟
جواب:
کم سے کم درجہ کی مزاج شناسی یہ ہے کہ شیخ نے جن چیزوں سے روکا ہے ان سے رک جائے اور اعلیٰ درجہ کی مزاج شناسی یہ ہے کہ دوسرے مریدوں کے تجربے سے فائدہ اٹھائے کہ شیخ کس کس بات پہ نا راض ہوئے، کس کس بات پہ غصہ کیا، کس کس بات کی اصلاح کی۔ ان سب باتوں سے تجربہ حاصل کر کے ہر وہ کام کرے جس سے شیخ کی طبیعت پر خوشگوار اثر پڑے اور ہر اس کام سے بچے جس سے شیخ کو نا گواری ہوتی ہو۔
اس سلسلے میں اپنے ہی دو واقعات سناتا ہوں جن سے اس سوال کا جواب سمجھنے میں مدد ملے گی۔
ہمارے شیخ کافی نرم مزاج تھے، بہت سی چیزیں برداشت کرتے تھے لیکن ایک چیز پر انہوں نے مجھے ڈانٹا تھا۔ حضرت کے کمرے میں قالین بچھا ہوتا تھا، ایک مرتبہ میں باہر سے وضو کر کے آیا اور کمرے میں داخل ہوتے وقت جب اپنا پاؤں اندر رکھا تو پاؤں قالین پر پڑا۔ قالین کا کچھ حصہ دروازے کے پاس سے ذرا کھسکا ہوا تھا۔ حضرت دور سے دیکھ رہے تھے، انہیں یہ محسوس ہوا کہ میرا پاؤں قالین کی بجائے زمین پر ہے تو بہت سختی کے ساتھ مجھے کہا کہ یہ کیا کر دیا؟ میں نے کہا: حضرت کیا ہوا۔ حضرت نے فرمایا کہ آپ نے زمین پر گیلا پیر کیوں رکھا۔
یہاں تو اس بات کو کوئی بڑا مسئلہ نہیں سمجھا جاتا۔ پاکی نا پاکی کے مسائل کے بارے میں یہاں کافی وسعت ہے۔ لوگ جوتے باہر لاؤنج میں اتار دیتے ہیں اور باورچی خانہ میں یا بیت الخلا میں وضو کر لیتے ہیں پھر آ کر وہی بوٹ پہن لیتے ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں علماء کرام ایسا نہیں کرتے۔ وہ پاکی نا پاکی کے مسائل کا بہت زیادہ خیال رکھتے ہیں۔ مولانا صاحب بھی پاکی نا پاکی کے مسائل کا بہت زیادہ خیال رکھتے تھے۔ انہیں یہ خدشہ ہوا کہ کہیں زمین نا پاک ہو اور اس پر پاؤں پڑنے سے پاؤں بھی نا پاک نہ ہو گیا ہو۔ اب اگر وہی پاؤں قالین پہ رکھیں گے اور اتنا بڑا قالین نا پاک ہو گیا تو اس کو کون دھوئے گا۔ میں نے عرض کیا کہ حضرت میں نے پیر قالین پر رکھا تھا۔ فرمایا کہ اچھا پھر ٹھیک ہے۔
اب اس واقعہ سے مجھے پتا چل گیا کہ حضرت اس معاملے میں بڑے حساس اور محتاط ہیں۔ پتا چلنے کے بعد بھی اگر میں ایسی غلطی کروں جس کا تعلق پاکی نا پاکی کے مسائل سے ہو اور حضرت کی طبیعت پر برا اثر پڑے تو یہ میری بڑی حماقت ہو گی۔ مجھے تو احتیاط رکھنی ہی چاہیے لیکن اگر کسی اور کو اس بات کا پتا چلے تو اسے بھی چاہیے کہ وہ میرے تجربے سے فائدہ اٹھا کر محتاط رہے۔ ہر چیز سیکھنے کے لئے اپنا تجربہ کرنا ضروری نہیں ہے دوسروں کے تجربات سے بھی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔
دوسرا واقعہ یہ ہے کہ ایک دفعہ کسی نے احتراماً میرا جوتا پکڑا اور کہیں رکھ دیا، نماز پڑھنے کے بعد فوراً وہ چلا گیا، مجھے بتایا بھی نہیں کہ میرا جوتا کہاں رکھا ہے اور اس کے ساتھ ہی بجلی بھی چلی گئی، اب میں اپنے جوتے کہاں تلاش کرتا پھروں، جوتے تو مل گئے مگر کافی تکلیف اٹھانی پڑی۔ اس لئے کہتے ہیں کہ اگر خدمت کرنی ہے تو صحیح طریقے سے کرو، سیکھ کر کرو ایسا نہ ہو کہ خدمت کرتے کرتے شیخ کی تکلیف کا باعث بن جاؤ۔
اس قسم کے کئی واقعات ہوتے ہیں جن کے ذریعہ مرید شیخ کے مزاج کو سمجھ سکتا ہے۔ مرید کو خیال رکھنا چاہیے کہ ہمارے شیخ کی طبیعت کیسی ہے، وہ کن چیزوں کو زیادہ اہم سمجھتے ہیں، کن چیزوں کے بارے میں ذرا نرمی برتتے ہیں۔ ان چیزوں کا پتا چل جائے تو کافی فائدہ ہو جاتا ہے۔
اس کا کوئی لگا بندھا اصول اس لئے نہیں ہے کہ ہر شیخ کا مزاج الگ ہوتا ہے لہٰذا اس بارے میں کوئی قاعدہ کلیہ نہیں ہے اور نہ ہی بنایا جا سکتا ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ معاملات کے بارے میں بہت زیادہ حساس اور محتاط رویہ رکھتے تھے جبکہ عبادات کے معاملے میں ذرا نرمی برتتے تھے اس لئے حضرت کے جو مرید ان کے مزاج شناس تھے وہ بھی معاملات کے بہت پکے ہوتے تھے۔
بہر حال شیخ کی مزاج شناسی یہی ہے کہ مرید اس بات کو سمجھے کہ شیخ کن باتوں پہ سخت رویہ رکھتے ہیں اور کن باتوں میں نرم رویہ رکھتے ہیں، پھر اس کا خیال رکھے۔
سوال نمبر7:
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک ملفوظ ہے کہ شیخ کو صاحبِ تمکین ہونا چاہیے نہ کہ صاحبِ تلوین۔ سوال یہ ہے کہ کسی بھی آدمی کو شیخ بنایا ہی تب جاتا ہے جب وہ صاحب تمکین ہو جائے، جب تک وہ حالت تلوین میں ہے اسے شیخ کیسے بنایا جا سکتا ہے؟
جواب:
شیخ بنانے کے لئے بہت ساری چیزوں کو دیکھا جاتا ہے۔
بعض اوقات کسی سالک کا معاملہ ایسا ہوتا ہے کہ اس کا سلوک تقریباً مکمل ہو چکا ہوتا ہے اور اس سے لوگ اپنی اصلاح کے لئے استفادہ کر سکتے ہیں۔ ایسی صورت میں بعض بزرگ اسے اس شرط کے ساتھ اجازت دے دیتے ہیں کہ جو تھوڑی بہت کمی کوتاہی رہ گئی ہے وہ پوری کر لے۔
اس ملفوظ میں شیخ کے صاحبِ تمکین ہونے سے مراد یہ ہے کہ اس کے مزاج میں ٹھہراؤ آ چکا ہو۔ پل میں تولہ پل میں ماشہ والی طبیعت کا مالک نہ ہو۔ اس کا مزاج ہر دوسرے دن تبدیل نہ ہو جاتا ہو۔ جس کا سلوک مکمل ہو چکا ہو اور اس کے مزاج میں ایسا ٹھہراؤ آ چکا ہو تو اسی کو اس مفلوظ میں صاحب تمکین کہا گیا ہے اور ایسے آدمی کو شیخ بنایا جا سکتا ہے۔
سوال نمبر8:
کیا قطب اور ابدال میں عہدے کے لحاظ سے فرق ہوتا ہے؟
جواب:
یہ اصحاب تکوین کی مختلف قسمیں ہیں جیسے ڈپٹی کمشنر، اسسٹنٹ کمشنر، کمشنر اور گورنر وغیرہ مختلف عہدے ہوتے ہیں ایسے ہی اصحابِ تکوین کے بھی مختلف عہدے ہوتے ہیں۔ ان تفصیلات میں نہیں پڑنا چاہیے۔ حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ سے ایک مرتبہ پوچھا گیا کہ حلیمی صاحب نے اس بارے میں کچھ تفصیلات بتائی ہیں۔ حضرت نے فرمایا کہ بات تو ایسے ہی ہے مگر عام لوگوں کے سامنے یہ باتیں نہیں کرنی چاہئیں۔ ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ ایسی باتیں عام مجالس میں کرنے کی نہیں ہوتیں کیونکہ سب لوگ ان باتوں کو نہیں سمجھ سکتے۔
سوال نمبر9:
اکثر بیان سننے کے بعد شوق پیدا ہو جاتا ہے اور ارادہ کرتے ہیں کہ ہر ہفتے میں ایک نئی سنت پہ عمل کریں اور ایک نئی دعا یاد کر لیں لیکن اس میں تسلسل قائم نہیں رہ پاتا۔ بظاہر یہ بات جتنی عام اور آسان لگتی ہے اتنی آسانی سے ہو نہیں پاتی۔ اس کا کیا حل کیا جائے؟
جواب:
ایک بہت بڑی حقیقت یاد رکھیں کہ شیطان موجود ہے۔ وہ آپ سے کوئی اچھا کام نہیں ہونے دے گا خواہ وہ کام آسان ہو یا مشکل ہو، بلکہ آسان کام کو بھی مشکل بنا کے دکھائے گا۔ سنتوں پر عمل اور دعاؤں کا یاد کرنا، اس کام کو اس معنی میں آسان نہ سمجھیں کہ یہ آپ کے بس میں ہے بلکہ یوں کہیں کہ اللہ کی توفیق سے یہ کام میرے لئے آسان ہو جائے گا۔ مستقل طور پہ اچھے کاموں کی توفیق کی دعا مانگتے رہیں کہ اے اللہ! میں نے سنتوں پر عمل کرنے اور دعائیں یاد کرنے کا ارادہ کیا ہے، مجھے اس کی توفیق نصیب فرما دے۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ جب کبھی کسی سنت پہ عمل ہو جائے گا تو اس پہ اترانے کی بجائے شکر کے جذبات پیدا ہوں گے کہ اے اللہ تیرا شکر ہے کہ تو نے شیطان کو مجھ پر حاوی نہیں ہونے دیا اور مجھے عمل کی توفیق نصیب ہوئی۔ سنت کے سارے کام آسان ہوتے ہیں لیکن ان پر عمل کرنا بہت مشکل ہوتا ہے کیونکہ نفس اور شیطان رکاوٹیں ڈال رہے ہوتے ہیں۔ جب آپ کسی ایک سنت پر مکمل عمل کرتے ہیں تو اس کی برکت سے مزید سنتوں پر عمل کی توفیق ہوتی ہے، مزید عمل کرتے ہیں تو اس توفیق میں بھی اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ لہٰذا اللہ پاک سے توفیق مانگیں اس کے ساتھ ساتھ ہمت اور مستقل مزاجی سے کام کرتے رہیں۔
سوال نمبر10:
حضرت جی بعض اوقات خشوع و خضوع کے ساتھ نماز پڑھ رہے ہوتے ہیں کہ دل میں وسوسہ آ جاتا ہے کہ کتنے خشوع و خضوع کے ساتھ نماز پڑھ رہا ہوں لوگ دیکھیں تو اس سے سیکھیں گے۔ اسی طرح بعض اوقات کوئی نیکی کرتے ہوئے خیال آ جاتا ہے کہ لوگ دیکھ رہے ہوں گے اور یہ بات دل کو اچھی لگتی ہے۔ کیا یہ ریا میں آتا ہے، اگر یہ ریا کاری میں آتا ہے تو اس سے کیسے بچا جائے۔
جواب:
جو خیال خود آئے وہ وسوسہ ہوتا ہے اور وسوسہ کی پروا نہیں کرنی چاہیے۔ ریا کاری کے بارے میں ایک اصولی بات سمجھ لیں کہ ریا کاری کا وسوسہ ریا کاری نہیں ہوتا۔ اگر آپ کو از خود دل میں ریا کاری کا وسوسہ آ جائے، یہ خیال آ جائے کہ لوگ میری عبادت یا میرا نیک کام دیکھیں گے، تو اس سے پریشان نہ ہوں اور بالکل پروا نہ کریں کیونکہ یہ ریا کاری نہیں بلکہ ریا کاری کا وسوسہ ہے۔ کیونکہ نیک کام کرتے وقت آپ کی نیت یہ نہیں تھی کہ لوگوں کو دکھانے کے لئے یہ نیک کام کر رہا ہوں۔ اس لئے اگر خود خیال آ جائے تو وہ ریا کاری نہیں ہے۔ ریا کاری تب بنتی ہے جب کوئی نیک کام با قاعدہ لوگوں کو دکھانے کی نیت سے ہی کیا جائے۔ آپ بس اپنی عبادت اور اپنا کام کرتے رہیں، خیالات اور وساوس کا کوئی گناہ نہیں ہوتا۔ وسوسہ کی مثال ایسی ہی ہوتی ہے جیسے کوئی آپ سے اتنی دور کھڑا آپ کو آوازیں دے رہا ہو جہاں آپ پہنچ نہ سکتے ہوں۔ آپ ایسے آدمی کو سوائے نظر انداز کرنے کے اور کچھ نہیں کر سکتے۔ لہٰذا آپ اس کی پرواہ ہی نہ کریں وہ چیخ رہا ہے تو چیخنے دیں، یوں سمجھیں کہ وہ اپنے آپ کو کہہ رہا ہے آپ کو کہہ ہی نہیں رہا۔ وسوسے کی مثال بھی ایسی ہی ہے۔ وسوسے کے ساتھ الجھنا نہیں چاہیے، یہی سب سے بڑی کامیابی ہے کہ آپ اس کے بارے میں یہ سوچیں کہ یہ میری چیز ہے ہی نہیں اس لئے مجھ سے اس کے بارے میں پوچھا بھی نہیں جائے گا تو میں کیوں اس کو اہمیت دوں۔
سوال نمبر11:
یورپ میں آج کل یہ رواج بہت چلا ہوا ہے کہ ارواح اور جسم مثالی سے متعلق صوفیا کے واقعات کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ ارواح اور جسم مثالی کے بارے میں کچھ تشریح فرما دیں۔
جواب:
اس قسم کے موضوعات کی گہرائی میں نہیں جانا چاہیے کیونکہ ان چیزوں کے بارے میں ہم سے نہیں پوچھا جائے گا۔ ہم سے شریعت پر عمل کے بارے میں پوچھا جائے گا لہٰذا ہمیں شریعت کی باتیں معلوم ہونی چاہئیں۔ صوفیاء کی باتیں جاننا اور سمجھنا ہر آدمی کے لئے ضروری نہیں ہے، لہٰذا ان کے درپے نہ ہوں اور شریعت کا علم حاصل کرنے کی فکر کریں۔
سوال نمبر12:
بعض اوقات عبادت کرتے وقت یا کوئی نیک کام کرتے وقت دل میں وسوسہ آ جاتا ہے کہ میں اللہ پاک کی عبادت کر رہا ہوں اس کے حکم کے مطابق زندگی گزار رہا ہوں تو مجھے اس کا کوئی صلہ ملنا چاہیے۔ کیا ایسا سوچنا درست ہے؟
جواب:
اگر آپ کسی انسان کے ساتھ نیکی کرتے ہیں اور اس کے بارے میں آپ کو خیال آتا ہے کہ یہ آدمی مجھے اس کا اچھا صلہ دے، تو اس سوچ میں تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن اللہ جل شانہٗ کے ساتھ اور قسم کا معاملہ ہے۔
ایک تو اللہ پاک کا ہمارے اوپر اتنا حق ہے کہ اگر ہم ہزار دفعہ اس کے لئے اپنی جان دے دیں پھر بھی اس کا حق ادا نہیں کر سکتے۔ ہمارا بڑے سے بڑا عمل بھی اللہ کے سامنے کچھ نہیں ہے۔ اللہ پاک سے اس معنی میں صلہ کی توقع رکھنا کہ یہ ہمارا حق ہے، درست نہیں ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اللہ جل شانہٗ ہم پر ہم سے زیادہ مہربان ہیں۔ جو ہم پر اتنا زیادہ مہربان ہو، اس کے بارے میں یہ بد گمانی کیسی کہ وہ نہیں دے گا۔ اس کے بارے میں تو یہ سوچنا چاہیے کہ وہ ضرور دے گا لیکن اپنی شان اور حکمت کے مطابق دے گا آپ کی مرضی کے مطابق نہیں۔ کیونکہ آپ اپنے حال کو زیادہ بہتر نہیں جانتے وہ آپ کو آپ سے زیادہ بہتر جانتا ہے اور آپ کی ہر ضرورت کو آپ سے بہتر جانتا ہے۔ لہذا آپ کے اعمال کا بہترین نتیجہ تب آئے گا جب آپ اپنا سب کچھ اسی کی منشا پہ چھوڑ دیں گے۔ فائدہ اسی میں ہے کہ سب کچھ اس کی رضا پہ چھوڑ دیا جائے۔ اللہ جل شانہٗ کے ساتھ حساب نہیں ہونا چاہیے ورنہ اگر اللہ نے حساب کر لیا تو تباہی آ جائے گی۔ دل سے عاشقانہ انداز میں کام کرنا چاہیے یہ سوچ کر کہ میں اس کا حق تو کبھی پورا کر ہی نہیں سکتا ہاں اپنی استطاعت کے مطابق کوشش کر سکتا ہوں اور وہ میں تا دم آخر کرتا رہوں گا۔ ؎
یقیں محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
اللہ تعالیٰ پر یقین محکم ہو، عمل مسلسل ہو اور محبت زیادہ ہو تو سب کام ہو جاتے ہیں۔
سوال نمبر13:
حضرت جی کسی آدمی کا یقین محکم ہو اور اللہ پر بھروسہ بھی ہو لیکن وہ اپنے دینی کام کرتے ہوئے لوگوں کی پروا کرتا ہو کہ لوگ کیا کہیں گے تو اس کا توڑ کیسے کرنا چاہیے؟
جواب:
اس کا توڑ یہی ہے کہ دنیا کی پروا نہ کرے۔ کیا دوسرے لوگ سب کام کرنے سے پہلے آپ کے بارے میں سوچتے ہیں جو آپ ان کے بارے میں سوچیں گے؟ بالخصوص اگر لوگوں کی پروا کرنا شریعت پر عمل کرنے میں رکاوٹ بن رہا ہو تو اس کی پروا بالکل نہیں کرنی چاہیے۔ ہمت اور مستقل مزاجی سے اپنا کام کریں، اپنی اصلاح کروائیں، معمولات کی پابندی کریں اور اللہ کے ذکر سے زبان تر اور دل روشن رکھیں۔
سوال نمبر14:
آپ نے کئی بیانات میں فرمایا ہے کہ ”مجذوب کو معذور سمجھا جائے اس کی اقتدا نہ کی جائے“۔ اس کی کچھ وضاحت فرما دیں۔
جواب:
مجذوب آدمی کی عقل بعض اوقات صحیح کام نہیں کر رہی ہوتی۔ ایسے مواقع میں مجذوب شرعی احکام کے لحاظ سے معذور کے حکم میں ہوتا ہے۔ فقہ کی اصطلاح میں معذور اسے کہتے ہیں جس پر کسی عذر کی وجہ سے شریعت کے احکام لاگو نہ ہو رہے ہوں۔ مثلًا بے ہوش آدمی پر بے ہوشی کی حالت میں نماز کا حکم لاگو نہیں ہوتا، پاگل آدمی پر شریعت کے احکام لاگو نہیں ہوتے۔ حائضہ اور نفاس والی عورت پر نماز کا حکم لاگو نہیں ہوتا۔
جب مجذوب کی عقل کام نہ کر رہی تو وہ شرعی احکام کے لحاظ سے معذور ہوتا ہے۔ اس لئے مجذوب کو معذور سمجھا جائے اس کی پیروی نہ کی جائے کیونکہ بسا اوقات اس کی عقل کام نہیں کرتی۔ اگر آپ اس بات کی تفصیل جاننا چاہیں تو ہماری کتابیں ”تصوف کا خلاصہ“ اور ”فہم التصوف“ کا مطالعہ کر لیں۔ ان کتابوں میں ان موضوعات پر تفصیل سے بات کی گئی ہے۔ ”تصوف کا خلاصہ“ تو الہامی کتاب ہے۔ اللہ پاک نے ایسی کتاب لکھوا دی ہے جس پر میرا وقت بھی بہت کم لگا ہے اور نتائج کے اعتبار سے سب سے زیادہ مفید بھی یہی کتاب واقع ہو ئی ہے۔
کلام
شکر کا مقام
ہم ہیں ایک پر فتن زمانے میں
کتنی مشکل ہے دین پہ آنے میں
کر دیا ہم کو اہل حق کے ساتھ
جو کہ مطلوب ہے اس کے پانے میں
تشریح:
ہمیں اس پہ اللہ کا بے حد شکر ادا کرنا چاہیے کہ اللہ پاک نے ہمیں اہل حق کے ساتھ کر دیا۔
قال اور حال
قال سے حال کا سفر کرنا
دل کو اللہ سے با خبر کرنا
نفس کو احکام کا پابند کر کے
اپنے اعمال کو بہتر کرنا
الہامِ رحمانی
جن کے دل اللہ کی جانب ہی مائل ہوتے ہیں
دور ہوں جب جو درمیاں میں حائل ہوتے ہیں
ان کے دل خود ہی پھر اللہ سے وصول کرتے ہیں
ایسے الہام جو ان کے دل پہ نازل ہوتے ہیں
تشریح:
جب نفس کی اصلاح ہو جاتی ہے تو حجابات دور ہو جاتے ہیں۔
ٹھیک
جو موافق ہوں شریعت کے وہ الہام ہیں ٹھیک
چاہے اخبار ہوں اشعار ہوں سب کام ہیں ٹھیک
ان سے قرآن و سنت کی مخالفت نہ ہو اور
جن کا الہام ہے گر ان کے صبح شام ہیں ٹھیک
تشریح:
یعنی الہام کے صحیح یا غلط ہونے کا معیار یہ ہے کہ (1) وہ الہام خلاف سنت نہ ہو۔ (2) جس کو الہام ہوا ہے اس کے اعمال شریعت کے مطابق ہوں۔
ذوق و شوق
ذوق و شوق دین نہیں دنیا ہے یہ
دین کا ہو تو پھر اچھا ہے یہ
ختم ہو گر تو یہ مقصود نہیں
کام جاری ہو ابتلا ہے یہ
تشریح:
یعنی پہلے ذوق و شوق تھا پھر چلا گیا تو کوئی پروا نہ کرو کام جاری رہنا چاہیے، آزمائشوں کی وجہ سے رکنا نہیں چاہیے۔
حسنِ ازل اور حسنِ عارضی
کرنی ہمت ہے جہاں تک بھی ہے انسان کا بس
حسن پرستی ہے جال یاد رکھ شیطان کا بس
اُس طرف خالقِ حسن و جمال کا دیدار
اِس طرف جلوہ فقط عارضی سامان کا بس
شہوات اور تقوی
ہیں یہ دنیا کی خواہشات خس و خاشاک کی طرح
حمامِ تقویٰ ہے روشن ان سے یہ سوچ ذرا
اندھا کہہ دے کہ میں بد نظری نہیں کرتا کبھی
کیا ہے بس ان سے ہی معلوم ہو کھوٹا اور کھرا
تشریح:
اللہ تعالیٰ نے جو خواہشات دی ہیں انہی سے تو معلوم ہوتا ہے کہ کون اللہ کے حکم پہ چلتا ہے اور کون خواہشات کو ترجیح دیتا ہے۔
شیخ کے ساتھ تعلق
اصلاح کے لئے شیخ کے پاس ہے جانا ضروری
اس واسطے ان سے ہے تربیت پانا ضروری
سستی نہ ہو، کرے جو کہے، پر نتیجے میں
تعجیل سے بھی خود کو ہے بچانا ضروری
تشریح:
مطلب یہ ہے کہ تربیت حاصل کرنا ضروری ہے۔ اس کام میں سستی اور غفلت بالکل نہ ہو اور شروع کرنے کے بعد تعجیل نہ کی جائے۔
غیر محرم کا ا ثر
جو کہیں ان پہ غیر محرم کا اثر نہیں تو وہ سمجھے ہی نہیں
دیکھنا ان کا جرم، جب دیکھا تو وہ دیکھنے سے تو بچے ہی نہیں
جو گناہ ہو اور گناہ نہ سمجھے کوئی اس کو بڑا گناہ ہے یہ
پیروی خواہش نفس کی ہے یہ تو وہ اس سے ابھی نکلے ہی نہیں
تشریح:
جو یہ سمجھے کہ مجھ پہ غیر محرم کا اثر نہیں ہوتا اس لئے میں غیر محرم کو دیکھوں تو کوئی مسئلہ نہیں ہے تو اسے سمجھنا چاہیے کہ بات صرف دیکھنے کی ہی نہیں ہے بات شریعت کے حکم کی بھی ہے، اثر ہو یا نہ ہو شریعت کا حکم ہر صورت میں یہ ہے کہ غیر محرم کو مت دیکھو۔ لہٰذا اگر کوئی یہ سوچ کر غیر محرم کو دیکھتا ہے کہ مجھ پہ تو کوئی اثر نہیں ہوتا تو وہ گناہ گار ہے اور خواہشاتِ نفس کے چنگل میں پھنسا ہوا ہے۔
اللہ پہ بھروسہ
کرتے ہیں جو ہر حال میں اللہ پہ بھروسہ
ان کا نہیں کم ہوتا کسی وقت بھی حوصلہ
جس کے ہم مکلف ہیں کئے جائیں ہم وہی
اور اس میں پھر اللہ کی مدد کا ہو آسرا
اللہ کی نظروں میں گرنا
جب کبھی دل میں یہ آئے کہ میں ہوں اچھا تو
کہے وہ خود کو کہ پہلے اگر تھے اب نہیں ہو
کیونکہ جس وقت کو ئی خود کو سمجھے اچھا اگر
تو اسی وقت گرا اللہ کی نظروں میں ہے وہ
عورتوں کی تعلیم
تعلیم عورتوں کی ضروری تو ہے مگر
تعلیم صرف وہی ہو اچھا جس کا ہو اثر
کیا وہ جو شریعت سے بھی آزاد کرے ہے
جانے وہ اپنے نفس کی ہر اک بات معتبر
تعلیم اور جہالت
تعلیم جو اللہ سے آزاد کرے ہے
اور آدمی کے دل کو وہ برباد کرے ہے
تعلیم جو ایسی ہو جہالت اس سے اچھی
شیطان کو جس میں کوئی استاد کرے ہے
صرف علم کافی نہیں
صرف علم ہی کافی نہیں ہمت بھی ضروری
اور اس پہ ہمیشہ استقامت بھی ضروری
تعلیم سے فائدے کا اگر حصول ہو مقصود
تو اس کے لئے پھر ہے تربیت بھی ضروری
تعلیم و تربیت کا لفظ ایک ہی تو تھا
اب ان میں تو فلحال کوئی ربط نہیں رہا
آج کل تو تعلیم کا ہر ایک کو تو ہے
پر فکر تربیت کی تو بالکل ہے عنقا
چار چیزوں پہ جنت
جو بھی سلام کو پھیلاتا ہے
اور کھانا بھی وہ کھلاتا ہے
صلہ رحمی کرے تہجد پڑھے
داخل جنت میں کیا جاتا ہے
مفاہیم کی درستگی
چاہیے ہے کہ مفاہیم ہوں درست
اور اس کے واسطے تعلیم ہو درست
دل میں تقویٰ کا نور آجائے
بلا شبہ پھر ہر اک سکیم ہو درست
بے لوث دوستی
غرض جن کو ہے ان کی دوستی دوستی غرض کی ہے
بھروسہ ان پہ کرنے میں تو پھر مشکل بہت ہی ہے
مگر بے لوث دوستی میں تو یوں خطرے نہیں ہوتے
یہ کیوں کرتے نہیں اس سے کہ جس کی ایسی دوستی ہے
تشریح:
اللہ کے ساتھ دوستی کیوں نہیں لگاتے جس کی دوستی حقیقی معنوں میں بے لوث دوستی ہے۔
ایک رباعی ہماری کتاب شاہراہ محبت کے بارے میں:
یہ شاہراہ ہے محبت کی نہیں ہے راستہ یہ عام
اور اس کے بعد آئے گا محبت کا اہم پیغام
پہنچائے ہمارا دل جو اہل دل ہیں ان کے ہاں
یہ دل والوں کا اک پیغام ان سارے دلوں کے نام
کیا مقصود ہے
اپنا مقصود بزرگی نہیں ہے
بڑا ہونا کامیابی نہیں ہے
صرف یہ ہو کہ ہم گناہ نہ کریں
کہ اجازت بالکل اس کی نہیں ہے
دل بنا ہو
ہو دل نہیں بنا کوئی سمجھے کتاب کیا
جب عقل نفس زدہ ہو ملے پھر جواب کیا
نفس مطمئن ہو قلب ہو سلیم فہم ہو رسا
پھر تجھ کو نتائج ملیں ان کے جناب کیا
مربی کا پکڑ کر ہاتھ چلیں
پھر اس کی مان کر اور آگے بڑھیں
محبت کا یہ راستہ طے ہے کرنا
نہ تھک جائیں کبھی پیچھے نہ رہیں
وہ بینا ہے بس اس کے پیچھے رہنا
سلیم ہوں اس کے رستے سے نہ ہٹیں
یہ نظر اسی میں پنہاں اس کو دیکھو
نظر سب سے ہٹا کر اس پہ رکھ کے
شبیرؔ جو شیخ کامل کی ہیں مانتے
فلاح اس کو ملے پھولے اور پھلے
اگر ہے فکر تجھ کو بھی دل بیمار کی صحت کی
ذکر کے وقت کر نیت اللہ کی محبت کی
خدا کے ڈر سے غیر محرم کو دیکھنے سے رک جاؤ
عبادت سے حلاوت محسوس ہو ایماں کی
یہ دنیا کی محبت جڑ خطاؤں کی ہے سن لینا
محبت رب کی البتہ ہے کنجی ہر سعادت کی
ہر ایک کا دل چراتا ہے جو ہے ماحول میں اس کا
ضرورت اس لئے ہے ہر وقت نیکوں کی صحبت کی
گلے سے تو لگا تکلیفیں دنیا کی جو آتی ہیں
مزے اگر چاہیے ہوں اس جہاں میں
اس جہاں میں تجھ کو جنت کی
جو رستہ مختصر شبیر ہدایت کی فلاح کا ہے
وہی تو ہے کہ جو راستہ ہے آقا کی سنت کی
علاج درد دل کے کیا ہو سکے
صرف نظر کرم اس کا ہو سکے
خوشی اس سے زیادہ مجھ کو ہو کیا
دل میرا اس پہ گر فدا ہو سکے
شیخ مرا مجھ کو ملائے اس سے ہی
کیسے دل کس طرح جدا ہو سکے
آنکھیں بند کر کے شیخ کے پیچھے چلوں
کاش اے بس میں وفا عطا ہو سکے
شیخ کے دل میں جب آتا ہوں شبیر
تاکہ میرا بھی کچھ بھلا ہو سکے
وَاٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبّ الْعٰلَمِیْن