سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 83

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی


خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی، پاکستان



اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ


سوال نمبر 1:

میرے ذہن میں یہ ہے کہ جو تصوف ہے یا جو سلوک ہے یہ شریعت سے ہٹ کر کوئی چیز ہے، اور شریعت سے متصادم چیز ہے، تو میں یہ چاہ رہا تھا کہ اس چیز کی ہلکی سی وضاحت اس اعتبار سے ہو جائے کہ اس کی کتنی اہمیت ہے اور کن کن حالات میں اس کی ضرورت ہے، جیسے آج کل کے حالات ہیں ان میں اپنے دین کی حفاظت کے لئے اس کی کتنی اہمیت ہے؟

جواب:

جزاکم اللہ! بہت اچھا سوال ہے، بلکہ سوال نہیں ہے یہ guideline ہے، اصل بات یہ ہے کہ شریعت کس کو کہتے ہیں؟ شریعت ہے آپﷺ کا دین پر چلنے کا طریقہ، یہ شریعت ہے اور طریقت اس کی تکمیل کا نام ہے، مطلب یہ ہے کہ اس کے اندر جان آ جائے۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ شریعت سے مراد وہ اعمال جو ہم کرتے ہیں، مثلاً نماز پڑھتے ہیں، روزہ رکھتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں، حج کرتے ہیں، یہ اعمال تو کرنے ہیں، ظاہر ہے شریعت سب پر لازم ہے، کیونکہ ہمارا طریقہ بھی آپ ﷺ کا بتایا ہوا طریقہ ہے اور آپﷺ کے پاس اللہ کی طرف سے آیا ہے، اور آپ ﷺ نے بھی خود نہیں بنایا بلکہ اللہ پاک کی طرف سے آیا ہوا ہے، تو اب یہ شریعت ہے، لیکن اس کے اندر جان آئے گی اس کیفیت کے ساتھ جو کیفیت احسان ہے ’’اَنْ تَعْبُدَ اللہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ فَاِنْ لَّمْ تَـکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہٗ یَرَاکَ‘‘ (بخاری شریف، حدیث نمبر: 50) تو یہ شریعت کی تکمیل کا نام ہے، یوں کہہ سکتے ہیں اس کے اندر خلوص پیدا کرنے کا، للہیت پیدا کرنے کا اور ہر کام خالصتاً اللہ کے لئے کرنے کا نام ہے، یہ اخلاص ہر چیز کے اندر لانا ہے، اب نماز اگر آپ بالکل اللہ کے لئے پڑھیں تو کیا یہ شریعت سے کوئی علیحدہ چیز ہے؟ یا زکوٰۃ بالکل اللہ کے لئے دیں اور اس میں نام و نمود بالکل نہ ہو تو کیا یہ شریعت سے کوئی علیحدہ چیز ہے؟ شریعت ہی کا تقاضا ہے، لیکن شریعت کے اس حصے کا تقاضا ہے جو باطن سے تعلق رکھتا ہے۔ جو ظاہر سے تعلق رکھتا ہے اس کو ہم ظاہری شریعت کہتے ہیں، اور جو باطن کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اس کو ہم تصوف کہتے ہیں یا اس کو ہم طریقت کہتے ہیں۔ تو ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ آج کل کے لحاظ سے اس کی بہت ضرورت ہے، اس کی وجہ میں اس طرح عرض کر سکتا ہوں کہ تبع تابعین کے دور میں تقریباً بارہ ہزار کے لگ بھگ خانقاہیں تھیں، با وجود اس کے کہ وہ خیر القرون کا زمانہ تھا۔

خانقاہ کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ خانقاہ کا مطلب یہ ہے کہ جہاں پر انسان اپنی اصلاح نفس کے لئے وقت لگا سکے، جہاں پر ماحول ایسا بنا ہو کہ انسان وہاں پر وقت گزار کر ماحول سے جو برے اثرات لئے ہوئے ہوتے ہیں ان کو ختم کر دے یعنی ان کے اوپر سے وہ برے ماحول کے اثرات ختم ہوں اور جو ذکر و اذکار کے اور صحبتِ صالحین کے اچھے اثرات ہوتے ہیں وہ لے سکیں، یہ خانقاہ کہلاتی ہے، اس وقت بھی خانقاہ یہی ہوتی تھی۔ اس وقت تو بارہ ہزار خانقاہیں تھیں، اب اگر صحیح خانقاہوں کو گن لیا جائے پوری دنیا میں بارہ ہزار نہیں ملیں گی، تو ایسی صورت میں برائی بڑھے گی یا کم ہو گی؟ دیکھیں جتنا گند زیادہ ہوتا ہے تو صابن، تولیے اور پانی کی ضرورت زیادہ ہو جاتی ہے، اب اگر گند زیادہ ہو گیا اور صابن، تولیہ اور پانی ناپید ہو جائے تو کیا ہو گا؟ وبائیں پھیلیں گی۔ آج کل وبائیں پھیل رہی ہیں یا نہیں پھیل رہیں؟ روحانی وبائیں تو پھیل رہی ہیں۔ آج کل یہ جو موبائل کا دور ہے، آج کل جو internet کے اوپر مسائل ہیں، آج کل جو television کے مسائل ہیں، آج کل جو بے راه روی کا دور ہے، آج کل جو مادیت کا طوفان آیا ہوا ہے، یہ ساری کی ساری چیزیں ہمیں کس طرف لے جا رہی ہیں؟ ہم سب کو اللہ تعالیٰ سے دور لے جا رہی ہیں۔ فرماتے ہیں دجال کے پاس ایسی چیزیں ہوں گی جو لوگوں کو اپنی طرف کھینچیں گی اور اس کے ماتھے کے اوپر کافر لکھا ہو گا، اس کافر لکھے ہونے کے با وجود لوگ اس کے پاس جائیں گے، اور وہ اس کے ہو کر رہ جائیں گے اور تباہ ہو جائیں گے، اب یہ کیا وجہ ہے انسان تصور کرے کہ جس کے ماتھے پر کافر لکھا ہے، اس کی طرف کوئی کیسے جائے گا! کتابوں میں لکھا تھا سمجھ نہیں آ رہا تھا، اب جو آج کل حالات آئے ہوئے ہیں کہ خود کہتے ہیں کہ یہ بری چیز ہے اور پھر اس کے اندر چلے جاتے ہیں، آج کل ہم دیکھ رہے ہیں، گویا کہ ان باتوں کی بالکل عملی صورت سامنے آ گئی تو اس وجہ سے آج کل اس سے بچنے کی زیادہ ضرورت ہے، کیونکہ دجال کے خروج کا وقت قریب آ رہا ہے، اللہ معاف کرے، اگر ہم نے اپنے اوپر محنت نہیں کی اور اصلاحِ نفس نہیں کی اور ہمارے نفس کی خواہشات اس طرح پورے جوبن پر رہیں تو دجال کے لئے ہم تر نوالہ بن جائیں گے، اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائے۔ اس وقت اصلاح کی بہت زیادہ ضرورت ہے اور یہ جو گنی چنی خانقاہیں ہیں، جو صحیح کام کر رہی ہیں، ان میں سے کسی کے ساتھ ہونا بہت ضروری ہے، اور اپنی اصلاح کے لئے کسی کو ڈھونڈنا ضروری ہے، اس کے بغیر کام نہیں ہو گا۔ یہ آپ ان حضرات سے پوچھیں جو اس کام کے ساتھ لگے ہوئے ہیں کہ وہ پہلے کیسے تھے اور اب کیسے ہیں، پہلے کیسا محسوس کرتے تھے اب کیسا محسوس کرتے ہیں، ظاہر ہے جو لوگ اس کے اندر رہے ہیں، انہی سے زیادہ معلومات کر سکتے ہیں اور وہ آپ کے بھائی، ساتھی ہوں گے آپ ان سے پوچھ لیں، وہ خود بتائیں گے کہ پہلے ہم کدھر تھے، مثلاً میں پہلے پشاور یونیورسٹی میں اور engineering college میں engineering کرنے کے لئے گیا تھا، میں وہاں کسی مدرسے میں داخل ہونے کے لئے نہیں گیا تھا، نہ کسی اور دینی ادارے کے ساتھ شامل ہونے کے لئے گیا تھا، نیت تو ہماری engineering کی تعلیم حاصل کرنے کی تھی، یہ اللہ کا احسان ہوا کہ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ جیسے شخص وہاں پر موجود تھے اور کچھ لوگوں نے ہماری رہنمائی کی اور ہم وہاں تک پہنچ گئے، بس پھر ہمارے دل نے گواہی دی کہ یہ جگہ بیٹھنے کی ہے اور یہ ہماری خوش قسمتی تھی، یہیں اللہ پاک نے ہمارے لئے سعادت لکھی ہوئی تھی، لہذا آج کل کے دور میں جو جہاں پر بھی ہے، اس کو تلاش کرنے سے مربی مل ہی جاتا ہے اور یہ بھی میں عرض کرتا ہوں، ہر جگہ لوگ ہوتے ہیں ڈھونڈنے پڑتے ہیں، میں امریکہ چلا گیا، صرف ایک رات میں نے ہوٹل میں گزاری، جہاں پہلے سے ایک رات کے رہنے کے لئے booking ہو چکی تھی۔ اگلے دن الحمد للہ اس علاقے کی بہترین جگہ پر اللہ پاک نے مجھے بھیج دیا، مجھے ہوٹل جانے کی ضرورت نہیں پڑی، میں نے ہوٹل والے سے اپنا معاملہ بے باک کر دیا اور میں وہاں پر پہنچ گیا۔ کسی بھی جگہ چلے جاؤ، Moscow چلے جاؤ، آپ کے دل میں یہ خیال ہو کہ میں نے اچھے لوگوں کے ساتھ ہونا ہے، میں نے غلط لوگوں کے ساتھ نہیں ہونا، اللہ پاک آپ کو وہاں تک پہنچا دیں گے ﴿وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت: 69) اللہ پاک کا وعدہ ہے کہ جو میرے راستے میں مجھ تک پہنچنے کی کوشش کرے گا، ضرور بالضرور میں ان کو ہدایت کے راستے پر لے آؤں گا، تو اللہ پاک اپنے وعدے کو پورا فرماتے ہیں، وہ اپنے وعدے کے خلاف نہیں فرماتے، لہذا ہم لوگ آج کوشش کر لیں، دل سے ٹھان لیں کہ اب ہم نے اپنے آپ کو بدلنا ہے اور اس کے لئے ایسے ماحول کو تلاش کرنا ہے۔ اللہ پاک نصیب فرمائے گا ان شاء اللہ۔

سوال نمبر 2:

جب تصوف کے حوالے سے ہم بات کرتے ہیں تو ایک سیدھی سی بات بعض لوگ کرتے ہیں کہ شریعت یہ ہے ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ اور طریقت یہ ہے کہ ’’لَا مَوْجُودَ اِلَّا اللہ‘‘، اب یہ ایسی confusing قسم کی statement ہے جو ابھی آپ نے رہنمائی فرمائی ہے اور یہ جو میں نے ابھی بات کی ہے تو اس کے بارے میں ذرا comparison کر کے تھوڑی سی وضاحت کر دیں۔

جواب:

یہ میرے خیال میں لوگوں نے اپنی طرف سے کوئی بات بنائی ہو گی۔ ہم نے جو سنا ہے، وہ بتا دیتا ہوں، گو کہ اس قسم کی ایک بات موجود ہے، لیکن وہ اس سے مختلف ہے۔ وہ یہ ہے کہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ طریقت ہے اور ’’مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ‘‘ شریعت ہے یعنی ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ میں آپ ہر کام اللہ کے لئے کرتے ہیں، آپ اس کو یوں کہہ سکتے ہیں کہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ میں آپ اللہ کے ساتھ تعلق مربوط کریں اور ’’مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ‘‘ آپﷺ ہی کہ ذریعے ہمیں احکامات ملے ہیں تو آپﷺ کے پیچھے جانا، یہ شریعت ہے۔ تو اب اس میں للہیت کو پیدا کرنا ہے، میں یہ کہہ سکتا ہوں ہر کام ہمیں آپﷺ کے طریقے پر کرنا ہے، یہ ’’مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ الله‘‘ ہے اور ہر کام کو اللہ کے لئے کرنا ہے، یہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ ہے۔ پھر میرے خیال میں لوگ اس کا کوئی next version لائے ہوں گے ’’لَا مَوْجُودَ اِلَّا اللہ‘‘۔ اس کے بارے میں عرض کرتا ہوں، اصل میں اس کو وحدت الوجود کہتے ہیں، وحدت الوجود ایک اچھی چیز تھی، صحیح چیز تھی، ابھی میں ان شاء اللہ تھوڑی دیر میں اس کی تشریح کروں گا تو آپ سمجھ جائیں گے کہ وہ تو بہت اچھی چیز تھی، لیکن جو لوگ برا ہونا چاہتے ہیں، وہ ہر اچھی چیز کو برا کر سکتے ہیں ان کے لئے کوئی مشکل نہیں ہے۔ جیسے علامہ اقبال نے کہا کہ:

تاویل سے قُرآں کو بنا سکتے ہیں پاژند

مطلب یہ ہے کہ تاویلات کرنا شروع کر دیں تو اس کی تو کوئی limit نہیں ہے، تو وہ اچھی چیز اس طرح تھی کہ جیسے آپ باہر چلے جائیں دوپہر کے وقت، سورج چمک رہا ہو تو کیا آپ کو ستارے نظر آئیں گے؟ کیا ستارے موجود نہیں ہیں؟ موجود تو ہیں، نظر نہیں آتے، اسی طریقے سے جن کے دل پر اللہ کی محبت کی تجلی صحیح معنوں میں پڑ جائے ان کو پھر اللہ کے علاوہ کوئی نظر نہیں آتا، حالانکہ اللہ بھی موجود ہے، مخلوقات بھی موجود ہیں، لہذا وہ جو وحدت الوجود کہتے ہیں اس کا یہی مطلب ہوتا ہے کہ مجھے اللہ کے علاوہ کوئی اور نظر نہیں آتا، یہ نہیں کہ اور کوئی موجود نہیں ہے، موجود ہیں لیکن بس مجھے نظر نہیں آتے اور یہ بالکل ممکن ہو سکتا ہے، سب محبتوں میں یہ چیز شامل ہے، جو بھی کسی چیز کا عاشق ہے، مثلاً دنیا کا کوئی عاشق ہے، اس کو آخرت نظر آئے گی؟ اس کو آخرت نظر نہیں آئے گی، اس کو ہر چیز کے اندر دنیا نظر آئے گی۔ تو جس چیز کا بھی کوئی عاشق ہے تو وہ صرف اپنے معشوق کو دیکھے گا، کسی اور چیز کو نہیں دیکھے گا، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اتنی محبت پیدا کر لو کہ تمہیں کوئی اور نظر ہی نہ آئے اور یہی وہ تکمیل ہے۔ میں ایک بات عرض کرتا ہوں جس کو ہم اعجابِ نفس (عُجب) کہتے ہیں، مثلاً میں نماز پڑھوں اور میں سمجھوں کہ میں بہت اچھا ہوں یا میں روزہ رکھ لوں اور میں سمجھوں کہ میں بڑا اچھا ہوں، اب اندازہ کر لیں یہ کس کو نہیں ہو گا؟ یہ ہر ایک کو ہو گا، حالانکہ حدیث شریف میں ہے، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ جو جس عمل کی وجہ سے اپنے آپ کو اچھا سمجھ رہا ہے، وہ اسی وجہ سے اللہ پاک کی نظروں سے گر جاتا ہے۔ اب اندازہ کر لیں کہ اس سے کیسے بچے گا؟ اس سے بچنے کی ایک تجویز ہے کہ اللہ پاک کے ساتھ اتنی محبت پیدا کر لو کہ تمہیں اس کے علاوہ کوئی اور چیز نظر ہی نہ آئے، جب یہ والی بات ہو تو آپ کو اپنا عمل بھی نظر نہیں آئے گا، لہذا اس چیز سے آپ بچ جائیں۔ چنانچہ یہ تو تکمیل کا درجہ تھا، لیکن لوگوں نے پتہ نہیں اس کو چیستان بنا دیا، اس لئے کہتے ہیں کہ تصوف کی کتابوں کو بغیر رہنمائی کے نہیں پڑھنا چاہیے، یہ دو دھاری تلوار ہے، یہ ایک طرف اگر کاٹ کرتی ہے تو دوسری طرف بھی کاٹ کرتی ہے، لہذا ان کو تو کسی کی رہنمائی میں پڑھنا چاہیے، تصوف سے انکار نہیں ہے، لیکن چونکہ یہ باطن سے تعلق رکھتا ہے اور باطن میں ہمارا نفس interfere کرتا ہے، مثلاً آپ کا meter اگر faulty ہو جائے تو کیا آپ اس سے reading لے سکیں گے؟ reading آپ کی آئے گی بھی تو خراب آئے گی، اسی طریقے سے اگر ہم نفس زدہ ذہن سے کسی چیز کا analysis کریں گے، result غلط آئے گا تو پہلے اپنے آپ کو صاف کر لیں، ﴿قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّاهَا وَ قَدْ خَابَ مَن دَسَّاهَا (الشمس: 9-10) انسان اپنے آپ کو صاف کر لے، اپنے نفس کا تزکیہ کر لے، پھر اس کو اللہ بھی نظر آ جائیں گے، اللہ کے احکامات بھی نظر آ جائیں گے، شریعت بھی نظر آ جائے گی، طریقت بھی نظر آ جائے گی اور پھر اس کے بعد اس کو سب کچھ نظر آ جائے گا، آخرت کی چیزیں بھی نظر آئیں گی۔

حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا ملفوظ ہے فرمایا: کہ اگر جنت اور دوزخ میرے سامنے لائی جائیں، میرے ایمان میں ذرہ بھر بھی اضافہ نہیں ہو گا، کیونکہ وہ چیز پہلے سے حاصل کر چکے تھے، تو اگر کوئی ایسی کیفیت حاصل کر لے تو پھر اس کو سب کچھ نظر آئے گا۔

سوال نمبر 3:

سوال یہ ہے کہ تسبیحات کو ہم اس لئے پڑھتے ہیں کہ اس کے پڑھنے سے ثواب ملتا ہے، مراقبہ اکثر لوگ اس لئے چھوڑ دیتے ہیں، اس کی اہمیت کیا ہے؟

جواب:

بڑا practical سوال ہے، ذکر دو قسم کا ہے۔ ایک ذکر ہے ثواب کا اور ایک ذکر ہے علاج کا، جیسے اس حدیث شریف میں فرماتے ہیں: ’’عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَلِمَتَانِ خَفِيفَتَانِ عَلَى اللِّسَانِ ثَقِيلَتَانِ فِي الْمِيزَانِ حَبِيبَتَانِ إِلَى الرَّحْمٰنِ سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدهٖ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيمِ‘‘ (بخاری شریف، حدیث نمبر: 6043) ’’دو کلمے اللہ کو بہت محبوب ہیں اور زبان پہ ہلکے ہیں اور میزان میں بھاری ہیں سبحان الله وبحمده سبحان الله العظيم‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان کا پڑھنا آسان ہے، لیکن اجر بہت زیادہ ہے، تو یہ وہ ذکر ہے جو کہ ہم ثواب کے لئے کریں گے، قرآن پاک کی تلاوت کا اجر بتایا گیا کہ ایک حرف کوئی پڑھے گا تو دس نیکیاں ملیں گی، اس طریقے سے ہم درود شریف پڑھتے ہیں یہ سب اجر کے لئے ہیں اور واقعتا منصوص ہیں اور منقول ہیں ہمیں ان کو حاصل کرنا چاہیے، اور پڑھنا چاہیے۔ لیکن میں ایک بات عرض کرتا ہوں، اگر خدا نخواستہ مجھ میں اعجابِ نفس کی بیماری ہو، عجب کی بیماری ہو، تکبر ہو یا حسد کی بیماری ہو۔ میں سب اعمال کر رہا ہوں لیکن ضائع ہو رہے ہیں، تو مجھے پھر کیا کرنا چاہیے، سب سے پہلے تو حفاظت کرنی چاہیے تاکہ میں اپنے اعمال کو تو محفوظ کر لوں، اور اپنے اعمال کو محفوظ کرنے کا انتظام کرنا چاہیے، حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ سے اپنے ایک ہم عصر اور ایک ہم عمر بزرگ نے سوال کیا کہ حضرت ہم بھی وہی نماز پڑھتے ہیں جو آپ پڑھتے ہیں، ہم بھی وہی روزہ رکھتے ہیں جو آپ رکھتے ہیں، ہم بھی وہی قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہیں، جو آپ کرتے ہیں لیکن ہم، ہم ہیں اور آپ، آپ ہیں، کیا وجہ ہے؟ بڑا زبردست سوال تھا۔ حضرت نے جواب دیا: ہاں بات ٹھیک ہے اس لئے کہ آپ کے اعمال آپ کا نفس کھا جاتا ہے، نفس کے کھانے کی یہی چیز ہے، اب انسان اپنے آپ بزرگ کو سمجھنے لگتا ہے اور اچھا سمجھنے لگتا ہے، اوروں کو کم سمجھنے لگتا ہے، نتیجتا وہی اعمال ان کے گلے میں پڑ جاتے ہیں، ان کو وہ فائدہ نہیں ہوتا۔ اس وجہ سے ہمیں پہلے اس کا بندوبست کرنا چاہیے کہ اپنے اعمال کو محفوظ تو کر سکیں۔ تو وہ ذکر جو ہمارے اعمال کو محفوظ کرنے کا ذریعہ بن جائے، اس کے بارے میں پھر بتائیں وہ کیا ہے؟ وہ تو بہت بڑی چیز ہو گی، مراقبہ اسی نوعیت کی چیز ہے۔ لہذا مشائخ جو ذکر دیتے ہیں وہ اصلاح کے لئے دیتے ہیں۔

ایک بزرگ نے فرمایا کہ ہم جو آپ کو ذکر دیتے ہیں ہم اس میں ثواب نہیں سمجھتے، لیکن یہی ذکر آپ کو ثوابوں کے دہانے پر بیٹھا دے گا، جیسے آپ چار رکعات فرض سادہ نماز پڑھ لیں اور یہ پوری کی پوری آپ کی قبول ہو جائے، مجھے بتائیں آپ کو کتنا مل گیا؟ اس کے ثواب تک آپ کے نوافل پہنچ سکتے ہیں؟ اور آپ نوافل پر نوافل پڑھتے جائیں اور اس میں اس قسم کے مسائل ہوں تو یہ مشقت کس کام کی؟ لہذا پہلے اپنے اعمال کی حفاظت ضروری ہے، اپنے اعمال کا تزکیہ ضروری ہے، اس کے لئے مراقبہ کرنا اسی نوعیت کی چیز ہے، اس کی نا قدری نہیں کرنی چاہیے، اکثر خواتین مجھے ٹیلی فون پر بتاتی ہیں کہ شاہ صاحب وہ تسبیحات تو ہم کر لیتی ہیں، لیکن مراقبہ رہ جاتا ہے، میں کہا کرتا ہوں: ہاں اس کو رہنا چاہیے! تو کہتی ہیں کیوں؟ میں نے کہا شیطان اس کے پیچھے پڑا ہوا ہے۔ شیطان کو سب سے زیادہ ڈر ہی اسی سے ہے کہ تم مراقبہ نہ کرو، اس کو تمہاری تسبیحات سے ڈر نہیں ہے، تمہاری قرآن پاک کی تلاوت سے ڈر نہیں ہے، تمہارے حج سے بھی ڈر نہیں ہے، کیوں ان کے لئے اس کے پاس انتظام ہے، وہ آپ کے ساتھ کچھ ایسا چکر چلا دے گا کہ سارا کچھ ضائع کرا دے گا، سب سے پہلے اس کے پاؤں میں بیڑی ڈالنے والا جو نظام ہے اس کے وہ خلاف ہے۔ پہلے آپ اپنی حفاظت کر لو، اس کے بعد آپ کی ساری چیزیں ان شاء اللہ کام آئیں گی۔ ایک دفعہ مولانا مصطفیٰ صاحب رحمۃ اللہ علیہ رائیونڈ میں مقیم تھے اور وہ ہدایات دیا کرتے تھے، اور اکثر کار گزاری سنتے تھے تو میں نے حضرت سے سنا، فرمایا کہ ہم بھی آپ کو ذکر دیتے ہیں، مشائخ بھی آپ کو ذکر دیتے ہیں، فرمایا: دونوں آپ کو کرنے چاہیئں، لیکن اگر کسی وقت آپ ایک کر سکیں اور دوسرا نہ کر سکیں تو مشائخ والا تو کر لیا کرو، ہمارا مؤخر کر لو، کیونکہ ہمارا دیا ہوا ذکر غذا کی طرح ہے، ان کا دیا ہوا ذکر دوا کی طرح ہے، دوا اور غذا میں اگر مقابلہ آ جائے تو دوا کو اختیار کرنا چاہیے اور غذا کو موخر کرنا چاہیے۔ یہ انہوں نے بڑا حکیمانہ جواب دیا، مقصد یہ ہے کہ ہمیں ان چیزوں کو زیادہ توجہ دینی چاہیے جو ہماری اصلاح کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں، کیونکہ اصلاح فرضِ عین ہے اور یہ جو ہمارے اذکار ہیں، یہ مستحب ہیں، مستحب کا انکار نہیں ہے، مستحب کو اگر کوئی کم سمجھے گا، یہ دل کی بیماری کی علامت ہے، لیکن جب مستحب اور واجب میں مقابلہ ہو گا تو واجب کو ترجیح دی جائے گی، اس وجہ سے مراقبہ اور یہ دوسری چیزیں جو اصلاح نفس سے تعلق رکھتی ہیں ان کو کم نہیں سمجھنا چاہیے، ورنہ اس کا نقصان ہو گا۔

سوال نمبر 4:

اگر کبھی عبادت چھوٹ جائے تو ہم سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ شاید ناراض ہے، شاید کوئی غلطی ہو گئی ہے، جس کی سزا مل رہی ہے، کیا ایسا ہی ہے؟

جواب:

دیکھیں! اللہ پاک کی ناراضگی کا تصور کرنا بڑا خطرناک ہے، کیونکہ فرماتے ہیں ’’أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي‘‘ (بخاری شریف، حدیث نمبر: 6970) میں بندے کے گمان کے ساتھ ہوں جو وہ میرے ساتھ رکھتا ہے۔ مجھے بتائیں والد صاحب اگر کسی کو سخت کوستے ہیں تو اس پر کیا کہنا چاہیے؟ ناراض ہونا چاہیے یا خوش ہونا چاہیے؟ ظاہری طور پر تو انسان ناراض ہوتا ہے کہ دیکھیں مجھے اتنا سخت ڈانٹا، لیکن اگر وہ حقیقت کو دیکھے اور سمجھ دار ہو تو خوش ہو گا کہ کوئی تو میرے سر پر ہے جو میرا خیال رکھتا ہے۔

پشاور یونیورسٹی میں ایک بزرگ تھے، وہ ہمارے پچھے پڑے رہتے تھے، جب کبھی ہم کوئی غلطی کرتے تو ہمارے پیچھے خوب باتیں کرتے تھے، یہ ایسا ہے اور ایسا ہے اور وہ باتیں ہم تک پہنچتی تھیں، جس دن ہمارا ذکر ان کے سامنے ہو جاتا اور وہ کچھ بات ہمارے خلاف نہ کرتے تو ہم ڈر جاتے کہ پتہ نہیں کہیں دل سے تو نہیں نکال دیا، مطلب یہ کہ کوئی تو ایسا ہے جو ہمارا خیال رکھتا ہے، جو ہمارے بارے میں سوچتا ہے، اس پر تو خوش ہونا چاہیے، تو اللہ جل شانہ سے زیادہ خیال رکھنے والا کون ہے؟ میں آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں، جس سے آپ کو اندازہ ہو گا، حدیث شریف کا واقعہ ہے، آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ایک شخص اونٹ کے اوپر زادِ راہ ڈال کر کسی سفر پر جا رہا ہے اور وہ ایسے راستے پر پڑ گیا جس سے پھر نکلنا ممکن نہیں ہوتا، صحراؤں میں ایسی چیزیں ہوتی ہیں اور پھر وہ اونٹ پر راستے کو تلاش کرتے کرتے ایک وقت آیا کہ اونٹ بھی گم ہو گیا اور اس کے اوپر سامان بھی تھا، اب تو اس کو اپنی موت کا یقین ہو گیا کہ اب تو میری موت ہی آنی ہے، تو وہ کبھی راستہ تلاش کرتا اور کبھی اونٹ تلاش کرتا، اتنا تھک گیا کہ کسی جگہ گر گیا اور اس کو نیند آ گئی، جب نیند سے اٹھا تو اس کے سرہانے اونٹ مع سامان کھڑا ہے، تو خوشی کی وجہ سے کہنا یہ چاہتا تھا کہ اے اللہ تو میرا رب ہے اور میں تیرا بندہ، اس کی زبان سے خوشی کی وجہ سے نکلا اے اللہ میں تیرا رب ہوں تو میرا بندہ۔ آپﷺ بھی مسکرائے، فرمایا یہ شخص جتنا خوش ہے آپ اس کا اندازہ نہیں کر سکتے۔ جو بندہ توبہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس سے زیادہ خوش ہوتا ہے۔ اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ اللہ پاک ہمارے ساتھ اتنی محبت کرتا ہے، تو یہ تصور کرنا کہ اللہ پاک ہم سے ناراض ہے یہ بہت غلط سوچ ہے، اللہ پاک ہمیں چاہتے ہیں، جب تک موت نہیں آئی تو اللہ پاک کی ناراضگی اور رضا مندی کے بارے میں کچھ نہیں کہنا چاہیے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا آخری result اس وقت ہے کہ ہم کدھر چلیں گے، ایک دن آئے گا جب جنت میں سارے جنتی پہنچ جائیں گے اور دوزخ میں وہی رہ جائیں گے جن کو دوزخ میں رہنا ہے، اس وقت اللہ پاک فرشتوں کو حکم دے گا کہ موت کو لے آؤ تو موت کو مینڈھے کی شکل میں لایا جائے گا، اس وقت اللہ پاک فرشتوں کو حکم دے گا کہ اس کو ذبح کر دو اور وہ ذبح ہو جائے گا اور اللہ پاک کی طرف سے اعلان ہو گا "لَا مَوْتَ بَعْدَ الْیَوْمِ" ’’آج کے بعد موت نہیں ہے‘‘ پھر اہل جنت سے کہیں گے کہ اے جنتیو! میں تم سے راضی ہوا اور اب تم سے کبھی ناراض نہیں ہوں گا، اس وقت جنتی بہت خوش ہوں گے کہ اللہ پاک نے ہمیں ایسا مقام دے دیا اور دوزخیوں سے فرمائیں گے کہ اے دوزخیو! میں تم سے ناراض ہو گیا، اب تم سے کبھی راضی نہیں ہوں گا، وہ موقع ان کی مایوسی کا ہو گا، اللہ جل شانہ ہمیں وہ دن نہ دکھائے، اللہ تعالیٰ ہمیں ان میں سے کر دے جن سے اللہ پاک راضی ہوں۔ تو یہ سوچنا نہیں چاہیے کہ اللہ پاک ہم سے ناراض ہے، البتہ انسان کو ہر وقت اپنے آپ کو خطا کار سمجھنا چاہیے، آپﷺ کا فرمان ہے ’’کُلُّ بَنِی آدَمَ خَطَّاءٌ وَ خَیْرُ الخَطَّائِینَ التَّوَّابُونَ‘‘ (المستدرک علی الصحیحین، حدیث نمبر: 7617) ’’تم سب خطا کار ہو، مگر تم میں بہتر خطا کار وہ ہے جو توبہ کرتا ہے‘‘۔ لہذا ہم کو ہر وقت توبہ کرتے رہنا چاہیے، جو اپنے آپ کو خطا کار سمجھتا ہے، وہ فائدے میں رہتا ہے، اس کو توبہ کی توفیق ہو جاتی ہے، مجھے بعض لوگ کہتے ہیں پتہ نہیں کون سی غلطی ہم سے ہوئی کہ ہماری پکڑ ہو گئی، میں کہا کرتا ہوں خدا کے بندے کیا کہہ رہے ہو! یہ کہو کہ ہماری کون سی بات قبول ہو گئی کہ ابھی تک ہم اس طرح ہیں، یہ تم کیسے کہہ سکتے ہو کہ کون سی غلطی ہم سے ہو گئی! ہم تو ہر وقت ہی غلطیاں کرتے ہیں، تو اس بات کو تو بالکل نہیں کہنا چاہیے کہ ہم سے کون سی غلطی ہو گئی، غلطیاں ہم سے ہو رہی ہیں، بس توبہ کرنی چاہیے جیسے کہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ تم سب خطا کار ہو، مگر تم میں بہتر خطا کار وہ ہے جو توبہ کرتا ہے۔ تو توبہ کر لو پھر دوبارہ شروع کر لو اور آئندہ کے لئے عزم کر لو۔

سوال نمبر 5:

اگر تصور شیخ آئے تو اس سے توحید پر تو اثر نہیں پڑتا، اگر دھیان شیخ کی طرف ہو جائے؟

جواب:

یہ واقعی بڑا practical سوال ہے۔ تصور شیخ کیا ہے؟ سب سے پہلے میں یہ عرض کروں گا۔ گزشتہ بزرگوں میں اور گزشتہ سلسلوں میں یہ چیز بطور علاج تھی اور وہ علاج کیا تھا؟ وساوس انسان کو بہت زیادہ آتے ہیں، تو جو وسوسے آتے ہیں ان کا علاج یہ ہے کہ آپ اپنے شیخ کے بارے میں تصور کر لیں کہ میں ان کی مجلس میں بیٹھا ہوں یا میں ان کا بیان سن رہا ہوں یا میں ان کے سامنے بیٹھا ہوں، اس سے وسوسے دور ہو جاتے تھے۔ تو ان وساوس کا یہ علاج بتایا جاتا تھا، اب بھی اگر ہمیں مولانا صاحب رحمۃ اللہ علیہ یاد آ جائیں تو ہماری حالت بہتر ہو جاتی ہے، صرف یاد آنے سے بھی بہتری ہوتی ہے، تو پہلے وقتوں میں بتایا جاتا تھا کہ تم اس طرح تصور کر لو کہ تم شیخ کے سامنے بیٹھے ہو یا شیخ آپ کے ساتھ بات کر رہا ہے، تو اس قسم کی بات سے فائدہ ہو جاتا تھا، اب آج کل لوگوں میں چونکہ کمزوری ہے، وہ کمزوری یہ ہے کہ اس طرح سوچنے سے کبھی کبھی عجیب عجیب باتیں آدمی کو پیش آ سکتی ہیں، ان واقعات کی لوگ تشریح نہیں کر پاتے، نتیجتاً اس سے بعض دفعہ مسائل کھڑے ہو جاتے ہیں اگر اس قسم کی بات ہو، تو جس چیز میں مفسدہ بھی ہو اور فائدہ بھی ہو تو پھر شریعت کا حکم یہ ہے کہ اس کے مفسدے کا علاج کرو، اس وجہ سے ہمارے بزرگ اب اس کا نہیں بتاتے اور ہم بھی تصور شیخ کا کسی کو نہیں بتاتے، لیکن اگر خود ہو جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نعمت ہے، اس کو نہیں روکا جاتا، کیونکہ پھر اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت کا بندوبست بھی کر لیتے ہیں، تو کسی کو بتایا تو نہیں جاتا، لیکن اگر خود ہو جائے تو پھر اللہ پاک اس کا بندوبست بھی کر لیتے ہیں، اور ہمارے ہاں اس کا ایک safe طریقہ یہ ہے کہ اگر کسی کو ہم بتاتے ہیں تو یہ بتاتے ہیں کہ جب کبھی تمہیں بہت وسوسے آئیں تو اپنے شیخ کے لئے دعائیں شروع کر لو، اب جو شیخ کے لئے دعائیں کرے گا تو کیا توحید پر اثر پڑے گا؟ شیخ یاد بھی آئے گا، لیکن توحید پر تو کوئی اثر نہیں پڑے گا، کیونکہ مانگ تو اللہ تعالیٰ سے رہا ہے، تو اللہ تعالیٰ کی طرف ہی توجہ ہے، لہذا اس سے کوئی مسئلہ نہیں بنے گا، لہذا آج کل safe طریقہ یہ ہے کہ اپنے شیخ کے لئے دعائیں شروع کر لو اس سے دونوں چیزیں حاصل ہو جائیں گی، اللہ پاک کی طرف توجہ بھی ہو اور شیخ کی طرف توجہ بھی ہو تو پھر اس سے کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔

سوال نمبر 6:

اکثر اوقات نیک کام کا خیال آنے پر مراقبہ جاری ہو جاتا ہے، لیکن مراقبہ کرتے ہوئے یہ کیفیت نہیں ہوتی اس کی کیا وجہ ہے؟

جواب:

سبحان اللہ یہ بھی بڑا اچھا سوال ہے واقعتاً جن کو یہ ہوا ہو تو وہ یہ سوال کر سکتے ہیں، الحمد للہ یہ ایک اچھی حالت ہے، اچھی حالت اس لئے ہے کہ آپ نے لطیفہ کا نام سنا ہو گا، لطیفہ لطیف سے ہے، باریک چیز کو لطیف کہتے ہیں اور جو چیز ذرا زیادہ سامنے ہو جیسے کہ بھاری چیز ہے یا جو زیادہ محسوس کی جاتی ہو اس کو کثیف کہتے ہیں، تو جس وقت انسان کا ذکر صحیح معنوں میں جسم کے اندر سرایت کر جائے تو پھر محسوس نہیں ہو گا، جیسے کبھی آپ نے ہوا کو محسوس کیا ہے جب نہ چل رہی ہو؟ حالانکہ ہوا تو موجود ہوتی ہے، صرف اس وقت محسوس ہوتی ہے جب زیادہ رفتار سے چل رہی ہو۔ اور اس وقت کہتے ہیں کہ ہوا ہے اور جب مزید تیز ہو جائے تو آندھی بن جاتی ہے، ویسے ہوا تو ہر وقت موجود ہوتی ہے لیکن انسان کو اس کا پتہ نہیں ہوتا تو جس وقت وہ کر رہا ہوتا ہے اس وقت وہ لطیف ہے، لہذا اس کو پتہ نہیں چلتا لیکن جب کوئی نیک کام کیا جاتا ہے اس کا تعلق اللہ پاک کی طرف ہو جاتا ہے، تو وہ چیز ذرا زیادہ واضح ہو جاتی ہے، محسوس ہونا شروع ہو جاتی ہے تو آدمی کہتا ہے کہ شاید اس وقت مراقبہ ہو رہا تھا، اس وقت نہیں پہلے سے ہو رہا تھا، لیکن محسوس اس وقت ہونا شروع ہوا، یہ تو ایک حالت ہے، دوسری حالت اس کی یہ ہے کہ گناہ کے وقت میں محسوس ہونا شروع ہو جاتا ہے، کیونکہ اس وقت وہ کثیف ہو جاتا ہے، تو وہ alarming ہوتا ہے، رک جاؤ رک جاؤ! گویا اللہ تعالیٰ کی طرف سے مطالبہ شروع ہو جاتا ہے کہ رک جاؤ! اس کو ذریعہ بنا دیا جاتا ہے تو بہر حال یہ دونوں حالتیں اچھی ہیں، اگر گناہ کے وقت میں محسوس ہونے لگ جائیں پھر بھی اللہ کی طرف سے نعمت ہے، اگر اچھائی کے وقت میں محسوس ہونے لگ جائیں، پھر بھی اللہ کی طرف سے انعام ہے، بہر حال مراقبہ کرتے رہو گے، چاہے مراقبہ کے وقت آپ کو محسوس نہ ہو کہ کب وہ چیز آئے گی، آپ مراقبہ کئی مہینوں تک روک دیں، پھر دیکھو وہ آپ کو ہوتا ہے یا نہیں ہوتا، پھر نہیں ہو گا، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہے ہی اسی وجہ سے کہ آپ کر رہے ہیں، تو کرتے رہنا چاہیے، پھر ان شاء اللہ العزیز آپ کو اس قسم کی چیزیں محسوس ہوں گی۔

سوال نمبر 7:

عقائد جو زبانی ہم سمجھتے ہیں وہ ٹھیک ہیں، خاص طور پر جو عقیدہ آخرت ہے، اس میں خاص طور پر جو موت کا خیال آتا ہے تو بہت depressing ہو جاتا ہے، تو موت کی جو مایوسی ہے، اس سے نکلنے کی کیا ترتیب ہو سکتی ہے اور جو مراقبہ موت ہے، اس کے کیا فوائد ہیں؟

جواب:

اچھا سوال ہے، یہ جو بات میں عرض کرنا چاہتا ہوں اس کو احتیاط سے سن لیں، موت ایک حقیقت ہے، کوئی اس سے انکار نہیں کر سکتا، موت ہولناک ہے، اس سے بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا، اب اس حقیقت کو بھولنا بھی نہیں چاہیے ورنہ مصیبت ہے اور ہولناکی برداشت بھی نہیں ہوتی یہ بھی ایک مسئلہ ہے، دونوں مسئلے ہیں، وہ جو ہولناکی ہے اس سے depression ہوتا ہے، آپ کا سوال یہی ہے؟ اس سے depression ہوتا ہے۔ اب اس depression سے کیسے بچیں گے، اس کا میں طریقہ بتاتا ہوں۔ مثلاً آپ اوپر سے یا چھت سے سخت فرش پر گریں تو چوٹ آئے گی اگر نیچے فوم پڑا ہو اور اس پر آپ گر جائیں تو پھر کیا چوٹ آئے گی؟ پھر چوٹ نہیں آئے گی، چوٹ کیوں نہیں آئے گی کیونکہ flexible ہے، اس نے آپ کی جو حرکت ہے وہ اپنی حرکت میں transform کر کے اس کو لے لیا، وہ energy میں بدل گئی ہے، آپ کو چوٹ نہیں لگتی کیونکہ اس نے energy لے لی، آپ کے جسم نے نہیں لی تو اسی طریقے سے اگر آپ موت کا خیال آتے ہی نیک اعمال شروع کر دیں اور اس کو نیک اعمال میں convert کرنا شروع کر دیں تو سارا اس کی طرف transform ہونا شروع ہو جائے گا، پھر وہ depression نہیں ہو گا، depression اس وقت ہوتا ہے جب آپ کچھ کر نہ پا رہے ہوں، جیسے آپ کو موت کا خیال آ جائے تو بس فوراً آپ نیکی کی طرف متوجہ ہوں مثلاً ذکر شروع کر لیں اور کہیں کہ اگر میری موت کا وقت اس وقت مقرر ہے، تو اگر میں ذکر کرتے ہوئے مر جاؤں تو اس سے بہتر چیز کیا ہے اور اللہ پاک سے ملاقات کا انسان شوق پیدا کرے، کیونکہ اللہ پاک فرماتے ہیں کہ جو میرے ساتھ ملاقات کا شوق رکھتا ہے، میں بھی اس کے ساتھ ملاقات کو پسند کرتا ہوں، اور جو ایسا نہیں کرتا تو پھر میں بھی ایسا نہیں کرتا، لہذا اللہ پاک کے ساتھ ملاقات کا شوق پیدا کرنا چاہیے کہ ہم اللہ پاک کے ساتھ ایسی حالت میں ملیں کہ جو اللہ پاک کو پسند ہو، تو جب یہ دو کام کر لیں کہ اللہ پاک کے ساتھ ملاقات کا شوق پیدا کر لیں اور اعمال کی طرف آ جائیں تو ان شاء اللہ depression والی بات نہیں رہے گی۔ البتہ مراقبہ موت بغیر شیخ کے نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ اس میں کافی variation ہیں، بہت سارے لوگ مراقبہ موت کے متحمل نہیں ہوتے، یہ میں نے آپ کو صرف accidental اس طرف ذہن جانے کا علاج بتایا ہے، مراقبہ موت تو قصداً آپ سوچتے ہی ہیں، اس کے بجائے جو لوگ کمزور دل ہوتے ہوں تو ان کو ہم بتاتے ہیں کہ مراقبہ حیات کرو، مراقبہ حیات یہ ہے کہ جنت میں کیا کیا نعمتیں ہوں گی، جنت میں جنتیوں کو کیا کیا دیا جائے گا اور کیسے کیسے دیا جائے گا، اس کا تصور کر لو تو وہ بھی تو موت کے بعد ہی ہو گا، لیکن اس سے وہ چیز نہیں آئے گی، بجائے مراقبہ موت کے مراقبہ حیات کا تصور کر لو، لیکن وہ بھی شیخ سے پوچھ کے، کیونکہ یہ جو علاجی چیزیں جتنی بھی ہیں یہ بغیر شیخ سے پوچھے نہیں کرنی چاہئیں کیونکہ جیسے کوئی مریض بغیر ڈاکٹر سے پوچھے کوئی علاج کی چیز استعمال نہیں کر سکتا، اگر کرے گا تو نقصان ہو گا بالکل اس طرح روحانی معالج سے بھی پوچھ پوچھ کر چلنا ہو گا۔

سوال نمبر 8:

دوران ذکر بعض اوقات اس طرح ہوتا ہے کہ آپ کا دھیان موت کی طرف چلا جاتا ہے، یا آپ کو تصور اس طرح آ جاتا ہے کہ شاید آپ قبر میں بیٹھ کر یہ ذکر کر رہے ہیں تو اس کی پھر کیا صورت ہوتی ہے؟

جواب:

میں نے عرض کیا کہ اس وقت جو آپ ذکر کر رہے ہیں اسی کو اپنے لئے protection کا ذریعہ بنا دیں کہ آپ کہیں کہ میں تو اس وقت بہترین حالت میں ہوں، ذکر کی نیت بھی الحمد للہ بہترین ہے اور ذکر کرنا بھی بہترین چیز ہے، کیونکہ ذکر کے بارے میں اللہ پاک نے فرمایا آپﷺ کے ارشاد کے مطابق کہ جو مجھے مجلس میں یاد کرتا ہے، میں اس کو اس کی مجلس سے بہتر فرشتوں کی مجلس میں یاد کرتا ہوں اور جو مجھے دل میں یاد کرتا ہے تو میں اس کو اپنے ساتھ یاد رکھتا ہوں، تو جس کو اللہ پاک یاد رکھتا ہو اس کے لئے کوئی کمی ہے، لہذا اس وقت تو بالکل بھول جائے، کیونکہ وہ اتنی بہترین حالت میں ہے، لہذا اپنے ذکر کی طرف متوجہ ہو تاکہ وہ ٹھیک رہے، ﴿الَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ (الرعد: 28) ذکر کے ساتھ اللہ پاک اطمینان نصیب فرماتے ہیں۔

سوال نمبر 9:

ذکر اللہ جب کرتے ہیں تو دو آپ نے صورتیں بتائی ہیں ایک آپ نے یہ بتایا ہے کہ اعمال کے اوزان بڑھ جاتے ہیں اور ایک اصلاح کے حوالے سے ہے، اصلاح بھی آخرت کے حوالے سے ہے اور اوزان بھی آخرت کے حوالے سے ہیں، ہم اکثر بزرگوں سے ملتے رہتے ہیں، ان میں بہت سارے لوگوں کو میں نے دیکھا ہے کہ وہ خالصتاً دنیاوی فوائد کے لئے اسی طرح کے اذکار کا سہارا بھی لیتے ہیں اور ان کو وہ بزرگان تحفہ بھی دیتے ہیں، اور بہت سارے لوگوں کا یہ بھی claim ہے کہ ان سے ہم نے اپنی جن دنیاوی حاجات کے لئے کوئی ذکر لیا ہوتا ہے، وہ ساری اللہ پاک کی طرف سے پوری ہو جاتی ہیں، تو ہماری آج کی مجلس میں انہی اذکار کے دنیا داری کے حوالے سے جو فوائد ہیں، اس کی اور تصوف کے حوالے سے کچھ وضاحت فرما دیں۔

جواب:

بڑا اچھا سوال ہے اللہ تعالیٰ آپ کو اجر دے، کیونکہ آپ نے ایک بہت اچھی چیز کی طرف میرے ذہن کو متوجہ کر دیا، اس بارے میں بات کرنا ضروری تھا، آپ کے واسطے سے اللہ پاک نے یاد کروا دیا، آپﷺ نے فرمایا ’’حُبُّ الدُّنْیَا رَاسُ کُلِّ خَطِیئَۃ‘‘ (مشکاۃ المصابیح، حدیث نمبر 5213) ’’دنیا کی محبت ساری خطاؤں کی جڑ ہے‘‘۔ لیکن یہ بھی فرمایا: ’’الدُّنْیَا مَزْرَعَۃُ الاخِرَۃ‘‘ (المقاصد الحسنۃ للسخاوی، ج2، ص176) ’’دنیا آخرت کی کھیتی ہے‘‘۔ یہ دو حدیث شریف آ گئیں، اس سے ذرا ہم لوگ دنیا کے بارے میں ایک optimal solution دریافت کرنا چاہیں گے کہ وہ کیا ہو سکتا ہے، کون سی دنیا ہمارے لئے اچھی ہے، کون سی دنیا ہمارے لئے خراب ہے، ہم کس حد تک رہیں۔ ’’الدُّنْیَا مَزْرَعَۃُ الاخِرَۃ‘‘ سے پتہ چلا کہ وہ اعمال جو آخرت میں اجر کے باعث ہوں گے وہ ہم کر سکتے ہیں۔ اس کے لئے ہمیں دو چیزوں کی ضرورت ہے، ایک ہمیں زندگی کی ضرورت ہے اور ایک ہمیں صحت کی ضرورت ہے، جب تک ہماری زندگی رہے گی اور جب تک ہماری صحت رہے گی تو ہم اعمال کر سکیں گے ورنہ اعمال ختم ہو جائیں گے، اعمال تو نہیں کر سکیں گے، اس وجہ سے اگر انسان اپنی زندگی اور صحت کے لئے جو بنیادی ضرورتیں ہیں جیسے انسان کا کھانا پینا، آرام اور shelter وغیرہ، یہ چیزیں اگر وہ بضرورت کر لے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ یہ ان دو چیزوں کے لئے ہے اور اس کے ذریعے سے آخرت کے اعمال بھی کئے جا سکیں گے تو اس حد تک تو ٹھیک ہے، لیکن اگر وہ خواہشات بن جائیں جو limitless ہیں، ضرورتیں تو limited ہوتی ہیں، خواہشات limitless ہوتی ہیں، اگر unlimited چیز کی طرف چلے جائیں تو پھر ’’حُبُّ الدُّنْیَا رَاسُ کُلِّ خَطِیئَۃ‘‘ کو خیال میں رکھنا پڑے گا کہ دنیا کی محبت ساری خطاؤں کی جڑ ہے۔ اب جو تصوف ہے وہ دنیا کے ساتھ نہیں deal کر رہا ہے، دنیا کے ساتھ اس طرح deal نہیں کر رہا کہ اس کا مقصود تو آخرت میں فلاح ہے، لیکن جتنا دنیا میں رہنا ہے اس میں حرام سے بچنا اور حلال حاصل کرنا اور اس کے مطابق اپنی آخرت کی زندگی کو درست کرنا یہ تو ہے، اس وجہ سے ہمارے جو مشائخ تھے، لوگوں پر شفقت کر کے جو دنیاوی مشکلات ہیں اور ان کی جو ضرورتیں ہیں، ان کے بارے میں مجبوراً ان کو بتاتے رہتے ہیں، ورنہ یہ ان کی domain نہیں ہے، ہمارے ہاں اس وجہ سے اس چیز کو نہیں appreciate کیا جاتا، جیسے آپ نے آج کے بیان میں دیکھا کوئی بات اس کی طرف نہیں آئی بلکہ میں وقتاً فوقتاً اس کے بارے میں بتا بھی دیتا ہوں، بلکہ ایک ساتھی نے بھی مجھ سے کہا کہ آپ کیوں اس میں اتنی سختی کرتے ہیں، باقی لوگ تو نہیں کرتے، میں نے کہا کہ دیکھو اگر میں سختی نہ کروں تو میں آپ لوگوں کے ساتھ ان باتوں کے لئے نہیں فارغ ہو سکتا، پھر یہ سارے لوگ جمع ہوں گے اور کوئی مجھ سے پانی دم کروا رہا ہو گا، کوئی اپنے دفتر کے لئے وظیفہ لے رہا ہو گا، تو یہ باتیں میں نہیں کر سکوں گا، آخر یہ باتیں بھی تو کسی کو کرنی ہیں، ورنہ بالکل اسی کی نذر ہو جائیں گی، کیونکہ ہمارے ایک بزرگ نے فرمایا کہ دنیا اور آخرت جب کسی ایک چیز میں جمع ہو جائیں تو ان میں دنیا جیت جاتی ہے، دنیا کیسے جیت جاتی ہے؟ یعنی دنیا کی طرف دھیان زیادہ جاتا ہے اور دل بھی جاتا ہے اور اللہ پاک فرماتے ہیں کہ ﴿كَلَّا بَلْ تُحِبُّونَ الْعَاجِلَةَ وَ تَذَرُونَ الْآخِرَةَ (القیامۃ: 20-21) ’’ہرگز نہیں مگر تم قریب والی چیز کو بہت پسند کرتے ہو اور جو بعد میں آنے والی چیز ہے، اس کو چھوڑتے ہو‘‘۔ تو اب اگر میں تھوڑا سا بھی عاجلہ کی appreciation کر لوں تو بس پھر سارا عاجلہ ہی ہو جائے گا۔ یہ عرب کا اونٹ ہے، عرب کا اونٹ سر کو اندر کرتا ہے، پھر سارا اونٹ اندر اور باقی لوگ باہر، یہ ایسی چیز ہو جاتی ہے۔ اس وجہ سے appreciate ہم نہیں کرتے، البتہ کبھی جب ہم دیکھتے ہیں کہ ایک آدمی دین کے لئے وقت لگا رہا ہے، کام کر رہا ہے، سب کچھ اس کے لئے وہ کر رہا ہے، اس کو کوئی problem ہے، تو اس کے لئے اس معاملے میں نرمی ہم بھی کر لیتے ہیں، لیکن بنیادی طریقہ کار ہمارا وہی ہے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ للہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔