سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 82

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی


اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِیْن واَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَمُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال نمبر 1:

حضرت! یہ بات تو مجھے معلوم ہے کہ اگر زبان سے سخت الفاظ نکالے جائیں یا صرف سخت لہجہ میں بات کی جائے تو اس سے دل پر اثر پڑتا ہے اور دل سخت ہوجاتا ہے۔ لیکن میں آپ سے یہ سوال کرنا چاہتی ہوں کہ اگر میں کسی کے بارے میں برا سوچوں تو کیا اس سے بھی دل اللّٰہ سے دور ہوجاتا ہے؟

میں ان لوگوں کو avoid کرتی ہوں جن کی زبان سے مجھے ڈر لگتا ہے اور جن کی باتیں مجھے دکھ دیتی ہیں۔ کیا میں یہ صحیح کرتی ہوں؟

جواب:

آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر بے ضرورت سخت الفاظ زبان سے کہے جائیں یا بے ضرورت صرف سخت لہجے میں بات کی جائے تو واقعتاً اس کا دل پہ اثر پڑتا ہے بلکہ سخت الفاظ تو درکنار، لا یعنی بات کا بھی دل پہ اثر پڑتا ہے۔ اور لایعنی بات سے مراد یہ ہوتا ہے کہ جس کا نہ دین میں فائدہ ہوتا ہے نہ دنیا میں فائدہ ہوتا ہے، مثلاً: کوئی فزکس کی تیاری کر رہا ہو تو اس سے دل پر اثر نہیں پڑے گا۔ لیکن اگر وہ ناول یا کوئی ایسا افسانہ پڑھ رہا ہو تو اس کے پڑھنے سے دل پر اثر پڑے گا۔کیوںکہ اس میں نہ دنیا کا فائدہ ہے اور نہ دین کا۔ بس اس میں صرف ایک مزہ ہے۔ اور تقریباً وقت کا ضیاع ہے، پس اس کا اثر دل پر پڑتا ہے۔ ایسی صورت میں ایسی چیزوں کو avoid کرنا چاہئے۔

اور اگر کوئی کسی کے بارے میں برا سوچے تو برا سوچنے کی بھی ذرا تھوڑی سی limitations (حدود) ہیں کہ کیا اس نے اس کو تکلیف یا نقصان پہنچایا ہے یا ویسے ہی وہ اس کے بارے میں بری سوچ رکھتی ہے؟ اگر اس نے اس کو تکلیف یا نقصان پہنچایا ہو تو اس تکلیف وغیرہ کا احساس کرنے سے شرعاً کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوتا۔ البتہ اس کے جواب میں اگر وہ کوئی ایسی حرکت کرنے کا سوچ رہی ہو، جس کی شریعت میں ممانعت ہو تو اس سوچ کا دل پر اثر پڑے گا۔ کیونکہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

﴿لَا يُحِبُّ اللّٰهُ الۡجَــهۡرَ بِالسُّوۡٓءِ مِنَ الۡقَوۡلِ اِلَّا مَنۡ ظُلِمَ‌ؕ﴾ (النساء: 148)

ترجمہ: "اللہ اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کسی کی برائی علانیہ زبان پر لائی جائے، الا یہ کہ کسی پر ظلم ہوا ہو"۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)

لہٰذا اگر کوئی شخص کسی کے بارے میں ظاہراً زبان سے برا کہے تو اس کا یہ عمل اللّٰہ پاک کو پسند نہیں ہے۔ ہاں اگر اس کے اوپر ظلم کیا گیا ہو تو پھر یہ جائز ہے مثلاً: ایک مظلوم شخص ظالم کے بارے میں کہہ رہا ہو تو اس پر اللّٰہ جل شانہٗ اس کو قصور وار نہیں ٹھہراتے بلکہ اس کے مدد گار ہوتے ہیں۔ ایسی صورت میں اگر اس کے بارے میں برا سوچا بھی جائے تو شرعاً کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوتا۔ کیونکہ اس صورت میں جب برا کہنے سے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا تو پھر سوچنے سے بھی نہیں ہوتا۔ لیکن اگر کوئی ویسے کسی کے بارے میں کچھ برا سوچتا ہے، مثلاً: کسی نے اس کے ساتھ کوئی برا سلوک نہیں کیا، بس وہ ویسے ہی اس کو ناپسند ہے۔ چنانچہ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ان کو بعض لوگوں کے ساتھ مناسبت نہیں ہوتی اور وہ کسی کو ویسے اچھے نہیں لگتے۔ ایسے شخص کے بارے میں برا سوچنے سے فرق پڑے گا، اس سے اپنے آپ کو بچانا چاہئے، اور اس کے بارے میں خواہ مخواہ برا نہیں سوچنا چاہئے۔ کیونکہ اس وقت اس کا کوئی قصور نہیں ہے، مثلاً: کسی کی شکل ایسی ہے کہ آپ کو اچھی نہیں لگتی تو اگر آپ اس کے بارے میں سوچیں کہ یہ کیسا بد صورت ہے۔ تو اس کا آپ کو نقصان ہوگا۔ کیونکہ آپ خواہ مخواہ اپنے آپ کو ایسی چیز میں مبتلا کر رہے ہیں۔

اُمّہاتُ المومنین میں سے کسی نے ایک دفعہ امُّ المومنین حضرت امِّ سلمہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا کے بارے میں یہ الفاظ کہے کہ اس کا یہ عیب کیا کم ہے کہ اس کا قد چھوٹا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا کہ تو نے ایسی بات کی ہے کہ اگر اس کی تلخی کو ساتوں سمندروں میں ملا دیا جائے تو وہ بھی کڑوے ہوجائیں۔ یعنی ان الفاظ کو زبان سے کہنا برا تھا۔ اور جس چیز کو زبان سے کہنا برا ہو تو اس کو دل سے سوچنا بھی برا ہوگا۔ لہٰذا ہمیں نہ ایسا سوچنا چاہئے اور نہ ہی بولنا چاہئے۔ البتہ اگر ہم میں سے کسی پر ظلم ہوا ہو تو وہ مجبور ہے اور اس کے بولنے اور سوچنے پر اللّٰہ پاک اس سے ناراض نہیں ہوں گے۔ البتہ اگر ظلم سے زیادہ بولا یا سوچا تو پھر ایسا نہیں ہے۔ مثلاً: اگر کسی نے کسی کو دو تھپڑ مار دیئے تو وہ اگر اسے چار تھپڑ مارنے کا سوچ رہا ہو تو اس سے اس کو نقصان ہوگا۔ یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لیجئے۔

سوال نمبر 2:

حضرت! میری ایک class-fellow کے ابو کی آج death ہوگئی ہے۔ آپ سے پوچھنا یہ ہے کہ میں ان کے لئے کیا دعا مانگوں؟ اور جب کسی کی death ہوتی ہے تو اس کے لئے دعا میں کیا مانگنا چاہئے؟

جواب:

مرنے والا اگر مسلمان ہے تو سب سے بڑی بات ہے کہ اس کی مغفرت کی دعا مانگی جائے۔کیونکہ زندہ آدمی سب سے زیادہ ہدایت کا محتاج ہوتا ہے اور مردہ آدمی سب سے زیادہ مغفرت کا محتاج ہوتا ہے۔ اس لئے آپ ان کے واسطے مغفرت مانگیں، اور آخرت کے احوال میں ان کے لیے خیر مانگیں۔ اور مغفرت کی ایک جامع اور مسنون دعا ہے، جو ہم جنازے میں پڑھتے تھے:

"اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِحَيِّنَا وَمَيِّتِنَا وَصَغِيْرِنَا وَكَبِيْرِنَا وَذَكَرِنَا وَأُنْثَانَا، وَشَاهِدِنَا وَغَائِبِنَا، اَللّٰهُمَّ مَنْ أَحْيَيْتَهٗ مِنَّا فَأَحْيِهٖ عَلَى الْإِيْمَانِ، وَمَنْ تَوَفَّيْتَهٗ مِنَّا فَتَوَفَّهٗ عَلَى الْإِسْلَامِ، اَللّٰهُمَّ لَا تَحْرِمْنَا أَجْرَهٗ، وَلَا تُضِلَّنَا بَعْدَهٗ" (سنن ابی داود: 3201)

ترجمہ: "اے اللہ! ہمارے زندہ اور مردہ کی اور ہمارے چھوٹے اور بڑے کی اور مرد و عورت کی اور حاضر و غائب کی بخشش فرما، اے اللہ! ہم میں سے جس کو تو زندہ رکھے تو اس کو ایمان پر زندہ رکھ اور ہم میں سے جس کو تو موت دے تو اس کو اسلام پر موت عطاء فرما، اے اللہ! تو ہمیں اس کے اجر سے محروم نہ فرما اور ہمیں اس کے بعد گمراہ نہ فرما۔

یوں مختصر الفاظ میں دعامانگی جا سکتی ہے:

"اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لَهٗ وَلِجَمِیْعِ الْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ"

اور اگر مرنے والی عورت ہے تو اس کے لئے ان الفاظ میں دعا مانگی جا سکتی ہے،

"اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لَھَا وَلِجَمِیْعِ الْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ"

کیونکہ اس میں مغفرت کی دعا ہے اور مرنے والے کے لئے مغفرت کی دعا بہت اہم ہے۔

سوال نمبر 3:

میری ایک دوست نے مجھے کہا ہے کہ ان کی بھابی نے میرے لیے طواف کیا ہے۔ میں اس کی بات سمجھ نہیں سکی، آپ سے یہ پوچھنا ہے کہ اس کا کیا مطلب ہے؟

جواب:

اگر اس کی بھابی حج پر گئی ہیں اور اس نے آپ کے لیے طواف کیا ہے تو یہ ایصال ثواب ہے، اور ایصال ثواب زندہ کے لیے بھی کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ ہر نیک عمل کرنے پر انسان کو ثواب ملتا ہے اور چونکہ نفل عمل زائد ہوتا ہے اس لئے وہ کسی دوسرے کے لیے بھی کیا جا سکتا ہے۔ البتہ فرض اور واجب کا ثواب کسی اور کو نہیں دیا جا سکتا۔ کیونکہ انسان خود اس کا محتاج ہے۔ لیکن نفلی اعمال کا ثواب دوسرے کو دیا جا سکتا ہے اور اس کا ایصال ثواب کیا جا سکتا ہے، لہٰذا اگر کسی نے کسی کے لیے نفلی طواف کیا تو یہ ٹھیک ہے اور اس کا ثواب اس کو مل سکتا ہے، چنانچہ اگر کسی نے کسی کے لیے حج بھی کیا ہو تو اس کا بھی ایصال ثواب اس کے لیے ہوجاتا ہے، اور اگر کسی نے کسی کے لیے عمرہ کیا ہو تو اس کا بھی ایصال ثواب اس کے لئے ہوجاتا ہے، اور کسی نے کسی کے لیے دو رکعات نفل پڑھ لیں تو اس کا بھی ایصال ثواب اس کو ہوجاتا ہے۔ اور یہ ایصالِ ثواب صرف مردہ کے لئے ہی نہیں ہے بلکہ یہ زندہ کے لیے بھی ہوسکتا ہے۔ ہمارے ہاں بعض چیزیں مشہور ہیں اور شہرت کی وجہ سے ہمیں ان میں غلط فہمی ہوجاتی ہے، مثلاً ہم پشتو میں کہتے ہیں خدائے دې وبخښی جس کا اردو میں ترجمہ یہ ہے کہ "خدا اس کی مغفرت کرے" اور جس طرح لفظ مرحوم، یہ اکثر اردو میں مردہ کے لئے کہا جاتا ہے اور پشتو میں اس کی جگہ پشتو میں خدائے بخښلې کہا جاتا ہے۔

ایک دفعہ میں اپنے گاؤں میں گیا ہوا تھا، گاؤں میں ایک صاحب تھے جن کے بارے میں میرا خیال تھا کہ شاید وہ فوت ہوگئے ہیں۔ حالانکہ وہ فوت نہیں ہوئے تھے، وہ ہمارے سامنے آ رہے تھے، میں نے کہا کہ اللّٰہ پاک فلاں کی مغفرت کرے۔ میرے بھائی نے مجھے کہا کہ کیوں یہ دعا کرتے ہو کہ اللّٰہ پاک اس کی مغفرت کرے، وہ تو سامنے آ رہا ہے۔ حالانکہ مغفرت کی دعا تو زندہ کے لیے بھی کی جا سکتی ہے، یہ مغفرت کی دعا صرف مردہ ہی کے لیے نہیں ہے۔ لیکن ہمارے ہاں یہ مشہور ہوگیا ہے، اس لئے بھائی نے کہا کہ کیوں اللّٰہ تعالیٰ اس کی مغفرت کرے؟ وہ تو ہماری نظروں کے سامنے چلتا ہوا آرہا ہے۔ یہ عجیب کمال کی بات ہے۔ حالانکہ مغفرت کی دعا کی زندہ کو بھی ضرورت ہے۔ اس طرح بعض دفعہ بعض چیزیں کسی خاص موقعہ کے لئے مشہور ہوجاتی ہیں حالانکہ سب افراد کے لئے ان کا استعمال ٹھیک ہوتا ہے۔ پس اسی طرح اگر کسی نے کسی کے لیے طواف کیا، یا کوئی نفل نماز پڑھی، تو وہ اس کی طرف سے ادا ہوجاتی ہے اور اس کا ثواب اس کو پہنچ جاتا ہے۔

سوال نمبر 4:

حضرت! اشراق اور چاشت کا وقت کب ختم ہوتا ہے؟

جواب:

اگرچہ یہ سوال تصوف سے متعلق نہیں ہے لیکن چونکہ میں نمازوں کے اوقات کا حساب کرتا رہتا ہوں، اس لئے لوگ مجھ سے اس قسم کے سوالات پوچھتے رہتے ہیں۔ لہٰذا میں اس کا جواب دے دیتا ہوں۔

دراصل سورج طلوع ہونے کے ساتھ ہی مکروہ وقت شروع ہوجاتا ہے اور جب تک سورج اتنا بلند نہ ہو کہ اس کی طرف دیکھنا ممکن نہ رہے تو اس وقت تک مکروہ وقت رہتا ہے۔ کیونکہ جب سورج طلوع ہو رہا ہو اس وقت اگر کوئی اس کو دیکھنا چاہے تو دیکھ سکتا ہے، اس وقت اس میں اتنی روشنی نہیں ہوتی کہ دیکھنے والے کی آنکھیں چندھیانے لگیں، لیکن جب دیکھنے والے کی آنکھیں چندھیانے لگیں اور وہ سورج پر نظر نہ جما سکے تو سمجھیں مکروہ وقت گزر گیا اور اشراق کا وقت شروع ہوگیا۔ ہمارے علاقوں میں یہ وقت تقریباً 10 سے 12 منٹ تک ہوتا ہے، کم سے کم 10 منٹ اور زیادہ سے زیادہ 12 منٹ، لیکن چونکہ احتیاطاً ہم طلوعِ فجر کا وقت تقریباً 3 منٹ پہلے دکھاتے ہیں تو طلوعِ فجر کے 3 احتیاطی منٹ اور 3 اس کے اپنے احتیاطی منٹ، کل احتیاطاً 6 منٹ، پس یہ 6 احتیاطی منٹ اور مکروہ وقت کے زیادہ سے زیادہ 12 منٹ، دونوں کا مجموعہ 18 منٹ، اس وجہ سے ہمارے نقشوں میں مکروہ وقت 18 منٹ ہیں۔ پس اس وقت کے گزرنے کے بعد اشراق کا وقت شروع ہوجاتا ہے۔ باقی رہی یہ بات کہ ختم کب ہوتا ہے؟ اس کے بارے میں صحابیِ رسول حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ کا ایک اثر ہے، وہ فرماتے ہیں کہ ہم اشراق کی نماز اس وقت پڑھتے تھے جب مشرق کی طرف سورج اتنا بلند ہوجاتا جتنا کہ مغرب کی طرف عصر کے وقت ہوتا ہے۔ اس وقت تک اشراق کا وقت ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں گویا کہ سورج کی انتہائی بلندی ابتداءِ عصر کے وقت جتنی ہوتی ہے اتنی بلندی پر اگر سورج مشرق کی طرف صبح کے وقت پہنچ جائے تو کہ اشراق کا وقت ختم ہوگیا، یا دوسرے لفظوں میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ ابتداءِ عصر اور ابتداءِ مغرب کے درمیان کا وقت نکالیں کہ کتنا ہے؟ اس کو طلوع کے ساتھ جمع کریں تو اشراق کا اختتامی وقت معلوم ہوجائے گا۔ کیونکہ وہ عصر کے وقت کے برابر ہوتا ہے۔ اور اس کے بعد چاشت کا وقت شروع ہوجاتا ہے یعنی جیسے ہی اشراق کا وقت ختم ہوجاتا ہے تو اس کے بعد چاشت کا وقت شروع ہوتا ہے۔ کیونکہ حضرت علی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب سورج اتنا بلند ہوجاتا جتنا کہ ظہر کے وقت بلند ہوتا تھا تو ہم چاشت کی نماز پڑھتے تھے۔ یعنی جتنا ظہر سے غروب تک کا وقت ہے اتنا ہی طلوع کے بعد چاشت کا وقت ہے، اور یہ زوال کا وقت گویا کہ حدِّ فاصل ہے اور ہمارے نقشوں میں زوال کا احتیاطی وقت 4 منٹ ہے۔ زوال کا وقت 4 منٹ اور احتیاط کا وقت 4 منٹ، کل 8 منٹ ہوگئے۔ ظہر کا جو وقت ہم نے اپنے نقشوں میں لیا ہے، اس سے 8 منٹ پہلے چاشت کا وقت ختم ہوجاتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اشراق کا وقت جب ختم ہوجاتا ہے تب چاشت کا وقت شروع ہوجاتا ہے اور زوال شروع ہونے سے پہلے چاشت کا وقت ختم ہوجاتاہے۔

سوال نمبر 5:

حضرت! کھڑکیاں پردے بھی بند ہونے کے باوجود پڑوس سے گانے کی آوازیں آتی ہیں اور یہ دل پر اثر کرتی ہیں۔ ان سے کیسے بچا جائے؟

جواب:

ہمیں حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ نے فرمایا تھا کہ ایسے موقعوں پر "یَا ھَادِیْ" اور "یَا نُوْرُ" اور "لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰهِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ" پڑھنا چاہئے اور اپنے آپ کو کسی اور چیز میں مصروف کرنا چاہئے تاکہ اس کی طرف دھیان نہ جائے۔ اور اس کا صحیح علاج یہ ہے کہ وہ آلہ جو بسوں Daewoo وغیرہ میں سونے کے لیے ملتا ہے، کوکا سا ہوتا ہے، جسے سونے کے لئے لوگ کانوں میں لگا لیتے ہیں، اگر کسی کے پاس وہ ہو تو وہ بھی لگایا جا سکتا ہے۔ یہ بات میں اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا ہوں، بلکہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ اس وجہ سے میں یہ بتا رہا ہوں۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے کیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب بانسری کی آواز سنی تو دو انگلیاں اپنے کانوں میں اس وقت تک دیئے رکھیں جب تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا خیال رہا کہ شاید آواز آ رہی ہو، پھر حضرت عبد اللّٰہ بن عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے جو اس وقت بچے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیا ابھی بھی آواز آ رہی ہیں؟ جب انہوں نے کہا کہ اب آواز نہیں آ رہی ہے تو اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کانوں سے انگلیاں نکالیں۔ انگلیاں کانوں میں رکھنے سے انسان کے ہاتھ مصروف ہوجائیں گے، اس لئے یہ تدبیر تھوڑی دیر کے لیے کی جا سکتی ہے لیکن مسلسل زیادہ دیر تک یہ نہیں کی جا سکتی۔ البتہ زیادہ دیر تک کوکے کانوں میں ٹھوسے جا سکتے ہیں، اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ کیونکہ اس صورت میں دونوں ہاتھ کھلے ہوتے ہیں، بس اس میں صرف ایک یہ ہوگا کہ آپ گھنٹی کی آواز نہیں سن سکیں گی۔ اگر اس کا اندیشہ ہو کہ آپ گھنٹی کی آواز نہیں سن سکیں گی تو پھر اس وقت "یَاھَادِیْ" اور"یَا نُوْرُ" اور "لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰهِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ" پڑھتی رہا کریں۔

سوال نمبر 6:

آپ سے ازدواجی زندگی کے بارے میں رہنمائی لینا چاہتا ہوں کہ میرے بڑے بھائی کی بیوی کے تعلقات میری بیوی کے ساتھ کچھ اچھے نہیں ہیں، وہ بات بات پر اسے لعن طعن کرتی ہے۔ میں نے پوچھنا یہ ہے کہ اس صورت میں میں اپنی بیوی کو کس طرح سمجھاؤں؟ کیونکہ میں اپنے بھائیوں سے بھی الگ نہیں ہوسکتا۔

جواب:

سوال میں سائل نے یہ کہا ہے کہ بڑے بھائی کی بیوی میری بیوی کو تنگ کرتی ہے اور اسے لعن طعن کرتی ہے۔ جبکہ سوال جیسا کہ مجھے سمجھ آیا ہے، یہ ہے کہ سائل اپنی بیوی کو کیسے سمجھائے؟ یہ الٹا سوال ہوا۔ کیونکہ جو offence کر رہی ہے، سمجھانا تو اس کو چاہئے، اور جرم جیسا کہ سوال سے سمجھا جا سکتا ہے، سائل کی بھابی کا ہے۔ حقیقتاً کس کا جرم ہے؟ یہ مجھے معلوم نہیں، اس کا پتا اللّٰہ پاک کو ہے، لیکن سوال میں جو کچھ کہا گیا، اس کے حساب سے میں کہہ رہا ہوں کہ سائل کہہ رہا ہے کہ میرے بڑے بھائی کی بیوی کے تعلقات میرے بیوی کے ساتھ کچھ اچھے نہیں ہیں، وہ بات بات پر اسے لعن طعن کرتی ہے۔ غرض سائل کے بڑے بھائی کی بیوی اس کی بیوی کو تنگ کرتی ہے، اور لعن طعن کرتی ہے۔ سائل پوچھنا یہ چاہتا ہے کہ میں اپنی بیوی کو کس طرح سمجھاؤں؟

ایسی صورت میں سائل کو یہی کہا جا سکتا ہے کہ وہ صرف اپنی بیوی کو صبر کی تلقین کریں کہ آپ صبر کریں، اللّٰہ تعالیٰ آپ کو اس کا اجر دے گا اور مزید یہ کہے کہ آپ اس کے ساتھ حسن سلوک کریں تاکہ اس کا دل نرم ہوجائے۔ بس آدمی یہ کچھ کر سکتا ہے۔ بہرحال میں ایک بات کرتا ہوں شاید وہ لوگوں کو اچھی نہ لگے، بات یہ ہے کہ آج کل کے دور میں بھائیوں کا اکٹھا رہنا مناسب نہیں ہے۔ کیونکہ ہر بھائی کو بھابی سے پردہ ہوتا ہے اور بھائیوں کے اکھٹے رہنے کی صورت میں ان کا cross ہوتا ہے، جس سے ان کے لئے پردہ میں اچھی خاصی tension اور مشکل ہوجاتی ہے۔ اس لئے شریعت اس میں یہ کہتی ہے کہ بھائی علیحدہ ہوں تاکہ بھابھیوں کے ساتھ کم از کم ملنا جلنا نہ ہو اور اگر آپس میں بات چیت ہو تو وہ بھی پردے کے ساتھ ہو اور ضروری ہو، غیر ضروری نہ ہو۔ اس صورت میں پہلی شرعی بات یہ ہے، جس کا خیال رکھنا چاہئے۔ اور دوسری بات یہ کہ اس صورت میں آپ اپنی بیوی کو صرف صبر کی تلقین ہی کر سکتے ہیں۔ کیونکہ آپ کے سوال کے مطابق آپ بیوی کی طرف سے کوئی زیادتی نہیں ہے۔ وَاللّٰهُ اَعْلَمُ بِالصَّواب

سوال نمبر 7:

ہمارے یہاں یہ رواج ہے کہ جب کوئی حج پر جاتا ہے تو رشتہ دار ان کو دعوت کھلاتے ہیں، اور جب حج سے آ جاتا ہے تب بھی دعوت کھلاتے ہیں۔ کیا ان دعوتوں پر جانا چاہئے؟

جواب:

رواج رواج ہے اور اصول اصول ہے، میں رواج کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا، میں اصول بتا دیتا ہوں کہ اچھا یعنی بزرگوں کا طریقہ بھی یہ ہے کہ جو حج پہ جا رہا ہے، حج پر جانے سے پہلے وہ خود اپنے رشتہ داروں سے ملنے جائے، اور ان سے دعا لے اور اپنی تلخیوں کی ان سے معافی کرائے۔ کیونکہ وہ ایک سفر جا رہا ہے اور سفر میں پتا نہیں خود اس کو یا پیچھے رشتہ داروں کو کیا کچھ ہوسکتا ہے، لہٰذا اس نیت سے وہ ان کے پاس جائے۔ اور جب واپس آ جائے تو پھر لوگوں کو ان سے ملنے کے لیے آنا چاہئے۔ کیونکہ حاجی کی دعا قبول ہوتی ہے، لہٰذا واپسی پر لوگ اس سے اپنے لیے دعا کرائیں۔ یعنی روانگی سے پہلے وہ خود رشتہ داروں سے ملنے کے لیے جائے تاکہ وہ ان سے دعا لے اور معافی وغیرہ کرائے اور واپسی پر لوگ اس کے پاس آئیں اور اس سے اپنے لیے دعا کرائیں۔ کیونکہ حاجی کی دعا قبول ہوتی ہیں۔

جہاں تک دعوت کی بات ہے تو اگر وہ رسم و رواج نہ ہو تو دعوت قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن اگر یہ محض رسم و رواج ہو تو پھر ہم اس کی تائید نہیں کر سکتے۔

سوال نمبر 8:

حضرت! نئے سال کی جو مبارک باد دی جاتی ہے، اس بارے میں عرض ہے کہ یہ ہجری سال ہمارا یعنی اسلامی سال ہے، لیکن عیسوی سال پر کوئی تُک نہیں بنتا کہ ہم ایک دوسرے کو اس سال کی بھی مبارک باد دیں۔

جواب:

جب میں جرمنی میں تھا تو ایک دفعہ میری آفس کی سیکرٹری کو میرے کاغذات سے پتا چل گیا کہ میری تاریخ پیدائش کیا ہے، لہذا جب وہ تاریخ آئی تو اس نے مجھے مبارک باد دی، اس نے کہا: Happy birthday to you جس طرح وہ کہتے ہیں، اس طرح اس نے کہا۔ میں نے خاموشی اختیار کی اور میں نے کچھ نہیں کہا۔ اس نے کہا کیوں آپ مبارک باد قبول نہیں کرتے؟ میں نے کہا کہ ہمارا سن اور سال اور ہے، میں نے سوچا کہ اگر میں اسے کہوں کہ ہمارے ہاں Happy birthday کا کوئی تصور نہیں تو خواہ مخواہ ایک بحث چھڑ جائے گی۔ وہ لوگ چونکہ مسلمان نہیں ہیں، اس لئے ان کو اس چیز میں involve کیوں کیا جائے۔ البتہ سمجھانے کے لیے آسان سی بات یہ ہے کہ ہمارا سال اور ہے۔ اس طریقے سے میں نے اپنے آپ کو بچا لیا، ورنہ پتا نہیں کہ وہ کیک کاٹنے کا کیا کیا منصوبہ بنا لیتے۔

دراصل بات یہ ہے کہ عیسوی سال نہ مسلمانوں کا ہے، نہ عیسائیوں کا، یہ رومن سال ہے اور اس کے اندر بہت ساری خرابیاں ہیں۔ آپ ذرا اس کے مہینوں کے ناموں پر غور کریں۔ September یہ ساتواں مہینہ October آٹھواں مہینہ November، نواں مہینہ December دسواں مہینہ۔ کیا یہ واقعی اس طرح ہے کہ دسمبر دسواں مہینہ ہے، نہیں، بلکہ دسمبر بارواں مہینہ ہے، یہ کیوں؟ یہ اس لیے کہ پہلے یہ سال مارچ سے شروع ہوتا تھا اور فروری پر ختم ہوجاتا تھا، اسی وجہ سے فروری کے آخر میں lapse آیا، کیونکہ lapse سال آخر میں لگ سکتا ہے تاکہ کسی سال میں فرق نہ ڈالے، بلکہ وہ ایک اضافی دن ہو، وہ نہ اس میں فرق ڈالے، نہ اس میں فرق ڈالے۔ ایسا مہینہ فروری بن سکتا تھا، اور وہ مارچ سے شروع ہوتا تھا۔ پھر lapse سال تو انہوں نے برقرار رکھا لیکن سال جنوری سے شروع کیا۔ اس طرح ان کا سارا نظام درہم برہم ہوگیا۔ اور یہ جنوری، فروری، مارچ، اپریل، مئی، جون، 6 کے 6 مہینے دیوتاؤں کے نام پر ہیں اور یہ شیطانی نام ہیں اور جولائی Julissa کے نام پر ہے اور اگست Augustus بادشاہ کے نام پر ہے اور ستمبر، اکتوبر، نومبر، دسمبر وہ بھی اسی طرح ہیں۔

اس عیسوی سال کا سنِ ولادتِ عیسی علیہ السلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ ان کی پیدائش ستمبر کے لگ بھگ ہوئی تھی۔ ان کی ولادت کے ساتھ اس سال کا کوئی تعلق نہیں ہے، اور ہمارے لیے اس میں کوئی بھی تقدس چیز کی نہیں ہے، اس لئے ہم یہ کیوں منائیں؟ کیوں اس کو respect دیں؟ بس یہ چیز جبراً ہم پر مسلط کی گئی ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ اگر ہمارا اپنا شمسی سال ہو تو پھر ٹھیک ہے، لیکن یہ نہ تو ہمارا سن ہے اور نہ اس کے ساتھ ہمارا کوئی واسطہ ہے، چنانچہ ہم اپنوں کے رواج کی قدر نہیں کرتے تو دوسروں کے رواج کی ہم کیا قدر کریں؟ ابھی تھوڑی دیر پہلے یہ بات ہوگئی ہے۔ ہم دوسروں کے رواج کا کیوں خیال رکھیں؟ وہ کرسمس مناتے ہیں، Easter مناتے ہیں، تو کیا اب ان کے ساتھ پھر ہم کرسمس بھی منانا شروع کر لیں، Easter بھی منانا شروع کر لیں؟ نہیں، بلکہ یہ بس ان کی چیزیں ہیں، وہ کرتے رہیں، ہمارا ان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ اور ویسے بھی کسی غیر مسلم کی مشابہت خطرناک طرز ہے، ہمیں اس سے سختی کے ساتھ روکا گیا ہے، لہٰذا ہمیں ان کی چیزوں کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں۔ البتہ جو لوگ ان سے مرعوب ہوں اور احساس کمتری میں مبتلا ہوں، وہ یہ چیزیں کرتے رہتے ہیں، مثلاً: انگریز چونکہ ٹھنڈے ملک کے رہنے والے لوگ ہیں، لہٰذا جب یہاں برصغیر پاک و ہند میں انگریزوں کا دور تھا اور وہ یہاں ہمارے علاقے میں رہتے تھے تو ان کو سردی اتنی نہیں لگتی تھی۔ کیونکہ ہمارے علاقہ کی یہ سردی ان کے علاقوں کی سردی کے مقابلے میں کچھ نہیں تھی، لہٰذا وہ سردی میں برف بھی پی لیتے تھے اور کپڑے بھی ان کے معمولی قسم کے ہوتے تھے جیسا کہ اتنا زیادہ ان کو سردی کی پروا نہ ہو۔ احساس کمتری میں مبتلا ہمارے لوگ بھی ان کی طرح کرتے تھے اور اس سے وہ بیمار ہوجاتے تھے لیکن پھر بھی وہ ان کی طرح نقل کرتے تھے۔

حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں ٹرین میں جا رہا تھا، میں نے دیکھا کہ ایک دیسی انگریز نے اس طرح کے کپڑے پہنے ہوئے تھے اور اس وقت سردی کے دن تھے، اس کے پاس کوئی وافر چادر اور کمبل بھی نہیں تھا، جب رات کو سردی ہوگئی تو وہ ٹھٹھرنے لگا، حضرت فرماتے ہیں کہ میں نے اپنا کمبل اس کی طرف دیکھے بغیر تھوڑا سا اس طرف کیا تاکہ وہ اس کو تھوڑا سا اپنے اوپر ڈال لے۔ حضرت کہتے ہیں کہ اس نے بھی وہ غنیمت سمجھا اور اپنے اوپر ڈال لیا، لیکن حضرت کہتے ہیں کہ اس کے باوجود وہ اپنی حالت پر فخر کر رہا تھا۔ بعض لوگ ان کے ساتھ مشابہت کے لیے احساس کمتری کی وجہ سے منہ بھی ٹیڑھا کر کے بولتے ہیں۔ یہ احساس کمتری بری بلا ہے، اس میں جو لوگ مبتلا ہوجاتے ہیں تو وہ جس قوم کی برتری میں مبتلا ہوں، وہ اس سے ثقافتی شکست کھا چکے ہیں، وہ کبھی ان کے ساتھ مقابلہ نہیں کر سکتے۔ کیونکہ وہ اس قوم سے مرعوب ہو چکے ہیں، وہ لوگ کسی قوم کو شکست دے سکتے ہیں جو ان سے مرعوب نہ ہوں، جیسے افغانستان والے، وہ مرعوب نہیں ہوئے اور انہوں نے پوری دنیا کو للکار دیا، اور جو کسی قوم سے مرعوب ہوگئے ہوں تو انہوں نے شکست مان لی ہے، وہ ان سے کیا جنگ و مقابلہ کریں گے؟

سونیا گاندھی نے کہا تھا کہ اب پاکستان کو فتح کرنے کی ضرورت نہیں ہے، ہم نے ثقافتی طور پر پاکستان فتح کر لیا ہے۔ پس ہمیں ایسی چیزوں سے بچنا چاہئے۔

سوال نمبر 9:

حضرت! شیخ کے حقوق اور آداب کے حوالے سے کچھ تفصیل بتا دیں۔

جواب:

شیخ کے حقوق اور آداب کتابوں میں لکھے ہوئے ہیں، آپ کتابوں سے ان کو پڑھ لیں تو اچھا ہے، اگر میں خود بتاؤں تو میرے خیال میں یہ مناسب نہیں ہے۔

سوال نمبر 10:

حضرت! Telepathy کے بارے میں تھوڑا سی رہنمائی فرمائیں کہ یہ کیا چیز ہے؟

جواب:

Telepathy ایک فن ہے جو مشق اور ریاضت سے حاصل کیا جا سکتا ہے، اور یہ فن یہ ہے کہ انسان اپنے دماغ کی اتنی سی قوت کو استعمال کر کے کسی کا ذہن پڑھ لیتا ہے اور وہ اس کو message پہنچا سکتا ہے یا اس کے message کو read کر سکتا ہے۔ یہ Telepathy ہے، بہرحال یہ ایک فن ہے اور اس کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔

ہمارے مولانا حلیمی صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ نے ہمیں یہ واقعہ بتایا تھا کہ ایک صاحب آئے تھے جو اس فن کے ماہر تھے، وہ لوگوں کے دل کی باتیں معلوم کر لیتے تھے، کہتے ہیں کہ مجھے بھی لوگوں نے کہا کہ آپ بھی اس کے پاس چلیں، مولانا کہتے ہیں کہ میں چلا گیا لیکن وہ میرے ساتھ کچھ نہیں کر سکا، میں جب اس کے سامنے گیا تو اس نے کہا کہ آپ کا نام کیا ہے؟ مولانا کہتے ہیں کہ مجھے پتا چل گیا تھا کہ یہ میرے دماغ کو پڑھے گا، پس میں نے فوراً اپنے دماغ کو کسی اور چیز میں مصروف کردیا، صرف جمعرات کا دن جو میری پیدائش کا دن ہے، اس کی طرف میرا خیال رہا، اس صاحب نے صرف جمعرات کہا، اور مزید کوئی تاریخ نہیں بتا سکا، چنانچہ اس نے کہا کہ میں آپ کے دماغ میں اس وقت دنوں کو پڑھ نہیں کر سکا۔ کیونکہ انسان کا ذہن بیک وقت دو چیزوں کی طرف خیال نہیں کر سکتا، آپ ایک چیز کو سوچتے ہوئے کسی اور چیز کی طرف خیال کر لیں تو پہلی چیز آپ کے ذہن سے چلی جائے گی، اس فن میں یہ چیز ہے کہ انسان دوسرے کا ذہن پڑھ بھی سکتا ہے اور دوسرے کے دل، دماغ میں کوئی پیغام بٹھا بھی سکتا ہے، اگر وہ accept کرنے کے لیے تیار ہو تو پھر یہ کوئی مشکل کام نہیں، بہت آسان ہے، لیکن اگر وہ accept کرنے کے لیے تیار نہ ہو، جیسے حلیمی صاحب تیار نہیں تھے، تو پھر جنگ و لڑائی کی صورت دیکھنے کو ملتی ہے اور اس میں دیکھا یہ جاتا ہے کہ کون غالب آتا ہے؟ لیکن ہمیں اس فن کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ کیونکہ ہم لوگ یہ چیزیں کرنے کے لیے پیدا نہیں ہوئے، ہمیں اللّٰہ تعالی کے ساتھ اپنا تعلق بنانا چاہئے کہ اللّٰہ پاک کی بات ہم تک پہنچ جائے اور ہم اپنی دعا اللّٰہ تعالیٰ تک پہنچائیں، اس لئے ہمیں ان چیزوں میں نہیں پڑنا چاہئے۔

سوال نمبر 11:

حضرت! آپ نے یہ فرمایا کہ بھابھی کو اپنے شوہر کے بھائی سے پردہ کرنا چاہئے۔ میں یہ کہنا چاہ رہا ہوں کہ پردہ کس طرح ہوسکتا ہے؟ کیونکہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ میاں بیوی کے نکاح کے بعد عورت کے شوہر کا بھائی اس عورت کا بھائی بن جاتا ہے۔ کیا ہمیں اس سے بھی پردہ کرنا چاہئے؟

جواب:

جی بالکل پردہ کرنا چاہئے، اس کی وجہ یہ ہے کہ حدیث شریف میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا دیور سے بھی پردہ ہے؟ اس کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"اَلْحَمْوُ الْمَوْتُ" (صحیح البخاری: 5232)

ترجمہ: "دیور موت ہے"۔

یعنی وہ سب سے زیادہ خطرناک ہے، اس لحاظ سے اس سے ضرور پردہ کرنا چاہئے۔ دیور رشتہ دار نہیں، کیونکہ شریعت میں نسبی رشتوں کا اعتبار ہے، منہ بولے رشتوں کا اعتبار نہیں ہے، بلکہ شریعت میں منہ بولے رشتوں کا باقاعدہ توڑ کروایا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے منہ بولے رشتے کے اعتبار کو باقاعدہ توڑ دیا گیا ہے، چنانچہ حضرت زید رضی اللہ تعالی عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ بولے بیٹے تھے، ان کی شادی حضرت زینب رضی اللّٰہ تعالیٰ عنھا کے ساتھ ہوئی، اور کچھ عرصہ کے بعد حضرت زید رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنھا کو طلاق دے دی، اس وقت معاشرہ میں منہ بولے بیٹے کی بیوی کے ساتھ نکاح کو معیوب سمجھا جاتا تھا، اور اس معاشرہ میں اپنی بہو کے ساتھ کسی کی شادی نہیں ہوسکتی ہے، منہ بولا بیٹا ہونے کے لحاظ سے حضرت زینب رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بہو ہوئیں، لیکن باوجود اس کے کہ لوگ اس کو عیب سمجھتے تھے اللّٰہ پاک نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا کہ فیصلہ ہو چکا ہے اور آپ نے زینب رضی اللہ تعالی عنھا کے ساتھ نکاح کرنا ہے۔ اللہ تعالی کی طرف سے یہ نکاح کروایا گیا تاکہ یہ رسم ٹوٹ جائے اور انسانوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ منہ بولے رشتوں کی شریعت میں کوئی حیثیت نہیں ہے۔ ہمارے گاؤں وغیرہ میں بھی یہ رواج ہے کہ وہاں رہنے والے لوگوں میں بھی بہت سارے منہ بولے بہن بھائی ہوتے ہیں، ان میں پردہ وغیرہ کا لحاظ نہیں ہوتا، وہ حج کے لیے بھی ساتھ چلے جاتے ہیں۔ حالانکہ شریعت میں اس رشتہ کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

ہمارے معاشرہ میں ایک یہ بات غلط مشہور ہوگئی ہے اور دوسری یہ بات بھی غلط مشہور ہوگئی ہے کہ پیر سے پردہ نہیں ہوتا۔ حالانکہ شریعت میں پیر سے بھی پردہ کا حکم ہے۔ کیونکہ پیر سے عموماً کوئی نسبی رشتہ نہیں ہوتا، صرف ایک اصلاحی تعلق ہوتا ہے۔

سوال نمبر 12:

حضرت! لوگ کہتے ہیں کہ ڈاکٹر سے بھی پردہ کرنا چاہئے۔

جواب:

ڈاکٹر سے بھی پردہ کرنا چاہئے، البتہ ڈاکٹر کے سامنے ضرورت کے بقدر ستر کھولنے کی اجازت ہے، پس ڈاکٹر کو بقدر ضرورت جسم دکھانے کی اجازت ہے اس وقت جب کہ کوئی عورت ڈاکٹر نہ ہو، اور عورت ڈاکٹر کو بھی پردے کی جگہ بضرورت دکھائی جا سکتی ہے، ضرورت سے زیادہ دکھانا جائز نہیں، مثلاً: میرے جسم پر ایک جگہ دانہ تھا، میں نے جب ڈاکٹر کو دکھایا تو میں نے اس کے ارد گرد ساری جگہ کو cover کیا، صرف دانہ کی جگہ کو ظاہر کر کے ڈاکٹر کو میں نے دکھا دیا۔ کیونکہ اگر میں اس کو ارد گرد کا سارا حصہ دکھاتا تو جرم اور گناہ ہوتا، پس جتنا حصہ دکھانا required ہو، اتنا ستر دکھانے کی اجازت ہے، اس سے زیادہ حصہ دکھانے کی اجازت نہیں ہے۔ بہرحال یہ مسئلہ شریعت کے بنیادی مسائل میں سے ہے، اور اس میں اختیار کی بات نہیں ہے، مثلاً: بعض لوگ کہتے ہیں کہ ان عورتوں (بھابی وغیرہ) کو اس میں کوئی اعتراض نہیں ہے کہ ہم ان سے پردہ نہیں کرتے۔ وہ سمجھ لیں کہ اس میں ان عورتوں کا کوئی اختیار نہیں ہے، ان عورتوں سے پردہ کرنا اللّٰہ تعالیٰ کا حکم ہے، یہ انگریزوں والا اصول ہوگیا کہ rape اور عام چیز (زنا بالرضیٰ) میں فرق کر کے rape (کی سزا دیتے ہیں اور زنا بالرضیٰ کی سزا نہیں دیتے۔ یہ انگریزوں کا اصول ہے۔ ہمارا اصول یہ ہے کہ اس میں رضامندی ہو ہی نہیں سکتی، کیونکہ یہ اللّٰہ تعالی کا حکم ہے، لہٰذا اس میں ہمیں یہ اختیار نہیں ہے کہ ہم اس کے اندر تبدیلی کر لیں۔

بعض عورتیں جو اس کو relax (آسان لیتی) ہیں وہ جرم اور حرام میں مبتلا ہیں، ان کو اس کا اختیار نہیں ہے، انہیں اللّٰہ پاک کا حکم ماننا چاہئے اور اللّٰہ پاک نے جس طریقہ پر پردہ کا حکم فرمایا ہے، انہیں اسی طرح پردہ کرنا چاہئے، اور منہ بولے رشتوں پر بالکل بھروسہ نہیں کرنا چاہئے۔ آج کل کے دور میں جیسے حالات ہیں، حقیقی رشتوں پر بھی بہت مشکل سے بھروسہ کرنا پڑتا ہے، آج کل کے دور میں حقیقی رشتوں سے بھی احتیاط کا پہلو اختیار کرنا چاہئے، حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ایک دفعہ اپنے گھر کے باہر چہل قدمی کر رہے تھے، کسی نے ان سے پوچھا کہ حضرت! آپ کیوں گھر کے باہر گھوم رہے ہیں؟ گھر کے اندر کیوں نہیں جا رہے؟ حضرت عمر رضی اللہ تعالی نے فرمایا: اُمُّ المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنھا گھر میں آئی ہوئی ہے اور گھر میں وہ اکیلی ہیں، ان کے علاوہ گھر میں اور کوئی نہیں ہے۔ حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنھا حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی بیٹی تھیں، لیکن وہ احتیاط کی وجہ سے گھر سے باہر ٹھہرے ہوئے تھے۔ اس میں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے ہمیں زبردست اصول سمجھا دیا کہ احتیاط کے لیے یہاں تک کیا جا سکتا ہے، اور ہم لوگ تو ویسے ہی بہت زیادہ کمزور ایمان والے لوگ ہیں، ہمیں غایت درجہ احتیاط کرنی چاہئے۔

سوال نمبر 13:

حضرت! عشق مجازی میں آدمی مجاہدے اور ہر قسم کی مصیبتوں کو جھیلنے کے لیے خود تیار ہوجاتا ہے، اور اسی طرح عشق حقیقی میں ذکر اذکار سے انسان کے اندر استعداد پیدا ہوتی ہے کہ وہ مجاہدے کے لیے تیار ہوجاتا ہے، دونوں میں باہمی فرق کیا ہوا؟

جواب:

انسان مجاہدے کے لیے دو صورتوں میں تیار ہوسکتا ہے، ایک صورت یہ ہے کہ انسان کی عقل کامل ہو اور وہ عقل سے اس چیز کو اپنے لیے ضروری سمجھتا ہو اور اس چیز کے لیے جو تکلیف اٹھانی پڑے اس کو کم محسوس کرے، مثلاً: آپ نے دیکھا ہوگا کہ جو لوگ آپریشن کرواتے ہیں، وہ خود اس پیپر پر دستخط کرتے ہیں جو ہسپتال والے دیتے ہیں کہ اگر آپریشن کے دوران کچھ ہوگیا تو عملہ ذمہ دار نہیں ہوگا، حالانکہ اس پیپر پر یہ لکھا ہوتا ہے کہ میں بے ہوشی کی حالت میں ہر طرح کے آپریشن کے لیے تیار ہوں اور اگر آپریشن کے دوران کسی بھی قسم کی کوئی complication (پیچیدگی) یا موت واقع ہوجائے تو اس میں ڈاکٹر کو blame نہیں کیا جائے گا۔ آپریشن کروانے والا آدمی اس تحریر پر دستخط کردیتا ہے۔ کیونکہ اس کو پتا ہوتا ہے کہ اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے، اگر میں اس پر دستخط نہیں کروں گا تو میرا آپریشن نہیں ہوگا، اور operation آپریشن نہیں ہوگا تو میری بیماری دور نہیں ہوگی، جس کی وجہ سے مجھے مسائل در پیش رہیں گے، لہٰذا عقل کی وجہ سے وہ اس تحریر پر دستخط کرنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے اور خود اپنے ہاتھ سے اس تحریر پر دستخط کردیتا ہے۔ پس ایک صورت تو یہ ہے کہ انسان کی عقل کامل ہو اور وہ عقل کی وجہ سے مجاہدہ کے لیے تیار ہوجائے۔

اور دوسری صورت یہ ہے کہ جس کے لیے مجاہدہ کر رہا ہے، اس کے ساتھ اتنا تعلق ہو کہ انسان اس تعلق کی بنا پر مجاہدہ کر رہا ہو، بہرحال یہ چونکہ نفس کی اصلاح کے لیے مجاہدہ ہوتا ہے، دل کے لیے مجاہدہ نہیں ہوتا، اور نفس کی اصلاح کے لیے مجاہدہ آدمی عقل کی وجہ سے کرتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ اس میں میری اصلاح ہے، پس یہ مجاہدہ محبت کے لیے نہیں کیا جاتا، بلکہ محبت کے لیے ذکر کرایا جاتا ہے، ذکر کرتے ہوئے نیت یہ ہوتی ہے کہ اللّٰہ تعالی کی محبت حاصل ہوجائے اور مجاہدے میں یہ ایک نیت ہوسکتی ہے کہ نفس کی اصلاح ہوجائے۔ مجاہدہ اس لئے نہیں ہوتا کہ مجھے محبت ہوجائے بلکہ محبت سے یہ آسان ہوجاتا ہے، یہ محبت کے لیے کیا نہیں جاتا۔

سوال نمبر 14:

حضرت بہشتی زیور میں یہ لکھا ہے کہ نامحرم کو آنکھ سے دیکھنا آنکھ کا زنا ہے اور کان سے اس کا گانا سننا کان کا زنا ہے، یعنی یہ دونوں زنا کی قسمیں ہیں۔ اس بارے میں رہنمائی فرما دیں۔

جواب:

جتنے بھی senses (حواس) ہیں، ان کی اندر اگر کوئی حرام چیز جائے تو وہ حرام ہے۔ چاہے وہ حرام چیز دماغ یا سوچ کے اندر ہو، پس زنا سوچ میں بھی ہوتا ہے اور آنکھوں اور کانوں سے بھی ہوتا ہے اور سونگھنے سے بھی ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عورت کے لیے گھر سے باہر جاتے وقت عطر منع ہے، اور یہ ساری باتیں زنا کے مقدمات ہیں، اس سے بچاؤ کے لیے شریعت میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ عورتوں کے جو بال گر جاتے ہیں وہ بھی ستر ہے، ان کو بھی دفن کرنا چاہئے، ان کو آپ کھلا نہیں چھوڑ سکتے۔

سوال نمبر 15:

حضرت! دیور اور بھابھی کے پردہ کے متعلق جو مسئلہ بیان ہوا ہے، اس کے متعلق میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا اس مسئلہ میں یہ اجازت ہے کہ گھر کے تین portion (حصے) ہوں اور separate (الگ) ہوں، گھر میں آنا ایک راستہ سے ہو، لیکن وہ الگ الگ رہیں اور زیادہ میل جول نہ ہو۔

جواب:

میں نے صرف انتظامی طور پر یہ بات کی ہے کہ گھر علیحدہ علیحدہ ہوں، یہ شریعت کا حکم نہیں ہے، شریعت نے صرف پردے کا حکم دیا ہے، لہٰذا اگر بھابی وغیرہ پردہ کو manage کر سکتی ہے تو کوئی حرج نہیں ہے، لیکن جب آپ ایک ہی گھر میں اکٹھے رہ رہے ہوں تو اس صورت میں mixing (اختلاط) کی probability بہت بڑھ جاتی ہے، جبکہ پردہ شریعت کا حکم ہے اور اس پر عمل کرنا ضروری ہے، میں نے صرف سہولت کے لیے کہا کہ بھائیوں کا گھر علیحدہ ہو۔ ورنہ آدمی حرام میں مبتلا ہوجائے گا، علیحدہ گھر ہونا حرام سے بچنے کا آسان طریقہ ہے اور اکٹھے رہنے میں حرام سے بچنا مشکل ہے، یعنی میں نے یہ نہیں کہا کہ اکٹھے رہنا جائز نہیں ہے، بلکہ میں نے یہ کہا ہے کہ اکٹھے رہنے میں حرام سے بچنا مشکل ہے، پس اگر کوئی اس مشکل کو برداشت کر سکتا ہے اور اکٹھے رہتا ہے، تو ٹھیک ہے۔ مجھے ایسے تین بھائیوں کے بارے میں معلوم ہے جو تینوں مفتی ہیں اور میں نے ان کا واقعہ بھی کچھ عرصہ پہلے ساتھیوں سے بیان کیا تھا کہ وہ ایک ہی گھر میں رہتے ہیں، اور ان کا گھر میں باپردہ cross رہتا ہے، انہوں نے اس کو manage کیا ہوا ہے اور اس مشکل کو برداشت کیا ہوا ہے، یہ صورت سب لوگ اختیار کر سکتے ہیں، لیکن اس میں مشکل بہت ہے، ہر کوئی اتنا مجاہدہ برداشت نہیں کر سکتا ہے، لہٰذا عام آدمی اس کا ذمہ دار مذہب کو ٹھہرائے گا کہ مذہب پر عمل کرنا مشکل ہوگیا، حالانکہ مذہب نے کسی کو مشکل میں نہیں ڈالا، بلکہ انہوں نے خود اپنے لیے یہ مشکل کھڑی کی ہے۔

سوال نمبر 16:

حضرت! لطیفے جو لوگوں کی مجالس میں چلتے ہیں، ان میں قوموں کا نام لیا جاتا ہے، مثلاً: سکھ قوم کے ناموں سے وہ مشہور ہوتے ہیں، سکھ قوم ہو یا کوئی بھی غیر مسلم قوم ہو، ہم لطیفوں میں اس قوم کا مذاق تو نہیں اڑا سکتے۔

جواب:

یہ بالکل صحیح بات ہے کہ کسی قوم کو آپ برا نہیں کہہ سکتے۔ کیونکہ مِن حیثُ القوم کسی قوم میں اولیاء بھی ہوتے ہیں اور وہ بھی اس قوم میں آ جاتے ہیں، سکھ قوم میں بھی کچھ لوگ مسلمان ہوئے ہیں، چنانچہ مولانا عبید اللّٰہ سندھی رحمۃ اللّٰہ علیہ جو بہت بڑے عالم تھے، وہ پہلے سکھ تھے۔ ہمارے ہاں پشتو میں لطیفے زیادہ تر جولاہوں کے بارے میں ہوتے ہیں۔ حالانکہ وہ ایک profession (پیشہ) ہے، چنانچہ ابن منصور حلاج بہت بڑا ولی اللّٰہ تھا، حلاج ان کے نام کا حصہ ہے، اور حلاج جولاہے کو کہتے ہیں، اور حضرت عبد العزیز دباغ رحمۃ اللّٰہ علیہ ہیں، دباغ کپڑے رنگنے والے کو کہتے ہیں اور اور دباغ ان کے نام کا حصہ ہے، اسی طرح سے لوہار بھی ایک پیشہ ہے۔ یعنی ان کے ناموں کے ساتھ یہ القاب ہیں، اس میں کوئی عیب کی بات نہیں ہے، لیکن لوگوں نے ان کا مذاق بنا دیا ہے، یہ ٹھیک نہیں ہے۔

سوال نمبر 17:

حضرت! جب بے پردہ عورت نظر آ جاتی ہے تو عموماً ہوتا یہ ہے کہ لوگ آپس میں کہتے ہیں کہ توبہ، توبہ، بہت بے حیائی ہے۔ میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ ایسے موقع پر اس کی بجائے ہمیں کیا کرنا چاہئے، یعنی ہمیں دل میں کیا سوچنا چاہئے اور دل میں ہمارا reaction (ردِّ عمل) کیا ہونا چاہئے؟

جواب:

میں ایک بات بتاتا ہوں جس کی حقیقت اللہ تعالی ہی جانتے ہیں۔ البتہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے دوسرے آدمی سے کہا کہ آپ بڑے عقل مند آدمی ہیں، آپ نے عقل کہاں سے سیکھی؟ اس نے کہا کہ بے وقوفوں سے، اس نے کہا کہ عقل بے وقوفوں سے آپ نے کیسے سیکھی؟ اس نے کہا کہ بیوقوف جو کام کرتے تھے، میں وہ کام نہیں کرتا تھا۔ پس اچھا reaction یہی ہے کہ انسان خود اس میں مبتلا نہ ہو، اپنے آپ کو اس سے بچائے، یہ اس کا بہترین reaction ہے، ان کے بارے میں کچھ کہنے کے بجائے بہتر یہ ہے کہ اپنے آپ کو اس سے بچائے، چنانچہ صلحاء لوگ کہتے ہیں کہ اگر غصہ کرنا ہے تو اپنے نفس پہ کرو اور اگر سمجھانا ہے تو اپنے نفس کو سمجھاؤ۔ پس یہ صحیح بات ہے۔

سوال نمبر 18:

حضرت! جو لوگ اس بے حیائی وغیرہ میں مبتلا ہوں ان کے بارے میں ذہن میں کیا ہونا چاہئے؟

جواب:

ان کے لیے دعا کریں۔

سوال نمبر 19:

حضرت! بد نظری کرانے کے لیے شیطان کا ایک گر یہ بھی ہے کہ یار! بڑی بے حیائی ہے۔ اور زبان سے یہ الفاظ کہنے والا اپنی آنکھ سے اس بے حیائی کو دیکھ رہا ہوتا ہے۔

جواب:

آپ نے صحیح فرمایا۔ بعض لوگ اس طرح کرتے ہیں کہ غیر محرم کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ کیسے عجیب طریقے سے کھڑی ہوگئی، جبکہ اس کو دیکھ بھی رہے ہوتے ہیں، ان سے کوئی پوچھے کہ بھائی! تم پر کس کا پریشر ہے کہ تم اس کو دیکھ رہے ہو، بس ہم اس کا خیال رکھیں اور اپنے آپ کو اس سے بچائیں۔

سوال نمبر 20:

حضرت! قعدہ میں ہم تشہد یعنی ’’اَلتَّحِيَّاتُ لِلّٰهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ‘‘ پڑھتے ہیں، کیا اس کا یہی مطلب ہے کہ تمام قولی عبادتیں اور تمام فعلی عبادتیں، جن میں ہماری نمازیں اور روزہ بھی داخل ہیں اور تمام مالی عبادتیں، سب اللہ تعالی کے لئے ہیں۔ یعنی ہم یہ سب عبادتیں اللہ تعالی کے لئے کر رہے ہیں۔

جواب:

جی! بالکل، اس کا یہی مطلب ہے۔ تشہد یعنی ’’اَلتَّحِيَّاتُ لِلّٰهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ‘‘ دراصل ہمارے اپنے الفاظ نہیں ہیں بلکہ در حقیقت یہ واقعہ معراج کی حکایت ہے، جس کی ہمیں نماز کے اندر قعدہ کی حالت میں تعلیم دی گئی ہے۔ چنانچہ معراج کی شب اللّٰہ پاک نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اے محبوب! میرے لیے کیا لائے ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں کہا: ’’اَلتَّحِيَّاتُ لِلّٰهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ‘‘۔ اس پر اللّٰہ پاک کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا گیا: ’’اَلسَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهٗ‘‘۔ یعنی یہ اللہ پاک کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام تھا، اور اللہ پاک کو سلام کا جواب نہیں دیا جا سکتا تھا، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اَلسَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلٰى عِبَادِ اللهِ الصَّالِحِيْنَ‘‘۔ تب فرشتوں کے سردار جبرئیل امین علیہ السلام نے کہا: ’’أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهٗ وَرَسُوْلُهٗ‘‘۔

سوال نمبر 21:

حضرت! شیخ کے حقوق اور آداب کے موضوع پر کوئی کتاب تجویز فرما دیں۔

جواب:

تصوف کی کوئی بھی کتاب جو کسی نے عام تصوف کے بارے میں لکھی ہو، آپ لے لیں، اس میں یہ موضوع ضرور ہوگا، اس وجہ سے یہ موضوع کسی بھی کتاب سے دیکھا جا سکتا ہے، البتہ آج کل کے دور کے لحاظ سے حضرت صوفی اقبال صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کی کتاب فیضِ شیخ مناسب ہے، وہ آج کل کے لحاظ سے نسبتاً آسان زبان میں لکھی گئی ہے۔ کیونکہ وقت کے ساتھ ساتھ زبان میں بھی اثر پڑ جاتا ہے، پس یہ موضوع حضرت صوفی صاحب کی کتاب فیض شیخ سے پڑھ لیا جائے،

حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی کتاب شریعت و طریقت جو تصوف کے اوپر ایک مجموعہ (collection) ہے جس کا ایک خلاصہ بھی نکالا گیا ہے، اس میں بھی یہ موضوع ہے۔ اسی طرح حضرت گنگوہی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی کتاب امداد السلوک میں بھی شیخ کے حقوق بہت وضاحت کے ساتھ لکھے ہوئے ہیں، اور میری کتاب تصوف کا خلاصہ جو اگرچہ مختصر ہے اس میں اس کے متعلق اشارات ہیں۔

غرض کوئی بھی کتاب جو تصوف کے عنوان پر لکھی گئی ہو اور وہ کچھ جلدوں اور حصوں پر مشتمل ہو تو اس میں یہ ضرور ہوگا۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ