سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 79

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی


اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال نمبر 1:

ہم اصلاحِ نفس اور اصلاحِ قلب میں کئی سال لگا دیتے ہیں لیکن پوری طرح اصلاح نہیں ہوتی۔ جب کہ بعض لوگ جو ایمان کے لحاظ سے بظاہر بے دین یا گمراہ لگتے ہیں، اچانک کوئی ایسا واقعہ ہو جاتا ہے جیسے گستاخئ رسول کا یا اس طرح کا کوئی اور واقعہ رونما ہوتا ہے کہ اچانک ایک Trending point ہو جاتا ہے اور وہ کٹ مرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ آیا یہ اس کے لئے اللّٰہ کی طرف سے خصوصی مہربانی ہوتی ہے یا ایمان کے حوالے سے لا شعور میں کوئی ایسی چیز ہوتی ہے؟

جواب:

میں پہلے بھی کئی موقعوں پہ عرض کر چکا ہوں کہ ایک اصلاح سلوک کے ذریعے سے ہوتی ہے۔ سلوک میں درجہ بہ درجہ اصلاح ہوتی ہے، مثلاً تکبر کو نکالتے ہیں، عجب کو نکالتے ہیں، ریا کو نکالتے ہیں، ناشکری کو نکالتے ہیں، اس طرح تمام چیزوں کو آہستہ آہستہ نکالا جاتا ہے۔ یہ باقاعدہ ایک طریقہ ہے لیکن لمبا ہے، وقت زیادہ لیتا ہے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اللّٰہ جل شانہ کے ساتھ محبت ہو جائے، دنیا کی محبت دل سے نکل جائے، یہ مختصر طریقہ ہے، اس کو جذب کہتے ہیں۔ جذب میں یہ ہوتا ہے کہ انسان اللّٰہ تعالیٰ کا کوئی پسندیدہ کام کر لے، اس پہ اللّٰہ پاک جب خوش ہو جاتے ہیں تو اس کو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں۔ اس میں کچھ ایسے کام ہو سکتے ہیں جن سے انسان کو قلبی کیفیت حاصل ہو جائے۔ مثلاً کسی اللّٰہ والے سے ملاقات کی وجہ سے یا کسی کتاب کے پڑھنے کی وجہ سے یا کسی واقعے کے ہونے کی وجہ سے کوئی جذبی کیفیت پیدا ہو جائے، جس کی وجہ سے اللّٰہ جل شانہ اس کو آن کی آن میں ہزاروں سال کا فاصلہ طے کرا دیں، اس کو جذب کہتے ہیں۔ یہ چیز چونکہ باقاعدہ نہیں ہے لہذا اس کے اوپر ہم انحصار نہیں کر سکتے، لیکن یہ ایک حقیقت ہے۔ جیسے آپ نے دیکھا ہو گا کہ زیادہ تر آرٹس کے لوگ حکومت کرتے ہیں، کیونکہ حکومت میں جا کر ان کا اثر ہوتا ہے۔ لیکن لوگ آرٹس شوق سے بہت کم ہی پڑھتے ہیں، مجبوراً پڑھتے ہیں، زیادہ تر سائنس پڑھتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سائنس میں زیادہ کامیابی کی صورتیں نظر آتی ہیں بمقابلہ آرٹس کے۔ کیونکہ آرٹس میں مقابلہ زیادہ ہوتا ہے اور چانس بہت کم ہوتے ہیں، کبھی کبھی ہی کامیابی ہوتی ہے۔ اس وجہ سے اس طرف لوگ نہیں جاتے۔ اسی طرح سلوک کو چھوڑا نہیں جا سکتا لیکن جذب سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اگر کوئی جذبی کیفیت پیدا ہو جائے مثلاً آپ ﷺ کے ساتھ کسی چیز کی وجہ سے والہانہ محبت پیدا ہو جائے جس کی وجہ سے قربانی کا جذبہ پیدا ہو جائے اور اللّٰہ جل شانہ اس کو اپنی طرف کھینچ لیں، یہ نا ممکن نہیں ہے۔ یہ ایک جذبی کیفیت ہوتی ہے، اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ بہت سارے لوگ آن کی آن میں تھوڑے سے عرصے میں جذبی کیفیت کے ذریعے سے بڑے بڑے مقامات طے کر لیتے ہیں۔ جیسے اقبال رحمۃ اللّٰہ علیہ نے غازی علم الدین شہید رحمۃ اللّٰہ علیہ کے دفن کے وقت ان کے بارے میں فرمایا تھا: ’’اسی گلاں ہی کردے رہ گئے تے ترکھاناں دا منڈا بازی لے گیا۔‘‘ (ہم باتیں ہی بناتے رہے اور بڑھئی کا بیٹا بازی لے گیا)۔

لہذا جو لوگ سلوک طے کرتے ہیں ان کو بھی غلط نہیں کہا جا سکتا کیونکہ وہ باقاعدہ طریقے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ اس میں زیادہ تر کامیابی کا امکان ہوتا ہے۔ اور دوسرے لوگ جن کو اللّٰہ پاک ان کے کسی عمل کی وجہ سے کھینچ لیتے ہیں، اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ وہ بھی ایک حقیقت ہے۔

سوال نمبر 2:

خانقاہ میں خود بخود مراقبہ چلنے لگ جائے تو کیا یہ فیض ملنے کی نشانی ہوتی ہے یا شیخ کی آواز سن کر؟

جواب:

اچھا سوال ہے کیونکہ عملی چیز ہے۔ کافی لوگ بتاتے ہیں کہ یہاں پر آ کر یہ فائدہ محسوس ہوتا ہے۔ ابھی ہفتے کے دن جو ذکر ہوا تھا اس میں ایک نو وارد صاحب آئے ہوئے تھے، انہوں نے جاتے ہوئے کہا تھا کہ میں ذکر میں بڑی کوشش کرتا تھا لیکن وہ چیز نہیں آتی تھی، یہاں پر ذکر کرنے میں خود بخود وہ چیزیں مل گئی۔ در اصل خانقاہ کی برکات بھی ہوتی ہیں اور شیخ کے ساتھ مناسبت ہو تو اس کا فیض بھی اللّٰہ تعالیٰ دے دیتے ہیں۔ یوں دونوں چیزیں اپنے طور پہ کام کر سکتی ہیں۔ مثلاً شیخ موجود نہ ہو، جیسے میں حج کے موقع پہ حرمین شریفین میں تھا تو یہاں خانقاہ میں لوگ آتے تھے، ان کو بھی فائدہ ہوتا تھا، وہ خانقاہ کی برکت تھی۔ دوسری بات یہ ہے کہ شیخ کی مجلس یا اس کی توجہ سے بھی فائدہ ہوتا ہے۔ دونوں چیزیں اپنے اپنے فائدوں کے لحاظ سے اہم ہیں۔

سوال نمبر 3:

اگر اپنے شیخ کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کا موقع مل جائے تو اس صورت میں کیا شیخ کے قلب کی طرف متوجہ ہونا چاہئے یا ذکر کرتے رہنا چاہئے؟

جواب:

بزرگوں سے یہی سنا ہے کہ اگر شیخ موجود ہو تو شیخ کے قلب کی طرف متوجہ ہونا چاہئے، تصور کرنا چاہئے کہ جو فیض اللّٰہ پاک کی طرف سے میرے شیخ کے دل میں آ رہا ہے وہ ان کے دل سے میرے دل کی طرف آ رہا ہے۔ کہتے ہیں: یہ زیادہ اہم ہیں۔ کیونکہ اس سے اصلاح ہوتی ہے اور اصلاح فرض عین ہے، فرض عین کا جو مقدمہ ہوتا ہے وہ ذہن کو بڑھاتا ہے۔ اور وہ اسی لحاظ سے اہم ہوتا ہے۔ اس وجہ سے بزرگوں سے سنا ہے کہ اپنا لسانی ذکر روک کر شیخ کے قلب کی طرف متوجہ ہونا چاہئے۔ حضرت مولانا غلام محمد صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ جو سید سلیمان ندوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے مرید ہیں، حضرت کے آخری ایام میں حضرت کے پاس موجود تھے، نقشبندی سلسلے کے کوئی شیخ حضرت ملنے کے لئے آئے، کہتے ہیں کہ وہ میرے ساتھ باتیں کر رہے تھے کہ باتیں کرتے کرتے اچانک مراقب ہو گئے، میں حیران ہو گیا کہ کیا عجیب حرکت ہے، انسان بتا دے کہ میں مراقبہ کرنا چاہتا ہوں، یہ تو دوسرے آدمی کی توہین ہے کہ آپ ان سے باتیں کرتے کرتے آنکھیں بند کر لیں اور مراقب ہو جائیں۔ کہتے ہیں میں نے سوچا کہ یہ شیخ کے ساتھ بیٹھے ہیں اس کا تو کم از کم انہیں خیال رکھنا چاہئے تھا۔ اس وجہ سے مجھے دل میں ذرا گلہ ہو گیا۔ بعد میں انہوں نے معذرت کر لی کہ معافی چاہتا ہوں میں آپ کو بتا نہیں سکا۔ در اصل اچانک مجھے تنبیہ ہوئی کہ تم سید صاحب کے دل کی طرف کیوں نہیں دیکھتے؟ میں نے سید صاحب کے دل کی طرف دیکھا تو ان پہ انوارات کی بارش ہو رہی تھی، میں نے بھی فوراً آنکھیں بند کر لیں کہ مجھے بھی انوارات میں سے حصہ مل جائے۔

حضرت سید احمد شہید رحمۃ اللّٰہ علیہ کے سوانح میں ہے کہ ان کے ایک خلیفہ تھے مولانا عبد الحئی صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ، جو بہت نازک مزاج تھے۔ ناز و نعم میں پلے ہوئے تھے، ان کے والد صاحب بڑے امیر آدمی تھے۔ جس مدرسے میں جاتے تھے اس کے دو دروازے تھے، ہر دروازے پہ تانگہ کھڑا ہوتا تھا، تاکہ اگر یہ کسی بھی دروازے سے بھی باہر آئیں تو انہیں دوبارہ دوسرے دروازے کی طرف نہ جانا پڑے۔ پھر جب سید صاحب جہاد پہ چلنے لگے تو انہوں نے اپنے والد صاحب سے کہا کہ مجھے آپ اجازت دیں کہ میں بھی جاؤں۔ وہ کب ان کو اجازت دے سکتے تھے۔ انہوں نے روک دیا اور رک گئے اور یہ غم سے زمین پر لوٹ پوٹ ہونے لگے۔ لوگوں نے ان کے والد سے کہا کہ خدا کے بندے! اس کو اجازت دے دو ورنہ یہ یہاں مر جائے گا۔ اگر آپ ڈرتے ہیں کہ وہاں شہید ہو جائے گا تو یہ زیادہ اچھی بات ہے کیونکہ یہاں یہ غم سے مر جائے گا، آپ اس کو کیوں نہیں چھوڑتے۔ وہ مجبور ہو گئے اور ان کو چھوڑ دیا۔ انہوں نے اپنی سواری لی اور جلدی جلدی جا کے حضرت کو پالیا۔ چونکہ نازک مزاج تھے تو دین کی بات پر غصہ ہو جاتے تھے، ان کا غصہ بھی اللّٰہ کے لئے ہوتا تھا۔ ان کے بارے میں آتا ہے کہ جب کبھی غصہ ہوتے مثلاً کسی کی شلوار ٹخنوں سے نیچے ہوتی یا کوئی اور اس طرح کی بات ہوتی تو ان کو غصہ آ جاتا تھا، جب غصے سے میں بات کر رہے ہوتے تو سید احمد شہید صاحب رحمۃ اللہ چپ چاپ ان کے پیچھے کھڑے ہو جاتے۔ حضرت سے کسی نے پوچھا کہ آپ کیوں ان کے پیچھے چپ چاپ کھڑے ہو جاتے ہیں؟ فرمایا: ان کا غصہ اللّٰہ کے لئے ہوتا ہے اور اس وقت اللّٰہ پاک کی خصوصی رحمت ان کی طرف متوجہ ہوتی ہے۔ اس لئے میں بھی اس میں سے اپنا حصہ لینا چاہتا ہوں لہذا میں بھی پیچھے کھڑا ہو جاتا ہوں تاکہ مجھے بھی اس میں سے حصہ مل جائے۔ مقصد یہ ہے کہ یہ نعمتیں ہوتی ہیں، نعمتوں سے انسان فائدہ اٹھا سکتا ہے۔

سوال نمبر 4:

شیخ کے قلب کی طرف متوجہ ہونے کا کیا طریقہ ہے؟ اگر مجلس میں ایک گھنٹہ کا موقع ہو تو بار بار قلب کی طرف متوجہ ہونے سے خود ہی فائدہ ملتا رہتا ہے؟

جواب:

متوجہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو یہ کیفیت یاد رہے کہ شیخ کے قلب سے میری طرف فیض آرہا ہے۔ اس کا وظیفہ نہیں کرنا ہوتا کہ شیخ کے دل سے فیض آرہا ہے، شیخ کے دل سے فیض آرہا ہے، بلکہ اس چیز کو ذہن میں ازبر یاد رکھنا ہوتا ہے کہ اس طرح ہو رہا ہے۔ جتنی زیادہ توجہ اس طرف ہو گی اتنا زیادہ فائدہ ہو گا۔

سوال نمبر 5:

نیکی کی طرف آنے کا حکم اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، مگر جب کوئی بھی نیکی ہو جائے تو اس کے بعد یہ احساس ہوتا ہے کہ انسان اس میں بے بس ہے، اگر اللّٰہ کا حکم نہ ہوتا تو نیکی نہ ہو سکتی۔ ان دونوں کو واضح فرما دیں کہ نیکی کرنی بھی خود ہے مگر انسان بس بھی ہے۔

جواب:

اللّٰہ جل شانہ نے انسان کو جتنا اختیار دیا ہوا ہے اتنے اختیار کا انسان مکلف ہے۔ مثال کے طور پر جب آپ گاڑی میں چابی لگاتے ہیں اور پھر آپ ایکسلیریٹر پہ پاؤں رکھتے ہیں تو کیا خیال ہے آپ کے پاؤں میں اتنی طاقت ہے کہ وہ گاڑی کو لے جائے گا؟ ظاہر ہے پورا ایک سسٹم ہے۔ یا پاور سٹیرنگ کی مثال لے لیں کہ بڑی بھاری گاڑی کو آپ بہت آسانی کے ساتھ سٹیرنگ گھما کے موڑ لیتے ہیں، جس کا سٹیرنگ کے بغیر آپ تصور بھی نہیں کر سکتے۔ گویا یہ ایک سسٹم ہوتا ہے اور ایک آپ کا ایکشن ہوتا ہے، آپ کے ایکش سے وہ کام ہو رہا ہوتا ہے۔ اسی طرح جب آپ کسی کام کا ارادہ کرتے ہیں تو اس ارادے کے ساتھ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کو شامل کرتے ہیں اور وہ کام ہو جاتا ہے۔ اب یہ کام اللّٰہ کی طرف سے بھی ہے اور آپ کی طرف سے بھی ہے۔ آپ کی طرف سے اس لئے ہے کہ آپ نے اس کا ارادہ کیا اور اللّٰہ تعالی نے اس مسئلے میں جتنا آپ کو اختیار دیا تھا وہ آپ نے استعمال کیا جس سے وہ کام ہو گیا۔ کام کیا تو اللّٰہ نے ہے لیکن آپ کی طرف سے سمجھا جائے گا کیونکہ آپ اپنے ارادے کے مکلف ہیں۔ یہ ارادہ برائی کا بھی ہو سکتا تھا۔ مثلاً جب کوئی برائی کا ارادہ کر لیتا ہے تو وہ کام بھی خدا ہی کرتا ہے، خدا اگر نہ چاہے تو انسان برائی بھی نہیں کر سکتا۔ لیکن وہ آپ کی طرف سے سمجھی جائے گی۔ اس کی نسبت آپ اللّٰہ کی طرف نہیں کر سکتے۔ اللّٰہ تعالی کی طرف نسبت کرنا بے ادبی ہے۔ چنانچہ انسان کو اللّٰہ تعالی نے جتنا بھی اختیار دیا ہے اگر وہ اسے برائی کے لئے استعمال کر سکتا ہے تو اچھائی کے لئے بھی استعمال کر سکتا ہے۔ جو اچھائی کے لئے استعمال کرے گا اس کو نیکی ملے گی اور جو برائی کے لئے استعمال کرے گا اس کو گناہ ملے گا۔

سوال نمبر 6:

اذان سن کر لوگ بیٹھ جاتے ہیں۔ یہ کہاں سے ثابت ہے، کیا ایسا کرنا چاہئے؟ خاص طور سے مغرب کے وقت کہتے ہیں کہ اذان ہو تو بیٹھنا چاہئے، باقی اذانوں میں یہ نہیں ہے۔ کیا ایسے کرنا چاہئے یا نہیں؟

جواب:

بیٹھنے کے متعلق تو میں کچھ نہیں عرض کر سکتا کیونکہ میرے خیال میں لوگوں نے یہ اپنی طرف سے بنا لیا ہے۔ البتہ اذان میں تمام کاموں کو روک دینا چاہئے۔ مثلاً آپ باتیں کر رہے ہیں تو باتیں روک دیں۔ چل رہے ہیں تو چلنا روک دیں یا اور کوئی اس طرح کا کام کر رہے ہیں تو اس کو روک دیں۔ بہر حال جو کام متعدی نہیں ہے وہ روک دیں، متعدی سے مراد یہ ہے کہ آپ کوئی دین کا درس دے رہے ہیں تو اس کو روکنے کا حکم نہیں ہے، لیکن رک جائیں تو بہتر ہے، حکم نہیں ہے، نہیں رکے گا تو گناہ گار نہیں ہے۔ لیکن اگر اذان ہو رہی ہو اور کوئی باتیں کر رہا ہے اور اسے اس کی پروا نہیں ہے تو یہ بہت بڑی محرومی ہے اور اللّٰہ جل شانہ کی طرف سے ایک بہت بڑے انعام کی ناقدری ہے۔ کیونکہ اذان شعائر اللّٰہ میں سے ہے اور شعائر اللّٰہ کے تعظیم دلوں کے تقوی سے ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَ مَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآىِٕرَ اللّٰهِ فَاِنَّهَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ﴾ (الحج: 32)

ترجمہ: ’’اور جو شخص اللہ کے شعائر کی تعظیم کرے، تو یہ بات دلوں کے تقوٰی سے حاصل ہوتی ہے۔‘‘

لہذا جو اذان کی تعظیم کرتے ہیں ان کے دل میں تقویٰ ہے، ان کے دل کی تقویٰ کی گواہی دی جا سکتی ہے۔ مجھے یہ دیکھ کر بڑی خوشی ہوتی ہے کہ جب اذان ہو رہی ہوتی ہے تو بعض عورتیں اپنے سر پہ دوپٹہ رکھ لیتی ہیں، حالانکہ دوپٹہ ویسے بھی رکھنا چاہئے، اس کا اذان کے ساتھ تعلق نہیں ہے۔ لیکن کم از کم اس اذان کے لئے response تو دے دیا۔ کہتے ہیں کہ ایک خاتون کی بخشش اس پر ہوئی کہ وہ بیت الخلاء جا رہی تھی تو اذان شروع ہو گئی، وہ اس وقت تک بیت الخلاء کے اندر نہیں گئی، باہر کھڑی رہی جب تک اذان ختم نہیں ہوئی۔ اذان ختم ہونے کے بعد گئی۔ اسی پر اللّٰہ پاک نے اس کو بخش دیا کہ اس نے اذان کا احترام کیا ہے۔ بزرگوں نے فرمایا ہے کہ اذان کے ادب سے اللّٰہ تعالی حسنِ خاتمہ نصیب فرما دیتا ہے۔ لہذا ہمیں یہ موقع بار بار مل رہا ہے۔ میرے خیال میں بیٹھنے والی بات صرف مصروفیات کو روکنے کے مترادف سمجھ کر لوگوں نے کی ہو گی، جو کہ بری نہیں ہے، اسی کے ضمن میں لوگوں نے کہا ہو گا۔

سوال نمبر 7:

کیا گناہ کبیرہ کے ارتکاب کے بعد تجدیدِ بیعت کی ضرورت ہے؟

جواب:

اپنے شیخ کو بتا دیں کہ کیا ہوا ہے۔ اس کے بعد اگر وہ ضرورت سمجھے تو تجدید بیعت کر لیں اور اگر وہ سمجھے کہ اس کی ضرورت نہیں ہے تو پھر نہ کریں۔

سوال نمبر 8:

معمولات کے مسلسل ناغے کر کے واپس معمولات پر کیسے آیا جا سکتا ہے؟

جواب:

معمولات میں ناغے نقصان کی بات ہے۔ ناغے چاہے کسی وجہ سے بھی ہوں، محرومی تو ہو گئی جس کی وجہ سے نقصان ہو گیا۔ اب اگر احساس ہو گیا کہ میرا نقصان ہوا ہے تو اس نقصان سے بچنے کے لئے فوراً اپنے معمولات شروع کرنے چاہئیں۔ اللّٰہ پاک سے دعا بھی کرنی چاہئے کہ اللّٰہ پاک معمولات پر استقامت نصیب فرمائے۔ اور اس ناغے سے جو تجربہ ہوا کہ یہ ناغہ کس وجہ سے ہوا ہے، اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان چیزوں کو پھر نہ کریں جس کی وجہ سے ناغہ ہوا۔ جیسے کہتے ہیں حادثہ تو ہو ہی جاتا ہے لیکن حادثے کے ساتھ ایک تجربہ بھی حاصل ہوتا ہے۔ مثلاً میرا ہاتھ فریکچر ہو گیا تھا، جو ایک حادثہ تھا، لیکن جس وجہ سے وہ ہوا تھا وہ مجھے یاد ہے۔ لہذا میں بہت خیال رکھتا ہوں کہ جب سیڑھیوں کے اوپر پانی پڑ جاتا ہے تو وہاں میں بڑا محتاط ہو کر اور قدم جما کر جاتا ہوں، کیونکہ مجھے تجربہ ہو گیا کہ اس سے نقصان ہوتا ہے اور آدمی اتنے مہینے پریشانی کا شکار ہوتا ہے، کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ لہذا مجھے ہمیشہ کے لئے سبق مل گیا۔ کہتے ہیں: ’’دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے۔‘‘ اس لئے جب کبھی اس قسم کی بات ہو تو دیکھ لیں، تجزیہ کر لیں کہ کس وجہ سے یہ ناغے ہوئے ہیں، اس تجزیے کے بعد جو نتیجہ سامنے آئے اس کو اپنے اوپر لاگو کریں تاکہ آئندہ ناغے نہ ہوں۔ اس سے فائدہ اٹھائیں۔

سوال نمبر 9:

کیا بہت عرصہ ناغوں کے بعد اصلاح کا کام دوبارہ نئے سرے سے یعنی پہلے سبق سے شروع کیا جا سکتا ہے؟

جواب:

اس بارے میں شیخ کو اپنے حالات بتا کر ان سے مشورہ کیا جائے کہ کتنے ناغے ہوئے، کیسے ہوئے ہیں، تفصیل کے ساتھ شیخ کو بتائے۔ شیخ اسی لئے ہوتا ہے۔ شیخ بتا دے گا کہ کہاں سے شروع کرنا ہے۔ بجائے اس کے کہ خود فیصلہ کرے یہ فیصلہ بھی شیخ پر چھوڑ دے۔ بہر حال اس کا کوئی عمومی حل نہیں ہے یہ Face to face vary کرتا ہے، Man to man vary کرتا ہے۔

سوال نمبر 10:

استقامت اختیار کرنے کے لئے کیا کرنا چاہئے؟

جواب:

در اصل استقامت کیا ہوتی ہے؟ ایک پکا ارادہ اور دوسرا عمل پیہم۔ جیسے کہا جاتا ہے؎

ارادے جن کی پختہ ہوں نظر جن کی خدا پر ہو

تلاطم خیز موجوں سے وہ گھبرایا نہیں کرتے

صرف ارادے سے کام نہیں ہوتا۔ صرف ارادہ کریں عمل نہ کریں تو وہ تمنا ہے ارادہ نہیں ہے۔ ارادے کے ساتھ ہی عمل شروع کر لیں اور اس عمل کو باقی رکھنے کے لئے جو لوازمات ہیں ان کو پورا کر لیں۔ لوازمات سے مراد یہ ہے کہ جن جن چیزوں کی وجہ سے وہ عمل رک سکتا ہے ان چیزوں کو اور زیادہ ذہن میں رکھیں، ان کو نہ ہونے دیں اور جن چیزوں کی وجہ سے وہ عمل بہتر ہو سکتا ہے، ان چیزوں کو سامنے رکھے اور ان پر عمل کرے، استقامت نصیب ہو جائے گی۔ یہ کوئی ایسا طریقہ نہیں ہے کہ آپ نے کوئی گولی کھا لی اور کام ہو جائے گا۔ یہ گولی والا طریقہ نہیں ہے۔ اس میں انسان کو اپنی قوتِ ارادی استعمال کرنی پڑتی ہے، قوتِ ارادی کی مشق کرنی پڑتی ہے اور ساتھ ساتھ عمل کرنا پڑتا ہے۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ بعض لوگ ارادے بڑے بڑے کر لیتے ہیں لیکن عمل کی طرف نہیں آتے، جب عمل کا موقع آتا ہے تو اپنے آپ کو گنجائشیں دینے لگتے ہیں کہ یہ وجہ ہے، یہ وجہ ہے۔ اس سے بڑا نقصان ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے کام رہ جاتا ہے۔ لہذا جو ارادہ ہو اس کے مطابق کام کریں اور عمل میں سسی نہ کریں، ورنہ پھر آہستہ آہستہ انسان سست ہو کر بہت دور جا سکتا ہے۔ سستی کا علاج چستی ہے اگر سستی ہو تو اس کے مقابلے میں چستی ہونی چاہئے تاکہ سستی کا نقصان نہ ہو۔

سوال نمبر 11:

کسی بزرگ نے کسی کے لئے کوئی تعزیت لکھوائی تو اس میں لکھا کہ آپ کے بیٹے کے مرنے سے بہت دکھ ہوا۔ پھر فرمایا کہ یہ ’’بہت‘‘ والے لفظ کو نکال دو۔ کیا بات کی! سچائی کے حوالے سے اتنی احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔

جواب:

اصل میں بزرگوں کو تو بہت کچھ کا خیال رکھنا ہوتا ہے، کیونکہ وہ مقتدا ہوتے ہیں اور مقتداؤں کو لوگ دیکھتے ہیں۔ حضرت مولانا نور محمد جھنجھانونی رحمۃ اللّٰہ علیہ حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کے شیخ تھے، ان کو کسی نے سماع پہ بلایا، جائز سماع یعنی شعر خوانی کے اشعار کے سماع کے لئے بلایا۔ حاجی صاحب بھی چشتی تھے، ان کے شیخ بھی چشتی تھے اس کے باوجود حضرت نے فرمایا چونکہ لوگ مجھے کبھی کبھی مسجد میں نماز کے لئے امام بنا لیتے ہیں اور کچھ علماء نے بوجوہ جائز سماع میں بھی اختلاف کیا ہے، چونکہ مسئلہ اختلافی ہے لہذا مجھے اس سے بچنا چاہئے، اس لئے نہیں گئے۔ حالانکہ اس میں گنجائش تو تھی، لیکن اس گنجائش کو حاصل نہیں کیا۔ اس وجہ سے سچائی بہرحال مطلوب ہے لیکن جس درجے کی بات آپ پوچھ رہے ہیں وہ بزرگوں کا درجہ ہے، وہی اس کو نبھا سکتے ہیں۔ کیونکہ عام لوگوں کو تو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ میری بات کا کیا مطلب لیا جائے گا یا میں جو لکھ رہا ہوں اس کا مطلب کیا لیا جائے گا، عام لوگوں کو اس کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ یہ احساس ہی اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت کو ان تمام چیزوں کا احساس تھا، اور وہ یہ کر سکتے تھے۔ جیسے ہم بعض دفعہ کہتے ہیں کہ مجھے آپ سے بہت محبت ہے، یہ حضرات اس طرح بھی نہیں کہتے، کیونکہ یہ دل کی کیفیت کا اظہار ہے، اگر دل کی وہ کیفیت نہ ہو تو یہ صدق نہیں ہو گا۔

ایک حدیث ہے جسے حدیث مسلسل بالمحبۃ کہتے ہیں۔ جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل سے فرمایا: ’’میں تم سے محبت کرتا ہوں۔ چنانچہ تم یہ کہا کرو: ’’یا اللہ مجھے اپنے ذکر اور شکر اور اچھی طرح عبادت کرنے کے لئے میری مدد فرما۔‘‘ پھر حضرت معاذؓ نے اپنے شاگرد کو یہی جملہ کہہ کر یہ حدیث سنائی اور یہ سلسلہ آج تک اسی طرح چلا آ رہا ہے کہ حضرات اپنے شاگرد کو یہ کہتے ہیں: ’’مجھے آپ سے محبت ہے‘‘۔ لیکن حضرات ہر ایک کو اس طرح نہیں کہتے، صرف ان کو کہتے ہیں جن کے ساتھ واقعی محبت ہوتی ہے۔ یوں ان کو حدیث شریف کی سند بھی مل جاتی ہے۔

سوال نمبر 12:

اس میں حضرت جھوٹ اور مبالغہ آرائی اور سچ، کیا ہے؟

جواب:

اس میں تفصیلات ہیں۔ اس کو جھوٹ تو نہیں کہہ سکتے کیونکہ اگر کوئی کہتا ہے کہ: ’’مجھے آج بہت دکھ ہوا۔‘‘ یہ ’’بہت‘‘ بھی ہر ایک کا مختلف ہے۔ لہذا اس کو جھوٹ تو نہیں کہہ سکتے۔ البتہ میں اس کو احتیاط کہوں گا، جسے ہم تقویٰ کہتے ہیں کہ جھوٹ کے شبہ سے بھی بچا جائے۔

سوال نمبر 13:

حضرت! وقت کو فضول ضائع ہونے سے بچانے کے لئے کوئی نظام الاوقات بنانا چاہئے؟

جواب:

نظام الاوقات بنانا بہت اچھا ہے، لیکن نظام الاوقات بناتے وقت ذرا انسان کو حقیقت پسند ہونا چاہئے کیونکہ بعض لوگ نظام الاوقات تو بہت اچھا وضع کر لیتے ہیں، لیکن وہ قابل عمل نہیں ہوتا۔ نتیجتاً ان سے رہ جاتا ہے۔ شیطان بھی کبھی کبھی اس طرح کرواتا ہے کہ بہت اعلیٰ درجے کا نظام الاوقات بنوا دیتا ہے کہ یہ اس پہ عمل تو کر نہیں سکے گا لہذا اس کا دل ٹوٹ جائے گا تو پھر ہمیشہ کے لئے چھوڑ دے گا کہ یہ مجھ سے یہ نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ پہلے نظام الاوقات بہت زبردست بنایا جاتا ہے۔ لہذا اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ شیخ کے مشورے سے ہی نظام الاوقات بنایا جائے تاکہ اس کے لیول کے مطابق بن جائے۔ لازمی معمولات کے درجے کی چیزیں کم رکھیں وہ اتنی رکھیں جتنی روز ہو سکتی ہوں۔ اور جو وقت آپ کے پاس بچ جائے اس کے لئے ایک انتہائی آسان طریقہ موجود ہے کہ جب آپ کے پاس وقت فارغ ہو ذکر میں لگ جاؤ۔ میں اس مقصد کے لئے اکثر ایک عمومی وظیفہ دیا کرتا ہوں کہ اگر آپ کے پاس صبح سے لے کے دوپہر تک کا کچھ وقت فارغ ہے تو ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ‘‘ پڑھیں اور اگر دوپہر سے لے کے مغرب تک کوئی وقت فارغ ہے تو اس میں درود شریف پڑھیں اور اگر مغرب کے بعد کوئی وقت فارغ ہے تو اس میں استغفار کر لیں۔ الا یہ کہ آپ کے اپنے معمولات کا کوئی وقت ہو۔ کیونکہ وہ تو کرنے ہیں۔ معمولات کے علاوہ اگر آپ کے پاس کوئی وقت فارغ ہے تو ان اذکار میں لگا سکتے ہیں۔ آپ اپنے سسٹم کو اس طرح سیٹ کر لیں کہ مجھے جب بھی وقت ملے گا اس کے حساب سے میں یہ کروں گا۔ اس طرح کرنے سے کم از کم آپ کا وقت ضائع نہیں ہو گا۔ اور معمول اتنا رکھنا چاہئے جتنا انسان کر سکتا ہے ورنہ دل ٹوٹ جاتا ہے اور آدمی چھوڑ دیتا ہے اور کہتا ہے یہ تو ہو ہی نہیں سکتا۔ پھر ہمت ہی نہیں کرتا۔

سوال نمبر 14:

کیا کالا لباس پہنا جا سکتا ہے؟

جواب:

کالے لباس پہ کوئی پابندی نہیں ہے، پابندی صرف مشابہت پر ہے، خاص ایام میں جب خاص لوگ پہنتے ہیں تو ان کے ساتھ مشابہت نہیں کرنی چاہئے۔

سوال نمبر 15:

حضرت! جماعت سے نماز پڑھنے کی تلقین فرما دیں۔

جواب:

بعض حضرات کے نزدیک بغیر جماعت کی نماز ہوتی ہی نہیں۔ اور بعض حضرات کے نزدیک یہ تقریباً سنت ہے، لیکن بطریق واجب ہے۔ اس کا اہتمام واجب جیسا کرنا چاہئے۔ اس کے بارے میں صحابہؓ کے مختلف اقوال ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہم میں سے کوئی منافق ہی اس میں سستی کر سکتا تھا، ورنہ اگر کوئی ضعیف آدمی ہوتا تو اس کو بھی صف میں لا کے کھڑا کر دیا جاتا تھا۔ گویا جو جماعت میں نہیں ہوتا تھا اس کے بارے میں لازمی یہ خیال ہوتا کہ وہ کوئی ایسا بیمار ہے کہ جو گھر سے نہیں نکل سکتا، اس کی عیادت کے لئے چل پڑتے تھے اور پوچھتے تھے کہ کیا وجہ ہے اور کیوں جماعت میں نہیں آئے۔ جیسے عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے اپنے ایک رشتہ دار بچے کو جماعت کی نماز میں نہیں دیکھا تو اس کے پاس تشریف لے گئے کہ کیا مسئلہ ہے؟ اس کی ماں نے کہا بچہ ہے، پوری رات عبادت کرتا رہا، صبح نیند آ گئی اس وجہ سے جماعت کی نماز رہ گئی۔ حضرت نے فرمایا: ’’میں تو یہ چاہوں کہ ساری رات سوؤں اور صبح کی نماز میں جماعت سے پڑھوں بمقابل اس کے کہ ساری رات عبادت کروں اور صبح جماعت رہ جائے۔‘‘ اس لئے جماعت کی نماز بہت اہم ہے۔ لیکن آج کل جیسے بہت ساری چیزوں میں انحطاط ہے، اسی طرح اس کی اہمیت میں بھی انحطاط ہے کہ لوگ جماعت کی اتنی پروا نہیں کرتے جتنی ہونی چاہئے۔

سوال نمبر 16:

یہاں امریکہ میں مسجدیں اتنی قریب قریب نہیں ہیں، ہر نماز کے لئے مسجد میں جانا ممکن نہیں ہوتا یا تقریباً نا ممکن کی حد تک مشکل ہوتا ہے کیونکہ پھر ہمیں صرف آنا جانا ہی لگا رہے گا اور کوئی کام نہیں کر سکیں گے۔ ایسے حالات میں ہم لوگ جماعت کے ساتھ نماز کیسے پڑھیں؟

جواب:

ایسے لوگ چونکہ مضطر ہیں یعنی غیر اختیاری طور پر ایسے حالات میں ہیں، یہ ان کے بس کے نہیں ہیں۔ اس لئے وہ یہ طریقہ اختیار کریں کہ قریب قریب کے مسلمان جمع ہو جائیں جیسے اگر قریب اور بھی گھر ہیں یا اپنے گھر میں کوئی اور ساتھی ہیں تو ان کے ساتھ مل کر جماعت کی نماز اداء کی جا سکتی ہے، ان کی جماعت مسجد میں نہ جانے اور مسجد کی مخالفت میں شمار نہیں ہو گی۔ کیونکہ ان کے لئے ایک قابل قبول عذر موجود ہے، لہذا وہ مسجد جانے کی بجائے عام نمازیں وہیں پڑھ لیں۔ البتہ جمعہ کے دن جائیں گے کیونکہ جمعہ مسجد کے بغیر نہیں ہو سکتا لیکن چونکہ جمعہ ہفتے میں ایک دن ہوتا ہے لہذا اس کے لئے جایا جا سکتا ہے۔ باقی نمازوں میں قریب چند افراد اکٹھے ہو کر اپنی جماعت کر سکتے ہیں۔ جب میں جرمنی میں تھا تو ہم نے بھی اسی طرح انتظام کیا ہوا تھا کہ جو قریب قریب ساتھی تھے اور ایک دوسرے کو جانتے تھے، کسی دکان میں یا کسی گھر میں یا کسی اور جگہ پہ اکٹھے ہو کر نماز پڑھ لیتے تھے۔ یہ چیز وہاں پر عام تھی، کیونکہ مسجدیں محدود ہوا کرتی ہیں، اتنی قریب نہیں ہوتیں، وہاں جانے کے لئے ڈرائیونگ کرنی پڑتی ہے۔ اتفاقاً اگر کسی کو بالکل مسجد کے قریب جگہ مل جائے تو سبحان اللّٰہ! لیکن اکثر ایسا نہیں ہوتا، زیادہ تر یہی صورتحال ہوتی ہے۔ لہذا یہ مسجد میں نماز پڑھنے کے خلاف کے زمرے میں نہیں آتا۔

سوال نمبر 17:

حضرت! ﴿اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا﴾ (الإسراء: 23) پہ تلقین فرما دیں۔

جواب:

اللّٰہ پاک کی سنت عادیہ ہے کہ جس چیز کو کسی چیز کے دینے کا ذریعہ بناتے ہیں وہ اس ذریعہ کی قدر خود کرواتے ہیں۔ اللّٰہ پاک نے والدین کو ہمارے دنیا میں آنے کا ذریعہ بنایا ہے لہذا ان کی بھی قدر کرواتا ہے۔ استاذ علم کا ذریعہ ہوتے ہیں ان کی بھی قدر کرواتے ہیں۔ مشائخ اصلاح کا ذریعہ ہوتے ہیں ان کی بھی قدر کرواتے ہیں۔ والدہ نے چونکہ زیادہ بوجھ اٹھایا ہوتا ہے لہذا محبت کے حوالے سے اس کا حق زیادہ ہے، لیکن بات ماننے کا حق والد کا زیادہ ہے، کیونکہ باپ کی بات زیادہ تر عقل کی بنیاد پر ہوتی ہے، ماں کی بات زیادہ تر جذبات کی بنیاد پر ہوتی ہے اور عقل کو جذبات پر فوقیت ہے لہذا عقل والی یعنی اپنے والد کی بات لینی پڑے گی، الَّا ما شاء اللّٰہ! بعض دفعہ اس سے مختلف صورت حال بھی ہو سکتی ہے۔ والدین کی تکریم کے حوالے سے کم از کم یہ حکم ہے کہ ان کی بے ادبی اور گستاخی نہ ہو۔ ان کے ساتھ محبت ہونی چاہئے، احادیث شریفہ میں والدین کے ساتھ محبت کی بھی ترغیب دی گئی ہے اور فرمایا گیا ہے کہ ان کی طرف محبت کے ساتھ دیکھنے سے مقبول حج کا ثواب ملتا ہے۔ ایک دوسری حدیث میں آتا کہ جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے۔ ایک تیسری حدیث میں تین دفعہ ماں کا حق بتایا گایا ہے اس کے بعد چوتھی بار باپ کا حق بتایا گیا۔ اسی طرح قرآن پاک میں بھی وضاحت کے ساتھ فرمایا گیا:

﴿وَ قَضٰی رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا 0 وَ اخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًاؕ﴾ (الاسراء: 24-23)

ترجمہ: ’’اور تمہارے پروردگار نے یہ حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو، اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ اگر والدین میں سے کوئی ایک یا دونوں تمہارے پاس بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اف تک نہ کہو، اور نہ انہیں جھڑکو۔ بلکہ ان سے عزت کے ساتھ بات کیا کرو۔ اور ان کے ساتھ محبت کا برتاؤ کرتے ہوئے ان کے سامنے اپنے آپ کو انکساری سے جھکاؤ، اور یہ دعا کرو کہ: یا رب! جس طرح انہوں نے میرے بچپن میں مجھے پالا ہے، آپ بھی ان کے ساتھ رحمت کا معاملہ کیجیے۔‘‘

سوال نمبر 18:

والدین سے اگر کوئی شرعی اختلاف ہو تو وہ اس زمرے میں نہیں آتا؟

جواب:

اس کے لئے حدیث شریف کافی ہے۔ حدیث شریف میں فرمایا گیا ہے: ’’لَا طَاعَةَ لِمَخْلُوْقٍ فِیْ مَعْصِیَةِ الْخَالِقِ‘‘ (مشکاۃ المصابیح: 3696)

ترجمہ: ’’مخلوق کی ایسی اطاعت جائز نہیں ہے جس میں خالق کی نافرمانی ہو۔‘‘

اس میں مخلوق عام ہے چاہے وہ والدین ہوں چاہے وہ کوئی اور ہو۔ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ لوگ باقی چیزوں میں تو والدین کی نہیں مانتے، لیکن اللّٰہ کی مخالفت میں والدین کی مان لیتے ہیں اور اس کو بہانہ بنا لیتے ہیں کہ والد نے اس طرح کہا ہے۔ کمال ہے جہاں پر حکم تھا وہاں مانتے نہیں ہیں، جھڑکتے ہیں، گالیاں بھی دیتے ہیں۔ آج کل کے ماحول میں یہ ہو رہا ہے۔ جب اللّٰہ کی بات ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ والد کہہ رہے ہیں اب کیا میں کیا کروں۔ بہر حال اللہ کی نافرمانی میں ان کی بات نہیں ماننی چاہئے۔ ہاں نہ ماننے کا طریقہ ایسا اختیار کرنا چاہئے کہ ان کی بے ادبی اور گستاخی نہ ہو۔ لطائف و حیل سے اپنے آپ کو اس سے بچا لیا جائے۔

سوال نمبر 19:

حضرت! ام الامراض میں لکھا ہے کہ پہلے زمانے میں مشائخ مجاہدات کراتے تھے رذائل چھڑانے کے لئے، بعد کے مشائخ ذکر کی کثرت کرواتے ہیں تاکہ رذائل دب جائیں۔ کیا دب جانے سے یہ مراد ہے کہ جسم میں ذکر کا نور حاوی ہو جاتا ہے؟

جواب:

یہ اس پر منحصر ہے کہ لوگ کس حد تک آپ کے ساتھ جاتے ہیں۔ اب بھی اگر کچھ لوگ ایسے ہوں جن کو مجاہدات کروائے جا سکتے ہوں تو مجاہدات ہی میں فائدہ ہے۔ کیونکہ نفس کی جو اصلاح مجاہدات سے ہو سکتی ہے وہ ذکر سے نہیں ہوتی۔ ذکر سے دل کی اصلاح ہوتی ہے، مجاہدات سے نفس کی اصلاح ہوتی ہے۔ لہذا اگر صرف ذکر کیا جائے تو اس سے دل تو ٹھیک ہو جاتا ہے، خیر اور شر کا پتا چل جاتا ہے، ہدایت مل جاتی ہے، انسان کو حقیقت کا ادراک ہو جاتا ہے، لیکن نفس مائل نہ ہونے کی وجہ سے انسان سے گناہ ہوتے رہتے ہیں، تکبر دور نہیں ہوتا، اور بھی بہت ساری چیزیں کرنی ہوتی ہیں۔ لہذا اصل علاج یہی ہے۔ لیکن انحصار اس پر ہے کہ آپ کے ساتھ کتنے لوگ جاتے ہیں؟ آج کل لوگ آسانی کے ساتھ ذکر کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں، مجاہدوں کے لئے کیا تیار ہوں گے۔ اس وجہ سے مشائخ بھی لوگوں کے ساتھ گزارا کرتے ہیں کہ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے۔ لیکن ہر ایک اپنے لئے سوچے کہ اس کے لئے کیا مناسب ہے۔ کیا وہ بھی عام لوگوں کی طرح چلنا چاہتے ہیں۔ تو جو لوگ اصلاح کے زیادہ طلب گار ہوں وہ ان چیزوں کے لئے تیار ہو جائیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ جب ذکر کرنے کو دل نہ چاہے، اس وقت ذکر کرنا مجاہدہ بھی بن جاتا ہے، اس سے پھر نفس کا بھی علاج ہو جاتا ہے۔ اس وجہ سے میں ساتھیوں سے اکثر کہتا ہوتا ہوں کہ جب ذکر کو دل نہ چاہے تو اس وقت ضرور ذکر کر لیا کرو تاکہ ساتھ ساتھ آپ کے نفس کا علاج ہو جایا کرے۔ آپ مجاہدات کا کیوں انتظار کر رہے ہیں؟ یہی مجاہدہ ہے، اسے کرو، اسی سے آپ کی اصلاح ہو جائے گی۔

سوال نمبر 20:

اگر نفل نماز یا سنتیں چھوڑنے کو دل کر رہا ہو تو کیا اس میں بھی مجاہدہ اور نفس کی اصلاح ہوتی ہے۔

جواب:

بالکل مجاہدہ ہو گا اور اس سے فائدہ ہو گا۔ لیکن شیخ کو ضرور بتانا چاہئے، کیونکہ ایسا نہ ہو کہ آپ اپنے لئے کوئی ایسا مجاہدہ تجویز کر لیں جس کو نبھا نہ سکیں اور وہ آپ کی کمر توڑ دے اور آپ کو بعد میں پتا چلے۔ اس لئے بتانا ضرور چاہئے کہ میں یہ کر رہا ہوں۔

سوال نمبر 21:

حضرت یہ جو حدیث میں آتا ہے کہ ’’اَلْحَمْوُ الْمَوْتُ‘‘ (صحیح بخاری، حدیث نمبر: 4934)

ترجمہ: ’’دیور موت ہے۔‘‘

کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ دیور سے فتنے کا اندیشہ زیادہ ہوتا ہے۔

جواب:

بالکل صحیح ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے اندر میل جول زیادہ ہوتا ہے اور معمول کے مطابق لوگوں کو اس پر اعتراض نہیں ہوتا۔ حالانکہ وہ بھی غیر محرم ہے، لیکن لوگوں کو اس پر اعتراض نہیں ہوتا اور زیادہ ملتے ہیں۔ لہذا اگر دلوں میں فساد موجود ہو تو نقصان ہو جاتا ہے۔ یہ ہمارے لئے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہماری معلومات کے مطابق بہت سے لوگوں کا یہ نقصان ہوا ہے۔ اس لئے اصل تو شرعی پردہ ہے، شرعی پردہ ہی ان تمام چیزوں کا حل ہے۔ لیکن جیسے میں نے کہا کہ آج کل شریعت کی باتوں کے لئے کم ہی لوگ تیار ہوتے ہیں، کچھ گنجائشیں نکال لیتے ہیں ذرا سی تکلیف کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں اور رائی کو پہاڑ بنا لیتے ہیں اور اس کو بنیاد بنا کر شریعت کے بڑے حکموں کو ٹالا جاتا ہے کہ یہ ہو جائے گا، وہ ہو جائے گا۔ حالانکہ اللّٰہ کا شکر ہے ہمیں اللّٰہ پاک نے دکھایا ہے، جو کرنے والے ہوں وہ کر جاتے ہیں۔

مثلاً تین بھائی جو کہ تینوں مفتی ہیں وہ ایک ہی گھر میں رہتے ہیں مشترکہ فیملی سسٹم ہے، ہر ایک بھائی نے ایک کمرہ لیا ہوا ہے ہر کمرے کے ساتھ اٹیچ باتھ ہے۔ ان کا طریقہ یہ ہے کہ ہر بھائی نے گھنٹی کا ایک کوڈ مخصوص کیا ہوا ہے، جب وہ باہر سے گھر آتے ہیں تو اس کوڈ کے مطابق گھنٹی بجاتے ہیں تو اس کی بیوی آ کر دروازہ کھولتی ہے، باقی اپنے اپنے کمروں میں چلی جاتی ہیں۔ جب یہ اپنے کمرے میں چلا جائے تو کمرے کا دروازہ بند ہو جاتا ہے اور پھر تمام عورتیں صحن میں یا دوسرے کمروں میں جانے کے لئے آزاد ہوتی ہیں، جب تک یہ گھر میں ہو گا باہر نہیں آئے گا، آنا ہو گا تو بتا کے آئے گا۔ یہ ان کے آنے جانے کا طریقہ ہے جس کے تحت ما شاء اللّٰہ وہ بہت عرصے سے اکٹھے رہ رہے ہیں۔ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ کھانا اپنے اپنے کمروں میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ اکھٹے کھا لیتے ہیں۔ کچن میں کھانا پکانے کا کام عورتیں کرتی ہیں وہ عورتوں کا کام ہوتا ہے۔ لہذا مرد آزاد ہوتے ہیں۔ یہ آج کل کے دور کی بات ہے۔ اس خاندان کی ایک بڑی خوبی یہ بھی ہم نے دیکھی کہ جب ان کے والد ’حکیم باچا صاحب‘ صاحب فوت ہوئے جو خود بھی عالم تھے، مردان کے تبلیغی جماعت کے امیر تھے، ان تین بھائیوں نے تین دن کے اندر ہی سارا حساب کر دیا، حتی کہ کتابوں تک کا حساب کر کے بہنوں سمیت سب کا حصہ نکال کر میراث تقسیم کر دی۔ الحمد للّٰہ ہمیں اللّٰہ پاک نے یہ دکھایا ہے۔ اور بھی بہت سارے لوگ ہیں لیکن جو زیادہ قریب ہیں اور لوگ ان کو جانتے ہیں، میں نے ان کی مثال دی ہے۔ بہرحال یہ ممکن ہے نا ممکن نہیں ہے۔

سوال نمبر 22:

حضرت ابھی آپ نے یہ تین دن میں وراثت تقسیم کرنے کی مثال دی ہے۔ سوگ بھی تین دن ہوتا ہے۔ اس سے مراد کیا ہے؟

جواب:

سوگ عام لوگ کے لئے تین دن ہے۔ بیوی کے لئے چار مہینے دس دن ہے جس کو عدت کہتے ہیں۔

سوال نمبر 23:

سوگ کرنے سے کیا مراد ہے؟

جواب:

اصل میں یہ سوگ نہیں ہوتا، یہ تعزیت ہے اور تعزیت کے تین دن ہیں۔ مقامی لوگوں کے لئے تین دن کے بعد تعزیت نہیں ہے۔ دور سے آنے والے جن کے لئے تین دن میں آنے کا کوئی وسیلہ نہیں تھا اگر وہ آ جائیں تو وہ بعد میں بھی تعزیت کر سکتے ہیں۔ مقامیوں کے لئے تین دن کے بعد تعزیت کا وقت ختم ہو جاتا ہے اس کے بعد وہ اٹھ جائیں۔

سوال نمبر 24:

جس طرح گاؤں میں چالیس دن تک سوگ مناتے ہیں اور روزانہ کوئی نہ کوئی آ رہا ہوتا ہے۔ یہ جائز نہیں ہے؟

جواب:

یہ لوگوں کا اپنا عمل ہے، یہ شریعت نہیں ہے۔ یہ سوگ ہے اور سوگ تین دن سے زیادہ نہیں ہے۔ لوگ اپنی شریعت یعنی رواج پر سختی سے عمل کرتے ہیں، اللّٰہ کی شریعت پہ نہیں کرتے۔ رواج پہ لوگ بہت سختی کے ساتھ عمل کرتے ہیں کہ رواج نہ ٹوٹے چاہے دین ٹوٹ جائے۔ نعوذ باللّٰہ من ذالک۔

سوال نمبر 25:

حضرت کیا قناعت کا یہ مطلب ہے کہ جو کچھ موجود ہو اس پہ دل سے راضی رہنا؟

جواب:

جی ہاں! جو کچھ دستیاب ہو اس پر راضی رہنا قناعت ہے۔

سوال نمبر 26:

حضرت! جیسے جیسے انسان کے دل کی صفائی ہوتی ہے کیا ویسے ویسے انسان کے اندر کی اچھی خصلتیں ظاہر ہو جاتی ہیں۔

جواب:

دل کی صفائی سے اچھی خصلتیں فعال ہو جاتی ہیں۔ جیسے کبھی آپ نے کوئی سوفٹ وئیر لیا ہو تو اس کو ایکٹیویٹ کرنا ہوتا ہے، جب تک وہ ایکٹیویٹ نہیں ہوتا آپ کی ہارڈ ڈسک میں پڑا تو ہوتا ہے لیکن اس سے آپ فائدہ نہیں اٹھا رہے ہوتے۔ جب اس کو ایکٹیویٹ کر لیتے ہیں تو اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

سوال نمبر 27:

اسی طرح دل کی صفائی سے رذائل دب جاتے ہیں؟

جواب:

جی ہاں! رزائل دب جاتے ہیں تو وہ موجود تو ہوتے ہیں لیکن ڈی ایکٹیویٹ (غیر فعال) ہو جاتے ہیں۔ جیسے وائرس کو کنٹرول کرنے کے دو طریقے ہیں ایک میں وائرس کو مارنا ہوتا ہے اور دوسرے طریقہ اسے روکنا ہوتا ہے۔

سوال نمبر 28:

حضرت! بزرگوں کو دیکھا ہے کہ ان پہ عوام کی برائیاں ظاہر بھی ہو جائیں تو بھی وہ ان سے اسی طرح محبت کرتے ہیں۔ ہمارے پاس کوئی برا آدمی بیٹھا ہو تو اس سے ایک کراہت سی ہوتی ہے۔ لیکن بزرگوں کو کراہت بھی نہیں ہوتی۔ وہ کس نظر سے ان کو دیکھتے ہیں؟

جواب:

یہ اس لئے ہے کہ بزرگ اپنے آپ کو ان سے کم سمجھتے ہیں اور اپنے آپ کو ان سے زیادہ گناہ گار سمجھتے ہیں۔ آپ کو بزرگوں کی خدمت میں رہ کر پتا چلے گا کہ وہ اپنے آپ کو دوسروں سے کم سمجھتے ہیں۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آ سکتی لیکن ہوتی ہے۔ آدمی ان کے دلوں کو دیکھ کے حیران ہو جاتا ہے۔ حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں جب کسی کو ڈانٹتا ہوں تو ذرہ بھر بھی میں اس کو اپنے سے کم نہیں سمجھتا۔ بلکہ اس کی مثال ایسی ہوتی ہے جیسے جلاد کو کہا جائے کہ شہزادے کو چار کوڑے لگاؤ، جلاد کے دل میں ذرہ بھر بھی یہ خیال نہیں آ سکتا ہے کہ میں شہزادے سے بہتر ہوں۔ حضرت فرماتے ہیں کہ اس کو کوڑے تو لگ جائیں گے لیکن شہزادہ تو شہزادہ ہی رہے گا، شہزادگی بعد میں بھی اسی کے ساتھ ہو گی۔ میں وہی جلاد ہی رہوں گا۔ جلاد حکم پر عمل در آمد بھی کرتا ہے، لیکن اپنے آپ کو اس سے افضل نہیں سمجھتا۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے پاس ایک صاحب آئے، حضرت نے پوچھا کس لئے آئے ہو؟ کیا ارادہ ہے؟ کہا: بزرگوں سے ملنے کی خواہش تھی۔ فرمایا: بہت لغو نیت کر کے آئے ہو۔ اگر میں قسم کھاؤں کہ تم مجھ سے بڑے بزرگ ہو تو کیا کرو گے؟ اس پر وہ صاحب حیران ہو گئے کہ اب کیا کروں۔ حضرت نے فرمایا: ’’خدا کے بندے! یہ کہو کہ میں اصلاح کے لئے آیا ہوں، کبھی اللّٰہ پاک فاسق و فاجر سے بھی اصلاح کروا دیتے ہیں۔‘‘ بہرحال بزرگ حضرات اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجھتے۔ بلکہ وہ اپنے بارے میں یہ گمان کرتے ہیں کہ مرید کی غلطی تو عارضی ہے جلدی ٹھیک ہو جائے گی، میرے اعمال تو ایسے ہیں کہ پتا نہیں کب درست ہوں گے۔ پہلے وقتوں میں تبلیغی جماعتوں کو جاتے وقت بتایا جاتا تھا جو الحمد للّٰہ ہم نے خود بھی سنا ہے کہ بھئی! جس کے پاس جا رہے ہو اس سے اپنے آپ کو بڑا نہ سمجھو، بلکہ یہ سمجو کہ وہ ہم سے بڑے ہیں، ہم سے اچھے ہیں اسی لئے ہمیں ان کے پاس بھیجا جا رہا ہے۔ ہم تو صرف یہ سن ہی رہے تھے لیکن بزرگ واقعی ایسے سمجھتے ہیں۔ ہم صرف کہنے کی حد تک ہیں، وہ حقیقت میں کرتے بھی تھے۔

سوال نمبر 29:

ایک دفعہ مفتی زین العابدین صاحب کا خط آیا۔ ان سے حال پوچھا گیا تھا، انہوں نے جواب میں لکھا کہ الحمد للّٰہ اللّٰہ تعالیٰ نے پانچ وقت کی نماز اور تلاوت کی توفیق عطا فرمائی ہے۔ مجھے ایک حیرانگی سی ہوئی کہ اتنے بڑے مفتی اور بزرگ اور ایسی سادہ بات کی جو عوامی درجے کی ہے۔

جواب:

اصل میں بہت ساری باتیں یہ حضرات بتاتے نہیں ہیں، اگر بتائیں تو لوگوں کے دل شق ہو جائیں کہ یہ کیا ہے، اگر یہ اتنا بڑا آدمی ہو کر یہ سوچ رہا ہے تو ہم کدھر کھڑے ہیں۔ جیسے ایک دفعہ بھٹو صاحب نے کہا تھا کہ ہم تو غریب لوگ ہیں، ایک سکول ٹیچر نے کہا کہ اگر یہ غریب ہیں تو ہم غاروں میں رہتے ہیں۔ چنانچہ جب ان بزرگوں کے بارے میں آدمی سوچے گا تو کہے گا کہ ہماری پھر کیا حیثیت ہے۔

ابھی مسجد میں جو تعلیم ہو رہی تھی اس میں بھی یہی بات آئی تھی کہ کیا یہ وہ لوگ ہوں گے جو گناہ کر رہے ہوں گے۔ فرمایا نہیں! وہ لوگ بہت اچھے اعمال کر رہے ہوں گے، لیکن وہ نیک اعمال کے لئے حریص ہوں گے اور اپنے اوپر بد گمانی کر رہے ہوں گے کہ ہم نے یہ نہیں کیا، یہ نہیں کیا۔

سوال نمبر 30:

حضرت! خطبات حکیم الامت میں یہ واقعہ لکھا ہے کہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سفر کر رہے تھے، ایک صاحب ساتھ بیٹھے ہوئے ان سے گپ شپ لگا رہے تھے، نماز کا وقت آیا تو کسی نے حضرت سے فرمایا کہ ان کو ذرا نماز کی تلقین کریں۔ انہوں نے فرمایا میں کیوں کروں۔ اپنی نماز پڑھی اور اسی انداز میں دوبارہ بات کرنے لگے۔ جس سے بات کر رہے تھے وہ کہتا ہے: مجھے یوں لگا جیسے مجھے ذبح کر دیا گیا ہے۔ اور وہ نمازی ہو گیا۔ کیا یہ بزرگوں کی حکمت ہوتی ہے؟

جواب:

یہ حضرات وہی کر رہے ہوتے ہیں جو اس وقت ان کے دل کی حالت ہوتی ہے۔ لیکن اس میں اتنی صداقت ہوتی ہے کہ اس کی برکت سے لوگوں کو فائدہ ہو جاتا ہے، اس صداقت سے لوگ متاثر ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ ہر اچھی چیز سے لوگ متاثر ہو سکتے ہیں، اس کے اثرات ہوتے ہیں۔ لہذا اس کے اثرات ظاہر ہو جاتے ہیں اور لوگوں کے دلوں پر اس کا اثر ہو جاتا ہے اور ان سے متاثر ہو کر لوگ عمل کرنے لگتے ہیں۔

سوال نمبر 31:

بزرگوں کی باتوں میں اتنا گہرا اثر کیسے پیدا ہو جاتا ہے؟

جواب:

یہ اللّٰہ کے تعلق کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ان کو جتنا اللّٰہ کا تعلق حاصل ہوتا ہے، اس تعلق کی بنیاد پر رحمت کی جو لہریں آتی ہیں وہ اپنا کام کرتی ہیں۔ اسی لئے صحبت صالحین اختیار کرنے کا کہا جاتا ہے کہ بزرگوں کی صحبت میں رہو چاہے کچھ بھی نہ ہو انوارات تو ملتے ہی ہیں، ان سے تو حصہ ملتا رہے گا۔ جیسے ذاکرین کے بارے میں ہے آتا ہے: ’’(فرشتے) کہتے ہیں: پروردگار! ان میں فلاں شخص بھی موجود تھا، سخت گناہ گار بندہ، وہاں سے گزرتے ہوئے ان کے ساتھ بیٹھ گیا تھا۔ اللہ ارشاد فرماتا ہے: ’’میں نے اس کو بھی بخش دیا۔ یہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کی وجہ سے ان کے ساتھ بیٹھنے والا بھی محروم نہیں رہتا۔‘‘

ایسے لوگوں کے ساتھ بیٹھنے والوں کو جب اللّٰہ تعالیٰ بخشنا چاہیں تو اس کے لئے ذریعہ بھی بنا لیتے ہیں، حالات بھی بدل سکتے ہیں۔

سوال نمبر 32:

ایک دوست نے بتایا کہ اس نے ایک ٹی وی پروگرام دیکھا، جو خانقاہ کے حوالے سے تھا۔ انٹرویو میں ایک صاحب سے پوچھا گیا کہ آپ کبھی کسی سے متاثر ہوئے ہیں؟ اس نے کہا کہ میں ایک شخص سے متاثر ہوا ہوں۔ ان کے ساتھ صرف پانچ منٹ میری ملاقات ہوئی اور ایک چھوٹے سے موضوع پر بات ہو رہی تھی۔ اس نے پوچھا وہ کون صاحب تھے؟ کہا: وہ حضرت مولانا اشرف صاحب پشاور یونیورسٹی والے ہیں۔ پوچھا گیا کہ انہوں نے کیا بولا تھا جو آپ کو اتنا متأثر کر گیا؟ اس نے کہا: انہوں صرف ایک فقرہ بولا تھا کہ: ’’بیٹا نماز پڑھا کرو۔‘‘ وہ دن اور آج کا دن ہے کبھی نماز نہیں چھوٹی۔

جواب:

اصل میں اللّٰہ پاک اپنی قدرت کو اسباب میں چھپا دیتے ہیں۔ ان کو فائدہ تو ہوا ہے مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کی صحبت کا اور وہ سمجھ رہے ہیں کہ ان کی بات کا فائدہ ہوا۔ حالانکہ بات اس کے لئے ذریعہ بن گئی۔ بات اس کے لئے career تھی۔ لیکن پیچھے حضرت کی صحبت تھی۔ ان کی خوش قسمتی تھی کہ ان کی ایسے حضرات سے ملاقات ہو گئی۔ خود ہمارا بھی یہی حال ہے ہمیں اپنے آپ کو پتا تھا کہ ہم کیسے تھے، لیکن اللّٰہ کا شکر ہے کہ کچھ لوگ ہمیں مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کے پاس لے گئے، اب مجھے معلوم بھی نہیں کہ کون لے گئے تھے، ظاہر ہے یہ 1971 کی بات ہے۔ لیکن میرا دل ان کے لئے دعا کرتا ہے۔ میرے پاس کوئی مخصوص وجہ نہیں تھی، صرف دل کی ایک آواز تھی کہ یہ جگہ بیٹھنے کی ہے۔ یہاں بیٹھنا چاہئے۔ حالانکہ 1975 تک میں یہ نہیں جانتا تھا کہ مولانا صاحب پیر ہیں۔ سب حضرت کو مولانا صاحب کہتے تھے۔ لیکن مولانا صاحب کے قلب میں جو تاثیر تھی وہ اثر کرتی رہی اور یہ سلسلہ چلتا رہا، پتا نہیں ہمیں کتنی گندگیوں سے اللّٰہ پاک نے حضرت کی برکت سے بچایا۔ اگر ہم حضرت کی خدمت میں نہ گئے ہوتے تو ہم نے بھی وہ ساری گندگیاں کرنی تھیں۔ ہم کوئی مختلف لوگ تو نہیں تھے، ہم بھی عام لوگوں کی طرح ہی تھے۔ لیکن حضرت کی برکت سے اللّٰہ جل شانہ نے ہمیں ان گندگیوں سے بچایا۔ اللّٰہ تعالیٰ نے کچھ لوگوں کو ایسے لوگوں کے ساتھ بیٹھنے کا ہمارے لئے ذریعہ بنایا۔ ابھی تک ہم جو کچھ لے رہے ہیں حضرت کی برکت سے لے رہے ہیں۔ جہاں بھی ہم گئے ہیں، جن لوگوں نے بھی ہماری قدر کی، وہ حضرت کو دیکھ کے ہی کی ہے۔ بس میں یہی عرض کرتا ہوں کہ اصل چیز یہی ہے، جو لوگوں کو نظر نہیں آتی۔ اللّٰہ پاک امتحان کو قائم رکھنے کے لئے اس کو ایسی چیزوں میں چھپا دیتے ہیں، لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید فلاں بات سے ہمیں فائدہ ہوا ہے۔ حالانکہ بات تو کوئی اور بھی کر سکتا ہے۔ نماز کے لئے کوئی اور بھی کہہ سکتا تھا، دنیا بھر کے لوگ کہتے ہیں۔ کیا اس سے اس طرح اثر ہو جاتا ہے؟ چنانچہ پیچھے اصل چیز اللہ کا تعلق ہے۔

سوال نمبر 33:

میری سوچ اور میری محسوسات ہیں کہ جن کے دلوں میں طلب ہو، اللہ والے جہاں پر بھی بیٹھتے ہوں یا رہتے ہوں، ان میں ایک کشش ہوتی ہے جو طلب والوں کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے اور اللّٰہ پاک ان کو وہاں پہنچا دیتے ہیں۔

جواب:

جی بالکل! اللّٰہ پاک نے نظام بنایا ہوتا ہے۔ اللّٰہ جل شانہ جن کو بھی استعمال کرنے کا فیصلہ فرما لے، اس کے لئے حالات خود بناتے ہیں۔ اور ان میں سے سب سے بڑی چیز یہی ہے کہ ان میں کشش رکھ دیتے ہیں۔ آپ نے جو روحانی کشش کی بات کی ہے اس بار میں میں آپ کو اپنا واقعہ بتاتا ہوں، الحمد للّٰہ اس بارے میں خود مجھے تجربہ ہوا ہے، چونکہ حضرت موجود نہیں ہیں تو میں یہ بات کر سکتا ہوں، حضرت کی زندگی میں شاید نہ کر سکتا۔ ایک دفعہ میں حضرت کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا، حضرت لیٹے ہوئے تھے، لوگ حضرت کے پاؤں دبا رہے تھے اور میں حضرت کے بالکل پاس ہی بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے اپنے دل کے اوپر بوجھ محسوس کیا جیسے کوئی چیز کھچ رہی ہے، پھر وہ بوجھ بڑھتا گیا اور بڑھتا ہی گیا حتیٰ کہ اتنا زیادہ ہو گیا کہ میں مولانا صاحب کے اوپر گرنے لگا، میں نے فوراً پوزیشن سنبھال لی، اپنے آپ کو قابو کیا کہ میں مولانا صاحب کے اوپر گروں نہیں۔ اتنی کشش تو خود مجھے محسوس ہوئی۔ یہ میں آپ کو جسمانی کشش بتا رہا ہوں جیسے مقناطیس کی ہوتی ہے۔ یہ کبھی کبھی ہوتا ہے، ہر دفعہ اس طرح نہیں ہوتا۔ لیکن اللّٰہ پاک نے دکھا دیا کہ روحانی کشش نے ایک دفعہ جسمانی کشش کی صورت اختیار کر لی۔ مجھے خوب یاد ہے کہ مولانا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کی زندگی میں یونیورسٹی کے اسلامیہ کالج کے گیٹ سے ’جو board کی طرف ہے‘ ہم داخل ہوتے تو وہیں سے ہمیں احساس ہو جاتا کہ ہم مختلف دنیا میں آ گئے ہیں۔ یہ ہوتا ہے اور یہ چیز حقیقت ہے۔ اللّٰہ پاک نے جن کے لئے جس کسی کے ساتھ حصہ لکھا ہوتا ہے ان کے لئے انتظام کر دیا جاتا ہے، پھر وہ چاہے کہیں پر بھی ہوں حصہ مل جاتا ہے۔ بلکہ خوابوں کے ذریعے سے مدد ہو جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے پاس اور بہت سے ذرائع ہیں، ان کے ذریعے سے اللّٰہ تعالیٰ ان کی طرف توجہ فرماتے ہیں اور اس سے انسان حاصل کرتا ہے۔ انسان کو سگنل مل جاتا ہے اگر انسان اس سگنل کو استعمال کر لے تو اس کو فائدہ مل جاتا ہے۔ اکبر آلہ آبادی نے کہا ہے؎

نہ کتابوں سے نہ وعظوں سے نہ زر سے پیدا

دین ہوتا ہے بزرگوں کی نظر سے پیدا

لہذا اللّٰہ والوں کے پاس جانا چاہئے، ان کے پاس بیٹھنا چاہئے۔ اگر کوئی واقعتاً لِلّٰہ فی اللّٰہ محض اللّٰہ کی رضا کے لئے کسی کے پاس جا رہا ہے تو اللّٰہ اس کو محروم نہیں کرتا۔ کیونکہ اللّٰہ جل شانہ دینے میں بخل نہیں فرماتے۔ ہم سستی کر سکتے ہیں اللّٰہ پاک سستی نہیں فرماتے۔ اللّٰہ پاک جواد ہے، وہّاب ہے، خود سے دیتا ہے۔ اس لئے اللّٰہ نے جو ذرائع بنائے ہوتے ہیں ان کی طرف اگر کوئی آتا ہے تو اللّٰہ پاک ان کو نواز دیتا ہے۔

سوال نمبر 34:

حضرت جی! تفویض کے ثمرات میں اس کام کا ہو جانا بھی شامل ہے؟

جواب:

اللّٰہ اکبر! بہت مشکل بات کی ہے آپ نے۔ میں آپ کو اس مسئلے میں حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کا فرمان بتاتا ہوں اپنی طرف سے کوئی بات نہیں کرتا۔ حضرت فرماتے ہیں کہ وہ تفویض جس میں آپ ملنے کا ارادہ کر لیں وہ تفویض نہیں ہے وہ تو سرمایہ کاری ہے۔ تفویض یہ ہے کہ آپ سب کچھ اللّٰہ پہ چھوڑ دیں، فیصلہ بھی اس پہ چھوڑ دیں۔ جیسے کہتے ہیں: ’’سر تسلیم خم ہے جو مزاج یار میں آئے۔‘‘ اسی کو راضی بالرضا کہتے ہیں۔ ہم اللّٰہ کے بندے ہیں وہ جو چاہے کرے۔ جیسے شاعر نے کہا:

جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

یہ تصور تفویض میں آتا ہے۔ تفویض میں اگر آپ نے کچھ ہونے کی طمع شامل کر لی تو وہ تفویض کے زمرے سے خارج ہو جائے گا۔ وہ علاج کے زمرے میں آ جائے گا۔ حقیقی تفویض میں یہ چیز نہیں ہوتی۔ جیسے حضرت سید احمد شہید رحمۃ اللّٰہ علیہ نے فرمایا کہ اگر کوئی پرندہ میرے سامنے آئے اور میں اس کو تیر سے نشانہ بنانا چاہوں تو وہ بچ نہیں سکتا۔ کسی نے کہا حضرت اگر تیر لگنا اس کی تقدیر میں نہ ہو تو پھر؟ فرمایا: پھر وہ اس طرف نہیں آئے گا۔ حقیقی تفویض میں انسان ہر چیز اللّٰہ پر چھوڑ دیتا ہے اور اس کی برکات اور ثمرات بہت ہیں، اس کو بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کو اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا: ﴿وَ اُفَوِّضُ اَمْرِیْۤ اِلَی اللّٰهِ اِنَّ اللّٰهَ بَصِیْرٌۢ بِالْعِبَادِ﴾ (الغافر: 44) ’’اُفَوِّضُ اَمْرِیْۤ اِلَی اللّٰهِ‘‘ میں تفویض کے ترغیب ہے اور ’’اِنَّ اللّٰهَ بَصِيۡرٌۢ بِالۡعِبَادِ‘‘ میں ثمرات کی طرف اشارہ ہے۔ جب سب کچھ اللہ پر چھوڑیں گے تو یقیناً اللّٰہ پاک بہت نوازتے بھی ہیں۔ اللّٰہ پاک بہت بڑے ہیں۔

سوال نمبر 35:

نماز کے نیت میں خانہ کعبہ کا ذکر ہوتا ہے کہ منہ طرف خانہ کعبہ کے اور یہ نیت بھی کی جاتی ہے کہ پیچھے اس امام کے۔ تو خانہ کعبہ کے تصور کا کوئی خاص طریقہ ہے یا صرف یہی کہ منہ کعبہ کی طرف؟

جواب:

اصل میں نماز میں خشوع پیدا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس کے لئے سب سے پہلا طریقہ یہ ہے کہ اگر ممکن ہو تو انسان یہ تصور کرے کہ میں اللّٰہ کے سامنے کھڑا ہوں۔ یہ چونکہ ذرا اگلا درجہ ہے لہذا اگر کسی کو یہ حاصل نہیں تو یہ تصور کرے کہ میں خانہ کعبہ کے سامنے کھڑا ہوں۔ اگر کسی نے خانہ کعبہ دیکھا ہو تو اس کو یہ تصور بہت آسانی کے ساتھ ہو حاصل ہو سکتا ہے۔ اگر نہ دیکھا ہو تو خانہ کعبہ کی تصویر کو ذہن میں لا سکتا ہے۔ اگر یہ بھی نہیں ہو سکتا تو پھر آپ ہر ہر عمل میں علیحدہ نیت کریں، قیام میں نیت کریں کہ میں اللّٰہ کے سامنے کھڑا ہوں۔ رکوع میں یہ نیت کریں کہ میں اللّٰہ کے سامنے جھکا ہوں۔ سجدے میں نیت کریں کہ میں اللّٰہ کے حضور سجدہ ریز ہوں۔ اور ان ارکان میں جو الفاظ پڑھے جاتے ہیں وہ کچے حافظ کی طرح پڑھیں، پکے حافظ کی طرح نہ پڑھیں، جیسے کچا حافظ بار بار توجہ کو مرکوز کرتا ہے۔

ابھی تفویض کی بات ہوئی تھی، اس کے اوپر میں ایک غزل سناتا ہوں؎

جو سوچا تھا چھوڑا ہے اب کیا بنوں

میں نظروں میں خود اپنی کیسے رہوں

جو کاغذ پہ تصویر اپنی تھی دل میں

اسے پھاڑ کر اب تو تجھ سے کہوں

پسند جو بھی تصویر میری ہو تجھ کو

بنا لے میری کورا کاغذ میں ہوں

میں ویسے رہوں جو ہو تجھ کو پسند

جو تجھ کو ہو مطلوب میں وہ کروں

مجھے اپنا اب کہلوا دیجئے

یہی اپنے بارے میں اب میں سنوں

میرا نقص ثابت ہے ہر چیز میں

غائب میری جو کہ تھی اکڑ فوں

کرم کی نگاہ کا سوالی شبیر

کرم کی نگاہ لے کے آگے چلوں

تفوی میں اللّٰہ پر ہی سب کچھ چھوڑنا ہوتا ہے، انسان نے جو ذہن بنایا ہوتا ہے کہ میں یہ کروں گا، میں وہاں جاؤں گا میں وہاں جاؤں گا۔ یہ ساری باتیں چھوڑنی ہوتی ہیں۔ جس وقت انسان اللّٰہ کا بن جاتا ہے تو اللّٰہ اسے جو کرنے کا کہتا ہے وہ کرتا ہے اور نتیجہ خدا پر چھوڑ دیتا ہے کہ نتیجہ اللہ کے پاس ہے وہ میرا کام نہیں ہے میرا کام وہ ہے جو مجھے بتایا جا رہا ہے، مجھے جو کرنے کو بتایا جا رہا تھا میں نے اسے کرنا ہے، آگے فیصلہ اس کا ہے اگر وہ فیصلہ میرے حق میں نہیں ہے تو میں اس میں کچھ نہیں کر سکتا۔

اس کی وعدوں پہ یقین کرتے ہوئے

یاد سے اس کی سکون پاتا رہوں

دل میرا اس کی یاد سے ہو پر

شکر اس کا میں بجا لاتا رہوں

عشق الہی کے سمندر کا میں

شناور بنوں اور مست رہوں

دنیا سو بھیس بدل کے آئے

اس سے دامن اپنا بچاتا رہوں

یاد اس کے لئے ہو وقف میرا

ذرہ ذرہ جو میرے جسم کا ہے

ہر وقت اتنا خوش نصیب بنوں

کہ اس کی یاد میں میں آتا رہوں

دل میرا تخت ہے تجلی کا

وہ کہ جو سب سے بے نیاز کرے

اس تجلی کے میں آثار پھر خود

ایسے عشاق کو سناتا رہوں

دل میرا تخت ہے تجلی کا

وہ کہ جو سب سے بے نیاز کرے

اس تجلی کے میں آثار پھر خود

ایسے عشاق کو تو سناتا رہوں

دنیا ظلمت ہے اور بوجھ ہے ایک

اس سے ہجرت کروں میں دور رہوں

ذکر کے نور سے پُر نور رہوں

اور اس نور میں نہاتا رہوں

دکھ یہاں کے جو ہیں وہاں کے ہیں سکھ

اس کو انعام اگر سمجھتا رہوں

سکھ وہاں جو ملے ان پر

وہ تمہیں بار بار سمجھاتا رہوں

بس میرا دل قبول ہو جائے

باقی اعضاء تو اس کے خادم ہیں

وہ میرے دل میں رہے اور میں

دل سے اس کے احکام بجا لاتا رہوں

آنکھ اٹھے تو اس طرف ہی اٹھے

کان سنے وہ جو ہے پسند اس کو

اور زباں پر ہو حمد جاری شبیر

زیر لب اس کو گنگناتا رہوں

یہ ہماری زندگی کا ایک نچوڑ ہے، اس طریقے سے اپنی زندگی گزارنی ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرما دے۔

وَ آخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ