سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 75

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی


اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال نمبر 1:

حضرت کچھ عرصہ میری آپ سے دوری ہوئی جس سے بہت نقصان ہوا ہے۔ اب میں نے دوبارہ سے عہد کیا ہے کہ رابطہ قائم رکھوں گا۔

جواب:

بڑی اچھی بات ہے۔ کہتے ہیں صبح کا بھولا شام کو گھر آ جائے تو اس کو بھولا ہوا نہیں کہتے۔ اس وجہ سے یہ تو کافی تجربہ کار آدمی ہو گیا اور بڑے کام کا ہو گیا، جب انسان کو ایک تجربے سے پتا چل جاتا ہے کہ اسے شیخ سے دور رہنے میں نقصان ہوا ہے اور اس کو اس کا ادراک ہو گیا اور اس پر یقین ہو گیا تو اب ممکن ہے ان شاء اللّٰہ آنے والے تھوڑے سے عرصے میں اس کی تلافی بھی کر لے اور شاید آگے بھی چلا جائے۔ کیونکہ اول تو اللّٰہ جل شانہ کے ہاں دیر تو ہو سکتی ہے اندھیر نہیں ہوتی۔ دوسری بات یہ ہے کہ اللّٰہ پاک بہت ہی زیادہ قدر دان ہیں۔ تیسری بات یہ ہے کہ اللّٰہ پاک ہم پر ہم سے زیادہ مہربان ہیں یعنی ستر ماؤں سے زیادہ ہم سے محبت کرتے ہیں۔ بس دل کے بدلنے کی دیر ہوتی ہے جب انسان محسوس کر لیتا ہے کہ مجھے فلاں چیز سے نقصان ہوا ہے اور وہ ارادہ بدل لے تو اس تجربے سے گزر کر جو اس کا دل ٹوٹ گیا ہے اس ٹوٹے ہوئے دل کی اللّٰہ بہت قدر کرتا ہے۔ حدیث قدسی ہے: ’’أنَا عِنْدَ المُنْكَسِرَةِ قُلُوْبُھُمْ‘‘ ’’میں ٹوٹے ہوئے دلوں کے ساتھ ہوں۔ لہذا اللّٰہ پاک اس پہ بڑا کرم فرماتے ہیں، لہذا اس سے گھبرانا تو نہیں چاہئے۔ صرف یہ بات ہے کہ اب کام شروع کر لیں، اگر رک گیا تھا تو شروع کر لیں۔ جو ہو گیا سو ہو گیا۔ کیونکہ مثلا اگر آٹھ سال پہلے بھی آپ نہ آتے تو بھی جب کبھی موقع ملتا کام تو شروع کرنا تھا۔ لیکن وہ آپ کا ایک نیا تجربہ ہوتا، ابھی آپ کا پرانا تجربہ ہے۔ لہذا بہت زیادہ محتاط ہو کر، عبرت حاصل کر کے، شرح صدر کے ساتھ اور بصیرت کے ساتھ آپ اس پر چلیں گے تو بہت فائدہ ہے۔ اور اگر آپ نے 40 دن والا وظیفہ مکمل کر لیا تھا تو وہ بحال ہے، وہ ختم نہیں ہوتا۔ البتہ جو پہلے والا وظیفہ تھا ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘ 100 دفعہ، ’’اِلَّا اللّٰہُ‘‘ 100 دفعہ، ’’اَللّٰهُ اَللّٰه‘‘ 100 دفعہ اور ’’اَللّٰہ‘‘ 100 دفعہ۔ یہ اگر دیا گیا ہے تو دوبارہ اسی سے شروع کر لیں۔ کیونکہ اس کے جو اثرات ہوتے ہیں وہ آٹھ سال میں کافی کم ہو جاتے ہیں۔ اس وجہ سے دوبارہ سے بنیاد بنانی پڑتی ہے۔ لہذا وہاں سے انسان شروع کر لے۔ معمولات کے چارٹ کے حوالے سے ہمارا تجربہ ہے کہ جو لوگ معمولات کا چارٹ باقاعدگی سے بھر کر بھیجتے ہیں وہ ما شاء اللّٰہ نقصان میں نہیں جاتے، بلکہ مسلسل فائدے میں جاتے ہیں۔ معمولات کا چارٹ نیٹ سے آپ ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں، یہاں سے بھی ملتا ہے جسے آپ فوٹو سٹیٹ کرا سکتے ہیں۔ اس کو آپ باقاعدہ بھرنا شروع کر لیں۔ امید کرتا ہوں ان شاء اللّٰہ العزیز تھوڑے عرصے میں آپ دیکھ لیں گے کہ کافی حد تک گذشتہ کی تلافی بھی ہو گئی اور آئندہ بھی ان شاء اللّٰہ چلتا ر ہے گا۔

سوال نمبر 2:

ظاہر کی اصلاح کیسے ہوتی ہے؟ کیا باطن کی اصلاح سے ظاہر کی اصلاح ہو جاتی ہے؟

جواب:

ما شاء اللّٰہ بہت اچھا اور بنیادی سوال ہے۔ ظاہر کی اصلاح باطن کی اصلاح کے تابع ہے۔ ظاہر کی اصلاح بھی اصل میں باطن کی اصلاح سے ہی ہو سکتی ہے۔ یعنی جب باطن کی اصلاح ہو جاتی ہے تو پھر اس کے بعد حقیقی ظاہر کی اصلاح ہو جاتی ہے، اگر باطن کی اصلاح نہ ہوئی ہو تو منافقت کی تلوار سر کے اوپر لٹک رہی ہوتی ہے، کیونکہ منافقت میں ’’اِقْرَارٌ بِاللِّسَانِ‘‘ تو ہوتا ہے مگر ’’تَصْدِیْقٌ بِالْقَلْبِ‘‘ نہیں ہوتا۔ تَصْدِیْقٌ بِالْقَلْبِ باطن ہے۔ دوسری چیز تقویٰ ہے جو تمام چیزوں کا نچوڑ ہے۔ اللّٰہ جل شانہ نے تقویٰ کو بہت عجیب طریقوں سے بیان فرمایا ہے۔ قرآن پاک میں مختلف جگہوں پر اس کا ذکر آتا ہے۔ اللّٰہ پاک فرماتے ہیں: ﴿اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَذِكْرٰی لِمَنْ كَانَ لَهٗ قَلْبٌ اَوْ اَلْقَی السَّمْعَ وَ هُوَ شَهِیْدٌ﴾ (ق: 37)

ترجمہ: ’’یقیناً اس میں اس شخص کے لئے بڑی نصیحت کا سامان ہے جس کے پاس دل ہو، یا جو حاضر دماغ بن کر کان دھرے۔‘‘

اس میں قلب کا ذکر آیا ہے۔

دوسری جگہ فرمایا: ﴿هُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ﴾ (البقرہ: 2)

ترجمہ: ’’یہ ہدایت ہے ڈر رکھنے والوں کے لئے۔‘‘

یہاں تقویٰ کا ذکر آیا ہے۔

ایک اور جگہ فرمایا: ﴿وَ مَنْ یَّتَّقِ اللّٰهَ یَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًا(الطلاق: 2)

ترجمہ: ’’اور جو کوئی اللہ سے ڈرے گا اللہ اس کے لئے مشکل سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کر دے گا۔‘‘

یہاں پر بھی تقویٰ کا ذکر ہے۔ اسی طرح نکاح کے مسنون خطبہ میں بھی تقویٰ کا بار بار ذکر آتا ہے۔ تقویٰ کا معنیٰ ہے دل کا اللّٰہ کی طرف ایسا متوجہ ہو جانا کہ انسان سارا کچھ اللّٰہ کے ساتھ وابستہ کر لے، اس کو شرح صدر ہو جائے کہ میرا بھلا بھی اللّٰہ ہی کرے گا اور مجھے نقصان سے بھی اللّٰہ ہی بچائے گا۔ لہذا ہر چیز میں وہ اللّٰہ پاک کو راضی کرنا چاہتا ہے، اور یہی تقویٰ ہے۔ گویا باطن کی اصلاح تقویٰ کو حاصل کرنے کی نیت ہے، چونکہ تقویٰ دو چیزوں پر منحصر ہے ایک قلب اور دوسرا نفس۔ اس کی مثال میں یوں عرض کروں گا جیسے ایک غبارہ ہو جس میں ہائیڈروجن گیس بھر جاتا ہے تو وہ اوپر چڑھتا ہے، اس کے ساتھ اگر چھوٹا سا پتھر بھی باندھ دیا جائے تو تین صورتیں بن سکتی ہیں یا تو غبارے کو اوپر جانے والی ہائیڈوجن کی طاقت پتھر کی نیچے جانے والی صلاحیت سے زیادہ ہو گی یا برابر ہو گی یا کم ہو گی۔ یہی تین صورتیں بن سکتی ہیں۔ اگر ہائیڈوجن کی طاقت زیادہ ہے تو غبارہ اوپر جائے گا، اگر برابر ہے تو غبارہ اپنی جگہ پہ کھڑا ہو جائے گا اور اگر کم ہے تو نیچے آ جائے گا۔ گویا نفس کا ثقل انسان کو نیچے لاتا ہے اور روحانیت یعنی دل کی صفائی انسان کو اوپر لے جاتی ہے۔ اگر آپ برابر برابر کریں کہ نفس کا ثقل تو موجود ہو لیکن آپ روحانیت بڑھا دیں تو بھی اگر روحانیت اس سے زیادہ ہو گی تو بھی وہ آپ کو اوپر لے جائے گی۔ نفس آپ کو روکے گا لیکن آپ نہیں مانیں گے۔ دوسری بات یہ ہے کہ آپ نفس کے اوپر محنت کر لیں، دل کو فی الحال نہ چھیڑیں، نفس کے تقاضے کم ہو گئے تو تھوڑی روحانیت بھی آپ کے کام آ جائے گی۔ مثلاً آپ صرف نمازوں میں فرائض تک ادا کریں، کوئی مستحب نماز نہ پڑھیں، نہ اشراق پڑھیں، نہ چاشت پڑھیں، نہ تہجد پڑھیں، نہ ذکر کریں، لیکن آپ نے اپنے نفس کے اوپر اتنی محنت کر لی کہ اس کا تقاضا بہت کم ہو گیا، لہذا پھر بھی فرائض سے حاصل ہونے والی وہ جو تھوڑی سی روحانیت ہے وہ بھی آپ کے لئے کافی ہو جائے گی اور آپ ان شاء اللہ تھوڑا سا بھی کام کر لیں گے تو ’’نُوْرٌ عَلٰی نُوْرٍ‘‘ ہو جائے گا اور بہت تیزی کے ساتھ آپ آگے بڑھیں گے۔

پہلے دور میں ہمارے چشتیہ سلسلے میں نفس کے اوپر محنت ہوتی تھی، نفس کو کم کرتے تھے، مجاہدات کے ذریعے سے، ریاضت کے ذریعے سے نفس کی صفائی کر کر کے اخیر میں تھوڑا سا ذکر دے دیتے، بس اسی سے کام بن جاتا تھا۔ یہ اس وقت کا طریقہ تھا۔ نقشبندی حضرات کا طریقہ یہ تھا کہ وہ دل پہ ہی محنت کرتے تھے، وہ نفس کو نہیں چھیڑتے، دل کی روحانیت بڑھاتے بڑھاتے نفس کے مقابلے میں اس کو آگے لے جاتا، لہذا ان کا بھی کام بن جاتا۔ آج کل کے دور میں چونکہ کمزوریاں بہت آ گئیں ہیں نہ وہ ریاضتیں اور مجاہدے انسان سے ہو سکتے ہیں اور نہ ہی انسان سے اتنا زیادہ ذکر ہو سکتا ہے، لہذا دونوں چیزوں کو بیک وقت کرایا جاتا ہے کچھ نفس کے اوپر محنت اور کچھ دل کے اوپر محنت، یہ دونوں محنتیں ساتھ ساتھ کرائی جاتی ہیں۔ نتیجتاً انسان کو دل کے اوپر بہت زیادہ محنت کرنے کی بھی ضرورت نہیں پڑتی اور بہت زیادہ ریاضت اور مجاہدہ کرنے کی بھی ضرورت نہیں پڑتی۔ گویا تھوڑی سی محنت کے ساتھ کافی کام نکل سکتا ہے۔ اس وجہ سے آج کل کے مشائخ اس طرز پہ کام کرتے ہیں کہ وہ مجاہدات کے ذریعے سے نفس کے تقاضوں کو دبا دبا کے محنت کراتے ہیں اور ساتھ ساتھ روحانی محنت بھی کرتے ہیں۔ اس کے لئے ایک استاذ کی ضرورت ہوتی ہے، استاذ کی ضرورت اس لئے پڑتی ہے کہ اگر انسان کے پاس استاذ نہ ہو تو وہ لازماً جو بھی فیصلہ کرے گا اس میں اس کا نفس شامل ہو گا۔ پھر یا تو وہ فیصلہ صحیح نہیں کر پائے گا اور اگر مخلص ہو گا اور کہے گا میری اصلاح ضرور ہونی چاہئے تو پھر بہت زیادہ مجاہدہ کرے گا جس کا وہ تحمل نہیں کر سکے گا، نتیجہ یہ ہو گا کہ ایک دو دن کر لے گا پھر چونکہ کر نہیں سکے لہذا بیٹھ جائے گا، بس مطمئن ہو جائے گا کہ یہ نہیں ہو سکتا، یہ تمہارے بس کی بات نہیں ہے۔ حالانکہ ایسی بات نہیں ہے، الحمد للّٰہ آج کل کے دور میں بھی لوگوں کو فائدہ ہو رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر کامل استاذ ہو جو اس کو اپنے تجربے کی روشنی میں اور پھر اللّٰہ پاک کی ان کے ساتھ جو تائید ہوتی ہے اس کے ساتھ اور سلسلے کی برکت کی وجہ سے اللّٰہ جل شانہ ایسی صورتیں پیدا فرمائے گا کہ اس کے دل میں صحیح وقت پہ صحیح باتیں آئیں گی کہ جو کام جس وقت کرنا چاہئے اس وقت وہ کام کرے گا لہذا محفوظ بھی رہے گا۔ میں ایک مثال دیتا ہوں۔ ہمارے پاس ایک صاحب آئے ہوئے تھے انہوں نے بہت جلدی جلدی ترقی شروع کی، اب شیطان تو راستہ مارتا ہے شیطان نے اس کے دل میں یہ بات بٹھا دی کہ تو فلاں بن گیا ہے، ظاہر ہے انسان کمزور ہے، اور یہ سب کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس نے ایک خواب دیکھا، خواب تو انسان کے بس میں نہیں ہے، اس نے خواب میں دو حضرات کو دیکھا ایک ہمارے شیخ حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ جن کے ساتھ میں متعلق تھا اور دوسرے ہمارے شیخ حضرت حلیمی صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ، جنہوں نے مجھے اجازت دی تھی، حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ تو ان کو دیکھ کے بس مسکرا رہے ہیں اور کچھ نہیں کہا۔ حلیمی صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ نے ان سے انگریزی میں فرمایا، کیونکہ وہ سیکریٹریٹ ریٹائر ہوئے تھے، مختلف موقعوں میں انگریزی بولا کرتے تھے، انہوں نے ایک بہت بڑی عمارت کی طرف اشارہ کر کے انگریزی میں ان کو کہا کہ اس عمارت کو دیکھو، پھر کہا Means or men collapse like this اور ہاتھوں اشارہ کیا تو پوری عمارت گر پڑی۔ بس اس کے اوپر بات واضح ہو گئی کہ اوہو! یہ تو مجھے بتایا گیا ہے کہ چاہے کتنے ہی بلند ہو جاؤ لیکن اگر اللّٰہ کی مدد نہ ہو تو جس طرح یہ عمارت ٹوٹ کے گر پڑی اس طرح تم بھی ٹوٹ کے گر پڑو گے، تمہارا کچھ بھی نہیں رہے گا۔ مجھے اس نے ای میل کی کہ اس طرح میں نے خواب دیکھا ہے۔ میں نے کہا: یہ تو آپ کو بتا دیا گیا کہ جتنا تم کر رہے ہو اس کو محفوظ کرنا بہت ضروری ہے بمقابلہ مزید کمانے کے۔ کما رہے ہو اور گنوا رہے ہو، اس کا آپ کو کوئی نتیجہ نہیں ملے گا۔

حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللّٰہ علیہ سے کسی نے پوچھا حضرت آپ بھی وہی کر رہے ہیں جو ہم کر رہے ہیں، مثلاً آپ فرض نماز پڑھتے ہیں، تہجد پڑھتے ہیں، ذکر اذکار کرتے ہیں، تلاوت کرتے ہیں۔ ہم بھی تو یہی اعمال کرتے ہیں۔ لیکن آپ آپ ہیں اور ہم ہم ہیں، یہ فرق کیوں ہے؟ یہ سوال تو بہت زبردست تھا، حضرت نے فرمایا: جتنا آپ لوگ کرتے ہیں، وہ آپ اپنے نفس کے حوالے کر دیتے ہیں، آپ کا نفس اس کو کھا جاتا ہے، عجب اور حجابِ نفس بہت خطرناک چیزیں ہیں۔ ایک حدیث شریف میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنھا سے روایت ہے کہ جس وجہ سے انسان اپنے آپ کو اچھا سمجھنے لگتا ہے اللّٰہ کی نظروں میں وہ اسی چیز کی وجہ سے گر جاتا ہے۔ اپنے دل کی حفاظت کرنا کافی مشکل چیز ہے، اگر اللّٰہ تعالیٰ کی مدد ہو، سلسلے کی برکت ہو تو سلسلے کے اندر ایک بڑی خوبی ہے، میرے خیال میں جس کا ہر اس شخص کو قائل ہونا پڑتا ہے جو اس راستے سے گزرتا ہے، وہ یہ کہ اللّٰہ جل شانہ اس کو یہ خوبی عنایت فرماتے ہیں کہ وہ اس تعلق کی بنیاد پر ’جو اس کو اپنے شیخ کے ساتھ ہوتا ہے‘ اپنی کسی بھی اچھائی کی نسبت اپنی طرف نہیں کرتا بلکہ وہ کہتا ہے کہ یہ میرے شیخ کی برکت ہے۔ اب یہ ایک ایسی چیز ہے کہ اس کی اپنے اوپر نظر نہیں جاتی، جب اپنے اوپر نظر نہیں جاتی تو وہ اس چیز سے محفوظ ہو گیا۔ مثلاً ہم نے اپنے سارے اکابر میں یہ چیز دیکھی ہے، آپ جن اکابر کی بھی کتابیں پڑھیں تو دیکھیں گے کہ ہر ایک نے اپنے اپنے شیخ کی تعریف کی ہے کہ ان کی برکت سے اللّٰہ پاک نے دیا ہے، ان کی برکت سے اللّٰہ پاک نے مجھے یہ عطا فرمایا۔ خود میرے ساتھ ایسے ہوا ہے کہ ابھی میں نے حضرت سے بیعت نہیں کی تھی، میں نے دیکھا کہ دو پہاڑوں کے درمیان ایک وادی ہے جیسے سوات کے علاقے میں بڑے اونچے اونچے پہاڑ ہیں۔ میں نے دیکھا کہ میں ایک چوٹی سی گر پڑا اور بڑی تیزی کے ساتھ اس وادی میں نیچے آ رہا ہوں، یک دم میں نے دیکھا کہ میرا ہاتھ کسی کے دو ہاتھوں میں آ گیا، میں رک گیا اور اپنی جگہ پہ کھڑا ہو گیا، سامنے دیکھا تو مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کے ہاتھوں میں میرا ہاتھ آ گیا۔ گویا اللّٰہ پاک نے مجھے دکھا دیا کہ ان کی برکت سے تم بچو گے، ورنہ تم گر پڑو گے۔ اور واقعی ایسے ہی ہونا تھا، اگر میں حضرت کے پاس نہ جاتا تو میں نے اپنے آپ کو اسی طرح خراب کرنا تھا۔ اللّٰہ کا شکر ہے کہ اس نے بچا لیا۔ بہر حال تصوف کے اندر یہ جو چیز ہے یہ انسان کے اندر اعجابِ نفس نہیں لاتی اور اگر انسان اعجابِ نفس سے بچ گیا تو وہ جو بھی کما رہا ہے کم از کم محفوظ تو ہے، بچا ہوا تو ہے، اس کو ڈاکو لوٹ تو نہیں سکتا، یوں آسانی ہو جاتی ہے۔ چنانچہ اس کو محنت تو کرنی پڑتی ہے کیونکہ محنت تو سب کو کرنی ہوتی ہے۔ لیکن اس کی محنت اپنی اپنی جگہ پر محفوظ ہو جاتی ہے۔ لہذا نفس کے شر سے بچنے کے لئے کسی کے پاس جانا پڑتا ہے۔ حضرت مولانا روم رحمۃ اللّٰہ علیہ نے صرف ایک شعر میں اس بات کو بہت عمدہ طریقے سے پورا بیان فرمایا ہے۔ حضرت نے فرمایا؎

قال را بگذار و مردِ حال شو

پیش مردِ کاملے پامال شو

محض ان باتوں سے نکل جاؤ (بلکہ ان کی روح تک پہنچ جاؤ) اور مرد حال بن جاؤ۔ کسی مردِ کامل کے سامنے اپنے آپ کو پامال کر دو۔ یعنی دنیا میں کم از کم ایک آدمی کو تم یوں مان لو کہ ان کے سامنے میری نہیں چلے گی۔ اور جب تک آپ کی مکمل اصلاح نہیں ہوتی تب تک آپ بے شک باقی لوگوں کے ساتھ الجھتے بھی رہیں گے اور بحثیں بھی ہوں گی اور پتا نہیں کیا کچھ ہو گا، دوسروں کے ساتھ یہ سب کچھ ہو گا لیکن اس ایک شخص کے ساتھ نہیں ہو گا، بس یہاں میری بات نہیں چلے گی۔ اس سے الحمد للّٰہ راستہ بن جاتا ہے، کیونکہ وہ شخص آپ کو ہر ایک بات کر سکتا ہے، آپ کو روک بھی سکتا ہے، آپ کو کہہ بھی سکتا ہے، اس شخص کو آپ اس حد تک اپنے دل میں جگہ دے دیتے ہیں کہ وہ آپ کے تمام احوال میں دخیل ہو جاتا ہے۔ اب اگر وہ کامل ہو تو سبحان اللّٰہ! بس ان کی برکت سے اللّٰہ تعالیٰ آپ کا راستہ مکمل کر دے گا۔ یہی تو مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے: ’’پیش مردِ کاملے پامال شو‘‘ یعنی کسی شیخِ کامل کے سامنے اپنے آپ کو پامال کر دو۔ اگر کوئی اس میں کامیاب ہو گیا تو ان شاء اللّٰہ اس کے لئے راستہ بن جائے گا۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ آج کل کا دور آسان دور نہیں ہے، فتنے کا دور ہے، اس فتنے کے دور میں اگر آپ کسی کے ہاتھ میں ہاتھ دیتے ہیں تو آپ کو کامل اطمینان ہونا چاہئے کہ میں غلط جگہ پہ ہاتھ نہیں دے رہا۔ کیونکہ آپ اس کو وہ درجہ دے رہے ہیں کہ اس کے سامنے آپ کی بات نہیں چلے گی۔ خدا نخواستہ اگر وہ کوئی ڈاکو ہوا، کوئی اور ہوا، تو کام خراب ہو جائے گا۔ بلکہ تیزی کے ساتھ خراب ہو جائے گا ﴿وَلَا الضَّآلِّيْنَ (الفاتحہ: 7) یہی لوگ تو ہیں جنہوں نے اچھائی کے لئے کسی کا اتباع کیا جب کہ حقیقت میں وہ خراب تھے، تو گمراہ ہو گئے۔ جیسے عیسائی جو Saint Paul کے پیچھے گئے تھے وہ گمراہی کے لئے تو نہیں گئے تھے، بلکہ اچھائی کے لئے گئے تھے۔ لیکن ان کے ساتھ کیا ہوا؟ تباہ ہو گئے۔ اسی طرح شیعہ لوگ جو اپنے بڑوں کے پیچھے جا رہے ہیں یہ کدھر جا رہے ہیں؟ بڑی محبت سے سب کچھ کر رہے تھے، لیکن نتیجہ کیا آ رہا ہے؟ مقصد یہ ہے کہ اگر غلط آدمی کے ہاتھ میں ہاتھ دے دیا جائے تو اس سے تباہی ہوتی ہے۔ لہذا انسان کو یہ اطمینان کرنا چاہئے کہ میں کسی غلط آدمی کے ہاتھ میں ہاتھ نہیں دے رہا۔ اس کے لئے علماء کرام نے بہت ساری باتیں لکھی ہیں۔ ظاہر ہے سب کا احصاء (شمار کرنا) تو مشکل ہے لیکن الحمد للّٰہ آٹھ پوائنٹ میں ان کو ایک طرح سے جمع کیا ہے وہ آٹھ باتیں یہ ہیں۔ سب سے پہلے اس کا عقیدہ دیکھو کہ کیا اس کا عقیدہ صحابہ کے عقیدہ کے مطابق ہے یا نہیں ہے۔ کیونکہ صحابہ کے عقیدے کو اللّٰہ جل شانہ نے معیار بنایا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَاۤ اٰمَنْتُمْ بِهٖ فَقَدِ اهْتَدَوْا وَ اِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا هُمْ فِیْ شِقَاقٍ فَسَیَكْفِیْكَهُمُ اللّٰهُ وَ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُؕ﴾ (البقرہ: 137)

ترجمہ: ’’اس کے بعد اگر یہ لوگ بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جیسے تم ایمان لائے ہو تو یہ راہ راست پر آ جائیں گے۔ اور اگر یہ منہ موڑ لیں تو در حقیقت وہ دشمنی میں پڑ گئے ہیں۔ اب اللہ تمہاری حمایت میں عن قریب ان سے نمٹ لے گا، اور وہ ہر بات سننے والا، ہر بات جاننے والا ہے۔‘‘

لہذا صحابہ کا عقیدہ معیارِ حق ہے۔ پس جس کا عقیدہ صحابہ کا عقیدہ ہے وہ حق پر ہے۔ اور صحابہ کا عقیدہ ہر آدمی کا ہونا چاہئے۔ صرف بزرگوں کا نہیں بلکہ ہر آدمی کا عقیدہ صحابہ کا عقیدہ ہونا چاہئے، عقیدے کے اندر فرق نہیں ہوتا۔ جو عقیدہ ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کا ہے وہی ایک فاسق و فاجر کا بھی ہونا چاہئے۔ آپ حیران ہوں گے کہ یہ کیسے ہے؟ لیکن ایسا ہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عقیدے کا مطلب ماننا ہے۔ کیا ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ایک خدا کو مانتے ہیں تو ایک فاسق و فاجر کتنے خداؤں کو مانے گا؟ وہ بھی ایک کو مانے گا۔ اللّٰہ کی جو صفات ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ مانتے ہیں، یہی ایک فاسق و فاجر بھی مانے گا۔ آپ ﷺ کا جو مقام ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ مانتے ہیں، ایک فاسق و فاجر بھی عقیدتاً وہ مانے گا۔ اگرچہ وہ عملاً ایسا نہ ہو، عمل میں کمی بیشی ہو سکتی ہے، عقیدے میں کمی بیشی نہیں ہو سکتی۔ لہذا پورے کا پورا عقیدہ صحابہ والا ہونا چاہئے۔ پس شیخ میں دیکھو! کیا اس کا عقیدہ صحابہ کا عقیدہ ہے یا نہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ علم کی دو قسمیں ہیں، فرض عین علم اور فرض کفایہ علم۔ فرض کفایہ علم وہ ہے جو ہم مدارس میں سیکھتے ہیں یا اس سے بھی زیادہ علم۔ فرض عین علم وہ ہے جو ہر مسلمان کے اوپر فرض ہے یعنی وہ علم جو چوبیس گھنٹے شریعت پر چلنے کے لئے علم ضرری ہے۔ چوبیس گھنٹے شریعت پر چلنا ہر آدمی سے مطلوب ہے لہذا اس کا علم بھی مطلوب ہے۔ کم از کم اتنا علم ہر ایک کے پاس ہونا ضروری ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ وہ اس علم پر عمل بھی کرتا ہو، چوبیس گھنٹے شریعت پر چلنے والا ہو۔ چوتھی بات یہ ہے کہ اس کی صحبت کا سلسلہ آپ ﷺ کی صحبت کے ساتھ ملا ہوا ہو۔ کیونکہ برکت صحبت میں ہے، صحابہ کرام کا مقام صحابیت یعنی صحبت کی وجہ سے تھا، اگر درمیان سے صحبت کو نکال دیا جائے تو چاہے کوئی علامة الدهر بھی بن جائے لیکن صحابی نہیں بنے گا، ولی بن سکتا ہے صحابی نہیں بن سکتا۔ ولی تو آخری دور میں بھی بن سکتا ہے، صحابی تو آپ ﷺ کے فوراً بعد بھی نہیں بن سکتا، ہاں تابعی بن جائے گا۔ صحابیت صحبت کی بنیاد پر حاصل ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے آپ ﷺ نے فرمایا: ’’خَيْرُ النَّاسِ قَرْنِيْ ثُمَّ الَّذِيْنَ يَلُوْنَهُمْ ثُمَّ الَّذِيْنَ يَلُوْنَهُمْ ثُمَّ الَّذِيْنَ يَلُوْنَهُمْ۔‘‘ (مسند احمد، حدیث نمبر: 3594)

ترجمہ: ’’انسانوں میں سب سے بہتر میرا زمانہ ہے، پھر ان کا جو اس سے متصل ہیں، پھر ان کا جو اس سے متصل ہیں، پھر ان کا جو اس سے متصل ہیں۔‘‘

علماء کرام فرماتے ہیں کہ اس میں تین زمانے شامل ہیں یعنی صحابہ کا دور، تابعین کا دور اور تبع تابعین کا دور۔ اور یہ بات صحیح ہے کیونکہ یہی ادوار فتنوں سے کافی حد تک بچے ہوئے تھے۔ اس کے بعد اجتماعی فائدہ ختم ہو گیا، انفرادی فائدہ رہ گیا۔ لیکن قانون تو اب بھی وہی ہے یعنی ان تین ادوار کے بعد یہ سلسلہ جاری ہے۔ جیسے میں کہتا ہوں کہ اس کو دو، پھر اس کے دو، پھر اس کو دو۔ چنانچہ اگر کوئی ہزارویں نمبر پہ کھڑا ہے تو نو سو ننانوے کے بعد اس کا نمبر لازماً آئے گا۔ لہذا اس سے یہ قانون تو ثابت ہو رہا ہے۔ گویا یہ تسلسل کے ساتھ آ رہا ہے، لہذا آج بھی آپ ﷺ کی صحبت کے ساتھ جس کی کڑی ملی ہوئی ہے اس کے اندر وہ نور موجود ہے۔ علماء اور مشائخ فرماتے ہیں کہ استفادے کے دو طریقے ہیں ایک ہے آپ ﷺ کے الفاظ یعنی احادیث شریفہ کے ذریعے سے علم اور پھر علم کے ذریعے عمل پیرا ہونا۔ دوسرا طریقہ قلبی نور کا ہے کہ آپ ﷺ کے قلب سے صحابہ کے قلب نے لیا۔ تابعین نے صحابہ کے قلب سے لیا اور پھر تبع تابعین نے ان کے قلوب سے لیا، پھر ان کے بعد والوں نے ان سے لیا۔ یہ قلب سے قلب کو جو چیز منتقل ہو رہی ہے اس کے درمیان سے اگر کوئی کڑی ہٹا دی جائے تو وہ چیز نہیں رہے گی، صرف الفاظ رہ جائیں گے، نور نہیں رہے گا۔ لہذا جن کی کڑی ادھر ملی ہوئی ہو ان کو وہاں سے نور آ رہا ہوتا ہے۔ میں اکثر اس کی یہ مثال دیا کرتا ہوں کہ جیسے پہلے زمانے میں گاؤں میں کنویں کے اندر اگر روشنی کا کوئی انتظام کرنا ہوتا تو چونکہ یہ روشنیاں نہیں ہوتی تھیں، ٹارچ وغیرہ نہیں ہوتی تھی۔ تو وہ یوں کرتے کہ اگر دن کے وقت کام کرنا ہوتا تو سورج کے سامنے ایک آئینہ رکھتے پھر اس آئینے کے سامنے دوسرا آئینہ پھر تیسرا پھر چوتھا، یوں ان آئینوں کو اس طرح رکھ لیتے کہ آخری آئینے کی روشنی کنویں میں آ جاتی اور کنواں روشن ہو جاتا۔ اب اگر ان میں سے کوئی بھی آئینہ درمیان سے نکال دیں تو کنویں میں روشنی نہیں جا سکتی۔ سلسلے کی مثال بھی یہی ہے۔ پانچویں بات یہ ہے کہ اسے سلسلے سے اجازت حاصل ہو۔ اجازت سے مراد یہ ہے اس کو اعتماد کی سند مل رہی ہے کہ اب اگر وہ یہ کام کرے گا تو اس کو اس سلسلے کی برکت حاصل ہو گی۔ چھٹی بات یہ ہے کہ ان کا فیض جاری ہو یعنی عام لوگ دیکھ رہے ہوں کہ جو بھی ان سے متعلق ہو رہا ہے اس کو فائدہ ہو رہا ہے اور یہ چیز تجربے سے ثابت ہو جائے۔ ساتویں بات یہ کہ مروت نہ کرتا ہو اصلاح کرتا ہو۔ آٹھویں بات یہ ہے کہ ان کی باتوں میں اللّٰہ تعالیٰ نے اثر رکھا ہو۔ جیسے بھی کوئی ان سے ملتا ہو، اس کا دل اللّٰہ کی طرف جلدی مائل ہو رہا ہو اور دنیا سے ہٹ رہا ہو۔ اگر کسی میں یہ آٹھ نشانیاں موجود ہیں تو اگر آدمی ان کے ساتھ اپنی مناسبت پائے تو ان سے بیعت کر لے۔ بیعت کا بھی فائدہ ہے، کیونکہ اگر کوئی آدمی بیعت نہیں کرتا لیکن دل میں ٹھان لیتا ہے کہ یہ میرے کام کا آدمی ہے لہذا میں ان سے اپنی اصلاح کراؤں گا، اس کو بھی فائدہ ہو گا۔ لیکن جب بیعت کے الفاظ ادا ہو جاتے ہیں تو ان کی بھی برکت ہے اور یہ مستحب ہے۔ اس کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ بیعت کے بعد انسان اس کو عملاً نافذ کر لیتا ہے اور دوسری جگہوں سے اپنے آپ کو وابستہ نہیں سمجھتا، لہذا وہ یکسو ہو جاتا ہے اور کسی اور کی طرف نہیں دیکھتا۔ کیونکہ جب انسان کئی لوگوں کی طرف رہا ہو تو کسی سے بھی پورا استفادہ نہیں کر سکتا۔ لہذا اگر کسی میں یہ ہمت ہے کہ وہ کسی سے بیعت ہوئے بغیر ویسے ہی کام کر سکتا ہے جیسا کہ بیعت والا کر سکتا ہے تو ٹھیک ہے کیونکہ بیعت مستحب ہے فرض یا واجب نہیں ہے۔ لیکن اگر ایسا کر ہی نہیں سکتا پھر تو مجبوری ہے، فرض و واجب پھر بھی نہیں ہے لیکن ضروری ضرور ہو گی۔ لہذا اگر یہ ہمت نہیں ہے تو بیعت کر لیں اور اگر بیعت نہیں کرتے تو پھر دوسرا کام کر لیں۔ اگرچہ اس میں تھوڑا سا وقت لے لیں لیکن اطمینان کر لیں جب اطمینان ہو جائے تو پھر ہمت بڑھائیں۔

اس حوالے سے میں ایک بات عرض کرتا ہوں کہ شیطان یہاں بھی کام چلاتا ہے کیونکہ شیطان ان چیزوں کا دشمن ہے، وہ آپ کو حج کرنے دے دے گا، آپ کو جہاد کرنے دے دے گا، آپ کو کوئی بھی بڑے سے بڑا دینی کام کرنے دے دے گا لیکن اس طرف نہیں آنے دے گا۔ کیوںکہ اس کو پتا ہے اس سے میرا سلسلہ منقطع ہو رہا ہے میرا اس پر بالکل بس نہیں چلے گا۔ اس لئے وہ اس کی طرف نہیں آنے دے گا۔ اس بارے میں ہزار سوچیں اور اشکالات لائے گا۔ شیطان ایسا ظالم ہے کہ اس کو اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ انسان کیا کر رہا ہے، اس کا مشن یہ ہے کہ کوئی صحیح مسلمان نہ رہے، چاہے ہندو ہو، چاہے پارسی ہو، چاہے سکھ ہو، چاہے یہودی ہو، چاہے عیسائی ہو، اس کو ان چیزوں سے کوئی غرض نہیں۔ لہذا سکھ کو سکھ بنانے میں پوری کوشش کرے گا۔ ہندو کو ہندو بنانے میں پوری کوشش کرے گا۔ اور اگر ہندو نہیں بننا چاہتا تو اسے کوئی اور بلا بنا دے گا لیکن مسلمانی کی طرف نہیں آنے دے گا۔ لہذا شیطان یوں کرتا ہے کہ جو بہت محتاط ہو اس کو اتنا محتاط بنائے گا اور اس کا معیار اتنا اونچا کر دے گا کہ وہ معیار شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللّٰہ علیہ کا ہو گا۔ لہذا نہ شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللّٰہ علیہ آئیں گے نہ وہ بیعت ہو گا اور نہ وہ اصلاح کرائے گا۔ جیسے کہا جاتا ہے: ’’نہ نو من تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی۔‘‘ اور اگر کوئی خوش عقیدہ ہے تو اس کو اتنا relax کردے گا کہ ان لوگوں سے بھی بیعت ہو جائے گا جو رنڈیاں نچاتے ہوں، کتے لڑاتے ہوں، جو کلین شیو ہوں، جو شرابیں پیتے ہوں۔ اور اس کے لئے اچھے اچھے دلائل بھی دے گا۔ لہذا جو لوگ ایسی میں چیزوں میں پڑے ہوئے ہیں آپ ان سے دلائل سن سکتے ہیں۔ آپ ذرا ان سے پوچھیں تو سہی، وہ ایسی عجیب باتیں کریں گے کہ آپ حیران ہو جائیں گے۔ انہوں نے اپنے آپ کو مطمئن کیا ہوتا ہے۔ گویا شیطان ان کو ایک لائن پہ لگا دیتا ہے اور دوسروں کو دوسری لائن پہ لگا دیتا ہے۔ لہذا نہ تو اتنا relax ہونا چاہئے کہ پہلی قسم کے لوگوں میں شامل ہو جائیں۔ نہ اتنا زیادہ سخت ہونا چاہئے کہ دوسری قسم کے لوگوں میں شامل ہو جائیں۔ لہذا انسان درمیان درمیان میں رہے تو امید ہے اللّٰہ پاک سب کچھ کر دے گا۔

سوال نمبر 3:

اگر میں نیکی بھی کرتا ہوں تو شیخ سے دوری کی وجہ سے وہ نیکی جلدی ضائع ہو جاتی ہے یعنی شیطان مجھ سے کوئی ایسا کام کرائے جس سے اس نیکی کا اثر جلدی زائل ہو جاتا ہے۔ اسی طرح سے شیخ سے رابطہ نہ ہونے کی وجہ سے بہت ساری چیزیں ہو سکتی ہیں۔

جواب:

یہ فطری چیزیں ہیں، یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو آپ کے ساتھ ہی ہو رہی ہے، سب کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ ہر ایک کے حالات چونکہ مختلف ہوتے ہیں لہذا مختلف صورتوں میں مختلف چیزیں ان کے سامنے آتی ہیں۔ لیکن کہتے ہیں: ’’جس کا پیر نہ ہو اس کا نفس اس کا پیر ہے۔‘‘ نفس اس کو سکھائے گا، کچھ نہ کچھ بتائے گا، کچھ نہ کچھ اس سے کرائے گا۔ لہذا انسان جو کچھ بھی کر رہا ہے اس کو محفوظ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ نفس کا ٹینٹوا دبائے، نفس اس کے قابو میں ہو، ورنہ وہ اس کو عمل کرنے نہیں دے اور اگر لے گا تو ضائع کروا دے گا۔ وہ عمل کسی اور چیز میں ضائع ہو جائے گا۔ مثلاً آپ نے نماز بڑی اچھی پڑھی سبحان اللّٰہ! بڑی اچھی بات ہے، اللّٰہ کا شکر ہے کہ بڑی اچھی نماز پڑھی۔ لیکن تھوڑی دیر کے لئے دل میں آ جائے کہ واہ جی! کمال ہے کیسی زبردست نماز پڑھی ہے۔ لوگ دیکھ کے کہیں گے یار کمال ہے۔ اسی سے اس کی نماز گئی۔ حالا نکہ یہ خیال ہی کی بات ہے، کس اور کو تو پتا نہیں ہے۔ نہ آپ کو محسوس ہوا اور نہ ہی لوگوں کو پتا ہے۔ اس نماز کی وجہ سے لوگ بھی آپ کی قدر ایسے ہی کریں گے جو نماز لوگوں نے دیکھی ہے۔ لوگ آپ کو متقی کہیں گے، لوگ آپ کو پرپیز گار کہیں گے،، ممکن ہے کچھ لوگ آپ کا اکرام بھی کریں گے، آپ سے دعاؤں کے لئے بھی کہیں گے۔ اس سے نفس اور موٹا ہوتا جائے گا اور یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ حالانکہ ایک ذرا سا خیال آیا ہے جس کو ہم حدیثِ نفس کہتے ہیں، مگر اس نے کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ لیکن جب شیخ کامل ہوتا ہے ’اللّٰہ اکبر‘ وہ ایسا انتظام کر لیتا ہے کہ فوراً آپ کی اس چیز کو سمجھ کر اس کو نکال دے گا۔ مجھے یاد ہے جب ایک موقعہ پر حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ صدر جلسہ تھے اور میں رویتِ ہلال کے موضوع پر پشاور یونیورسٹی کے آڈیٹوریم میں تقریر کر رہا تھا، حضرت نے سارا منظر دیکھ لیا، شام کو جب میں گیا تو حضرت نے میری بہت درگت بنائی۔ مختلف باتوں پہ ڈانٹا کہ بزرگ بنتا ہے، صوفی بنتا ہے، یہ کرتے ہو، وہ کرتے ہو، بہت ڈانٹ پڑی۔ مجھے سمجھ آ رہا تھا کہ میرے ساتھ یہ کیوں ہو رہا ہے۔ حضرت مجھ سے وہ چیز نکال رہے ہیں جو اندر گئی ہے۔ مولانا ظفر احمد عثمانی صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ نے جمعے کا بہت اچھا بیان کیا، حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ بھی موجود تھے، لوگ بڑے متاثر ہوئے۔ اس دن حضرت نے ان کی بہت خبر لی، بات بات پر ڈانٹا، بات بات پر ان کو جھاڑ پلائی، حضرت مولانا ظفر احمد عثمانی رحمۃ اللّٰہ علیہ کو پسینے آ گئے کہ یہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ یہی وہ چیز ہوتی ہے جس کو شیخ سنبھال سکتا ہے۔ ورنہ کون آپ کی پروا کرے گا۔ شیخ کو ہی فکر ہو گی کہ یہ تو گر رہا ہے، لہذا وہ سنبھال رہا ہے۔ اگر کوئی ایسا شیخ نہیں ہو گا تو آپ کا نفس آپ کو ایک دفعہ کہے گا کہ تو بزرگ بن گیا ہے، اور وہ آپ کو پچاس دفعہ کہے گا کہ سبحان اللہ کیسا بزرگ بن گیا ہے۔ لوگوں کو اس سے کیا فکر؟ لوگوں کو اس سے کوئی فکر نہیں ہے۔ اگر انسان کا شیخ ہو تو وہ تسلی بھی دیتا ہے۔ میں نے حضرت سے خط میں عرض کیا کہ حضرت ہر چیز میں ریا ہے کیا کروں؟ میری کوئی چیز بھی ریا سے خالی نہیں ہے۔ حضرت نے فرمایا: ’’ایک ہوتا ہے ریا اور ایک ہوتا ہے ریا کا وسوسہ۔ ریا اختیاری عمل ہے غیر اختیاری نہیں ہے، اگر تم اسے نہیں چاہتے تو یہ تمہاری ریا نہیں ہے، یہ شیطان کا وسوسہ ہے، اس کی پروا نہ کریں۔ اب دیکھیں شیخ نے تسلی دی ہے اور بچا بھی رہے ہیں۔ گویا ایک طرف سنبھال رہے ہیں اور دوسری طرف مایوس نہیں ہونے دے رہے۔ یہ اعتدال شیخ کے ذریعے سے ہی ہو سکتا ہے۔ اگر شیخ نہ ہو تو یقین جانیے یہ نفس اور شیطان ہمارے ساتھ ایسا کھیلتے ہیں کہ انسان سنبھل نہیں سکتا۔ شاہ عبد القادر رائے پوری رحمۃ اللّٰہ علیہ کے پاس ایک بڑے میاں آتے تھے، ان کو موم بتی دیتے تھے، تہجد کے وقت آتے تھے اور اشراق کے وقت تک حضرت کے ساتھ رہتے تھے اور پھر چلے جاتے، ان کا یہ معمول بن گیا۔ کچھ عرصے کے بعد ان کا آنا بند ہو گیا۔ شاہ صاحب کو بھی ذرا ان کا خیال ہونے لگا، کچھ عرصہ اکھٹا رہنے سے انس ہو جاتا ہے۔ حضرت نے ان کا پوچھا کہ وہ جو بڑے میاں آتے تھے وہ کدھر ہیں آج کل؟ لوگوں نے بتایا کہ گھر میں ہیں۔ فرمایا: ’’ادھر کیوں نہیں آتے؟‘‘ لوگوں نے کہا: ’’پتا نہیں۔‘‘ فرمایا: ’’ان کو کہو کہ کسی وقت مل لیں۔‘‘ انہوں نے سوچا حضرت کو کوئی کام ہو گا۔ وہ آئے تو حضرت سے کہا: ’’جی حضرت فرمائیے کوئی خدمت؟‘‘ فرمایا: ’’نہیں! خدمت تو کوئی نہیں ہے، لیکن آپ پہلے آیا کرتے تھے، آج کل نہیں آ رہے کیا وجہ ہے، کوئی مسئلہ ہے؟‘‘ کہا: حضرت آپ کے پاس مجھے بڑا فائدہ ہو رہا تھا، لیکن میں جب بھی آپ کے پاس آتا تھا، ایک نورانی صورت بزرگ میرے قریب سے گزر کر مجھے السلام علیکم کہتے، بڑی پیار کی نظر سے مجھے دیکھتے اور پھر آگے بڑھ جاتے۔ کچھ عرصہ اس طرح ہوتا رہا، پھر وہ مجھ سے آہستہ آہستہ پوچھنے لگا کہ آپ کون ہیں؟ آپ بڑے اچھے آدمی لگتے ہیں، آپ کا کیا کرتے ہیں؟ میں بھی اس کو بتاتا تھا۔ اس کی شفقتیں بڑھتی رہیں۔ ایک دن اس نے مجھے کہا کہ آپ نیک آدمی ہیں، میں آپ کو ایک مشورہ دیتا ہوں، شاید آپ اس پر عمل کر لیں۔ پھر مجھے قرآن پاک حفظ کرنے کے بہت زیادہ فضائل سنائے کہ آپ قرآن پاک حفظ کر لیں۔ اس لئے میں نے آج کل قرآن پاک کا حفظ کرنا شروع کیا ہے، چونکہ بوڑھا آدمی ہوں تو میرے لئے مشکل کام ہے لہذا میں گھر ہی میں حفظ کرنے میں لگا رہتا ہوں۔ اس لئے میرے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ میں آپ کی خدمت میں آ سکوں۔ شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ان سے فرمایا کہ آپ کو پتا ہے کہ یہ کون تھا؟ اس نے کہا: حضرت جی آپ بتا دیں۔ فرمایا: یہ شیطان تھا۔ انہوں نے کہا ’’لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللّٰہِ‘‘، کیا شیطان مجھے حافظِ قرآن بننے دے گا؟ وہ تو قرآن کا بڑا سخت دشمن ہے۔ وہ کیسے مجھے قرآن پاک حفظ کرنے کا کہے گا؟ انہوں نے فرمایا: شیطان جانتا ہے کہ تو حفظ نہیں کر سکتا، تیری عمر اس قابل نہیں ہے۔ لہذا نہ حفظ ہو گا اور نہ تمہیں قرآن کے حفظ کا شرف ملے گا، نیز اس نے آپ کو تمام چیزوں سے رکوا دیا۔ ایک مستحب کے پیچھے آپ کے سارے فرائض و واجبات ڈبو دیئے۔ کیا شیطان ایسا نہیں کرے گا؟ اس کو عقل آ گئی اور کہنے لگا: اوہو! اللّٰہ کا شکر ہے حضرت آپ نے بلا لیا، ورنہ میں تو اسی میں چلا جا رہا تھا۔ شیطان اور نفس کے سامنے انسان کی حیثیت ہی کیا ہے۔ شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللّٰہ علیہ سے شیطان کہتا ہے کہ تو اب اس مقام پہ پہنچ گیا کہ سب کچھ تیرا قبول ہو گیا، اب تو چاہے عبادت کرے یا نہ کرے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ چونکہ اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت کو اپنا بنا لیا تھا تو وہ تھوڑی سی دیرے کے لئے مراقب ہو گئے پھر سر اٹھایا اور فرمایا: ملعون مجھے دھوکا دیتے ہو؟ اگر اللّٰہ پاک نے آپ ﷺ کو اس کی چھوٹ نہیں دی تو مجھے کیسے مل سکتی ہے؟ بس وہ نور اندھیرے میں بدل گیا اور جاتے جاتے شیطان یہ کہہ گیا کہ شیخ آپ مجھ سے اپنے علم کی وجہ سے بچ گئے۔ فرمایا: اچھا جاتے جاتے بھی دھوکہ کرتے ہو، وار کرتے ہو، میں اللّٰہ کے فضل سے بچ گیا ہوں۔ لہذا جب انسان شیخ کامل کے ساتھ ہو تو وہ بچتا بھی ہے اور ساتھ ساتھ اللّٰہ پاک نوازتا بھی ہے، رستہ بھی اللّٰہ پاک دیتے ہیں اور کچھ چیزیں شیخ سے براہ راست ملتی ہیں۔ ظاہر ہے اللّٰہ پاک اس پر قادر ہے۔ مثلاً آپ شیخ کے سامنے جائیں اور آپ کے مطلب کی کوئی چیز شیخ کی زبان پر آ جائے اور وہ ساری بات آپ کو بغیر پوچھے ہی بتا دے۔ آپ کہیں گے کہ شیخ کو کشف ہو گیا۔ حالانکہ کشف ضروری نہیں ہے۔ اللّٰہ کو تو پتا ہے، اللّٰہ تعالیٰ نے ان کی زبان کو استعمال کر دیا اور آپ کو بتا دیا۔ لہذا اس کے لئے کشف کا ہونا ضروری نہیں ہے۔ اور ایسا ہوتا رہتا ہے ایک تو براہ راست شیخ سے اس طرح ممکن ہے۔ نیز سلسلے کی برکت سے اللّٰہ پاک نے اتنے سارے دیگر ذرائع بنائے ہوئے ہیں کہ ان ذرائع کے ذریعے سے بھی فائدہ ہوتا رہتا ہے۔ مثلاً کبھی خواب کے ذریعے سے، کبھی ایک بزرگ سے، کبھی کسی اور بزرگ سے، کبھی کتاب کے ذریعے سے، کبھی کسی اور ذریعے سے۔ یوں اللّٰہ جل شانہ نے آپ کے لئے ایسا نظام کھول دیا ہو گا کہ آپ کو ما شاء اللّٰہ ہدایت کی صورتیں ملتی ہیں۔ یہ سارا نظام اللّٰہ پاک کر دیتا ہے۔ میں اکثر عرض کرتا رہتا ہوں کہ تمام بزرگ اس نظام کی اس چیز پر متفق ہیں کہ شیخ کا اتباع ہی تمام کامیابیوں کی جڑ ہے۔ اس کے لئے شیخ کی محبت بہت اکسیر ہے، اگر کسی کو یہ حاصل ہو گئ باقی ساری چیزیں آہستہ آہستہ خود بخود ہی حاصل ہو جاتی ہیں۔

سوال نمبر 4:

وہ کون سے مختصر اور آسان طریقے یا اعمال اختیار کیے جائیں جن سے روح طاقت ور ہو جائے اور نفس اتنا ڈرے کہ سر کشی چھوڑ دے تاکہ نیکیوں کی طرف ہمیشہ راغب رہیں اور نفس کی رکاوٹ نہ ہو اور روحانی ترقی مسلسل اور تیزی سے انسان کرتا رہے۔

جواب:

طریقے ہزاروں ہیں، لیکن سب کا نچوڑ میں نے بتا دیا ہے۔ میرے خیال میں میری گزشتہ باتوں میں اگر آپ غور کریں گے تو سب کا نچوڑ آپ کو مل جائے گا کہ انسان ٹھیک ہونے کا ارادہ کرے اور اس کے لئے کسی شیخ کو تلاش کرے، پھر اس کی مانے۔ چار باتوں کے بارے میں فرماتے ہیں۔

چار حق مرشد کے ہیں رکھ ان کو یاد

اطلاع و اتباع و اعتقاد و انقیاد

یعنی اپنے احوال کی اطلاع کرنا۔ شیخ جو بتائے اس کی اتباع کرے اور یہ تصور کر لے کہ پوری دنیا میں میری اصلاح کے لئے سب سے زیادہ مفید یہی شخص ہے۔ اس چیز پر یقین کر کے اپنے آپ کو اس کے ساتھ پابند رکھے۔ اگر یہ کیفیت کسی کو حاصل ہو گئی تو ’ہاتھی کے پاؤں میں سب کے پاؤں‘ والا معاملہ ہو جائے گا۔ لہذا اس ترتیب میں سب چیزیں آ گئیں۔ اصلاح وظیفوں سے نہیں ہوا کرتی، وظیفے سہولت فراہم کرتے ہیں اور ان چیزوں supplement کرتے ہیں۔ اصل چیز تو رابطے کے ساتھ آتی ہے۔ اس لئے کہتے ہیں اگر انسان ان دو چیزوں پر عمل کرے تو بہت فائدہ ہوتا ہے ایک معمولات کی پابندی اور دوسرا شیخ کے ساتھ رابطہ۔ پھر ہر ایک نے اس کو اپنی اپنی بصیرت کے لحاظ سے مختلف الفاظ میں بیان کیا ہے۔ لیکن لب لباب یہ ہے کہ معمولات کی پابندی انسان کے اندر جگہ بناتی ہے اور شیخ کے ساتھ رابطہ اصلاح کرواتا ہے۔ اگر کوئی معمولات کی پابندی نہیں کرتا صرف شیخ کے ساتھ رابطہ کرتا ہے تو اس میں چونکہ جگہ نہیں ہوتی لہذا شیخ کوشش کرتا بھی ہے تو اس کا اثر اتنا زیادہ نہیں ہوتا۔ کیونکہ دل نرم ہو گا تو بات سمجھ میں آئے گی۔

میں آپ کو اس کی ایک مثال دیتا ہوں۔ تجربے اللّٰہ تعالیٰ کراتا ہے ہمیں بھی اللّٰہ تعالیٰ نے عجیب عجیب تجربے کرائے ہیں۔ ہمارے ایک ساتھی تھے جو فوت ہو گئے ہیں اللّٰہ تعالیٰ ان کو جنت نصیب فرمائے۔ ان کے ساتھ ہمارا اٹھنا بیٹھنا ہوتا تھا، ان کے یہاں ہماری مجلسِ ذکر ہوا کرتی تھی۔ ایک دن ہم ان کے ہاں ذکر کی مجلس کے لئے گئے ہوئے تھے، ان کے ساتھ کسی بات پر اختلاف ہو گیا۔ اصولی بات تو یہ ہے کہ میں بحث کرنے سے گھبراتا ہوں، بحث نہیں کیا کرتا، جس کو میں دیکھتا ہوں کہ یہ بحث پہ اتر آتا ہے میں بات کو چھوڑ دیتا ہوں۔ کیونکہ بحث کرنے سے انسان کا دل سخت ہو جاتا ہے اور خواہ مخواہ ایک عداوت کی صورت بن جاتی ہے اور انسان کو جو فائدہ ہونا ہوتا ہے وہ نقصان میں بدلنا شروع ہو جاتا ہے۔ اس وجہ سے میں نے سوچا کہ یہ تو میں نے کچھ غلط کیا ہے۔ لہذا میں کوشش کر رہا تھا کہ میں اس سے فرار حاصل کروں اور بات کو چھوڑ دوں۔ لیکن نہ چاہتے ہوئے بھی وہ بات کافی لمبی ہو گئی اور ان کا رویہ سخت سے سخت تر ہوتا گیا۔ اتنے میں نماز کا وقت ہو گیا، اس کے بعد ذکر ہونا تھا۔ میں نے کہا بس اب ذکر کریں گے اس کے بعد باقی باتیں ہوں گی۔ اس طرح مجھے موقع مل گیا پھر الحمد للّٰہ ہم نے ذکر کیا۔ ذکر کرنے کے بعد ہم ان کے پاس آ کر عام مجلس کے طور پر بیٹھ گئے، کوئی اور بات نہیں ہوئی، نہ میں نے کوئی اور دلیل دی نہ کسی اور بات کی طرف ہم گئے۔ لیکن انہوں نے ہماری وہ ساری باتیں تسلیم کر لیں جو ہم ان سے کہنا چاہتے تھے جن کے بارے ان کا شرح صدر نہیں ہو رہا تھا اور ان پہ الجھ رہے تھے۔ سارا الجھاؤ دور ہو گیا۔ اب درمیان میں کون سی چیز آئی تھی؟ ہم نے ذکر ہی کیا تھا۔ لہذا ذکر انسان کے اندر جگہ بناتا ہے اس سے دل نرم ہوتا ہے۔ مثلاً اگر میں اپنی عینک کے اوپر میں مٹی مل لوں اور آپ مجھے بہت روشن جگہ پر لے جائیں، کیا مجھے کچھ نظر آئے گا؟ کچھ نظر نہیں آئے گا۔ لیکن اگر میں اس سے مٹی ہٹا دوں اور درمیان میں تھوڑی تھوڑی جگہ خالی ہو جائے تو مجھے تھوڑی تھوڑی چیزیں نظر آنے لگیں گی۔ عینگ جتنی جتنی صاف ہوتی جائے گی اتنی اتنی صفائی سے چیزیں نظر آنے لگیں گی۔ لہذا جب انسان ذکر کرتا ہے تو اس سے دل نرم ہوتا ہے، دل کی آنکھیں کھلنے لگتی ہیں، نتیجتاً جو بھی آپ کو حق بات کرتا ہے وہ حق بات آپ کے لئے ماننا آسان ہو جاتی ہے۔ سب سے پہلے شیخ ہی ہوتے ہیں جو آپ کو حق بات کریں گے۔ لہذا اگر آپ معمولات کی پابندی کر رہے ہیں تو ان کی باتیں آپ کو سمجھ میں بھی آ رہی ہوں گی، آپ ان پر عمل بھی کریں گے۔ اس لئے کہتے ہیں کہ معمولات کی پابندی ضروری ہے اور شیخ کے ساتھ رابطہ بہت ضروری ہے۔ شیخ کے ساتھ رابطے سے اصلاح ہوتی ہے اور معمولات کی پابندی سے انسان کے دل کی زمین جاتی ہے اور راستہ بن جاتا ہے۔

سوال نمبر 5:

بہت سے ایسے لوگ ہیں جو سب کچھ کہنے کے باوجود بھی نماز نہیں پڑھتے۔ ایسا کون سا طریقہ ہے جس سے ان کی اصلاح ہو؟

جواب:

حضرت مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ نے ایک جنرل قسم کا فارمولا بتایا ہے۔ بہت سارے فارمولے وقتی طور پر ہوتے ہیں کہ فلاں چیز کے لئے فلاں فارمولا اور فلاں چیز کے لئے فلاں فارمولا۔ انہوں نے ایک جنرل فارمولا یہ بتایا ہے کہ ایک تو ذکر اللّٰہ کی کثرت کرو، دوسرا صحبت صالحین اختیار کرو اور تیسرا موت کو کثرت کے ساتھ یاد کرو۔ بس یہ 3 چیزیں ہیں۔ موت کی یاد تمہیں منفی سے چھڑائے گی، ذکر تمہیں مثبت پہ لگائے گا، مثبت کے لئے زمین کو نرم کرے گا۔ اور صحبت صالحین سے آپ کے دل میں اعمال کے پھل پھول کھلیں گے۔ کیونکہ ہر انسان دوسرے سے چوری کرتا ہے یعنی اس سے استفادہ کرتا ہے، چاہے وہ منفی ہو، چاہے مثبت ہو۔ اگر آپ برے ماحول میں رہتے ہیں تو آہستہ آہستہ ان کی بری چیزیں آپ میں آتی جائیں گی، پہلے آپ اس کی مخالفت کریں گے، پھر مخالفت کی شدت میں کمی آتی جائے گی حتیٰ کہ آپ اس کے مخالف نہیں رہیں گے، پھر آپ اس کے اوپر آمادہ ہونا شروع ہو جائیں گے، پھر آپ اس کی دعوت دینے لگیں گے اور یہ سلسلہ بڑھتا رہے گا۔ یہ میں برے ماحول کی بات کر رہا ہوں۔ اور جب آپ اچھے ماحول میں آ جاتے ہیں تو چیزیں دوسری طرف چلنے لگتی ہیں۔ صحبت صالحین، جس کا قرآن پاک میں ذکر بھی ہے: ﴿وَكُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِيۡنَ (التوبہ: 119) یہ ایسی چیز ہے جس سے صالحین کے قلبی اور قالبی اعمال آپ کے اندر منتقل ہوتے رہیں گے اور بعض دفعہ آپ کو پتا بھی نہیں لگے گا۔ لیکن اگر آپ ذکر کی لائن سے ہوں گے تو ان کی مثبت باتیں بہت اچھی طرح آپ قبول کر سکیں گے۔ اور موت کی کثرت کے ساتھ یاد آپ کو منفی چیزوں سے بچائے گی۔ اسی لئے آپ ﷺ نے فرمایا: ’’موت کو کثرت کے ساتھ یاد کرو کہ یہ دنیا کی لذات کو توڑنے والی ہے۔‘‘ گویا حبِ باہ کو توڑنے کی چیز موت ہے۔ ورنہ انسان حبِ باہ میں پڑ کے کسی بھی وقت پھسل سکتا ہے۔ اگر موت یاد رہے گی تو بچت ہو جائے گی۔

فائدہ:

یہ ہمارے شیخ کی برکت ہے، ہم اپنے حضرت کو دیکھتے تھے کہ کسی ہاسٹل وغیرہ میں گشت پر گئے تو عمومی بیان کر لیا یا کبھی کسی نے بلا لیا تو بیان کر لیا۔ ورنہ حضرت کے اپنے گھر پر یہ ماحول ہوتا تھا کہ حضرت فرماتے تھے؛ ’’کوئی بات چلائیے۔‘‘ کوئی سوال کرتا تو حضرت اس کا جواب دے دیتے۔ سوال کے جواب میں بعض دفعہ پوا بیان ہو جاتا اور عصر سے لے کے مغرب تک کا پورا بیان ایک سوال کے جواب میں ہو جایا کرتا۔ بس یہ حضرت کی برکت ہے، توکلاً علی اللّٰہ ہم نے ان کی نقل شروع کی۔ الحمد للّٰہ اللّٰہ پاک کا شکر ہے اس سے لوگوں کو فائدہ ہوتا ہے۔ بلکہ سوال جواب کے انداز میں یہ فائدہ بھی ہوتا ہے کہ اگر کوئی خود اپنی طرف سے بیان کر رہا ہو تو لوگ اس میں سو جاتے ہیں جس سے اتنا زیادہ فائدہ نہیں ہوتا۔ لیکن اگر سوال کا جواب دیا جا رہا ہو تو اس میں لوگ سوتے نہیں ہیں، ذہن متوجہ ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ اس سوال کے جواب کو پانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں، لہذا وہ توجہ کے ساتھ اس کو سنتے ہیں۔ جیسے اس مجلس میں جتنے بھی لوگ بیٹھے ہیں تقریباً جاگ ہی رہے ہوں گے، کوئی سویا نہیں ہو گا۔

خانہ کعبہ کی بہت عجیب برکات ہیں، جب ہم حرم شریف میں تھے تو مختلف کیفیات آتی گئیں، اللّٰہ تعالیٰ ہمارے دوستوں کو اجر عظیم عطا فرمائے کہ وہ خاص قلم اور ڈائری اپنے ساتھ محفوظ رکھتے تھے، جس وقت میں ان کو اشارہ کرتا وہ فوراً ڈائری اور قلم پکڑا دیتے تو وہ کیفیات قلم بند ہو جاتیں۔ اسی طرح ایک دفعہ ہم میزاب رحمت کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے تو یہ اشعار آ گئے؎

میزاب رحمت:

بیٹھا ہوں میں حرم میں اور کعبے پہ نظر ہے

انوار میں ڈوبا ہوں میرے دل پہ اثر ہے

یہ گھر سیاہ پوش رحمتوں کا سمندر

میں دل میں بسا لوں اسے یہ سب کا مگر ہے

گرد اس کے یہ سب لوگ لگاتے ہیں جو چکر

انداز مختلف میں کوئی اور چکر ہے

طواف:

دل اس میں رُو بکعبہ نظر سیدھ میں رہے

کعبہ ہے اپنا رخ ہم ہیں اس پر یہ جدھر ہے

ملتا ہے فیض جس کو یا محفوظ مگر ہو

جو کوئی اپنے دل سے موجود ادھر ہے

یہ خانہ کعبہ کی بات تھی۔ ایک کعبہ کی حقیقت کے بارے میں نظم ہے۔ ذہن ذرا اس طرف چلا گیا کہ کعبہ کیا ہے؎

مکعب نما کمرہ کعبہ یہ کیا ہے

جو قائم یہاں پر بحکم خدا ہے

یہ گھر پتھروں کا حقیقت نہیں ہے

حقیقت تو وہ ہے جو سب سے جدا ہے

مکعب نما کمرہ کعبہ یہ کیا ہے

جو قائم یہاں پر بحکم خدا ہے

یہ کعبہ جہاں ہے وہی فی الحقیقت

ہے کعبہ جو ہر ایک کا سجدہ گاہ ہے

اگر خانہ کعبہ کے پتھروں کو اٹھا کر کسی اور جگہ لے جائیں تو کیا آپ ان کی طرف رخ کر کے سجدہ کریں گے؟ خانہ کعبہ کی جگہ اگر کوئی بھی دیوار نہ ہو تو سجدہ کس طرف کریں گے؟ اس طرف ہی کریں گے۔ لہذا اصل کعبہ وہ جگہ ہے۔

تجلی خدا کی اسی پہ ہے مرکوز

یہاں سے پھر ہر ایک کو حصہ ملا ہے

یہی وجہ ہے کہ سب سے پہلے رحمت کعبہ پہ اترتی ہے اور وہاں سے پھر سب چیزوں پہ تقسیم ہوتی ہے، اس لئے جو قریب ترین ہوں گے ان کو سب سے زیادہ رحمت ملے گی۔

لیکن اس میں ایک فرق ہے کہ وہ قریب ترین مکلف ہے یا غیر مکلف ہے یعنی جمادات میں سے ہے، نباتات میں سے ہے یا پھر انسانوں اور جنوں میں سے ہے۔ انسانوں اور جنوں کے ساتھ نیت وابستہ ہے۔ جیسے آپ ﷺ فرمایا: ’’اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ‘‘ (بخاری شریف: 1) لہذا اگر کوئی صحیح نیت کے ساتھ ہے تو اس کو برکت ملتی ہے، لیکن اگر بری نیت سے ہے تو الٹا نقصان ہوتا ہے۔ لیکن پتھر جمادات میں سے ہیں وہ مکلف نہیں ہیں اس لئے وہ ان برکات کو حاصل کرتے ہیں۔

اترتی ہے رحمت یہاں سب سے پہلے

وہاں سے ملے جس کا حصہ رکھا ہے

یہ پتھر غلاف سب منور ہیں اس سے

بقدرِ قرب اس میں ہر ایک کا ہے

جدا بات ہے حجر اسود کی لیکن

یہ تحفہ جنت کا خدا سے ملا ہے

حجر اسود کو اگر آپ دنیا کے دوسرے سرے میں بھی لے جائیں گے تو وہ حجر اسود ہی ہو گا، اس کی اپنی ایک حیثیت ہے۔ جب وہ خانہ کعبہ میں آ جائے گا تو وہ اپنی جگہ پہ آ جائے گا، لیکن جہاں بھی رکھا جائے گا وہ حجر اسود ہی ہو گا، اس کی اپنی حیثیت ختم نہیں ہو گی۔ لیکن اگر آپ خانہ کعبہ کے پتھروں کو کہیں اور لے جائیں تو ان کی خانہ کعبہ کی حیثیت نہیں رہے گی، وہ مبارک پتھروں تو ہوں گے، کیونکہ انہوں نے بہت نور کھینچا ہے، ان میں برکت ہو گی لیکن وہ سجدہ گاہ نہیں بن سکیں گے۔ ان کی جو حیثیت خانہ کعبہ میں ہے وہ کہیں اور نہیں ہو گی۔

نشانی ہے توحید کی کعبہ شبیر

یہ تعظیم و عشق کا آماج گاہ ہے

یعنی اس کے ساتھ محبت بھی کرو، اس کی تعظیم بھی کرو۔ یہ دونوں باتیں ضروری ہیں۔

ایک سمندر ہے نور کا کعبہ

کس کو پتا ہے کہ ہے کیا کعبہ

پوری دنیا کا نقطۂ وحدت

پورے عالم کا سجدہ گاہ کعبہ

رحمتوں کا ہے اوّلیں مرکز

حسنِ ازل کا ہے جلوہ کعبہ

حجر اسود کے جنتی پتھر

اور ملتزم کا نظارہ کعبہ

دل سے جھک جانا اس کے سامنے شبیر

آج اخلاص سے ہے جس کا کعبہ

یعنی حقیقت میں ہم اللّٰہ کے سامنے جھکیں گے، ہم خانہ کعبہ کی بات نہیں کر رہے بلکہ اللّٰہ کی بات کر رہے ہیں۔ لیکن اللّٰہ نے یہ سمت مقرر کی ہے کہ اس طرف رخ کرنا ہے لہذا ہم اس طرف رخ کریں گے۔

یہ اشعار خانہ کعبہ کے بارے میں تھے۔ اس کے بعد ہم جب مدینہ منورہ جا رہے تھے تو مدینہ منورہ کے راستے میں کچھ اشعار وارد ہوئے۔ جب ہم خانہ کعبہ سے مدینہ منورہ کی طرف جا رہے تھے تو خانہ کعبہ کے چھوڑنے کا خیال اور پھر مدینہ منورہ کی طرف جانے کا خیال، یہ دونوں باتیں اکھٹی آ رہی تھیں، لہذا اس کے بارے میں بھی کیفیات قلم بند ہوئیں۔

قافلہ اپنا حرم سے آج ہی جانے کو ہے

ضبط تو کرنا ہے پیمانہ چھلک جانے کو ہے

کیا یہاں پر زندگی کعبہ کے نظارے کی تھی

چھوڑے جائیں گے یہاں پر وقت یہ آنے کو ہے

قدر کرتے کاش اپنے وقت کی جو تھا ملا

رہ گئی حسرت یہی تو وقت سمجھانے کو ہے

روز زم زم کے جو کأس پیتے تھے بعد از نماز

رہ گیا سب چل دیے ہم یہ غم ہم پہ چھا جانے کو ہے

شمع کی مانند کعبہ تھا تھے ہم پروانے سب

رہ گئی شمع شبیر بس ہم اب غم یہ چھا جانے کو ہے

اس کے بعد مدینہ منورہ کا سفر شروع ہوا تو بس میں یہ اشعار وارد ہوئے تھے؎

شروع اب ہوا ہے مدینے کا راستہ

کہے دل کہ کیا ہے مدینے کا راستہ

یہ دل کا ہے راستہ یہ آرزوئے دل ہے

کہ دل پہ کھلا ہے مدینے کا راستہ

یہ راہ محبت ہے راہ یقین ہے

طریقِ وفا ہے مدینے کا راستہ

اسی راہ پہ تھے گئے کون سوچو

طریق صفا ہے مدینے کا رستہ

سڑک پر گزر کے میں اس بورڈ کو چوموں

کہ جس پہ لکھا ہے مدینے کا راستہ

شبیر راستہ جنت کا ہے کوئی پوچھے

تو دل نے کہا ہے مدینے کا راستہ

مدینے کا راستہ جنت کا راستہ ہے، اس سے کوئی اختلاف نہیں کر سکتا۔

یہ کافی اشعار ہیں لیکن میں آپ کو صرف تھوڑے تھوڑے سنا رہا ہوں، اللّٰہ کرے پورے ہو جائیں۔ مدینہ منورہ کے سفر میں یہ اشعار بھی وارد ہوئے تھے؎

کیا خوب مزے دار مدینے کا سفر ہے

دل پر میرا سوار مدینے کا سفر ہے

دل گنبد خضرا کے نظارے میں ہے مشغول

اور بخت بھی بیدار مدینے کا سفر ہے

کیا لکھ دے کیا سوچے قلم کیسے میں رکھ دوں

دل کا کیا اعتبار مدینے کا سفر ہے

آنکھوں میں مدینہ ہے تصور میں مدینہ

خیالات بے شمار مدینے کا سفر ہے

کہنا قلم سے آج کہ تھک جائے نا شبیر

منہ پر بھی ہیں اشعار مدینے کا سفر ہے

یعنی یہ کیفیات کی دنیا ہے ہمیں اس کا خیال رکھنا چاہئے۔ پھر ہم الحمد للّٰہ مدینہ شریف پہنچ گئے، مدینہ منورہ میں الگ کیفیات تھیں۔ جب تک ہم روزۂ اقدس پہ حاضر نہیں ہوئے تھے تو الگ جذبات تھے پھر جب حاضر ہو گئے تو الگ جذبات تھے، گویا ہر مقام کے اپنے اپنے جذبات ہیں۔

اپنے محبوب کے دربار میں کیسے جائیں

جان و دل پیش کریں اور وہ قبول فرمائیں

ہم سامنے ہوں کھڑے ان کی نظر ہم پر ہو

اور پھر نظر کرم سے ہم ان کی تر جائیں

اپنی آنکھیں ہوں جھکی جان و تن سے پیش ہوں ہم

کیسے ہو گا یہ خدایا بس ہم تو شرمائیں

لب سے اور دل سے پھر ہم پیش کریں درود و سلام

دل کہاں ہو گا ساتھ لب بھی کہاں ہل پائیں

اس کیفیت میں بے بسی کے آنکھ کام آئے شبیر

موتیوں اور گوہروں کے اشک برسائیں

یعنی وہاں صرف ایک ہی کام ہو سکتا ہے۔ کیونکہ نہ زبان ساتھ دے گی، نہ کوئی اور عضو ساتھ دے گا۔

پھر جب وہاں پہنچے اور مسجد نبوی میں بیٹھے ہوئے تھے تو یہ سلام اللّٰہ تعالیٰ نے لکھوایا؎

خاتم الانبیاء مصطفٰی پر سلام

سرور دو جہاں مجتبٰی پر سلام

خاتم الانبیاء خاتم المرسلین

باکمال باجمال سب سے بڑھ کر حسین

محسنِ ما رسولِ خدا پر سلام

خاتم الانبیاء مجتبی مصطفی پر سلام

ظاہراً آخرین لیکن ہیں اولین

رحیمٌ و رؤفٌ اور نورٌ مبین

رب کے محبوب شمس الھدیٰ پر سلام

خاتم الانبیاء مصطفی پر سلام

جن کے واسطے یہ سب کچھ بنایا گیا

اس زمین آسماں کو سجایا گیا

جو کہ تھے انبیاء کے دعا پر سلام

خاتم الانبیاء مصطفی پر سلام

وہ کہاں ہم کہاں ہم فقیر و حقیر

ان کی ملتی نہیں دو جہاں میں نظیر

پڑھ شبیر خاتم الانبیاء پر سلام

یہ سلام پڑھا گیا اور اس کے بعد آپ ﷺ کے متعلق جو جذبات تھے وہ یہ قلم بند کئے۔

کیا رہے دل میں اگر حبِ مصطفٰی نہ رہے

یا پھر عمل میں اگر ان کی اتباع نہ رہے

اصل میں ہمارے ذہن میں یہ بات مسلسل بیٹھی ہوئی تھی کہ آج کل دو انتہا پسند فرقے بن گئے ہیں۔ کچھ لوگوں نے آپ ﷺ کی ذات کی محبت کو لے لیا اور آپ ﷺ کی سنت کو چھوڑ دیا۔ اور کچھ لوگوں نے آپ ﷺ کی سنت کو لے لیا مگر آپ ﷺ کی ذات کی محبت کو چھوڑ دیا۔ یہ دونوں غلطی پر ہیں، جزوی چیز کو لئے ہوئے ہیں، کلی چیز کو نہیں لے رہے۔ جو لوگ دونوں کو لیتے ہیں وہی حق پر ہیں۔ ذات کی محبت بھی ضروری ہے۔ کیونکہ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل مؤمن نہیں ہو سکتا، جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کی اولاد، اس کے والدین اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔‘‘ ایک اور روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا کہ: ’’جب تک میں تمہیں اپنی جان سے بھی محبوب تر نہ ہو جائوں (تم اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے)‘‘۔ یہ ذات کی محبت ہے، اس میں کسی سنت کا ذکر نہیں ہے، صرف ذات کی محبت کا ذکر ہے۔ جب کہ ﴿قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ﴾ (آل عمران: 31) میں اتباع کا ذکر ہے۔ لہذا دونوں چیزوں کی ضرورت ہے۔ گویا ذات کی محبت تو آپ کے ایمان کو بچا رہی ہے اور سنتیں آپ کو اوپر چڑھا رہی ہیں۔ یہ دونوں چیزیں ہوں گی تو کام بنے گا۔ جس کا ایمان ہی مکمل نہ ہو وہ اوپر نہیں چڑھ سکتا، ایمان ہر چیز کی بنیاد ہے۔ جب تک ایمان ہی مکمل نہیں ہو گا تو آگے کیسے بڑھو گے؟ لہذا یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ خدا نخواستہ اگر دل کا تعلق آپ ﷺ کے ساتھ نہیں ہے تو اعمال کر کر کے ماتھے رگڑ رگڑ کے بھی کام نہیں بنے گا۔ خوارج اسی قسم کے لوگ تھے، ان کے بارے میں آپ ﷺ نے صحابہ سے فرمایا کہ: ’’یہ ایسے اعمال کریں گے کہ تم اپنے اعمال کو ان کے سامنے ہیچ سمجھو گے، لیکن یہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکل جاتا ہے۔‘‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا دل نہیں لگا ہوا تھا، وہ نسبتوں کی بات نہیں جانتے تھے۔ انہوں نے کہا: ’’ہمارے لئے قرآن کافی ہے۔‘‘ حضرت عبد اللّٰہ بن عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں جب ہم نے نہروان میں خوارج پر حملہ کیا تو ان کے خیموں سے قرآن پاک کی تلاوت کی ایسی آواز آ رہی تھی جیسے مکھیاں بھنبھنا رہی ہوں۔ جس ظالم نے حضرت علی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کو شہید کیا تھا، جب اس کو مارا جا رہا تھا تو وہ اتنا پکا تھا کہ جب اس کے ہاتھ کاٹے گئے تو وہ نہیں رویا۔ کان کاٹے گئے، نہیں رویا۔ ناک کاٹی گئی، نہیں رویا۔ آنکھوں کے اندر گرم سلائیاں ڈالی گئیں، نہیں رویا۔ اس کی آنکھیں چہرے پہ آ گئیں، نہیں رویا۔ لیکن جب اس کی زبان کاٹی جانے لگی تو رو پڑا۔ لوگوں نے اس سے کہا کہ اب کیوں روتے ہو؟ اس نے کہا میں اس زبان سے ستر ہزار مرتبہ ذکر کرتا ہوں، اب میری زبان مجھ سے چلی جا رہی ہے، میں ذکر نہیں کر سکوں گا۔ اب جو ستر ہزار مرتبہ ذکر کرنے والا ہے وہ بھی اتنا ظالم ہے کہ وہ اس امت کے اشقیاء میں سب سے بڑا شقی ہو گا۔ آپ ﷺ نے علی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا تھا کہ وہ کیسا وقت ہو گا جب تیری داڑھی خون سے بھر چکی ہو گی، اور یہ کام کرنے والا میری امت کا شقی ترین آدمی ہو گا۔ اندازہ کریں کہ وہ شقی ترین آدمی اتنا ذکر کر رہا ہے۔ لیکن دل کا تعلق نہیں تھا تو عمل نے اس کو نہیں بچایا۔ آخری زمانہ میں جو حبشی خانہ کعبہ کو توڑے گا وہ ایک ایک پتھر کو توڑے گا اور جب پورے خانہ کعبہ کو توڑ دے گا تو کہے گا الحمد للّٰہ۔ یہ ساری باتیں حقیقت ہیں لیکن آج کل لوگ اس لائن پہ نہیں سوچتے۔ آج کل کچھ لوگ اعمال کی طرف بڑھے جا رہے ہیں، بڑھے جا رہے ہیں لیکن اس کی کوئی پروا نہیں کہ نظریات و عقائد کی اصلاح کریں، اپنے ایمان کی اصلاح کریں۔ اور ایمانیات کی باتیں کریں گے، ذات کی محبت کی باتیں کریں گے، لیکن اعمال کی طرف نہیں آئیں گے۔ پوری رات نعتیں سنیں گے لیکن فجر کی نماز نہیں پڑھیں گے۔

وَ آخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ