مقاماتِ قطبیہ و مقالاتِ قدسیہ درس 23


اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے بارے کتاب ’’مقاماتِ قطبیہ و مقالاتِ قدسیہ‘‘ سے تعلیم چل رہی ہے۔ آج ان شاء اللہ اس کا ساتواں باب شروع کر رہے ہیں، جو حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے حالات و مقامات کے بارے میں ہے۔ فرماتے ہیں:

متن:

ساتواں باب

حضرت صاحب کے متفرق حالات و مقامات اور انفاس کے بیان میں

ہمارے حضرت صاحب بہت زیادہ معلومات اور دسترس رکھتے تھے اور انفاس کے حالات میں بہت زیادہ درک اور کافی زیادہ اور عمیق معلومات ان کو حاصل تھیں، کوئی بھی چیز اُن سے مخفی و مستور نہیں ہوتی تھی۔ علمِ توحید اور علمِ شریعت کے بعد کوئی بھی علم، علمِ سلوک سے بڑھ کر شریف نہیں۔ علم حاصل کرنے اور تعلیم دلانے کے بعد کوئی فن بھی فنِ ریاضت سے اشرف و افضل نہیں، ہاں یہ بات یاد رہے کہ علمِ سلوک ایک ایسی مفید چیز ہے جو کہ جہالت کے صحرا میں گرے پڑے لوگوں کو اپنے دینی مقصد تک پہنچاتی ہے اور ریاضت ایک ایسا عمل ہے جو کہ ضلالت و گمراہی کے بیابان اور لق و دق صحرا کے گم کردہ راہوں کو یقین کی منزل تک پہنچا کر دم لیتا ہے۔ علمِ سلوک کی اصطلاحات میں سے ایک کو ”حال“ کہتے ہیں اور "اَلْحَالُ مَا یَرِدُ عَلَی الْقَلْبِ مِنْ طَرَبٍ أَوْ حُزْنٍ أَوْ بَسْطٍ أَوْ قَبْضٍ وَّالْحَالُ سُمِّيَ حَالًا لِّتَحَوُّلِہٖ مِنْ حَالٍ إِلٰی حَالٍ" ”اور حال وہ ہوتا ہے جو کہ دل کو ایک حالت یعنی خوشی، غم، بسط اور قبض سے دوسری جانب لے جاتا ہے، اور حال کو حال اس لئے کہتے ہیں کہ اس میں تحوّل یعنی ایک حال سے دوسرے حال میں بدل جانے کا عمل ہوتا ہے“۔

ریاضت کے میدان کے شہسوار کہتے ہیں کہ ایمان، توبہ، زہد اور دائمی عبادت گزاری کے گھوڑے پر سوار ہو کر تمام احوال و مقامات کو فتح کرے۔ اور ان چار چیزوں کی امداد کے بغیر مندرجہ بالا چار چیزوں پر فتح حاصل نہیں کی جا سکتی اور وہ چار چیزیں یہ ہیں: "وَھِيَ قِلَّۃُ الْکَلَامِ وَقِلَّۃُ الطَّعَامِ وَقِلَّۃُ الْمَنَامِ وَالْاِعْتِزَالُ عَنِ النَّاسِ" یعنی کم بولنا، کم کھانا، کم سونا اور لوگوں سے کنارہ کش رہنا۔ اب یہ بات یاد رکھو کہ سلوک میں ایک کو صاحبِ وقت کہتے ہیں اور ایک کو صاحبِ احوال کہتے ہیں اور ایک کو صاحبِ انفاس کہتے ہیں۔ صاحبِ وقت مبتدی ہوتا ہے اور صاحبِ انفاس منتہی اور صاحبِ احوال اِن دونوں کے درمیانی درجے پر فائز ہوتا ہے۔ اور احوال متناہی نہیں ہوا کرتے، یعنی اِن کی کوئی انتہا نہیں ہوتی، کیونکہ احوال اللہ تعالیٰ کے عطیہ اور مواہب میں سے ہوتے ہیں اور مواہبِ الٰہی کی انتہا نہیں ہوتی۔ مختصر یہ کہ احوال غیبی عطیہ اور مواہب ہوتے ہیں اور عالمِ غیب سے تعلق رکھتے ہیں، اس لئے ان کی تشریح، توضیح اور بیان ذوقِ قلم سے ادا نہیں کی جا سکتی۔ "قَیْلَ: الْمَقَامَاتُ مِنَ الْمَکَاسَبِ وَالْأَحْوَالُ مِنَ الْمَوَاھِبِ" ”اہلِ اعلم کہتے ہیں کہ مقامات کا حصول کسب و عمل سے تعلق رکھتا ہے اور احوال کا انحصار اللہ تعالیٰ کی دَین (عطا) ہے“۔

اِیں سعادت بزورِ بازو نیست

تا نہ بخشد خدائے بخشنده

قطعہ کین سلامت نشان بے عیبی است

حالِ حاصل زکسب نتواں کرد

حالِ خوش از مواهب غیبی ست

(مصرعۂ چہارم درج نہیں)

مختصر یہ کہ حال، کسب و عمل سے حاصل نہیں کیا جا سکتا، یہ مواہبِ غیبی اور فیضِ الٰہی میں سے ہوتا ہے۔ یہ بات جاننی چاہئے ہے کہ اس علم کی اصطلاحوں میں سے ایک ”وجد“ ہے، اور وجد کی تعریف علمائے سلوک یہ کرتے ہیں کہ "اَلْوَجْدُ مَا یَرِدُ عَلَی الْقَلْبِ بِلَا تَکَلُّفٍ" یعنی جو وجدانی طور پر بغیر کسی تکلف اور آورد کے دِل پر چھا جائے۔

تشریح:

الحمد للہ! بہت اعلیٰ بات شروع ہوئی ہے۔ اس میں ان شاء اللہ، اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے بہت کچھ ملے گا۔ حضرت کو اللہ جل شانہ نے ان چیزوں میں بڑا درک عطا فرمایا تھا اور حضرت کی تربیت چونکہ اویسی ترتیب سے ہوئی تھی، اور بعد میں اپنے والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے فیض حاصل کیا تھا، اس وجہ سے حضرت کے گھر کا معاملہ تھا اور حضرت پیدائشی طور پر ولی اللہ تھے۔ جب انسان پیدائشی طور پر ولی اللہ ہو، تو اس کا حاصل کرنے کا سلسلہ مسلسل جاری رہتا ہے، کیونکہ عام لوگ تو پہلے اُس مقام تک پہنچتے ہیں کہ وہ سمجھنا شروع کرتے ہیں، پھر اس کے بعد سمجھتے رہتے ہیں۔ اور جن کو اللہ پاک نے پہلے ہی سے ایسا بنایا ہو، تو ان کا حال کیا ہو گا؟ اس وجہ سے کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا ان چیزوں میں درک بہت زیادہ تھا، اور بہت ساری چیزیں اللہ تعالیٰ نے ان پر وہبی طور پر کھولی ہوئی تھیں، اور بہت ساری باتیں جو حضرت کو نظر آ رہی تھیں، وہ لوگوں کو کتابوں میں ملنا دشوار تھیں۔ اس وجہ سے ان شاء اللہ حضرت کی ان معلومات سے اور ان کے حالات سے بہت فائدہ ہو گا۔

متن:

اور انفاس کے حالات میں بہت زیادہ درک اور کافی زیادہ اور عمیق معلومات ان کو حاصل تھیں، کوئی بھی چیز اُن سے مخفی و مستور نہیں ہوتی تھی۔ علمِ توحید اور علمِ شریعت کے بعد کوئی بھی علم، علمِ سلوک سے بڑھ کر شریف نہیں۔

تشریح:

علمِ توحید عقیدہ سے تعلق رکھتا ہے، اور علمِ شریعت اعمال سے تعلق رکھتا ہے، اور علمِ سلوک احوال سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ تین چیزیں ہیں۔ تینوں بتدریج اس طریقے سے افضل ہیں۔ کیونکہ عقیدہ بنیادی چیز ہے، اگر خدانخواستہ عقیدہ صحیح نہ ہو، تو پھر کچھ بھی ٹھیک نہیں ہوتا۔ پھر چاہے کتنے ہی اعمال کئے ہیں، سارے کے سارے ضائع ہو جائیں گے۔ اور جب عقیدہ صحیح ہو، تو پھر اعمال کی باری آتی ہے۔ اگر عمل ہی نہ ہو، تو اس میں کیفیت کیا ہو گی! گویا عمل ظرف ہے اور کیفیت اس کے اندر مظروف ہے۔ جب ظرف نہیں ہو گا، تو مظروف کیسے آئے گا؟ لیکن اگر کوئی صرف عقیدہ پہ رہ گیا، تو وہ بھی خسارے میں ہے، کیونکہ تکمیل نہیں ہوئی، اعمال حاصل نہیں ہوئے۔ اگر اعمال حاصل ہوں، لیکن ان کی تکمیل نہ ہو، یعنی ان میں حال کا درجہ حاصل نہ ہو تو پھر بھی تکمیل نہیں ہوئی، ان کے اندر جان نہیں ہو گی۔ مثلاً: ایک شخص مسلمان ہے، الحمد للہ! ایمان رکھتا ہے، عقیدے اس کے صحیح ہیں، لیکن نماز نہیں پڑھتا، تو وہ گناہ گار ہے۔ نماز پڑھے گا، تو اس گناہ سے بچے گا۔ اس طرح نماز کے علاوہ جو فرائض ہیں، ان کو بھی پورا کرے گا۔ لیکن ایک اور شخص ہے، جس کا عقیدہ بھی صحیح ہے، مومن ہے، نماز بھی پڑھتا ہے، لیکن اس کی نماز کے اندر جان نہیں ہے، مثلاً: خشوع و خضوع نہیں ہے، عاجزی نہیں ہے، ریا پائی جاتی ہے، تو ظاہر ہے کہ اس کی نماز وہ درجہ نہیں پا سکتی جو درجہ مقصود ہے۔ اس کے لئے اس کو کچھ اور محنت کرنی پڑے گی اور اس کے اندر جان پیدا کرنی پڑے گی۔ پہلا علم یعنی علمِ توحید عقیدے کا علم ہے، یہ سب سے زیادہ ضروری ہے، لیکن اس پر اکتفا نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے بعد دوسرا علمِ شریعت ہے، یہ اس کے بعد ضروری ہے؛ کیونکہ اعمال بنیاد ہیں۔ اگر یہ ہی حاصل نہیں، تو انسان احوال حاصل نہیں کر سکتا۔ لہذا ایمان کے بعد اعمال زیادہ اہم ہیں۔ لیکن یہ بھی کافی نہیں ہیں۔ اور آخری یعنی احوال، اگر وہ صحیح حاصل ہو جائیں، صحیح کیفیت حاصل ہو جائے، صحیح پہچان آ جائے، تو پھر ما شاء اللہ اعمال کی قیمت بڑھے گی۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ عارف کی دو رکعت کی نماز غیر عارف کی لاکھوں رکعتوں سے افضل ہوتی ہے؛ کیونکہ وہ جو دو رکعت نماز پڑھتا ہے، اس کے اندر جن جن چیزوں کی رعایت رکھتا ہے اور اپنے احوال کی حفاظت کرتا ہے، تو ظاہر ہے کہ وہ بہت بڑی عبادت بن جاتی ہے۔ اور اگر ایسا نہیں ہے، تو وقت کے ساتھ نماز تو پڑھ لیتا ہے، بے نمازی نہیں کہلائے گا، لیکن اس کی نماز کی قیمت وہ نہیں ہو گی جو ہونی چاہئے۔ اس وجہ سے ان تینوں چیزوں کا حصول ضروری ہے۔ یہی حدیث شریف میں سوال اور جواب کی صورت میں ہمارے سامنے آتا ہے کہ آپ ﷺ سے پوچھا گیا: ’’مَا الْإِیْمَانُ، مَا الْإِسْلَامُ‘‘ اور ’’مَا الْإِحْسَانُ‘‘؟ تو ’’مَا الْإِیْمَانُ‘‘ کے جواب میں آپ ﷺ نے عقائد بتا دیئے۔ ’’مَا الْإِسْلَامُ‘‘ کے جواب میں شریعت کے اعمال بتا دیئے اور ’’مَا الْإِحْسَانُ؟‘‘ کے جواب میں اس کی کیفیت اور حال کے بارے میں بتا دیا کہ: ’’أَنْ تَعْبُدَ اللهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنْ لَّمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهٗ يَرَاكَ‘‘۔ (بخاری شریف، حدیث نمبر: 50)

ترجمہ: ’’اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے ہو، تو وہ یقیناً تمہیں دیکھ رہا ہے‘‘۔

چنانچہ حضرت نے یہ جو فرمایا کہ علمِ توحید اور علمِ شریعت کے بعد کوئی بھی علم، علمِ سلوک سے بڑھ کر شریف نہیں؛ کیونکہ علمِ توحید عقائد سے تعلق رکھتا ہے، علمِ شریعت اعمال سے تعلق رکھتا ہے اور علمِ سلوک احوال اور کیفیات سے تعلق رکھتا ہے، اعمال کے اندر جو جان ہے، اس کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔ لہٰذا تینوں درجہ بدرجہ اپنے اپنے لحاظ سے اہم ہیں۔ ریاضی کا ایک قاعدہ ہے، جو اس بات کو ذرا آسانی کے ساتھ بیان کرتا ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ necessary condition ہے، لیکن sufficient (کافی) نہیں ہے۔ اسی طرح آپ کا عقیدہ بہت necessary ہے، لیکن sufficient (کافی) نہیں ہے۔ پھر اس کے بعد اعمال بھی بہت necessary ہیں، لیکن sufficient نہیں ہیں۔ اس کے بعد جب احوال بھی ٹھیک ہو جائیں، تو sufficient ہو جاتا ہے۔ گویا یہاں تک مسلسل سفر جاری رہے گا۔ عقیدہ بھی صحیح ہونا چاہئے، پھر اعمال بھی صحیح ہونے چاہئیں، اس کے بعد احوال بھی صحیح ہونے چاہئیں۔ اس لئے تینوں کے لئے تینوں چیزوں کا علم ضروری ہے۔ ایک علمِ توحید ہے، دوسرا علمِ شریعت اور تیسرا علمِ سلوک ہے۔

متن:

ہاں! یہ بات یاد رہے کہ علمِ سلوک ایک ایسی مفید چیز ہے جو کہ جہالت کے صحرا میں گرے پڑے لوگوں کو اپنے دینی مقصد تک پہنچاتی ہے۔

تشریح:

مثلاً: ایک جاہل شخص ہے، کسی چیز کو نہیں جانتا، اگر وہ علمِ سلوک سے بھی شروع کر لے، تو علمِ سلوک سے اس کے عقیدے بھی درست ہونا شروع ہو جائیں گے، اس کے اعمال بھی درست ہو جائیں گے، کیونکہ اس کو وقت کے ساتھ ساتھ اس کی ضرورت کا پتا چلتا رہے گا۔ یہ وہی بات ہے، جیسے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا ہے کہ بغیر علم کے اگر صحبت حاصل ہو، تو وہ کافی ہو سکتی ہے اور علم کے ساتھ اگر صحبت حاصل نہیں ہے، تو وہ علم کافی نہیں ہو گا۔ یہ حضرت نے اس لئے فرمایا کہ بغیر علم کے جو شخص صحبت والا ہے، صحبت کے ذریعے سے اس کو پتا چلتا رہے گا، تو وہ پوچھ پوچھ کے چلے گا، لہٰذا اُس کا کام ہو گیا۔ لیکن جس شخص کو علم حاصل ہے، مگر اس کو صحبت حاصل نہیں ہے، تو وہ اپنے آپ کو عالم سمجھے گا اور کسی چیز کی ضرورت نہیں سمجھے گا، اور اس کو اس کا پتا بھی نہیں چلے گا کہ حال کے درجہ میں کون سی چیز اس کے لئے کتنی ضروری ہے۔ تو وہ necessary حالات پہ تو رہے گا، لیکن sufficient پہ نہیں آئے گا۔ یہ اصل میں اس طرف اشارہ ہے۔

متن:

اور ریاضت ایک ایسا عمل ہے جو کہ ضلالت و گمراہی کے بیابان اور لق و دق صحرا کے گم کردہ راہوں کو یقین کی منزل تک پہنچا کر دم لیتا ہے۔

تشریح:

ریاضت، مشقت اور مجاہدہ، یہ ساری چیزیں اگر صحیح نگرانی میں ہوں، اور جو صحیح مشائخ کے ساتھ ہو، تو اس کو یہ چیزیں واقعتاً یقین کے درجہ تک پہنچاتی ہیں اور انسان کو ان تمام منازل تک پہنچا دیتی ہیں۔

متن:

علمِ سلوک کی اصطلاحات میں سے ایک کو ”حال“ کہتے ہیں اور "اَلْحَالُ مَا یَرِدُ عَلَی الْقَلْبِ مِنْ طَرَبٍ أَوْ حُزْنٍ أَوْ بَسْطٍ أَوْ قَبْضٍ وَّالْحَالُ سُمِّيَ حَالًا لِّتَحَوُّلِہٖ مِنْ حَالٍ إِلٰی حَالٍ" ”اور حال وہ ہوتا ہے جو کہ دل کو ایک حالت یعنی خوشی، غم، بسط اور قبض سے دوسری جانب لے جاتا ہے، اور حال کو حال اس لئے کہتے ہیں کہ اس میں تحوّل یعنی ایک حال سے دوسرے حال میں بدل جانے کا عمل ہوتا ہے“۔

تشریح:

حال اصل میں مسلسل ترقی کی ایک صورت ہے، جس کو حال حاصل نہیں ہوتا، اس کی ترقی نہیں ہو رہی ہوتی۔ کیونکہ ایک مقام سے دوسرے مقام میں جانے کے لئے حال ضروری ہے۔ لہٰذا جب اس کو وہ حال حاصل نہیں ہو گا، تو وہ ادھر سے جائے گا ہی نہیں۔ حال اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے، کیونکہ مقامات مکاسَب ہیں اور احوال مواہب ہیں۔ اللہ جل شانہ کا تربیت کا جو نظام ہے، اس میں احوال طاری ہوتے رہتے ہیں، احوال آتے رہتے ہیں۔ البتہ احوال کا ادراک، احوال کی قدر اور احوال کا صحیح استعمال، یہ صحبت پر منحصر ہے۔ اگر کسی کو صحبتِ صالح حاصل ہو، تو وہ ان چیزوں سے حاصل کرتا رہتا ہے، ورنہ یہ چیزیں ضائع بھی ہو سکتی ہیں۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: حال اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت زیادہ نازک مہمان ہے، اگر اس کی کوئی قدر نہ کرے، تو یہ روٹھ بھی جاتا ہے۔ بلکہ یہاں تک فرماتے ہیں کہ صاحبِ حال ہر ایک کے ساتھ نہ رہے، بلکہ سمجھ دار لوگوں کے ساتھ رہے۔ کیونکہ اگر وہ سمجھ داروں کے ساتھ نہیں ہو گا، تو جب اس کو کوئی حال آئے گا اور اس کے ساتھی حال کا ادب نہیں کریں گے، تو اس سے نقصان بھی ہو سکتا ہے اور وہ حال جا سکتا ہے۔ لہٰذا صاحبِ حال لوگوں کے ساتھیوں کو بھی سمجھ داری کی ضرورت ہوتی ہے، تاکہ وہ اس کا خیال رکھ سکیں اور اس کو ضائع نہ کریں۔

میں آپ کو اپنا واقعہ بتاتا ہوں، جو میرے ساتھ ہوا ہے۔ جب میں حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت ہوا، تو اللہ تعالیٰ نے مجھے دو چیزیں فوراً عطا فرمائی تھیں، وہ نعمتیں تھیں، مجھ سے قدر نہیں ہو سکی۔ ایک نعمت یہ تھی کہ مجھے میوزک سے سخت نفرت ہو گئی۔ میوزک سنتے ہی میرے سر میں درد ہو جاتا تھا۔ یہ بڑی عجیب بات تھی۔ اس حد تک پریشانی تھی کہ میں حضرت سے کہنے پہ مجبور ہوا کہ حضرت میں بسوں میں جاتا ہوں، وہاں موسیقی ہوتی ہے، تو میرے سر میں درد ہو جاتا ہے۔ حضرت نے اس کے لئے مجھے وظیفہ "یَا ھَادِیْ یَا نُوْرُ لَآ حَوْلَ وَلَآ قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ" بتایا کہ آپ یہ وظیفہ کر لیا کرو۔ دوسری بات یہ تھی کہ میں کسی کے ساتھ گلے نہیں لگ سکتا تھا۔ سخت repeltion ہوتی تھی۔ یہ بھی عجیب و غریب بات تھی۔ مجھے اس کو بیان کرنے کا تو حوصلہ نہیں اور نہ میں بیان کر سکتا ہوں، لیکن بس کچھ ہوتا تھا۔ کسی کے ساتھ گلے ملتا تھا، تو پریشانی ہوتی تھی۔

در اصل انسان بغیر پوچھے جو کام کرتا ہے، تو اس سے نقصان ہوتا ہے۔ چنانچہ کسی جگہ میں نے پڑھا تھا کہ حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے کسی خلیفہ نے دربان مقرر کیا، تو حضرت نے پوچھا: کیوں دربان مقرر کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ حضرت ہر کس و ناکس سے ملنے سے دل کا نور جاتا رہتا ہے۔ حضرت نے فرمایا: کس نار کو نور سمجھے ہو؟ کیونکہ وہ تکبر اور عجب کے ذیل میں آنے والی چیز تھی، اس لئے انہوں نے اسے چھوڑ دیا۔ میں نے سوچا کہ شاید مجھے بھی ایسا کرنا چاہئے۔ چنانچہ میں نے ہر شخص کے ساتھ قصداً ملنا شروع کر دیا، تاکہ اس بات کی پروا نہ کروں۔ اس سے وہ چیز ختم ہو گئی۔ اس کے بعد میں نے مسرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ (اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے) سے ذکر کیا۔ فرمایا: تم نے حضرت سے پوچھا تھا؟ میں نے کہا: نہیں۔ انہوں نے فرمایا: خدا کے بندے! ایک اعلیٰ حال تجھے حاصل ہو گیا تھا، تم نے پوچھا نہیں، جس سے حال ضائع ہو گیا۔ شیخ کس لئے ہوتا ہے؟ ظاہر ہے کہ غلطی تو ہو چکی تھی۔ اگرچہ وہ نقصان تو ہو گیا، لیکن کم از کم یہ سبق تو مل گیا کہ بغیر پوچھے کچھ نہیں کرنا چاہئے۔ شیخ سے پوچھ پوچھ کے چلنا چاہئے۔ اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجھنا چاہیے۔ جب شیخ ہو، تو ان کے ساتھ چلنا چاہیے۔ بہر حال! حال وہبی چیز ہے، وہبی طور پہ حاصل ہو گیا اور وہبی طور پہ چلا بھی گیا۔

حضرت حاجی امداد اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے پاس حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ آئے اور عرض کیا کہ حضرت لوگ دعاؤں میں روتے ہیں، ذکر میں ان پہ حال طاری ہوتا ہے، روتے ہیں۔ مجھے تو کچھ نہیں ہوتا۔ حضرت نے فرمایا: میاں رشید! یہ آنی جانی چیزیں ہیں، کوئی ضروری چیزیں نہیں ہیں۔ کبھی کبھی ایسا حال ہو بھی جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ اس کے بعد یہ حال ہو گیا کہ ذکر اور دعا کے دوران رونے سے حضرت کی پسلیاں ٹوٹنے لگیں، اور اس سے تکلیف ہو گئی۔ پھر حضرت کے پاس گیا اور کہا کہ حضرت! میری تو پسلیاں ٹوٹنے لگی ہیں۔ فرمایا: یہ آنی جانی چیزیں ہیں، کبھی ختم بھی ہو جاتی ہیں۔ پھر اس کے بعد ختم ہو گیا۔ کچھ عرصہ کے بعد پھر سوچا کہ وہ تو بڑی اعلیٰ چیز تھی، میری نادانی کی وجہ سے چلی گئی۔ پھر حضرت سے عرض کیا۔ حضرت نے فرمایا: کیا کرتے ہو؟ میاں رشید! پھر پسلیاں ٹوٹنے لگیں گی، چھوڑو۔ لہٰذا حال وہبی ہوتا ہے، اس کو انسان اپنی مرضی سے نہیں طاری کر سکتا۔ لیکن جب طاری ہو، تو پھر اس کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ اپنی مرضی سے اس کے ساتھ گیم نہ کریں۔ پوچھ پوچھ کے چلیں، تو فائدہ ہو گا۔ آگے فرمایا:

متن:

ریاضت کے میدان کے شہسوار کہتے ہیں کہ ایمان، توبہ، زہد اور دائمی عبادت گزاری کے گھوڑے پر سوار ہو کر تمام احوال و مقامات کو فتح کرے۔ اور ان چار چیزوں کی امداد کے بغیر مندرجہ بالا چار چیزوں پر فتح حاصل نہیں کی جا سکتی اور وہ چار چیزیں یہ ہیں: "وَھِيَ قِلَّۃُ الْکَلَامِ وَقِلَّۃُ الطَّعَامِ وَقِلَّۃُ الْمَنَامِ وَالْاِعْتِزَالُ عَنِ النَّاسِ" یعنی کم بولنا، کم کھانا، کم سونا اور لوگوں سے کنارہ کش رہنا۔

تشریح:

یعنی ان چار چیزوں کے بغیر یہ چیزیں نہیں ہو سکتیں۔ حضرت نے تو بالکل صاف صاف یہ بات فرما دی ہے۔ آگے فرمایا:

متن:

اب یہ بات یاد رکھو کہ سلوک میں ایک کو صاحبِ وقت کہتے ہیں اور ایک کو صاحبِ احوال کہتے ہیں اور ایک کو صاحبِ انفاس کہتے ہیں۔ صاحبِ وقت مبتدی ہوتا ہے۔ (یعنی جس پہ حال طاری کر دیا جائے، وہ مبتدی ہوتا ہے) اور صاحبِ انفاس منتہی ہوتا ہے۔ (یعنی وہ غالبُ الاحوال ہوتا ہے۔) اور صاحبِ احوال اِن دونوں کے درمیانی درجے پر فائز ہوتا ہے۔ (کبھی کیسے اور کبھی کیسے) اور احوال متناہی نہیں ہوا کرتے، یعنی اِن کی کوئی انتہا نہیں ہوتی، کیونکہ احوال اللہ تعالیٰ کے عطیہ اور مواہب میں سے ہوتے ہیں اور مواہبِ الٰہی کی انتہا نہیں ہوتی۔ مختصر یہ کہ احوال غیبی عطیہ اور مواہب ہوتے ہیں اور عالمِ غیب سے تعلق رکھتے ہیں، اس لئے ان کی تشریح، توضیح اور بیان ذوقِ قلم سے ادا نہیں کی جاسکتی۔ "قَیْلَ: اَلْمَقَامَاتُ مِنَ الْمَکَاسَبِ وَالْأَحْوَالُ مِنَ الْمَوَاھِبِ" ”اہلِ اعلم کہتے ہیں کہ مقامات کا حصول کسب و عمل سے تعلق رکھتا ہے اور احوال کا انحصار اللہ تعالیٰ کی دین پر ہے“:

اِیں سعادت بزورِ بازو نیست

تا نہ بخشد خدائے بخشنده

قطعہ کین سلامت نشان بے عیبی است

حالِ حاصل زکسب نتواں کرد

حالِ خوش از مواهب غیبی ست

(مصرعۂ چہارم درج نہیں)

مختصر یہ کہ حال کسب و عمل سے حاصل نہیں کیا جا سکتا، یہ مواہبِ غیبی اور فیضِ الٰہی میں سے ہوتا ہے۔

یہ بات جاننی چاہئے کہ اس علم کی اصطلاحوں میں سے ایک ”وجد“ ہے، اور وجد کی تعریف علمائے سلوک یہ کرتے ہیں کہ "اَلْوَجْدُ مَا یَرِدُ عَلَی الْقَلْبِ بِلَا تَکَلُّفٍ" یعنی جو وجدانی طور پر بغیر کسی تکلف اور آورد کے دِل پر چھا جائے۔ اور اہلِ معرفت کہتے ہیں کہ "اَلْوَجْدُ تَرَقِّی الْقَلْبِ لَا یَطَّلِعُ عَلَیْہِ أَحَدٌ إِلَّا اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی" یعنی وجد دِل کی وہ حالت ہوتی ہے، جس پر اللہ تعالیٰ کے سوا کسی دوسرے کو کوئی آگاہی حاصل نہیں ہوتی۔ اور بعض کہتے ہیں کہ "اَلْوَجْدُ وَارِدُ الْحَقِّ إِذَا جَاءَ تَضْطَرِبُ الْقُلُوْبُ إِلَی الْحَقِّ" یعنی وجد حق (یعنی اللہ تعالیٰ) کی جانب سے وارد ہوتا ہے اور جب یہ ورود کرتا ہے، تو دل اللہ تعالیٰ کی جانب بے چین ہو جاتے ہیں۔ ایک دفعہ ایک صاحبِ حال شخص یحییٰ بن معاذ رحمۃ اللہ علیہ کی مبارک مجلس میں حاضر ہوا، اس مجلس کی باتوں سے اس پر وجد طاری ہوا اور سخت اضطراری حالت سے دو چار ہوا۔ "فَقَالَ لَہٗ رَجُلٌ: مَا ھٰذَا؟ فَقَالَ: کَلَامُ الرَّبَّانِیَّۃِ ھَیَّجَ فِيْ أَسْرَارِ الْوَحْدَانِیَّۃِ فَانْمَحَتْ صِفَاتُ الْإِنْسَانِیَّۃِ وظَھَرَتْ أَحْکَامُ الرَّبَّانِیَّۃِ" ”تو اس سے ایک شخص نے کہا کہ یہ کیا حالت بنا رکھی ہے؟ اس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، جس نے وحدانیت کے اسرار میں ہیجان پیدا کیا، پس انسانی صفات مٹ گئیں اور ربانی احکام ظاہر ہو گئے“

اور بعض لوگوں نے کہا ہے کہ "اَلْوَجْدُ أَوّلُہٗ حُلْوٌ وَّأَوْسَطُہٗ مُرٌّ وَّآخِرُہٗ سَقْمٌ" یعنی وجد کی ابتدا میں مٹھاس، وسط میں تلخی اور آخر میں بیماری ہے۔ اور یہ بات بھی ذہن نشین کرنی چاہئے کہ اس علم کی اصطلاحات میں سے ایک ”تواجد“ ہے: "وَالتَّوَاجُدُ اسْتِدْعَاءُ الْوَاجِدِ عَنْ نَفْسِہٖ وَلَیْسَ لِصَاحِبِ التَّوَاجُدِ کَمَالُ الْوَجْدِ" یعنی تواجد اپنے نفس سے وجد کرنے کی استدعا کرنی ہے (یعنی آمد نہیں، آورد ہے) اور صاحبِ تواجد کو وجد کا کمال حاصل نہیں ہوتا۔ ہاں! تواجد بابِ تفاعل سے ہے اور اسی بابِ تفاعل میں ایسی صفت کا اظہار ہوا کرتا ہے، جو کہ وہ صفت اس کے صاحب میں نہیں ہوتی، جیسا کہ تمارض (اپنے آپ کو بہانہ سازی سے مریض بنانا) یا تجاہل (جان بوجھ کر جاہل بننا)۔

تشریح:

یعنی تواجد میں ایک چیز حاصل نہیں ہوتی، لیکن اس چیز کو pose کیا جاتا ہے۔ اس چیز کو دکھایا جاتا ہے کہ جیسے مجھے بھی یہ چیز حاصل ہے۔

ایک بہت بڑی بیماری ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس سے بچائے۔ وہ ہے بزرگی کی بیماری۔ یہ بیماری جس کو لاحق ہو جائے، وہ تواجد کا شکار ہو جاتا ہے۔ وہ پھر اپنے آپ کو ایسا دکھاتا ہے، جیسے اس کو کوئی حال حاصل ہے، لیکن اس کو وہ حاصل نہیں ہوتا۔ اس میں تصنع پایا جاتا ہے۔ اس کی باتوں میں بھی تصنع اور ملنے جلنے میں بھی تصنع ہوتا ہے۔ اس طرح حال اور وجد کی کیفیت بھی اپنے اوپر طاری کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ بہت خطرناک چیز ہے۔ کہتے ہیں: ایک صاحب کسی بیماری میں مبتلا تھے، اپنے چھوٹے بیٹے کو اپنے ساتھ کسی دعوت میں لے گئے تھے، وہاں اس نے بہت کم کھایا اور نماز بڑی لمبی پڑھی۔ جب گھر آیا، تو گھر والوں سے کہا کہ کھانا دے دو۔ بچے نے کہا کہ آپ نے وہاں کھانا کھا لیا تھا۔ اس نے کہا: وہاں میں نے تھوڑا کھایا تھا تاکہ لوگ یہ نہ کہیں کہ یہ زیادہ کھاتا ہے۔ بچے نے کہا کہ نماز بھی پھر دوبارہ پڑھ لیں، کیونکہ آپ نے لوگوں کے لئے لمبی نماز پڑھی تھی۔ مقصد یہ ہے کہ بزرگی کی جو بیماری ہے، یعنی لوگوں کے سامنے اپنے آپ کو بزرگ ظاہر کرنا، اس میں تواجد یا اس قسم کی چیزیں آتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائے۔ یہ بہت خطرناک بیماری ہے۔ انسان کو محروم کرا دیتی ہے۔ لہذا کبھی بھی اس قسم کی وجدانی کیفیت کا اظہار نہیں کرنا چاہئے، جو اس کو حاصل نہ ہو۔ بس عام لوگوں کی طرح رہے، قدرتی زندگی اختیار کرے، اسی میں آسانی ہے، اسی میں فائدہ ہے۔ ناجائز نہ کرے۔ یعنی اس کا مطلب یہ نہیں کہ انسان اپنے آپ کو کھلا چھوڑ دے اور ناجائز کرنا شروع کر دے کہ گناہ چھوڑنے کو میرا دل نہیں کرتا، لہذا میں نہیں چھوڑتا۔ بلکہ اس میں وہاں تکلف ہے، گناہ سے بچنا تکلفاً ہے، اس میں مجاہدہ ہے، مجاہدہ کا اجر ملتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ گناہ تو نہیں کرنا، لیکن کوئی ایسی چیز جو حاصل نہیں ہے، اس کو حاصل دکھانا، یہ بھی جرم ہے، اس کو نہیں کرنا چاہئے۔

متن:

وجد اُس حال کو کہتے ہیں جو کہ بلا تکلف اور بے ساختہ اس صاحبِ حال سے صادر ہو جائے، اور تواجد اُس حال کو کہتے ہیں جو کہ اُس کے صاحب سے تصنّع اور تکلف سے ظاہر ہو، اِس حال اور اُس حال میں بہت بڑا فرق ہے۔ "لَیْسَ التَّکَحُّلُ فِي الْعَیْنِ کَالْکُحْلِ" ”آنکھ میں سُرمہ لگانا، سرمے جیسا تو نہیں ہوتا“ اور فقر ایک مذہب ہے اور جس کسی میں اس کی صفاتِ حسنہ ہوں، تو اُن صفاتِ حسنہ کا ظاہر کرنا فقر کے مذہب میں جائز نہیں۔ اور جس میں صفاتِ حسنہ نہ ہوں، تو ان کا اظہار کرنا کہاں جائز ہو گا؟

تشریح:

کیا عجیب بات فرمائی ہے، ایک فِقرے میں بہت کچھ بتا دیا۔ ذرا اچھی طرح سن لیں: ’’فَقر ایک مذہب ہے اور جس کسی میں اس کی صفاتِ حسنہ ہوں تو اُن صفاتِ حسنہ کا ظاہر کرنا فقر کے مذہب میں جائز نہیں‘‘۔

یعنی جو حقیقتاً حاصل ہے، اس کو بھی ظاہر کرنا جائز نہیں، اخفا اچھا ہے، الا یہ کہ اللہ تعالیٰ خود ہی ظاہر کر دے۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو ظاہر کرنا چاہتا ہے، لہٰذا انسان خود ظاہر نہیں کرتا، لیکن لوگ اس کو ظاہر کر دیتے ہیں، اس کا کوئی حال ظاہر کر دیتا ہے یعنی ایسا عمل ہو جاتا ہے کہ جس سے وہ ظاہر ہو جاتا ہے، لیکن اس میں اس کا ارادہ شامل نہیں ہوتا۔ وہ چھپانا چاہتا ہے، لیکن وہ چھپتا نہیں ہے۔

مردِ حقانی کی پیشانی کا نور

کب چھپا رہتا ہے پیشِ ذی شعور

لہٰذا اگر اس کو اللہ تعالیٰ ظاہر کرنا چاہے، تو کون اس کے ساتھ مقابلہ کر سکتا ہے؟ لہٰذا اللہ تعالیٰ اس کو ظاہر کر دیتا ہے۔ لیکن وہ خود اپنے طور پر نہیں کرتا (اور جس میں صفاتِ حسنہ نہ ہوں، تو ان کا اظہار کرنا کہاں جائز ہو گا؟)

یعنی جو حاصل ہے، جب اس کا اظہار کرنا جائز نہیں ہے، چھپانا بہتر ہے، تو جس کو حاصل نہیں ہے، اگر وہ ظاہر کرے تو یہ دھوکہ کے قبیل سے ہے۔

متن:

بعض درویشوں کو ملامتی کہا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا طائفہ ہوتا ہے کہ نہ تو یہ اپنی نیکی عمل میں لا سکتے ہیں اور نہ اپنی برائیوں کو پوشیدہ رکھتے ہیں۔ یہ ضروری بات بھی جاننی چاہئے کہ اس علم کی اصطلاحات میں سے قبض و بسط ہیں: "وَھُمَا حَالَانِ یُشْبِہَانِ الْخَوْفَ وَالرَّجَاءَ" ”اور یہ دونوں یعنی قبض و بسط، خوف اور امید کے مشابہ ہیں“ منتہی کے لئے قبض و بسط ایسے ہوتے ہیں جیسے کہ مبتدی کے لئے خوف و رجا ہوتے ہیں۔ اگرچہ بعض کہتے ہیں کہ قبض و بسط خوف و رجاء سے بلند تر ہوتے ہیں، لیکن بعض کہتے ہیں کہ "اَلْقَبْضُ یَتَوَلَّدُ مِنَ الْخَوْفِ وَالْبَسْطُ یَتَوَلَّدُ مِنَ الرَّجَاءِ" یعنی قبض خوف کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے اور بسط امید و رجا کے سہارے ظہور میں آتا ہے۔

تشریح:

قبض کہتے ہیں؛ رکنے کو، جیسے کوئی چیز روک دی جاتی ہے۔ اور بسط کہتے ہیں؛ کُھلنے کو، جس میں کوئی چیز کھول دی جاتی ہے۔ یوں کہہ سکتے ہیں کہ کسی اچھے عمل کے لئے وجدانی طور پر دل کا خود متوجہ نہ ہونا، قبض کی حالت ہے۔ اس حالت میں انسان اپنے آپ کو بہت مردود حالت میں پاتا ہے۔ آدمی سمجھتا ہے کہ میں مردود ہو گیا ہوں، حالانکہ یہ ایک غیر اختیاری چیز ہوتی ہے، وہ مردود نہیں ہوتا۔ لیکن چونکہ یہ قبض جس پہ بھی طاری ہو، تو چونکہ قبض کی value ہر ایک کی ایک جیسی نہیں ہوتی، اور اسی طرح اس قبض کا اثر بھی ہر ایک پر ایک جیسا نہیں ہوتا۔ مثلاً: ایک شخص کو کسی کے ساتھ بڑی محبت ہے، اس محبت کی وجہ سے وہ کبھی بھی یہ نہیں سوچ سکتا کہ اس سے کوئی ایسا کام سرزد ہو، جس سے وہ ناراض ہو سکتا ہو، تو چونکہ شدید محبت ہے، لہذا معمولی سی غلط فہمی سے بھی بعض لوگ جان پر کھیل جاتے ہیں کہ یہ کیوں ہوا۔ ان کی شان میں ایسا کیوں ہوا۔ یہ اس محبت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ لہٰذا اگر کوئی دوسرا آدمی ہو، جس کو محبت نہیں ہے، تو وہ اس کی پروا ہی نہ کرے۔ اس کے لئے ایک عام سی بات ہو گی۔ لہذا قبض اور بسط بابِ محبت سے بھی تعلق رکھتے ہیں۔ یعنی جس کو اللہ کے ساتھ شدید محبت ہوتی ہے، تو جب اللہ تعالیٰ اس کے لئے تھوڑے سے بھی دروازے بند کرتا ہے، تو اس کو بھی اپنی طرف سے سمجھنے لگتا ہے کہ یہ میری وجہ سے ہوا ہے۔ لہٰذا وہ برداشت نہیں کر سکتا کہ ایسا کیوں ہوا ہے۔ اگر اس کو اللہ کی طرف سے ابتدا ہی سے مان لے، تو صابر رہے گا، پھر اس کو کچھ نہیں ہو گا۔ کہے گا کہ بس من جانب اللہ ہے۔ اگرچہ میرا دل نہیں چاہ رہا، مگر میں نے کرنا ہے۔ اگرچہ مسئلہ کوئی نہیں ہو گا، لیکن اس کی حالت ایسی ہوتی ہے کہ اس کو وہ اپنی طرف سے سمجھتا ہے۔ اپنی طرف سے سمجھنے کی وجہ سے اس پر شدید اثر ہوتا ہے، جس کو وہ برداشت نہیں کر پاتا۔ بعض لوگوں پر اتنا شدید اثر ہوتا ہے کہ وہ خود کشی تک کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ان پہ بہت شدید قبض طاری ہو گیا تھا۔ اس وقت حضرت کی حالت یہ تھی کہ فرماتے ہیں: بس دل میں بار بار یہ خیال آتا تھا کہ کوئی بندوق ہو، تو اپنے سر پہ رکھ کر اپنی جان کو اپنے ناپاک وجود سے پاک کر دوں۔ لیکن بس شریعت کا حکم یاد آتا تھا کہ نہیں! یہ مردار موت ہے۔ اپنے آپ کو اس سے بچانا چاہئے۔ حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو جب پتا چلا، تو حضرت بہت گھبرا گئے کہ میں دور ہوں اور وہ نوجوان آدمی ہے، حال کو برداشت نہیں کر سکا۔ مسلسل ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے تھے۔ خط لکھا اور اس میں کچھ اس طرح لکھا کہ آپ کا بوجھ اٹھانے کے لئے میں موجود ہوں، آپ کیوں پریشان ہوتے ہیں؟ اس سے حضرت کو تسلی ہو گئی۔ تاہم قبض کے اندر بڑی حکمتیں ہوتی ہیں۔ سب سے بڑی حکمت یہ ہے کہ یہ بزرگی کے خیال کو ختم کر دیتا ہے۔ کیونکہ بزرگی کا خیال بڑی خطرناک بیماری ہے۔ اور یہ زیادہ تر آتا بھی اسی لئے ہے کہ اگر کسی میں بزرگی کے کوئی جراثیم ہوں، تو وہ ان کو اس طرح دھو دیتا ہے کہ بالکل سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا کہ وہ پھر اپنے آپ کو بزرگ مانے۔ پھر وہ اپنے آپ کو ایک ایسی حالت پر سمجھتا ہے کہ جیسے میں بارود کے اوپر بیٹھا ہوا ہوں اور ابھی بم سے اڑ جاؤں گا اور میرا کچھ بھی نہیں بچے گا۔

حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ وہ حالت اب بھی مجھے یاد آتی ہے، تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس کے بعد یہ حال تھا کہ حضرت فرماتے تھے کہ میں اپنے آپ کو بارود کے ڈھیر پر سمجھتا ہوں کہ پتا نہیں، کس وقت کون سی چیز اس کے لئے ذریعہ بن جائے اور ہر چیز اڑ جائے۔ اس وجہ سے قبض میں من جانب اللہ ایک عطیہ ہوتا ہے۔ اتنی خطرناک بیماری کو دور کرنا آسان نہیں ہوتا۔ جس پر جتنے شدید درجے کا قبض آتا ہے، اس کے بعد جب وہ دور ہوتا ہے، تو شدید درجہ کا بسط بھی ساتھ ہوتا ہے۔

ان کی جو مختلف تعریفیں کی گئی ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ چونکہ اس میں مختلف احوال ظاہر ہوتے ہیں، جن کی وجہ سے مختلف چیزیں نظر آتی ہیں۔

متن:

بعض کہتے ہیں کہ قبض رزق کی تنگی اور بسط اس کی فراخی ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ قبض دنیا داری اور بسط ترکِ دنیا ہے اور قبض و بسط ارادتِ غیبی کے طفیل ہوا کرتے ہیں۔ "لَا یَدْرِيْ صَاحِبُھَا عَنْھُمَا" ”صاحبِ قبض و بسط ان دونوں کے بارے میں کچھ نہیں جانتا“۔

ہمارے حضرت صاحب کو علم الیقین، حق الیقین اور عین الیقین کے متعلق پورا حصّہ اور کامل علم حاصل تھا۔ وہ اِن مقامات کے بارے میں کافی دسترس رکھتے تھے۔ کیونکہ اِن سب مقامات کو طے کر چکے تھے اور اِن سب کو دیکھ چکے تھے اور اِن سے لطف اندوز ہوئے تھے۔ "فَعِلْمُ الْیَقِیْنِ مَا کَانَ مِنْ طَرِیْقِ النَّظْرِ وَالِْاسْتِدْلَالِ وَعَیْنُ الْیَقِیْنِ مِنْ طَرِیْقِ النَّظْرِ وَالشُّکْرِ وَالنَّوَالِ وَحَقُّ الْیَقِیْنِ مَا کَانَ بِہٖ تَحْقِیْقُ الْاِنْفِصَالِ عَنْ لَوْثِ الصَّلْصَالِ۔ وَقِیْلَ: عِلْمُ الْیَقِیْنِ لِلْأَوْلِیَاءِ وَعَیْنُ الْیَقِیْنِ لِخَواصِّ الْأَوْلِیَاءِ وَحَقُّ الْیَقِیْنِ لِلْأَنْبِیَاءِ عَلَیْھِمُ السَّلَامُ" ”علم الیقین وہ ہوتا ہے، جو کہ نظر اور استدلال سے حاصل ہوتا ہے۔ عین الیقین نظر، شکر اور عنایتِ الٰہی سے حاصل ہوتا ہے اور حق الیقین کیچڑ اور مٹی سے جوہرِ اصلی کو جدا کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔ اور یہ بھی کہتے ہیں کہ علم الیقین اولیاء کے لئے، عین الیقین خواص اولیاء کے لئے اور حق الیقین انبیاء علیہم السلام کے لئے ہوتا ہے“۔

اس کے علاوہ اس علم کی اصطلاحات میں سے محاضرہ، مشاہدہ اور مکاشفہ ہے۔ محاضرہ اربابِ تلوین اور اہلِ علم الیقین کا حق ہے، اور مکاشفہ اربابِ تلوین، اصحابِ تمکین اور اہلِ علم الیقین کے درمیان ایک امر ہے اور سالکوں کے لئے غیبت و حضور ہوا کرتے ہیں۔

تشریح:

بہت کچھ کہہ گئے ہیں۔ حضرت فرماتے ہیں کہ ہمارے حضرت صاحب (یعنی کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ) کو علم الیقین، حق الیقین اور عین الیقین کے متعلق علم حاصل تھا اور ان مقامات کے بارے میں دسترس رکھتے تھے، کیونکہ ان مقامات کو طے کر چکے تھے اور ان سب کو دیکھ چکے تھے اور ان سے لطف اندوز ہوئے تھے۔

فرماتے ہیں کہ علم الیقین نظر اور استدلال سے حاصل ہوتا ہے یعنی تجزیے اور مشاہدات سے حاصل ہوتا ہے، کیونکہ جتنے مشاہدات ہوں، ان کی بنیاد پر باقی چیزوں کو ثابت کرنا یا رد کرنا، استدلال ہے۔ کچھ مشاہدات ہوتے ہیں اور کچھ کو انسان استدلال کے ذریعے سے حاصل کر لیتا ہے۔ مثلاً: سورج کے اندر کیا ہے؟ کوئی سورج تک گیا نہیں ہے اور نہ جا سکتا ہے۔ سورج تک جانا تو بڑی مشکل بات ہے، زہریٰ سیارہ جو سورج کی طرف زمین کا سب سے قریبی سیارہ ہے، اس پر جو راکٹ بھیجا گیا تھا، جیسے اس نے وہاں لینڈ کیا، تو چند سیکنڈوں میں ہی میسج آ گیا کہ میں پگھلنے والا ہوں، اور ختم ہو گیا۔ چنانچہ اتنا گرم ہے۔ زہریٰ کی سطح تانبے کی طرح ہے۔ زہریٰ سے آگے عطارد ہے اور عطارد سے آگے سورج ہے، تو وہاں کون جا سکتا ہے؟ لیکن استدلال کے ذریعے سے آپ کو فلکیات کی کتابوں میں سورج کی بڑی تفصیلات ملیں گی کہ اس میں یہ ہے، اس میں یہ فلاں ہے اور یہ فلاں ہے۔ اس میں کچھ مشاہدات ہیں اور کچھ استدلالات ہیں کہ نظر اور استدلال سے بعض چیزیں حاصل ہوتی ہیں۔ آگے فرمایا:

متن:

عین الیقین نظر، شکر اور عنایتِ الٰہی سے حاصل ہوتا ہے۔

تشریح:

یعنی اللہ تعالیٰ دکھا دیتا ہے۔ کیونکہ جب تک اللہ نہ دکھائے، انسان کیسے دیکھے گا؟ اور جتنا دیکھ سکتا ہے اس سے وہ پہلے والے مرحلے (stage) پہ تو آ گیا۔ اور جو دوسرا مرحلہ (stage) ہے کہ اللہ تعالیٰ مخفی چیزوں کو دکھا دے، وہ دو چیزوں پہ منحصر ہے۔ ایک یہ ہے کہ جتنا حاصل ہے، اس پہ شکر کرے۔ اور واقعتاً شکر بہت بڑی نعمت ہے، اللہ تعالیٰ جس کو بھی نصیب فرمائے۔ جس میں بزرگی کا زعم ہوتا ہے، اس کو شکر کبھی نہیں نصیب ہوتا۔ وہ ہمیشہ کم سمجھتا ہے کہ مجھے تو بہت کم ملا ہے۔ یعنی اس کی حرص اس کو شکر نہیں کرنے دیتی، لہذا وہ آگے بڑھتا ہی نہیں۔ ﴿لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ (ابراھیم: 08) کا وعدہ شاکرین کے لئے ہے کہ جو شکر کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس پر نعمت کو بڑھا دیتے ہیں۔ جتنا حصہ اس نے دیکھا، اس پر اس نے شکر کیا، تو اس کی وجہ سے اللہ جل شانہ اس کو مزید عنایت فرما دیتے ہیں۔ شکر کے ساتھ عنایتِ الہٰی جڑی ہوئی ہے۔ لہذا شکر کے ذریعے سے اور عنایتِ الہٰی سے دوسرا درجہ یعنی عین الیقین حاصل ہو سکتا ہے۔ آگے فرمایا:

متن:

اور حق الیقین کیچڑ اور مٹی سے جوہرِ اصلی کو جدا کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔

تشریح:

یہ واقعی بڑا مشکل کام ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے خصوصی طریقے سے کسی کو بھید کی ساری چیزیں دکھائیں گے تو پھر ہی ہو سکتا ہے۔ انبیاء کرام کے بارے میں تو ہے ہی، کیونکہ انبیاء کرام کو اللہ تعالیٰ دکھاتے ہیں، اس لئے ان کے دیکھنے کو دوسروں کی ہدایت کے لئے ذریعہ بناتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا ہے کہ مجھے نظر آتا ہے کہ تم جہنم میں گر رہے ہو اور میں تمہیں پکڑ پکڑ کے واپس کر رہا ہوں۔ لہٰذا آپ ﷺ کے لئے تو بالکل حق الیقین والی بات تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ کا مسکرانا بھی ایک مجاہدہ تھا۔ کیونکہ آپ ﷺ ان حالات میں مسکرا کیسے سکتے تھے!! آپ ﷺ کو جو چیزیں نظر آتی تھیں، اس حالت میں کوئی کیسے ہنس سکتا ہے۔ جیسے: ڈاکٹر کو پتا ہوتا ہے کہ اس مریض کے ساتھ کیا ہونے والا ہے اور اس مریض کو پتا نہیں ہوتا۔ مریض بے غم ہوتا ہے اور ڈاکٹر فکر مند ہوتا ہے۔ کیونکہ اس کو تو پتا ہے کہ اس کے ساتھ اب کیا ہونے والا ہے۔ لہٰذا حق الیقین انبیاء کرام کا ہی حصہ ہوتا ہے، البتہ خاص اولیاء کو اس کے قریب قریب کر لیا جاتا ہے۔ جیسے ’’أَنْ تَعْبُدَ اللهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ‘‘ ہے۔ ’’كَأَنَّكَ تَرَاهُ‘‘ کی حالت اولیاء اللہ کو بھی حاصل ہو سکتی ہے۔ اور انبیاء کرام تو دیکھ لیتے ہیں۔ جیسے: موسیٰ علیہ السلام نے جو وحی کا حال دیکھا تھا، کوئی اور تو اس طرح نہیں کر سکتا، کیونکہ موسیٰ علیہ السلام کا تو دیکھا ہوا تھا۔ اسی طرح عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ جو ہوا، آدم علیہ السلام کے ساتھ جو ہوا، اور ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ جو ہوا۔ چنانچہ ان سب حضرات نے یہ دیکھا ہوا تھا۔ لہٰذا انبیاء کرام کا معاملہ ذرا مختلف ہوتا ہے۔ آگے فرمایا:

متن:

اس کے علاوہ اس علم کی اصطلاحات میں سے محاضرہ، مشاہدہ اور مکاشفہ ہے۔ محاضرہ اربابِ تلوین اور اہلِ علم الیقین کا حق ہے۔

تشریح:

یعنی تلوین میں چیزیں بدلتی ہیں۔ تلوین میں انسان ایک حال پہ نہیں رہتا۔ اور تمکین میں ایک حال پہ آ جاتا ہے۔ میں نے اپنے کچھ احوال اپنے شیخ کو بتا دیئے، تو حضرت نے فرمایا کہ یہ حالات تبدیل ہوتے رہتے ہیں، اور تبدیل ہوتے رہیں گے۔ ان شاء اللہ اپنے وقت پر اخیر میں کسی اچھے حال پر رک جائیں گے۔ تلوین بھی ضروری ہے، کیونکہ ترقی اسی سے ہوتی ہے۔ لیکن تلوین منزل نہیں ہے۔ اس میں تو انسان ابھی سفر میں ہوتا ہے، ابھی وہ سیر الی اللہ میں ہے، جب وقت سیر الی اللہ مکمل ہو جائے، تو پھر تمکین کی حالت حاصل ہو سکتی ہے۔ آگے فرمایا:

متن:

محاضرہ اربابِ تلوین اور اہلِ علم الیقین کا حق ہے، اور مکاشفہ اربابِ تلوین، اصحابِ تمکین اور اہلِ علم الیقین کے درمیان ایک امر ہے اور سالکوں کے لئے غیبت و حضور ہوا کرتے ہیں۔

تشریح:

غیبت اور حضور کا مطلب یہ ہے کہ کبھی کوئی چیز سامنے آ گئی اور کبھی چھپ گئی۔

متن:

"اَلْغَیْبَۃُ أَنْ یَّغِیْبَ الْقَلْبُ مِنْ أَحْوَالِ الدُّنْیَا وَالْحُضُوْرُ أَنْ یَّحْضُرَ بِأَحْوَالِ الْعُقْبٰی" ”غیبت یہ ہے کہ احوالِ دنیا سے دل غائب ہو کر رہے اور دل سے احوالِ دنیا غائب رہیں، اور حضور یہ ہے کہ دل میں احوالِ عقبیٰ حاضر رہیں“ اور بعض کہتے ہیں کہ غیب سُکر کی منزل پر ہے اور حضور صُحو کے مشابہ ہے۔

تشریح:

یعنی غیب میں علم غیب ہو جاتا ہے، تو سکر کی حالت ہو جاتی ہے۔ تو اس کے پاس کسی بھی چیز کا علم نہیں رہتا۔ کیونکہ وہ اللہ کو دیکھ رہا ہوتا ہے۔ اللہ کو دیکھنے کی وجہ سے باقی چیزیں غائب ہو گئیں۔ اب وہ چیزوں کو نہیں دیکھ رہا، اس لئے کہتا ہے کہ اللہ کے علاوہ کوئی نہیں ہے۔ یہی وحدۃ الوجود ہے۔ لہٰذا اس وقت اس کا یہ کہنا اس وجہ سے ہے کہ باقی کی چیزیں نظر نہیں آ رہیں۔ اور یہ سکر کی حالت ہے۔ اُس وقت اس کی یہ حالت بری نہیں ہے، لیکن لوگوں کے لئے اس کو سمجھنا مشکل ہے۔ اُس وقت وہ معذور ہے، اس کی کسی بات کو ہم معیار نہیں بنا سکتے، کیونکہ اس وقت بہت سی چیزیں اس سے چھپی ہوئی ہیں۔ البتہ اس وقت اس کو ایک ایسا فائدہ حاصل ہے کہ اس فائدے کو حاصل کئے بغیر بہت ساری چیزیں حاصل نہیں ہوتیں۔ وہ فائدہ یہ ہے کہ چونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کی حضوری کی کیفیت اتنی زیادہ بڑھ گئی ہے کہ جس کی وجہ سے باقی چیزیں غائب ہو گئیں، اس لئے حضوری نہ ہونے کی وجہ سے جو مسائل تھے، وہ سارے کے سارے ختم ہو گئے۔ البتہ یہ الگ بات ہے کہ دوبارہ واپس آنے کے ساتھ جو مسائل تھے، وہ ابھی نہیں آئے۔ لیکن حضوری نہ ہونے کی وجہ سے جو مسائل ہوتے ہیں، جیسے: انسان چیزوں سے متاثر ہوتا ہے، تو چونکہ حضوری حاصل نہیں ہوتی، اس لئے چیزوں سے متاثر ہوتا ہے۔ جب اس کو چیزیں نظر ہی نہیں آ رہیں، تو کیا متاثر ہو گا؟ اس لئے وہ ان چیزوں سے بچ گیا۔ لہذا تکبر اور عجب وغیرہ سب چیزیں ختم ہو گئیں۔ کیونکہ یہ چیزیں نظر آنے سے ہی یہ مسائل ہو سکتے ہیں کہ میں فلاں سے بڑا ہوں، میں فلاں سے بڑا ہوں۔ جب فلاں فلاں ختم ہو گیا اور خود اپنا آپ بھی نظر نہیں آ رہا، تو اب کوئی چیز بھی باقی نہیں رہ گئی۔ لہذا وحدۃ الوجود کی حالت میں یہ جو سکر کی حالت ہے، یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی کو بے ہوشی کا انجیکشن لگایا جاتا ہے، تو وہ بہت ساری چیزوں کو محسوس نہیں کرتا، لیکن وہ موجود ہوتی ہیں۔ اس لئے اس میں آرام تو ہے، لیکن صحت نہیں ہے۔ لہٰذا جب اس کو شہود یعنی عالمِ صحو میں دوبارہ بھیجا جاتا ہے، تو اللہ تعالیٰ ہی کو دیکھنے کا جو پرانا تعلق ہے، جس کا اس کو مشاہدہ ہو چکا ہے، اس مشاہدہ کی وجہ سے اس کی شہود کی کیفیت تو آ گئی۔ لیکن باقی چیزوں کا اس کو جو دوبارہ علم واپس آ گیا ہے، اس کی وجہ سے اس کا فیصلہ مستند ہوتا ہے۔ اب وہ حالتِ صحو میں ہے اور صحیح فیصلے کر سکتا ہے۔ شریعت کو بھی جانتا ہے، شریعت پر عمل بھی جانتا ہے اور تمام کام اس طرح کرتا ہے، جس طریقے سے حکم ہے۔ ہر چیز کا خیال رکھتا ہے۔ پس یہی اصل مقصودی حالت ہے۔

متن:

حضرت صاحب کو محو و اثبات اور فنا و بقا میں کمال کا درجہ حاصل تھا اور اس میں کافی مہارت اور دسترس رکھتے تھے گویا کہ ٹھاٹھیں مارتے ہوئے ایک عظیم سمندر تھے۔ محبت اور معرفت میں غایتِ استغراق کی کثرت کی وجہ سے اکثر مدہوش اور متحیّر رہا کرتے تھے، اور دم مارنے کی طاقت بھی نہیں رکھتے تھے اور "مَنْ عَرَفَ اللّٰہَ کَلَّ لِسَانُہٗ" یعنی ’’جس کو معرفتِ الٰہی نصیب ہو جاتی ہے، تو اس کی زبان گنگ ہو جاتی ہے‘‘ کے مقامِ رفیع تک رسائی حاصل کر چکے تھے۔

تشریح:

واقعتاً جن پر اللہ تعالیٰ جتنا کھولے اور پھر جو جتنا برداشت کر سکے، یہ اس پر منحصر ہے۔ اور جس کے لئے اللہ تعالیٰ کھولتا ہی نہیں، تو اس کو کچھ بھی حاصل نہیں۔ مثلاً: تنکا چُلو بھر پانی میں بھی بہہ پڑتا ہے، نہیں ٹھہر سکتا، اور آبشار کے سامنے ہاتھی بھی نہیں ٹھہر سکتا۔ اب اگر کوئی ہاتھی کو تنکا کہے کہ میں بھی بہہ رہا ہوں اور تُو بھی بہہ رہا ہے، کیا فرق ہے؟ اسی طرح واردات کا فرق ہے۔ کسی کے اوپر کتنا وارد ہوتا ہے اور کسی کے اوپر کتنا وارد ہوتا ہے، اس کے حساب سے دیکھا جائے گا کہ اس نے کتنی چیز کو روکا ہوا ہے، کتنی چیز کو برداشت کیا ہوا ہے۔ ہر شخص کا حال ایک جیسا نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ جن پر اللہ تعالیٰ جتنا کھولے اور وہ اس کو برداشت بھی کریں۔ سبحان اللہ! یہ بہت اونچا معیار ہے۔ شیخ عبد الحق رودلوی رحمۃ اللہ علیہ نے جو فرمایا تھا کہ منصور بچہ تھا، جو ایک چُلّو میں مست ہو گیا، یہاں تو لوگ سمندر پی جاتے ہیں اور ڈکار بھی نہیں لیتے۔ لہٰذا جن کے اوپر اللہ تعالیٰ جتنا کھولے اور پھر اس کو وہ برداشت بھی کریں، یہ بڑی بات ہے۔ جتنا کھولا ہوا ہے، اس کی وجہ سے وہ عالمِ تَحَیُّر میں ہے، اس کے لئے حیرت کا مقام ہے، حیرت ہی حیرت ہے۔ اس کی حیرت بڑھتی جاتی ہے۔ اسی لئے جب حیرت کی حالت میں ہو، تو اس وقت انسان بول نہیں سکتا۔ اس وقت رک جاتا ہے۔ خود اس کو بلوایا جاتا ہے کہ اب یہ کہو اور یہ کہو۔ جیسے بچے سے کروایا جاتا ہے۔ لہٰذا وہ پھر اتنا بولتا ہے جتنا کہ بلوایا جاتا ہے۔

متن:

بیت ؎

گر کسے وصف او از من پرسد

بے دل از بے نشان چہ گوید باز

’’اگر کوئی شخص مجھ سے اس کی صفت بیان کرنے کا مطالبہ کرے، تو بھلا ایک بے دل آدمی ایک بے نشان چیز کے بارے کیا کہہ سکتا ہے‘‘۔

آپ ہستی کے میدان سے نکل کر بقا و فنا کے میدان میں آرام فرما تھے اور حیرت کے ایک گوشے میں بیٹھ کر غیرِ حق کو فراموش کر چکے تھے۔ "فَمَعْنَی الْمَحْوِ رَفْعُ أَوْصَافِ الْعَادَۃِ وَمَعْنَی الْإِثْبَاتِ إِقَامَۃٌ وَّمَعْنَی الْبَقَاءِ أَحْکَامُ الْعِبَادَۃِ" ”محو کے معنیٰ عادتی صفتوں کا زائل ہونا اور اثبات کے معنیٰ اقامت ہیں، یعنی ثابت رہنا، اور بقا کے معنی عبادت کے احکام ہیں‘‘۔ اور پھر محو تین طرح کا ہوتا ہے: "مَحْوُ الذَّاتِ عَنِ الظَّوَاھِرِ وَمَحْوُ الْغَفْلَۃِ عَنِ الضَّمَائِرِ وَمَحْوُ الْغَیْبَۃِ عَنِ السَّرَائِرِ" یعنی ظاہری اشیاء و احکام سے ذات کا محو ہونا اور ضمائر سے غفلت

(حاشیہ: 1؎ تلوین۔ گوناگون کرنا۔ رنگا رنگ بنانا۔ اور تصوف میں ایک مقام کا نام ہے)

کا محو ہونا اور اسرار و رموز سے غیبت کا محو ہونا۔ اور اسی طرح فنا "وَمَعْنَی الْفَنَاءِ سُقُوْطُ أَوْصَافِ الْمَذْمُوْمَۃِ وَالْغَفْلَۃِ وَثُبُوْتُ أَوْصَافِ الْمَحْمُوْدَۃِ" یعنی فنا کے معنیٰ ہیں؛ بُری اور غفلت کی بد ترین عادتوں کا ساقط ہونا اور اوصافِ محمودہ کا ثابت، قائم اور برقرار ہونا۔ اور بعض کہتے ہیں کہ "اَلْفَنَاءُ صِفَۃُ الْکَوْنِ وَالْبَقَاءُ صِفَۃُ یَکُوْنُ وَمَا کَانَ لِأَجْلِ الْکَوْنِ قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی: ﴿کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ﴾ یَعْنِی الْکَوْنَ ﴿وَیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ﴾ یَعْنِي الْمُکَوِّنَ، فَأَعْمَالُ الْمُخْلِصِیْنَ دَاخِلَۃٌ فِيْ حُکْمِ الْبَقَاءِ لِأَجْلِ الْکَوْنِ وَأَعْمَالُ الْمُرَائِیْنَ دَاخِلَۃٌ فِيْ حُکْمِ الْفَنَاءِ لِأَجْلِ أَنْ یَّطْلُبُوْا بِھَا عِزَّۃً وَّ قُوَّۃً"

ترجمہ: ”فنا کون کی صفت ہے اور بقا یکون کی صفت ہے کون کے سبب سے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ﴾ (الرحمن: 26) یعنی کون (یعنی کائنات اور بنائی ہوئی اشیاء) ﴿وَیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ﴾ (الرحمن: 27) یعنی مکوِّن، اور وہ باقی رہے گا۔ یعنی مکوِّن (خالق) کی ذات باقی رہے گی۔ تو مخلصین کے اعمال بقا کے حکم میں داخل ہیں کون کی وجہ سے، اور ریاکاروں کے اعمال فنا کے حکم میں داخل ہیں، اس وجہ سے کہ وہ اس سے عزت اور قوت چاہتے ہیں“۔

تشریح:

یوں کہہ سکتے ہیں کہ سارے اعمال ہیں، لیکن ان اعمال میں نیت کیا ہے اور وہ اعمال کس کے لئے ہیں؟ اگر وہ کسی فانی چیز کے لئے ہیں، تو وہ اعمال بھی فانی ہیں اور ختم ہو گئے۔ اور اگر وہ باقی کے لئے ہیں، تو اعمال بھی باقی ہیں۔ ﴿کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ 0 وَّیَبْقٰی وَجْهُ رَبِّكَ ذُوالْجَلَالِ وَالْاِكْرَامِ(الرحمن: 26-27)

ترجمہ: ’’اس زمین میں جو کوئی ہے، فنا ہونے والا ہے۔ اور (صرف) تمہارے پروردگار کی جلال والی، فضل و کرم والی ذات باقی رہے گی‘‘۔

اس میں ’’کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ‘‘ اللہ کے علاوہ ہے۔ اس سے پتا چلا کہ اللہ باقی ہے۔ لہذا اگر اللہ کے علاوہ کسی اور کے لئے عمل کرو گے، تو وہ اللہ کے علاوہ کے لئے ہو جائے گا اور فانی ہو جائے گا۔ باقی تب ہی رہے گا، جب صرف اللہ کے لئے ہو گا۔ اللہ پاک نے فرمایا ہے: میں تمام شریکوں سے بے نیاز ہوں اور اگر کوئی کام کچھ میرے لئے بھی کرتا ہے اور اوروں کے لئے بھی کرتا ہے، تو میں اپنا حصہ بھی ان کے لئے چھوڑ دیتا ہوں۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ وجہ یہ ہے کہ جو حصہ غیر اللہ کے لئے ہے، وہ تو فانی ہے اور فنا ہو گیا ہے۔ جب وہ فنا ہو گیا، تو جو حصہ اللہ کے لئے تھا، وہ بھی اس کے ساتھ چلا گیا، کیونکہ عمل مکمل نہیں ہوا۔ جیسے: آپ نماز آدھی پڑھ کر چھوڑ دیں، مثلاً: دو رکعت کی نماز آپ ایک رکعت پڑھ کے سلام پھیر دیں، تو آپ کو کتنی رکعتوں کا ثواب ملے گا؟ کچھ بھی نہیں ملے گا۔ کیونکہ آپ نے نماز ہی نہیں پڑھی۔ مکمل کریں گے تب ہی ثواب ملے گا۔ چنانچہ جب آپ نے لوگوں کے لئے عمل کیا، تو اس کا ایک جزو اس کے ساتھ چلا گیا، تو باقی جزو بھی اس کے بغیر باقی نہیں رہ سکتا، چنانچہ اللہ تعالیٰ اس کو بھی رد فرما دیتے ہیں۔ شرک میں اور کفر میں یہی فرق ہے کہ کفر میں انکار ہے، شرک میں اقرار ہے، لیکن ناکافی اقرار ہے، کچھ اللہ کے لئے اور کچھ دوسروں کے لئے ہے۔ مکہ کے جتنے بھی مشرکین تھے، وہ اللہ کو مانتے تھے، بلکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا کہ ان سے پوچھو کہ یہ کام کس نے کیا ہے؟ تو کہیں گے کہ اللہ نے کیا ہے۔ لہٰذا وہ اللہ کو مانتے تھے، لیکن باقی چیزیں کو بھی ساتھ رکھتے تھے کہ یہ بھی ناراض نہ ہو جائیں، اللہ بھی ناراض نہ ہو اور وہ بھی ناراض نہ ہوں۔ اس لئے اگر ہم خدانخواستہ اس طرح کریں گے، تو ہمارا سب کچھ گیا۔ لہذا اگر فانی چیزوں کے لئے کوئی عمل کیا جائے گا، تو وہ فنا کو ساتھ لئے ہوئے ہو گا اور وہ فنا ہو جائے گا، ختم ہو جائے گا۔ ترمذی شریف کی روایت میں بالکل وضاحت کے ساتھ ہے کہ ایک عالم، ایک سخی اور ایک شہید، تینوں کو جہنم میں گرایا جائے گا۔ اس کی وجہ کیا ہو گی؟ حالانکہ عالم اقرار کرے گا کہ یا اللہ! میں نے اپنے علم کو تیرے لئے استعمال کیا، شب و روز میں دوسروں تک پہنچاتا تھا۔ اللہ پاک فرمائیں گے: نہیں! میرے لئے نہیں، بلکہ اس لئے کرتا تھا کہ تجھے عالم کہا جائے، سو تجھے عالم کہا جا چکا ہے۔ فرشتے بھی اقرار کریں گے۔ پھر سخی کی باری آئے گی، پھر شہید کی باری آئے گی۔ یہی مطلب ہے: ﴿کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ 0 وَّیَبْقٰی وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْاِكْرَامِ﴾ (الرحمن: 26-27) کا۔ اس لئے ہمارا کوئی کام بھی اللہ کے علاوہ کسی اور کے لئے نہ ہو۔ ہاں طریقہ حضور ﷺ کا ہونا چاہئے، اور وہ بھی اللہ کے حکم کے مطابق ہے۔ اللہ پاک نے فرمایا کہ میرے حبیب ﷺ کا ہی طریقہ ہو۔ گویا طریقہ تو حضور ﷺ نے بتایا ہے، لیکن کریں گے اللہ کے لئے، کسی اور کے لئے نہیں کریں گے۔ لیکن اس میں ایک بہت باریک بات ہے، اس کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ اگر کوئی کسی مسلمان کے دل کو خوش کرنے کے لئے کوئی عمل کرتا ہے اور وہ عبادت کے زمرے سے نہیں ہے تو اس پر اجر ملتا ہے، کیونکہ یہ بھی اللہ کے لئے ہے۔ کیوں کہ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔ بعض لوگوں کو یہی چیز نہیں سمجھ میں آتی کہ تطییبِ قلبِ مومن پر بھی اجر ہے۔ والدین کو محبت کے ساتھ دیکھنے پر اجر ہے۔ علماء کو محبت کی نظر سے دیکھنے پر اجر ہے۔ کیونکہ وہ علماء کے لئے نہیں، اللہ کے لئے ہے۔ وہ والدین کے لئے نہیں، اللہ کے لئے ہے۔ لیکن ہے اس ذریعے سے۔ اس لئے یہ شرک نہیں ہے۔ اسی پر لوگ بحث کرتے ہیں کہ یہ تو ہاتھ چومتے ہیں، یہ تو شرک ہو گیا۔ خدا کے بندے! ہاتھ چومنا اور چیز ہے، عبادت کرنا اور چیز ہے۔ یہ بہت باریک بات ہے، جو میں عرض کر رہا ہوں۔ کیا ہاتھ چومنے کو کوئی عبادت سمجھتا ہے؟ یہ عبادت تو نہیں ہے۔ آپ کسی کو اچھے نام سے پکاریں، ادب سے پکاریں، تو کیا شرک ہے؟ آپ ﷺ کو صحابہ کرام کس طرح پکارتے تھے؟ ’’فِدَاکَ اَبِیْ وَاُمِّیْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ‘‘ کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان یا رسول اللہ!، کیا خیال ہے، یہ شرک ہے؟ آپ ﷺ جب وضو فرماتے تھے، تو وضو کا پانی صحابہ کرام نیچے نہیں گرنے دیتے تھے، حتیٰ کہ آپ ﷺ کی تھوک مبارک کو بھی نہیں گرنے دیتے تھے۔ وہ جو ایک شخص معاہدے کے لئے آیا تھا اور ابھی مسلمان نہیں ہوا تھا، بعد میں مسلمان ہوا تھا، اس نے جب یہ حالت دیکھی، تو جا کر اپنی قوم میں بیان کیا کہ ان سے مقابلہ مشکل ہے۔ ان سے مقابلہ نہیں ہو سکتا۔ میں نے بڑے بڑے بادشاہوں کے درباروں کو دیکھا ہے، ان کے لوگ بادشاہوں کا اتنا خیال نہیں رکھتے، جتنا صحابہ اپنے نبی کا خیال رکھتے ہیں۔ جب ان کے نبی وضو کرتے ہیں، تو وہ پانی نیچے نہیں گرنے دیتے۔ جب وہ تھوکتے ہیں، تو وہ اس کو تبرک سمجھ کر اپنے ہاتھوں پہ روک لیتے ہیں۔

مشہور واقعہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سینگیوں سے جو خون نکلا تھا، آپﷺ نے ایک صحابی کو اسے دفن کرنے کے لئے دیا، تو انہوں نے وہ خون خود پی لیا، اور واپس آ گئے اور بتایا بھی نہیں۔ آپ ﷺ نے پوچھا: کیا خون دفن کر دیا؟ انہوں نے ڈرتے ڈرتے کہا: یا رسول اللہ! وہ تو میں پی چکا ہوں۔ آپ ﷺ نے بشارت دی کہ میرے جسم کا کوئی حصہ جس جسم میں گیا ہے، جہنم اس پہ حرام ہے۔ یہ کیا چیز تھی؟

حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے شیخ کے اُگل دان کا پانی ملا کر پی لیا تھا۔ یہ باتیں اور ہیں۔ ادب، محبت، عزت یہ چیزیں عبادت نہیں ہیں۔ ہاں اگر آپ نیت میں کسی اور کو شریک کر لیں، چاہے کسی بھی عمل میں ہو، اور وہ اللہ کے لئے نہ ہو، تو پھر وہ عمل ضائع ہو گیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’إنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ‘‘۔ (بخاری شریف، حدیث نمبر: 1) لیکن اللہ تعالیٰ نے جن کو آپ کے لئے ذریعہ بنایا ہے، ان کی قدر بھی اللہ پاک ہی کرواتے ہیں۔ جیسے: والدین کی قدر کرواتے ہیں، اساتذہ کی قدر کرواتے ہیں۔ اس لئے یہ بات الگ ہے۔ اس کو اچھی طرح سمجھنا چاہئے، ورنہ معاملہ مشکل ہو جاتا ہے۔ یہی چیزیں ہیں کہ جن کو ان کی سمجھ نہیں آتی، تو وہ اپنے لئے معاملہ مشکل کر لیتے ہیں۔ وہ تعظیم کو بھی شرک سمجھنے لگتے ہیں، محبت کو بھی شرک سمجھنے لگتے ہیں۔ آپ ﷺ کی ایک عجیب دعا ہے، اللہ کرے کہ ہمارے حق میں بھی قبول ہو جائے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَسْأَلُكَ حُبَّكَ وَحُبَّ مَنْ يُّحِبُّكَ وَالْعَمَلَ الَّذِيْ يُبَلِّغُنِيْ حُبَّكَ‘‘۔ (ترمذی شریف، حدیث نمبر: 3235)

ترجمہ: ’’اے اللہ! میں تجھ سے تیری محبت کا سوال کرتا ہوں، اور ہر اس شخص کی محبت کا سوال کرتا ہوں جو تیرے ساتھ محبت رکھتا ہے، اور ہر اس عمل کا سوال کرتا ہوں، جو تیری محبت تک پہنچائے‘‘۔

کیا اس میں کچھ باقی رہ گیا ہے؟ سارے انبیاء آ گئے، سارے اولیاء آ گئے، سارے صحابہ آ گئے۔ کیونکہ یہ سب اللہ سے محبت کرنے والے تھے، ان کی محبت مطلوب ہو گئی۔ اور ’’وَالْعَمَلَ الَّذِيْ يُبَلِّغُنِيْ حُبَّكَ‘‘ میں اللہ کی محبت کو حاصل کرنے والی جتنی بھی چیزیں ہیں، ساری اس میں آ گئیں۔ یہ خانقاہیں آ گئیں، مدارس آ گئے، سارے ذرائع اس میں آ گئے۔ بس یہی بات ہے کہ ان کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ توحید ضروری اور لازم ہے۔ جیسے حرام کو حلال کہنا جرم ہے، اسی طرح حلال کو حرام کہنا بھی جرم ہے۔ کیونکہ آپ نے اللہ تعالیٰ کے کام میں ہاتھ ڈالا ہے، جیسے کہتے ہیں کہ قانون ہاتھ میں لینا جرم ہے۔ شریعت کو ہاتھ میں لینا تو اور بڑا جرم ہے۔ کیونکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کے قانون کو ہاتھ میں لینا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنا تعلق خاص نصیب فرما دے۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ