اصلاح نفس کی ضرورت و اہمیت

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ


﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوْا اللّٰهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍۚ وَاتَّقُوْا اللّٰهَؕ اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ ۝ وَلَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ نَسُوْا اللّٰهَ فَاَنْسٰىهُمْ اَنْفُسَهُمْؕ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ﴾ (الحشر: 18-19)

ترجمہ1: ’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو، اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اس نے کل کے لئے کیا آگے بھیجا ہے۔ اور اللہ سے ڈرو، یقین رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔ اور تم ان جیسے نہ ہوجانا جو اللہ کو بھول بیٹھے تھے، تو اللہ نے انہیں خود اپنے آپ سے غافل کردیا۔ وہی لوگ ہیں جو نافرمان ہیں‘‘۔

بزرگو، دوستو! یہ اللّٰه پاک کی طرف سے خصوصی مدد ہے کہ مولانا صاحب نے یہ آیت کریمہ تلاوت کی۔ اس میں ایک بہت بڑا message ہے۔ message یہ ہے کہ ہم اس دنیا میں ہیں، لیکن اس دنیا میں ہمیشہ کے لئے ہم نہیں آئے، بلکہ ایک دن ہم سب نے جانا ہے اور جہاں جانا ہے وہاں ہمارا اصل ٹھکانہ ہے اور وہاں ہمیں ہمیشہ کے لئے رہنا ہے۔ کون کس حالت میں رہتا ہے، یہ تو اللّٰه پاک کو پتا ہے، کوئی اور یہ نہیں جانتا۔ لیکن ہمیں وہاں اچھا رہنے کے لئے یہاں کس طرح رہنا چاہئے، یہ بتایا گیا ہے۔ پورا قرآن یہ بتاتا ہے، احادیث شریفہ میں بھی یہ بتایا گیا ہے اور بزرگ حضرات بھی یہ بتاتے رہتے ہیں۔ اب عمل کرنے کی بات ہے، تو یہ ہمارا اپنا عمل ہے اور اپنی ذمہ داری ہے کہ ہم اس پر عمل کر لیں اور اس کو سمجھیں، کیونکہ سب سے پہلے سمجھنا ہوتا ہے اور پھر اس کے بعد اس پر عمل کرنا ہوتا ہے، اور عمل بھی اخلاص کے ساتھ کرنا ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ تین کام ہیں جو بہت ضروری ہیں۔ بقول حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللّٰہ علیہ علم حاصل کرو، پھر کرنا کیا ہے؟ پھر اس کو کرو، لیکن اللّٰه کے لئے کرو۔ تو یہ 3 باتیں ہیں۔ ان تین باتوں میں 2 رکاوٹیں ہیں، ایک نفس کی رکاوٹ ہے۔ نفس کی تین قسمیں قرآن نے بتائی ہیں: نفس امّارہ، نفس لوامہ اور نفس مطمئنہ۔ نفس کے اندر اللّٰہ جل شانہٗ نے دو چیزیں رکھی ہیں، اس کا اللّٰہ پاک نے الہام فرمایا ہے اور اعلان بھی فرمایا ہے۔ نمبر ایک فجور بھی اس میں ہیں اور تقویٰ بھی اس میں ہے، البتہ فجور By default ہے یعنی اگر محنت نہ کی گئی تو فجور ہے، کیونکہ نفس امّارہ کے ساتھ انسان پیدا ہوتا ہے اور نفس مطمئنہ حاصل کرنا پڑتا ہے، یعنی اس کے لئے محنت ہے۔ اگر اس کے لئے محنت نہ ہوتی تو یہ آیت بھی نہ ہوتی۔ یہ آیت بتلا رہی ہے کہ اس کے لئے محنت ہے اور فجور کے لئے کوئی محنت کی ضرورت نہیں۔ مثلاً پانی نیچے کی طرف یعنی ڈھلوان کی طرف جاتا ہے، اس پر کوئی محنت نہیں ہے، لیکن اوپر لے جانا ہو تو اس کے لئے محنت ہے۔ اندھیرے کے لئے کوئی محنت نہیں ہے، لیکن روشنی کے لئے محنت ہے۔ لہٰذا اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم لوگوں کو اپنے نفس امّارہ کو نفس مطمئنہ بنانا ہے۔ اسی کو اصلاح نفس کہتے ہیں، یہ کوئی اور چیز نہیں ہے، یعنی ہمارا نفس وہ کرے جو کرنا چاہئے اور وہ نہ کرے جو نہیں کرنا چاہئے۔ اب جو کرنا چاہئے وہ اخلاق حمیدہ ہیں اور جو نہیں کرنا چاہئے وہ اخلاق ذمیمہ ہیں۔ ہم اخلاق ذمیمہ کو چھوڑ کر اخلاق حمیدہ اختیار کر لیں یہی ہمارا کام ہے اور اسی کو حاصل کرنے کے لئے اللّٰه پاک نے ہمیں یہاں بھیجا ہے۔ اسی لئے اللّٰه تعالیٰ قرآن پاک میں بہت ساری جگہوں پر یہ مضمون مختلف پیرائیوں میں بیان فرماتے ہیں۔ یہاں پر بھی یہ فرمایا ہے کہ اے ایمان والو! اللّٰه سے ڈرو اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اس نے کل کے لئے کیا بھیجا ہے؟ اور اللہ سے ڈرو، یقین رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللّٰه اس سے پوری طرح باخبر ہے۔ یہاں دو دفعہ فرمایا کہ اللّٰه سے ڈرو۔ پہلی دفعہ اس لئے فرمایا ہے کہ تیاری کرو، کل کے لئے کیا بھیجو گے؟ اس کو سوچو، تو اللّٰہ پاک تم سے یہ چاہتا ہے کہ تم یہ کرو۔ دوسری دفعہ ’’اللّٰہ سے ڈرو‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ اسے سرسری نہ لینا کیونکہ اللّٰه تعالیٰ ہر چیز سے باخبر ہے۔ تم جو کچھ کر رہے ہو اللّٰه تعالیٰ کو اس کا پتا ہے۔ لہٰذا ہم لوگوں کو اس کے لئے اپنے آپ کو تیار کرنا چاہئے۔ مجھ سے شاید کل یا پرسوں پوچھا گیا تھا کہ مراقبہ کیا ہوتا ہے؟ اور غور و فکر اور مراقبہ میں کیا فرق ہے؟ جس پر میں نے عرض کیا تھا کہ انسان کا قرآن میں یا حالات میں غور و فکر کرنا کہ صحیح چیز کیا ہے اور غلط کیا ہے؟ کرنا کیا ہے اور کیا نہیں کرنا، یہ غور و فکر ہے۔ مراقبہ میں یہ ہوتا ہے کہ جس چیز کو کرنا ہے، اس پر focus کرنا کہ وہ صحیح ہو رہا ہے یا نہیں۔ مثال کے طور پر کسی کو کسی چیز کا علم ہے، لیکن وہ علم اتنا مستحضر ہوجائے کہ وہ کسی وقت بھی آپ بھول نہ سکیں۔ مثلاً انسان جس وقت کھلکھلا کر ہنس رہا ہوتا ہے اور قہقہے لگا رہا ہوتا ہے تو یہ غافل ہے، کیونکہ اس کو نہیں پتا کہ بعد میں کیا ہونے والا ہے۔ اور جو غافل نہیں ہے وہ بمشکل مسکراتا ہے۔ اسی لئے آپ ﷺ کی یہ عادت تھی کہ آپ ﷺ لوگوں کے لئے مسکراتے تھے، ورنہ اپنی حالت آپ ﷺ کی ایسی نہیں تھی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت یحییٰ علیہ السلام کے درمیان ایک مرتبہ مکالمہ ہوا تھا۔ یحییٰ علیہ السلام چونکہ بہت روتے تھے، اتنا روتے تھے کہ ان کے گالوں پر باقاعدہ آنسؤں کے راستے بن گئے تھے۔ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام مسکراتے رہتے تھے۔ تو یحییٰ علیہ السلام نے عیسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ آپ کیسے ہنستے ہیں؟ کیا آپ کو وہاں کے حالات کا پتہ نہیں ہے؟ اللّٰه سے ڈر نہیں ہے؟ عیسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ کیا تمہیں اللّٰه پاک سے اچھی امید نہیں ہے کہ اللّٰه پاک بہت غفور و رحیم ہے، کریم ہے۔ اللّٰہ پاک نے فرشتہ بھیجا ان کے درمیان فیصلہ کرنے کے لئے۔ اللّٰه پاک نے ان سے یہ فرمایا کہ اے عیسیٰ! تم دن میں ایسے رہو جیسے ابھی ہو اور رات کو ایسے بن جاؤ جیسے یحییٰ ہے۔ اور اے یحییٰ! تم رات کو ایسے رہو جیسے ابھی ہو اور دن کو ایسے بن جاؤ جیسے عیسیٰ علیہ السلام ہیں۔ لہٰذا آپ ﷺ جو مسکراتے تھے تو وہ لوگوں کے لئے مسکراتے تھے کہ کہیں گھبراہٹ کی وجہ سے ان کے کلیجے نہ پھٹ جائیں، ورنہ آپ ﷺ خود فرماتے تھے:

’’وَاللهِ لَوْ تَعْلَمُوْنَ مَا اَعْلَمُ لَضَحِكْتُمْ قَلِيْلاً وَلْبَكَيْتُمْ كَثِيْرًا‘‘۔ (سننِ ترمذی: 2312)

ترجمہ: ”اللہ کی قسم! جو میں جانتا ہوں اگر وہ تم لوگ بھی جان لو تو ہنسو گے کم اور رؤ گے زیادہ‘‘۔

اسی لئے جو عارف ہوتا ہے تو وہ لوگوں کے لئے اور ان کے حوصلوں کو برقرار رکھنے کے لئے سب کچھ کرتا ہے، ورنہ صحیح بات ہے کہ وہ سب چیزیں سمجھتا ہے۔ خیر، مراقبہ کا میں بتا رہا تھا کہ مراقبہ بھی علم کو حال کے درجے میں لانا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر مجھے اللّٰه پاک کی ایک صفت کا پتا ہے کہ اللّٰه دیکھ رہے ہیں۔ اب کوئی بھی مسلمان ایسا نہیں ہے جس کو یہ پتا نہ ہو کہ اللّٰه دیکھ رہے ہیں اور ہر وقت دیکھ رہے ہیں، لیکن کیا اس کو ہم ہر وقت محسوس کر رہے ہیں کہ اللّٰه دیکھ رہے ہیں؟ تو اس میں جتنی کمی ہوگی اتنی اعمال میں کمی ہوگی، گناہوں کی زیادتی ہوگی، تو اس چیز کو پیدا کرنے کے لئے کہ جو علم ہے وہ حال بن جائے، اس کے لئے محنت ہے اور اسی محنت کو ہم لوگ پہلے سے تصوف کہتے ہیں۔ اگر کسی کو ناراضگی ہے تو کوئی اور نام لے لیتے ہیں لیکن چیز تو ایک ہی ہے۔ مثلاً میں آپ کو بتاؤں کہ اس شہر کا نام باٹلے ہے۔ اگر کسی کو یہ ناپسند ہے تو کیا وہ اس کا نام change کرسکتے ہیں؟ بلکہ جس نے یہ نام رکھا ہے تو بس نام تو اس کا یہی ہوگا۔ اب اگر وہ کام کے لئے یہاں آئے تو اسے باٹلے کے نام سے کوئی غرض نہیں ہوگی بلکہ اپنے کام سے اس کو غرض ہوگی۔ ایسے ہی تصوف ہے کہ بیشک اس کو کوئی بھی نام دے دیں لیکن قرآن میں اس کا نام تزکیہ ہے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں:

﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا﴾ (الشمس: 9 10)

ترجمہ: ’’فلاح اسے ملے گی جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے۔ اور نامراد وہ ہوگا جو اس کو (گناہ میں) دھنسا دے‘‘۔

لہٰذا قرآن میں اس کا نام تزکیہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

﴿یُزَكِّیْهِمْ﴾ (الجمعہ: 2)

ترجمہ: ’’(اور وہ پیغیمبر) ان کو پاکیزہ بنائیں‘‘۔

اور حدیث شریف میں اس کا نام احسان ہے۔ چنانچہ آپ ﷺ سے تین سوال کیے گئے تھے، ایمان کیا ہے، اسلام کیا ہے اور احسان کیا ہے؟ ایمان کیا ہے؟ اس کے جواب میں ایمان کے شعبے بتائے، اسلام کے جواب میں اسلام کے ارکان بتائے اور احسان کے جواب میں فرمایا: ’’اَنْ تَعْبُدَ اللهَ كَاَنَّكَ تَرَاهُ فَاِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَاِنَّهٗ يَرَاكَ‘‘۔ جیسا کہ حدیث پاک میں ہے:

’’يَا رَسُوْلَ اللهِ، مَا الْإِيْمَانُ؟ قَالَ: "اَنْ تُؤْمِنَ بِاللهِ، وَمَلَائِكَتِهٖ، وَكِتَابِهٖ، وَلِقَائِهٖ، وَرُسُلِهٖ۔ قَالَ يَا رَسُوْلَ اللهِ، مَا الْإِسْلَامُ؟ قَالَ: "اَلْإِسْلَامُ اَنْ تَعْبُدَ اللهَ وَلَا تُشْرِكَ بِهٖ شَيْئًا وَتُقِيْمَ الصَّلَاةَ الْمَكْتُوْبَةَ وَتُؤَدِّيَ الزَّكَاةَ الْمَفْرُوْضَةَ وَتَصُوْمَ رَمَضَانَ۔ قَالَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ مَا الْإِحْسَانُ؟ قَالَ: "اَنْ تَعْبُدَ اللهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنَّكَ إِنْ لَا تَرَاهُ فَإِنَّهٗ يَرَاكَ‘‘۔ (صحیح مسلم: 97)

ترجمہ: ’’اے اللہ کے رسول! ایمان کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”تم اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں، اس کی کتاب، (قیامت کے روز) اس سے ملاقات (اس کے سامنے حاضری) اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ اور آخری (بار زندہ ہو کر) اٹھنے پر (بھی) ایمان لے آؤ۔“ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! اسلام کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسلام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراؤ، لکھی (فرض کی) گئی نمازوں کی ‎پابندی کرو، فرض کی گئی زکاۃ ادا کرو۔ اور رمضان کے روزے رکھو۔“ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! احسان کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے ہو تو وہ یقیناً تمہیں دیکھ رہا ہے“۔

تو یہ کیفیتِ احسان ہے کہ انسان ایسی عبادت کرے جیسے وہ خدا کو دیکھ رہا ہے۔ اب خدا کو کوئی دیکھ نہیں سکتا، چنانچه موسی علیہ السلام کے لئے فرمایا گیا:

﴿لَنْ تَرَانِیْ﴾ (الاعراف: 143)

ترجمۃ: ’’تم مجھے ہر گز نہیں دیکھ سکو گے‘‘۔

یعنی خدا کو کوئی دیکھ نہیں سکتا۔ لیکن وہ دیکھنے والی حالت کی کیفیت پیدا کرسکتا ہے، اس کے ہم مکلف ہے، یہی پیدا کرنے کے لئے فرمایا ’’اَنْ تَعْبُدَ اللهَ كَاَنَّكَ تَرَاهُ فَاِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَاِنَّهٗ يَرَاكَ‘‘۔

لہٰذا یہ جو کیفیت احسان ہے، اسی کو پیدا کرنے کے جو ذرائع ہیں، قرآن میں اس کو تزکیہ اور عام لوگ اس کو تصوف کہتے ہیں اور ہم سب بھی یہی کہتے ہیں۔ لیکن کام یہی ہے، اس کام کو کرنا پڑے گا اور اگر اس کام کو نہیں کریں تو پھر کیا ہوگا؟ فرمایا:

﴿وَلَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ نَسُوْا اللّٰهَ فَاَنْسٰىهُمْ اَنْفُسَهُمْؕ- اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ﴾ (الحشر: 19)

ترجمہ: ’’اور تم ان جیسے نہ ہوجانا جو اللہ کو بھول بیٹھے تھے، تو اللہ نے انہیں خود اپنے آپ سے غافل کردیا۔ وہی لوگ ہیں جو نافرمان ہیں‘‘۔

اس وقت آپ ارد گرد دیکھو، لوگ کتوں کے ساتھ پھر رہے ہیں یا نہیں پھر رہے؟ اگر صحبت صالحین نہیں ہے تو کتوں کے ساتھ رہیں گے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: حدیث قدسی ہے۔

’’يَا ابْنَ اٰدَمَ تَفَرَّغْ لِعِبَادَتِيْ اَمْلَأُ صَدْرَكَ غِنًى وَأَسُدَّ فَقْرَكَ، وَإِلَّمْ تَفْعَلْ مَلَأْتَ يَدَيْكَ شُغْلاً وَلَمْ أَسُدَّ فَقْرَكَ‘‘۔ (ترمذی: 2466)

ترجمہ: ’’اے ابنِ آدم! تو میری عبادت کے لئے فارغ ہو جا، میں تیرا سینہ مال داری سے بھر دوں گا اور تیری محتاجی کا دروازہ بند کر دوں گا اور اگر تو ایسا نہ کرے گا تو تیرے دونوں ہاتھ مَشاغل سے بھر دوں گا اور تیری محتاجی کا دروازہ بند نہ کروں گا‘‘۔

اب ہم ذرا غور سے دیکھ لیں کہ لوگ کس قسم کی چیزوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ معمولی معمولی چیزیں ہوں گی لیکن اس نے اپنے لئے سب سے بڑا کام بنایا ہوا ہوگا اور وہ سمجھتے ہیں کہ بھائی! اس کے بغیر تو ہماری زندگی نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے دل خالی ہیں۔ میں جب راستے پر جاتا ہوں، تو کبھی گاڑی پاس سے گزرتی ہے اور اس پر ڈرم میوزک لگا ہوتا ہے، بہت گہری آواز ہوتی ہے اس کی۔ تو میں کہتا ہوں کہ اس کا دل اندر سے خالی ہے۔ کیونکہ اگر اس کا دل اندر سے خالی نہ ہو تو اس کو اس چیز کی ضرورت نہ ہوتی۔ اور کمال کی بات یہ ہے کہ شیطان ایسا عجیب نظام پیدا کرتا ہے کہ جس چیز سے اس کو نقصان ہو، اسی کو ہی وہ اپنے لئے علاج سمجھتا ہے۔ میں آپ کو ایک عجیب بات بتاتا ہوں۔ میں جب جرمنی میں گیا تھا، تو ظاہر ہے کہ جس ملک میں آپ جاتے ہیں تو وہاں کی زبان سیکھنی پڑتی ہے، تو میں بھی وہاں کلاس میں جرمن زبان سیکھنے کے لئے جایا کرتا تھا، وہاں ہماری جو teacher تھیں، وہ جرمن زبان سکھاتی تھیں، ان کے اپنے طریقے تھے، ایک چھوٹی سی کتاب ہوتی تھی وہ اس کو chapter-wise پڑھاتی تھیں، پھر اس کے بعد آپس میں Group discussions ہوتی تھیں، تاکہ ان کی زبان چل پڑے۔ تو ایک لیکچر تھا جو میوزک کے بارے میں تھا، جب chapter پڑھا گیا تو اس کے بعد Group discussions شروع ہوگئی۔ تو وہ ہر ایک سے پوچھتے ہیں کہ تمہارا میوزک کے بارے میں کیا خیال ہے؟ تاکہ ان کی زبان کھلے، جب مجھ سے پوچھا کہ آپ کا میوزک کے بارے میں کیا خیال ہے؟ میں نے کہا کون سا میوزک؟ جو بیماری ہے؟ وہ ہکی بکی رہ گئی کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں، مجھے کہا کہ کیا مطلب؟ میں نے کہا دیکھو! میں دو قسم کے میوزک کو جانتا ہوں، ایک ہے Western اور دوسرا Eastern۔ Eastern میوزک میں تو ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کہتا ہے کہ میں پارہ پارہ ہوجاؤں، میں ذرہ ذرہ ہوجاؤں، میں زمین میں دھنس جاؤں، میں آسمان میں گھس جاؤں، یہی ہوتا ہے؟ کہتی ہاں۔ میں نے کہا کہ کیا anxiety نہیں ہے؟ کیا یہ subject بیماری نہیں ہے؟ میں نے کہا کہ جو Eastern میوزک ہے اس میں ایک آدمی کہتا ہے کہ میں سو جاؤں، مجھے کوئی چھیڑے نہیں، میں بس گم ہوجاؤں۔ میں نے کہا کہ اس سے یہ بنتا ہے یا نہیں بنتا؟ یہ غم زدہ گانے اسی لئے ہوتے ییں۔ میں نے کہا ایسا ہوتا ہے؟ کہتی ہے ہوتا ہے۔ میں نے کہا کیا یہ depression نہیں ہے؟ تو وہ بے حال ہوگئی کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں۔ پھر مجھے کہتی کہ آپ کیا کرتے ہیں؟ میں نے کہا جب ان چیزوں سے لوگ نفسیاتی مریض ہوجاتے ہیں، تو ڈاکٹر لوگ ان کو علاج کے لئے natural میوزک بتاتے ہیں، وہ کہتی natural میوزک کیا ہوتا ہے؟ میں نے کہا سمندر کے پانی کا شور، درختوں کے چلنے کی آواز، بچوں کا کھلکھلانا اور مرغ کی اذان اور اسی طرح کی چیزیں۔ وہ بہت زیادہ متأثر ہوئی اور کچھ دنوں کے بعد میری لئے کیسٹ لائی، اور بتایا کہ اس میں مرغ کی اذان ہے، اس میں سمندر کے پانی کا شور ہے۔ دراصل جب کسی کا دل لگ جاتا ہے تو وہ research کر لیتا ہے۔ بہرحال میرا مقصد یہ ہے کہ ہماری حالت یہ ہے کہ میوزک جو ایک بیماری ہے اس سے لوگ اپنے لئے علاج کر رہے ہیں، اب بتاؤ! کیا ہو رہا ہے۔ یہی بات ہے جو اللّٰه پاک نے فرمایا کہ تم ان جیسے نہ ہوجانا جو اللّٰه کو بھول بیٹھے، تو اللّٰه نے انہیں خود اپنے آپ سے غافل کردیا، وہی لوگ ہیں جو نافرمان ہیں۔

آگے اللّٰہ پاک فرماتے ہیں:

﴿لَا یَسْتَوِیْۤ اَصْحٰبُ النَّارِ وَاَصْحٰبُ الْجَنَّةِؕ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ هُمُ الْفَآىٕزُوْنَ﴾ (الحشر: 20)

ترجمہ: ’’جنت والے اور جہنم والے برابر نہیں ہوسکتے۔ جنت والے ہی وہ ہیں جو کامیاب ہیں‘‘۔

یعنی نتیجہ ہمارے سامنے رکھ دیا۔ اور پھر اس کے بعد آپ ﷺ کا تعارف ہے۔

﴿لَوْ اَنْزَلْنَا هٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰى جَبَلٍ لَّرَاَیْتَهٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْیَةِ اللّٰهِؕ- وَتِلْكَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَتَفَكَّرُوْنَ﴾ (الحشر:21)

ترجمہ: ’’اگر ہم نے یہ قرآن کسی پہاڑ پر اتارا ہوتا تو تم اسے دیکھتے کہ وہ اللّٰه کے رعب سے جھکا جا رہا ہے، اور پھٹا پڑٹا ہے۔ اور ہم یہ مثالیں لوگوں کے سامنے اس لئے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ غور و فکر سے کام لیں‘‘۔

ہمارے شیخ مولانا محمد اشرف صاحب (چونکہ یہ بہت بڑے عالم تھے) فرما رہے تھے کہ میں قرآن پاک پڑھ رہا تھا تو جب یہ آیت میرے سامنے آئی تو دل پر وارد ہوا کہ یہ قرآن پاک میں آپ ﷺ کی نعت ہے۔ میرے دل میں خیال ہوا کہ اس سے آگے، پیچھے دیکھیں، تو آگے یہ ہے:

﴿هُوَ اللّٰهُ الَّذِىۡ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ‌ عٰلِمُ الۡغَيۡبِ وَالشَّهَادَةِ‌ هُوَ الرَّحۡمٰنُ الرَّحِيۡمُ‏ ۝ هُوَ اللّٰهُ الَّذِىۡ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ‌ۚ اَلۡمَلِكُ الۡقُدُّوۡسُ السَّلٰمُ الۡمُؤۡمِنُ الۡمُهَيۡمِنُ الۡعَزِيۡزُ الۡجَـبَّارُ الۡمُتَكَبِّرُ‌ؕ سُبۡحٰنَ اللّٰهِ عَمَّا يُشۡرِكُوۡنَ ۝ هُوَ اللّٰهُ الۡخَـالِـقُ الۡبَارِئُ الۡمُصَوِّرُ‌ لَـهُ الۡاَسۡمَآءُ الۡحُسۡنٰى‌ؕ يُسَبِّحُ لَهٗ مَا فِى السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ‌ۚ وَهُوَ الۡعَزِيۡزُ الۡحَكِيۡمُ﴾ (الحشر: 22 - 24)

ترجمہ: ’’وہ اللہ وہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ چھپی اور کھلی ہر بات کو جاننے والا ہے۔ وہی ہے جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان ہے۔ وہ اللہ وہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، جو بادشاہ ہے، تقدس کا مالک ہے، سلامتی دینے والا ہے، امن بخشنے والا ہے، سب کا نگہبان ہے، بڑے اقتدار والا ہے، ہر خرابی کی اصلاح کرنے والا ہے، بڑائی کا مالک ہے، پاک ہے اللہ اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔ وہ اللہ وہی ہے جو پیدا کرنے والا ہے، وجود میں لانے والا ہے صورت بنانے والا ہے، اسی کے سب سے اچھے نام ہے جو اقتدار کا بھی مالک ہے، حکمت کا بھی مالک‘‘۔

یعنی یہ سب اللّٰه پاک کی صفات بیان ہو رہی ہیں، تو اب یہ نعت کیسے کہتے ہے، میرے ذہن میں یہ بات آگئی۔ فوراً دل میں جواب آگیا کہ ذرا اس پر غور کر لو کہ یہ کیا فرمایا جا رہا ہے؟ اگر ہم یہ قرآن پہاڑ پر نازل کر دیتے تو وہ اس کے بوجھ سے ریزہ ریزہ ہوجاتا، لیکن یہ حضور ﷺ کا سینہ ہے جو اتنی بڑی چیز آپ ﷺ پر اتر رہی ہے اور آپ ﷺ stable ہیں۔ تو یہ کیا ہے؟ یہ آپ ﷺ کی تعریف بیان ہو رہی ہے۔ اور آپ ﷺ کی تعریف نعت ہی ہوتی ہے۔ لہٰذا آپ ﷺ کی اس میں تعریف کی گئی ہے۔ قرآن جیسی عظیم کتاب کو نازل کرنے کے لئے آپ ﷺ کو چنا گیا اور آپ ﷺ نے اس کو لے لیا اور پھر آپ ﷺ نے اس کو پوری امت کو دے دیا۔ تو اب یہ امت کے لئے ضروری ہے کہ اس پر عمل کریں۔ اور اللّٰه جل شانہٗ نے نظام ایسا بنایا ہوا ہے کہ دو چیزوں کو آپس میں بالکل interrelated کردیا ہے۔ ان میں سے ایک کو دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا، لیکن اس کو بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ حالانکہ ہر دفعہ اس کو ہم پڑھتے ہیں، اور وہ کیا ہے؟ وہ سورہ فاتحہ ہے۔ سورہ فاتحہ میں ہم پڑھتے ہیں:

﴿اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ ۝ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ ۝ صِرَاطَ الَّذِيۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَيۡهِمۡ غَيۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَيۡهِمۡ وَلَا الضَّآلِّيۡنَ﴾ (الفاتحہ: 5-7)

ترجمہ: ’’(اے اللہ) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں، ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت عطا فرما، ان لوگوں کے راستے کی جن پر تو نے انعام کیا نہ کہ ان لوگوں کے راستے کی جن پر غضب نازل ہوا ہے اور نہ ان کے راستے کی جو بھٹکے ہوئے ہیں‘‘۔

میں حیران ہوتا ہوں کہ اتنی چھوٹی سی سورت ہے جو ہر رکعت میں پڑھتے ہیں، لیکن میرے خیال میں اگر پوچھا جائے تو پتا نہیں کتنے فیصد لوگوں کو پتا ہو کہ ہم کیا پڑھ رہے ہیں، شاید بہت کم لوگوں کو پتا ہو۔ اور اس کا مفہوم جاننا تو بہت ہی کم لوگوں کو پتا ہوگا۔ اور پھر اس سے جو استفادہ کرنے والے ہیں وہ تو اور بھی زیادہ کم ہوں گے۔ حالانکہ اللّٰه پاک نے اس کو اتنا عام کیا ہے کہ ہر رکعت کے اندر اسے واجب بنا دیا۔ اب ہم دیکھ لیں کہ اس میں اللّٰه پاک کیا فرماتے ہیں، اللہ پاک اس میں ہمیں دعا سکھا رہے ہیں۔ کہ یوں دعا مانگو کہ اے اللہ! ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت عطا فرما، ان لوگوں کے راستے کی جن پر تو نے انعام کیا نہ کہ ان لوگوں کے راستے کی جن پر غضب نازل ہوا ہے اور نہ ان کے راستے کی جو بھٹکے ہوئے ہیں۔ تو یہ تین قسم کے لوگوں کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ وہ لوگ جن پر انعام ہے، ان کے بارے میں قرآن بتاتا ہے کہ وہ انبیاء ہیں، صدیقین ہیں، شہداء ہیں اور صالحین ہیں۔ انبیاء کرام تو دنیا سے تشریف لے گئے لیکن ان کی تعلیمات موجود ہیں، صدیقین بہت تھوڑے ہوتے ہیں اور شہداء کا پتا ہی اس وقت چلتا ہے جب دنیا سے چلے جاتے ہیں۔ اب دیکھیں! کون رہ گئے؟ صالحین رہ گئے، تو صحبت صالحین کتنی اہم ہوگئی۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں فتوی دیتا ہوں (یہ میرے پاس لکھا ہوا ہے موجود ہے، ’’انفاسِ عیسیٰ‘‘ میں موجود ہے، تو فرمایا کہ میں فتوی دیتا ہوں) کہ آج کل کے لوگوں کے لئے صحبت صالحین فرض عین ہے، کیونکہ صحبت صالحین نہ ہونے کی وجہ سے ایمان بھی خطرے میں ہوتا ہے۔ اور جب یہ بات ہے تو ظاہر ہے کہ صحبت صالحین کتنی ضروری ہوگی اور پھر اس کو مانگنا بھی ضروری ہوگیا اور اس کو حاصل کرنا بھی ضروری ہوگیا۔ پھر دوسری بات کہ ﴿مَغۡضُوۡبٌ عَلَيۡهِمۡ﴾ سے اور ﴿ضَّآلِّيۡنَ﴾ سے بچنا یہ بہت اہم بات ہے۔ لیکن اس وقت ہم کن کے طور طریقوں پر چل رہے ہیں یعنی زیادہ تر کن کے طور طریقوں پر چل رہے ہیں، ﴿اَنۡعَمۡتَ عَلَيۡهِمۡ﴾ کے طریقوں پر چل رہے ہیں یا ﴿ضَّآلِّيۡنَ﴾ یا پھر ﴿مَغۡضُوۡبٌ عَلَيۡهِمۡ﴾ کے طریقوں پر چل رہے ہیں؟ جبکہ اللہ فرماتے ہیں:

﴿وَلَنْ تَرْضٰى عَنْكَ الْیَهُوْدُ وَلَا النَّصٰرٰى حَتّٰى تَتَّبِـعَ مِلَّتَهُمْؕ﴾ (البقرہ: 120)

ترجمہ: ’’اور یہود و نصاری تم سے اس وقت تک ہر گز راضی نہیں ہوں گے جب تک تم ان کے مذہب کی پیروی نہیں کرو گے‘‘۔

لہٰذا ہم لوگوں کو اپنی گریباں میں جھانکنا چاہئے کہ ہم کن کے طریقے پر چل رہے ہیں۔ ابھی حضرت نے Social media کی بات فرمائی تھی، تو یہ کس کا طریقہ ہے؟ کس نے نکالا ہوا ہے یہ؟ اور Social media پر اگر دیکھیں %84 کافر ہیں یعنی دنیا میں کم از کم %84 کافر ہیں، اور زیادہ سے زیادہ %16 مسلمان ہیں۔ اور Social media پر اگر آپ کثرت کو دیکھیں تو کثرت کن کی ہے، کثرت کافروں کی ہے۔ تو اس سے ہمارے پاس جو چیز آئے گی تو وہ کیسے آئے گی؟ ظاہر ہے کہ ان کی research کے مطابق آئے گی یعنی وہی چیز آئے گی جو انہوں نے بنائی ہے۔ اور پھر ان کے اندر شاطر لوگ بہت زیادہ ہیں، باقاعدہ ان پر Specialist PhDs کرتے ہیں، ابھی بھی اسرائیل میں ہماری مختلف چیزوں پر مختلف جگہوں پر PhDs ہو رہے ہیں، تو یہ کیا چیز ہے؟ سب کچھ باقاعدہ پورے deliberately طریقے سے اور calculate انداز میں کر رہے ہیں لیکن ہم لوگ غافل ہیں۔ لہٰذا ان کی جو چیزیں ہماری طرف آرہی ہیں اگر ہم ان کو بغیر کسی فلٹر کے لے لیں تو نتیجہ کیا ہوگا؟ ظاہر ہے کہ ہمیں خراب کریں گے۔ اب یہ فلٹر کیا ہے؟ یہ بتاتا ہوں۔ ہمارے پاس حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ یورنیورسٹی میں تھے، جب کبھی ہمیں کوئی مسئلہ ہوتا جو ہمیں سمجھ نہ آتا تو حضرت کے پاس بھاگ جاتے اور حضرت سے پوچھتے کہ حضرت یہ کیا ہے؟ حضرت جواب دے دیتے تو تسلی ہوجاتی، تو یہ فلٹرز ہیں یعنی ہمیں ان لوگوں سے پوچھنا ہے جو جاننے والے ہیں۔ اللہ تعالی قرآن پاک میں فرماتے ہیں: ﴿فَسۡــئَلُوۡۤا اَهۡلَ الذِّكۡرِ اِنۡ كُنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَۙ‏﴾ (النحل: 43)

ترجمۃ: ’’لہٰذا اگر تمہیں خود علم نہیں ہے تو نصیحت کا علم رکھنے والوں سے پوچھ لو‘‘۔

لہٰذا ہمیں ایسے لوگوں کے ساتھ تعلق بنانا چاہئے جو ہمیں صحیح بات بتائیں اور صحیح بات سمجھائیں، اور جو ہمارے خیرخواہ ہوں لیکن ہم لوگ کس سے consult کر رہے ہیں؟ مفتی حبیب اللّٰه صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ (آپ حضرات شاید جانتے ہوں گے) حضرت شیر رحمۃ اللّٰہ علیہ کے کاتب تھے اور مدینہ منورہ میں تھے، حضرت کے پاس میرا اکثر جانا ہوتا تھا، جب میں مدینہ منورہ حاضر ہوتا، تو حضرت مجھ سے الحمد للّٰہ کتابوں کے بارے میں باتیں کیا کرتے تھے، ایک دن میں بیٹھا تھا تو میں نے دیکھا کہ پورا مکتبہ کتابوں سے بھرا ہوا ہے، میں نے کہا حضرت! یہ اتنی ساری کتابیں آپ کی ہیں؟ آج کل تو یہ ایک سی ڈی میں آجاتی ہیں۔ حضرت نے فرمایا: ہم اس سی ڈی کو ٹھیک کرنے کے لئے یہاں بیٹھے ہیں یعنی جو غلطیاں وہ کرتے ہیں، ان کو ہم نکالتے ہیں اور کتنی غلطیاں ہم نے نکالی ہیں۔ اور بات بھی بالکل صحیح تھی، کیونکہ بعض دفعہ غلطی سے غلطیاں کرتے ہیں اور بعض دفعہ ویسے بھی کرتے ہیں، یعنی جو لوگ قرآن بھی چھاپ سکتے ہیں تو دوسرا کام بھی کرسکتے ہیں۔ لہٰذا ایسے علماء ہونے چاہئیں جو صحیح knowledge رکھتے ہوں اور ہم لوگوں کو ایسے لوگوں کے پاس اٹھنا بیٹھنا چاہئے۔ ان کو ہم رجال اللّٰه کہتے ہیں۔ اور اس کے فوراً بعد اللّٰہ پاک فرماتے ہیں:

﴿ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَيْبَ فِيْهِ ھُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ﴾ (البقرۃ: 2)

ترجمہ: ’’یہ کتاب ایسی ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں، یہ ہدایت ہے ان ڈر رکھنے والوں کے لئے‘‘۔

یعنی اللّٰہ جل شانہٗ فرماتے ہیں، یہ وہ عظیم الشان کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں اور اس میں ڈرنے والوں کے لئے نصیحت موجود ہے اور ہدایت موجود ہے۔ لہٰذا جب یہ بات ہے تو کتاب اللّٰه کے ساتھ تمسک، یہ بھی بتایا گیا اور رجال اللّٰه کے پیچھے چلنا ہے، یہ بھی بتایا گیا ہے۔ ان دونوں باتوں کو بیک وقت کرنے سے ہدایت ملتی ہے۔ کیونکہ ’’اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ‘‘ ہے، تو ہم کیا مانگتے ہیں؟ ہدایت، اور ہدایت کس چیز میں ہے؟ ’’صِرَاطَ الَّذِيۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَيۡهِمۡ‘‘ میں ہے۔ تو ہدایت رجال اللّٰه سے ملتی ہے اور ہدایت کتاب اللّٰه سے ملتی ہے۔ مفتی شفیع صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں جب یہ دونوں ہوتے ہیں تو پھر کامیابی ہوتی ہے۔ ان میں سے اگر کوئی ایک ہو تو پھر گمراہی ہے۔ مثلاً خوارج نے صرف کتاب اللّٰه کو لیا اور رجال اللّٰه کو چھوڑ دیا تو گمراہ ہوگئے اور باطنین نے صرف رجال اللّٰه کو اپنے زعم میں لے لیا تو کتاب اللّٰه کو چھوڑ کر رجال اللّٰه کو نہیں پہچان سکے، لہٰذا وہ بھی گمراہ ہوگئے۔ اس لئے ہم دونوں کو لیں۔ اور آج کل بھی یہ فتنے چل رہے ہیں یعنی کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں حدیث کی ضرورت نہیں ہے، بس قرآن کافی ہے بلکہ یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ رسول اللّٰہ ﷺ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ حالانکہ رسول اللّٰہ ﷺ کے بغیر کتاب اللّٰه کیسے آپ جان سکتے ہیں! یہ کیسے ممکن ہے! لیکن وہ اس قسم کی بات کرتے ہیں اور ان کے ماننے والے بھی موجود ہیں اور بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ چنانچہ یہ جاوید غامدی کون ہے؟ اور یہ کیا کرتا ہے؟ یہ یہی تو کرتا ہے، ان کے نزدیک زنا جائز ہے، ان کے نزدیک موسیقی جائز ہے، ان کے نزدیک سود جائز ہے اور ان کے نزدیک شراب جائز ہے۔ اب مجھے بتاؤ! منع کیا چیز ہے؟ دراصل وہ نفس کی ہر خواہش کو ٹھیک قرار دینے کے لئے بیٹھا ہوا ہے اور ہر صحیح چیز کے اندر نقص نکالنے کے لئے بیٹھا ہوا ہے، یہی کام وہ کر رہا ہے۔ اب ہم لوگ کیا کریں؟ تو ہم لوگ صحیح لوگوں کو پہچانیں۔ اب ذرا میں ایک بات کرتا ہوں اور پھر میں ختم کرتا ہوں کہ میں زیادہ بات کرنا نہیں چاہتا۔ کسی بھی چیز کو دیکھنے کے لئے دو روشنیوں کی ضرورت ہوتی ہے، ایک خارجی روشنی اور دوسری داخلی روشنی۔ خارجی روشنی جیسے سورج ہے، ٹیوب لائٹس ہیں یا جو بھی ذرائع ہیں یہ خارجی روشنی ہے۔ اور داخلی روشنی بینائی ہے، اگر بینائی نہ ہو اور ساری دنیا نور سے بھر جائے تو کیا پتا چلے گا؟ اور اگر نور نہ ہو تو بیشک 6x6 نظر ہو تو کیا دیکھے گا؟ نہیں دیکھ سکتا۔ لہٰذا یہ دونوں چیزوں کا ہونا بیک وقت ضروری ہے۔ اسی طریقے سے قرآن اور سنت یہ ہدایت ہے اور رجال اللّٰه کے ساتھ بیٹھنا یہ بھی ہدایت ہے۔ لیکن اگر بینائی یعنی اندرونی روشنی نہ ہو تو اس کو حاصل نہیں کرسکتے۔ اور وہ کیا ہے؟ وہ دل کا پاک ہوجانا ہے کیونکہ جب تک دل پاک نہیں ہوگا اس وقت تک ان سے ہدایت حاصل نہیں کرسکتے۔ لہٰذا دونوں محنتیں ضروری ہیں یعنی دل کو بھی پاک کرنا چاہئے کہ حجابات دور ہوجائیں۔ اور پتا نہیں حجابات کو لوگ کیا سمجھتے ہیں، اس کے بارے میں بہت عجیب عجیب باتیں کرتے ہیں جبکہ حجابات یہی ہے کہ آپ اور حق کے درمیان جو چیز حائل ہوجائے وہ حجاب ہے، چاہے وہ خود آپ ہی کیوں نہ ہوں کیونکہ یہ بھی ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ حجابات ہیں۔ اور ہمارے نفس کے اندر جو حجابات ہیں، وہ ہمیں دیکھنے نہیں دیتے، بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ قرآن بھی پڑھتے ہیں، حدیث بھی پڑھتے ہیں لیکن نفس کی کسی بات کی وجہ سے اس پر عمل نہیں کر پا رہے ہوتے کیونکہ وہ حجاب بن جاتا ہے۔ اور اسی حجاب کو تو دور کرنا ہے۔ نفس کی اصلاح کیا چیز ہے؟ نفس کی اصلاح یہی ہے کہ انسان کا نفس نفسِ مطمئنہ ہوجائے اور وہ ماننے کے لئے تیار ہوجائے۔ اس کے لئے جو طریقے ہمارے بزرگ بیان فرماتے ہیں ان طریقوں پر عمل کر کے ہم نفس کو نفسِ مطمئنہ بنا لیں اور قلب کو قلبِ سلیم بنا لیں۔ میں آپ کو چھوٹی سی بات عرض کرتا ہوں، حدیث شریف میں ہے:

’’سُبْحَانَ اللّٰهِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰهُ وَاللّٰهُ اَکْبَرُ‘‘۔ (مسلم: 6847)

یہ بڑے اونچے الفاظ ہیں۔ اور ہم لوگ اپنی زبان پر ہر وقت مختلف وجوہات سے یہ لیتے ہیں، لیکن کیا اس کا ہمارے دل پر اثر ہوتا ہے؟ نہیں ہوتا۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ وجہ یہ ہے کہ ہمارا نفس اس کے لئے تیار نہیں ہے۔ اگر ہمارا نفس تیار ہوجائے تو یہی سبحان اللّٰہ ہی ہمیں کہاں پہنچا دے گا، یہی الحمد للّٰہ ہمیں کہاں پہنچا دے گا اور یہی اللّٰہ اکبر ہمیں کہاں پہنچا دے گا اور بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم ہمیں کہاں پہنچائے دے گی۔ یعنی یہ ساری چیزیں موجود ہیں۔ قرآن کی ایک ایک آیت میں پورا پورا ایک نظام ہے، لیکن اس نظام کو حاصل کرنے کے لئے اپنی تیاری کرنی پڑتی ہے، جو لوگ یہ تیاری کر لیں تو قرآن میں تو یہ چیزیں موجود ہیں۔ مثلاً ایک کمرہ ہے، اس کو تالا ہے اور اس کمرے کے اندر سب کچھ پڑا ہوا ہے، لیکن آپ کے پاس چابی نہیں ہے، تو آپ اس کو حاصل نہیں کرسکتے۔ اور جب چابی آگئی اور کمرہ کھول لیا تو پھر گویا کوئی بھی چیز حاصل کرنا چاہیں تو کر لیں گے۔ اسی طرح اپنے دل کو کھولنا پڑے گا۔ ہم جو لطائف کا ذکر دیتے ہیں وہ اسی لئے ہے۔ ہمارے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کے پاس ایک نقشبندی صاحب تشریف لائے، انہوں نے کہا کہ میرے شیخ جہاد میں ہیں (کیونکہ ان دنوں افغانستان کا جہاد چل رہا تھا) اس وجہ سے ان سے میری ملاقات نہیں ہو رہی، تو میں آپ سے رجوع کر رہا ہوں تاکہ کم از کم میرا کام تو ہوتا رہے۔ حضرت نے فرمایا: ایک ایک لطیفے کے اوپر کم از کم ایک ایک چلہ لگانا چاہئے اور پھر فرمایا: بھائی! دل کے سارے پٹ کھولنے ہیں۔ بس یہی بات ہے۔ لہٰذا ہم اپنے دل کے سارے پٹ کو بھی کھول دیں اور اپنے نفس کے تمام رزائل کو بھی دبا لیں تو بس پھر ہمارے اردگرد ساری چیزیں پڑی ہوئی ہیں اور اللّٰه پاک ہم سے دور نہیں ہیں بلکہ اللّٰه پاک تو ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ ہم لوگ محسوس نہیں کر رہے، تو اس وقت محسوسات میں آجائیں گے۔ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ نے جو فرمایا کہ قرآن اور سنت کا جو علم ہے وہ کشفی ہوجائے۔ لوگ کہتے ہیں کہ اس کا مطلب ہے شاید ان لوگوں کو کشف ہوجائے۔ نہیں بھائی! وہ چیز کشف نہیں ہے بلکہ وہ حجابات دور ہوجائیں اور محسوسات میں آجائیں، یہ مطلب ہے اس کا۔ اور جب محسوسات میں آجائیں تو بس ٹھیک ہے، پھر آپ کام بھی کر لیں گے۔ چنانچہ ہمارے مشائخ فرماتے ہیں کہ یہ تیاری کر لو، اپنے قلب کو قلبِ سلیم بنا دو، عقل کو عقلِ سلیم بنا لو، نفس کو نفسِ مطمئنہ بنا لو تو پھر ساری چیزیں تیرے لئے تیار ہیں۔ لہٰذا جب یہ تین چیزیں ہوگئیں تو پھر آپ کے لئے صحابہ کا طریقہ بالکل سامنے ہے۔ صحابہ کے طریقے کا نام بزرگوں نے جو دیا تھا وہ اس لئے کہ ایک سیر الی اللّٰه ہے، ایک سیر فی اللّٰہ ہے، سیر الی اللّٰه ان تین چیزوں کی تیاری کو کہتے ہیں اور سیر فی اللّٰه صحابہ کے طریقے کو کہتے ہیں۔ صحابہ کا طریقہ لامتناہی ہے، اب جو جتنا آگے چلا جائے۔ ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ بھی اس طریقے پر چلے، عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ بھی اس طریقے پر چلے، عثمان رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ بھی اس طریقے پر چلے اور ہر ایک کا اپنا اپنا مقام ہے، لیکن طریقہ تو وہی ہے، راستہ تو وہی ہے اور اگر آپ یہ تینوں چیزیں دیکھیں تو آپ کا بھی وہی راستہ ہوجائے گا۔ اسی کو طریقۂ صحابہ کہتے ہیں، اسی کو سیر فی اللّٰہ کہتے ہیں۔ اس لئے میں عرض کرتا ہوں کہ ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم کسی بھی شیخ کے ساتھ اپنا تعلق قائم کریں اور ہم اپنی چیزوں کو درست کر لیں۔ حضرت شاہ ولی اللّٰہ رحمۃ اللّٰہ علیہ کی کتاب ہے ’’الطاف القدس‘‘ اس میں حضرت نے فرمایا ہے کہ تین لطائف ہیں، نفس، قلب اور عقل، ان تینوں کے اوپر کام کرنا ہے، عقل کو بہترین بنانا ہے، نفس کو نفسِ مطمئنہ بنانا ہے اور قلب کو قلبِ سلیم بنانا ہے۔ جب یہ تینوں درست ہوجائیں تو پھر اللّٰه تعالیٰ دو لطائف اپنی طرف سے عطا فرماتے ہیں، ایک لطيفۂ روح ہے اور دوسرا لطيفۂ سر۔ لطيفۂ روح آپ کے قلب کو ملأ اعلی کے ساتھ ملا دے گا اور لطيفۂ سر آپ کی عقل کو ملأ اعلی کے ساتھ ملا دے گا۔ لہٰذا آپ کا فیصلہ ملأ اعلی کی طرف سے ہوگا۔ جیسے فرمایا کہ اللّٰہ والوں کی فراست سے ڈرو، وہ خدا کے نور سے دیکھتے ہیں۔ وہ یہی چیز ہے۔ اسی طریقے سے جو واردات قلب پر آتے ہیں، وہ کہاں سے آتے ہیں؟ وہ ملأ اعلی سے آتے ہیں۔ چنانچہ اس کے بعد راستے کھل جاتے ہیں، اور پھر شیخ آپ کی تربیت کرتا ہے۔ یعنی سب کچھ اللّٰه تعالیٰ کی طرف سے آپ کے پاس آرہا ہے اور عین وقت پر تربیت ہوتی ہے اور عین وقت پر اصلاح ہوتی ہے۔ حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی اصلاح ہوئی تھی، حضرت صحابی تھے، اور کیا کرتے ہیں کہ ایک دفعہ بوریاں خود اٹھا رہے ہیں، لوگوں نے پوچھا حضرت! خادم موجود ہیں۔ فرمایا: چونکہ میں امیر المومنین کی صورت میں یہود سے ملاقات کر چکا ہوں، اب اس چیز کے اثر کو دور کرنے کے لئے میں یہ کر رہا ہوں۔ تو یہ کیا چیز ہے؟ یہ ملأ اعلی والی بات ہے۔ یعنی تربیت کا سامان ہر وقت ہو رہا ہے۔ ایسے ہی حضرت علی کرم اللّٰه وجہہ کے ساتھ ہوتا ہے، ایسے ہی عثمان رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ ہوتا ہے، ایسے ہی حضرت عمر اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ ہوتا تھا یعنی عین وقت پر پتا چلتا تھا کہ کیا نہیں ہوا اور کیا ہونا چاہئے اور مجھے کیا کرنا چاہئے۔ تو یہ سارا نظام ملأ اعلی کی طرف سے ہوتا ہے۔ عام بندوں کے ساتھ بھی پھر ایسا ہوتا ہے، لیکن اگر وہ تین چیزوں کو درست کر چکے ہوں تو۔ اس لئے محنت تو یہی کرنی ہے۔ اب ایک اہم بات آگئی کہ جو محنت کرنی ہے اور جس کے لئے شیخ کو پکڑنا ہے، وہ شیخ کیسا ہونا چاہئے؟ کیونکہ آج کل تو ہر چیز میں فتنے ہیں اور ہر چیز میں سودا گری اور پتا نہیں کیا کیا چیزیں ہیں، اللّٰه ہمیں بچائے ہر قسم کے لوگ ہیں۔ ان میں سے صحیح لوگوں کو چننا بہت اہم ہے۔ اس لئے سب سے پہلے یہ دیکھو کہ اس کا عقیدہ کیسا ہے؟ کیونکہ عقیدہ اگر خراب ہے تو تمہارا عقیدہ بھی خراب کرے گا۔ دوسری بات یہ ہے کہ فرض عین علم اس کے پاس ہے یا نہیں ہے؟ یعنی مدرسے کا فارغ التحصیل ہونا ضروری نہیں ہے بس فرض عین علم پاس ہونا ضروری ہے، چنانچہ حاجی امداد اللّٰہ مہاجر مکی رحمۃ اللّٰہ علیہ کسی مدرسے سے فارغ نہیں ہوئے تھے، لیکن ان کے پاس مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ، حضرت گنگوہی رحمۃ اللّٰہ علیہ، حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللّٰہ علیہ، جو علم کے پہاڑ تھے وہ گئے تھے۔ لیکن وہ اصطلاحی عالم نہیں تھے۔ حضرت سید احمد شہید رحمۃ اللّٰہ علیہ بھی اصطلاحی عالم نہیں تھے لیکن وہ مجدد ہیں۔ اب آپ اندازہ کر لیں۔ لہٰذا یہ چیزیں ہوتی ہیں اور من جانب اللّٰه ہوتی ہیں۔ حضرت نے یہ بات فرما دی ہے۔ مقصد میرا یہ ہے کہ ہم دیکھیں کہ کم از کم فرض عین درجے کا علم اس کے پاس ہو۔ کیونکہ حدیث پاک ہے:

’’طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَةٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ‘‘ (سننِ ابن ماجہ: 224)

ترجمہ: ’’علم دین حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے‘‘۔

لہٰذا شیخ بھی چونکہ مسلمان ہے، اور اس کے اوپر بھی یہ فرض ہے اس لئے اس کے پاس بھی اتنا علم ہونا چاہئے۔ تیسری بات اس پر عمل ہونا چاہئے، کیونکہ عمل اگر نہیں ہے تو علم کس چیز کے لئے ہے؟ علم تو ہوتا ہی عمل کے لئے ہے۔ چوتھی بات یہ ہے کہ ان کی صحبت کا سلسلہ آپ ﷺ کی صحبت سے ملا ہو۔ جیسے ابھی مولانا صاحب نے فرمایا کہ یہ سلسلہ وہاں سے آرہا ہے۔ کیونکہ صحبت کا مقابلہ کوئی چیز نہیں کرسکتی، جیسے کہتے ہیں کہ دل کو دل سے راہ ہوتی ہے یعنی دل دل کو متأثر کرتا ہے تو وہ یہی چیز ہے۔ لہٰذا ان کی صحبت کا سلسلہ آپ ﷺ تک پہنچتا ہو۔ یہ چار باتیں ہوگئیں۔ پانچویں بات یہ ہے کہ اس وقت جو جو صاحب نسبت حضرات ہیں ان میں سے کسی نے اس کو اجازت دی ہو، کیونکہ یہ اعتماد کا سلسلہ ہے۔ چھٹی بات وقت کے علماء اور مشائخ ان کے بارے میں صحیح رائے رکھتے ہوں کہ یہ صحیح ہے، اور اس کی تائید کرتے ہوں۔ ساتویں بات مروت نہ کرتا ہو بلکہ اصلاح کرتا ہو، کیونکہ آج کل لوگ مروت والے کے پیچھے چلتے ہیں لیکن مروت والے اصلاح نہیں کرسکتے، البتہ مروت والے آپ کو اس دنیا میں خوش کردیں گے، باقی وہاں پتا نہیں کہ کیا ہوگا، لیکن یہاں خوش کردیں گے۔ اور جو اصلاح کریں گے تو وہ آپ کو خوش نہیں کریں گے۔ جیسے ہمارے پشتو میں مثال ہے کہ دوست تجھے رلائے گا اور دشمن تجھے ہنسائے گا۔ لہٰذا مروت والے کے پاس نہیں جانا۔ اور آخری بات کہ ان کی صحبت میں اللّٰه یاد آتا ہو، اللّٰه کی محبت بڑھتی ہو اور دنیا کی محبت کم ہوتی ہو۔ یہ 8 نشانیاں ہیں۔ اگر کسی میں یہ 8 نشانیاں ہوں، اور یہ کئی لوگوں میں ہوں گی ان شاء اللّٰہ کیونکہ اللّٰه پاک نے نظام بنایا ہوا ہے، اور فرمایا:

﴿كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ﴾ (التوبہ: 119)

ترجمہ: ’’سچے لوگوں کے ساتھ رہا کرو‘‘۔

لہٰذا صادقین کو پیدا کرنا اللّٰه کا کام ہے کیونکہ اس پر عمل بھی تب ہی کرسکیں گے۔ اب ان کو تلاش آپ نے کرنا ہے اور اس میں کئی آپ کو مل جائیں گے۔ ان میں سے جس کے ساتھ آپ کو سب سے زیادہ مناسبت ہو بس اس کے ساتھ ہوجائیں اور پھر عمر بھر ساتھ رہیں، پھر اس کے چار حق ہیں۔


چار حق مرشد کے ہیں، لیکن کیا

اطلاع و اتباع و اعتقاد و انقیاد


یعنی اپنے احوال کی اطلاع کرنا اور جو وہ بتائے اس کی اتباع کرنا اور اس کو اپنے لئے سب سے زیادہ مفید سمجھنا، لیکن افضل نہیں سمجھنا کیونکہ افضل کا تو اللّٰہ کو پتا ہے، ہم نے مفید سمجھنا ہے۔ بلکہ یہاں تک فرماتے ہیں کہ بیشک آپ کا شیخ مشہور نہ ہو اور دوسرے مشائخ مشہور ہوں لیکن آپ کو ان مشہور مشائخ سے بھی اگر فائدہ ملے گا تو اپنے اس شیخ کی وجہ سے ملے گا۔ کیوں؟ اس لئے کہ مثلاً میں آپ کو ایک بات بتاؤں، پانی آتا ہے ٹینک سے، اور آتا ہے نلوں کے ذریعے سے اور ملتا ہے tap سے، تو آپ نے tap سے لینا ہے کیونکہ آپ ٹینک سے براہ راست تو نہیں لے سکتے، اس لئے آپ نے tap سے لینا ہے۔ ایسے ہی جو آپ کا شیخ ہے آپ نے اس سے لینا ہے، اگرچہ دیتا اللہ تعالیٰ ہی ہے اور جب اللّٰه تعالیٰ دیتا ہے تو مجھے وہ بڑے سے بھی دلوا سکتا ہے اور چھوٹے سے بھی دلوا سکتا ہے۔ دوسری مثال: جیسے powerhouse کے پاس اگر آپ کوئی بلب سو واٹ کا لگا لیں تو کتنا جلے گا؟ ہزار واٹ کے برابر جلے گا؟ نہیں بلکہ سو واٹ کے برابر ہی جلے گا اور ادھر بھی اگر آپ لگا لیں تو بھی سو واٹ کا ہی جلے گا۔ لہٰذا اس کو نہ دیکھو کہ کون بڑا شیخ ہے اور کون چھوٹا شیخ ہے، یہ شیطان کا اثر ہے، وہ دل میں خیال ڈالتا ہے۔ بس یہ دیکھو کہ میرے لئے مفید کون سا ہے؟ میری مناسبت کس کے ساتھ ہے؟ مناسبت آپ کو جس کے ساتھ ہے تو اللّٰہ تعالیٰ کا نام لے کر کام شروع کرو، دینے والی ذات اللّٰہ کی ہے۔ اللہ فرماتے ہیں؛

﴿اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ﴾ (الفاتحہ: 5)

ترجمہ: ’’اے اللہ) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں‘‘۔

اللّٰہ تعالیٰ مجھے بھی عمل کی توفیق عطا فرمائے اور آپ کو بھی۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ


  1. ۔ نوٹ: تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔