دیباچہ

دیباچہ
الحمد للہ شاہرائے معرفت کا گیارواں شمارہ آپ کی خدمت میں حاضر ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمائے اور قارئین کے لئے مفید بنائے۔ آمین۔
سابقہ شماروں کی طرح اس شمارے کی ابتدا بھی حمد اور نعت شریف سے کی گئی ہے اس کے بعد ایک کلام شامل کیا گیا ہے۔
چونکہ شعبان کا مہینہ شروع ہو چکا ہے اس لیے مناسب ہے کہ اس ماہِ مبارک کے حوالہ سے لوگوں تک بات پہنچائی جائے اس لیے اس شمارے میں جو نثری مضامین شامل کیے گئے ہیں ان میں پہلا "مطالعہ سیرت" کے عنوان سے ہے جس میں پندرھویں شعبان کو قبرستان میں میتوں کے لیے ایصال ثواب اور دعا کے لیے جانے کے حوالے سے سوالاً جواباً رہمنائی کی گئی ہے۔
دوسرے مضمون میں ماہِ شعبان کی اہمیت بتائی گئی ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ اس ماہ کو سنت طریقے کے مطابق کیسے گزارا جاسکتا ہے۔ مزید 15 شعبان کے حوالے سے بھی اس میں سیر حاصل گفتگو کی گئ ہے۔
اس شمارے میں حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے مختلف مکاتیب سے تعلیمات بیان کی گئی ہیں جن میں سب سے پہلے مکتوب نمبر 207 دفتر اول کے حصہ دوم میں حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے تصوف کا مقصد بیان فرمایا اور پھر مکتوب نمبر 37 دفترِ اول میں اپنے احوال کے بارے میں فرمایا کہ میرے اوپر کافی عرصے تک علوم و معارف وارد ہوئے اور جو کام کرنا تھا وہ بھی کر لیا اب بس یہی خواہش ہے آپ ﷺ کی سنتوں میں کسی سنت کو زندہ کیا جائے۔
اس کے بعد مکتوب نمبر 54، دفتر دوم میں حضرت نے فرمایا کہ اس دور میں بدعت بہت پھیل گئی ہے لہذا اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ سنتوں کو زندہ کیا جائے اور بدعت سے بہت ہی زیادہ اجتناب کیا جائے.
پھر حضرت نے متابعت کے ساتوں درجات کو تفصیل سے بیان کیا جن میں ہر ایک کی تفصیل ان شاء اللہ شمارے میں آئے گی۔
حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات کے سلسلے میں شمارۂ ہذا میں حضرت حلیم گل بابا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ”مقاماتِ قطبیہ و مقالاتِ قدسیہ“ کا درس نمبر 8 پیش کیا گیا ہے۔ جس میں شروع میں حضرت رحمۃ اللہ کے زہد کے بارے میں بتایا گیا ہے اور فرمایا کہ جو کوئی اللہ کے لیے دنیا کو چھوڑ دیتا ہے تو دنیا والے اسے نہیں چھوڑا کرتے۔
دنیا کی محبت کے بارے میں فرمایا کہ اگر کوئی یہ چاہے کہ اس راستے میں قدم رکھے، تو ایسا اور اس انداز میں رکھے جیسا کہ دین کے مردانِ حق نے رکھا تھا۔ اور یہ قاعدہ تب تک معمول نہیں بن سکتا جب تک کوئی شخص دنیا کی محبت اور دنیا سے لطف اندوزی کا خیال دل سے بالکل باہر نکال کر خالی نہ کرے۔
حضرت کے قلتِ طعام کے مجاہدے کو ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ حضرت رحمۃ اللہ علیہ اکثر خالی پیٹ رہا کرتے تھے اور بہت ہی کم کھانا کھاتے تھے۔
قارئین کرام سے گزارش ہے کہ شمارۂ ہذا کا بغور مطالعہ فرمائیں اور اپنی کیفیات و آراء سے مطلع فرمائیں۔ اللہ کریم ہماری کامل اصلاح فرمائے اور ہمیں دائمی رضا سے نوازے۔ آمین۔
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ