دیباچہ

الحمد للہ شاہرائے معرفت کا ساتواں شمارہ آپ کی خدمت میں حاضر ہے اللہ سے دعا ہے کہ وہ اسے قارئین کے لئے مفید بنائے۔

اس شمارے میں حمد و نعت کے بعد ایک عارفانہ کلام پیش خدمت ہے اللہ تعالیٰ کا ہمارے سلسلے پر خصوصی کرم ہے کہ موقع کی مناسبت سے اکثر ہدایات و اقوال مختلف ذرائع سے سامنے آ جاتے ہیں۔ ماہ صفر کے بارے میں مروجہ توہمات کے بارے میں جمعہ کا بھر پور بیان ہوا جو اس شمارے میں شامل کیا جا رہا ہے۔ نیز مطالعہ سیرت بصورت سوال میں بھی توہمات کے رد میں تحقیقی انداز میں گفتگو کی گئی ہے اور عارفانہ کلام بھی اسی موضوع پر ہے۔ جمعہ کے بیان میں ملک میں سیلاب کی صورت میں آنے والے حالیہ عذاب، اس کی وجوہات اور اس کے تدارک کے بارے میں تفصیل بیان کی گئی ہے۔

عقائد کی اہمیت کے پیش نظر ہم حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے ان مکتوبات کو پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں جن میں حضرت نے اپنے منفرد انداز میں عقائد بیان کئے ہیں۔ عقائد کے حوالے سے دو قسم کے مکتوبات ہیں۔ ایک قسم کے مکتوبات میں عام فہم عقائد ہیں جن کا تعلق عوام سے ہے جبکہ دوسری قسم کے مکتوبات میں دقیق عقائد پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔ اس دفعہ نویں عقیدے کا بیان ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ فاعلِ حقیقی صرف اللہ رب العزت کی ذات ہے باقی سب عدم ہے۔ اس کائنات میں جتنی بھی چیزیں ہیں اپنی صلاحیتوں، اثر پذیری اور ان کے باہم اختلاط سے جو کمالات پیدا ہوتے ہیں وہ سب اسی فاعلِ حقیقی کے پیدا کردہ اور محتاج ہیں۔ اس نے اسباب و وسائل کو اپنے فعل کا روپوش اور اپنی حکمت کو قدرت کے پردے میں چھپا رکھا ہے۔ عقلمند سبب سے مسبب تک پہنچ جاتے ہیں (یہ اللہ کا فضل ہے جسے عطا ہو) جب کہ گمراہ اس کائنات کے پیچ و خم میں سرگرداں ہو کر اپنی راہ گم کر بیٹھتے ہیں۔

شمارہ ہذا میں حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے بیٹے حضرت عبد الحلیم رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب مقامات قطبیہ و مقالات قدسیہ کا درس نمبر 4 پیش کرنے کی سعادت نصیب ہو رہی ہے، جس میں عبادت و اطاعت اور معصیت کی حقیقت بیان کرتے ہوئے حضرت فرماتے ہیں کہ عام رواجی عبادات اور سلوک کی چند حکایات کو اپنا لینے سے اللہ تعالیٰ کے اسرار حاصل نہیں ہو سکتے اس کے لئے ایسے پیر و مرشد کا دامنِ ارادت پکڑنا ہو گا جو اس راستے پر چلا ہو اور شریعت کی منازل طے کی ہوں۔ نیز نفس کے بارے میں فرماتے ہیں کہ کافر تو آپ کو جان سے مارنے کا ارادہ کرتے ہیں لیکن یہ مکار نفس آپ کے ایمان کو ختم کرنے کے درپے ہوتا ہے۔ آخر میں حضرت نے تکوینی امور پر مامور افراد کی تشکیل کے بارے میں بحث فرمائی ہے۔

اس شمارے میں ”مختلف سلاسل میں طریقِ تربیت“ کے عنوان سے ایک مضمون بھی شامل کیا جا رہا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ تربیت کے لئے جذب و سلوک کے دو طریقے رائج ہیں جن کی اپنی اپنی خوبیاں اور مشکلات ہیں نیز اس بات پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے کہ کس طرح دونوں طریقوں میں تطبیق کرتے ہوئے ان دونوں کی خوبیوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا جا سکتا ہے۔

قارئین سے گزارش ہے کہ اس شمارے کا بغور مطالعہ فرمائیں اور اپنی آراء سے مطلع فرمائیں۔