سنبھل کے

دلِ ناداں ذرا سنبھل کے عشق کے رستے پہ جانا سنبھل کے

ادب یہاں پہ ہے پہلی سیڑ ھی اس پہ توچڑھ کے آنا سنبھل کے


قدم قدم پہ ہیں چھپے رہزن کتنے کتنے نئے بہروپ بھرے

اپنی منزل کو طے تو کرنا ہے ان سے خود کو بچانا سنبھل کے


یہ عشق کی آگ ہے اس کو دیکھومگر اندر سے یہ گلزار سمجھو

اس سمندر کو خود میں بھرنا ہے خود کو اس سے جلانا سنبھل کے


یہاں پر وصلِ یار کے واسطے روئےتُو بار بار تُوروئے

یہ کوئی کھیل کی نہیں ہے بات عشق ہے اس کو پانا سنبھل کے


تو کہ جس راہ پہ گامزن ہے اب اس میں کانٹے ہیں وسوسوں کے بہت

زخمی زخمی ہیں گو قدم تیرے ان پہ مرہم لگانا سنبھل کے


طور بھی عشق کی آگ میں جل جائے کبھی معراج بھی ہوجائے نصیب

عشق لگے پر نظر یہ آئے نہیں سر نہ اوپر اٹھانا سنبھل کے


تیرا اس عشق میں جل جانے میں جانتا ہوں میں کہ تیرا ہے سکوں

تیرا جل جانا ہو منظور اسےجل کے خود کو دکھانا سنبھل کے


اب کہ منزل یہ تیری سیدھی ہےاب تو رکنے کا نام بھی تو نہ لے

در یار پر بھی جاکے رکنا نہیں خود کو اس کا بنا نا سنبھل کے


توہے شبیرؔ کا پر شبیرؔکی نہ مان، مان اس کی جسے دیا ہے تجھے

عشق میں ایسا ہی تو پھر ہوتا ہے یہی سب کو سکھانا سنبھل کے