میں دیوانہ ہوں دیوانہ میں دیوانہ ہوں دیوانہ
کروں گا ذکر ہردم یہ مرا نعرہ ہے مستانہ
میں جل جاو ٔ ں بکھر جاو ٔ ں گریبان چاک میں کردوں
میں خود کو خاک کردوں اور مجھے روکے کوئی نہ نہ
میں پگھلوں عشق میں اس کے، مری آنکھوں میں بس وہ ہو
میں تیرا ہوں تو میرا ہے یہی اس کا ہو فرمانا
ریا کاری کا لیبل بھی قبول میں شوق سے کرلوں
یہ کیا ہے عشق میں مجھ کو قبول ہر بات ہر طعنہ
جلے جو عشق میں اس کو ملے جسم جدید ہر دم1
یہی تھا گفت ِ عشق کاکی کا، تھا جس میں گزرجانا
کبھی وہ سامنے آۓ کبھی پردوں میں چھپ جاۓ
یہ ہے اک امتحان ِ عشق اس میں نہ پھسل جانا
کمال ہے حسنِ فانی کب مقابل اس کے ٹھہرے یاں
جو اس میں مار کھائے اس کا کیا پھر ذوقِ جانانہ
ہوس میں عشق میں کیا فرق ہے شبیر ؔ گر پوچھو
یہاں خود غرضی، اس میں مٹنے میں ہے کچھ پانا
جو عشق میں جلتا ہے اس کو ہر وقت ایک نئی جان ملتی ہے۔حضرت خواجہ بختیار کاکی ؒ یہی شعر سنتے سنتے اس دنیا سے تشریف لے گئے تھے