کاش میں ایسا رہوں اس کے لئے زندہ رہوں
موت ہو اس کے لئے اس پر بھی شرمندہ رہوں
دل مرا اس کے لئے ہو اور دماغ اس کے لئے
ہو زبان پر ذکر اس کا اس کا نام لیتا رہوں
دوستی اس کے لئے ہو دشمنی اس کے لئے
مجھ سے چاہے جیسے کرنا اس طرح کرتا رہوں
بولنا اس کے لئے ہو چپ رہوں اس کے لئے
خوش رہوں اس کے لئے اس کے لئے روتا رہوں
دل میں بس اک وہ سمائے دوسرا کوئی نہ ہو
دل سے الا اللہ کا نعرہ میں لگاتا رہوں
اس سے مانگوں اس سے لوں بس اس کے در پر سر رہے
اس کے در پرسر کو ہر دم بار بار رکھتا ر ہوں
اب تو بس اس کی محبت کا ہی آسرا ہے شبیر ؔ
اس سے جو غافل کرے میں اس کو بھول جاتا رہوں