دفع بلاؤں کو کرتے ہیں یقیناً صدقات
اپنے مالوں میں ہے لازم دینا ہر سال زکوٰۃ
ہیں جو نصاب کے مالک کریں وہ شکر ِ خدا
نہیں ہیں لینے کے، دینے کے ہیں ان کے حالات
کہا خدا نے صدقات کو بڑھاتا ہے وہ
دیکھنا ان کے ذرا غور سے چشم دید برکات
پانی کھڑے کھڑے تالاب میں خراب ہو وے
چشمہ بن، آگے کرو جو ہے ، اور آۓ سوغات
شکر کر نعمتوں کو شکر سے محفوظ کرلیں
نقلی خیرات سے ملے تجھ کو بھی اصلی خیرات
اس کے برعکس مٹا تا ہے جو مال سود کا ہو
ان کے چہروں پہ نظر آتے ہیں دور سے ظلمات
چاہتا رب ہے مؤمنوں میں خیر خواہی ہمیش
ہاں مگر طعنہ زنی اور جتلانانہ ہو ساتھ
کسی نادار کی دعا کہاں پہنچاۓ تجھے
یاد رکھنا شبیرؔ ہر وقت یہ ضروری بات