یہ دل میں حسد کی جو آگ ہے بجھادو
وجہ اس کی جو بھی ہے اس کو بھلادو
جلا دے گا یہ نیکیوں کا خزانہ
تباہی سے خود کو وہاں پر بچادو
جسے اللہ دے دے مرا کیسا حق ہے
کروں اعتراض اس پہ نفس کو بتادو
وہ لیتا ہے اس سے میرا کیا ہے جاتا
تصور یوں دل میں اب ایسا جما دو
یقین تیرا بن جاۓ اس کے ہی دیں پر
کوئی کُشتہ ایمانی دل کو کھلادو
جو محسود تیرے ہیں ان کے لیے تو
نہ بن بدخواہ بلکہ تو ان کو دعا دو
نکالو جو غیر گھس گیا تیرے دل میں
کرو ذکر خوب اس کو دل میں بسا دو
وہ اغیار کے نقشے ترے دل میں جو ہیں
انہیں ایک ایک کرکے دل سے مٹادو
جو دیکھے تو نعمت کسی پہ خدا کی
تو کہہ ماشا اللہ یہ خود کو سکھا دو
تو چیزوں سے دل کو نکالو تُو شبیر
ہے جس کا یہ دل تو اسی سے ملادو