کرے اعمال جو ضائع وہ خود پسندی ہے
سوچ نتیجے پہ کہ عادت یہ کتنی گندی ہے
کاش دل میں ہو وہ پانے کی آرزو ہو اس کی
بجاے ٔ پستی کے قسمت میں پھر بلندی ہے
تو اگر غوث بھی ہے آنکھوں میں اپنی کیا ہوا
بھول جا خود کہ یہی تو عقلمندی ہے
اس کی نظروں میں رہوں ٹھیک وہ دیکھتا ہے مجھے
خودپسندی کی یہ خواہش بہت ہی اندھی ہے
جو کماؤ وہ کسی حال میں ضائع نہ ہو پھر
سن لے شبیر ؔ کہ بس یہ ہی ہنر مندی ہے