ریا

بے وقوفی سے عبارت ہے ریا

کتنی فضول حماقت ہے ریا

تیرا ہر معاملہ خدا سے ہے

پھر تری کیسی یہ حرکت ہے ریا

کوئی انسان تجھے کیا دے دے گا

بنتی کیوں تیری یہ محنت ہے ریا

وہ قدردان ہے اعمال کا جب

تُف ہے اس پر بھی جو عادت ہے ریا

دل سے اب غیر کو نکال دینا

بنتی یہ غیر کی محبت ہے ریا

رد ہوں اعمال سارے اس کے ساتھ

ایسا کوچہ ٴِ ملامت ہے ریا

اب خدا دل سے تو شبیر ؔ پہچان

جو بھی اس سے ہے جہالت ہے ریا