کردوں


مرا دل تو ترا تھا ، پیش میں اب جان بھی کردوں

میں تیرا ہوں، تو میرا ہے، میں یہ اعلان بھی کردوں

مری یہ جان فانی ہے اسے باقی بنانا ہے

اسے باقی بنا کر خود پہ میں احسان بھی کردوں

میں نے دل میں جگہ اس کے لیے کب سے بنائی ہے

تو اپنے گھر میں اس کو لا کے میزبان بھی کردوں

مرا دشمن مرا حاسد مرا بد خواہ کہاں مانے

چڑا کر اس کا منہ خوب اس کو پریشان بھی کردوں

یہ ہے اک زندگی فانی اسے دے کر میں لوں دوسری

شہادت سے میں خود کو زندہ جاویدان بھی کردوں

کہاں یہ زندگی اک میں کروں قربان یہ خود سے

زبان حال سے شکوہ تنگیٔ دامان بھی کردوں

شہادت مانگ لے شبیر ؔ کرے اس کو عنایت تو

سعادت کی یہی درخواست آویزان بھی کردوں