زمین میں دفن کردے دانہ مالی
رہے دیتا پھر اس کو کھاد پانی
تو اُگ آتا ہے اس سے پودا باہر
خدا کی ہوتی ہے جب مہربانی
اسے گرمی اور سردی سے بچانا
ضروری ہے اب اس کی نگہبانی
تو ایک دن خوب دیتا ہے یہ پھر پھل
یہ مالی کی ہے ہوتی پھر نشانی
خدا بھی خوش اور لوگوں کو بھی فائدہ
سمجھ لو ایک حقیقت یہ کہانی
جو طالب شیخ کے پاس آئے سوالی
وہ کردے پیش خود کو اور جوانی
لگا دے شیخ اسے راہ فنا پر
یہ سمجھا دے کہ یہ دنیا ہے فانی
محبت کا لگا دے دل میں پودا
ذکر کرنے سے ہو یہ باآسانی
تلخ باتوں کی کھاد بھی اس کو دے دے
پلادے جھاڑ اس کو ناگہانی
پرہیز طالب کرے جس کا ہےمطلوب
کہ محنت اپنی اس کو ہے بچانی
تو یہ پودا بڑھے پھر دن بدن خوب
اگر بات شیخ کی ہے اس نے مانی
وصل ہو فضل سے اس کو نصیب پھر
ہو حاصل ذوق اس سے لامکانی
محیط اس کی بھی صحبت پھر ہو شبیرؔ
غزل یہ ہے فقط ایک یاد دہانی