بیاد شیخ

ہوا مجھ پر یقینا ً ہاں یقینا ً فضل سبحانی

ملا جو شیخ کامل مجھ کو جب اشرف سلیمانی

وہ شفقت ان کی ہم سب کے لئے کیا اس کا کہنا ہے

محبت کی وہ ملتے وقت ہوتی جوفراوانی

وہ باتوں میں بتانا باتیں جو تھیں چاہئیے ہم کو

وہ اپنے دل کی باتیں ان کا منہ اور اپنی حیرانی

سوالوں کےجوابوں میں علوم انڈیلنا ان کا

نظر آنا عیوب اپنے ظہور سرِّ پنہانی

جو ان سے مل کے ملتا تھا سکوں دل کو وہ کیسا تھا

وہ ان سے بات کرتے وقت ختم ہوتی پریشانی

عطر ان کے لئیے بھیجا تھا جب فخر رسل نے پھر

تولائیں ہم کہاں سے اب کہ وہ اس کا بنے ثانی

وہ تکلیفیں مصائب اورتھیں بیماریاں کیا کیا

نہ کم ہوتی تھی اس سے بھی کبھی چہرے کی تابانی

جب اس درویش نے درویش مسجد کرنی تھی شروع

تو حیراں استقامت پر تھا اس کی جور ِ سلطانی

مصائب پر وہ دوسروں کے تو کڑھتا تھا اور روتا تھا

رہی اپنے مصائب پر ہمیشہ خندہ پیشانی

مناقب ان کا کیا لکھے قلم شبیر ؔ کا بس یہ

ملے ہم کو طفیل ان کے وہی کیفیت احسانی