ذکر ایسا ہو کہ ہر چیز سے وہ یاد آجاۓ
اور اس کی یاد سے ٹھنڈک سی دل میں چھا جاۓ
ایک ایک پتے پہ دفتر ہے معرفت کا لکھا
اس کے پڑھنے کا اگر گر کوئی سمجھا جاۓ
یہ پہاڑ اور یہ چشمے یہ چرند اور پرند
دیکھنا غور سے انہیں، راستہ دکھا جاۓ
یہ جو آسماں پہ ہیں ان گنت ستارے روشن
ان سے اک نور معرفت دل میں سما جاۓ
تر رکھو ذکر سے اس کے زباں اپنی شبیرؔ
دل اس کے ساتھ ہو تو سب کچھ تُو اس سے پاجاۓ