دن میں تو رات میں تو چاند ستاروں میں ہے تو
اپنی تخلیق کے لازوال اشاروں میں ہے تو
یہ سمندر میں جو چلتی ہیں کشتیاں اور جہاز
باربرداری کے انسانی سہاروں میں ہے تو
یہ بارشیں یہ آندھیاں یہ نہریں اور دریا
رات میں خموشی سے شبنم کے پھواروں میں ہے تو
اتنے اونچے اور فلک بوس عالیشان یہ پہاڑ
یہ جو سبزے کی ہیں اوڑھی ان چادروں میں ہے تو
نیلے آسمان کو دیکھوں شگاف کوئی نہیں
بے ستون چھت کےان پرکیف نظاروں میں ہے تو
یہ ہر اک چیز کے ذرات میں کائنات اک الگ
ان الیکٹران کی حرکتوں اور رفتاروں میں ہے تو
کہاں افلاک کی و سعتیں کہاں یہ باریکی
ان لاتعداد اشاروں اور شاہکاروں میں ہے تو
زمیں کے ٹیڑھ سے دن رات بڑا چھوٹا ہو
اسی ہی ٹیڑھ سے بدلتے موسموں میں ہے تو
نہ ابتدا کی سمجھ ہے نہ انتہاء کی سمجھ
ہمارے ذہن کے حیرت کے پہاڑوں میں تو
تری اک چیز کے پانے سے بھی قاصر ہے شبیر ؔ
پھر بھی ہو کتنے قریب دل کی دھڑکنوں میں ہے تو