کہاں جرأت مری گناہ اپنے شمار کروں
بجائے اس کے میں کیوں نہ استغفار کروں
میں غلطیوں کا ہوں پتلا میں تو انسان ہوں نا
اس طرح رہ کے خود کو اور بھی کیوں خوار کروں
میں اس کا بندہ ہوں بندوں پہ مہربان ہے وہ
اس مہربانی پہ میں کیوں نہ اس سے پیار کروں
فضل اس کا جو ہوسب کچھ مرا ہو ٹھیک فورا ً
یہ نہ ہو تو کیا کوشش اگر ہزار کروں
دست بہ دعا ہوں ال ٰ ہی فضل مجھ پر فرما
بس ترا بن کے تجھ پہ خود کو میں نثار کروں
کہیں گمراہ نہ بنوں نہ کہیں خود رائے بنوں
میں صرف اور صرف ترے محبوب پہ اعتبار کروں
مجھ کو سنت ترے محبوب کی ہو حاصل ہر دم
موت کے وقت میں شیطاں کو شرمسار کروں
موت کے وقت مجھے کلمہ طیبہ ہو نصیب
ابھی بھی پڑھ میں اس میں کیوں ادھار کروں
تو کہے حشر میں دیکھ کر مجھے میرا ہے شبیر ؔ
بابِ جنت پہ پھر میں شکر کا اظہار کروں