ساری چیزوں کی محبت کو سمیٹوں میں اب
بس اک خدا کی محبت کو ہی رکھوں میں اب
ان سے ہو پیار جو محبوب رکھے اس کو ہی
جو اس کا پیار دلادے اس کو چاہوں میں اب
اس نے مجھ سے بھی جو بے لوث محبت کی ہے
اس پہ بے لوث ہی یہ زندگی واروں میں اب
عشق بے لوث محبت کا صلہ کیا مانگے
جو اس کاحق ہے اس پہ کیا صلہ مانگوں میں اب
جو اس کے پیار میں حائل ہو کوئی چیز بھی اب
مری دشمن ہے اک نظر بھی نہ دیکھوں میں اب
حسنِ فانی اک امتحان ہے اسے کیا دیکھوں
کیا اس کے واسطے حسنِ ازل چھوڑوں میں اب
دل پہ دستک میں اسکے نام کی ہر وقت دے دوں
تو دل میں اور کسی کو بھی نہ لاو ٔ ں میں اب
باندھ لوں خود کو حسیں پیار کی رسی سے اسکی
میں صرف اس کو ہی دیکھوں اس کو سنوں میں اب
کفر ہے اس میں جو غافل رہے دل اس سےشبیر ؔ
دل کو تب ذکر سے ہر دم ہی جگالوں میں اب