ہم آلے ان کے ہاتھ میں ہیں وہ کام کرائے جاتے ہیں
کچھ کرنے کی توفیق ہو جب تو ان کو پیچھے پاتے ہیں
وہ کرواناجب چاہیں تو خود ہی سب کچھ ہوتا ہے
ہم دیکھتے رہ جاتے ہیں بس اسباب وہ خود بناتے ہیں
وہ چاہیں تو ناسمجھوں کو اک آن میں سمجھدار کرے
اور اس کو اپنی جانب سے پھر کیا کیا گر سمجھاتے ہیں
ہے شکر خدا کا بار بار ہے شکر خدا کا بار بار
یہ کیا کیا نعمتیں ہیں جو ہم جیسوں کو دلواتے ہیں
کیفیت کس پر طاری ہے اور قلم کس کا جاری ہے1
یہ فضل بھی ان کا بھاری ہے جو ہم سے یہ کرواتے ہیں
مخلوق ہے ان کا کنبہ اور اس پر مہرباں ہیں وہ
ان کی ہدایت کے واسطے رستے ان کو دکھاتے ہیں
ان کی غضب پر غالب ہے رحمت کی ان کی صفت جب
ان کی غضب کی لہروں کو رحمت کے پردے کھاتے ہیں
ان کی دو انگلیوں میں دل ہر ایک کا ہر دم ہوتا ہے
جس جانب ان کی چاہت ہو وہ دل اسکا گھماتے ہیں
مجھ سا بے ڈھب شاعر کوئی اور ایسا کلام وہ کہہ بیٹھے
یہ ان کا ہی تو کرم ہے شبیر ؔ کہ وہ تجھ سے کہلواتے ہیں
یعنی کس کی کیفیات کون بیان کررہا ہے یعنی جیسے شمس تبریز ؒ کا فیض مولانا روم ؒ نے تقسیم کیا