جنجال


یہ دنیا جال ہے اس میں بڑا جنجال ہوتا ہے

بھلا جنجال میں یوں بھی کوئی خوشحال ہوتا ہے

جو اس جنجال میں رہ کر وہاں کا سوچ لیتا ہے

تو اس کا موت کے دہلیز پہ استقبال ہوتا ہے

نہ مستقبل کو پکڑیں ہم نہ ہم ماضی کو صرف رویئں

حقیقت میں ہمارے ہاتھ تو بس حال ہوتا ہے

اگر میں قال کو سیکھوں نہ اس میں حال حاصل ہو

تو خالی ہاتھ میرے ہاتھ قیل و قال ہوتا ہے

بس اک وہ دل سلیم اپنا ہمارے کام آئے گا

نہ آئیں کام بیٹے اور نہ وہ جو مال ہوتا ہے

عقیدہ گر صحیح ہو اور اعمال ٹھیک ہوں سارے

حاصل احسان سے تب اعمال میں کمال ہوتا ہے

تو اس احسان کے واسطے پکڑنا شیخ ہوتا ہے

شبیر ؔ جس سے اسی نسبت کا انتقال ہوتا ہے