سوزِدل


سوزِدل اپنا چھپانا تو ہے

کہ تعلق کو بچانا تو ہے

وہ مجھے جو کہے کروں گا وہی

اپنا دل اس سے ملانا تو ہے

غیر سے دل کو کیوں نہ خالی کروں

کہ وہیں اس کو بلانا تو ہے

میں کہاں اور کہاں وہ دلبر

خیر مگر اس کو منانا تو ہے

پیش کرنے کو پاس کچھ بھی نہیں

زخمی دل اس کو دکھانا تو ہے

دل میں ہے وہ ہی اور آنکھوں میں بھی

مرا دل اس کا نشانہ تو ہے

اپنے اشعار میں اسے دیکھوں شبیر

یہ بھی ملنے کا بہانا تو ہے