مِٹوں اس کے لیے

مٹایا پیار سے مجھے یوں کہ مٹوں اس کے لیے

اور مٹتے مٹتے لٹتے پٹتے بنوں اس کے لیے

موم ہوں موم کی طرح تو پگھل جاؤں میں

پھر وہ جلا ۓ تو میں کیوں نہ جلوں اس کے لیے

عشق آتش ہے لگے تو وہ بجھاۓ نہ بجھے

اسی آتش ہی میں میں کیوں نہ رہوں اس کے لیے

نظر کرم کی تھی اس کی جوپڑی مجھ پہ یوں

نور ہی نور ہوا نور ہی ہوں اس کے لیے

وفا یہی ہے کہ دیکھوں وہ ہے راضی کس پر

اور اس کو دیکھ کے سب کچھ میں کروں اس کے لیے


خون روتی ہیں یہ آنکھیں مری دیدار کے لیے

آنکھیں ہیں اس کے لیے کیوں نہ رؤوں اس کے لیے

چھلک چھلک جاۓ ساغر مری نظروں سے مگر

دل شبیرؔ چاہتا ہے اور بھروں اس کے لیے