عشق اک آگ ہے جس دل میں جلے
دل میں معشوق ہو کوئی اور نہ رہے
اور اگر یوں نہیں تو عشق ہی نہیں
اس کو گو عشق کو ئی کتنا کہے
جب تلک عشق کسی دل میں نہ ہو
عشق کے حال کا یقین نہ کرے
یادِ معشوق میں عاشق رہے مست
چپکے چپکے بہیں آنسو اس کے
ہر وقت لب پہ ہو ذکر معشوق
اور اس کی یاد میں ٹھنڈی آہیں بھرے
ایک ہی خوف دل پہ چھایا رہے
اس سے محبوب کبھی ناراض نہ رہے
نفس کی چاہتیں اس کے ہوں خلاف
تو وہ ان چاہتوں سے کیسے دبے
خوش قسمتی سے یہ خالق سے ہو گر
اس کو شبیر ؔ جی پھر کیا نہ ملے