سفرِ عشق

سکوں ظاہر پہ میرے گو ہے طاری

پر اندر اضطراب ہے دل پہ جاری

زباں خاموش میری چپ ہوں لیکن

کوئی جانے نہیں حالت ہماری

دبایا مجھ کو ہے شہواتِ نفس نے

ہے جنگ جاری مگر دشمن ہے بھاری

وساوس زور پہ شیطان کے ہیں

چلائی میں نے ہے لاحول کی آری

قدم میرے پھسل جائیں کہیں نہ

قیامت میں نہ ہووے شرمساری

وقت کوتاہ ہے کرلے فکر اپنی

تو نوری بن کہیں نہ ہو تو ناری

دکھایا راستہ محسن نے عشق کا

بنوں اللہ کاہے کوشش یہ ساری

سفر ہے عشق کا اب شبیر ؔ جاری

کہ جس میں جان مری اس پر ہو واری