بتا میرے استاد، تصوف کیا ہے؟
یہ ماحول میں اس نام سے کیا پڑا ہے؟
کوئی ہے کہ جس کا سنیں ہم دعاوی
وہ باتیں بہت اونچی، حب الٰہی
کی، دیکھیں تو ہم پر وہ ہو جاۓ حاوی
نہیں جانے پر وہ اوامر نواہی
عمل کے لیٔے وہ کبھی بھی نہ سوچے
مگر فلسفے کے ستارے وہ نوچے
کو ئی ان میں دیکھوں، وہ دہمال ڈالے
ہیں ہر چیز میں ان کی، رسموں کے جالے
وہ بدعات سے خود کو نہ ہر گز بچا لے
حقیقت کی دنیا سے پھر وہ کیا لے؟
ہے “ھو حق” کے نعروں میں مست مستقل وہ
کیا سوچے گا پھر اصلاحِ نفس و دل وہ
تصوف تو تھا، حبِ دنیا کا توڑنا
لذایٔذ جو نفس کے ہیں، تھا ان کو چھوڑنا
کہ اصلاح کے واسطے، تھا خود کو جنجھوڑنا
کھلے چشمِ دل،چشمِ نفس کا تھا پھوڑنا
مگر اس میں دیکھوں، ہے نفس ہی کا ماننا
تو اب اس کے بارے میں، ہے آپ سے جاننا
استاد
یہ کیا بیٹے تو نے مرا زخم چھیڑا
جو دل میں مرا زخم تھا وہ ادھیڑا
یہ شیطان و نفس کا دجل دیکھتے ہو
تصوف کو جو آج کل دیکھتے ہو
جو ہرکام یوں بے محل دیکھتے ہو
جو اچھے ہیں ہاتھ ان کے شل دیکھتے ہو
جو ہے فلسفہ، ہے حقیقت کا جاننا
پھر اس جاننے سے ہو، حق ہی کا ماننا
تخیل کی دنیا میں رہنا ہمیشہ
ہو خواہش نفس میں بھی بہنا ہمیشہ
عمل کچھ نہ ہو اور ہو کہنا ہمیشہ
ہے دل کا جو شیشہ ہو گہنا ہمیشہ
ہو باریکیاں دل پہ ہر وقت مسلط
عمل کچھ نہ ہو یہ طریقہ ہے غلط
تصوف عمل پہ ہی آنے کا ڈھنگ ہے
یہ نفس کی فہمایٔش، یہ شیطاں سے جنگ ہے
کھرچنا ہے دل سے جو دنیا کا زنگ ہے
نہیں فلسفہ جس کا میدان تنگ ہے
یہ عشق کا سفر فلسفہ کیسے جانے؟
خیالی پلاؤ کے نہیں تانے بانے
پھر رسموں کی دنیا ہے اس کے مقابل
کہ جس میں پڑے ہوتے ہیں سارے جاہل
ہے نفس کا دجل ان کے ہر کام میں شامل
جو نفس کو کرے خوش وہ زیادہ ہو قابل
کہ نص سے نہیں ان کو احکام لینا
نہیں عقل سے بھی ہے کچھ کام لینا
یہ نفس کو کریں خوش، دھمال ڈالیں
بزرگوں کی نعتوں کو گانوں میں گائیں
بزرگوں کے عرسوں کو میلے بنائیں
اور خوب اس میں پھر گلچھرے یہ اڑائیں
یہ اصلاح کی باتوں کو جانے کہاں سے؟
کہ ملتا ہے یہ ان کو پیر مغاں سے
زباں پر رکھیں یہ رسول کی محبت
لگاتے ہیں سینے سے ہر ایک بدعت
نتیجے میں چھوڑیں مقابل کی سنت
مزین ہو اس سے، ہر اک ان کی حرکت
نصیحت کرے کوئی اس پہ یہ بپھریں
جو ساتھ ان کا دے کوئی، اس سے یہ نکھریں
یہ تعظیم کے نام پہ کریں شرک ہر دم
یہ تو حید کے سننے سے ہوتے ہیں برہم
نہیں عاقبت کا انہیں کوئی بھی غم
تصوف صحیح ہی، یقیناً وہ مرہم
لگانے سے دل ان کا بیمار ٹھیک ہو
بھریں زخم ہاۓ دل، اس سے ہوں جو جو
تصوف کا مطلب ہے نفس کو دبانا
مطابق شریعت کے اس کو چلانا
جو دل ہے، وہ حبِ الٰہی پہ لانا
خدا کے لیٔے ہی، ہو کرنا کرانا
تصوف عمل ہے، نہیں فلسفہ یہ
نہ بدعات اور شرک کا ہے کچھ حصہ یہ
تصوف میں، دنیا ہے دل سے نکالنا
ہے حب الٰہی پھر اس دل میں ڈالنا
اسے ذکر سے پھر ہمیشہ ہے پالنا
ہے نفس آسمان سے زمیں پر اتارنا
بدوں تربیت ایسا ممکن کہاں ہے؟
تو جاؤ وہاں شیخ کامل جہاں ہے
جو کہتا ہو شیخ، ویسا کرنا پڑے گا
جو ہے حبِ جاہ، سے اترنا پڑے گا
شکنجے میں نفس کو جکڑنا پڑے گا
کہ موت تک بہر حال، سدھرنا پڑے گا
جو لذات حرام ہیں، سے منہ موڑنا ہے
حرام عادتیں جو ہیں سب چھوڑنا ہے
مقاصد، تصوف کے ثابت ہیں سارے
مگر جو طریقے ہیں،سمجھو اے پیارے
کہ یہ تجربے ہی ہیں، آپ کے، ہمارے
کہ شیخ دل مریدوں کے اس سے سنوارے
ہے ہر ایک مرید مختلف دوسرے سے
طریقہ علاج کا ہو یکساں پھر کیسے؟
شاگرد
خدا شاد آپ کو رکھے، میں ہوں سائل
تھا آپ کی بصیرت کا، پہلے سے قائل
میں حق کی طرف ہوں، ہوا اور مائل
کہاں جانوں میں یوں، یہ مشکل مسائل
مرا فکر اس میں، خدا اور بڑھاۓ
مجھے آگہی اس میں، اور بھی دلاۓ