شاگرد استاد سے
مرے استاد جی آج کل کے یہ حالات کیا ہیں؟
دین کہتے ہیں کسے؟ یہ معاملات کیا ہیں؟
میں تو دیکھوں بعض لوگوں کو نمازیں پڑھتے
سر پہ پگڑی سجائے ہاتھ میں تسبیح لیئے
اور لوگوں کو نماز روزے کی تلقین کرتے
جب کاروبار میں دیکھوں انہیں دھوکے کرتے
یہ مسلمانی اگر ہے منافقت کیا ہے؟
خود ہی بہتر بتائیں دل کی یہ حالت کیا ہے؟
یہ دیانت کو مرے خیال میں جانتے ہی نہیں
جس کو کہتے ہیں امانت شاید مانتے ہی نہیں
جو اپنے آپ کو شریعت پہ جانچتے ہی نہیں
شاید اس فکر کو لازم گردانتے ہی نہیں
ان کی صورت پہ فرشتوں کا گماں ہوتا ہے
لین دین ان کا ہو، ساتھ جس کے تو وہ روتا ہے
خوشی غمی میں یہ سنت کا خیال کرتے نہیں
ڈرتے لوگوں سے ہیں پر یہ خدا سے ڈرتے نہیں
جو شریعت کی راہ ہے اس پہ یہ گزرتے نہیں
عہد کرلیں تو یہ پورے اس پہ اترتے نہیں
کیسے برداشت ہوں نقشے منافقت کے یہ
لوگ باعث ہیں اسلئے مری حیرت کے یہ
استاد کی تحقیق
بیٹا افسوس ہے کہ حال تو آج ایسا ہے
ہاں یہ غلط ہے یہ غلط ہے اور کیسا ہے
لوگ شریعت کو عبادات ہی سمجھتے ہیں
معاشرت کو مدارات ہی سمجھتے ہیں
معاملات کو مشکلات ہی سمجھتے ہیں
حبِ دنیا میں یہ نجات ہی سمجھتے ہیں
خود کو معذور سمجھتے ہیں یہ مسائل میں
کہ مستغرق ہیں چند اعمال کے فضائل میں
باوجود اس کے بھی خود کو ولی اللہ سمجھیں
اور قوانین الہٰی سے مستثنیٰ سمجھیں
سارے علماء و مشائخ سے بھی اعلیٰ سمجھیں
اس طرح ان کی نصیحت کو پھر وہ کیا سمجھیں؟
لگتا یوں ہے کہ بس ان کی تو شریعت ہے جدا
ان کا انداز جدا اور مصلحت ہے جدا
جب تلک لوگ یہ آئیں نہ تربیت کی طرف
فکر کی حد تک کم از کم یہ شریعت کی طرف
دل کا رخ کر نہ لیں اپنا اس کی محنت کی طرف
ہو نہ مایٔل یہ اک خدا کی محبت کی طرف
نفس کے جال سے کیسے یہ چھڑائیں خود کو
کیسے شیطان کی چالوں سے بچائیں خود کو
جب تلک ذکر سے دل کی زمیں نرم نہ کریں
مجاہدے سے نفس کے زور کوختم نہ کریں
دلوں سے ختم بے شمار اپنے صنم نہ کریں
دل میں بنیادیں جو ان کی ہیں منہدم نہ کریں
اپنی مرضی کو یہ دیں گے نام دینداری کا
اور اڑائیں گے یہ مذاق دل کی بیداری کا
شیخ کامل کی اے کاش یہ کچھ ضرورت سمجھیں
اپنی اصلاح کی فکر اور اہمیت سمجھیں
اس نصیحت کو نہ اپنی مخالفت سمجھیں
خیر سے رکنے کو اپنے نفس کی شرارت سمجھیں
ادخلوا فی السلم کافۃ کی یہ تشریح سمجھیں
پورے دین پر ہی چلنے کا حکم صریح سمجھیں
پھر عبادات سے نیکیوں کا کمانا سیکھیں
معاملات میں پھر ان کا بچانا سیکھیں
معاشرت میں حق کے نور کا پھیلانا سیکھیں
باطنی حس کو اخلاق سے بڑھانا سیکھیں
یہی کوشش ٹھیک ہونے کی عمر بھر ہی رہے
ہمیشہ اپنی ہی خطاؤں پہ نظر ہی رہے
ہاں مگر جتنا کوئی ٹھیک ہے اس کو ٹھیک کہو
اس کو کہنا کہ نہ رکنا مزید آگے بڑھو
ترقیوں کی سیڑھیوں پہ ہمیشہ تو چڑھو
یہ تو موقع ہے عمل کا کیوں تو پیچھے رہو
ہم ہر رکعت میں ہدایت کی دعا کرتے ہیں
یہ جو ہم اھدنا الصراط المستقیم پڑھتے ہیں
دیکھ مطلب اسی تسلسلِ دعا کا ہے کیا؟
اور انعمت علیہم کے مدعا کا ہے کیا؟
یہ ہر نماز میں ہر رکعت میں فاتحہ کا ہے کیا؟
اس پہ آمین کہنے کے مقام اعلیٰ کا ہے کیا؟
کبھی ہم خود کو ہدایت سے مستغنی نہ سمجھیں
علیٰ صراط مستقیم خود کو ہی نہ سمجھیں
ہم نورِ وحی سے ہی حق مشاہدہ کرلیں
صحیح غلط کو، آپس میں جدا جدا کرلیں
اس پہ چلنے کے لیے پھر مجاہدہ کرلیں
ذکر سے دل کو منور اور مجلیٰ کرلیں
کرلیں یہ دونوں کسی شیخ کی نگرانی میں
ورنہ کچھ ہاتھ نہ آئے، رہے حیرانی میں
شاگرد کا سمجھ جانا
مرے استاد خدا آپ کو سلامت رکھے
آپ کے ارشاد میں، تلقین میں ہدایت رکھے
آپ نے کس پیار سے آج حق مجھے سمجھایا ہے
سبحان اللہ، ماشاءاللہ کیا مزہ آیا ہے
آپ کی بات سے اب یہ سمجھ میں آیا ہے
دل سے تسلیم کروں سارا دیں جو آیا ہے
پھر بتدریج سارے دین کو حاصل بھی کروں
اور استعمال اس کے واسطے وسایٔل بھی کروں
دین کا فرض علم سیکھ میں علماء سے لوں
اور تربیت پھر عمل کی میں صوفیاء سے لوں
ان میں ایک شیخ طریقت با صفا سے لوں
کامیابی کے لیئے کام میں دعا سے لوں
وہ مربی ہو شبیرؔ اس کی تربیت میں رہوں
اس طرح نفس اور شیطان سے حفاظت میں رہوں